اسلامواقعات

بکری کی طاعت اور سجدہ

بکری کی طاعت اور سجدہ

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما اور انصار کے چند اشخاص تھے۔ اس باغ میں ایک بکری تھی اس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے سجدہ کیا۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اس بکری کی نسبت ہم آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سجدہ کر نے کے زیادہ سزاوار ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میری امت کو جائز نہیں کہ ایک دوسرے کو سجدہ کرے۔ اگر ایک کا دوسرے
کو سجدہ کر نا جائز ہو تا تو میں حکم دیتا کہ عورت اپنے خاوندکو سجدہ کرے۔ (1 )
ام معبد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی بکری کا قصہ ( 2) حالات ہجرت میں آچکا ہے۔ دودھ نہ دیتی تھی حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی دعا سے اس نے دودھ دیا۔ ( 3)

بھیڑ یے کی شہادت اور طاعت

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک بھیڑیا بکریوں کے ریوڑ کی طرف آیا۔اس نے بکریوں میں سے ایک بکری پکڑلی۔ چرواہے نے بھیڑیے کا پیچھا کیایہاں تک کہ بکری اس سے چھڑالی۔پس بھیڑیا ایک ریت کے ٹیلے پر چڑ ھ گیا اورکتے کی طرح اپنے چوتڑوں پر بیٹھ گیا اور اپنی دُم کو اپنے پیروں کے درمیان کر لیا اور بو لا: میں نے رِزْق کا قصد کیاجو اللّٰہ نے مجھے دیا اور میں نے اسے لے لیاپھر تو نے اسے مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے کہا: خدا کی قسم! میں نے آج کی طرح کسی دن بھیڑیے کو کلام کر تے نہیں دیکھا۔بھیڑیے نے کہا: اس سے عجیب تر ایک شخص (حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کا حال ہے جو نخلستان میں ذُوحرہ کے درمیان یعنی مدینہ میں ہے تمہیں خبر دیتا ہے اس کی جو گزر چکا اور جو تمہارے بعد ہو نے والا ہے۔ (اور لوگ اس اُمّی لقب نبی کا یہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا تے) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ چرواہا یہودی تھا اس نے جناب پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس واقعہ کی خبر دی اور مسلمان ہو گیا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی تصدیق کی۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس طرح کے اُمور قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں قریب ہے کہ ایک شخص اپنے گھر سے نکلے گا اور واپس نہ آئے گا یہاں تک کہ اس کے ہر دو نعل اور اس کا تازیانہ بتائے گا کہ اس کی غیر حاضری میں اس کے اَہل خانہ نے کیا عمل کیا ہے۔ ( 4)

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک چرواہا (1 ) حرہ میں بکریاں چرارہاتھا ناگاہ ایک بھیڑ یا اس کی بکریوں میں سے ایک بکری کو پکڑنے آیا۔ چرواہا بکری اور بھیڑیے کے درمیان حائل ہوگیا۔ بھیڑیا اپنی دم پر کتے کی طرح بیٹھ گیاپھر چرواہے سے بولا: کیا تو اللّٰہ سے نہیں ڈرتا کہ میرے رزق کے درمیان جو اللّٰہ نے میرے قابو میں کر دیا ہے حائل ہو تا ہے۔ چرواہے نے کہا: تعجب ہے کہ بھیڑیا انسان کی طرح کلام کر تا ہے۔ بھیڑیے نے کہا: دیکھ ! میں تجھے اس سے بھی عجیب بات بتاتا ہوں ۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ذُوحرہ (2 ) (سنگلاخ زمینوں ) کے درمیان (مدینہ میں ) لوگوں سے گز شتہ اُمتوں کے حال بیان فرمارہے ہیں ۔ (اور وہ اس اُمّی لقب نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا تے ) پس چرواہے نے بکریاں ہانک لیں یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں آیا اور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر ہوکر بھیڑیے کا قصہ بیان کیا۔رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: سچ ہے۔ دیکھو! درندوں کا انسان سے کلام کر نا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ درند ے انسان سے کلام کریں گے اور انسان سے اس کے جوتے کا تسمہ اور اس کے کوڑے کا سرا کلام کر ے گا اور انسان کو اس کی ران خبر دے گی جو اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں کیا۔ (3 )
حضرت حمزہ بن ابو اسید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک شخص کے جنازے میں نکلے دیکھتے کیا ہیں کہ ایک بھیڑیا راستے میں پاؤں پھیلائے بیٹھا ہے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: یہ تم سے اپنا حصہ طلب کر تا ہے اس کے لئے کچھ مقرر کر و۔صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ ہر اونٹ پر ہر سال ایک بکری ۔ ‘‘ انہوں نے عرض کیا:
یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ تو بہت ہے۔ آپ نے بھیڑیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہاں سے جلدی چل دو۔ بھیڑیا یہ سن کر چلا گیا۔

________________________________
1 – دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل الثامن عشر،الحدیث:۲۷۶،الجزء۲،ص۲۲۶ ۔علمیہ
2 – اس قصہ کو شرح السنہ میں اور ابن عبدالبر نے استیعاب میں اورابن الجوزی نے کتاب الوفامیں نقل کیا ہے۔ (مشکوٰۃ باب فی المعجزات، فصل ثالث)۱۲منہ
3 – یہ واقعہ صفحہ نمبر109 پر مُلاحظہ فرمائیے!
4 – مشکوٰۃ، باب فی المعجزات بحوالہ شرح السنہ۔ خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۶۲میں ہے کہ اس حدیث کو امام احمد و حافظ ابو نعیم نے بسند صحیح روایت کیاہے۔۱۲منہ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،فصل الثانی، الحدیث: ۵۹۲۷،ج۲، ص۳۹۴-۳۹۵ ۔علمیہ)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!