اسلامواقعات

ایک خارجی کی ہلاکت

ایک خارجی کی ہلاکت

ایک گستاخ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالی دی۔ حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رنج وغم میں ڈوب گئے اورجوش میں آکر یہ دعا کردی کہ ”یا اللہ! عزوجل اگریہ تیرے اولیاء میں سے ایک ولی کو گالیاں دے رہا ہے تو ا س مجلس کے برخاست ہونے سے قبل ہی اس شخص کو اپنا قہر وغضب دکھا دے ۔ ” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان

اقدس سے اس دعا کا نکلناتھاکہ اس مردود کا گھوڑا بدک گیا اور وہ پتھروں کے ڈھیر میں منہ کے بل گرپڑا اوراس کا سر پاش پاش ہوگیا جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔(1)

(حجۃ اللہ علی العالمین،ج۲،ص۸۶۶بحوالہ حاکم)

تبصرہ

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا ان پانچ کرامتوں سے ہم کو دو سبق ملتے ہیں:
اول: یہ کہ محبوبان بارگاہ الٰہی یعنی انبیاء علیہم الصلوۃ السلام وصدیقین اورشہداء کرام و صالحین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کی شان میں ادنی درجے کی بد دعائیں بہت ہی خطرناک اور ہلاکت آفریں بلائیں ہیں۔ ان بزرگوں کی بد دعا اور پھٹکار اوران کی شان میں گستاخی اوربے ادبی یہ قہر الٰہی کا سگنل ہے ۔ ان خدا کے مقدس اورمحبوب بندوں کی ذرا سی بھی بے ادبی کو خداوند قدوس کی شان قہار ی وجباری معاف نہیں فرماتی بلکہ ضرور ان گستاخوں کو دونوں جہان کے عذاب میں گرفتار کردیتی ہے ۔
دوم : یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں علماء، اولیاء اور تمام صالحین کی بد دعائیں بہت ہی خطرناک اورہلاکت آفریں بلائیں ہیں ۔ ان بزرگوں کی بد دعا اورپھٹکار وہ تلوار ہے جس کی کوئی ڈھال نہیں اوریہ تباہی وبربادی کا وہ زہر آلود تیر ہے جس کا نشانہ کبھی خطا نہیں کرتا لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ زندگی بھر ہر ہر قدم پر یہ دھیا ن رکھے کہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی شان میں ذرہ بھر بھی بے ادبی نہ ہونے پائے اور بزرگان دین میں سے کسی کی بھی بد دعا نہ لے بلکہ ہمیشہ اس کو شش میں لگا رہے کہ خدا عزوجل کے نیک
بندوں کی دعائیں ملتی رہیں کیونکہ نیک بندوں کی بدعائیں بربادی کا خوفناک سگنل اور ان کی دعائیں آبادی کا شیریں پھل ہیں ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!