ایک راہب کا قبولِ اسلام:
ایک راہب کا قبولِ اسلام:
منقول ہے کہ ابوالقاسم حضرت سیِّدُنا جنید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اور صوفی فقراء کا ایک قافلہ حج کے لئے روانہ ہوا۔ راستے میں کچھ
دنوں کے بعد پانی ختم ہو گیا۔ قافلے نے ایک پہاڑ کے دامن میں پڑاؤ کیا ہوا تھا ، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ایک مرید سے کہا: ”یہ مشکیزہ لو اور اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر پاک مِٹی لے آؤتاکہ ہم اس سے تیمم کر یں ، کیونکہ نماز کا وقت ہو چکا ہے۔”اس نے حسب ِ حکم مشکیزہ لیا اور پہاڑ پر چڑھ کر مشکیزے میں مٹی ڈالنے لگا۔اچانک اس نے ایک آواز سنی ۔اِدھر ُادھر دیکھا توگرجا گھر میں ایک راہب نظر آیا۔ راہب نے پوچھا: ” ا س مٹی کا کیا کرو گے؟”اس نے جواب دیا: ” ہم اُمَّتِ محمدیہ علٰی صاحبھا الصلٰوۃ والسلام کے لوگ ہیں۔ جب پانی نہیں ملتا تو ہم مٹی سے تیمم کر لیتے ہیں۔” راہب بولا: میرے ہاں ایک صاف و شفاف کنواں ہے، تم اس سے پانی بھی پی لو اور وضو بھی کر لو۔” اس مرید نے کہا: ”پہاڑ کے نیچے ہمارا ایک قافلہ ٹھہرا ہوا ہے۔”راہب نے کہا : ”تم جاؤ اور سب کو بُلا لاؤ۔”و ہ حضرت سیِّدُنا جنید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور راہب کے متعلق بتایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے فرمایا:” جا کر اُسے کہو، ہم ستر افراد ہیں،کیا اس کھنڈر میں آجائیں گے؟”وہ مرید دوبارہ گیا اور راہب کو جا کر ساری بات بتائی تو اس نے کہا: ” اگر چہ ایک ہزارہی کیوں نہ ہوں کیونکہ میں محمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) اورآپ کی امت کی قدر کرتااور ان سے محبت کرتا ہوں ۔”جب مرید نے واپس جا کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو بتایا تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سارے قافلے کو لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے۔راہب نے اس کھنڈر کا دروازہ کھول دیا۔ سبھی نے خوب سیر ہو کر اس کنوئیں سے پانی پیا اور وضو کر کے نماز ادا کی۔ جب فارغ ہوئے تو راہب نے سب کو ایک ایک بڑی پلیٹ پیش کی جس میں طرح طرح کے کھانے تھے۔ سب نے کھانا کھایا۔ پھر ایک طشت اورلوٹا حاضر کیا ،سب نے اپنے ہاتھوں کو دھو کر مُشک لگائی۔جب راہب نے مہمان نوازی کر لی تو پوچھا: ”کیا تم میں سے کوئی اس مناسبت سے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والا ہے؟ حضرت سیِّدُنا جنید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مرید کو اشارہ کیا تو اس نے اس آیتِ کریمہ کی تلاوت شروع کی:
(1) اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتْ لَہُمۡ مِّنَّا الْحُسْنٰۤی ۙ اُولٰٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوۡنَ ﴿101﴾ۙ
ترجمۂ کنزالایمان:بے شک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہو چکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔(پ17، الانبیآء: 101)
آیتِ مبارکہ سن کر راہب کی چیخیں نکل گئیں اور کہنے لگا: ”ربِّ کعبہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ہم نے صلح کر لی۔”جب قاری نے قرآنِ کریم کی تلاوت مکمل کی تواس نے پھر کہا: ” میں تمہیں قسم دے کرپوچھتاہوں کہ کیا تم میں کوئی اچھا شعر کہنے والا ہے؟کیونکہ میں سماع کو پسندکرتا ہوں۔” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مرید کی طرف اشارہ کیاتو اس نے چند اشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے: ”اس نے طویل عرصہ تک دُوریوں کو برقرار رکھا، تو اسے معلوم ہواکہ عذر خواہی کے راستے کیسے ہیں،پھر بھی دوری برقرار رکھنے کو اس نے پسند کیا اور فراق کے سمندر میں غوطہ زن رہا ۔ اور وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وفا کے ساتھ ناانصافی کے زخم اگرچہ ختم بھی ہو جائیں تب بھی ان کے نشانات نہیں مٹتے۔” ان اشعارکو سن کر راہب کافی دیر تک روتا رہا، پھر بولا: ”مزید اشعار سنائیے۔”
مرید نے دوبارہ اسی طرح کا شعر پڑھا، جس کا مفہوم یہ ہے:” میں حاضر ہوں،اے وہ جو اَزَل سے مجھے اپنی طرف بُلا تا رہا اور اپنے پوشیدہ لُطف وکرم سے بار بار اپنی بارگاہ کی طرف میری رہنمائی فرماتا رہا (لیکن میں اس سے رُو گردانی کرتا رہا)۔” راہب نے پھرچیخ ماری اور کہا:” میں حاضر ہوں،اے میرے مالک! میں حاضر ہوں،اے میرے مالک عَزَّوَجَلَّ! تُو نے مجھے اپنی رحمت کی طرف بُلایا ہے، ”اَنَا اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں۔” زُنَّار کو توڑ دیا، عیسائیوں کا لباس اُتار دیا۔حضرت سیِّدُنا جنید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس کو گدڑی پہنائی اور آپ اور آپ کا قافلہ اس کے اسلام لانے اور اس کی گردن جہنم سے آزاد ہونے پر بہت مسرور ہوئے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ہزار دینار نکال کر اس کو دیئے جو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس جمع تھے ۔ پھر وہ راہب اپنے گرجا گھر وغیرہ کو چھوڑ کر چہرہ چھپائے ہوئے کہیں چلا گیا، نہیں معلوم کہ وہ کس سمت گیا۔
جب حضرت سیِّدُنا جنید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا قافلہ مکہ مکرَّمہ پہنچا اور حرم پاک میں داخل ہوااور طواف کر کے جب سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے تو ایک شخص کو کعبۃاللہ شریف کے غلاف سے لپٹا ہوا دیکھا، وہ کہہ رہا تھا: ” اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ! تو نے مجھ پر اپنا پردہ اُٹھا دیاحتیٰ کہ میں نے تیری وحدانیت کی گواہی دی،تُونے مجھے اپنی بارگاہ میں بُلایاتَومیں ”لَبَّیْکَ”کہتے ہوئے حاضر ہو گیا، اے وہ ذات جس نے مجھے عرفان کی دولت عطا فرمائی تو مجھے اس کی معرفت حاصل ہو گئی! مجھے اپنی رضا کے لئے حج کرنے کی توفیق عطا فرما۔ حضرت سیِّدُنا جنید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مرید سے فرمایا: ”دیکھو! یہ کلام کرنے والا کون ہے؟” وہ مرید اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ یہ تو وہی راہب ہے۔جب اسے حضرت سیِّدُناجنیدرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے کہا گیا تو راہب نے کہا: ”اے بھائی! حضرت سیِّدُناجنیدرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں میرا سلام عرض کرنا اور یہ بھی عرض کرناکہ میں نے آپ کو اپنے پاس ٹھہرایا اور کھانا بھی حاضرکیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اسلام کی دولت عطا فرمائی اور عزت کے لباس سے نوازا، یہاں تک کہ میں احرام باندھ کر حرم پاک میں داخل ہو گیا ہوں، اب میری عزَّت وذلت اسی کے پاس ہے۔” چنانچہ ، مرید لوٹا اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کواس کے متعلق بتایا تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ خود اٹھ کر اس کے پاس چلے گئے، اور اسے سینے سے لگا کر آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اورارشاد فرمایا: ” اے میرے دوست ! آپ کو قربِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی لذت کیسے نصیب ہوئی؟” اس نے جواب دیا: ”اے میرے سردار! جب میں نے کھنڈرات کو چھوڑا اور سفر اختیار کئے تو مجھ پر قبولیت کی ہوائیں چلنے لگیں،اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی بارگاہ تک پہنچنے کا دروازہ کھول دیا، جس سے میرے لئے اپنے مقصود تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہو گیا۔” پھر اس نے ایک چیخ ماری اور زمین پر تشریف لے آیا۔جب ہم نے دیکھا تو اس کی جان جانِ آفریں کے سپرد ہو چکی تھی۔
؎ میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو کر
اخلاص ایسا عطا یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ!
تو اپنی ولایت کی خیرات دے دے
میرے غوث کا واسطہ یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ!
خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! یہ ربانی کوششیں ہیں اور وحدانیت میں اخلاص اختیار کرنے کی نشانیاں ہیں۔