اسلام

ایمان اور تمدن

ایمان اور تمدن

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصّلوۃ والسّلام علی سیدنا محمد و الہ واصحابہ اجمعین
امابعد: یہ امر پوشیدہ نہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے یعنی آدمیوں کی طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ مثل حیوانات کے جنگل میں تنہا اقامت نہیں کرسکتے بلکہ چند ابنائے جنس ملکر ایک بستی آبادکرلیتے ہیں مگر چونکہ طبایع مختلف ہوتے ہیں اور اکثر طبیعتوں میں خودغرضی، تکبر اور ظلم و تعدِّی ہواکرتی ہے اس وجہ سے تمدن اکثر خطر ناک حالت میں رہا کیا جسکی اصلاح کے لئے حکمانے بھی قواعد ایجاد کئے۔ اور انبیائے سابق بھی اس کے متعلق کچھ نہ کچھ احکام سنایا کئے ۔مگر جب ہمارے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے اِس طورپر تمدن کی اصلاح فرمائی کہ اگر اس پرعمل کیا جائے تو تمام بندگان خداہر شہر وقریہ میں نہایت آسایش سے زندگی بسر کرسکتے ہیں ۔اگر چہ اسلامی کتابیں مسائل تمدن سے بھری ہوئی ہیں مگر ہر شخص ان پر مطلع نہیں ہوسکتا اس لئے میں چاہتاہوں کہ مختصر طورپر اسلامی تمدن کا کچھ حال لکھوں جس سے شائقین علم کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دین نے اس باب میں کیسے مستحکم اصول قایم کردیئے ہیں کہ قیامت تک ٹوٹ نہیں سکتے وما توفیقی الاباللہ۔
واضح رہے کہ پہلا قدم اصلاح تمدن میں ایمان ہے ۔ یعنی اس بات کی تصدیق کہ خدا ئے تعالیٰ ایک ہے اس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بناکر ان پر قرآن نازل فرمایا جس میں ہمارے نفع و نقصان کے کل ابواب مذکور ہیں اگر ہم نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرکے اچھے کام کریں تو جنت کے مستحق ہونگے اور بُرے کام کریں تو دوزخ کا استحقاق ہوگا اور یہ دونوں گھر ہماری جزا وسزا کیلئے خالق عزوجل نے تیار کر رکھے ہیں۔
ایمان کا جو لفظ لکھا گیا دیکھنے کو تو بہت چھوٹا اور معمولی لفظ ہے جسکو ہر شخص جانتا ہے مگر اُس کے معنی ایسے وسیع ہیں کہ اگر ان کی تشریح کی جاے تو ایک مستقل رسالہ ہوجائے گا اور ایسے دقیق مباحث پیش ہوجائیںگے کہ ان کا سمجھنا سمجھانا دشوار ہوگا اس لئے ہم یہاں صرف اس کے لغوی معنے بیان کردیتے ہیں جس کو ہر طالب علم جانتا ہے کہ وہ امن سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی امن دینے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ اصلاح تمدن کا مدار امن کے قایم رکھنے پر ہے اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ خود لفظ ایمان سے ثابت ہے کہ اصلاح تمدن لوازم ایمان سے ہے یعنی جب ایمان کے معنے پورے طورپر متحقق ہوجائیں تو امن وامان کا تحقق ہوگا جس سے خود تمدن کی اصلاح ہو جائے گی مگر یہ بات بادی الرائے میں سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک کہ تمدن کی حقیقت نہ معلوم ہو اس لئے ہم پہلے اس کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں اگر اس میں غور و تدبر سے کام لیا جائے تو امید کی جاتی ہے کہ اہل انصاف پر ہمارا دعویٰ مُبرہَن ہوجائے گا
یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ آدمی کو جس قدر حاجتیں لگی ہوئی ہیں اور کسی میں نہیں پائی جاتیں دیکھئے جب وہ اپنا تنگ و تاریک اور گرم مقام چھوڑ کر اس وسیع میدان عالم میں قدم رکھتاہے تو بظاہر اس کے تن برہنہ پر سردہواکا صدمہ جسکو ساری عمر میں کہیں نہیں دیکھا تھا ایسی اذیت پہونچا تا ہے کہ بے اختیار رودیتا ہے ۔ کیونکہ مثل اور حیوانوں کے اس کے جسم پر بال ہوتے ہی نہیں جو پشمینی لباس کا کام دیں۔ اس وقت کی حالت اس کی قابل رحم اور عبرت خیز ہے کہ اس عالم میں آنے کی کشمکش سے اس نے ہنوز دم نہیں لیا تھاکہ اس عالم کی ہوا لگتے ہی ایک احتیاج اُس پر ایسی مسلط ہو گئی کہ اس کو رُلاکر چھوڑا پر ایک مدت دراز تک نہ کہیں جاسکتا ہے نہ مثل حیوانوں کے پھر سکتا ہے بستر نا توانی پر پڑا ہوا بھوک اور پیاس کے صدموں سے روروکر گھڑی گھڑی اپنی حاجت کو بیان کر تا رہتا ہے۔پھر ایک مدت کے بعد جب غذا بدلنے کی ضرورت ہو تی ہے تو اس وقت بھی خود مختاری سے مثل جانوروں کے کوئی چیز کھانہیں سکتا اور اگر کھا بھی لیا تو معدہ میں صلاحیت نہیں کہ مثل جانوروں کے گھاس وغیرہ کو ہضم کرسکے ۔پھرجب ہوش سنبھالتا ہے اور اپنی ذاتی سعی سے غذا حاصل کرنے کی لیاقت پیداہوتی ہے تو اُس کی غذائے طبعی ایسی نہیں جو پیش پا افتادہ ہو اور ہر جگہ دستیاب ہو سکے جیسے حیوانات کیلئے مقر رہے بلکہ ایسے غلوں کی طرف محتاج ہے جن کو خاص طور پر زراعت کر کے حاصل کر نے کی ضرورت ہے۔پھر اُس کی طبیعت ایسی نازک بنائی گئی کہ مثل حیوانات کے زیر سماگزران نہیں کرسکتا اس لئے گھر کی طرف محتاج ہے پھراندرونی اور بیرونی اسباب خدا جانے اُس پر کتنے مسلط ہیں جن کی وجہ سے اس کثرت سے امراض اُس کو لاحق ہو تے ہیں جن کی پوری فہرست اب تک قلم بند نہ ہوسکی ہر وقت ایک نئی بیماری کا سامنا ہے اور ایک نئی دوا کی حاجت ممکن نہیں کہ مثل حیوانوںکے باقتضاے طبع اپنا علاج آپ کرسکے اب غور کیجئے کیا ممکن ہے کہ کوئی فرد بشر ان تمام ضروری اشیاء کو اپنی ذاتی کوششوں سے فراہم کرسکے ہر گز نہیں۔صرف غذا ہی کو دیکھ لیجئے جس کی ہر وقت ضرورت ہے کہ کس قدر دشواریوں میں رکھی گئی ہے کہ جب تک اپنی ذات سے زراعت نہ کرے کہیں مل نہیں سکتی بخلاف گھاس پتوں کے جو حیوانوں کی غذا ہے کہ باوجودیکہ ہر سال جانور چرکر اس کو فنا کردیتے ہیں مگر جب نیا سا ل آتا ہے تو بغیر اس کے کہ کوئی جانور تخم ریز ی کرے اور زراعت کی مشقت اُٹھائے، خود بخود پیداہوتی ہے اب زراعت کو دیکھئے کہ کتنی چیزوں کی طرف ا س میں احتیاج ہوتی ہے ابتداء ً ہل بنانے کی ضرورت ہے، جو بغیر لو ہے اور لکڑی کے نہیں بن سکتا ۔ پھر لوہے اور لکڑی کا حاصل کرنا ہی آسان نہیںاُس کے لئے بھی آلات کی ضرورت ہے پھر وہ آلات بھی بغیر بنائے بن نہیں سکتے ان کا مادہ حاصل کر نا بھی محتاج آلات ہے غرض کہ صرف آلات ہی کا سلسلہ ایک مدت دراز تک اُس کو پر یشان کررکھے گا پھروہ آلات اگر بن بھی گئے اور غلہ حاصل ہوبھی گیا تو بغیر پکائے کھانے کے لایق نہیں ہوتا کیونکہ اُس کے معدہ میں اتنی حرارت نہیں رہی گئی جو مثل حیوانات کے کچیّے غلہ کو پکاکر ہر وقت ہضم کر سکے بلکہ اُس کے ہضم کے لئے یہاں تک بیرونی مددکی حاجت ہے کہ کئی چیز وں کو پیسنے کی ضرورت ہے اس لئے ظروف وغیرہ کی احتیاج ہوئی پھراور ظروف کے بنانے میں بھی وہی دشواریاں درپیش ہیں ۔علیٰ ہذاالقیاس مکان وغیرہ میں جو ضرورتیں اور احتیاجیں لاحق ہوتی ہیں محتاج بیان نہیں ۔ بہر حال انسان کو اتنی کثیر التعداد اشیاء کی طرف احتیاج ہے کہ انکی فہرست لکھنی مشکل ہے بڑے بڑے شہروں میں دیکھئے تو ایک بڑا حصّہ اُن کا اُس کی ضرورتوں کوپوری کرنے والی اشیاء سے بھرانظر آئے گا۔
غرضکہ ضرورتوں پر تفصیلی نظر ڈالنے سے بداہۃً یہ ثابت ہوتا ہے کہ ممکن نہیں کہ کوئی فرد بشر اپنی ذاتی کوششوں سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرسکے ۔ پھربہت سی ضرورتیں ان میں ایسی ہیں کہ جب تک وہ پوری نہ ہوں بقاے شخصی اور بقاے نوعی محال ہے اس لئے ہر وقت بہت سی چیزوںکی طرف احتیاج لگی رہتی ہے۔ اور احتیاج ایسی بُری چیز ہے کہ جب تک وہ رفع نہ ہو بلائے بے درماں کی طرح آدمی پر مسلط رہتی ہے اور ہر وقت اسی سے متعلق خیال لگا رہتا ہے جس سے دوسرا کام تو کیا خیال تک نہیں آسکتا۔ دیکھ لیجئے کہ جب آدمی کو بھوک کی وجہ سے غذا کی احتیاج ہو تی ہے تو وہ جہاں جاتا ہے غذا حاصل کرنے ہی کا خیال لگا رہتا ہے بلکہ وہ خیال سوائے اس مقام کے جہاں غذا حاصل ہو سکے دوسری طرف اُس کو جانے نہیں دیتا۔اگر اس کے پائوں میں زنجیر ڈالی جاتی تو ممکن تھا کہ کسی تدبیر سے اُس کو توڑکر کہیں چلا جاتا۔ مگر اس خیال کی ایسی گراں زنجیر اُس کے پائوں میں پڑی ہوئی ہے کہ کسی طرف وہ قدم نہیں اُٹھا سکتا اسی پراورحاجتوں کو قیاس کر لیجئے ۔ان حاجتوں نے انسان کو اس قدر مجبور کر دیا کہ ہر ایک شخص دوسرے سے بزبان حال کہہ رہا ہے کہ خدا کیلئے مجھے بچالو ورنہ میں ہلاک ہو اجاتاہوں۔اس باہمی گفتگو اور احتیاج کا یہ اثر ہواکہ ہر ایک دوسرے کی ہمدردی پر آمادہ ہوگیا اور سب نے اتفاق کرلیا کہ ایک ایک حصہ زمیں کا زراعت وغیرہ ضروریات کیلئے اپنے تصرف میں لے کر چھوٹی بڑی بستیاں بحسب ضرورت آباد کریں چنانچہ اس ہمدردی سے تمدن کی بنیاد پڑی اور ایک ایک کام کی طرف ایک ایک جماعت متوجہ ہوگئی کسی نے لوہا زمیں سے نکالنا اپنے ذمہ لیا۔کسی نے اُس کے آلات بنانے کی طرف توجہ کی کسی نے زراعت کا اہتمام کیا کسی نے لباس وغیرہ کا انتظام کیا۔غرضکہ اپنی اپنی مناسبت طبعی اور مصلحت وقت کے لحاظ سے ایک ایک کام اپنے اپنے ذمہ لیکر سب نے مایحتاج اشیاء کو ہاتھوں ہاتھ فراہم کردیا۔
ہر چند بظاہر یہ ابتدائی حالت کا نقشہ معلوم ہوتا ہے مگر حالت موجودہ پر غور کیا جائے تو ہروقت وہ اسی نقشہ کو پیش نظر کردے گی۔دیکھ لیجئے ذلیل سے ذلیل خدمت خاکروبوں کی ہے۔اگر وہ اتفاق کر کے اس سے دست بردارہوجائیں تو تمام شہر میں تہلکہ پڑجائے اور قدرنعمت بعدزوال کا مضمون پورے طورپر صادق آجائے۔
جب آپ نے دیکھ لیا کہ آدمی بات بات میں محتاج ہے اور اسی احتیاج نے اُس کو شہر بندکر رکھا ہے اور جب تک قید حیات میں ہے اس دائمی حبس سے آزاد نہیں ہوسکتا تو اس مشاہدہ کے بعد بھی اگر کوئی آزادی کا دعویٰ کرے تو کیونکر صحیح سمجھاجائے گا البتہ بہ نسبت انسان کے حیوانات کسی قدر آزادانہ زندگی بسر کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی حاجتیں محدود اور بہت کم ہیں مگر اسی آزادی نے ان کو دولت تمدن سے محروم کرکے ایسی کس مپرس حالت میں ڈال رکھا ہے کہ ان کو ماربھی ڈالیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اب دیکھئے کہ کثرت احتیاج ہر چند نقص اور موجب نقص ہے مگر حق تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں اُس کو داخل کرکے اپنے فضل وکرم سے اُسی نقص کو کمال کا سبب بنادیا جیسے کہ آزادی باوجودیکہ کمال ہے مگر آزادوں کو دے کر ایک نعمت عظمی سے اُن کو ہمیشہ کیلئے محروم رکھا اس لئے کہ ممکن نہیں کہ تمدن پر مجبور کرنے والی حاجتیں ان میںپیداہوں اور وہ اُس نعمت تمدن کو حاصل کرسکیںاس کا ثبوت بآسانی یوں ہوسکتا ہے کہ کسی وحشی جانور کو لاکر نہایت لذیذ اور خوش گوارنعمتیں کھلائے اور فاخرہ لباس پہنائے اور عالیشان آراستہ مکان میں رکھئے پھران تمام نعمتوں کا ذایقہ چکھنے کے بعد چھوڑکر دیکھ لیجئے کہ اُس کو ان چیزوں کی طرف احتیا ج ہوتی ہے یا نہیں۔یہ تو مشاہدہ ہے کہ بندروں کو شہرمیں لاکر پرورش کرتے ہیں اور ایک مدت تک انسانوں کی حسن معاشرت کو وہ دیکھتے ہیں باوجود اس کے جب چھوٹتے ہیں تو وہی ان کا ڈالی ڈالی کودنا اور کچّے پکّے پھل کھاجانا تمام دنیا کی نعمتوں سے ان کے نزدیک افضل ہے نہ وہ روٹی پکا سکتے ہیں نہ اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان میں تمدن کی صلاحیت ہوتی تو آدمیوں کے تمدن کو دیکھ کر تو کوئی شہر آباد کئے ہوتے اس مشاہدہ کے بعد یہ کہنا کیونکر صحیح ہوگا کہ بندر چونکہ بعض اعضا اور حرکات میں انسان کے مشابہ ہیں اس وجہ سے آدمی اُن کی نسل ہے اور صرف دُم جڑ جانے کی وجہ سے اُ س کو امتیازحاصل ہوگیاہے جیسا کہ آج کل مذہب ڈارویں کے مسئلہ ارتقاء پر زوردیا جارہاہے ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ چند چیزوں میں مشارکت اور مشابہت ہونے سے وحدت نوعی صادق نہیں آسکتی دیکھ لیجئے تمام جمادات نباتات حیوانات اس باب میں شریک ہیں کہ سب کو جسم صورت شکل وغیرہ ہے باوجود اس کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب نوع واحد ہیں بلکہ و حدت نوعی اسی وقت صادق آئیگی کہ صورت نوعیہ اور طبیعت نوعیہ کئی افرا دمیں ایسے طورپر پائی جائے کہ دیکھنے والا فی البد یہ کہہ دے کہ وہ سب ایک قسم کی چیزیں ہیں مثلاً جس قسم کا گھوڑا دیکھا جائے خواہ چھوٹا ہویا بڑا ،دیکھنے والا سب کو ایک قسم میں داخل کردے گا کیونکہ صورت نوعیہ سب کی ایک ہے، گو صورت شخصیہ ہر ایک کی ممتازہو۔ اسی طرح جتنے لوازم اور آثارہیں سب کے ایک قسم کے ہو نگے جو طبیعت نوعیہ سے متعلق ہیں۔ اب دیکھئے کہ بندراور انسان کی صورت نوعیہ میں کسقدر فرق ہے کہ بچہ بھی اگر بندرکودیکھے گا تو بندرہی کہے گا یہ نہ ہو گا کہ بعض اعضا کی مشابہت سے اسکو آدمی کہدے ۔اسی طرح انسان اور بندر کے لوازم و احکام میں فرق بین ہے انسان کا بات کرنا اپنے مافی الضمیر کو بذریعہ خط و کتابت وغیرہ دوسرے پر ظاہر کرنا اور تمدن میں ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ اس قدرہیں کہ بندروں میں ہر گز نہیں پائے جاتے۔اگر بندربھی نوع انسانی میں داخل ہوتا تو اس کی ضرورتیں اور احتیاجیںجو طبیعت نوعیہ سے متعلق ہیں اس کو تمدن پر مجبورکرتیں اور بمتقضائے ہمدردی معاونت باہمی سے حصّہ لیتا حالانکہ بداہتہً ثابت ہے کہ جس قدرنوع انسانی کو ضرورتیں اور حاجتیں لاحق ہیں بندروں میں ان کا وجودنہیں۔
فن فرنیا لوجی میں لکھا ہے کہ حکمائے سابق نے غلطی کی ،جو انسان کو حیوانوں کے رتبہ سے ازحد بڑھا یا، اور روح کو انسان کے ساتھ مختص کیا، اور تمام قوتوں کو روح سے متعلق کردیااور خیال نہ کیا کہ ادراک و فہم و مشقت کی قابلیت بعض حیوانات میں انسان سے بھی زیادہ ہے، اور تحقیق جدید سے ثابت کیا کہ کل قوائے روحانیہ جسم و دماغ سے متعلق ہیں۔اور ہر ایک قوت دماغ کی ایک قسم کی ساخت سے متعلق ہے خواہ انسان میں ہو یا حیوان میں۔
ہمیں اس میں کلام کرنے کی ضرورت نہیں کہ ان قوی کا تعلق روح سے ہے یا جسم سے مگر یہ ضرور کہیںگے کہ انسان اور حیوانات گو شکل اور بعض شمائل اور اخلاق و عادات میں برابر ہوں،مگر انسان کی شرافت اور فضیلت کو کوئی حیوان نہیں پہونچ سکتا ۔خصوصاً فضیلت تمدن کو اس نے تو تما م حیوانوں کو ذلیل و مسخربنادیاممکن نہیں کہ تمام حیوان مل کر اب انسان کا مقابلہ کر سکیں اگر تمدن کے فوائد پر گہری نظر ڈالی جائے تو اس میں ذرابھی شک نہ ہوگا کہ سعادت دنیوی تمدن سے بڑھ کر کسی چیزمیں نہیں پھرجب یہ فضیلت اور کرامت خاص انسان کو حاصل ہے اور کل حیوانات اس سے محروم ہیں تو ماننا پڑے گا کہ نوع انسانی میں کوئی ایسی چیز ضرورہے جو حیوانات کو نہیں دی گئی اور ایسی نعمت عظمٰے سے محروم رکھے گئے۔
ماہرین فرنیالوجی نے اقرار کیا ہے ۔ جیسا کہ کوئب صاحب نے لکھا ہے کہ بعض اعضا جو انسان کے دماغ میں ہیں حیوانوں کے دماغ میں پائے نہیں جاتے مثلاًاعضائے قیاسات جیسے اعزاز غیری امید بحیلہ و غیرہ وغیرہ کہ خاص انسان سے تعلق رکھتے ہیں حیوانوں میں دیکھنے میں نہیں آتے۔
اس سے ظاہر ہے کہ گو انسان اور حیوان میں بعض امور شریک ہیں مگر بعض امور ایسے بھی ہیں کہ کسی حیوان میں نہیں پائے جاتے اس سے ثابت ہے کہ نوع انسانی قوت ممیزہ وغیرہ کی وجہ سے تمامی انواع موجودات میں اعلیٰ درجہ تک پہونچ گئی ہے اگر سماعت اور بصارت اور دوسرے اوصاف میں حیوانات اس کے شریک ہوںتو اس کی فضیلت پر ان چیزوں کا کوئی اثر نہیں پڑسکتا جیسے نباتات میں بھی قوت غاذیہ اور نامیہ اور حیات ہوتی ہے اور وہ نرومادہ بھی ہوتی ہیں جن میں اعضائے تناسل بھی موجودہیں جیسا کہ فن نباتات میں مصرح ہے مگر اس اشتراک سے انسان کی فضیلت میں کوئی نقصان نہیں آتا۔
الحاصل دلائل عقلیہ اور ہزارہا سال کے تجربوں سے ثابت ہے کہ سوائے انسان کے نعمت تمدن حاصل کرنے کی صلاحیت ہی کسی میں نہیں اور کیونکر ہو اسکا منشاتو وہ بیشمار حاجتیں ہیں جو اس پر مجبور کررہی ہیں جنکا وجود سوائے انسان کے کسی میں نہیں پایا جاتا ۔ خدائے تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں محتاج بناکر ایک اعلیٰ درجہ کی نعمت کا افتخار بخشا جس میں کوئی ہمارا ہمسر نہیں ہوسکتا۔ دیکھئے یہ احتیاج کیسی قابل قدر چیز ہے کہ فخرالانبیاء علیہ السلام فرماتے ہیں الفقر فخری۔ یہی احتیاج ہے کہ دین و دنیا کی نعمتیں اسی کی بدولت حاصل ہوتی ہیں دیکھ لیجئے کیسی ہی عمدہ سے عمدہ نعمت ہواگراس کی احتیاج نہ ہو تو ہیچ ہے کسی بزرگ نے کیا خوب کہا ہے ؎ آب کم جو تشنگی آوربدست ‘ اگر حق تعالیٰ ہماری فطرت میں ہر چیز کی احتیاج داخل نہ فرماتا تو تمام عالم ہمارے حق میں بیکار تھا اور مثل وحشیوں کے ہم بھی دولت تمدن سے محروم رہ جاتے مگر افسوس ہے کہ ہم اپنی احتیاجوں کا بھی احساس نہیں کر سکتے اسی کو دیکھ لیجئے کہ ہماری دینی اور دنیوی حالت کسی قدر قابل اصلاح ہے مگر ہم کچھ ایسے خواب غفلت میں ہیں کہ یہ بھی نہیں جا نتے کہ ہم اس کی اصلاح کے محتاج ہیں یا نہیں۔ اگر ہمیں اپنی حاجتوں کا احساس بالتفصیل ہواوراس کے ساتھ حاجت روائیوں کے کا رخانہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ محتاج بنانے والے حکیم علی الاطلاق نے کس قدر سامان حاجت روائیوں کا مہیّا فرمادیاہے مثلاً ادھر تشنگی دی تو اُدھر پانی کے دریا بہادئے جن کو کوئی روک نہیں سکتا اور اِدھر بھوک دی تو اُدھر رزق کا ایک کارخانہ کھول دیا جس کی کارگزاریوں میں آفتاب ماہتاب جیسے آ یات بینات سرگرم ہیں۔سعدی ؒفرماتے ہیں ؎
ابروبادومہ دخورشید و فلک درکاراند
تاتونانے بکف آری وبغفلت نخوری
ہمہ از بہر تو سرگشتہ و فرمان بردار
شرط انصاف نباشد کہ توفرماں نہ بری
اسی موقع میں حق تعالیٰ فرماتا ہے یا ایّھاالنّاس انتم الفقراء الی اللہ یعنے اے لوگو تم اللہ ہی کی طرف محتاج ہو۔ ہر چند ظاہر ہمار ی احتیاج پانی غلہ وغیرہ کی طرف ہے مگر ا ن میں کوئی چیز ایسی نہیں جو خود پیدا ہوجائے بلکہ ہر چیزممکن ہو نے کی وجہ سے اپنے وجود میں خالق کی طرف ضرور محتاج ہے جس سے ظاہر ہے کہ ہر حاجت ہماری خالق عز وجل ہی سے متعلق ہے۔اگر ہم اپنی حاجتوں پر نظر ڈالیں اور غور کریں کہ ہر ایک حاجت ہماری کتنی چیزوں سے متعلق ہے تو یہ ثابت ہو جائیگا کہ عالم میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے کوئی نہ کوئی حاجت ہماری متعلق نہو گواس کو ہر شخص معلوم نہ کرسکے مثلاً بادی الرائے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری نشوونما زمین پر ہے اسلئے کل حاجتیں ہماری زمین ہی سے متعلق ہونگی آسمان سے کوئی ہمارا تعلق نہو نا چاہئیے۔مگر حکماء نے اپنے تجربوں سے ثابت کردیا ہے کہ انظارکواکب کو بھی عالم سفلی کی اصلاح میں مداخلت تامہ ہے اور حق تعالیٰ خود فرماتاہے وسخرلکم الشمس والقمردائبین یعنے آفتاب و ماہتاب کو تمہارے مسخر بنادیا اور ارشا د ہے و خلق لکم مافی الارض جمیعایعنے تمہارے لئے ہم نے تمام چیزیں زمین کی پیداکیں غرضکہ عالم علوی اور سفلی پر تفصیلی نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر آن میں ہم ہزار ہا چیزوں کے محتاج ہیںپھراگر بمقتضاے انسانیت ہر حاجت روائی کے و قت یہ سمجھا کریں کہ تمام حاجتیں ہماری خاص خدائے تعالیٰ سے متعلق ہیںجنکو وہ وقتاً فوقتاً روافرماتاہے اسلئے کہ بغیر اس کے کسی چیز کا وجود ممکن نہیں تو ہر وقت آیۂ شریفہ انتم الفقراء کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچا رہے گا جس سے دل خودبخود اپنے منعم اور محسن عز شانہ کا منقاداور شکر گذار رہیگا اور کیا تعجب کہ اس شکر گزاری کے عوض میں اور بہت سی دنیوی و اخروی نعمتیں عطاہوں کیونکہ جب اس نے بغیر ہماری درخواست کے بے انتہا حاجتیں ہم میں پیداکرکے دولت تمدن سے سرفراز فرما یا جسکی وجہ سے ہمارے بنی نوع ولقد کرَّمنَا بنی آدم کے خطاب سے تمام عالم میں ممتاز ہوئے توان حاجتوں کا احساس کر کے اگر حاجت روائیوں کا شکر اداکریں تو بیشک نعمتوں کی زیادتی کے مستحق ہونگے جیسا کہ خودوعدہ فرما تا ہے ولئن شکرتم لا زید نَّکم۔
حق تعا لیٰ نے تمام انواع میں سے صرف نوع انسانی کی فطرت میں جو بیشمار حاجتیں رکھیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ قبل تخلیق عالم حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ اس نوع کو عالم میں امتیاز تمدن عطا فرمادے اور اس سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ حق تعالٰے کو ازلی محبت ہے جسکا حال اس مثال سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اگر کسی مقتدرسخی بادشاہ کے یہاں کوئی اس کا دو ست مہمان ہو تو اس مہمان کی جتنی حاجتیں زیادہ ہونگی بادشاہ کی خوشنودی کا باعث ہے تاکہ ایک ایک حاجت اس کی رواکرے اور اپنی محبت اور عزت افزائی کا ثبوت دے اور اگر اس کی حاجتیںکم ہوں تو حتی الامکان حاجتیں پیدا کرنے کی طرف اس کی تو جہ مبذول ہوگی مثلاً اس کو بھوک کم ہو تو اشتہا پیداکرنے والی اشیا کو استعمال کرانے کا حکم طبیبوں پر صادر ہوگا۔ غرضکہ مہمان کی زیادہ حاجتیں زیادتی خوشنودی کا باعث ہے اور اگر خودحاجتیں اس کی کم ہوں اور ان کے پیداکرنے پروہ قادر نہوتو اس کی کم قسمتی پر بادشاہ کو افسوس ہو گا ۔مگر چونکہ خداے تعالیٰ خود خالق ہے اسلئے اس مکرم نوع انسانی کی فطرت ہی میں بے انتہا حاجتوں کو پیداکردیا اور اس کی کل مایحتاج اشیاکو عالم میں بکثرت پیدا کرکے خبر دی کہ وہ سب کچھ تمہارے لئے ہی ہم نے پیداکیا ہے کما قال تعالیٰ و خلق لکم مافی الا رض جمیعا۔اور اس بات کو سمجھنے کے لئے عقل بھی دی جو کسی حیوان کو نصیب نہیں۔ پھراس مکرم نوع کو تمام انواع میں امتیاز اور افتخار حاصل ہونے کی یہ تدبیر کی کہ انہی کی فطرتی حاجتوں سے ان کو مجبور کرکے ان کی عقل کو یہ راستہ بتایا کہ سب باہم اتفاق کر کے تمدن قایٔم کرلیں اور اس کے بعد وقتاً فوقتاً الہاموں کے ذریعہ سے ترقی تمدن کی تدبیریں بتائیں۔
الحاصل تمدن کی بنیاد فطرتی طور پر ڈالی گئی جس سے اس مکرم نوع انسانی کو سعادت دنیوی کے حاصل کرنے کا عمدہ موقع ہاتھ آگیا اب اگر باوجود اتنے فضل و کرم کے کوئی شخص کفران نعمت کرے اور ایسے افعال کا مرتکب ہو جو خلاف مرضی خالق اور تمدن کو ضرر پہونچانے والے ہوں تو اس پر اولئک کالا نعام بل ھم اضل ۔پورے طور پر صادق آجائیگا ہر چند تمدن کی بنیاد فطرتی طورپر قایٔم ہوئی ہے جس میں انسان کے فعل و اختیار کو چنداںدخل نہیںمگر عقل بھی اُسکو مفید اور ضروری سمجھتی ہے اور یہ گواہی دیتی ہے کہ آدمی کے حق میں تمدن سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہوسکتی اس لئے کہ کل دنیوی سعادتوں کا مداراسی پر ہے کیسے ہی بیوقوف شخص سے کہا جائے کہ آبادی کو چھوڑکر جنگل میں اقامت کرے ہر گز اس کی عقل اُسکو گوارا نہ کرے گی۔ جب کل افرادا نسانی تمدن کو نعمت عظمیٰ سمجھتے ہیں تو چاہئیے تھا کہ ہمیشہ اُس کی حالت درست رہتی اور ہر شہر و قریہ میں امن و امان قائم رہتا جو روح تمدن ہیں اور جس طرح اُسکی بنیاد ہمدردی پر رکھی گئی تھی اُس میں تغیر نہ آتا حالانکہ مشاہدہ اُسکے خلاف پر گواہی دے رہا ہے کہ بجائے ہمدردی ،دل آزاری ہے اور بجائے امن قائم کرنے کے وہ تدابیر سو چی جاتی ہیں جن سے بدامنی اور بے اطمینانی پھیلے۔جدھر دیکھئے ایک دوسرے کا شاکی ہے۔ محکمہ جات سرکاری میں فوجداری وغیرہ مقدمات اس کثرت سے رجوع ہوتے ہیں کہ اہل عملہ کو فرصت نہیں ملتی جس سے ظاہر ہے کے بجائے ہمدردی کے جو منشاء تمدن کا تھا باہمی خصومت قایٔم ہوگئی جو باعث فساد تمدن ہے۔
اب یہاں یہ دیکھنا چاہئیے کہ ہر آدمی کی عقل جب تمدن کو ضروری سمجھتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ بر خلاف مقتضائے عقل لوگ اپنے ہاتھوں سے تمدن کو خرا ب کیا کرتے ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ تمدن کو خراب کرنے والی بھی وہی فطرتی حاجتیںہیں جو باعث تمدن ہوئی تھیں کیونکہ جب آدمی کو کسی چیز کی حاجت ہوتی ہے تو وہ بہ مجبوری اس کے حاصل کرنے میں عقل سے مدد لیکر رفع موانع اور تحصیل ذرایٔع کی طرف مشغول ہوتا ہے، اور جب تک کامیاب نہو تسکین نہیں ہوتی غرضکہ وہی حالت جب اس کو خودغرضی پر آمادہ کرتی ہے جسکا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس وقت نہ تمدن کے خراب ہونے کا خیال آتا ہے نہ اپنے یادوسرے کے ضرر کا۔جب ہر شخص اپنی اپنی حاجتوں میں خودغرضی اختیار کرے تو ظاہر ہے کہ تمدنی حالت کبھی اصلاح پذیر نہیں ہوسکتی۔
اصل منشا خرابی تمدن کا ایک اور ہے جس کے بیان کے لئے تھوڑی سی تفصیل درکار ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے نفس نا طقہ میں خالق عزوجل نے تین قوتیں رکھیں ہیں جن پر بقائے شخصی اور بقائے نوعی کا مدار ہے ۔ ایک قوت ملکیہ جس سے حقایق امور کا ادراک متعلق ہے اور علم و حکمت کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے یہ قوت دماغ میں رکھی گئی ہے۔ دوسری قوت شہویہ جسکو بہمیہ بھی کہتے ہیں اس سے تمام نفسانی خواہشیں مثل کھانے پینے اور جماع وغیرہ کے متعلق ہیں اگر کھانے پینے کی خواہش آدمی کو نہو تو بدل ما یتحلل نہ پہونچنے کی وجہ سے چند روز میں ہلاک ہو جائیگا اور جماع کی خواہش نہو تو نسل منقطع ہوجائیگی اس قوت کا مقام جگر ہے ۔تیسری قوت غضبیہ جسکو سبعیہ بھی کہتے ہیں اس قوت سے آدمی خطرناک امور پر پیش قدمی کرتاہے۔ اسکا محل دل ہے۔ یہ تینوں قوتیں ایک دوسرے کے مبائن ہیں ان میں سے جو قوت زیادہ اور غالب ہوگی دوسری قوتیں ضعیف اور بعض وقت کاَنَ لم یکن ہوجائیگی مثلاً قوت غضبیہ کو جب جوش ہواتو اُسوقت نہ عقل ٹھکانے رہتی ہے نہ کوئی خواہش نفسانی ہوتی ہے اسی طرح قوت شہو یہ اور ملکیہ کی زیادتی اورغلبہ کی وقت دوسری قوتیں ضعیف ہوجاتی ہیں ۔ پھران قوتوں کی کمی و زیادتی ایک ایسی چیز سے متعلق کی گئی ہے جو ہمارے اختیارسے خارج ہے اسلئے کہ باوجود یکہ وہ نفس ناطقہ کی قوتیں ہیں مگر اعضامیں رکھی گئی ہیں اوران کی کمی و زیادتی ان اعضا کی حرارت و برودت سے متعلق کی گئی ہے۔ مثلاً جسکے دل میں حرارت زیادہ ہوتو اس کا غصہ زیادہ اور شدت سے ہوگا اور جسکے دماغ میں حرارت زیادہ ہوتو اس کی فکر میں سرعت اور تیزی ہوگی جو عقل سے متعلق ہے اور جسکے جگر میں زیادہ ہوتو قوائے شہویہ میں زیادتی ہوگی اسی طرح حرارت کی کمی سے ان قوتوں میں کمی ہوگی ۔پھر ان اعضاء میں جو سردی و گرمی رکھی جاتی ہے اس کا ایک اندا زہ مقرر نہیں کسی میں کم ہے تو کسی میں زیادہ مثلاً کسی کے دل میں حرارت اس قدر ہوتی ہے کہ ادنیٰ زیادتی سے اختلاج پیداہوجاتا ہے اور کسی کے دل میں اتنی کم ہوتی ہے کہ اس کے بڑھانے کیلئے دوائیوں کی ضرورت ہوتی ہے یہی حال جگر و دماغ کا ہے۔ غرضکہ قوائے بہیمیہ اور سبعیہ اور ملکیہ کی کمی و زیادتی اعضاء رئیسہ کی حرارت و بردوت سے متعلق کی گئی ہے اور وہ ہمارے احتیاج سے خارج ہے اور ظاہر ہے کہ جو افعال انسان سے صادر ہوتے ہیں ان کامدار انہی قوتوں پر ہے اس لئے ممکن نہیں کہ سب کے افعال ایک طورپر صادر ہوں بلکہ جس پر قوت بہیمیہ کاغلبہ ہوگا اس سے وہ افعال زیادہ صادر ہونگے جو بہا ئم سے ہواکرتے ہیں اور جس پر قوت سبعیہ کا غلبہ ہوگا اس سے وہ افعال زیادہ صادر ہونگے جو درندوں سے ہواکرتے ہیں اور ایسے ہی لوگ زیادہ ہواکرتے ہیں ۔ اسلئے کہ عقل جو مدرک حقایق اور مکمل علم و حکمت ہے اکثر محسوسات اور وجدانیات کے مقابلہ میں پسپا ہواکرتی ہے لذائذجسمانی کا احساس و قتاً فوقتاً آدمی کو اپنی طرف ایسا مائل کرلیتا ہے کہ ادر اکات روحانی کی نو بت ہی نہیں آتی اور ابھی معلوم ہواکہ ایک قوت کے غلبہ سے دوسری قوت مغلوب ہوجاتی ہے اسلئے قوائے بہیمیہ اور سبعیہ کے متواتر غلبوں سے قوت ملکیہ اکثر مغلوب اور بیکار رہے گی ۔ یہ آثارطبعی حرارت اور برودت کے ہیں پھر اس حرارت کو بڑھانے اور گھٹانے والے اسباب خارجیہ بھی بکثرت ہیں جیسے دن رات فصول اربعہ مختلف غذائیں دوائیں حرکات و سکنات وغیرہ جن سے باطن انسان میں حرارت یا برودت پیداہوتی رہتی ہے۔ غرضکہ ان اسباب داخلیہ و خارجیہ سے آدمی کی قوائے نفسانیہ پر ایسا برا اثر پڑتا ہے کہ قوائے بہیمیہ اور سبعیہ کو ترقی ہوتی ہے جس سے جانوروں کے سے افعال اکثر صادر ہوا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ حیوانات میں انہی افعال کی وجہ سے تمدن کی صلاحیت نہیں اس لئے تمدنی حالت ہمیشہ مخدوش رہتی ہے ۔ اورنفس ناطقہ کو قوائے بہیمیہ اور سبعیہ کے غلبہ سے اتنی مہلت نہیں ملتی کہ قوت ملکیہ سے کام لیکر اصلاح تمدن و قتاً فوقتاً کرسکے۔
فن فرنیالوجی جس میں کا سہ سر سے متعلق مباحث ہیں اور یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سر کے فلاں مقام سے فلاں صفت اور فلاں خلق متعلق ہے۔ ا س میں مقاومت کا مقام بتلا کرلکھاہے کہ اگر یہ مقام کشادہ ہو اور اس کے ساتھ مقام تخریب بھی کشادہ ہو تو ایسے شخص سے جھگڑے کج بحیثیاں طرح طرح کے فساد ایذادہی خون ریزی وغیرہ فسادات ظہور میں آئیںگے اور مقام امساک یا خواہش فراہمی بتلاکرلکھاہے کہ اس کی کشادگی ہوتو آدمی چوری کرتا ہے۔ اور مقام اعزاز ذاتی یا حفظ مراتب بتلا کرلکھا ہے کہ وہ با عث گستاخی، خود ستائی، خود غرضی، آزادی ہے اسی طرح بہت سے اخلاق کے مقامات معین کئے ہیں ۔غرضکہ تحقیق جدید سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق قبیحہ بعضوں کی جبلت ہی میں داخل ہوتے ہیں جن سے تمدن کو ضرر پہونچتا رہتا ہے۔ بہر حال تمدن کو بگاڑنے والے افعال کا صادر ہونا افراد انسانیہ سے فطرتی طور پر لازم ہے۔ خواہ ان کا منشا مقامات دماغ ہوں یا حرارت وبرودت اعضائے رئیسہ اور یہ تو خود مشاہدہ سے ثابت ہے کہ بعضوں کی طبیعت میں قوائے غضبیہ کے آثار مثل تکبُّر، بد خلقی ،قساوت قلبی ،حسد ،کینہ وغیرہ پائے جاتے ہیں اور بعضوں کی طبیعت میں آثار قوت شہو یہ مثل فسق و فجور و حرص و بخل وغیرہ۔
اب غور کیا جائے کہ انسان میں صفات بہیمیہ اور سبعیہ جب پورے طور پر پائے جاتے ہیں اور غلبہ حاصل کرنے کے آلات جو حیوانوں کودئے گئے ہیں ،فطر ۃً اس کے پاس بھی موجود ہیں اور علاوہ ان کے اس کو عقل ایسی دی گئی ہے کہ تلوارو بندوق اور توپ جیسے آلات کے ایجاد پر قادر ہے تو کیا ممکن ہے کہ تمدنی حالت درست رہ سکے ہر گز نہیں ۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لئے عقل نے مشورہ دیاکہ ایک قوت ایسی قائم کی جائے کہ وحشی طبعوںکو مقہورکرکے حالت تمدن کی اصلاح وقتاً فوقتاً کیا کرے ۔چنانچہ سب نے ایک شخص کو بادشاہ مقرر کیا اور اس بات پر راضی ہو گئے کہ اپنی جان و مال میں واجبی طور پر جو کچھ تصرف کرے سب قبول مگر اُن عام وحشی طبعوںاور گرگ سیرتوں سے نجات ملے اور اس کو رائے اور اجرائے احکامات میں مدددینے کیلئے ایک جماعت منتخب کی گئی اور سلطنت کی بنیا د قائم ہوئی ۔ چنانچہ سلطنت نے وہ کام اپنے ذمہ لیا اور حتی الامکان ایسے قواعد ایجاد کئے کہ ظلم و زیادتی کی بیخ کنی ہو اور تمدن کو خراب کرنے والوں کی سرکوبی کرکے اصلاح تمدن کی فکر کی تاکہ ہر شخص فارغ البال ہوکر امن و آسایش کے ساتھ زندگی بسر کرے اور رعایا اور سلطنت میں ہمدردی کی نسبت قائم ر ہے۔
مگر سلاطین اور اعوان سلطنت بھی آخراسی نوع انسانی کے افراد تھے یہ تو ممکن نہیں کہ ان سب کی قوت ملکیہ ان کی قوت بہیمیہ اور سبعیہ پر غالب ہو اور لذائذ جسمانیہ اور قوت غضبیہ سے مبر یٰ ہوسکیں اسلئے ایسے بعضے سلاطین اور اعوان سلطنت کا پیدا ہونا بھی لازم تھاکہ بجائے اصلاح ،حالت تمدن زیادہ ابتر ہواسلئے کہ طبیعت انسانی عیش پسند واقع ہوئی ہے اور اس کا مقتضیٰ ہے کہ لذائذ جسمانی جو سعادت دنیوی ہیں ،جس طرح ممکن ہو حاصل کرے پھرسب حکام کو حکومت حاصل ہو اور ان کو نفسانی خواہشوں سے روکنے والی کوئی چیز نہو اور رعایا ان کے مقابلہ میں مجبور، بے د ست و پاہوں تو ظاہر ہے کہ اُن کے قوائے شہو یہ اور غضبیہ کیسے آزادانہ اور بے باکانہ تصرف کرتے ہوں گے ایسی حکومت میں رعایا کے حسب حال یہ شعر ہوگا ؎
گراز چنگال گرگم ورربودے
چو دید م عاقبت خودگرگ بودے
بلکہ ایسی حکومت تمدن کے حق میں زیادہ تر مضر ہے۔ کیونکہ ظالم صرف اپنی ذاتی قوت سے تمدن کو ضرر پہونچاتاتھا اور یہاں اس کے ساتھ قوت حکومت مددگار ہے اگر کتب تو اریخ دیکھی جائیں تو صفحے کے صفحے ایسے حکام کے حالات سے سیاہ نظر آئیںگے۔ جب حکام جن کی ضرورت صرف اصلاح تمدن کے لئے عقل سے ثابت ہے خود خرابی تمدن کے باعث ہوں تو بتائیے کہ اس کے بعد اصلاح تمدن کی کیا امید ہوسکتی تھی ۔غرضکہ جس طرح تمدن کو قا یٔم کرنے والے اسباب خالق عزوجل نے پیدا کئے اس کے بگاڑنے والے اسباب بھی ان کے پہلو بہ پہلو پیدا کئے۔
اب یہاںعقل حیران ہے کہ فطرت تمدن کو قایٔم بھی کررہی ہے اور بگاڑبھی رہی ہے حالانکہ مقتضائے فطرت و طبیعت ایک قسم کا ہوتا ہے مگر عقل کی حیرانی یوں دفع کی جاتی ہے کہ فطرت بھی ایک مخلوق چیز ہے حکیم علی الاطلاق جو چاہتا ہے اس سے کام لیتا ہے دراصل خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ اس مکرم نوع انسانی کو ابدالآباد کی سعادت سے ممتاز اور سرفراز فرمادے اسلئے جس طرح کثرت احتیا ج سے سعادت دنیوی کی بنیاد ڈالی تھی اسی طرح ان حاجتوں کو پیداکرنے والے قوائے شہویہ اور غضبیہ سے ابدی سعادت کی تمہید کی۔ اور اس کی تخلیق اس طورپر ہوئی کہ جتنے قویٰ اور صفات جانوروں کے ہیں سب ا س کو دی گئیں جس سے اشتباہ ہو گیا کہ وہ بھی ایک جانور ہے اور بعضوں نے تو صاف کہہ دیا کہ ہم بندروں کی نسل سے ہیں ۔مگر اس کو تمام عالم میں ممتاز کرنے کے لئے ایک عقل ایسی دی کہ کوئی جانور اب اس کی ہمسری نہیں کرسکتا اور اس کی فطرت میں تحصیل علم اور تحقیق کا مادہ رکھا گیا چنانچہ جو لڑکا عقل ہیولانی سے قدم باہر رکھتا ہے تو ہر نئی چیز کو دیکھ کر پوچھتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جس سے مقصود تحقیق ماہیت ہے کیونکہ منطق میں مصرح ہے کہ ماھو جس کا تر جمہ وہی لڑکوں کا سوال ہے دریافت ماہیت کیلئے موضوع ہے۔ اسلئے ظاہر ہے کہ ابتدائے زمانہ شعور سے ماہیات اشیا کی تحقیق شروع ہوتی ہے۔ اس کے سواجہاں دوشخص باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان میں ضرور ایک دوسرے سے دیکھے یا سُنے ہوئے واقعات بیان کرتا ہوگا اور سننے والا نہایت توجہ سے وہ سنتا ہوگاجس سے مقصود صرف تحصیل علم ہے اسی وجہ سے اگر کوئی دیکھی یا سنی ہوئی بات ہوتو سننے والا کہہ دیتا ہے ،کہ میں بھی سن چکا ہوں ۔ اور اگر کوئی ناوربات بیان کی جائے، تو نہایت دل چسپی اور تحیر سے سنی جاتی ہے جس سے بیان کرنے والے کو قدردانی کا لطف آجاتا ہے اسی وجہ سے اکثر نادرنادرواقعات یاد رکھ کر مجلسوں اور احباب میں بیان کیا کرتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ تقریباً کل گفتگو جو لوگ باہم کیا کرتے ہیں اسی غرض سے سنی جاتی ہے کہ جو بات معلوم نہیں وہ معلو م ہو ۔ غرضکہ آدمی کی فطرت علم دوست اور تحقیق پسند واقع ہوئی ہے۔
یہ بات ماننے کے قابل ہے کہ جب ادنیٰ ادنیٰ واقعات اور ماہیات اشیا ء کے حاصل کرنے میں اس قدر دل چسپی ہوتی ہے تو مقتضائے عقل یہ ـضرور ہونا چاہئیے کہ آدمی پہلے اپنی اور عالم کی حقیقت معلو م کر ے کہ وہ ممکن ہے یا واجب ۔ اور جب اجزائے عالم کو دیکھ کر یہ معلوم ہوجائے کہ خود بخود کوئی چیز پیدانہیں ہوسکتی جب تک کوئی پیدا نہ کرے تو عقلاً اس سے خالق عالم کا ثبوت ہوجاتا ہے یہی و جہ ہے کہ تقریباً کل انسان خالق کے قائل ہوں۔ اس کے بعد فطرتی تحقیق پسندی کا مقتضی ہے کہ اپنے خالق کے حالات اور کیفیت تخلیق عالم وغیرہ امور معلوم کرے اس لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ثابت ہوتی ہے جو حق تعالیٰ کے اور ہمارے بیچ میں واسطہ ہو اور تشنگان علوم آلیہہ کو ان کے خالق کے حالات اور پیام پہو نچا یا کرے۔ یہاں اس بات کی طرف توجہ کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں کہ وہ شخص پیغامبر کیسا ہونا چاہئیے اور اس کے پہچاننے کے کیا طریقے ہیں کیونکہ وہ ایک مستقل وسیع بحث ہے یہاں اسی قدر معلوم کرنا کافی ہے کہ عقل کی روسے نبی کی ضرورت ثابت ہے۔
رہی یہ بات کہ بہت سارے عقلاء اس مسئلہ کی طرف توجہ نہیں کرتے سو اس کے اسباب دوسرے ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے جو ابھی معلوم ہواکہ قوت شہویہ اور غضبیہ کے جھگڑوں میں نفس نا طقہ ایسا مشغول ہو جاتا ہے کہ قوت ملکیہ سے کام لینے کی نوبت ہی نہیں آتی۔مگر یہ عذراس کا قابل قبول نہیں ہوسکتا اسلئے کہ جب اس کی فطرت میں تحقیق حقایق اور ہر قسم کے ادراکات کی طرف توجہ تام رکھی ہے تو اس کو ضرور ہے کہ انبیا علیہم السلام نے جو خبریں سنائی ہیں ان میں غور و فکر کرکے خالق کی تصدیق کرے جس طرح تقریباً کل بنی نوع انسان اس کی تصدیق کرتے ہیں گو ان میں مشرک بھی ہیں مگر وہ بھی ایک خالق کو ضرور مانتے ہیں اسلئے کہ جب تین کو مثلاً کسی نے مان لیا تو ایک کو بطریق اولیٰ مانا۔ یہ بحث دوسری ہے کہ اس قسم کے توحید مفید ہوگی یا نہیں۔ ہمارا مقصود یہاں اسی قدر ہے کہ عقل تحقیق پسند خالق کے وجود کو ضرورمانتی ہے۔ اگر چہ عقلا صرف دنیوی کام میں لگ کر اس طرف توجہ نکریں اور خالق کو نہ مانیں تو وہ تقریباً تمام انسانوں کے مقابلہ میں کسی شمار میں نہیں آسکتے۔
بعض حکمانے جوصرف دنیوی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے حقایق اشیا ء میں خوض و فکر کی اور ان سے منافع دنیوی بھی حاصل کئے اور خدا کی طرف بالکل توجہ نہ کی ان پر یہ الزام ضرور عاید ہوتا ہے کہ اس قدر سعادت دنیوی کے پیچھے کیوں پڑگئے کہ سعادت دینے والے سے با لکل اعراض اور انحراف ہوگیا۔ اتنا تو جانا ہوتا کہ جس عقل کے ذریعہ سے یہ سعادتیں حاصل ہوئی ہیں نہ اس کو اپنی ذات سے پیداکیا نہ کسی سے مستعار لیا آخر وہ بھی عدم سے وجود میں آئے اور کسی چیز کا وجود میں آنا ممکن نہیں جب تک خالق اس کو وجود نہ دے ادنیٰ جھونپڑا خود بخود نہیں بن سکتا پھراتنا بڑا عالم اور عقل جیسی بے نظیر چیز بغیر خالق کے بنائے کیونکر بن گئی ۔ا ور ایسی بے بدل نعمتیں دینے کا عقلاً کوئی حق ہے یا نہیں۔ اور اس نے انبیا علیہ السلام کے ذریعہ سے جواپنے حقوق معلوم کرائے اس میں غور کیا ہوتا کہ آخر ہم آدمی ہیں جانور نہیں جو مرفوع القلم ہوں ۔ ہم جس بادشاہ کے ملک میں رہیں اس کی سیادت کا اعتراف کرنا اور حقوق شاہی کا اداکرنا ہم پر ضرور ہے۔ جب بادشاہ کا اعتراف کرنا اور حقوق کی ادائی ضرورہے تو خالق جس نے ہمیں پیداکیا اور جس کی خدائی میں ہم بستیاں آبادکرکے بے انتہا فوائد حاصل کرتے ہیں اس کا اعتراف اور اس کے حقوق کی ادائی کس قدر ضروری ہوگی۔ پھر کسی نبی ؐنے یہ فرمایش نہیں کی کہ دنیاچھوڑکر ہمہ تن عبادت الٓہی میں مشغول ہوجائو بلکہ نبیؐ نے اس عالم میں آسایش سے بسر کرنے کے وہ طریقے بتلائے کہ سب مرفہ الحال اور دولت تمدن سے مالا مال ہوجائیں اور سعادت دنیوی پورے طور پر حاصل کرنے کے لئے ہمارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انتم اعلم باموردنیا کم جس سے صاف اجازت دینی معلوم ہوتی ہے کہ اپنے علم سے کلیں ایجاد کرو۔ تجارت کرو۔زراعت کرو۔ جوچاہو کرو مگر خالق کا اعتراف کر کے چند حقوق اس کے اداکر دو ۔ پھر یہ ادائے حقوق بھی بیکار نہ جائے گی بلکہ اس کے صلہ میں ہمیشہ کے لئے ایسی ایسی نعمتیں دی جائیںگی جن کا مثل کسی نے دیکھا نہ سُنا۔
ہر چند بات بہت آسان تھی اورجتنی مشقتیں دنیا طلبی میں کی جاتی ہیں اتنی بھی مشقت اس میں نہیں مگر یہاں ایک راز ہی دوسرا ہے ممکن نہیں کہ ہر کس و ناکس خداورسولصلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرلے اسی کو دیکھ لیجئے کہ کیا ممکن ہے کہ کوئی نوع جانوروں کی اپنے میں حاجتوں کو پیدا کرکے نعمت تمدن حاصل کرے ہر گز نہیں اسی طرح ممکن نہیں کہ ہر شخص خداو رسولﷺ کی تصدیق اپنے میں پیداکرکے سعادت ابدی کا استحقاق حاصل کرے کیونکہ جس طرح سعادت دنیوی کے لئے حق تعالیٰ نے صرف ایک نوع انسانی کو خاص فرمایا اسی طرح سعادت ابدی کے لئے اسی نوع کی ایک صنف کو مختص فرمایا اور باقی سب لوگ اس جرم میں مستحق شقاوت ابدی ہوئے، کہ باوجود عقل اور تمیز اور اقتضائے فطرت اور دعوت انبیاء کے نہ اپنے خالق کو مانا ،نہ اس کے حقوق ادا کئے ۔ اب ان کو مجال چوں و چرانہیں، اور نہ یہ پو چھ سکتے ہیں کہ کیا وجہ ہمارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نوع جنت میں ہیں اور ہم دوزخ میں ،کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ان کو عقل دی اور دولت تمدن سے ممتاز کر کے ہرطرح کی سعادت دنیوی دی ،پھر انبیاء علیہم السلام کو بھیجا تاکہ تمام حجت کریں باوجود اس کے انہوں نے کل نعمتوںکی نا شکری کی اور عقل کو دنیوی کاموں میںلگا دیا قوت ملکیہ کو بیکار کردیا اور مثل بہایم کے قوت بہیمیہ اور سبعیہ ہی کے مسخررہے۔اگر جانور یہ عذر پیش کریں کہ ہم نے کیا قصور کیا تھا جو دولت تمدن اور سعادت دنیوی سے محروم رکھے گئے تو کسی قدر ان کا عذر قابل توجہ ہوسکتا ہے بخلاف اس کے کفران نعمت کرنے والے کافروں کا عذر ہر گز قابل سماعت نہیں ہوسکتااسلئے کہ ان کو عقل دے کر سوچنے اور تحقیق کرنے کاموقع عمر بھر دیا گیا اور انبیا علیہم السلام کو بھیج کر حجت تمام کردی گئی اس پر بھی ان کو جنبش نہ ہوئی ۔
سبحان اللہ کیسی حکمت بالغہ ہے کہ خالق عزو جل سے کوئی معترضا نہ سوال ہی نہیں کرسکتا ۔ جانوروں کو عقل ہی نہیں جس سے بھلی بُری میں تمیز کرکے اپنی بے نصیبی اور محرومی پر مطلع ہوں اور سوال کی نوبت آئے البتہ آدمیوں کو عقل ہے مگر جب انہوں نے عقل سے خدا طلبی کا کام ہی نہ لیا اور بعضوں نے جو لیا تو اسی کو رہزن بنالیا تو اب کس منہ سے پو چھ سکتے ہیں کہ ہم کیوں محروم کئے گئے۔ صدق اللہ تعالیٰ لا یسال عمایفعل و ھم یسالون و قولہ تعالی وللّٰہ الحجۃ البالغہ۔
اب یہ دیکھنا چاہئے کہ سعادت ابدی حاصل کرنے والوں نے کیا کام کیا جس سے وہ اس دولت عظمیٰ کے مستحق ہوئے ۔ ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ انہوں نے قوت بہیمیہ اور سبعیہ کو مغلوب کر کے قوت ملکیہ کو مو قع دیا کہ اطمینان سے ا پنا کام کرے کیونکہ بغیر اس تدبیر کے ممکن نہ تھا کہ وہ کچھ کام کر سکے جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ ان قوتوں میں مبائنت ہے جو قوت مطلق العنان اور غالب کردی جائے دوسری قوتیں اس کے مقابلہ میں مغلوب بلکہ بیکار ہو جائے گی ۔غرضکہ ان کی عقل کو جب غور فکرکر نے کی فرصت ملی تو اس نے یہ بات بدلائل ثابت کردی کہ عالم کا ایک خالق ہے اس کی طرف سے پیغاموں کا پہونچنا اور اس کے حقوق بندوں پر واجب الادا ء ہونا ایک ضروری بات ہے پھر پیغامبروں کے حالات پر اس نے غور کیا تو یہ بات قا بل تصدیق معلوم ہوئی کہ جب تک وہ حضرات من جانب اللہ مامور نہ ہوئے ہوں نہ ان سے معجزات صادر ہوسکتے تھے نہ ایسے افعال جو اقتدار نفوس بشر یہ سے خارج ہیں ۔ پھران حقوق پر غور کیا جو بندوں پر مقرر ہیں دیکھا کہ کچھ تو خیال سے متعلق ہیں اور کچھ جوارح سے جن سے افعال صادر ہوتے ہیں اور ان سب میں یہ بات مد نظر ہے کہ اگر وہ پورے پورے اداکئے جائیں تو سردست فائدہ ہے کہ حالت تمدن کی اس درجہ اصلاح ہوجائے گی کہ دنیا میں کسی کو کسی سے شکایت کا موقع ہی نہ ملے گا اور پورے طورپر امن قایٔم ہوجائے گا۔ الحاصل جب انہوں نے تعصب اور عناد و غیرہ سے خالی الذہن ہوکر ان امور میں مکر ر،مکرر غور کیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ بے شک وہ کل احکام جو نبیصلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں سب خدا ئے تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور جو کچھ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اس کے صحیح ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ۔ جس کام کے کرنے یانہ کرنے پر جنت یا دوزخ کا وعدہ یا وعید حدیث شریف میں وارد ہے۔ اس پر ایسا یقین کہ گو یا دیکھ رہے ہیں ۔ اول تو اس مشاہدہ کی وجہ سے کوئی نا شایستہ حرکت ہی کیوں صادر ہونے لگی اور اگر خواہش نفسانی کے غلبہ سے کوئی صادر ہو بھی گئی تو بغیر مطالبہ کے درخواستیں پیش ہورہی ہیں کہ جو کچھ سزا ہو اسی عالم میں ہو جائے ۔
چنانچہ ماعزرضی اللہ عنہ کا واقعہ تمام اسلامی دنیا میں مشہور ہے کہ جب اتفاقاً ان سے زنا صادر ہوگیا تو فوراً حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور درخواست کی کہ رجم کا حکم صادر فرمایا جائے حضرتﷺ نے کسی قدر تا خیر کی مگر سزائے اخروی کے مشاہدہ سے باربار یہی عرض کرتے تھے کہ اب تاخیر نہ فرمائی جائے ۔چنانچہ جب رجم ہوچکا اس وقت ان کی جان کو تسکین ہوئی۔
جنگ قادسیہ میں جب رستم فوج کثیر اور بہت سے ہاتھیوں کو لیکر مسلمانوں کے مقابل ہوا اور لڑائی کا ہنگا مہ گرم ہوا۔ اس وقت ابومحجن ثقفی جو شراب پینے کے جرم میں مقید تھے قید خانہ کے دریچہ سے لڑائی کا تماشہ دیکھ کر بے اختیار ہوئے جاتے تھے آخر ضبط نہ کر سکے اور سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی بیوی سلمیٰ کے پاس گئے کہ خدا کے لئے اس وقت مجھے چھوڑ دو لڑائی سے جیتابچا توخود، آکر بیڑیاں پہن لونگا۔ چنانچہ انہوں نے ان کی بیڑیاں کاٹ دیں انہوں نے فوراً گھوڑے پر سوار ہوکر اس زور شور سے لشکر مخالف پر حملہ کیا کہ جس طرف نکل گئے صف کی صف اُلٹ دی اسی طرح دن بھرتنہا حملہ کرتے رہے جس سے سعد رضی اللہ عنہ اور سب مسلمانوں کو تحیر تھاکہ یہ کون بہادر ہے جوا س طرح ہمدردی کررہا ہے جب شام ہوئی تو خود قید خانہ میں جاکر بیڑیاں پہن لیں سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے سب حالات سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کئے انہوں نے اُسی وقت اُن کو رہا کردیا اور کہا کہ خدا کی قسم مسلمانوں پر جو شخص یوں نثار ہو میں اُسکو سزا نہیں دے سکتا ابو محجن نے کہا بخدا میں بھی آج سے پھرکسی شراب کو ہاتھ نہ لگائونگا۔ دیکھئے یہ ایمان ہے، قید خانہ میں پڑے سزا بھگت رہے ہیں۔ مگر دل میں ایمان اس درجہ جوش زن ہے کہ اُنکا ذرا بھی ملال نہیں پھراُس حیرت انگیز جان بازی کے بعد ایک لفظ تک زبان پر نہ آیا کہ آج ہم نے یہ کام کیا، بلکہ حسب وعدہ اپنے ہاتھوں سے بیڑیاں پہن لیں اور باوجود اُس شجاعت خداداد کے حکم شر عی میں ذرا بھی فرق نہ آنے دیا۔
اصل منشا اسکا یہ تھا کہ جب یہ آ یہ شر یف نازل ہوئی اِن اللّٰہ ا شتری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃیعنی خدا ئے تعالیٰ نے مسلمانوں کی جان و مال جنت کے معاوضہ میں خریدلئے ) تو اہل ایمان نے اپنی جان و مال پرسے اپنا تصرف اُٹھا کر خدائے تعالیٰ کے تصرف میں دے دیا کہ جس طرح کا حکم ان میں جاری فرمائے سر مو انحراف نہوگا گویا جان و مال کو اپنے پاس صرف عاریت سمجھتے تھے۔
جنگ یر موک میں جب معرکہ کار زار گرم ہوا اور عیسائیوں کے حملوں سے مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے اور شرجیل رضی اللہ عنہ کو کفار نے گھیر لیا اُس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ رومیوں کا چاروں طرف سے نر غہ تھا اور آپ پہاڑ کی طرح بیچ میں ڈٹے کھڑے یہ آیت پڑھ رہے تھے اِن اللّٰہ ا شتری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃاور نعرہ مارتے تھے کہ خدا کے ساتھ سوداکرنے والے اور خدا کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں یہ آواز جس کے کان میں پڑی بے اختیار لوٹ پڑایہاں تک کہ اُکھڑی ہوئی فوج بھی سنبھل گئی اور شر جیل رضی اللہ عنہ نے اُن کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو ٹوٹے چلے آتے تھے بڑھنے سے رُک گئے۔ غرضکہ خدا کی راہ میں جان کا دینا اُن پر اُتنا بھی گراں نہیں ہو تا جس قدر ہم پر راہ خدا میں پیسہ دیناگراں ہوتا ہے۔
الحاصل اُن کے ایمان نے اُن کے قوائے شہویہ اور غضبیہ پر اس قدر گہرا اثرڈالاتھا کہ تقریباً کوئی فعل اُن سے صادر نہیں ہوتا جو خلاف مرضی الٰہی ہو۔ اسی ایمان کی بدولت ہر ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتا تھا ایسے بھائی نہیں جو آجکل دیکھے جاتے ہیں بلکہ ایسے کہ اجنبی شہر وں کے لوگ کہ جن کو نہ کبھی دیکھانہ اُنکا نام سُناجب اپنے شہر وں میں آ گئے تو تقسیم کر کے برابر آدھا مال اُنکو دیدیا اور اگر دوبی بیاں کسی کے نکاح میں ہیں تو کہہ دیا کہ جس کو چاہو پسند کرکے نکاح کر لو اور اُس کو طلاق دینے پر مستعد ہوگئے اب بتائیے کیا اس سے بڑ ھ کر کو ئی ہمدردی اور اخوت ہوسکتی ہے۔
ادنیٰ تا مل سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ جس قوم میں یہ اتحاد و ہمدردی ہو وہاں کہ تمدن کی کیا حالت ہوگی اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایمان اور تمدن میں کس قسم کا ربط ہے۔یہ تو مسلمانوں کی تعلیم میں ایک عام بات تھی اس کے سواہر ایک جزئی اور خاص خاص معاملات تمدن میں جو جو تعلیمیں ہوئی ہیں اُنکی گنجایش اس مختصر میں کہاں اُن سے تو کئی علم مدون ہوگئے جنکی ہزارہا کتابیں موجود ہیں۔ منجملہ اُن کے چند امور بطور مشتے نمونہ از خروارے لکھے جاتے ہیں۔
وہ امورجن کے کرنے کی فضیلت اور تاکید ہے
ہر کام میں نیک نیتی۔صدق۔راست بازی۔اتحاد باہمی۔ خوش خلقی ۔امانت داری ۔دیانت داری ۔ ایک دوسرے کی مدد۔ سفارش ۔حاجت روائی ۔ بیمارپر سی۔ مسافر نوازی۔ ایفائے وعدہ ۔اصلاح بین الناس۔ادائی شہادت۔ مشورت۔ نیک مشورت دینی۔ تواضع۔ قناعت۔ عفو تقصیر۔عیب پوشی۔ماں باپ اور اپنے حاکم کی فرمانبرداری کل حقوق کی ادائی۔بزرگوں کی تعظیم۔چھوٹوں پر شفقت ۔صلہ رحمی۔ جوبات اپنے لئے پسند کی جاتی ہے دوسرے کیلئے پسند کرنی۔ محتاجوں کی خبر گیری۔ سخاوت ۔رحم۔ لونڈی غلام کو اپنے بہائی بہن کے برابر سمجھنا اور آپ جو کھاتے اور پہنتے ہیں ان کو بھی وہی کھلانا اور پہنانا ۔ فریا درسی ۔ظالم کے پنجے سے مظلوم کو چھڑانا۔عدل و انصاف جس کام پر اُجرت لی گئی اس کو دیانت اورعمدگی سے اداکرنا ۔مسافر خانے۔ پُل ۔کنویں اور راستوں کی تعمیر و ترمیم ۔اشاعت علم میںکو شش۔ حرفہ اور کسب سے اپنی اور اپنے عیال کی پرورش ۔ہر کام اُس کے اہل سے لینا وغیرہ و غیرہ۔
وہ امور جن سے بچنے اور احتراز کرنیکی تاکید ہے
جھوٹ۔وعدہ خلافی۔عہد شکنی۔ جھوٹی گواہی۔افتراپردازی ۔ بہتان۔ غیبت چغلی۔سخن چینی۔لوگوں کے عیوب کی تجسس۔استہزا تمسخر۔تحقیر توہین۔ہجو۔دل شکنی۔ سخت کلامی۔ سب وشتم۔فحش و بیہودہ گوئی۔ فتنہ انگیزی۔ مکر۔فریب۔چاپلوسی۔قماربازی۔ناپ تول کی کمی ۔ دغا بازی ۔ غصب ۔چوری۔مفسدہ پردازی۔ بغاوت۔غارتگری۔اذیت رسانی۔ سوال ۔ بھیک مانگنی۔حرص۔طمع۔عداوت۔بغض۔حسد۔کینہ۔تین روزسے زیادہ کسی سے رکے رہنا۔تخویف۔جن امور سے نزاع اور جھگڑے پیدا ہوں اُنکا ارتکاب۔نشہ کی چیزوں کا استعمال۔ظلم۔رشوت۔لوگوں کی آمد و شد کے مواقع کو نجس کرنا جس سے اُن کو تکلیف ہو۔احتکار یعنی غلہ کو اس خیال سے روک رکھنا کہ اگر مہنگا ہوگا تو بیچیں گے وغیرہ۔
اس میں شک نہیں کہ حکماء بھی اصلاح تمدن کے جو اصول ایجاد کرتے رہتے ہیں اُن میں بھی اکثر اسی قسم کی باتیںہیں مگرصرف اصول قراردینے سے قوائے شہویہ و غضبیہ کی اصلاح ممکن نہیں اس لئے کہ جو قواعد عقل سے ایجاد کئے جاتے ہیں اُن کے توڑنے کی تدبیریں بھی عقل ہی سے ایجاد کر لیا کرتے ہیں ۔مثلاً جھوٹ کہنا قانون میں بھی جرم ہے۔ مگر جن کو ایمان سے کوئی تعلق نہ ہو اپنا مقصود حاصل کرنے کی غرض سے جس بات کو چاہیں خلاف واقع قانونی پیرایہ میں لا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اس خلاف واقعہ یعنے جھوٹ کا ثابت ہونا ہی مشکل ہوگا۔اسی پر تمام جرموں کا قیاس ممکن ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ قانون حکما ء کا مقتضیٰ نہیں ہوسکتا کہ اصلاح تمدن ہو بلکہ خود غرض حاکم سیرتوں کی عقلوں کو اس طرف متوجہ کردے گا کہ واقعات کی حیثیت اور نو عیت بدل کر کسی قانونی دفعہ کے تحت میں داخل کردیں اور جس طرح ممکن ہو اپنی خواہشیں پوری کیا کریں جس سے راستی پسند جن کی طبیعت میں مکروفریب و دغا بازی نہ ہو ہمیشہ ایسے لوگوں کے قابو میں اس طرح پھنسے رہیںگے جیسے بکری بھیڑئیے کے چنگل میں ہوتی ہے۔ بخلاف اس کے ایمان کا ـ ذاتی مقتضیٰ یہ ہے کہ کوئی ایسی حرکت جس میں کسی کی حق تلفی یا ظلم و زیادتی ہوہر گز وقوع میں نہ آسکے اس لئے کہ ہر ایماندار جس کو کامل یقین ہو کہ خدائے تعالیٰ دل کی باتوں کو بھی جانتا ہے اور ہر بات کی جزا و سزا دوسرے عالم میں ضرور ہونے والی ہے اور ایک روزایسا آنے والا ہے کہ خدا کے روبرو ہم حاضر ہوں گے اور اُن تمام اعمال کا محاسبہ ہوگا جو ساری عمر میں کئے تھے۔اور جرائم کا اثبات اس طور پر ہوگا کہ علاوہ دوسرے گواہوں کے خود ہمارے ہاتھ پائوںوغیرہ اعضاء ہمارے گناہوں پر گواہی دیں گے جس کا انکار ہم سے ممکن نہوگا۔ توایسا شخص کبھی یہ خیال نہیں کرسکتا کہ خواہش نفسانی کو کسی حکم شرعی کے تحت میں لاکر خدائے تعالیٰ کو دھوکہ دیناممکن ہے اس لئے ہر خواہش نفسانی کے وقت ایماندار کویہ خیال ضرور آئیگا کہ آیا خدا ے تعالیٰ نے اس کام کی اجازت دی ہے یا نہیں اور جب اُس کو علم کے ذریعہ سے معلوم ہو جائیگا کہ اُس کی اجازت نہیں تو ضرور اُس سے احتراز کرے گا۔ اس طریقہ سے جتنے افعال قواے شہویہ اور غضبیہ سے متعلق ہیں سب کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی کیو نکہ آدمی کی طبیعت کا مقتضیٰ ہے کہ جو خیال اُس پر غالب ہو دوسرے خیال کو اثر کرنے سے روک دیتا ہے دیکھ لیجئے جب کسی سے سخت خصومت ہوتی ہے تو ہر چند با قتضائے قوت غضبیہ بسااوقات مخالفت کو قتل کرنے کا خیال پیداہوجاتا ہے اور اس خیال کو تائید دینے والے آلات و اسباب بھی موجو ہوتے ہیں مگر اُس کے ساتھ ہی قصاص اور انتقام کا خیال اُس خیال سابق پر ایسا غالب آجاتا ہے کہ آدمی قتل پر اقدام نہیں کرسکتا۔ اگر سلطنت کی طرف سے قصاص و انتقام نہو تو معلوم نہیں روز کتنے واردات ہواکریں۔ غرضکہ آدمی کو خیال سزاو انتقام اکثر جرائم سے روک دیتاہے اسطرح قواے شہویہ اور غضبیہ کے ناجائز تصرفات کے وقت خیال انتقام اخروی ایماندار کو ارتکاب جرائم اور خلاف شرع امور سے ضرور روک دے گا جس سے اصلاح تمدن خودبخود ہو جائے گی یہاں یہ اعتراص پیدا ہوتا ہے کہ جب ایمان کا مقتضیٰ یہ ہے تو چاہئے کہ کسی مسلمان سے ایسے افعال صادر نہوں جو مضر تمدن ہوں ۔اسکا جواب یہ ہے کہ یہ بحث دوسری ہے اسکا تعلق اُن اشخاص سے ہے جن سے افعال صادر ہوتے ہیں ہمار ا کلام یہاں نفس ایمان کے ذاتی مقتضیٰ میں ہے سو بفضلہ تعالیٰ اہل انصاف سمجھ گئے ہوں گے کہ ایمان کا ذاتی مقتضیٰ اصلاح تمدن ہے جس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا۔
اب ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ اصلاح تمدن میں ایمان کی کیسی حیرت انگیزتاثیریں ہیں۔
جب آنحصرتصلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور مہا جرین و انصار میں مسئلہ خلافت میں بحث شروع ہوئی تو انصار نے اس وجہ سے کہ ملک اُنہی کا تھا مہاجرین سے کہا کہ کم سے کم اتنا تو چاہئیے کہ ہم میں سے بھی ایک امیر ہو مگر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کے پیشتر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کونماز پڑھانے کے لئے مقرر فرمایا تھا اب آپ میں سے کس کا نفس گوارا کرتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امامت کرے اُنہوں نے کہا نعوذباللہ ہم ہر گز اس کو گوارا نہیں کرسکتے چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوگیا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت مسلم ہو گئی۔
اب دیکھئے کہ اسلامی دنیا کی سلطنت صرف ایک بات پر ترک کردینا خصوصاً ایسے موقع میں کہ ملک سابق سے اپنا ہی ہوکیا کوئی معمولی بات ہے۔ یہ ایمان کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا کہ صرف اس بات پر کہ اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو نماز میں امام بنایا تھا اُنکی امامت کیوں کریں سلطنت چھوڑدی اور اُس مہذب قوم میں کسی فر د بشر کی زبان پر یہ نہ آسکا کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کجا خدمت پیش نمازی اور کجا سلطنت ۔ایمان اسے کہتے ہیں کہ اگر سلطنت ملتی ہو اور معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مرضی ہے تو اُس کی خواہش میں ایک لفظ زبان سے نہ نکل سکے۔اب غور کیا جائے کہ جس قوم کے قوائے شہویہ اور غضبیہ کی تہذیب ایمان نے اس قسم کی کی ہو تو اُن کے اخلاق و عادات کی کیا کیفیت ہوگی اور اُس زمانہ کا تمدن کس اعلیٰ درجہ پر ترقی کیا ہوگا اور کیسا امن و امان قایٔم ہو ا ہوگا۔مولوی شبلی صاحب نے الفاروق میں لکھا ہے کہ جب اہل اسلام نے عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اکثر مقامات شام کو فتح کر لیا توقیصر کو نہایت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ شاہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلہ میں صرف کردیا جائے ۔چنانچہ روم قسطنطنیہ جزیرہ اور ارمینیہ کی اتنی فوجیں جمع کیں کہ انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھی فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا۔ جب ابو عبید ہ رضی اللہ عنہ کو اس باب میں متواترخبریںپہونچیں اور یہ رائے قائم ہوئی کہ حمص چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں تو آپ نے حبیب ابن مسلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلاکر کہا کہ عیسائیوںسے جو جزیہ یا خراج لیا جاتا ہے اس معاوضہ میں لیا جاتا ہے کہ ہم اُن کو اُن کے دشمن سے بچا سکیں لیکن اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم اُن کی حفاظت کا ذمہ نہیں اُٹھا سکتے اس لئے جو کچھ اُن سے وصول ہوا ہے سب اُن کو واپس دیدو اور اُن سے کہدو کہ ہم کو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے اس لئے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے تم کو واپس کیا جاتا ہے چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کل واپس کردی گئی عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو جلد واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہواکہ انہوں نے کہا تو ریت کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کردئیے اورہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتائو نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہوچکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہوواپس کردی جائے ۔‘‘ دیکھئے اسلامی تمدن کا یہ اثر تھا کہ دشمنان اسلام مسلمانوں کے ہمدرداور خیر خواہ ہوگئے اور باوجود یکہ وہ قدیم سے عیسائی سلطنت تھی اور مذہبی جوش ان کا ہنوز فرد نہیں ہوا تھا مگر حسن تمدن نے تھوڑے سے عرصہ میں اُن کو کس قدر گرویدہ بنا لیا تھا کہ وہ دل سے مسلمانوں کے ہواخواہ بن گئے اور اُنکی مفارقت پر ایسا روتے تھے جیسے قدیم دوست کی جدائی پر کوئی روتا ہے۔
جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت مسلم ہوگئی اور لوازم تخت نشینی اداکئے گئے یعنے مہاجرین اور انصار نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو دوسرے روز آپ حسب عادت چادروں کا گٹھالئے ہوئے بازار کو چلے جارہے تھے راستہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی آپ نے پو چھا کہاں تشریف لے جاتے ہیں ۔ فرمایا بازار۔کہا حضرت آپ خلیفہ وقت اور تمام مسلمانوں کے بادشاہ ہو گئے ہیں اب آپ کو اس کام سے کیا مناسبت فرمایا اگرمیں تجارت نہ کروں تو اپنے عیا ل کو کہا ںسے کھلائوں ،کہا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلئے وہ آپ کے لئے کچھ مقرر کردیں گے چنانچہ دونوں صاحب اُنکے گھر گئے اور درخواست کی انہوں نے کہا میں ایک مہا جر شخص کا قوت آپ کے لئے مقر ر کردیتا ہوں نہ اس سے زیادہ نہ کم اور گرما و سرما کا لباس بھی آپکو دیا جائیگا بشر طیکہ جب وہ بوسیدہ ہو جائے تو واپس لادیں اور اُسکے معاوضہ میں نیا لے جائیں۔ پھر دونوں صاحبوں نے مشورہ سے روزانہ آدھی بکری ان کے لئے مقرر کردی مگر اُ س میں بھی بحث رہی کہ سراور پیٹ کا ساماں نہ دیا جائے گا آخر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اُسی پر راضی ہو گئے۔
اب دیکھئے کہ خلیفتہ اللہ دولت اسلامی کے بادشاہ چادروں کا گٹھا اُٹھا ئے ہوئے قوت حلال کی طلب میں بازار جارہے ہیں۔ پھر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے گھر اس غرض سے تشریف لیجارہے ہیں کہ اپنی اور اپنے عیال کی قوت بسری کیلئے کچھ مقر رکردیں اور مجال نہیں کہ اُن کے حکم کی مخالفت سر موکریں صرف اس وجہ سے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے اُنکو امین ہذہ الامہ فرمایا تھا ۔پھر معمولی لباس اور خوارک کے مقرر کرنے میں بھی اقسام کی شرطیں لگائی جارہی ہیں ۔اور خلیفۃالمسلمین نے یہ بھی نہ کہا کہ آپ ہیں کون اور میرے مقابلہ میں آپ کو حق ہی کیا ۔ دیکھئے ایمان کا یہ اثر تھا کہ خلیفہ وقت کو اپنے اقتداری میں تصرف کرنے سے روک کراپنے محکوم شخص کے حکم کا محتاج بنادیا۔جہاں بادشاہ کی یہ حالت ہوکہ رعایا کے حقوق سے اپنے حق کی زیادتی سر موگوارا نہ ہو تو کیا ممکن ہے کہ کوئی کسی پر زیادتی اور تعدی کرسکے۔

بشری الکرام فی عمل المو لدو القیام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللّٰہ رب ا لعٰا لمین و الصَّلوۃ و السلام علیٰ سَیّدنا مُحمدِِِِِِِِِِِِ و الہ و اصحابہ اجمَعین
اَمَّا بَعْد اولی الا بصار واہل بصیرت پر پو شیدہ نہیں کہ جب آفتاب جہا ں تاب عالم کو اپنے نور سے معمورکرنا چاہتا ہے تو قبل طلوع طرب و سرور کا ایک بیش بہا سامان مہیا ہوجاتاہے ۔ جدھردیکھئے دلربایانہ انداز ہے۔ اور فرحت و سرور و مساز۔ صحرا کا خو شنما منظر دل کو وسعت آباد بنا دیتا ہے۔ وحشت خیز پہاڑوں کاسماں بھی دلوں کو لبھانے لگتا ہے۔ نسیم کی مستانہ خیزرفتار ہر شاخ و برگ کو وجد میں لاتی ہے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوادم بدم قالب میں جان تازہ پھونکتی جاتی ہے۔ تاریکی شب نے حواس کو جو تیرہ تار بنا دیا تھانورانیت فضا اُنکو پھر نورانی بناتی ہے۔ طیور کے نغمات افسردہ دلوں کو غنچہ کی طرح کھلاتے ہیں۔وحوش کی گرم جولانیاں دیکھ کر غصہ و فکر دور ہوجاتے ہیں۔غم ظلمت شب کے ساتھ منور اور دل سرورسے معمور ہوتا ہے یہ سب فیضان ،اُس نور کا ہے جو آفتاب عالمتاب کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق رکھتا ہے ۔اب غور کیجئے کہ جب اجسام کے روشن کرنیوالے آفتاب سے اس قدر فرحت و مسرت ہر طرف جوش زن ہوتو آفتاب روحانی کے قدوم میمنت لزوم سے کسقدر فرحت و سرور کا جوش ہونا چاہئے۔ دیکھئے مبدا کائنات ،سرور موجوداتصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔’’ انا من نوراللہ و کل شئی من نوری‘‘ یعنے میں اللہ کے نور سے بنا اور ہر چیز میرے نور سے پیدا ہوئی وہی نور ہے جس کی طرف اس آیت شریف میں اشارہ ہے’’ ا للہ نورالسموات والارض مثل نورہ کمشکوٰۃ فیھا مصباح‘‘اور ارشاد ہے’’ قدجاء کم من اللہ نور‘‘ یہی مقدس نور ہے کہ جب آدم علیہ السلام کی پیشانی میں آیا، ان کو مسجود ملائک بنایا ،یہ وہ نور ہے کہ ساکنا ن ظلمت کد ہ عدم کو اس قابل بنایا کہ انوار وجودکااقتباس کرسکیں۔
اب سنئے کہ اس معنوی اور اصلی نور کے طلوع کے وقت عالم غیب و شہادت میں کس قدر اہتمام ہواتھا ۔حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ’’کہ حضرتؐ کی ولادت باسعادت کے وقت مجھ سے ایک ایسا نور نکلاکہ اُس سے تمام عالم منورہ ہوگیا۔ ‘‘چنانچہ شام کے مکانات مجھے نظر آنے لگے۔
عثمان ابن ابی العاص کی والدہ جو میلاد شریف کی رات حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر تھیں ۔ بیان کرتی ہیں کہ قبل ولادت شریف گھر میں جدھر میںنظر ڈالتی تھی نور ہی نور نظر آتا تھا اور اُسوقت ستاروں کی یہ کیفیت محسوس ہوئی تھی کہ گویا وہ اس مکان پر ٹوٹ پڑرہے ہیں۔
شفا رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ’’ اُس نور سے مجھے اسقدر انکشاف ہوا کہ مشرق اور مغرب تک میری نظر پہنچنے لگی اور روم کے مکانات میں نے دیکھے ‘‘ہر چندیہ نور جسکی خبریں دی گئیں ظاہر اًنور ہی تھا مگر اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی ۔بصارت کو ہمرنگ بصیرت کرکے کل جسمانی ظلمات کو منور کردینا معمولی نور کا کام نہیں ،یہ آفتاب کا نور نہ تھا کہ اجسام کی سطح بالا ئی پر ٹھیرجاتا بلکہ یہ اُ س ذات مقدس کا نور تھا جو انا من نوراللہ کی مصداق ہے یہ نو راجسام کے اندر سرایت کئے ہوئے تھا غرضکہ اُ س روز عالم میں ایک خاص قسم کی روشنی ہوئی تھی جسکے ادر اک میں عقل خیرہ ہے۔ اور اُ س روز ملائکہ کو حکم ہوا تھا کہ تمام آسمانوں کے اور تمام جنتوں کے دروازے کھول دیں اور زمین پر حاضر ہوجائیں ۔ چنانچہ کل ملائکہ کمال مسرت سے زمین پر اُترآئے۔
اُس روز نہر کو ثر پر ستر ہزار خوشبو کے جھاڑنصب کئے گئے تھے جنکا ثمراہل جنت کے لئے بخور بنایاجائے گا۔ اس واقعہ کی یادگارمیں ہر آسمان پر ایک ستون زمرد کا اور ایک ستون یاقوت کا نصب کیا گیا ۔اُس رات میں شیاطین مقید کئے گئے۔ کاہنوں کی خبریں بند ہوگئیں سارے جہاں کے بُت سربسجود ہوئے۔ فارس کے آتش کدے جنکی پرستش سالہاسال سے ہوتی تھی بجھ گئی۔ماہران نجوم ہر طرف خبریں دینے لگے کہ آج نبی آخرالزماں ﷺکا ستارہ طلوع ہوا اور قوم بنی اسرائیل سے نبوت جاتی رہی اب عرب و عجم نبی آخرالزمان ﷺکے مطیع اور فرماں بردار ہوجائیں گے۔
اُس رات بادشاہوں کے تخت نگو نسارہوگئے۔ ایوان کسریٰ کو زلزلہ ہوا جس سے چودہ کنگر ے اس کے گرگئے ،زبان اشارت یہ کہ رہی تھی کہ بادشاہ وقت کے چودہ پشت تک سلطنت رہے گی ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ چودھویں پشت کے بعد ملک کسریٰ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔
غرضکہ اس مبارک رات میں اس قسم کے بہت سے قدرتی اہتمام ایسے ظہور میں آئے ۔کہ جنکی نظیر نہیں مل سکتی ۔ فی الحقیقت آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہی ایسی تھی کیونکہ آپ باعث ایجاد عالم و آدم ہیں ۔جیسا کہ لولاک لما خلقت الا فلا ک اور لولاک لما خلقتک سے ظاہر ہے۔
نبوت جو سلطنت خدائی میں اعلیٰ درجہ کا منصب ہے اس کا سلسلہ آپ ہی سے شروع ہوا جیسا کہ حضرتﷺ فرماتے ہیں کنت نبیاوآدم بین الماء والطین۔اورایک روایت میں ہے کنت نبیا وآدم بین الروح والجسد یعنے میں اُس وقت نبی تھا کہ آدم علیہ السلام ہنوزپیدا نہیں ہوئے تھے پھر انبیا ء گو یا آپ کے امتی بنائے گئے ۔کیونکہ آپ پر ایمان لانے کا صرف حکم ہی نہیں بلکہ نہایت شدومد سے اقرار لیا گیا ۔کما قال اللہ واذ اخذاللہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتو منن بہ ولتنصر ن قالء اقررتم واخذتم علی ذالکم اصری قالوا اقررنا قال فاشھد وا وانا معکم من الشا ھدین۔
یعنے جب لیا اللہ نے اقرا رنبیوں کا کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آئے تمہارے پاس رسول جو سچ بتادے اُس کو جو تمہارے پاس ہے تو البتہ ایمان لائواُس پر اور البتہ مدددینا ان کوفرمایا۔کیا تم نے اقرارکیا اور لیا تم نے اس پر بھاری عہد میرا ۔کہا انہوںنے اقرار کیا۔ ہم نے فرمایا تو اب شاہد رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ شاہدہوں انتہیٰ
اس سے ظاہر اً تمام انبیا علیھم السلام کا حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونا معلوم ہوتا ہے۔اسی وجہ کل انبیاء علیھم الصلواۃ والسلام قیامت میں حضرت کے جھنڈے کے نیچے رہیں گے۔ اور شب معراج حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی شان تمام انبیاء کو بتلادی گئی ۔ چنانچہ سب کے امام آپ ہی بنائے گئے اور سب نے آپ کی اقتدا کی کل انبیا کا یہ حال ہو، تو انکی امتوں کے امتی ہونے میں کیا تامل۔ اسی وجہ سے فرماتے ہیں۔ بعثت الی النا س کا فۃ یعنی کل انسانو ں کی طرف میں مبعوث ہواہوں ۔اور حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ وماارسلناک لاکا فۃ للنا س بشیراونذیرایعنے ہم نے تم کو سب آدمیوں کے واسطے بھیجا ۔خوشی اور ڈرسنانے کو ۔ ہر چند معنوی طورپرموسیٰ علیہ السلام حضرت کی امت میں داخل تھے مگر جب توریت میں حضرت ﷺکی خاص امت کے فضائل پر مطلع ہوئے تو دعا کی کہ ظاہری طور پربھی حضرت کی امت میں داخل ہوں ‘ عالم ملکوت میں آپ کی نام آوری اور شہرت کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ۔کہ حق تعالیٰ نے اپنے نام مبارک کے ساتھ اٖ آپ کا نام نامی یعنے محمدرسول اللہﷺ عرش پر اور ہر ایک آسمان میں جگہ جگہ اور جنت کے جہاڑوں اور طوبیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ کے ہر ایک پتے پر اور حوروں کے سینوں اور فرشتوں کے جبنیوں پر لکھا، جب تک کہ آدم علیہ السلام نے حضرت کے واسطے سے یہ کہہ کر دعا نہ کی کہ یا رب بحق محمدﷺ لماغفرت لی معافی نہ ہوئی۔
یہ اور ان کے سوا بہت سی روایتیں الخصائص الکبریٰ۔اور النہجۃ السویہ اور مواہب لدنیہ اور شفاء قاضی عیاض وغیرہ میں مذکور ہیں جن سے ثابت ہے کہ حضرت کا نام مبارک محمدصلی اللہ علیہ وسلم علی مسما ہ تمام عالم ملکوت وا لسموات میں لکھا ہوا ہے ۔ مقصود اس سے ظاہر ہے کہ اہل ملکوت وغیرہم معلوم کرلیں کہ تمام عالم میں حضرت سے زیادہ کوئی اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں ۔چنانچہ آدم علیہ السلام نے یہی خیال کرکے حضرت ﷺکے نام کے وسیلہ سے مغفرت چاہی۔
اب یہ دیکھ لیجئے کہ یہ نام مبارک حضرت ﷺکے لئے کیوں تجویز فرمایاگیا ۔بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو حمد نہایت محبوب اور مرغوب ہے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے اسی وجہ سے قرآن شریف کی ابتداء الحمدللہ رب العا لمین سے ہے جس کے معنی یہ ہیں ہر طرح کی۔ حمد خدا ہی کو سزاوارہے جو تمام جہان کا پروردگارہے۔اور نماز جو تمام عبادتوں میں اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔ اسکی ابتدا بلکہ ہرر کعت کی ابتدامیں الحمد پڑھنے کا حکم ہے۔ اور اہل ایمان جب جنت میں جائیں گے تو حمد کرتے ہوئے جائیں گے کما قال اللہ تعالی،ٰ وآخردعواھم ان الحمد للہ رب العالمین ۔یعنی آخر پکا رنا اُن کا یہ ہے کہ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جو پروردگار سارے جہان کا ہے۔انتہیٰ۔
اب دیکھئے کہ تمام حمد جب حق تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں جن کا مطلب یہ ہوا کہ سب حامد ہیں۔ اور حق تعالیٰ محمود ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے محمدﷺ یعنے حمد کردہ شدہ ہونے میں کیا تامل۔ باوجود اسکے یہ پیارا لقب حق تعالیٰ نے ازل سے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص فرمایا اور ابتدائی تکوین عالم سے عالم ملکوت میں اُسکی شہرت دی تاکہ اہل ملکوت پر یہ منکشف ہوجائے کہ جس لفظ کے معنی کا مصداق جناب باری ہووہ لفظ جس کے لئے تجویز کیا گیا وہ ضرور ایسے ہوںگے کہ عالم میں انکا نظیر نہ ہوگا۔ اس سے بکمال وضاحت یہ بات ثابت ہوگئی کہ عالم میں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا مثل نہیں ہوسکتا۔کیونکہ اب ممکن نہیں کہ کوئی دوسرا شخص ازل سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوسکے ۔ اور اِس سے یہ بھی صاف طورپر معلوم ہوا کہ جتنی تعریف و توصیف آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی ،کی جائے وہ باعث خوشنودی الٓہی ہے کیونکہ اس لقب کے عطا کرنے سے اور کیا مقصود ہوسکتا ہے ۔ اسی وجہ سے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم اشعار نعتیہ سے خوش ہوتے تھے ۔جس کا منشا خوشنودی الٓہی تھا ۔ النہجتہ السویۃ میں لکھا ہے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا لقب کتب سابقہ میںحمادین ہے تعجب نہیں کہ اِس لقب سے اس طرف بھی اشارہ ہوکہ اپنے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حمد و ہ کثرت سے کریں گے ۔اگر چہ کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے نام ہیں مگر چونکہ یہ پیارانام حق تعالیٰ کو نہایت محبوب ہے اس لئے ایمان سے اسکو کمال درجہ کا تعلق ہے۔ چنانچہ النہجتہ السویۃ میں لکھا ہے کہ کافر جب تک محمد رسولصلی اللہ علیہ وسلم نہ کہے اس کا ایمان صحیح نہیں ۔اور بجائے اُس کے احمدصلی اللہ علیہ وسلم کہنا کافی نہیں ہوسکتا ۔اس میںسر یہی ہے کہ ایمان لانے ہی کے وقت آدمی سمجھ جائے کہ حضرت قابل حمد وثنا ہیں اور حمد زبان اور دل سے کیا کرے ۔اور اسی میںبیہقی کی روایت نقل کی ہے کہ ایک جگہ محدثین کامجمع تھا یہ مسئلہ پیش ہواکہ عرب کے اشعارمیں کونسا شعر عمدہ ہے ۔سب کا اتفاق حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اس شعر پر ہوا ؎
وشق لہ من اسمہ لیجلہ
فذو العرش محمود وہذامحمدﷺ
یعنے حق تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان بتلانے کے لئے اُن کا نام اپنے نام سے مشتق کیا چنانچہ حق تعالی محمود ہے اور ہمارے نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں چونکہ لفظ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے معنی میں کمال درجہ کی جلالت شان معلوم ہوتی ہے جیسا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعر سے بھی ظاہر ہے ۔ اس لئے ابن موطی نے اُس کے فہم معنی میں متحیر ہوکر یہ تجویز کی کہ وہ علم مرتجل ہے(علم مرتجل اس کو کہتے ہیں کہ لفظ بغیر مناسبت کے دوسرے معنی میں نقل کیا جائے جیسے جعفرکہ نہر کے لئے موضوع تھا اور بعد میں کسی کا نام رکھا گیا۔ منقول اس کو کہتے ہیں کہ نقل کے وقت معنی سابق کی منا سبت ملحوظ ہو۔۱۲) مگر النہجۃ السویہ میں لکھا ہے کہ علما نے اُن کی غلطی ثابت کی اور کہا کہ وہ منقول اور باب تفعیل سے اسم مفعول ہے جس کے معنی حمد کردہ شدہ ہیں ۔اور صحاح میں لکھا ہے کہ للمحمدالذی کثرت خصالہٰ الحمیدہ انتہیٰ۔غرضکہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم ازل سے ہر ایک موطن ومقام میں ممتاز اور محمدﷺ رہے۔ النہجۃ السویۃ میں لکھا ہے کہ جس رات آپ پیداہوئے ملائکہ آپﷺ کو خلیفۃاللہ کہتے تھے ۔دیکھئے حق تعالی نے ملائکہ سے آدم علیہ السلام کے باب میں فرمایا تھا انی جاعل فی الا رض خلیفۃ جس سے ظاہرہے کہ اُن کی خلافت صرف زمین سے متعلق تھی ۔ لیکن فرشتے چونکہ افلاک وغیرہ میں دیکھتے تھے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک حق تعالیٰ کے نام مقدس کے ساتھ ہر جگہ مکتوب ہے ۔اس لئے انہو ںنے اُن کو علی الاطلاق خلیفۃ اللہ کہدیا ۔اور فی الارض کی قید جو آدم علیہ السلام کی خلافت میں ملحوظ تھی نہیں لگائی فرشتوں کی اس گواہی سے ثابت ہے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کل ملکوت میں خلیفۃ اللہ ہیں ۔اسی وجہ سے تمام آسمانوں کے ملائک اِس خلیفۃ اللہ کے سلام کے لئے روز میلادحاضرہوئے جن کا نزول اجلال تمام عالم کے حق میں رحمت تھا جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔وماارسلناک الارحمۃ للعالمین جب آپ رحمت مجسم ہوکر اس عالم میں تشریف لائے تو کون ایسا شقی ہوگا کہ نزول رحمت سے خوش نہ ہو ۔روایت ہے کہ تمام عالم میں اُس روزہر طرف خوشی تھی مگر شیطان کو کمال درجہ کا غم تھا جس سے زار زار روتا تھا۔ جبرئیل علیہ السلام، اُس کی یہ حالت دیکھ کر رہ نہ سکے اور ایک ایسی ٹھوکر اسکو ماری کہ عدن میں جاپڑا ۔غرضکہ جس طرح میلا دشریف کا غم کمال شقاوت کی دلیل ہے اُس کی مسرت کمال سعادت کی دلیل ہوگی ۔جیسا کہ اِس روایت سے ظاہر ہے جو کنزالعمال وغیرہ میںمذکور ہے کہ ابولہب کو جب ثویبہ نے جو اُس کی لونڈی تھی خبردی کہ تمہارے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کو لڑکا پیداہوا اُس کو اس خبر فرحت اثر سے نہایت خوشی ہوئی اور اس بشارت کے صلہ میں اُس کوآزاد کردیا ۔ابو لہب کے مرنے کے بعد کسی نے اُس کو خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا تو اُس نے اپنے معذب ہونے کا حال بیان کرکے کہا کہ ہر دوشنبہ کی رات اُس خوشی کے صلہ میں جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پیداہونے میں ہوئی تھی مجھ سے عذاب کی تخفیف ہوجاتی ہے اور میری اونگلیوں سے پانی نکلتا ہے جس کو چوسنے سے تسکین ہوتی ہے ۔دیکھئے جب ایسا ازلی شقی جس کی مذمت میں ایک کامل سورہ تبت یدا ابی لھب نازل ہوئی میلاد شریف کی مسرت ظاہر کرنے کی وجہ سے ایک خاص قسم کی رحمت کا مستحق ہوا اور وہ بھی کہاں عین دوزخ میں توخیال کیا جائے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کو اِس اظہار مسّرت کے صلہ میں کیسی کیسی سرفرازیاں ہوں گی۔اِسی مضمون کو حافظ شمس محمد بن ناصرالدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے نظم میں لکھا ہے۔
اذاکان ہذا کا فراً جاء ذمہ
اتی انہ فی یو م الاثنین دائما
فماالظن بالعبد الذی کان عمرہ
وتبت یداہ فی الحجیم مّخلدا
یخفف منہ للسرور با حمدا
با حمد مسرور اً ومات موحدا
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہواکہ ہر چند ولادت شریف ایک معین دوشنبہ کے روزہوی مگر اُس کا اثر ہر دوشنبہ میں مستمر ہے اِس لحاظ سے اگر ہر دوشنبہ اظہار مسرت کے لئے خاص کیا جائے تو بے موقع نہ ہوگا۔
کم سے کم سال میں ایک بار تو اظہار مسرت ہونا چاہئے اسی وجہ سے حرمین شریفین میں روز دوازدہم شریف نہایت اہتمام سے ہوتا ہے یہاں تک کہ اُس روز اور عیدوں کی طرح خطبہ پڑھاجاتا ہے اور تمام مسلمان خوشیاں مناتے ہیں خصوصاً مدینہ طیبہ میں تو دور دور سے قافلے پر قافلے چلے آتے ہیں۔اور مراسم عید اداکئے جاتے ہیں ۔اور مکہ معظمہ میں ایک لطف خاص قابل دیدیہ ہے کہ ہر فرقے اور حرفے کے لوگ مسجد الحرام سے قبہ مولدالنبیصلی اللہ علیہ وسلم میں جوق جوق ممتاز ہوکر جاتے ہیں ۔اور وہاں مولود شریف پڑ ھ کر شیرنی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔بمصداق لما راہ المسلمون حسناً فھو عنداللہ حسن مورد تحسین ہوتے ہیں شیخ نجم الدین غیطی رحمتہ ا للہ علیہ نے رسالہ مولود شریف میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور ابتدائے نبوت اور ہجرت اور مدینہ شریف میں داخل ہونا اور وفات شریف یہ سب امور دوشنبہ کے روز واقع ہوے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات میں یہ ایسا روز ہے جیسے آدم علیہ السلام کے حق میں جمعہ تھا کہ ان کی پیدائش ۔زمین پر اُترنا۔توبہ کاقبول ہونا ۔اور وفات سب جمعہ کے دن ہوئے ۔اس وجہ سے ایک ساعت جمعہ میں ایسی ہے کہ جو دعا اُس میں کی جائے قبول ہوتی ہے تو خیال کروکہ سیدالمرسلینصلی اللہ علیہ وسلم کی ساعت ولادت میں اگر دعا قبول ہوتو کونسی تعجب کی بات ہوگی انتہیٰ ۔علماء نے اختلاف کیا ہے کہ میلاد شریف کی رات افضل ہے یا شب قدر جن حضرات نے میلاد شریف کی رات کو افضل کہا ہے اُنکے دلائل یہ ہیں کہ لیلۃ القدر کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ ملائکہ اس میں اُتر تے ہیں جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ والروح فیھا اور شب میلاد میں سید الملائکہ والمرسلینصلی اللہ علیہ وسلم کا نزول اجلال اس عالم میں ہواہے تو ظاہر ہے کہ یہ فضیلت شب قدر میں نہیں آسکتی ۔دوسری دلیل یہ ہے کہ شب قدر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور شب میلاد میں خود حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا جن کی وجہ سے شب قدر کو فضیلت حاصل ہوئی اور ظاہر ہے کہ جو چیز ذات سے متعلق ہو بہ نسبت اُس چیز کے جو عطا کی گئی افضل ہوگی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ شب قدر کی فضیلت صرف حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے تعلق ہے اوروں کو اِس سے کوئی تعلق نہیں ۔اور شب میلاد تمام موجودات کے حق میں نعمت ہے اس لئے کہ اس میں رحمۃ للعالمین کا ظہور ہے جو کل موجودات کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ جس طرح ابو لہب کے حق میں ہر دوشنبہ کی رات میں برکت مکررہوتی ہے ہر دوشنبہ کی رات یا ہر تاریخ ولادت کی رات میں وہ فضیلت مکرر ہوتی ہے یا نہیں ۔مگراس میں شک نہیں کہ نفس شب قدر سے شب میلاد افضل ہے۔
اب مولودشریف کے جواز اور استحباب کی دلیلیں سنئے ۔ نجم الدین غیطی رحمتہ اللہ علیہ نے شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ ہر سال مولود شریف معین روز میں کرنے کی اصل بخاری اور مسلم کی روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرتصلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے دیکھا کہ یہودعاشورہ کے روزروزہ رکھا کرتے ہیں ۔اس کی وجہ اُن سے دریافت کی انہوں نے کہا کہ یہ روز وہ ہے کہ اس میں خدائے تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی۔اس لئے اس کے شکریہ میں عاشورہ کے روز ہم لوگ روزہ رکھا کرتے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نحن احق بموسیٰ منکم یعنے تم سے زیادہ ہم اس کے مستحق ہیں ۔چنانچہ آپ نے بھی اس روز روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا ،اِس سے ظاہر ہے کہ جب کوئی اعلیٰ درجہ کی نعمت کسی معین روز میں حاصل ہوئی ہو اُس کی ادائی شکر اس روز کے نظیروں میں کرنا مسنون ہے اورچونکہ کوئی نعمت رحمۃ للعالمینصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے افضل نہیں ہوسکتی اس لئے بہتر ہے کہ اس شکریہ میں اقسام کی عبادتیں مثل صدقات اوراطعام طعام وغیرہ روز میلاد شریف اداکی جائیں ۔انتہیٰ ۔ابن حجرمکی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پیشتر حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کے قریب قریب جواز مولود پر استدلال کیا ہے امام سیوطی ؒ نے لکھا ہے کہ دوسری اصل مولود شریف کی یہ ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس اپنا عقیقہ ادافرمایا باوجودیکہ روایات سے ثابت ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجد عبدالمطلب نے ساتویں روزآپ کا عقیقہ کیا تھا ۔اور یہ بھی ثابت ہے کہ عقیقہ دوبارہ نہیں کیاجاتا ۔اس سے معلوم ہواکہ حضرت کو اس اعادہ عقیقہ سے یہ معلوم کرنا منظور تھا کہ اعلیٰ درجہ کی نعمت پر اگر اعادہ شکر کیا جائے تو بہتر ہوگا ۔اس لئے میلاد شریف کے روز اظہار شکر میں کھانا کھلانا اور اظہار مسرّت کرنا مستحب ہے انتہیٰ۔
رسالہ ا تمام النعمۃ الکبریٰ علی العالم بمولدالمصطفیٰ ﷺ، میں حافظ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن جرزی ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ مولود شریف کی اصل خود آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور ہے ۔مولود کی فضیلت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں ارغام شیطان اور سرور اہل ایمان ہے انتہیٰ ۔آپ نے دیکھ لیا کہ ان علماء کی تصریحات سے ظاہر ہے کہ جس سے اُس کا مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے صوم عاشورہ سے جو استدلال کیا ہے اس میں غور کیجئے کہ باوجود یکہ موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی ایک معین عاشورہ میں ہوئی تھی ۔مگر تمام سال کے ایام میں صرف اُسی روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکریہ اسی روز مکررہر سال اداکیا جائے جس سے ثابت ہے کہ گو واقعہ مکررنہیں مگر اُس کی برکت کا اعادہ ضرور ہوتاہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر دوشنبہ میں ابو لہب کے لئے اُس کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے۔
بعضے علماء نے یہاں پر یہ کلام کیا ہے کہ صوم عاشورہ منسوخ ہوگیا ہے اس لئے اس کی فضیلت باقی نہیں رہی ۔اس کا جو اب یہ ہے کہ رمضان شریف کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزہ کی فرضیت نہ رہیں ۔اس سے صوم عاشورہ کی علت جو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھی اُس میں کوئی فرق نہیں آیا اس لئے کہ اس کے منسوخ کرنے کے وقت حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نحن لسنا احق بموسیٰ منکم جس طرح روزہ رکھنے کے وقت نحن احق بموسیٰ منکم فرمایا تھا اور نہ یہ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ گزر کرایک زمانہ ہوگیا ۔ہر سال اُس کا لحاظ رکھنا جائز نہیں کیونکہ اس میں اعادہ معدوم نظر آتا ہے ۔پھر باوجود اُس روز ے کے منسوخ ہونے کے احادیث میں اُس کے فضائل وارد ہیں جس سے ثابت ہے کہ روزے کا حکم فرمانے کے وقت جو فضیلت ملحوظ تھی وہ اب بھی ملحوظ ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہوسکتے اس لئے شیخ الاسلام ؒ کے استدلال پر اس کے منسوخ ہونے کا کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔اور اگر تسلیم کرلیاجائے کہ اُس روزہ کی فضیلت بھی منسوخ ہوگئی تو بھی کوئی ہرج نہیں ۔اس لئے کہ موسیٰ علیہ السلام کی نجات کی بے حد خوشی اگر ہوتو اُن لوگوں کو ہوگی جن کو اُن کے امتی ہونے کا دعویٰ تھا یعنے یہود کو ہمیں اُسکی کیا ضرورت اگر انبیائے سابق کے اس قسم کے واقعات کی خوشی ہم پر لازم ہوتو ہفتہ کے تمام ایام انہی خوشیوں میں صرف ہوجائیں گے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو اِس روزہ سے صرف امت کو توجہ دلانا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی نجات پر شکریہ اداکرتے ہیں تو تم کو ہماری ولادت کی بے حد خوشی کرنی چاہئے۔مگر طبع غیور کو صراحتاً یہ فرمانا گوارانہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کرو بلکہ خودہی اس شکریہ میں روز دوشنبہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے ۔اور اُس کی وجہ اُس وقت تک نہیں بتائی کہ کسی نے نہیں پوچھا اس لئے کہ بغیراستفسار کے بیان کرنا بھی طبع غیور کے مناسب حال نہ تھا ۔یہ بات مسلم شریف کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ جب حضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کا روزہ کیوں رکھاکرتے ہیں فرمایا ’’کہ وہ میری ولادت کا روزہے اور اُس روز مجھ پر قرآن نازل ہوا ‘‘۔انتہیٰ ۔اب غور کیجئے کہ جب خود بدولت ہمیشہ روز میلاد میں شکریہ کا روزہ رکھاکرتے تھے تو ہم لوگوں کو کس قدراِ س شکریہ کی ضرورت ہے اِس لئے کہ حضرت کا وجود ہم لوگوں کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے اور اگر یہی لحاظ ہوتا کہ اپنی ولادت کا شکریہ ضرورتھا، تو فرمادیتے کہ ہر شخص اپنی ولادت کے روز شکریہ کا روزہ رکھا کرے حالانکہ کسی روایت میں یہ وارد نہیں ہوا۔اِس سے ظاہر ہے کہ اس میں عمومی نعمت کا لحاظ تھا اور اُس سے صرف تعلیم امت مقصود تھی اس نعمت عظمی ٰ کا شکریہ ہر ہفتہ میں اداکیا جائے ۔مرقاہ شرح مشکوۃ میںملا علی قاری نے طیبی ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ جس روز نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اس عالم میں ہوا اور کتاب عنایت ہوئی تو روزہ کے لئے اُس روز سے بہترکون سا روز ہوسکتا ہے ۔غرضکہ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ میلاد مبارک کا شکریہ ہر ہفتہ میں ادا کیاجائے ۔پھر اگر سال میں بھی ایک بار اِس نعمت عظمیٰ کا شکریہ ادا نہ کیا جائے تو کس قدر بدنصیبی اور بے قدری ہے ۔غرضکہ تکرار زمانے میں گواعادہ معدوم نہیں مگر ابتدائی فضیلت اُس میں ضرور ملحوظ ہوتی ہے ۔دیکھئے حضرت اسمعیل علیہ السلام جب مذبوح ہونے سے بچائے گئے جس کے سبب سے حضرت ابراہیم و اسمعیل علیھم السلام کو خوشی ہوئی ہر سال اس خوشی کا اعادہ ہواکرتا ہے ۔اِس سے بڑھ کر کیا ہو کہ اُس دن عید ہوتی ہے اور اس واقعہ کے پیش نظر ہوجانے کے لئے جس قسم کے افعال وحرکات اُن حضرات اور حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہاسے صادر ہوئے اسی قسم کے حرکات کے ہم لوگ حج میں مامور ہیں ۔چنانچہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے پانی کی تلاش میں صفا ومروہ میں سات چکر کئے تھے ۔ہم کو بھی حکم ہے کہ اس وسیع میدان میں سات چکر کیا کریں ۔سیلیں اخضرین کے مقام میں وہ دوڑی تھیں ہمیں بھی وہاں دوڑنے کا حکم ہے اسی طرح اور بہت سے افعال ہیں جن سے وہ اصلی واقعہ پیش نظر ہوجاتا ہے ۔اب اگر مولودشریف کے وقت سیدالمرسلینصلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف فرمائی مسلمانوں کے پیش نظرہو اور تعظیم کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں تو ایسی کونسی بے موقع حرکت ہوگی جس سے لعن وطعن کیا جاتا ہے اور اقسام کے الزام لگا ئے جاتے ہیں کہ یہ لوگ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے باربار پیداہونے کے قائل ہیں ہم پوچھتے ہیں کیا حجاج دنبہ کو ذبح کرنے کے وقت اسمعیل علیہ السلام کے باربار ذبح کرنے کا خیال کرتے ہیں۔
حالانکہ یہ گویا حکایات اُسی کی ہے۔
بخاری شریف کی کتاب الانبیا ء میں روایت ہے جس کا ملخض یہ ہے کہ سفر غزوہ تبوک میں جب کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا گزر مقام حجر پر ہوا تو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی وہاں کے حالات پر اطلاع ہوئی اور فرمایا کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی فلاں کو ئیں کا پانی پیا کرتی تھی ۔قوم نے اُسکو اس وجہ سے قتل کرڈالا کہ وہ ایک روز سب پانی پی جاتی تھی حضرت صالح علیہ السلام نے بہت بارمنع کیا مگر انہوں نے نہ مانا اس پر عذا ب نازل ہوا اور وہ سب ہلاک کئے گئے ۔اب تم لوگ اُس کوئیں پر اتر وجو اونٹنی کے لئے خاص تھا ۔ اور دوسر ے کوئیں کے پانی سے احتراز کرو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس کوئیں کے پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے فرمایا وہ خمیر اور بچا ہوا پانی سب پھینک دو اور اُس کوئیں کا پانی لوجو اونٹنی کے لئے خاص تھا۔ پھر فرمایا کہ اُس قوم کی سکونت گا ہ میںجب پہونچو تو روتے ہوئے وہاں سے جلد گزرجائو۔ اور اگر رونا نہ آئے تو بتکلف رئوو۔اس خوف سے کہ کہیں تم پر ان کا عذاب نہ ہوجائے۔چنانچہ جب اُس قوم کے مکانات پر پہونچے تو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اپنا سر مبارک ڈہانک لیا اور اونٹنی کو دوڑایا یہاں تک کہ اُس وادی سے نکل گئے (یہ خلاصہ اُن روایتوں کا ہے جو بخاری اور فتح الباری اور تفسیرابن جریر وغیرہ میں مذکور ہیں) اسی طرح مسلم وغیرہ کی روایتوں سے ثابت ہے کہ حج میں وادی محسر جہاں اصحاب فیل ہلاک ہوئے تھے وہاں سے جلد گزر جانا مسنون ہے ۔اب غور کیجئے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم پر اُس مقام میں جو خوف طاری ہوا اور سب کو رونے کا حکم فرمایا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم بھی نہایت تواضع کی حالت میں چادر مبارک سے سر ڈہانکے ہوئے نہایت جلدی سے اُس مقام سے نکل گئے کیا یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اُن بر گزید گان حق پر اُسوقت سچ مچ عذاب اُترتا وہ بھی ایسی حالت میں کہ صرف خوشنودی خدا اور رسول کی غرض سے راہ خدامیں جان دینے کو چلے جارہے ہیں ۔اور تنہا بھی نہیں بلکہ خود نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے جنکی شان میں وارد ہے ماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم یعنے خدائے تعالیٰ اُن لوگوں پر عذاب نہیں کرتا جن میں آپ ہیں پھر حضرت کو اُس خوف سے کیا تعلق جو خود بھی جلدی سے وہاں سے گزر گئے کیا کوئی ضعیف الایمان بھی اس موقعہ میں ناشائستہ خیال کر سکتا ہے ؟ہر گز نہیں ۔پھر یہ تمام آثار جو اصلی واقعہ کہ وجود کے وقت مرتب ہونے کے لائق ہیں اسوقت کیوں ظہور میں آئے ؟کیا اُسوقت اُس قوم پر عذاب اوتررہا تھا جسکے دیکھنے سے یہ خیال پیداہوا کہ اگر کوئی شخص بے باکانا اُس مقام میں چلاجائے تو اندیشہ ہے کہ مبتلائیے عذاب ہوجائے اِس لئے کمال خضوع سے روتے ہوئے جانے کی ضرورت ہوئی تاکہ خدائے تعالیٰ اِس عذاب سے بچالے اس سوال کا جواب سوائے اِسکے کچھ نہیں کہ صرف اصلی واقعہ اُسوقت پیش نظر ہوگیا تھا ۔جس پر آثار خوف مرتب ہوئے ۔پھر یہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے سے بھی نہیں فرمایا اسلئے کہ اُس ویران مقام میں کیونکر معلوم ہوکہ اونٹنی کا کواں کونسا اور قوم کے کوئیں کو نسی ہیں جن سے پانی لینے کی ممانعت ہوئی بلکہ یہ سب وحی سے معلوم ہونیکی باتیں ہیں ۔اِس سے ثابت ہے کہ یہ سب تعلیم الہٰی تھی ۔اب فرمائے کہ اُسوقت جو صرف اصل واقعہ کے پیش نظر ہونے سے حکم تھا کہ خوف و خضوع ظاہر کریں ۔اس طرح میلادشریف کے پیش نظر ہونے کے وقت آثار فرحت وتعظیم ظاہر کئے جائیں تو خداا وررسول کی مرضی کے مخالف ہونے کی کیا وجہ؟ کیا یہ حدیث صحیح نہیں ہے کہ صحابہ سے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: قومو الی سید کم ۔غرضکہ یہ ہر گز ثابت نہیں ہوسکتا کہ میلاد شریف کے وقت جو قیام کیا جاتا ہے وہ شرک یا مکروہ ہے۔
تخیل اور تصور پر آثار کا مرتب ہونا فطرت انسانی میں داخل ہے جیسے کسی خوشی کے واقعہ کے خیال کرنے پر آثار بشاشت چہرہ سے نمایاں ہوتے ہیں اور غم کا واقعہ یادکرنے سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں ۔کنزالعمال میں روایت ہے کہ ایک روز عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز میں سورہ یوسف شروع کی جب اِس آیت پر پہونچے وابیضت عیناہ من الحزن فھو کظیم جس میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے غم وبکا کا ذکر ہے ۔آپ پر ایسا گریہ طاری ہواکہ آگے پڑ ھ نہ سکے آخر رکوع کردیا ۔شریعت میں بھی اِس تخیل اور تصور کا اعتبار اور لحاظ کیا گیا ہے ۔چنانچہ جامع الصغیرہ میں اِس مضمون کی روایتیں مذکور ہیں کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی کا نام محمدﷺ رکھو تو اُس کا اکرام کرو او راُس کو بُرا مت کہو اور اذیت نہ پہنچائو ۔دیکھئے نام جو صرف الفاظ ہیں ان میں یہ اثر کہاں سے آگیا کہ اپنے مسمیٰ کو ایسی عزت بخشے ۔دراصل یہ اُس تخیل کا اثر ہے جو اِس لفظ کی تذکر کے وقت آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پیش نظر ہوجاتی ہے ۔یہ بحث کسی قدربسط سے ہم نے انوار احمدی میں لکھی ہے۔
فتح الباری میں شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حج میں جو تلبیہ یعنے لبیک کہا جاتا ہے اسکی وجہ احادیث میں یہ وارد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا واذن فی الناس بالحج یعنے لوگوں میں پکاردوکہ حج کیلئے آئیں چنانچہ اُنہوں نے پکار دیا ۔اب جو لبیک کہا جاتا ہے اُسی کا جواب ہے دیکھئے یہ لبیک حالت حرام میں کس خشوع خضوع سے کہا جاتا ہے۔اگر ابراہیم علیہ السلام کے روبرو بھی یہ جواب دیاجاتا تو اس سے زیادہ تواضع نہ ہوتی ۔حالانکہ ابراہیم علیہ السلام نے جو بلایا تھا اُسکو ہزار سال گزر گئے اور وہی آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے ۔پھر ہمارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ولادت تو اسکے بہت بعد ہے اگر اس وقت خاص کا نقشہ ہماری آنکھوں میں کھینچ جائے تو کون سی تعجب کی بات ہے اور جس طرح ہم وقت معین میں لبیک کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اسی طرح وقت معین میں فداک ابی وامی یا رسول اللہ کہکر کھڑے ہوجائیں تو کونسی بُری بات ہوگی۔اب رہی یہ بات کہ مولود شریف قرون ثلثہ میں نہیں تھا تو یہ بھی تسلیم نہیں اِس لئے کہ جتنی روایتیں مولود شریف میں پڑھے جاتے ہیں وہ موضوع نہیں بلکہ کتب احادیث میں سب موجود اور صحابہ سے منقول ہیں ۔جس سے ثابت ہے کہ جتنی روایتیں مولود کی کتابوں میں پڑھی جاتی ہیں وہ سب صحابہ کے زمانہ میں پڑھے جاتے تھے البتہ نئی بات یہ ہے کہ میلاد شریف سے متعلق حدیثیں ایک جگہ جمع کردی گئیں مگر یہ بھی قابل اعتراض نہیں اسلئے کہ محدثین نے ابھی آخر ہر قسم کی حدیثوں کو علیحٰدہ علیحٰدہ کردیا ہے جو صحابہ نے نہیں کیا تھا پھر صحابہ وغیرہ ہم کادستور تھا کہ جب کوئی واقعہ پیش نظر ہوتا تو اس سے متعلق جتنی حدیثیں یاد ہوتیں پڑھ دیتے اسی طرح میلاد مبارک کا واقعہ پیش نظر ہونے سے وہ سب روایتیں پڑھی جاتی ہیں اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولود شریف کا پڑھنا صحابہ کی سنت ہے۔ اب اگر محل اعتراض ہے تو یہی ہے کہ میلاد شریف کی محفل قرون ثلثہ میں اس ہیئت پر نہ تھی، سوا سکا جو اب یہ ہے کہ اس محفل مبارک سے ایک بڑی مصلحت متعلق ہے وہ یہ ہے کہ یہودونصاریٰ اور دوسرے اقوام اپنے اپنے نبیوں کی پیدایش کے روز خوشیاں مناکراپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں دور اندیش علماء نے یہ خیال کیا کہ بُعد زمانہ نبویصلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی طبیعتوں میں بے باکی پیداہوگئی ہے ۔یہاں تک کہ نماز روزہ میں بھی لوگ قصور کرنے لگے جس سے دوسرے اقوام میں یہ خیال پیداہونے لگا کہ اب مسلمانی برائے نام رہ گئی ہے اور وہ رعب و داب، جو جانباز مسلمانوں کا اُنکے دل میں تھا کہ یہ لوگ اپنے نبیﷺ کے حکم پر جان دینے کو مستعد ہیں، جانے لگا ۔ اگر یہی خیال انکا ترقی پزیر ہوا اور مسلمانوں میں کوئی جوش اسلامی باقی نہ رہے توچندروز میں بالکل بے وقعتی کی نگا ہوں سے وہ دیکھے جائینگے اور معرض تلف میں ہوجائینگے۔ اسلئے یہ تدبیر نکالی کہ اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جو ش انکے دلوں میں پیداکردیا جائے چنانچہ مجالس وعظ میں عموماً ایسے مضامین بیان کرنے لگے جو باعث ازدیا د محبت ہوں مثلاً شفاعت کا مسئلہ اور صحابہ اور اولیاء اللہ کے فضائل اور حکایات اور معجزات اور فضائل نبیصلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیان کرنے لگے جن کے سننے سے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ذہن نشین اور باعثِ ترقی محبت ہو۔پھر محفل میلاد کی بنیاد ڈالی جس سے موافقین اور مخالفین کا امتیاز ہوجائے ،کیونکہ مخالفین کو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کی خوشی ہر گز نہیں ہوسکتی ۔بلکہ اسکا سخت صدمہ انکے دلوں پر ہوتا ہے جس طرح خاص میلاد کے روز شیطان پر ہوا تھا غرضکہ اسکا اثر یہ ہواکہ ہر فقیر وامیر بقدر حیثیت اِس محفل مبارک میں روپیہ صرف کرکے اسکا عملی ثبوت دیتا ہے کہ ہم اپنے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے سچے دعا گو اور آپ کے وجود با جود سے خوش ہونیوالوں میں ہیں جس سے مخالفین پر یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمان اس بگڑی حالت میں بھی اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے شیفتہ اور دل دادہ ہیں ۔نبض شنا سان زمانہ خوب جانتے ہیں کہ یہ جوش محبت اسلامی کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہی جوش مخالفوں سے انکو ممتاز اور علیحٰدہ کرنے والا ہے ۔اگر یہ جوش محبت بھی جاتا رہے تو اکثر مسلمانوں کی حالت گواہی دے گی کہ انکو نہ احکام دینیہ سے تعلق ہے نہ اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ظاہر ہے کہ اس بے تعلقی کا کیسا بُرا اثر مسلمانوں پر پڑے گا غرض قطع نظر فضیلت اور استحباب کے مولود شریف میں اک ایسی مصلحت ملحوظ رکھی گئی جو دین و دنیا میں محمودو مطلوب ہے۔
دین میں اس وجہ سے کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جب تک آدمی کونبیصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے ماں، باپ اور اولاد ومال سے بلکہ اپنی جان کی محبت سے زیادہ نہ ہو اسکا ایمان قابل شمار نہیں۔ اوردنیا وی مصلحت وہ جو مذکور ہوئی جس کو اسرارشناسان اسلام جانتے ہیں کہ موجد نے اس کو کیوں ایجاد کیا ۔کیا مصلحت وقت کا لحاظ رکھنے کی تعلیم نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی ہے؟ کیوں نہیں صدہا احادیث اس پر شاہد ہیں اسی کو دیکھ لیجئے کہ قبل ہجرت کس قسم کے احکام اور حالات تھے او بعد ہجرت قوت اسلام کے زمانہ میں کس درجہ پر پہونچے۔اہل حدیث یہ بھی جانتے ہیں کہ آخری زمانہ کے مسلمانوں کے لئے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے کس قسم کی سہولتیں فرمائی ہیں ۔یہاں تک تو فرمادیا کہ دسویں حصہ پر بھی اگر وہ لوگ عمل کرلیں تو صحابہ کے برابر انکو ثواب ہوگا۔ اب انصاف کی جائے کہ مصالح دینیہ و دنیویہ پر لحاظ رکھ کر محفل میلاد شریف کیجائے تو کیا وہ باعث دخول دوزخ ہوگی ۔اور وہ ارشاد نبویصلی اللہ علیہ وسلم کہ اعمال کے حسن و قبح کا دارومدار نیت پر ہے اور خدائے تعالیٰ عمل کو نہیں دیکھتا ہے ۔نیتوں کو دیکھتا ہے وغیرہ ۔احادیث معاذ اللہ بیکار ہوجائیگی ہر گز نہیں۔ غرضکہ اِس قابل تحسین نیت کے بعد ہمارا حسن ظن تو یہ ہے کہ یہ عمل باعث خوشنودی خداورسولصلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اور یقین ہے کہ بمصداق انا عند ظن عبدی بی ۔یہ ہمارا حسن ظن بیکار نہ جائے گا۔ہم اسکو مانتے ہیں کہ بعض علماء نے صرف حدیث کل بدعۃ ضلالہ کو پیش نظر رکھ کر اس مجلس متبر کہ میں کلام کیا ہے مگر آپ نے دیکھ لیا کہ جو نکتہ رس ،دقیقہ شناس علماء تھے ۔مثل حافظ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی اور امام سیوطی وغیرہ ۔ رحمہم اللہ انہوں نے اسکا جو ازا ستحباب ثابت کردیا ۔غور کیجئے کہ وہ بھی آخر مقتدااور متجر علمامانے جاتے ہیں ۔جن کے اقوال استدلال میں پیش کئے جاتے ہیں انکو گمراہ و مخالف اسلام قرار دینا کیونکر جائز ہوگا۔ایسے موقع میں تو انکا احسان ماننا چاہئے کہ انہوںنے علاوہ اور مصالح کے شرعی طورپر بھی اسکا استحباب ثابت کردیا۔
یہاں شاید ناواقفوں کو یہ خلجاں نہ ہو گا کہ ایک ہی چیز حرام اور مستحب کیونکر ہوسکتی ہے۔پھر کیا وجہ کہ مولود شریف کو ایک جماعت حرام اور ایک جماعت مستحب کہتی ہے۔
اس خلجان کو اسطرح دفع کیا جائے کہ جن علماء کی نظر محدود رہی کہ مولود شریف قرون ثلثہ میں نہ تھا وہ اسکی حرمت کے قائل ہوگئے اور جن کی نظروسیع تھی وہ مصالح اور اغراض پر غور کرکے استحباب کے قائل ہوگئے۔
دیکھئے صرف ونحو کا علم نہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا نہ صحابہ کے زمانہ میں گو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے چند قاعدے بیان فرما کر اسکی بنیا دڈالی مگرتدوین اسکی ایک مدت میں ہوئی اور نہ قال کی اصل قول ہونے پر کوئی شرعی دلیل قائم ہوسکتی ہے ۔مگر چونکہ قرآن و حدیث کا سمجھنا سمجھا نا اِن علوم سے متعلق ہے اسلئے گو وہ بدعت ہیں مگر اُنکی تعلیم واجب قرار دی گئی اگر ہمارے دین سے ان علوم کو تعلق نہ ہوتا تو اِن کی حرمت پر ضرور فتویٰ دیا جاتا اِس سے ظاہر ہے کہ اغراض صحیحہ کہ لحاظ سے کبھی وجوب بھی آجاتا ہے جسکووجوب لغیرہ کہتے ہیں۔پھر اگر مولود شریف میں باوجود بدعت ہونے کے استحباب آجائے تو کیاعجب غرضکہ علما جانتے ہیںکہ اغراض ،مصالح اور جہات کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔
جو ضرورت اِس محفل مبارک کی ایجاد اور ابقاء میں علمائے متاخرین کے پیش نظر تھی اُسکا وجود قرون ثلثہ میں نہ تھا اسلئے اُس زمانے کے کل اہل اسلام وقتاً فوقتاً ہر ایک امر میں نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا عملی ثبوت دیتے تھے جسکا اثر یہ ہوا کہ اسلام شرقاً و غرباً انکی جانبازیوں سے پھیلا اُن کو ضرورت نہ تھی کہ سال میں ایک بار اپنی محبت کا اظہار کریں ۔بخلاف اِس زمانہ کے کہ کل اہل اسلام سال میں ایک بار بھی اگر اپنی سچی محبت اپنے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد مبارک میں ظاہر کریں تو غنیمت ہے۔
قرون ثلثہ میں روز میلاد شریف کے عید مقرر نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جو علامہ نجم الدین غیطی ؒ نے کتاب التعریف بالمولدالشریف میں مولفہ علامہ شمس الدین ابن الجرزی ؒ سے نقل کیا ہے کہ جو روز میلاد شریف کا ہے وہی وصال شریف کا دن ہے۔
اسلئے سرور و غم برابر برابر ہوگئے انتہیٰ ۔اگر غور کیا جائے تو اُن شیفتگان جمال نبویصلی اللہ علیہ وسلم پر وہ روز ایسی مصیبت اور ماتم کا تھا کہ جسکا بیان نہیں ہوسکتا جیساکہ واقعات سے ظاہر ہے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں صحابہ کی یہ حالت تھی کہ ہر مجلس ماتم کدہ سمجھی جاتی چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ اُس زمانہ میں اتفاقاً صدیق اکبر اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کا گزر انصار کی مجلس پر ہوا دیکھا کہ سب زار زار رورہے ہیں اُسکا سبب دریافت کیا اہل مجلس نے کہا کہ ہمیں حضرت نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسیں یاد آتی ہیں جن میں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ بیٹھتے تھے اب قرائن سے معلوم ہورہا ہے کہ وہ دن آگئے کہ ہم لوگ اس دولت عظمیٰ اور فیضان مصاحبت سے محروم ہوجائیں ۔اُن شیفتگان دیدار نبویصلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کا اندازہ اِس روایت سے ہوسکتا ہے جوبخاری شریف میں ہے کہ ایک روز صبح کی نماز ہورہی تھی اور صدیق اکبر نماز پڑھا رہے تھے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اس غرض سے اٹھا یا کہ نماز کی حالت ملاحظہ فرمادیں پردہ اٹھناہی تھا کہ صدق اکبر اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور مارے خوشی کے قریب تھا کہ نماز کو توڑ کر دیدار جاں بخش سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں مگر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کب گواراکرسکتے تھے کہ عبادت الہٰی میں خلل واقع ہو فوراً یہ فرماکر پردہ چھوڑ دیا کہ نماز کو تمام کرلو۔ دیکھئے صحابہ حضور قلب وغیرہ لوازم واداب نماز کو خوب جانتے تھے مگر غلبہء شوق دیدار نے سب بھلادیا اور ایک ایسی حالت طاری ہوئی جو مصداق اِس شعر کے تھی ؎
درنمازم خم ابردے توچوں یاد آمد حالتے رفت کہ محراب بفریاد آمد
روز وصال ہر چند صدیق اکبر نے نہایت استقلال اور تکلف سے کام لیکر خطبہ پڑہا اور مسلمانوں کو تسلی دی مگر حالت یہ تھی کہ وہ بھی ضبط گر یہ نہیں کرسکتے تھے ۔اور بے اختیار کہتے تھے کہ یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم آپ کے انتقال سے وہ چیز منقطع ہوگئی جو کسی اورنبی علیہ السلام کی موت سے منقطع نہیں ہوئی تھی آپ کی نعت جس قدر کی جائے تھوڑی ہے اگر ہمارا بس چلتا تو ہم سب اٖ ٓپ پر سے اپنے کو فداکردیتے اور ایک مرثیہ پڑھا جسکا شعر یہ ہے ؎
یا لیتنی من قبل مھلک صاحبی غلیبت فی جدث علے صحوز
یعنے کاش میں اپنے صاحب کی وفات سے پہلے اپنی قبر میں مدفوں ہوتا اور مجھ پر پتھر ڈالے جاتے ۔
عمر کو تو اُس صدمہ جانکاہ نے دیوانہ بنادیا تھا کچھ ایسے حرکات اُسوقت اُن سے صادر ہورہے تھے کہ سب حضار ترساں ولرزاں تھے کسی کی مجال نہ تھی کہ اُن سے کچھ کہہ سکے جب کسیقدر افاقہ ہوا تو کہنے لگے یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فداہوں آپ پیشتر،ستون کے پاس خطبہ پڑہاکرتے تھے جب منبر بنایا گیا اور آپ اُسپر خطبہ پڑھنے لگے تو ستون پرآپکے فراق کا اسقدر صدمہ ہواکہ آدمی کی طرح زار زار روتا تھا تو آپکی امت کا کیا حال ہونا چاہئے۔
حضرت عثمان کی اُسوقت یہ حالت تھی کہ منہ سے بات نہیں نکل سکتی تھی ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر اِس قسم کا اتنا بار پڑاکہ باوجود اُس قوت وشجاعت کے آپ زمین پر بیٹھ گئے اور حس و حرکت دشوار ہوگئی۔
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پر اس صدمہ کا اثر اسقدر ممتد ہوا کہ جب تک آپ زندہ رہیں گو یا جانتے ہی نہیں کہ ہنسی کیا ہے۔
بلال رضی اللہ عنہ جب اذان میں اشہدان محمد اًرسول اللہ کہتے تو مسجد میں کہرام مچ جاتا تھا ۔
عبداللہ بن انیس کا انتقال ہی اِس صدمہ جاں ستاں سے ہوگیا۔
غرضکہ اس حادثہ جانکاہ سے کل صحابہ کی یہ حالت تھی کہ اُن پر زندگی وبال جان ہوگئی تھی۔ اب غور کیجئے کہ جب دواز دہم شریف کا روزاُن پر اُن شیفتگان جمال نبیصلی اللہ علیہ وسلم اور سوختگان آتش فراق پر، آتا ہوگا، تو اُنکی کیا حالت ہوتی ہوگی ۔کیا ایسی حالت میں کسی قسم کی خوشی دل میں راہ پاسکتی ہے ہر گز نہیں ۔ایک مدت تک مسلمانوں کی تقریباً اسی قسم کی حالت رہی ۔ متاخرین نے دیکھا کہ اب مسلمانوں کے دلوں پر عموماً وہ جوش محبت تو رہا ہی نہیں جو مقتضی غم وفات ہو،ا ور حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معنے تو صرف اسی قدر ہیں کہ اس عالم سے دوسرے عالم کو تشریف لے گئے، ورنہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کیا شک، اسلئے اُس غم کو جو عارضی تھا کا لعدم کرکے اصلی مسرت اور خوشی کو جسکا اثر قیامت تک باقی ہے پیش نظر رکھا اور اُس روز کو خالص روز عید قرار دیا جس میں کل اہل اسلام بالاتفاق اپنی محبت اور گرم جو شیاں ظاہر کرکے اپنی محبت کا ثبوت دیں ۔چنانچہ اس قرار داد علما کو تقریباً کل اہل اسلام نے مان بھی لیا اور صورت اجماعی منعقد ہوگئی ۔اور بمصداق مار اہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن وہ قابل تحسین ہی ہوئے پھر اُن حضرات نے اِس سے بڑے بڑے فوائد بھی حاصل کئے چنانچہ نجم الدین غیطی نے اور ابن حجر مکی نے امام شمس الدین الجرزی کا قول نقل کیا کہ مولود شریف کی خاصیت یہ ہے کہ جس سال وہ محفل کی جاتی ہے اُس سال بلائوں سے امن رہتا ہے اور یہ فقط اعتقادی بات ہی نہیں بلکہ اُس کا تجربہ بھی مکررہوچکا ہے ۔الحاصل محفل میلاد میں کئی مصلحتیں اُن حضرات کے پیش نظر تھیں اور مصالح کا لحاظ کرنا شرعاً محمود اور مسنون ہے ۔علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک منافق مرا اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی گئی کہ اپنا ملبوس خاص عنایت فرمادیں تاکہ برکت کے لئے اُسکے کفن میں وہ شامل کیا جائے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قمیص مبارک بدن سے اُتارکر عنایت فرمایا اور صحابہ کو اس مصلحت پر مطلع فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میرے قمیص سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا اسلئے کہ وہ منافق ہے مگر مجھے امید ہے کہ اس رعایت خاص کی وجہ سے اُسکی قوم سے ہزار شخص مسلمان ہونگے چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔دیکھئے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا پیرہن مبارک جو اعلیٰ درجہ کا متبرک ہے منافق جو کافر سے بھی بدتر ہے اُسکے کفن کے لئے دینا ہر گز کسی مسلمان کی طبیعت گوارا نہیں کرسکتی مگر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی مصلحت کے لحاظ سے اُسکو گوارافرمایا۔
چنانچہ بخاری شریف اور فتح الباری میں ہے کہ عمر ؓایک روز خانہ کعبہ میں جابیٹھے اور کہا میرا قصد یہ ہے کہ جس قدر سونا چاندی کعبہ شریف میں رکھا ہے سب مسلمانوں میں تقسیم کردوں ابووائل ؓنے کہا کہ یہ آپ نہیں کرسکتے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر کو باوجود کہ آپ سے زیادہ مال کی احتیاج تھی مگر انہوں نے یہ خیال نہیں کیا ،عمرؓ نے کہا کہ بیشک ان حضرات کی اقتدا مجھے بھی ضرورہے۔
شیخ الاسلام نے لکھا ہے کہ کعبہ شریف کا خزانہ خرچ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تعظیم الاسلام اور ترہیب اعداء اُس سے متعلق ہے اسلئے کہ خزانہ کعبہ شریف اُس زمانہ میں مشہور تھا اس سے مستفاد ہے کہ شوکت اسلام کے لئے اگر کوئی ایسا کام کیا جائے جو ضرورت سے زیادہ ہواُسکی اجازت ہے چنانچہ شیخ الاسلام نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ سونا چاندی کی قندیلیں کعبہ شریف اور مسجد نبوی میں لٹکانے کو تقی الدین سُبکی نے جائز لکھاہے دیکھئے اس میں بھی صرف شوکت اسلام ملحوظ ہے ورنہ ضرورت تو معمولی چراغوں سے بھی رفع ہوسکتی تھی ۔اسی طرح فتح الباری میں یہ بھی لکھا ہے کہ کعبہ شریف کو جو دیباج کی کسوت پہنائی جاتی ہے اسکے جواز پر اجماع ہوگیا ہے اور لکھاہے کہ قاضی زین الدین عبدالباسط نے بحسب حکم شاہی ایک ایسی بہتر کسوت خانہ کعبہ کے لئے تیار کی کہ اُسکی عمدگی بیان کرنے سے زبان قاصر ہے اور اُنکی تحسین اس فعل کی کر کے یہ دعائیں دیں کہ ’’بسط اللہ تعالیٰ فی رزقہ وعمر ہ وجز اہ اللہ عن ذالک احسن المجاز اۃ ‘‘دیکھئے اس میں بھی وہی شوکت اسلام ملحوظ ہے ورنہ اول تو گھرکو کسوت پہنا نا کوئی ضروری بات نہیں اور اگر کسی قسم کی ضرورت ہے بھی تو بیش قیمت دیباج کی ضرورت نہیں جسکے جواز پر اجماع ہوگیا ہے ۔اور کسوت خانہ کعبہ تو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھی ۔خلاصۃ الوفاباخباردارالمصطفیٰ میں لکھا ہے کہ عثمان ؓنے مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر از سرنو نہایت تکلف سے کی چنانچہ دیواروں کے پتھروں میں نقش و نگار کیا گیا اور ستون کے پتھر بھی نقش پر کارتھے سقف ساج کا بنوایا گیا جو اُس زمانے کی بیش قیمت لکڑی تھی اور ممبر شریف پر غلاف پہلے آپ ہی نے اوڑہا یا ۔دیکھئے یہ سب امور شوکت اسلام سے متعلق ہیں ورنہ یہی مسجد مقدس آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اُسوقت تک نہایت سادی اور تکلف سے عاری تھے۔نہ نقش نگار تھا نہ ممبر پر غلاف او ڑہا یا جاتا تھا ۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ باوجودیکہ خانہ کعبہ اور ممبر شریف کا غلاف ہمیشہ صحابہ کے پیش نظر رہا کرتا تھا مگر کسی سے یہ اعتراض مروی نہیں کہ بے ضرورت کپڑا کیوں او ڑہا یا جاتا ہے ؟کیا ان لکڑیوں اور گھر کو سردی ہوتی ہے جیسے ہمارے زمانہ کے بعض حضرات غلافوں کو دیکھ کر کہا کرتے ہیں۔
اب یہ دیکھا جائے کہ مولود شریف میں کیا کام ہوتے ہیں اور وہ شرعاً جائز ہیں یا نہیںبڑے کام یہ ہیں اظہار سرور ۔تعین وقت ،قصائد نعتیہ کاپڑھنا ،تقسیم شیرنی اور بخور کا جلانا وغیرہ ۔اظہار سرور کا حال سنئے کہ باوجود یکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ لا یحب الفرحیںیعنے فرحت والوں کو حق تعالیٰ دوست نہیں رکھتا مگر فضل اور رحمت الٓہی پر فرحت کرنے کا حکم ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا یعنے لوگوںسے کہد وکہ صرف اللہ کے فضل اور رحمت کی خوشی کیا کریں۔
مطلب اِن آیتوں کا یہ ہوا کہ اگر کوئی خوشی کرے تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کی خوشی کرے۔ اب غور کیجئے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم سے اِس عالم کو عزت بخشاکیا بڑا فضل اور رحمت الٰہی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو کہ آپ ہمہ تن فضل اور رحمت ہیں ۔ چنانچہ النہجتہ السویہ میں لکھا ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا نام فضل اللہ بھی ہے جس پر ابن وجیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ولولافضل اللہ علیکم ورحمتہ لا تبعتم الشیطان ا لاقلیلاً یعنے اگر اس کا فضل اور اُس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم شیطان کی پیروی کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ فضل اللہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں انتہیٰ اور اسی میں ذکر کیا ہے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء یہ بھی ہیں ۔ رحمۃ، رحمۃ الامہ ۔ نبی الرحمۃ۔ رحمۃ العالمین ۔رحمۃ مہداۃ اور آیہء شریف وما ارسلناک ا لا رحمۃ للعالمین کو ذکر کر کے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت نہ صرف مسلمانوں کے حق میں رحمت تھے بلکہ کفار کے حق میں بھی رحمت تھے اور یہ حدیث طبرانی اور حاکم سے نقل کی ہے قال رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم انا رحمۃ مھداۃ یعنے میں اللہ کی رحمت ہوں جو تمہارے لئے ہدیہ بھیجی گئی ہے۔ اب کہئے کہ ایسے ہمہ تن فضل اور رحمت کے نزول کے روز کو ہم عید نہ قرار دیں تو ہم سے زیادہ ناقدرشناس کون ہو کہ خدائے تعالیٰ کے ہدیہ کی بھی ہم نے کچھ قدر نہ کی حالانکہ فضل اور رحمت الٰہی پر خوشی کر نا ہمارافرض ہے جو آیہء موصوفہ فبذ لک فلیفرحوا سے ظاہر ہے ۔
تعین وقت اس کا حل ابھی معلوم ہوا کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے صوم عاشورہ خود بھی رکھا اور اُس کے فضائل بیان فرمائے اور اس روایت سے بھی ظاہر ہے جو بخاری شریف کی کتاب الایمان میں ہے کہ کسی یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی کتاب یعنی قرآن شریف میں ایک آیت ہے کہ اگر وہ ہماری کتاب میں ہوتی تو ہم لوگ اُس کے نزول کے دن کو عید بناتے آپ نے فرمایا کو نسی آیت ہے کہا الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الا سلام دینا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آج کے روز میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پرتمام کیا اور تمہارے دین اسلام سے راضی ہوا ۔عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ آیت کس مقام پر اور کس روز نازل ہوئی کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم عرفات پر کھڑے تھے یعنے حج کے روز اور جمعہ کا دن تھا انتہٰی۔ شرح بخاری شریف میں شیخ الاسلام عسقلانی ؒ نے لکھاہے کہ یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہودی کا سوال تھا کہ اُس آیت کی جلالت شان مقتضی ہے کہ اُس کے نزول کا روزعید بنایا جاتا۔ اور جواب میں مقام اور وقت نزول بیان کیا گیا جس کو سوال سے کوئی تعلق نہیں حالانکہ جو اب میں سوال کی مطابقت چاہئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اشارۃً جواب دیا کہ وہ دونوں روز ہمارے یہاں روز عید ہیں اور ترمذی اور طبرانی وغیرہ کی روایتوں میں یہ بتصریح موجود ہے کہ بحمد اللہ ہمارے یہاں وہ دونوں روز عیدہیں حاصل یہ کہ یہودی کا مقصود تھاکہ اُس نعمت عظمٰے کا دن اس قابل تھا کہ عید قراردیاجاتا جس میں ہمیشہ خوشی ہواکرتی ہے اس لئے کہ عید عود سے ماخوذ ہے جس کے معنے مکررہونے کے ہیں چونکہ روز عید مکررہواکرتا ہے اس لئے اُس کا نام عید رکھا گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کو تسلیم کرلیا چنانچہ اُس کے جواب میں کہا کہ ہمارے یہاں اُس نعمت کی دوہری عید منجانب اللہ مقررہے ورنہ صاف کہہ دیتے کہ یہ تم لوگوں کی حماقت ہے کہ ایک گزشتہ واقعہ پرہر سال خوشیاں منایاکرتے ہو۔ اب غورکیجئے کہ جب یہہ مسلم ہے کہ کسی نعمت عظمیٰ کے حصول کا دن اس قابل ہے کہ ہمیشہ اُس میں خوشی اور عید کی جائے تو بتائے کہ مسلمانوں کے نزدیک حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور نزول اجلاس سے بڑھ کر کونسی نعمت ہوسکتی ہے پھر اگر اُس روز خوشی نہ کی جائے تو کونسا دن آئے گا جس میں ایمانی طریقہ سے خوشی کی جائے گی۔ اگر اُس آیہء شریفہ کے نزول کے روز دوہری عید ہے ۔ تونزول اجلال سیدالمرسلینصلی اللہ علیہ وسلم کے روز یعنے میلاد مبارک کے روز اُس سے دوچند زیادہ خوشی اور عید ہونی چاہئے۔
قصائد نعتیہ کا پڑھنا، اہل حدیث(علمائے حدیث) جانتے ہیںکہ قصیدہ’’ بانت سعاد‘‘جونعت میں ہے خود آن حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پڑھا گیا اور حضرت نے اُس کے صلہ میں چادر مبارک عطا فرمائی اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے ممبر رکھا جاتا تھا جس پر وہ اشعار نعتیہ پڑھتے تھے جس کا حال ہم نے انوار احمدی میں کسی قد ربسط سے لکھا ہے۔
تقسیم شیرنی ۔ وہ اِطعام ِ طَعام میں داخل ہے جس کی تعریف قرآن شریف میں مُصرّح ہے۔ کما قال تعالیٰ، ویطعمون الطعام علے حبہ اس کے سوا بہت سی آیات واحادیث اُس کی فضیلت میں وارد ہیں جو محتاج بیان نہیں۔
بخورجلانا۔’’خلاصۃ الوفا‘‘ میں ابن ماجہ کی روایت مذکور ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجدوں کو جمعہ کے روز بخوردیا کرو اور لکھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بخوردان آیا اُس کو آپ نے سعدرضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا کہ اُس میں بخور جلاکرہر جمعہ اور رمضان میں مسجد نبویﷺ کو بخور دیا کریں۔ اور ایک شخص اسی کام پر مامور تھا کہ جمعہ کے دن بخور جلاکر ہر شخص کے پاس لیجائیں اور سب کو معطر کریں۔ غرضیکہ اَماکِن اور مقامات متبر کہ میں بخور کی خوشبو سے اہلِ جلسہ کو معطر کرنا مسنون ہے۔
قیام۔ اِس کا حال اوپر لکھا جاچکا ہے لیکن تکملۃً یہاں بھی لکھا جائے تو بے موقع نہ ہوگا۔ احادیث مذکورہ بالاسے ثابت ہے کہ تخیل پر اصل واقعہ کے آثار مرتب ہونا قطع نظر اس کے کہ امرطبعی ہے۔ شریعت میں بھی اس کے نظائر موجودہیں جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جب آیہء شریف وابیضت عیناہ پڑھی تو روتے روتے بیخود ہوگئے۔ اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے مقام تبوک میں اظہار خوف و خشیت کیا۔ اور ابراہیم اور اسمعیل علیہما السلام کی خوشی کا دن ہمیشہ کے لئے روز عید مقرر ہوا۔ اور موسیٰ علیہ السلام کی نجات کے روز آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے شکریہ کا روزہ رکھا اور ترغیب امت کے لئے اُس کے فضائل بیان فرمائے۔ اور اپنی ولادت باسعادت کے روز یعنے روز دوشنبہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے ۔ اور ابو لہب کودوزخ میں پانی پینے کو ملاکرتا ہے خاص خاص واقعات کے آثار اُن کے خاص قسم کی تخیل پر مرتب ہواکرتے ہیں ۔ اس صورت میں اگر آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے تخیل پر مسلمانوں کے دل میں فرحت پیداہوتو نہ شرعاً وہ مذموم ہے نہ یہ کہنا درست ہوگا کہ جو اصلی واقعہ پر آثار مرتب ہوتے ہیں تخیل پر مرتب کرنا درست نہیں۔ اس بناپر جتنی حدیثیں اس باب میں وارد ہیں کہ فرحت کے وقت کھڑے ہوجانا درست بلکہ مسنون ہے سب ہمارے مفید مدعا ہوگئیں کیونکہ جب مسلمان میلاد شریف کے حالات سنتے ہیں تو اُن کو بے حد خوشی ہوتی ہے اس وجہ سے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف فرماہونا اُن کے لئے نجات اور فرحت ابدی کا باعث ہوا۔ کیا کوئی مسلمان ایمان کی راہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ نجات و مسرت ابدی سے زیادہ کوئی نعمت ہرگز نہیں پھر جب کم درجہ کی فرحتوں میں قیام جائز اور مسنون ہوتو اس اعلیٰ درجہ کی فرحت میں قیام کی کس قدر ضرورت ہوگی۔
اب اُن روایتوں کو سنئے جن سے فرحت کے وقت قیام کا مسنون ہونا ثابت ہے۔فتح الباری میں شیخ الاسلام ؒ نے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے روز عکرمہ یمن کی طرف بھا گ گئے تھے اُنکی بی بی نے اُنہیں مسلمان کرکے جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا تو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم اُن کو دیکھتے ہی کمال خوشی سے کھڑے ہوگئے اسی قسم کی اور روایتیں بھی ذکر کیں جن میں حضرت جعفر اور زید بن حارثہ ؓ کے قدوم کے وقت اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر قیام کرنا آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا مذکور ہے۔
بخاری شریف میں یہ روایت ہے ابصرا لنبیصلی اللہ علیہ وسلم و سلّم نساء ً وصبیا ناً مقبلین من عرس فقام ممتناً فقال اللھم انتم من احب الناس الیّ یعنے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے چند عورتوں اور لڑکوں کو دیکھا کہ کسی کے نکاح سے چلے آرہے ہیں فوراًکھڑے ہوگئے اور فرمایا خداجانتا ہے تم لوگ سب سے زیادہ میرے محبوب ہو۔ شیخ الاسلام نے قام ممتنا کی شرح میں لکھا ہے کہ قام اللھم مسرعاً منتتدافی ذلک فرحابھم یعنے کمال فرحت کی وجہ سے نہایت جلدی سے کھڑے ہوگئے اس روایت سے ظاہر ہے کہ یہ قیام معانقہ وغیرہ کے لئے نہیں تھا۔ اس لئے کہ عورتوں اور لڑکوں سے معانقہ درست نہیں بلکہ مقصود اُس سے صرف اظہار فرحت تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قدوم احباب کے وقت جو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم قیام فرمایا کرتے تھے اس کی وجہ بھی اظہار فرحت ہی ہواکرتی تھی تواب مسلمانوں کو چاہئے کہ جس وقت میلاد شریف سنیں اور اُس میں سید کونینصلی اللہ علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف فرمانا پیش نظرہوجائے جو اعلیٰ درجہ کی فرحت کا باعث ہے تو اُس وقت ان احادیث کو اپنا پیشوا اور مقتدابناکر خوشی سے کھڑے ہوجایاکریں اور بدعت اور شبہ فی العبادت وغیرہ شبہات کو ان روایات سے دفع کردیا کریں۔ یہی امور گویا محفل میلاد کے ذاتیات ہیں اور آپ نے دیکھ لیا کہ وہ فرادی ٰ مسنون یا مستحب تو ضرور ہیں۔ رہے امور خارجیہ جیسے عورتوں کا مولودشریف ایسے طورپر پڑھنا کہ اجنبی لوگ اُن کی آوازیں سنیں یا نشہ کی حالت میں پڑھنا ۔یا اور کسی قسم کی بے ادبی پڑھنے کے وقت کرنی جو شرعاً ممنوع ہو وہ ضرور اس قابل ہیں کہ موقوف کردیئے جائیں جیسے کل عبادات میں یہی حکم ہے۔ مثلاً نماز لوگوں کو بتلا ے کی غرض سے پڑھنی جس سے احتراز کی ضرورت ہے مگر ایسے امور سے نماز یا مولود شریف کے جواز میں کلام نہیں ہوسکتا ۔ رہی بات اجتماعی امور مذکور ہ کی سواُ س کا بھی جواز بلکہ استحباب بتصریح علماسے ثابت ہوگیا اور قطع نظر اُس کے اس قسم کے بدعتوں کی ایجاد کی شرعاً اجازت ہے جیسا کہ حدیث صحیح من سنۃ حسنۃ الحدیث سے ظاہر ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ جوشخص کوئی اچھا کام ایجادکرے اُس کو ثواب اُس کا اور اُس پر عمل کرنے والوں کا ملے گا۔ اور جو براکام ایجاد کرے اُس کااور اُس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اُس پر ہوگا۔
دیکھئے قرون ثلثہ کی یا اور کسی بات کی تخصیص نہیں بلکہ عام ارشاد ہے کہ جو کوئی اچھا طریقہ ایجادکرے اگر اس کی تخصیص قرون ثلثہ کی ساتھ کردی جائے تو بدعتیوں کو بڑی مددمل جائے گی وہ یہ کہیں گے کہ جس طرح اچھے کاموں کی وہی ایجاد باعث ثواب ہے جو قرون ثلثہ میں ہو اسی طرح برے کاموں کی بھی وہی ایجاد باعث عذاب ہوگی۔ جوقرون ثلثہ میں ہو اس لئے بدلیل مقابلہ دونوں شقوں میں تعمیم یا تخصیص ایک ہی قسم کی معتبر ہوگی اور اُس صورت میں مطلب حدیث شریف یہ ہوگا کہ جتنے برے کام قرون ثلثہ کے بعد ایجاد کئے جائیں وہ قابل مواخذہ نہیں حالانکہ یہ غلط ہے اِس سے ثابت ہے کہ بُرے کاموں کی ایجاد جس طرح ہر زمانہ میں مذموم ہے اچھے کاموں کی ایجاد بھی ہرزمانہ میں محمود ہے۔ الحاصل اگرمولود شریف بدعت بھی ہوتو بدعت حسنہ ہے جس کی اجازت شریعت میں واردہے۔ رزقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ تاج فاکہانی نے مولود شریف کو بدعت مذمومہ لکھا ہے مگر امام سیوطی نے ان کے استدلال اور تقریر کو حرفا ًحرفاً ردکیا۔جزاہ اللہ عنا خیرالجزاء
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بعض معاصرین اس رسالہ کی چند حدیثوں کو درایت کے شکنجہ میں ضرور کھینچیں گے مگر چونکہ اس میں ہمارے ہم مشربوں کی طرف ہمارا روئے سخن ہے اس لئے اُن کے شبہات کی طرف تو جہ نہیں کی گئی۔ اس پر بھی اگر شوق ہوتو ہم نے کتاب العقل اور حقیقۃ الفقہ اور افادۃ الافہام وغیرہ میں بحث درایت تفصیل سے لکھی ہے اُن میں ملاحظہ فرمائیں امید ہے کہ اہل انصاف کو اُسے سے تسکین ہوجائے گی۔
تحقیق الایمان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا محمد و الہ واصحابہ اجمعین۔
اما بعد اضعف العباد محمد انوار اللہ عفی عنہ اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ مسئلہ ایمان ایک مہتم بالشان مسئلہ ہے جس کے معلوم کرنے کی ضرورت ہر ایمان دار کو ہے بعض لوگ ایسے بھی ہیںکہ رسمی ایمان کو حقیقی ایمان سمجھ لیتے ہیں چنانچہ چندبدوں نے دعوے سے کہا تھا کہ ہم ا یمان لائے ۔ مگر خود اللہ تعالیٰ نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اُن سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے اور ہنوز دل میں تمہارے ایمان نہیں داخل ہوا یہ کہوکہ ہم منقاد و فرماں بردار ہوگئے ہیں جیسا کہ اس آیۂ شریف میں ہے ۔ قالت الا عراب اٰمنا قل لم تومنواولکن قولوااسلمنا ولماید خل الا یمان فی قلوبکم اور دوسری آیت میں ارشاد ہے۔ یا ایھاالذین آمنو آمِنواباللہ ورسولہ والکتاب الذی نزّل علی رسولہ و الکتاب الذی انزل من قبل ومن یکفرباللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر فقد ضل ضلالابعیداً ۔اے مسلمانو! اللہ پر ایمان لائو اور اُسکے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے اپنے رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر اُتاری ہے اور اُن کتابوں پر جو پہلے اتاریں اور جو شخص اللہ کا منکر ہو اور اُس کے فرشتوں کا اور اُس کی کتابوں کا اور اُس کے رسولوں کا اور روز آخرت کا تو بڑی دور بھٹک گیا۔ کوئی بات تو ہوگی جو حق تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرکے ایمان لانے کا حکم فرماتا ہے حالانکہ ظاہر ہے کہ جو خود ایمان دار ہوں اُن کا ایمان لانا تحصیل حاصل ہے جو محال ہے۔اس بات پر ہر شخص کا وجدان گواہی دے گا کہ آدمی جب کوئی خبر سنتا ہے تو اُس کے دل میںایک قسم کی کیفیت پیداہوتی ہے جو اُس خبر کے صدق سے متعلق ہے۔ ہر چند مدارج اُس کے بے انتہا ہوسکتے ہیں ۔ مگر علماء نے اُس کے چاردرجے قرار دئیے ہیں وہم، شک ،ظن اور یقین ۔پہلا درجہ وہم ہے جس میں اُس خبر کے صدق کا احتمال مرجوح اور عدم صدق کا احتمال راجح ہو ۔مثلاً اخباروں میں جب یہ خبر شایٔع ہوئی کہ سوائے تاربرقی کے ایک آلہ ایسا ایجاد ہواہے کہ اُسکے ذریعہ سے بغیر تعلق تاروغیرہ کے دور دور کی خبریں معلوم ہوتی ہیں۔ اگر چہ اِ س لحاظ سے کہ آج کل اقسام کی ایجادیں ہورہی ہیں اس خبر کے صدق کا احتمال تو ہوگیا مگر اس لحاظ سے (کہ بغیر تعلق کے دور دور کی خبریں معلو م ہو نا خلاف عقل ہے ) ظن غالب اور احتمال راجح یہی تھا کہ جھوٹ ہوگی۔ غرضکہ اِس مثال میں صدق کی جانب مرجوح اور عدم صدق کی جا نب راجح ہے اس لئے کہا جائے گا کہ یہاں صدق کا وہم اور عدم صدق کا ظن ہے۔ اور اگر دونوں جانب برابر ہوجائیں ۔مثلاً دوچار آدمی کہہ دیں کہ ہم نے بچشم خودوہ آلہ دیکھا ہے۔ اور اُس کے ذریعہ سے خبریں دریافت کی ہیں اور وہ خبریں صحیح ثابت ہوئیں جس سے صدق کی جانب کوقوت ہوجائے مگر نہ اس قدر کہ احتمال کذب پر اُس کا غلبہ ہوبلکہ دونوں احتمال برابر ہوں تواُس کو شک اور تردد کہتے ہیں ۔پھر اگر اور چند لوگ گواہی دیں جس کی وجہ سے صدق کا احتمال غالب اور کذب کا احتمال مغلوب ہوجائے تو کہاجائے گا کہ اُس خبر کے صدق کا ظن اور کذب کا وہم ہے۔ پھر اگر اُس خبر کی صحت پر اتنی گواہیاں پہونچیں کہ اُن کی تکذیب نہو سکے اور احتمال کذب باقی نہ رہے تو اُسکو یقین کہیںگے اس سے ظاہر ہے کہ یقین اُس کیفیت قلبی کا نام ہے کہ جس میں کسی قسم کا تر دد نہ ہو مثلاً اگر کوئی کہے کہ آفتاب روشن ہے۔تو ہمارے وجدان میں ایک ایسی کیفیت پائی جائے گی جو اُس خبر کی جانب مقابل یعنی روشن نہ ہو نے کا خیا ل بھی نہ آئے گا اور اگر اس قسم کی کیفیت پیدانہ ہو تو اُس کو یقین نہ کہیںگے۔
اِن چاروں کیفیتوں پر جو آثار مرتب ہواکرتے ہیں اُنکے مدارج مختلف ہیں ۔مثلاً کسی مسافر سے جنگل میں ایک شخص کہہ دے کہ اِس راہ میں شیر ہے اور کہنے والا معمولی آدمی ہوتو اُس سے صرف وہم پیدا ہوگا جس کے اثر سے ابتدائی درجہ کا خوف پیدا ہوگا جو اِ س خبر کے سننے سے پہلے نہ تھا۔ پھر اگر کسی قرینہ یا دوسرے شخص کے خبر دینے سے اُس احتمال میں قوت پیداہواور شک کی نوبت پہنچ جائے تو خوف بہ نسبت سابق کے زیادہ ہوگا اورکسی قدر احتیاط کی ضرورت معلوم ہوگی پھر اگر دوسرے قرائن یا اخبار سے ظن غالب ہوجائے تو بہ نسبت سابق کے خوف اور زیادہ ہوگا اور مزید احتیاط کی ضرورت داعی ہوگی اور جب متواتر خبروں اور مختلف قرائن سے یقین ہوجائے کہ بیشک شیر اُس راہ میں موجود ہے تو انتہا ئی درجہ کا خوف طاری ہوگا۔ یہا ں تک کہ اُس راستہ ہی کو چھوڑ دے گا اور اگر اپنی شجاعت پر پورا بھر وسہ ہوتو ایسے ہتھیار ساتھ لے گا کہ جن سے کامیابی کا یقین ہو غرضکہ کیفیات قلبیہ و جدانی امور ہیں ہر شخص اپنے وجدان سے ان کا فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس قسم کی کیفیت کاوجود ہے۔جس پر آثار جو ہر کیفیت کے جد اجداہوتے ہیں ۔ بمنزلہ گواہوں کے۔ مقصود اِس تقریر سے یہ ہے کہ جو خبریں قرآن اور احادیث میں وارد ہیں خواہ خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہوں یا فرشتوں اور امم سابقہ اور ہمارے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ اور واقعات آئندہ وغیرہ سے مسلمان کو چاہئے کہ اُن سب پر ایمان لائے اور غور کرے کہ چوتھے درجہ کی کیفیت یعنی یقین کا وجدان ہے یا نہیں اگر ہوتو شکر الٰہی بجالائے۔ مگر اُس کے ساتھ یہ بھی دیکھ لے کہ اُس یقین کے آثار و لوازم بھی پائے جاتے ہیں یا نہیںمثلاً جب اُس کا یقین ہو کہ خدائے تعالیٰ علیم اور سمیع و بصیر ہے تو اُس کا اثریہ ہونا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ کے خلاف مرضی کوئی کام نہ کرے۔ کیونکہ اُس یقین کا لازمہ یہ ہے کہ خوف الٰہی پیداہوپھر مقتضیٰ اُس خوف کا یہ ہے کہ اگر کوئی گناہ غفلت سے صادر ہوجائے تو دل میں ندامت پیداہواور بصدق دل توبہ کرے۔ اگر اس قسم کے آثار پیدانہ ہوں تو اس لحاظ سے کہ’’ اذاثبت الشیء ثبت بلوا زمہ‘‘۔اور بحسب قاعدۂ معقول انتفائے لازم سے انتفائے ملزوم سمجھاجاتاہے۔اُس یقین میں کلام ہوگا۔
اب ایمان کے معنی سنئے کہ علمائے ؒ نے کیا لکھا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ لفظ ایمان امن سے ماخوذ ہے جسکے معنی باب افعال میں لے جانے سے امن دینے کے ہوئے چنانچہ حق تعالیٰ فرماتاہے’’ وآمنھم من خوف‘‘۔ یعنی اُن کو خوف سے امن دیا۔ لسان العرب میں لکھا ہے کہ’’ آمنتُ فا نا امن و امنتُ غیری من الامن والامان‘‘ اور اگر لفظ ایمان تصدیق کے معنی میں ہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ کا نام مبارک مومن ہے اسکی وجہ بعضوں نے لکھی ہے کہ قیامت کے روز اہل ایمان کو امن دے گا اور بعضوں کا قول ہے کہ اُنکی تصدیق فرمادے گا ۔انتہیٰ ملخصاً۔ بیضاوی شریف میں ہے کہ ایمان لغت میں تصدیق کو کہتے ہیں ۔چنانچہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد سے کہا تھا ۔’’وماانت بموئمن لنا ولوکنا صاد قین‘‘ یعنی آپ ہماری تصدیق نہ کروگے اگرچہ ہم صادق ہوں ۔دراصل ایمان بمعنی تصدیق بھی امن ہی سے ماخوذ ہے اس لئے کہ باب افعال میں لیجانے سے اُس کے معنی امن دینے کے ہوئے ۔ اور ظاہر ہے کہ جوکوئی کسی کی تصدیق کرتا ہے گویا اُسکو تکذیب اور مخالفت سے ا من دیتا ہے اور بے فکر کردیتا ہے ۔کذافی الکشاف وغیرہ ۔چونکہ تصدیق ملَزوم اور امن دینا لازم ہے۔اِس وجہ سے لفظ ایمان کا استعمال تصدیق کے معنی میںمجاز ہوگا از قسم ذکر لازم و ارادئہ ملزوم ۔ لیکن اس صورت میں چاہئے تھا کہ متعدی بنفسہ ہونا اور’’ آمنتہُ ‘‘کہا جانا حالانکہ حرف با کے ساتھ وہ متعدی ہواکرتا ہے اور امنت بہ کہاجاتا ہے۔ اس کی وجہ بیضاوی شریف وغیرہ میں یہ لکھی ہے کہ معنے اعتراف اقرار کی یہاں تضمین ہے اسلئے کہ جب کسی چیز کی تصدیق کی جاتی ہے تو اُس کا اعتراف اور اقرار بھی ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں آمنت باللہ کے معنی یہ ہوئے کہ میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق اور اعتراف کرتا ہوں اِس صلہ یعنی حرف با کے الزام سے یہ اہتمام مقصود ہے کہ مومن بہ کی تصدیق قلبی کے ساتھ اعتراف لسانی بھی ہو۔علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں اور کمال ابن ابی الشریف نے مسائرہ شرح مسامرہ میں لکھا ہے۔ کہ امن با (ب )کے ساتھ متعدی ہوتو اعتراف و اقرار کی تضمین ہوگی جیسے’’ آمن الرسول بما انزل الیہ‘‘ اور لام کے ساتھ متعدی ہوتو اذعان و قبل کی تضمین ہوگی کما قال تعالیٰ وامنلہ لوط شرح مقاصد میں لکھاہے کہ ایمان کے معنے کا ماحصل صدق سمجھنا اور اُس چیز کا اعتراف کرنا ہے جسکی تصدیق کی جاتی ہے اور صادق متکلم کو بھی کہتے ہیں اور کلام کو بھی ۔اسلئے ہر چیز کی تصدیق مختلف اعتبار ات سے ہوگی مثلاً’’ آمنت باللہ‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اُن صفات کے متصف ہے ۔جو اُس کے لائق ہیں ۔ اور آمنت بالرسول کا یہ مطلب ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ اور جو کچھ لائے ہیں اس میں وہ صادق ہیں ۔اور ’’آمنت بالملائکۃ‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور گناہوں سے معصوم ہیں اور’’آمنت بکتبہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے سچے کلام ہیں جو پیغمبروں پر نازل ہوئے ہیں ۔ اور آمنت بالیوم الآ خر کا یہ مطلب ہے کہ وہ دن ضرور آنے والا ہے۔ اور اُس میں حساب و کتاب اور جزا و سزا ضرور ہوگی۔ اور آمنت بالقدر کا یہ مطلب ہے کہ خیر وشر سب تقدیر اور مشیت سے ہے ۔ انتہی ملخصاً ۔علامہ تفتازانی ؒ نے تہذیب الکلام میں یہ لکھا ہے کہ ایمان لغت میں بمعنی تصدیق واذعان و قبول ہے جسکو فارسی میں گرویدن کہتے ہیں ۔انتہی ملخصاً ۔اذعان کے معنی گردن نہا دن ہیں چونکہ ایمان کے معنی میں اذعان معتبر ہے اِس سے لازم ہوگیا کہ جس چیزپر ایمان لایاجائے اُس سے سرتابی نہ ہو اور یقینی طور پر قبول کرلیاجائے کہ وہ بات واقعی ہے اور اگر اُس سے ذرابھی انحراف ہوتو ایمان کا مضمون صادق نہ آئے گا غرضکہ جو مسائل نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں اُن میں یقین کی ضرورت ہے اسی وجہ سے معمولی ایمان والوں کو حکم ہے کہ ایمان لائیں یعنی ایسا یقین کریں کہ اُس پر آثار مرتب ہوں ’’کماقال تعالیٰ یا ایھالذین آمنواآمنواباللہ ورسولہ والکتاب الذی نزل علی رسولہ۔‘‘ الا یۃ۔یہاں یہ بات بھی معلوم کرنے کے لایٔق ہے کہ ایمان کا ضد اور مقابل کفر ہے اور جس طرح ایمان کا صلہ باکے ساتھ آتا ہے کفر کا صلہ بھی باکے ساتھ آتا ہے اور جس طرح متعلق ایمان جو مدخول باہے بحسب مناسب مقام مختلف ہوتا ہے متعلق کفر بھی مختلف ہوتا ہے مثلاً کفر باللہ کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی توحید کو یا اُس کے صفات کو نہ مانا اور کفر بالرسول کا یہ مطلب ہے کہ ا ُن کو خدا کے بھیجے ہوئے نہ سمجھا یا اُنکی رسالت یا اُس چیز کو نہ مانا جو اللہ کی طرف سے پہنچا رہے ہیں ۔علی ھذاالقیاس کفر بلا حکام کا یہ مطلب ہے کہ اُن کو من جانب اللہ اورمامور بہا نہ سمجھا۔ مگر اس مقام میں ایک اشکال ہے وہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’ومن یکفربالایمان فقد حبط عملہ وھوفی الاخرۃ من الخاسرین۔‘‘ ترجمہ: اور جو کوئی منکرہواایمان سے اُس کے اعمال ضائع ہوئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہے ۔اِس آیۂ شریفہ میں مدخول باایمان ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ کفر بالایمان باعث حبط ا عمال ہے اور وہ درست نہیں اِس لئے کہ اگر کفر بالایمان حرام ہوتو ایمان بالایمان واجب اور باعث نجات ہوگا حالانکہ ایمان پر ایمان لانا کوئی بات نہیں جیسا کہ امام رازی ؒ نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔’’قولہ ومن کفربالایمان فیہ اشکال وھوان الکفر انما یعقل باللہ ورسولہ فاماالکفر بالایمان فھومحال فلھذاالسبب اختلف المفسرون علیٰ وجوہ‘‘ یعنی کفر باللہ و بالرسول تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کفر بالایمان محال ہے اسی وجہ سے مفسرین نے اسکے معنی میں اختلاف کیا ہے ۔پھر امام ؒ نے مفسروںکے تین قول بیان کئے جو تینوں قول میں ایمان کے مجازی معنیٰ لئے گئے ہیں ہر چند بات یہی ہے جو امام ؒ نے لکھی ہے مگر ایک توجیہ ایسی بھی ہوسکتی ہے جس میں ایمان کے معنیٰ مجازی لینے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ نفس ایمان پر بھی ایمان لانے کی ضرورت ہے اور اُس کا یہ مطلب ہوگا کہ یقین کرے کہ خدا اور رسول اور جمیع احکام وغیرہ پر ایمان لانا مامور بہ ہے کیونکہ ابھی معلوم ہواکہ متعلق ایمان کے معنی مناسبت اور ضرورت لئے جاتے ہیں اُسکی مثال بعینہ ایسی ہے جیسے نماز پر ایمان لانے کی ضرورت کہ وہ ماموربہ ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے فرض کیا ہے۔ اس ایمان کے وقت ضرور نہیں کہ خارج میں کوئی ایسی چیز ہو جس کو نماز کہیں بلکہ یہ کافی ہے کہ ذہن میں اُن حرکات و سکنات کا مجموعہ رہے جن پر نماز صادق آتی ہے اور یہ تصدیق کیجائے کہ ماموربہ ہے یعنی خدائے تعالیٰ نے اوقات مخصوصہ میں ایسے حرکات و سکنات کے بجالانے کا حکم فرمایا ہے اسی طرح ایمان میں جن جن چیزوں کی ضرورت ہے مثلاً اذعان وتصدیق وغیرہ جن کا حال ان شاء اللہ تعالیٰ ابھی معلوم ہوگا اُن سب کے مجموعہ کا تصور کر کے یقین کیا جائے کہ وہ ماموربہ ہے اُس مجموعہ میں کل تفصیلی تصدیقات اور اُنکے متعلقات کا اجمالی طورپر تصور ہوگا کہ جن چیزوں کی خبر خدائے تعالیٰ نے دی ہے یا حکم فرمایا ہے خواہ وہ مطابق عقل ہوں یا نہوں سب کی تصدیق ضروری ہے پھر اُس مجموعہ میں تصدیق کا بھی تصور ہوگا کہ وہ معمولی تصدیق نہیں بلکہ ایسی ہونی چاہئے کہ شک و شبہ کا اُس میں دخل ہی نہ ہو غرضکہ تفصیلی تصدیقوں میں جو امور ضروری ہیں وہ سب اس مجموعہ تصوری میں داخل ہوں اور اُس پر یہ حکم لگا یاجائے کہ اِس قسم کا ایمان ماموربہ ہے بخلاف اسکے اگر کہا جائے کہ خدائے تعالیٰ کا پورا کلام ماننے کی ضرورت نہیں صرف عقل کے مطابق جس قدر ہوں وہ مان لیا جائے اور خلاف عقل باتیں جیسے ابابیل کا ایک لشکر کوہلاک کرنا اور موسیٰ علیہ السلام کے لئے دریا کا شق ہوجانا وغیرہ خوارق عادات جو قرآن شریف میں مذکور ہیں اُنکے ماننے کی ضرورت نہیں جیسا کہ فی زمانہ بعضے لوگ کہا کرتے ہیں سو یہی کفر بالایمان ہے جسکی وعید اس آیہء شریف سے معلوم ہوتی ہے ۔’’ومن یکفر بالا یمان فقد حبط عملہ‘‘ ایمان کو مومن بہ قرار دینے کی ضرورت اس وجہ سے ہوئی کہ وہ ماموربہ ہے۔’’کما قال اللہ تعالیٰ قل یا اھل الکتاب آمنو اور یاایھاالذین امنواامنو‘‘ وغیرہ اس سے ثابت ہے کہ ایمان ماموربہ ہے ۔اوریہ ظاہر ہے کہ جس چیز کا حکم خدائے تعالیٰ نے کیا ہواُس پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ دیکھ لیجئے نماز وروزہ ،حج، زکوٰۃ وغیرہ احکام پر جب تک یہ ایمان نہ ہوکہ وہ احکام الٰہی ہیں اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تو ایمان ہی کیا ہوا۔الحاصل پہلے مجملاً یہ ایمان لانا اور یقین کر نا ضرور ہے کہ کل قرآن پر ایمان لانے کا ہمیں حکم ہے خواہ وہ موافق عقل ہو یا مخالف اور اگر اُس کا انکار ہوتو ومن یکفربالایمانصادق آجائے گا۔’’ھذاماسخ لی واللہ اعلم بالصواب‘‘۔
یہ تو ایمان کے معنے تھے ۔اب اُس کے مصداق کاحال بھی معلوم کرلیجئے۔ عمدۃ القاری شرح بخاری میں علامہ عینیؒ نے اور تفسیر کبیر میں امام فخر الدین ؒ نے لکھا ہے کہ اہل قبلہ ایمان کے مسئلہ میں چار فرقے ہوگئے ہیں ایک فرقہ کاقول ہے کہ ایمان صرف فعل قلبی کا نام ہے ۔پھر اِس میں بھی دو مذہب ہیں ایک مذہب محققین جسکو امام اشعری اور اکثر آئمہ نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ نبیصلی اللہ علیہ وسلم حق تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں جسکا علم بالضرور ۃ ہوگیا ہے اُس کی تصدیق جازم کا نام ایمان ہے خواہ دلیل سے وہ تصدیق حاصل ہو یا بغیردلیل ۔علم ضروری کی قید اِس غرض سے لگائی گئی کہ جواجتہادی مسائل ہیں۔ مثلاً یہ مسئلہ کہ خدائے تعالیٰ بذاتہ عالم ہے یا بعلم سوایسے مسائل مسمائے ایمان میں داخل نہیں البتہ اِس امرکی تصدیق ضروری ہے کہ خدائے تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے کیونکہ اِس کا ذکر صراحتہً قرآن و حدیث میںوارد ہے اور تصدیق جازم کی قیداِس غرض سے لگائی گئی کہ تصدیق ظنی ایمان میں کافی نہیں ہوسکتی ہے بلکہ یقین کامل ہونا چاہئے کہ جو کچھ نبیصلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اُس میں ذرا بھی شک نہ ہو۔ دوسرامذہب یہ ہے کہ ایمان صرف معرفت قلبی کانام ہے اُس میں اقرار کی ضرورت نہیں ۔ یہاں تک کہ بعد معرفت الٰہی اگر کوئی شخص زبان سے انکار بھی کرے اور قبل انکار مرجائے وہ بھی کامل الا یمان ہے یہ قول جہم بن صفوان کا ہے۔
دوسرے فرقہ کاقول ہے کہ ایمان عمل زبان کا نام ہے اس میں بھی دومذہب ہیں غیلا ن د مشقی اور فضیل رقاشی کا مذہب یہ ہے کہ اقرار زبانی کے ساتھ معرفت قلبی شرط ہے اور کرامیہ کہتے ہیں کہ اُس کی ضرورت نہیں مگر منافق کی نسبت اُن کا قول ہے کہ وہ باعتبار ظاہر کے مومن اور باطن میں کافر ہے اِسلئے دنیا میں مومنوں کے احکام اُس پر جاری ہونگے اورآخرت میں کافروں کے۔
تیسرے فرقہ کا قول ہے کہ ایمان عمل قلب ولسان کے مجموعہ کانام ہے پھر اِس میں یہ اختلاف ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور عامہ فقہا اور بعض متکلمین کہتے ہیں کہ ایمان اقرار اور معرفت کی توجیہ اکثر نے یہ کی ہے اور وہی اصح ہے کہ وہ اعتقادجازم ہے خواہ تقلید ی ہویا دلائل سے حاصل ہو اور بعضوں کا قول ہے کہ وہ معرفت معتبر ہے جو دلائل سے حاصل ہو اِس قول پر مقلد کاایمان صحیح نہیں ہو سکتا۔
اور اقرار لسانی جو ایمان میں معتبر ہے اُس کی ضرورت ایمان استدلالی میں ہے ور نہ’’ فیمابینہ وبین اللہ ‘‘تصدیق کا فی ہے اور بشر مروی اور ابوالحسن اشعری ؒ کا قول ہے کہ وہ تصدق کہ وہ تصدیق بالقلب وباللسان ہے اور ایک جماعت صوفیہ کا قول ہے کہ وہ اقرار باللسان اور اخلاص القلب ہے ۔ پھر بعضوں نے اقرار باللسان کو شرط قرار دیا ہے یعنی اصل ایمان سے وہ خارج ہے اسی وجہ سے جو شخص ماجاربہ النبیصلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرے’’ فیما بینہ و بین اللہ ‘‘مومن ہے اگرچہ زبان سے اقرا رنہ کرے۔
اور حافظ الدین نسفی ؒ اور ابو منصور ماترید ی ؒ کا قول ہے جسکی طرف ا شعریؒ کا بھی میلان ہے کہ وہ رکن زاید ہے اِسی وجہ سے حالت اکراہ اور عجزمیں اقرار زبانی ساقط ہوجاتاہے۔
چوتھے فرقہ کا قول ہے کہ ایمان فعل قلب و لسان و جوارح ہے یعنی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار اور جوارح سے اطاعت الٰہی کا کام لینا اس مجموع کا نام ایمان ہے ۔ اصحاب حدیث اور امام مالک ؒ اور امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اور اوزاعی رحمہم اللہ اِسی کے قائل ہیں ۔ اور معتزلہ اور خوارج اور زیدیہ کا بھی یہی قول ہے۔ پھر اصحاب حدیث نے فعل قلب و جوارح میں اختلاف کیا ہے عبداللہ ابن سعید کہتے ہیں کہ فعل قلب معرفت الٰہی ہے اور وہی ایمان کامل ہے اور اُس کے بعد اطاعت علیحدہ ایمان ہے اور جحوداور انکار قلب کفر ہے پھر ہر معصیت علیحدہ کفر ہے لیکن جب تک معرفت اور اقرار نہو کوئی اطاعت ایمان نہیں ہوسکتی اور جب تک جحود وانکار نہو کوئی معصیت کفر نہیں اسلئے اصل طاعت ایمان ہے اور اصل معاصی کفر ہے اور فروع کا وجود بغیر اصل کے نہیں ہوسکتا۔
بعضے کہتے ہیں کہ ایمان تمام طاعت کا نام ہے خواہ فرئض ہوں خواہ نوافل اور وہ سب ملکر ایک ایمان ہے مگر جو شخص کوئی فرض چھوڑدے تو اُسکا ایمان ناقص ہوگا اور نوفل کے چھوڑنے سے نقص نہ ہوگا اور بعضے کہتے ہیں کہ ایمان صرف ادائے فرائض کا نام ہے۔
پھر معتزلہ کے اقوال مختلف ہیں واصل ابن عطاء اور ابوہزیل اور قاضی عبدالجبار کا قول ہے کہ ایمان ہر طاعت کی ادائی کا نام ہے خواہ واجب ہویا مستحب اور خواہ ازقسم اعتقادات ہویا اقوال وافعال ۔ابو علی جبائی اور ابو ہاشم کا قول ہے کہ وہ فقط ادائے واجبات کا نام ہے اور نظّام کاقول ہے کہ جس گناہ کے باب میں وعید وارد ہے اُس سے اجتناب کرنے کا نام ایمان ہے اور اُسکے بعض اصحاب کا قول ہے کہ ایمان کی شرط ہر کبیرہ سے بچنا ہے۔ اور خوارج کا اتفاق اِس بات پر ہے کہ ایمان ان امور کے مجموعہ کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اور اُن چیزوں کی معرفت حاصل ہوجن پر دلیل عقلی یانقلی قایم ہے اور اطاعت الٰہی اُن امور میں جن کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم وارد ہے خواہ چھوٹے ہوں یا بڑ ے مذہب خوارج معتزلہ کے مذہب سے قریب قریب ہے اور ان دونوں کے قریب مذہب سلف واہل حدیث ہے جن کے نزدیک تصدیق بالجنان و اقرار باللسان وعمل بالارکان کے مجموعہ کا نام ایمان ہے مگر فرق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی طاعت کو ترک کرے خواہ افعال سے ہویااقوال سے معتزلہ کے نزدیک وہ ایمان سے خارج ہوتاہے لیکن کفر میں داخل نہیں ہوتا بلکہ دونوں کے بین بین رہتا ہے جس کو وہ منزلۃ بین المنزلتین کہتے ہیں اور خوارج کہتے ہیں کہ طاعت کے چھوڑ تے ہی آدمی کفر میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ ایک طاعت کا بھی ترک اُنکے نزدیک کفر ہے اور سلف کے نزدیک وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔ امام شافعی ؒ سے منقول ہے کہ ایمان تصدیق اور اقرار اور عمل کانام ہے مگر مدارج مختلف ہیں جو تصدیق نہ کرے وہ منافق ہے اور جو اقرار نہ کرے وہ کافر ہے اور جو عمل نہ کرے وہ فاسق ہے اگر چہ دوزخ میں جائیگا مگر ہمیشہ اُس میںنہ ر ہے گا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ اہل سلام کے جتنے فرقے ہیں سب کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ جن چیزوں پر ایمان لانے کا حکم قرآن اور حدیث سے ثابت ہے مثلاً خدا ئے تعالیٰ کی ذات وصفات اور وجودملائکہ اوررسلالت نبیصلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیھم السلام اور قیامت اور جز ا و سزا اور مسئلہ تقدیر جنکی تفصیل صفت ایمان میں مذکور ہے اِن سب امور کی تصدیق کی ضرورت ہے اور تصدیق بھی کیسی کہ جازم ہو اور بعضوں نے تو معرفت کی بھی ضرورت بتلائی جس کا مرتبہ تصدیق سے بھی زیادہ ہے ۔ البتہ بعضوں نے ایمان کو عمل زبان کہا ہے مگر انکے نزدیک بھی تصدیق قلبی شرط ہے اور کرامیہ گو اُس کی ضرورت نہیں سمجھتے اور صرف اقرار لسانی کو ایمان کہتے ہیں مگر اُن کا بھی یہی مطلب ہے کہ بغیر تصدیق قلبی کے اخروی نجات حاصل نہیں ہوسکتی اگرچہ دنیا میں لوگ زبانی اقرار کرنے والے کو مومن سمجھ لیں گے ۔ اور معتزلہ نے تو ایمان کے مسئلہ میں نہایت ہی تشدد کیا ہے کہ علا وہ تصدیق و اقرارکے عمل کو اصل ایمان ہی میں داخل کردیا چنانچہ جو شخص نماز و روزہ وغیرہ امور شرعیہ کو ادانہ کرے اُس کو وہ ایمان ہی سے خارج کردیتے ہیں۔ اور جہمیہ نے اس قدر تشدد کیا کہ ایمان معرفت کا نام رکھا جو کبھی زائل نہ ہوسکے ا سی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بعد معرفت زبان سے اقرار نہ کرے اور انکار ہی کرتا رہے جب بھی وہ کامل الایمان ہے اسلئے کہ معفرت ایسی قوی چیز ہے کہ انکار سے زائل نہیں ہوسکتی’’ کمافی الملل والنحل للشھر ستانی۔‘‘ الحاصل کل فرقہ اسلامیہ کے نزدیک مسلم ہے کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ احکام بیان فرمائے ہیں ان کی جزاو سزا کی جزوی تصدیق ایمان میں معتبر ہے اور بغیر اسکے کسی فرقہ کے نزدیک وہ ایمان جو با عثِ نجات اخروی ہو صادق نہیں آسکتا ۔ اب خیال کیا جائے کہ تحصیل تصدیق میں کس قدر اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ جسکو کامل اور جزوی تصدیق امور مذکورہ کی ہوگی وہ شخص خدا اور رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی ا طاعت میں کس قدر جاں فشانی اور جان باز ی کرے گا۔ اسی کو دیکھ لیجئے کہ جب کوئی مستقل بیدار مغز بادشاہ شاہی احکام اپنی قلمر و میں نافذ کرتا ہے اور ہر ایک کام کی کرنے اور نہ کرنے پر جزاو سزا مقرر کرکے ایک دستور العمل مرتب کرتا ہے تو اسکی رعا یا امتثال اوا مرواجتناب نواہی میں کیسی سرگرم ہوجاتی ہے کہ اگر چہ کسی کام میں اُن کا سراسر نقصان ہو ا اور اُسکے کرنے یا ترک کرنے میں کتنی ہی مشققت ہومگرخلاف حکم وہ کوئی کام نہیں کرسکتے وجہ اُسکی کیا ہے وہی ایک تصدیق اور یقین ہے کہ اگر عدول حکمی کریں گے تو مستحق سزاہوں گے اب اسی پر قیاس کیجئے کہ جسکو یقین ہوکہ احکام الٰہی کے نہ ماننے یا پا بندی نہ کرنے میں سزاہوگی اور دوزخ میں جانا ہوگا جس میں اقسام کے عذاب ہیں اور امتثال اوامر میں استحقاق جنت ہے جس میں بے انتہا نعمتیں ہیں اور ابد الآبادوہ اس میںرہے گا تو وہ کس قدر احکام الٰہی کی پابندی کرے گا ۔اب یہاں قابل توجہ یہ بات ہے کہ جتنی پابندی حکم شاہی کی کی جاتی ہے اگر احکام الٰہی کی اتنی بھی پابندی نہ ہو تو کس طرح سمجھا جائے کہ ابدی جزا و سزاکی تصدیق اور یقین کیا گیا ہے پھر اگر یقین ہی میں کلام ہوتو اہل ایمان میں شامل ہونے کی کیا صورت اس لئے ہر مسلمان کو ضروری ہے کہ اپنی تصدیق اور ایما ن میں غور و فکر کیا کرے اور اس کو اس حد تک پہونچائے کہ جملہ احکام شرعیہ کی پابندی نفس پر آسان ہوجائے کیونکہ جب یقین اِس امر کا ہو جائے کہ نماز کو ترک کرنے سے آدمی دوزخ کا مستحق ہوجاتا ہے تو دن رات میں پانچ نمازیں اداکرنا اس کے مقابلہ میں کوئی مشکل بات نہیں۔
اسی طرح سال بھر میں ایک مہینے کے روزے رکھ لینا اور سوروپیہ جمع ہوں اور سال بھر رہیں توڈہائی روپیہ اُس کی زکوٰۃ ایک مشت یا بد فعات اپنے مفلس قرا بتداروں یا فقرا کودینا۔ اور عمر بھر میں ایک بارحج کو جانا اُن آفتوں کے مقابل کون سی بڑی بات ہے آج کل مذہب معتزلہ وقعت کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے یہاں تک کہ بعض لوگ تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم معتزلی ہیں وجہ اسکی یہی ہوگی کہ آج کل حکمت کا مذاق غالب ہے اور معتزلہ نے حکما کو اکثر مسائل میں اپنا پیشرو بنالیا تھا اکثر وہ انہیں کے دلائل سے مدد لیتے ہیں مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن حضرات کو معتزلہ کے مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں اسلئے کہ معتزلہ نے عمل کے باب میںیہاں تک سختی کی ہے کہ نفس ایمان اسی کو قرار دیا ہے چنانچہ شرح مواقف ان کا قول نقل کیا ہے کہ ادائی واجبات دین ہے اور دین اسلام ہے۔ اور اسلام ایمان ہے ۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ادائے واجبات ایمان ہے اور ان دعووں کے دلائل میں وہ جا ئے گا قرآنیہ پیش کرتے ہیں ۔ چنانچہ ادائے واجبات کا اسلام ہونا اس آیت سے ثابت کرتے ہیں۔’’ ویقیمواالصلوٰۃ ویوتواالزکوٰۃ وذالک دین القیمہ‘‘ اور قایٔم کریں نماز اور دیں زکوٰۃ اور یہ ہے اور راہ مضبوط لوگوں کی ‘‘۔ اِس سے ظاہر ہے کہ نماز اداکرنا اور زکوٰۃ دینا ملت قیمہ یعنی مسلمانوں کا دین ہے اور دین کا اسلام ہونا اِس آیہ شریفہ سے ثابت ہے ان الدین عند اللہ الا سلام اور اسلام کاایمان ہونا اس آیت شریفہ سے معلوم ہوتا ہے ’’ومن یتبغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ‘‘ یعنی جو شخص سوائے اسلام کے کوئی دین طلب کرے تو اُس سے وہ دین قبول نہ کیا جائے گا جس سے ظاہر ہے کہ غیر اسلام اگر ایمان ہوتو وہ قابل قبول نہیں ۔ اور اس آیت سے بھی ثابت کرتے ہیں’’ قولہ تعالیٰ فا خرجنا من کَان فیھا من المو منین فما وجد نا فیھا غیر بیت من المسلمین‘‘ پس نکا ل دیا ہم نے اُس بستی سے جتنے اُس میں ایمان والے تھے اور ہم نے مسلمانوں کے ایک گھر کے سوااُس میں پایا نہیں ۔‘‘سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ مستثنیٰ بیتاً من المومنین ہے اور تقدیر یہ ہوگی ’’فما وجد نا بیتا من المومنین الابیتا من المسلمین ‘‘جس سے ظاہر ہے کہ مومن وہی ہیںجو مسلمین ہیں ۔غرضکہ نماز، روزہ ،حج اورزکوٰۃ وغیرہ اوا مرکو بجالانے اور شراب خوری اور ربوٰوغیرہ کبائر سے اجتناب کرنے میں انہوں نے حد سے زیادہ تشدد کیا ہے چنانچہ ابن حزم اور شہر ستانی ؒ نے ملل اور نحل میں اُنکا عقیدہ بیان کیا کہ اگر کوئی عمر بھر عبادت کرے مگر کبھی ایک کبیرہ کا مرتکب ہوا کرتا ہویا ایک نماز یا روزہ قصداً ترک کردے اور قبل تو بہ مرجائے تو وہ قطعاًدوزخی ہے اور فرعون اور ابولہب کے ساتھ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا پھر اگر خدائے تعالیٰ بھی اُسکو دوزخ سے نکالنا چاہے تو نہ نکال سکے گا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں اِس قدر اُن کو اہتمام ہے کہ اگر کوئی شخص کہنے سننے سے نہ مانے تو تلوار سے اُس کو منانا چاہئیے۔
دیکھئے دینی معاملات اور اعمال کی طرف کس قدر اُنکی توجہ مبذول ہے ۔ ہمارے معاصرین گو معتزلی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مذہب معتزلی کی تعریف کرتے ہیں اور عملی ثبوت بھی دیتے ہیں کہ مختلف فیہ مسائل میں معتزلہ کے دلائل سے اہل سنت جماعت کے مذہب کو ردکرتے ہیں مگر انکے عمل کی جانب نگاہ ڈالی جاتی ہے تو اس کا نام تک نہیں سنا جاتا پھر ان کو معتزلی کیونکر سمجھا جائے ادنیٰ توجہ سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ نہ وہ سنی ہیں نہ معتزلی نہ شیعی وغیرہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری اور تفرقہ اندازی کی غرض سے ردوقدح کا بکھیڑا اورجھگڑا لگارکھا ہے ۔خیر حق تعالیٰ ہم کو اور اُن کو نیک تو فیق عطا فرماوے۔
قصدالسبیل میں لکھا ہے کہ ایمان شرعی کی تعریف علماء نے یہ کی ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام پہنچائے ہیں اور ضروری طورپر اُن کا علم ہوا ہے اُنکی تصدیق اس طور سے کیجائے کہ جوامور تفصیلاً معلوم ہوئے ہیں اُن کی تصدیق تفصیلاً اور جواجمالاً معلوم ہوئے اُنکی تصدیق اجمالاً ہونا خواہ وہ دلیل سے حاصل ہو یا بغیر دلیل کے لیکن یہ ضروری امر ہے کہ تصدیق جزوی ہو۔
تعریف میں جو قید لگائی گئی کہ جو امور کہ ضروری طور سے معلوم ہوئے ہوں اُس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو عوام الناس بھی سمجھ سکتے ہیں اور اُنکے معلوم کرنے میں نظر و فکر کی ضرورت نہیں جیسے وحدانیت اور نبوت اور نماز و روزہ و حج وزکوٰۃوغیرہ۔ بخلاف اُن مسائل کے جو اجتہاد سے معلوم ہوتے ہیں اور تفصیلی امور سے مراد وہ امور ہیں جنکا ذکر مفصلاً ہو اہے جیسے ملائکہ میں جبرئیل و میکائیل وغیرہ اور انبیا میں موسیٰ و عیسیٰ وغیرہ علیہم السلام اور کتابوں میں توراۃ انجیل وغیرہ اور اجمالی امور سے مراد وہ امور ہیں جنکی تفصیل معلوم نہو جیسے کل انبیاء اور کل کتب وملائکہ اس میں اسی قدر ضرورت ہے کہ ہم سب پر ایمان لائے۔
حاصل یہ کہ جن چیزوں کا وجود ظاہر ی طور اس طرح ثابت ہے کہ عوام الناس بھی سمجھ لیتے ہیں جیسے فرشتوں کا وجود کہ اُن کا آسمانوں سے اُتر نا اور چڑہنا وغیرہ امور قرآن شریف میں بیان کئے گئے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ اُن کا وجود مستقل ہے وہ ہمارے قویٰ نہیں ہیں ایسے امور پر ایمان لانے کی ضرورت اگر کوئی تا ویلیں کرکے کہے کہ فرشتے بھی ہمارے قویٰ ہیں انکے سوا کوئی چیز نہیں تو سمجھا جائے گا کہ وہ قرآن پر ایمان نہیں لایا۔
تصدیق
ایمان میں چونکہ تصدیق معتبر ہے اِس لئے ضرورہے کہ اُسکے بھی معنی سمجھ لئے جائیں’’کشاف الاصطلاحات‘‘ میںلکھا ہے کہ لغت میں تصدیق کے معنی یہ ہیں کہ کسی قائل کیطرف صدق کی نسبت کیجائے خواہ وہ دل سے ہویا زبان سے اور تصدیق معرفت میں یہ فرق ہے کہ تصدیق ضدانکار ہے اور معرفت ضد جہالت ونکارت اما م غزالی ؒ نے جو لکھا ہے کہ تصدیق تسلیم کرنے کا نام ہے اس میں اسی طرف اشارہ ہے اسلئے کہ تسلیم انکاراور استکبار کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ امام غزالی ؒنے اُس کی تفصیل اس طرح کی ہے کہ تصدیق ربط قلبی کا نام ہے جو امر کسبی ہے کہ مصدق اپنے اختیار سے کرتا ہے اسی واسطے لوگ ایمان کے مامور ہیں اور اس پر ثواب حاصل ہوتا ہے اور وہی تصدیق تمام عبادتوں کا سر ہے بخلاف معرفت کے کہ وہ بغیر اختیار کے ہی حاصل ہوسکتی ہے جیسے کسی دیوار یا پتھر پر نظر پڑتے ہی بے اختیار معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ وہ دیوار یا پتھر ہے۔ اور تصدیق میں خصوصاً تصدیق شرعی میں واجب ہے کہ وہ کسبی ہوملا عبدالحکیم ؒ نے حاشیہ خیالی کی بحث ایمان میں لکھا ہے کہ اس پر تو اتفاق ہے کہ معرفت مذکورہ تصدیق لغوی سے خارج ہے مگر اس میں اختلاف ہے کہ آیا وہ تصور میں داخل ہے یا تصدیق منطقی میں صدرالشریعہ ؒ لکھتے ہیں کہ وہ تصدیق منطقی میں داخل ہے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ تصور ہے انتہیٰ۔
حاصل یہ کہ ایمان میں جو تصدیق معتبر ہے معرفت پر صادق نہیں آتی اسلئے کہ اہل کتاب کو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی پوری معرفت حاصل تھی کہ آپ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسلئے کہ کتب سابقہ میں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل وحالات برابر مذکور ہیں جن کے مطابق انہوں نے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو پایا پھر ولادت شریف کے زمانہ میں کا ہنوں کا خبریں دینا کہ آپ کا ظہور قبیلہ قریش میں ہوگا اور ہر طرف ہاتفوں کی پکار کہ نبی آخرالزمانصلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوگئے اور بتوں کا سر بسجود ہوجاتا وغیرہ حیرت انگیزامور جو ولادت شریف کے وقت اور اُسکے قبل و بعد ظہور میں آئے جو کتب احادیث میں مصرح ہیں ۔ پھر آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے غیر معمولی حرکات وسکنات اور جامع فضائل صوری ومعنوی ہونا جو خاصہ منتخب افراد انسانی اور انبیا کا ہے یہ سب امور ایسے ہیں کہ جس ذات میں جمع ہوں ممکن نہیں کہ وہ معمولی آدمی سمجھا جائے بلکہ وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے رتبہ عالیہ کی طرف تو جہ دلانے میں کافی ووافی تھے پھر جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا اور وقتاً فوقتاً معجزے دکھانے لگے جن کا ظہور قدرت مخلوق سے خارج اور خاص قدرت الٓہی سے متعلق ہے اورکلام الٓہی پڑھ پڑھ کر سُنانے لگے جس میں علاوہ تاثیرات روحانیہ کے فصاحت وبلاغت میں بھی اس درجہ پر ہے کہ تمام جن و انس اُس کے جیسا کلام بنانے سے عاجز ہیں اور باوجوداس عام اعلان کے’’ فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعواشھدائَ کم من دون اللّٰہ ان کنتم صِادقین ‘‘فصحاے عرب دم نہ مارسکے تو بتائیے کہ اتنے براہین قاطعہ اور مشاہدات کے بعد ایسا کون بلید الذہن اور پاگل ہوگا کہ اُسکو معرفت حاصل نہ ہوئی ہو غرضکہ عموماً کفار خصوصاً اہل کتاب کو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ضرورحاصل تھی چنانچہ خود حق تعالیٰ اوسکی گواہی دیتا ہے’’ کما قال تعالیٰ والذین آتینا ھم الکتاب یعر فو نہ کما یعرفون ابنائَ ھم‘‘ یعنی جس طرح ہرروزو دیکھنے سے اپنے لڑکوں کی معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے کہ آدمی ہزارلڑکوں میں اپنے لڑکے کو پہچان لیتا ہے اسی طرح کثرت علامات وامارات و معجزات کی وجہ سے اہل کتا ب نبیصلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے ہیں کہ وہ نبی آخرالزماں ﷺہیں ۔ دیکھئے باوجود اتنی معرفت کے اُنکو مسلمان نہیں کہ سکتے اسلئے کہ تصدیق لغوی ان میں نہیں پائی گئی کیونکہ وہ تکبر اور عناد کی راہ سے گویا یہ بات کہتے تھے کہ یہ سب کچھ سہی مگر ہم تصدیق کی نسبت انکی طرف کبھی نہ کرنیکے کہ وہ اپنے دعووں میں صادق ہیں اگر چہ مقتضیٰ اس معرفت کا یہ تھا کہ وہ تصدیق کرلیتے مگر تعصب مذہبی نے اُنکو اُس سے روکا اور کافر کے کافر رہے اور وہ معرفت بیکار گئی بلکہ وہی وبال جان ہوئی کیونکہ جان بوجھ کر ایمان نہ لانیوالا بہ نسبت نادان کے زیادہ مواخذہ کے قابل ہے ۔ اس سے معلوم ہواکہ نفس معرفت ایمان نہیں بلکہ اُسکے بعد اپنے قصد سے ایمان لانے کی ضرورت ہے۔
محقق تفتازنی ؒ نے شرح مقاصد میں بعض متاحرین کا قول نقل کیا ہے کہ ایمان میں معتبر وہ تصدیق ہے جو اختیار سے حاصل ہو یعنی متکلم کی طرف صدق کی نسبت اختیار سے کی جائے اختیار کی قید اس غرض سے لگائی گئی کہ تصدیق شرعی تصدیق منطقی سے ممتاز ہوجائے اس لئے کہ تصدیق منطقی کبھی بغیرر اختیار کے بھی ہوتی ہے مثلاً انبیا علیہم السلام جب نبوت کا دعویٰ کرکے معجزات دکھائے تو بعضوں کو اُنکا صدق بے اختیار دل میں واقع ہوجاتا تھا باوجود اس کے اُنکا تصدیق کرنا بحسب لغت صادق نہیں آتا اسلئے وہ شرعاً بھی ایمان نہیں ہو سکتا اصل یہ ہے کہ تصدیق مامور بہ ہے اس کا مقدور اور اختیاری ہونا ضرورہے اور وہ کیفیت جو اُن کے دل میں پیداہوگئی تھی وہ اختیاری نہ تھی بلکہ ایک علم تھا جسکو کیفیت نفسانی کہتے ہیں یا انفعال یعنی قلب میں اِس معنی کا حصول بہر حال اُسپر فعل قلبی صادق نہیں آتا جو مامور بہ ہے اس سے ثابت ہواکہ تصدیق علم پر ایک زاید چیز ہے اُس میں یہ ضرور ہے کہ اختیار سے ایقاع نسبت ہوجسکو کلام نفسی اور عقد قلب کہنے میں ہر چند سو فسطائی وجودنہار کا عالم ہومگر اُسکو لغتہً مصدق نہیں کہہ سکتے اِس طرح کفار مذکور ین گو جانتے تھے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں مگر اُنکو مصدق نہیں کہہ سکتے اسلئے کہ اُنہوں نے وہ حکم اختیار سے نہیں کیا تھا اور بجائے تصدیق کرنے کے ہمیشہ منکر رہے الغرض شرعی تصدیق منطقی تصدیق نہیں ہے۔ محقق مذکور نے اس قول کو نقل کرکے اُسپر چند اعتراض کئے ہیں۔
(۱) ماموربہ کے مقدور واختیاری ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مقولہ کیفیت سے نہو بلکہ یہ کافی ہے کہ اُسکے ساتھ قدرت کا تعلق صحیح ہوا ور حصول اُسکا کسب اور اختیار سے ہوسکے خواہ ماموربہ فی نفسہ اوضاع اور ہئیا ت سے ہوجیسے قیام وقعود یا کیفیات سے جیسے علم ونظر حق تعالیٰ فرماتا ہے’’ فا علم انہ لا الہ الا ھو۔ فانظر ماذا فی السموات‘‘ ۔اِن دونوں آیتوں میں ماموربہ علم و نظر ہیں جو کیفیات سے ہیں ۔یا حرکات وسکنات سے جیسے نمازیاترک ہو جیسے روزہ باوجود یکہ یہ امور مقولہ فعل سے نہیں ہیں مگر ماموربہ ہیں اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیفیت قلبیہ ماموربہ ہے جسکے ساتھ قدرت کا تعلق صحیح ہے اور اگر ماموربہ کا فعل بمعنی تا ثیرہونا لازم و ضروری ہوتو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایمان کا واقع کرنا اور اُسک اکتساب وتحصیل ماموربہ ہے جیسے تمام واجبات میں ہواکرتا ہے اِس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایمان مقولہ فعل سے ہوبلکہ اُسکا واقع کرنا مقولہ فعل سے ہوگا نہ نفس ایمان۔
(۲) کوئی ضرورت نہیں کہ ہم تصدیق منطقی سے تصدیق لغوی کو علیحدہ اور ممتاز کریں خود شیخ نے جو فن منطق میں مقتداہے تصریح کی ہے کہ تصدیق منطقی جو علم کی ایک قسم ہے وہ بعینہ تصدیق لغوی ہے جسکی تعبیر فارسی میں گردیدن سے کیجاتی ہے اور مقابل تکذیب ہے چنانچہ دانش نامہ علائی میں لکھا ہے ۔دانش دو گونہ است یکی دریا فتن ودررسیدن وآن رابتازی تصورخوانندودوم گردیدن وآن رابتازی تصدیق خوانند۔اِس سے ظاہر ہے کہ تصدیق منطقی اور لغوی دونوں ایک ہی ہیں اور شفا میں لکھا ہے ۔’’ التصدیق فی قولک البیا ض عرض ھوان بحصیل فی الذھن نسبۃ صورۃ ھذالتا لیف الی الا شیائِ انھامطابقۃ لھا والتکذیب یخالف ذالک‘‘ اِس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ تصدیق نسبت تامہ کا ذہن میں حاصل ہوجانا ہے جیسے بعضوں نے سمجھاہے بلکہ مقصود اُن کا یہ ہے کہ تصدیق حصول اِس امر کا ہے کہ طرفین مولف کے درمیان جو نسبت ثبوتی یا سلبی ہے اُسکو ذہن نفس الامر کی طرف نسبت کرے کہ یہ نسبت واقع کے مطابق ہے جس کی تعبیر فارسی میںصادق داشتن وگردیدن ہے چنانچہ صاف لکھا ہے کہ وہ ضد تکذیب ہے جسکے معنی فارسی میں کاذب واشتن ہیں اس تقریر سے وہ اعتراض بھی دفع ہوگیا کہ حکم جب فعل اختیاری ہے یعنی اتفاح وانتزاع تو وہ نفس تصدیق یا جز تصدیق کیونکر ہوسکتاہے اسلئے کہ تصدیق علم کی قسم ہے جو مقولہ کیف یا انفعال سے ہے ممکن نہیں کہ وہ مقولہ فعل سے ہوسکے ۔ اِس اعتراض کا جواب تقریر سابق سے یہ سمجھاگیا کہ تصدیق شیخ کے نزدیک حصول ذہنی کا نام ہے ۔ نہ فعل ذہن کا۔اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ استادوایقاع وغیرہ الفاظ وعبارات ہیں درحقیقت نفس کا وہاں کوئی فعل نہیں ہے بلکہ صرف اذعان و قبول ہے اور ادراک اِس امر کا ہے کہ نسبت واقع ہے یا نہیں ۔ البتہ اس تصدیق کا حصول کبھی کسب سے ہوتا ہے کہ اسباب واختیار کام میں لائے جاتے ہیں مثلاً ذہن وحواس و نظر کو متوجہ کرنا اور کبھی بغیر اسکے جیسے دہوپ پڑتے ہیں آدمی خود سمجھ جاتا ہے کہ آفتاب نکلاہے لیکن ماموربہ کیلئے ضرور ہے کہ قسم اول سے یعنی اختیاری ہو۔ اِس تقریر پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یقین کے ساتھ اذعان و قبول نہو بلکہ حجودوانکار ہوجیسے سو فسطائی اور کفار کا یقین تھا تو اُسکو تصور کہنا چاہئے کیونکہ تصدیق میں اذعان کی ضرورت ہے حالانکہ اُسکو تصور کہنا صریح البطلان ہے۔ اِسکا جواب یہ ہے کہ یہاں ہمارادعویٰ اسی قدر ہے کہ منطقیوںکے رئیس نے جو تصدیق کی تفسیر کی ہے وہ تصدیق لغوی اور مقابل تکذیب ہے پھر مطلقاً یہ کہنا کہ ایمان میں تصدیق منطقی معتبر نہیں ہے درست نہیں ۔ غایتہ الامر یہ ہے کہ ایمان میں اور بھی چند شرایط معتبر ہیں ۔ رہا یہ کہ شیخ کی تفسیر پر یہ لازم آتا ہے ک جس یقین کیساتھ اذعان و قبول نہوں وہ تصور ہوگا یا تصور وتصدیق دونوں سے خارج ہوگا سویہ بحث دوسری ہے۔
(۳) تصدیق کے معنی جو کہے جاتے ہیں کہ وہ دل سے متکلم کی طرف صدق کی نسبت کرنا ہے اُسکے معنی سوائے اِسکے کہ متکلم کے صادق ہونے کا ادراک اور اذعان ہواور کیا ہوسکتے ہیں کیونکہ اس تصدیق کے وقت سوائے اُس ادراک کے قلب کا اور کوئی فعل اور تاثیر خیال میں نہیں آتی اِس سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ نفس کی ایک کیفیت ہے جو کبھی کسب واختیار و مباشرت اسباب سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی بغیر اسکے۔
غا یتہ الامر یہ ہے کہ ایمان میں جو کیفیت قلب معتبر ہے وہ کسبی ہے۔ اسلئے کہ ایمان ماموربہ ہے اور ماموربہ کا اختیار سے حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اور اگر ایمان، تصدیق مقولہ فعل سے ہوں تو یہ کہنا پڑے گا کہ آدمی صرف حالت مباشرت، تحصیل میں حقیقۃً ایمان کیساتھ متصف ہے جیسا کہ مقولہ فعل کے معنی سے یہ بات ظاہر ہے۔
(۴) اکابردین کے کلام میں لفظ تصدیق کی جگہ معرفت و علم و اعتقاد بھی مستعمل ہیں۔چنانچہ علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ایمان معرفت ہے اور معرفت تسلیم اور تسلیم تصدیق ہے اسلئے چاہئے کہ تصدیق جو بمعنی گردیدن ہے وہ بھی علم ہی کے معنی میں ہو تا کہ سب ایک جنس ہوجائیں ۔البتہ ایمان میں چند قیود شرط ہیں جیسے تحصیل و اختیار وترک جحودواستکبارانتہیٰ ملخصاً۔
اگرچہ محقق کی تقریر سے معلوم ہواکہ تصدیق لغوی و منطقی ایک ہی ہیں مگر یہاں یہ معلوم کرنا مناسب ہے کہ بعض متاخرین نے جنکی تقریر محقق ؒ نے نقل کی ہے تصدیق شرعی یعنی لغوی کو تصدیق منطقی سے کیوں علحٰدہ کیا منشاء اسکا یہ معلوم ہوتا ہے کہ تصدیق منطقی علم کی قسم ہے جو منطقین کے نزدیک ظینات کوبھی شامل ہے۔ چنانچہ’’ کشاف الاصطلاحات ‘‘میں لکھا ہے التصدیق اللغوی قطعی والمنطقی اعم من القطعی والظنی لکونہ من العلم الشامل للظنی والقطعے عندالمنطقین اور مولانا فضل حق نے حاشیہ قاضی میں لکھا ہے کہ تصدیق ضعیف بھی ہوتی ہے اور شدید اور اشد بھی ۔ ضعیف جیسے ظن اور شدید تقلید اور اشد یقین ۔اور مشائین کے نزدیک مسلم ہے کہ شدید اور ضعیف مختلف انواع ہواکرتے ہیں اس وجہ سے تصدیق کے تحت میں مختلف انواع ہوں گے غرضکہ منطق میں چو نکہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ علم کی دوقسم ہیںتصوروتصدیق اور تصدیق ظنی بھی ہوتی ہے اور تصدیق ایمانی ظنی نہیں ہوسکتی بلکہ اُسکا یقین ہونا شرط ہے اسوجہ سے بحث ایمان میں بھی ضرور ہواکہ تصدیق شرعی تصدیق منطقی سے بالکل علحٰدہ کرلی جائے تاکہ یہ وہم بھی نہو کہ تصدیق ظنی بھی ایمان کے لئے کافی ہے۔ ’’مراقی الفلاح ‘‘میں شرنبلای نے لکھا ہے المومن ھوالذی یعتقد بقلبہ دین الاسلام اعتقاداجا زماً خالیاً عن الشک یعنی مومن وہی ہے جو دل سے دین اسلام کا جزمی اعتقاد رکھے جس میں کسی قسم کا شک نہو۔ علامہ تفتازانی ؒ نے’’ تہذیب الکلام ‘‘میں لکھا ہے کہ جب تصدیق یہ ٹھیری کہ اذعان اور قبول کے ساتھ یقین ہوجو اختیار و کسب سے حاصل ہوجائے تو یہ لازم آئے گا کہ جو یقین کہ اذعان سے خالی ہو۔ (جیسے سو فسطائی اور بعض کفار کا یقین) تصدیق نہو بلکہ تصور ہو یا تصور و تصدیق کے بیچ میں واسطہ ثابت کیا جائے اور جو یقین مقارن اذعان بغیر کسب کے حاصل ہو اہو جیسے ملائکہ اور انبیا علیہم السلام کا یقین اسکو مکتسب کہیں یا یہ کہا جائے کہ دوبارہ اُس کو اختیار سے حاصل کرنے کی انہیں ضرورت ہے حالانکہ یہ سب لوازم محل تامل ہیں ۔ انتہیٰ۔
شیخ وسم کردستانی نے اُس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ سب خرابیاں اس وجہ سے لازم آرہی ہیں کہ تصدیق ایمان ،عموم و خصوص میں منطقی تصدیق کے مساوی بتائی جارہی ہے حالانکہ تصدیق منطقی عام ہے جس میں ظنیات شامل ہیں اور تصدیق شرعی و لغوی خاص جسکا قطعی ہونا شرط ہے ۔ اگر ایمان کی تعریف یوں کی جاتی کہ تصدیق منطقی کی جنس سے ہے ۔مگر اُس میں اور بھی چند شرائط ہیں کہ اعتقاد جازم اختیار سے حاصل کیا جائے اورجحودواستکبار سے خالی ہوتوغیر اذعانی یقین (جو سو فسطائی اور کفار کوتھا) اُسکو نہ تصور کہنے کی ضرورت ہوتی نہ واسطہ ثابت کرنے کی بلکہ وہ تصدیق ایمانی سے خارج اور تصدیق منطقی میں داخل رہتا۔ تعریف مذکور میں ایمان کو تصدیق منطقی کی جنس سے کہنے کی ضرورت اس وجہ سے ہوئی کہ بعضوں نے اُسکو کلام کہا ہے اور بعضوں نے فعل نفس حالانکہ وہ بھی ایک قسم کی تصدیق جنس علم سے ہے جو مقولہ کیف سے ہے اصل منشاء اِس اضطراب کا یہ ہے کہ اذعان دو معنی میں مستعمل ہے مرادف تصدیق منطقی اور بمعنی تسلیم و ترک جحودواستکبار ،چونکہ دونوں تصدیقوں میں یہ لفظ مستعمل ہے اس لئے اشتباہ ہواکہ سوفسطائی کو اذعان نہیں حالانکہ اذعان منطقی وہاں موجود ہے البتہ وہ اذغان نہیں جو ایمان میں معتبر ہے ۔ انتہیٰ۔
محقق تفتازانی ؒ کو شرح مقاصد میں اصرار ہے کہ تصدیق شرعی تصدیق منطقی ہے یعنی علم اور مقولہ کیف سے ہے اور جودشواریاں اُس میں واقع ہوتی ہیں اُن کو تہذیب الکلام میں بیان کردیا ۔ محشی کردستانی نے جو اُنکے دفع کرنے کی فکر کی وہ محقق ؒ ہی کے کلام سے مستفاد ہے چنانچہ یہ اُن کا قول ابھی معلوم ہوا کہ غایۃالامریہ کہ ایمان میں اور بھی چند شرائط معتبر ہیں مگر ہنوزاُس میں کلام کو گنجائش ہے۔
محقق نے دوسرے اعتراض میں جو اوپر مذکور ہوا لکھا ہے فلم یجعل الشیخ التصدیق حصول النسبۃ التا مۃ فی الذھن علی ما یفھمہ البعض بل حصول ان ینسب الذھن الثبوت اواالا نتفاء الذی بین طرفے المولف الی مافی نفس الا مر بالمطابقہ ومعنا ہ نسبۃ الحکم الی الصدق اعنی صادق داشتن و گرویدن و بینہ بانہ ضد الکذب الذی معنا ہ النسبۃ الی الکذب اعنی کا ذب داشتن ہر چند محقق ؒ کو اس تقریر سے یہ ثابت کرنا ہے کہ تصدیق علم اور مقولہ کیف سے ہے ۔ مگر اس سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ تصدیق کے وقت ذہن کا کوئی فعل جس پر ینسب الذھن الثبوت اور نسبۃ الحٰکم الی الصدق اور صادق داشتن اور انہ ضدالکذبالذی معنا ہ النسبۃ الی الکذب اعنی کا ذب داشتن دلالت کررہے ہیں یہ اور قابل تسلیم ہے کہ زیدقا یٔم کی صورت ترکیبیہ گو ذہن میں موجود ہے نفس زید اور قایم کی طرف اسطرح منسوب کرناکہ وہ محکی عنہ کے مطابق ہے یا یوں کہئے کہ حکم کی نسبت صدق کیطرف کرنا نفس کا فعل ہے جیسے ہر شخص جانتا ہے کہ تکذیب نفس کا فعل ہے جس پر مقولہ کیف ہر گز صادق نہیں آسکتا یہ فعل اگر اذعان کفار میں ہے اور تصدیق منطقی کے لئے وہ کافی ہے تو ایمانی تصدیق کے لئے دوسر ے فعل کی ضرورت ہے اور اگر نہیں ہے تو تصدیق سے اُسکو خارج سمجھنا چاہئے اور چونکہ محقق نے اُسکو تصدیق منطقی میں داخل کیا ہے تو معلوم ہوا کہ تصدیق منطقی اور لغوی ایک نہیں ہیں حالانکہ شیخ کہ کلام سے ثابت ہے کہ دونوں ایک ہیں ۔ ذکر الشیخ فی’’ الشفا‘‘ان اللشیء یعلم علی وجھین، أحد ھماأن یتصورفقط کما اذا کان لہ اسم فینطق بہ مثل معنا ہ فی الذھن وان لم یکن ھنا ک صدق اوکذب کما اذاقیل انسان أوقیل افعل کذا فانک اذاوقفت علی معنی مایخاطب بہ من ذالک کنت تصور تہ، والثانی أن یکون مع التصور تصدیق کمااذاقیل لک مثلاً ان کل بیاض عرض لم یحصل من ھٰذالتصورمعنی ھٰذا لقول فقط بل صدقت انہ کذالک امااذاشککت انہ کذلک فقد تصورت مایقال لک فانک لا شک فیمال تتصورہ ولا تفھمہ ولکن لم تصدق بہ بعد فکل تصدیق یکون معہ تصورولا ینعکس فالتصورفی مثل ھٰذالمعنی یفید ک ان تحدث فی الذھن صورۃھذالتا لیف ومایو لف منہ کا لبیا ض والعرض والتصدیق وھوان یحصل فی الذھن نسبۃ الصورہ الی الاشیاء انفسھا انھا مطابقہ لھا والتکذ یب یخا لف ذلک انتھیٰ۔
دیکھئے شیخ کا یہ قول کہ ’’جب تم سے کل بیاض عرض کہا جائے تو اسکے معنی تمہیں صرف تصور ہی نہو گا بلکہ اُسکی تصدیق بھی کروگے کہ وہ ایسا ہی ہے ‘‘ صاف کہہ رہا ہے کہ تصدیق گو یا کسی کے قول کی ہواکرتی ہے۔ پھر اُسکی تصدیق اس طور سے کہ وہ ایسا ہی ہے گویا نفس کا قول ہے جو اُس کے خطاب کے جو اب میں کہا جارہا ہے اور یہ محاورہ میںبھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ کہا اور میں نے اُسکی تصدیق کی ۔شیخ بھی اُس کی تصدیق کررہے ہیں اور نیز شیخ کا یہ قول کہ التکذیب یخالف ذالک ای التصدیق اسی پر قرینہ ہے اسلئے کہ اصطلاحی لفظ اگر ہے تو تصدیق ہے اُسکو چاہیں کیف سے کہیں یہ انفعال سے مگر تکذیب کی معنی میں کوئی اصطلاحی تصرف نہیں ہوا اسلئے اُسکے معنی صرف جھٹلانے کے ہیں جو مقولہ فعل سے ہے۔پھر جب شیخ نے تصدیق کو ضد تکذیب کہا تو اس سے مستضاد ہواکہ وہ دونوں ایک ہی مقولہ سے ہیںچنانچہ محقق موصوف نے اسی بحث میں لکھا ہے ومعنی التصدیق نسبۃ الحکم الی الصدق اعنے صادق داشتن دگرویدن وبینہ بانہ ضد التکذیب الذی معنا ہ النسبۃ الی الکذب اعنی کاذب داشتن۔ دیکھئے صادق داشتن وکاذب داشتن ایک ہی قسم کی بات ہے غرض اس اعتبار سے تصدیق منطقی بعینہ تصدیق لغوی ہوئی یعنی دونوں مقولہ فعل سے ہوں گے چنانچہ محقق ؒ کو بھی اُسکا اقرار ہے جیسا کہ شرح مقاصد میں لکھتے ہیں وھوالقدوۃ فی فن المنطق والثقہ فی تفسیرالفاظہ وشرح معانیہ صرح بان التصدیق المنطقی الذی قسم العلم الیہ والی التصور ھو بعینہ اللغو ی ۔ اگرچہ محقق اس بات پر راضی نہیں کہ تصدیق مقولہ فعل سے ہولیکن شیخ نے تصدیق کو جب مقابل تکذیب کہدیا اور اُسکو خطاب کی تصدیق قراردی تو اُسکو مقولہ فعل سے قراردینا اور کلام نفس کہنا شیخ کے خلاف مرضی نہو گا۔
’’قصدالسبیل‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر کہا جائے کہ شیخ کے قول سے ثابت ہوتا ہے ،تصدیق علم ہے اِس لئے کہ ذہن میں جو نسبت صورت ذہنیہ کی اشیاء کی طرف ہوتی ہے وہ سواے اِس ادراک کے نہیں کہ وہ صورت مطابق اشیاء کے ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ادراک اذعان کو مستلزم نہیں اسلئے کہ شیخ الاسلام ابوعبداللہ نے’’ تحریر المطالب فی شرح عقیدہ ابن حاجب ‘‘میں قول ابی جہل کا نقل کیا کہ نعلم أن محمد اًصلی اللہ علیہ وسلم نبی ولکن لا نو من بہ ابدا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ وہ ادراک مستلزم تصدیق بھی نہیں چہ جائے کہ نفس تصدیق ہو۔ انتہیٰ۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ صورت ذہنیہ کی نسبت اشیاء کی طرف کرنا سوائے ادراک کے اور کوئی بات نہیں چنانچہ محقق ؒ نے بھی اعتراضات مذکورہ کے ضمن میں اسی قسم کی بات لکھی کہ تصدیق ایمانی سوائے ادراک کے اور کوئی چیز سمجھ میں نہیں آتی سوفی الحقیقۃ درست ہے تصدیق کے وقت ذہن میں کیفیت ادراک کی ضرور ہوتی ہے مگر اسکا بھی انکارنہیں ہوسکتا کے دوسرے مقولات کے مصادیق بھی وہاں موجود ہیں چنانچہ قصدالسبیل میں لکھا ہے کہ’’ فا نہ ای الشیخ یفسر العلم نارۃ بالتجر دعن المادۃ وھوراجع الی امرعد می وتارۃ یجعلہ مندرجافی مقولۃ الکیف وفی مقولۃ المضاف بالعرض فیجعلہ عبارۃ عن صفۃ ذات اضافۃ وتا رۃ یجعلہ عبارۃ عن الصور ۃ المرتسمۃ فی الجوھر العاقل المطابقۃ لما ھیۃ المعقول وتارۃ یجعلہ عن مجرد اضافۃ فاقوالہ دائرۃ بین ان یجعلہ امراعد میا اوکیفااواضافۃ‘‘ ان تصریحات شیخ سے ظاہر ہے کہ سب ا مور ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ اِس سے دوسرے اقوال سے جو علم کے باب میں وارد ہیں یہ ثابت ہے کہ ادراک کے وقت کئی چیزیں ذہن میں پائی جاتی ہیں چنانچہ منجملہ اُن کے ایک صفت کلام ہے جسکا حال مواقف میں بیان کیا ہے۔ الکلام النفسی غیرالعلم اذقد یخبرالرجل ھمالا یعلمہ بل یعلم خلافہ اویشک فیہ وغیرالارادۃ اذقد یا مر بمالا یر یدہ کاالمختبر’’ لعبدہ ھل یطیعہ ام لا وکا لمعتذرمن ضرب عبدہ لعصیسا نہ فانہ قد یا مرہ ویردان لا یفعل الماموربہ فاذن ھو صفۃ ثالثۃ قائمۃ بالنفس‘‘۔ اس سے ثابت ہے کہ کلام نفسی ایک جداگانہ صفت ہے اور چونکہ کسی کی تکذیب یا تصدیق کرنا نفس کا فعل ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ نفس کی صفت اور فعل ہے جیسے بعض علما ء کا قول جو شرعی مقاصد میں منقول ہے اُسکا مصدق ہے امام موفق ؒ نے مناقب ابی حنیفہ ؒ میں بسند متصل امام صاحب سے روایت کیا ہے ’’قال ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فامامن صدق اللہ وبماجاء من عند ہ بقلبہ ولسانہ فھوعنداللّٰہ و عندالناس مومن‘‘ یعنی امام صاحب فرماتے ہیں کہ جس نے دل سے اور زبان سے تصدیق کی اللہ کی اور اُن چیزوں کی جو اُس کے پا س سے آئی ہیں وہ اللہ کے پاس بھی مومن اور لوگوں کے پاس بھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ جس کلام کی تصدیق زبان سے ہو دل سے بھی ہونی چاہئے کہ وہ سچ اور مطابق واقع کے ہے ۔ علامہ ابن ہمام ؒ نے مسامرہ میں لکھا ہے کہ لا ظھران التصدیق قول للنفس النا شی عن المعرقہ لا ن المفھوم منہ لغۃ نسبۃ الصدق الی القائل وھوفعل والمعر فۃ من قبیل الکیف المقابل لمقولہ الفعل۔
بہر حال تصدیق شرعی میں فعل قلبی معتبر ہے قصرالسبیل میںاس مسئلہ میں ایک مبسوط بحث کرکے لکھا ہے کہ تصدیق شرعی میں دس چیزیں ہوتی ہیں پانچ مقولہ کیف سے ہیں اور باقی مختلف مقولوں سے۔ مقولہ کیف والے یہ ہیں۔
(۱) نورجودل میں اِس غرض سے ڈالاجاتا ہے کہ چشم بصیر ت پر حقایق اشیاء منکشف ہوں۔
(۲) صورت اُس نسبت معلومہ کی جو موضوع و محمول کے بیچ میں ہوتی ہے۔
(۳) استعداد اُس نسبت کے اذعان کی۔
(۴) نفس اذعان۔
(۵) کلام نفسی۔
مقولہ نسبت سے متعلق یہ تین ہیں
(۱) حصول صورت معلومہ کا نفس میں۔
(۲) ابنساط نور کا صورت معلومہ پر۔
(۳) رویت بصیر ت اُس صور ت کی وجہ سے جب انبساط نور کا اُس پر ہوتا ہے اور یہی علم ہے۔
اور مقولہ انفعال سے ایک ہے وہ متنقش ہونا اُس صورت کا جومبداء فیاض سے ڈالی جاتی ہے۔
اور مقولہ فعل سے ایک ہے وہ نفس کا یہ کہنا کہ جو صورت اُس میں متنقش ہوئی ہے وہ مطابق واقع کے ہے۔ اور یہی تصدیق لغوی ہے ۔ جسکوحکم بھی کہتے ہیں اور باقی امور ضروریات ولوازم ہیں۔
اگرچہ اُن امور میں تقدم و تاخر ہے ۔ مگر ذاتی ہے اسلئے کہ جو زمانہ انتقاش صورت کا ہے وہی اُسکے حصول اور ابنساط نور اور رویت بصیرت کا ہے۔
اِس تقریر میں نور کی جو زیادتی کی گئی ہے اُسکا منشاء یہ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھوعلی نورمن ربہ۔ انتہیٰ
تو ضیح اس مضمون کی یہ ہے کہ جملہ خبریہ ہو جسکی دین میں تصدیق کی ضرورت ہے مثلاً یہ کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اِسکی صورت ِذہن میں متنقش ہوتی ہے جس کی تعبیر موضوع و محمول و نسبت حکمیہ سے کیجاتی ہے پھر دلائل وقرائن خارجیہ مثلاً معجزات وغیرہ اسباب سے ادراک ہوتاہے کہ وہ نسبت رسالت جو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے واقعی مطابق واقع کے ہے اگر یہ ادراک اِس درجہ کا ہوکہ اُس میں کوئی تردد وشک باقی نہو اُسکا نام یقین ہے اِسکے پیدا ہونے کی یہ صورت ہے کہ ایک نور حسب قابلیت دل میں ڈالا جاتا ہے جسکی وجہ سے چشم بصیرت پر معانی ذہنیہ منکشف ہوتے ہیں۔
جیسا آیۃ موصوفہ سے ثابت ہے ۔مگر قابلیت ہر شخص کی ایک طورپر نہیں چنانچہ یہ امر مشاہد ہے کہ ایک ہی دلیل ہوتی ہے جسکو ایک شخص فوراً قبول کرلیتا ہے اور دوسرے کے لئے وہ بالکل مفید نہیں ہوتی ۔پھر اختلاف طبائع قطع نظر اسکے کہ طبیعت کی ساخت جداگانہ ہوتی ہے اسباب خارجیہ سے بھی پیداہوتا ہے ۔ مثلاً ایک شخص ایسا ہوکہ نشوونما اُسکی اہل اسلام میں ہوئی ہواور ہمیشہ اپنے بزرگوں اور معتمد علیہ لوگوں کو طریقہ اسلام پر قایم اور اُسکے مداح دیکھا کیا اگر کوئی اُس سے دینی مسئلہ کہا جائے تو فوراً مان لے گا بخلاف اِسکے جسکی نشوونما مخالفین اسلام میں ہوئی ہو ۔جو ہمیشہ اُسکے ولایت وعقائد کی توہین کرتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ جس مسئلہ کو شخص سابق نے بغیر دلیل کے مان لیا تھا اِس شخص کو دلیل قایم ہونے کے بعد بھی ماننا مشکل ہوگا اسی طرح مخالف صحبت کا بھی بُرا اثر ہوتا ہے اِسی وجہ سے حق تعالیٰ نے متعدد مقامات میں کفار اور منافقوں کی صحبت اور دوستی سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے ۔’’فلا تقعدوا معھم حتیٰ یخوضوفی حد یث غیرہ انکم اذا مثلمھم ‘‘۔اور اکثر احادیث سے ثابت ہے اہل بدعت کی مصاحبت وہم نشینی سے احتراز ضروری ہے غرض کہ جس طرح کسی مسئلہ کو ابتدائً ماننا دشوار ہے اسی طرح اُنکی صحبت سے مانے ہوئے مسائل میں بھی شک پڑجاتا ہے جس سے یقین باقی نہیں رہتا اور یقین کے ساتھ ایمان اور تصدیق شرعی بھی رخصت ہوجاتے ہیں نعوذباللہ من ذلک۔
کلام اِس میں تھا کہ ادراک مذکور اگر اس درجہ کا ہوکہ اُسمیں کوئی تردود شک نہو تو اُسکا نام یقین ہے جو مدارایمان و تصدیق شرعی ہے۔ اور اگر ایسا یقین نہو بلکہ ظن غالب اُسکی واقعیت کاہوتو شرعاً اُسکو نہ تصدیق کہیں گے نہ ایمان ۔ ’’قال اللہ تعالیٰ ان انظن لا یغنی من الحق شیا ٔوَقال تعالی الامن اکرہ و قلبہ مطمن بالایمان‘‘ ۔اگر اکراہ کی حالت میں کوئی کفر کی بات کہدے تو مضائقہ نہیں بشرطیکہ دل مطمئن اورساکن ہوکیونکہ اطمینان سکون کو کہتے ہیں۔
’’کما فی لسان العرب الطما نیۃ السکون‘‘ ۔اور ظاہر ہے کہ سکون اُسی وقت ہوگا کہ یقین باقی رہے اسلئے کہ شک میںترددا ور پریشانی رہتی ہے جو منافی سکون ہے ۔
پھر یقین کے بعد اذعان کی بھی ضرورت ہے وہ ایک کیفیت قلبی کا نام ہے جس سے نسبت خبر یہ کے قبول کرنے کی صلاحیت دل میں پیداہوتی ہے اور جو صعوبت کہ اُس کے قبول کرنے میں ہودفع ہوجاتی ہے ۔اس آیہ شریفہ میں اسی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ’’ثم تلین جلودھم الی ذکراللہ‘‘کیونکہ تسلیم واذعان کے وقت جو دل میں کیفیت پیداہوتی ہے اگر محسوسات میں دکھلانا چاہیں تو اُسکو نرمی پانے کے ساتھ تعبیر کرسکتے ہیں ۔ پھر قوت دلائل وقرائن کی وجہ سے اگر کیفیت اذعانی بھی پیداہوجائے تو جب بھی تصدیق شرعی نہیں جیسا کہ اِس آیہ شریف سے ظاہر ہے ۔’’ فلما جاء تھم ایاتنا مبصرۃ قالواھذاسحر مبین جوحجدوابھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا‘‘یعنی باوجود یکہ نشانیاں دیکھتے ہیں اور اُنکے نفس یقین بھی کر لیتے ہیں مگر وہ جحودوانکارہی کئے جاتے ہیں اِس لئے معلوم ہواکے صرف یقین شرعی نہیں بلکہ تصدیق شرعی یہ ہے کہ یقین کے بعد زبان سے اور دل سے یہ بھی کہا جائے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم واقع میں اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جو کچھ اللہ کی طرف سے ہمیں پہونچا ہے واقع میں سچ ہے۔
مَعرِفت ۔ معرفت ضد نکارت وجہالت ہے اور جب تک تصدیق نہو فقط معرفت سے ایمان متحقق نہیں ہوسکتا ۔ ملاعلی قاری ؒ نے شرح فقہ اکبر میں امام اعظم ؒ کا قول کتاب وصیت سے نقل کیا ہے کہ صرف معرفت ایمان نہیں ہے ۔ ورنہ تمام اہل کتاب کو مومن کہنا پڑے گا حق تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتاہے ’’واللہ یشھدان المنا فقین لکا ذبون‘‘ ۔اور اہل کتاب کے باب میں فرماتا ہے’’ الذین اتینٰھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم‘‘۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ باوجود اتنی معرفت کے وہ ایمان نہیں لاتے اِس سے ظاہر ہے کہ اہل کتاب کی معرفت بھی ایسی ہے جیسے منافقوں کا اقرار زبانی یعنی دونوں مفید نہیں۔
درمنشور میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے ۔ عمر ؓ نے عبداللہ ابن سلام سے پوچھا کے حق تعالیٰ نے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم پر آیۃ شریفہ ’’الذین آتینٰھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم‘‘ ۔ نازل فرمائی یہ معرفت کس قسم کی ہے انہوں نے کہا اے عمر ؓ میں نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ایسا پہچان لیا جیسے کوئی اپنے لڑکے کو دوسرے لڑکوں میں دیکھ کر بلاتکلف پہچان لیتا ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ عمر ؓ نے کہا یہ کسطرح ۔کہا کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے رسول ہیں حق تعالیٰ نے اُن کا حال ہماری کتاب یعنی توریت میں بیان فرمادیا ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ عورتیں کیا کرتی ہیں ۔ یعنی لڑکے میں شک ہوسکتا ہے کہ اپنا ہے یا نہیں مگر بعد تعریف الٓہی حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں ہر گز شک نہیں ہوسکتا انتہیٰ ۔ اور اسی قسم کی کئی روایتیں دوسرے اہل کتاب سے اُسی میں منقول ہیں کہ انہوںنے آنحضرت ﷺکو دیکھتے ہی پہچان لیا اور ایمان لائے۔
امام رازی ؒ نے تفسیر کبیر میں اِس مقام میں یہ اعتراض لکھا ہے کہ اگر تورات و انجیل میں حضرت کے تفصیلی حالات وعلامات موجود تھے کہ فلاں وقت اور فلاں مقام اور فلاں قبیلہ میں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں گے اور آپکے شخصی علامات بھی اُن میں مذکور ہیں توچاہئے تھا کہ مشرق سے مغرب تک کے اہل کتاب ایمان لاتے اور بعد اسقدرتفصیلی معرفت کے ممکن نہیں کہ کوئی انکار کر سکتا ۔ اور اسقدر تفصیل ان کتابوں میں نہیں ہے تو ایسے وقت جس پر ’’کما یعرفون ابنائَ ھم‘‘ صادق آئے خارج ازقیاس ہے ۔ اسکا جو اب یہ دیا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ کتابوں کی وجہ سے انہیں یہ معرفت حاصل ہوئی تھی بلکہ دعوی نبوت کیساتھ معجزات نے برہان کا کام دیا تھا اور قاعدہ ہے کہ برہان مفید یقین ہواکرتی ہے اس لئے انکو معرفت تامہ الٓہی حاصل ہوگی تھی جیسے اولاد کی ہوتی ہے ہر چند امام ؒ نے جو جواب دیا ہے کہ عقلی طور سے نہایت قوی ہے اور اسکی تائید ابوجہل کے قول سے بھی ہوتی ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ نعلمان محمد اصلی اللہ علیہ وسلم نبی لکن لانومن بہ مگر اسکا بھی انکا رہو نہیں سکتا کہ اہل کتاب کو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے علامات و آثار کا علم نسلاً بعد نسل چلا آتا تھا اور اُسکی تطبیق کر کے وہ بحسب ہدایت ازلی اکثر ایمان لاتے تھے چنانچہ خصائص کبریٰ میں امام سیوطی ؒنے اِن روایات کو کئی اور اق بلکہ اجزاء میں ذکر کیا ہے اُن میں وہ علامات جنکی خبریں خصرت ابراہیم وموسی ٰ و عیسی علیہم السلام نے دی تھی اور تورات و انجیل وغیرہ کتب آسمانی میں مذکور ہیں مفصل منقول ہیں ۔ اور نیز اُن روایات میں بھی مصرح ہے کہ یہودی و نصاریٰ کے علماء حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ حتیٰ کہ قدوقامت اور خط وخال اور عادات و خصال اور پیداہونے کا مقام اور مبعوث ہونے کا وقت اور ہجرت کا زمانہ و غیرہ پوری طور سے جانتے تھے چنانچہ جس روز حضرتصلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے اسی صبح کو مدینہ کے گردونواح کے بعض علما ء یہود نے اپنی قوم کو جمع کرکے خبردی کہ آج نبی آخرالزمانصلی اللہ علیہ وسلم پیداہوگئے ۔ایوان کسری کے چودہ کنگرے اسی روز گرے فارس کے آتشکدے جو مدتوں سے سلگے ہوئے تھے یکبارگی بجھ گئے ولادت شریف اور بعثت کے وقت کا ہنون اور ہاتفون کے اخبار ہر طرف مشہور ہورہے تھے بعض عرب دین حق کی تلاش میں جو پھر تے تھے اُنکو علماء یہودونصاری نے صاف کہدیا کہ تمہاری قوم میں مکہ معظمہ میںنبی آخرالزمان ﷺعنقریب مبعوث ہونے والے ہیںاُ ن کا دین اختیارکرو۔
بخت نصر کے واقعہ کے بعد بہت سے بنی اسرائیل مدینہ طیبہ میں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں اقامت گزیں تھے چونکہ خصائص کبریٰ چھپ گئی ہے اسلئے بخوف تطویل وہ روایتیں نقل نہیں کی گئیں۔
عرضکہ علامات حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قدر کثرت سے مشہور اور معلوم ہوچکے تھے کہ علماء یہود و نصاری دیکھتے ہی حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیتے اور جن امورمیںامتحان کی ضرورت ہوتی بعد امتحان ایمان لاتے پھر صرف حضرتصلی اللہ علیہ وسلم ہی کے علامات یہود میں شایع نہ تھے بلکہ حضرت ؐ کی امت کے علامات وخصوصیات اور بعض مختصہ مسائل اسلام کوبھی جانتے تھے یہاں تک مروی ہے کہ قبل بعثت صدیق اکبر ؓ شام کی طرف گئے تھے ایک راہب نے علامات ظاہری دیکھ کر آپ سے کہا کہ سب علامات تو میں دیکھ چکا ہوں آپ اپنے پیٹ پر سے کپڑا اٹھائیے چنانچہ خال دیکھ کر کہا کہ نبی آخرالزمانصلی اللہ علیہ وسلم عنقریب مبعوث ہونے والے ہیں آپ اُنکے وزیرو خلیفہ ہوں گے ۔ اسی طرح عمر ؓ کا بھی واقعہ ہے کہ بعض راہبوںنے علامات دیکھ کر اسی قسم کی خبریں دیں غرض اس قسم کی روایتیں کتب احادیث و سیر میں بکثرت واردہیں۔ اتنے علامات مشہور ہونے کے بعد یہ امر قابل استبعاد نہیں کہ اہل کتاب کو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اُنکے علوم سابقہ سے ہوئی ہو جس پر معجزات نے بھینور’‘ علیٰ نورکا کام دیا اس سے ظاہر ہے کہ اہل کتاب کی معرفت اُنکے ذاتی علوم سے تھی اُس میں معجزات کو چنداں دخل نہیں ورنہ اہل کتاب کی کیا خصوصیت معجزات تو مشرکین بھی دیکھتے تھے ۔ رہا یہ کہ پھر سب اہل کتاب مسلمان کیوںنہیں ہوے۔
اسکا جواب یہ ہے کہ معجزات دیکھنے کے بعد بھی تو مسلمان نہیں ہوئے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ علامات مختصہ مفید علم نہوں بلکہ ایمان نہ لانا حسد واستکبار وغیرہ اسباب سے تھا جسکا حال اوپر معلوم ہوا اور ابوجہل کے قول مذکور سے بھی ثابت ہے بہر حال خواہ معجزات کی وجہ سے ہویا کتب سماوی کی وجہ سے اہل کتاب کو بلکہ دوسرے کفارکو بھی حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اور نبوت کا علم ضرور تھا لیکن تصدیق ہونے کی وجہ سے بجاے اسکے کہ وہ مفید ہو وبال جان ہوئی مقصود یہ ہے کہ صرف معرفت بغیر تصدیق کے مفید نہیں ہوسکتی ۔اب یہ دیکھنا چاہئے کہ تصدیق شرعی کے ساتھ معرفت کی بھی ضرورت ہے یا نہیں ہم جب معرفت کے معنی میں غور کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تصدیق بغیر معرفت کے نہیں ہوسکتی اسلئے کہ خدائے تعالیٰ کو مثلاً کوئی نجانے یا صرف اسقدر جان لے کہ کوئی چیز ہے اور صفات مختصہ کوجس سے امتیاز و تعین حاصل ہو نہ جانے تو تصدیق ہی کیا ہوئی ہاں اس میں شک نہیں کہ حق تعالیٰ کی ذات کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی مگر صفات کی معرفت بقدر طاقت بشری ضروری ہے کچھ نہیں تو اتنا تو جاننا ضرور ہے کہ وہ قدیم ہے سب کا خالق ہے اور اسکے مثل کوئی چیز نہیں ۔ نہ اُسکا کوئی شریک ہے نہ مقابل اسلئے بن دیکھے ایمان لارہے ہیں اسکی تعییں ہوجائے تاکہ دوسراکوئی اُس ایمان میں شریک نہو ۔ اسی طرح نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی تعیین بھی ایمان میں ضرورہے۔
علامہ زرقانی نے شرح مواہب الدنیہ میں لکھا ہے’’ روی ابن ابی عاصم فی السنۃ وابو نعیم عن انس ؓ ان اللہ قال یا موسیٰ من لقبنی وہوجا ھل بمحمدصلی اللہ علیہ وسلم ادخلہ النار فقال موسی ومن محمدؐ قال یا موسی وعزتی وجلالی ماخلقت خلقا اکرم علی منہ کتبۃ اسمہ مع اسمی علی العرش قبل ان اخلق السموات والشمس والقمر بالفے الف سنہ‘‘ انتھی یعنی حق تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ اسے موسیؐ جو مجھ سے ملے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جانے اُسکو آگ میں ڈالوں گا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ۔ فرمایا قسم ہے میری عزت وجلال کی ان سے بزرگ تر کسی کو میں نے نہیں پیداکیا اُنکا نام اپنے نام کے ساتھ بیس لاکھ برس آسمان و زمین و شمس و قمر پیداکرنے کے پیشتر لکھا انتہیٰ۔
اِس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے جاہل رہنا موجب دخول نار ہے اِسلئے اُسکی ضدیعنی معرفت ضروری ہے ۔اِسی وجہ سے امام اعظم ؒ نے فرمایا ہے کہ’’ الا یمان المعرفت والتصدیق والاقرار‘‘(کذافی المناقب للموفق ؒ )ابن ہما م ؒ نے ’’مسامرہ ‘‘میں لکھا ہے کہ امام ابوالحسن اشعری ؒ کا قول معنی تصدیق میں متردد ہے کبھی کہتے ہیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کے وجود والٰہیۃ وقدم کی معرفت کانام ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ ونفس کا قول ہے لیکن متضن معرفت ہے جسکے بغیر تصدیق صحیح نہیں عرض اُنکے کلام میں دواحتمال ہیں ایک معرفت کا شرط تصدیق ہونا دوسرا یہ کہ تصدیق معرفت اور کلام نفسی کے مجموعہ کانام ہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ معرفت تصدیق سے خارج اور اُسکے لئے شرط ہے اسلئے کہ لغت میں تصدیق صرف سچائی کو کہتے ہیں اگر معرفت بھی اسمیں داخل کردی جائے تو اس لفظ کا منقول شرعی ہونا لازم آئیگا حالانکہ منقول سمجھنے کے لئے کوئی دلیل چاہئے اور کوئی دلیل اُس پر قائم نہیں بلکہ قرآن وحدیث میں جہاں یہ لفظ مستعمل ہے معنی لغوی ہی میں مستعمل ہے الحاصل معرفت گوداخل ایمان نہیں مگر شرط ایمان ضرور ہے انتہیٰ یہاں یہ بات بھی معلوم کرنی ضرور ہیکہ معرفت کے مدارج مختلف ہیں عموماًاہل اسلام اجمالاً اسقدر جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ خالق اور متصف بہ صفات کمالیہ ہے پھر جس قدر آثار قدرت وغیرہ صفات کمالیہ میں غورو تامل کیا جائے اسی قدر معرفت کی زیادتی ہوئی ہے اور جس قدر معرفت کی زیادتی ہومحبت زائد ہوتی ہے وہ باعث ترقی مدارج قرب ہے۔
امام غزالی ؒ نے احیاء میں تو ضیح کے لئے یہ مثال لکھی ہے کہ مثلاً امام شافعی ؒ کی محبت کل شافعیوں کو ہے اور سب اُن کو عالم جانتے ہیں لیکن فقہا ئے شافعیہ کو ہر مسئلہ کے دقائق استدلال معلوم کرنے کے بعد جو قدرومحبت امام کی ہوتی ہے وہ عام شخص کو نہیں ہوسکتی اسی طرح جب کوئی کسی مصنف کی عمدہ تصنیف یا کسی شاعر کا بلیغ قصیدہ دیکھتاہے تو اُس سے ایک قسم کی محبت ہوتی ہے پھر اور بھی اُسکی عمدہ تصانیف و قصائددیکھے اور غور وتامل سے اُسکی جلالت وشان معلوم کرے تو اُسکو جو محبت اور قدر اُسکی ہوگی وہ اس شخص کو نہیں ہوسکتی جو اُسکو صرف ایک عالم یا شاعر جانتا ہے غرض آدمی جس قدر مصنوعات الٓہی میں زیادہ تر غوروفکر کرے اور خدائے تعالیٰ کی جو جو نعمتیں اور احسانات تمام عالم پر خصوصاً اپنے پر ہورہے ہیں اُنکو سوچے تو محبت زیادہ ہوگی اسی سبب سے صفات الٓہی میں غور وفکر کرنے کے فضائل احادیث میں بکثرت واردہیں منشاء اُسکا یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر معرفت زیادہ ہوگی اُسی قدر محبت زیادہ ہوگی چونکہ خدااور رسول کی محبت کا زیادہ ہونا دین میں ایک ضروری امر ہے اور ظاہر اً اُسکے حاصل کرنے کا ذریعہ معرفت ہے اسلئے اکابراہل اسلام ہمیشہ زیادتی معرفت الٓہی کے طالب اور اُس میں مستغرق رہا کرتے ہیں ۔ الحاصل بندہ کو خداکی معرفت اور امتی کو نبیؐ کی معرفت حاصل کرنیکی ضرورت ہے۔
یہ امر قابل تسلیم ہے کہ معرفت ذات کو مقاصد دینیہ میں دخل کی یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات میں فکر کرنے کی ممانعت ہے جیسا کہ حدیث شریف سے صراحتاً ثابت ہے اور دراصل ذاتِ الٓہیہ کا ادراک ممکن بھی نہیںاس لئے کہ خدائے تعالی اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے اُن صفات کو معلوم کرنے کی ضرورت ہے جو دوسروں میں نہ پائی جائیں اور ظاہر ہے کہ جو صفات سوائے خدائے تعالیٰ کے اور کسی میں نہیں پائے جاتے وہ ایسے ہی ہونگے جو ان میں غور و تامل کرنے سے عظمت و شان کبریائی دل میں متمکن ہوتی جائے گی پھر جس خاص صفت میں اتنا غور و تامل کیا جائے کہ استغراق کی سی حالت پیداہو تو اُسکے مناسب دل کی کیفیت میں تغیر پیداہواکرے گا مثلاً صفت قہاری کے مطالعہ کے وقت دل میں خوف و حشت کی کیفیت پیدا ہوگی اور صفت جمال ورحمانیت کے مراقبہ سے محبت و عشق علیٰ ہذا القیاس ہر صفت کا جدا جدا اثر ہوگا۔ اسی طرح نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے صفات مختصہ میں غور و فکر کرنے سے دل میں مختلف آثار پیداہوتے جائیںگے اسی وجہ سے صحابہ ؓ کے حالات مختلف تھے جن کی طبیعتوں پر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا پورا اثر تھا اُنہوں نے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو آنکھ بھر کے کبھی نہیں دیکھا جیسا کہ شفا میں قاضی عیاض ؒ نے لکھا ہے کہ عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں باوجود یکہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے کسی سے محبت نہ تھی مگر مجھ سے کبھی نہو سکا کہ آنکھ بھر کے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھوں اور اکثر روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ایسے سر جھکائے آئے بیٹھتے تھے کہ گویا اُن کے سر پر پرند ے بیٹھے ہیں کہ ادنیٰ حرکت سے اُڑجاتے ہیں ۔ اور ایک صحابی کا حال شفا میں لکھا ہے کہ جب تک وہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر رہتے چہرہ مبارک ہی کو دیکھتے رہتے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے اُسکی وجہ دریافت کی عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فداہوں دیدار فائض الانوار سے متمتع اور بہرہ یاب رہتا ہوں شفا میں لکھا ہے کہ حضرت جب وضو فرماتے یا تھوکتے یا ناک چھڑکتے تو صحابہ کا اُس پر ہجوم ہوتا اور ہاتھوں ہاتھ آبِ وہاں وبینی وغیرہ کو لیکر اپنے منہ اور جسم پر ملتے اور اگر کوئی موئے مبارک ملجاتا تو فوراً اُٹھا کرتبرک بناتے مخالفین یہ دیکھ کر یہ کہتے کہ ہمنے بڑے بڑے سلاطین مثل قیصر وکسریٰ دیکھے ہیں مگر کسی بادشاہ کویہ نصیب نہیں جو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو ہے خصائص کبریٰ میں ہے کہ ایک بار عبداللہ بن زبیر ؓ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوئے کہ حضرت ؐپچھنے لگوارہے تھے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہ خون ایسی جگہ پھینگ دو جہاں کوئی نہ دیکھے انہوں نے لیجاکر سب خون پی لیا جب واپس آئے توحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر انہوں نے عرض کی کہ میں نے اسکو اسی جگہ ڈالا ہے کہ کوئی نہ دیکھ سکے فرمایا کہ شاید تم اسکوپی گئے اور اسی میں یہ روایت بھی ہے کہ ایک رات آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ظرف میں پیشاب کی ام ایمن ؓ کہتی ہیں کہ میں نے اُسکو پی لیا جب صبح حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو اُسکی خبر دی تبسم کرکے فرمایا کہ تمہارے پیٹ میںاب کبھی کوئی شکایت نہوگی اِن امور پر غور کرنے سے ایک حیرانی ہوتی ہے کہ نہ انکا منشا محبت معلوم ہوتا ہے نہ عظمت ور نہ مقربین سلاطین میں اِس قسم کے حالات پائے جاتے۔بات یہ ہے کہ کاملوں کے حالات ہم ناقصوں کی سمجھ میں کیونکر آسکیں اگر حق تعالیٰ اپنے کرم و فضل سے ہمیں بھی وہ حالات عطا فرمائے تو ممکن ہے کہ اُسکی حقیقت معلوم کرسکیں ورنہ ؎
چہ نسبت خاک رابا عالم پاک
دراصل یہ جتنے آثار تھے سب کا منشا وہی معرفت نبویصلی اللہ علیہ وسلم تھی کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصیات کو خوب جانتے تھے کہ آپ کا کوئی نظیر عالم میں نہیں اور آپ کو حق تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسی خصوصیت ہے جو دوسرے کو نہیں ہوسکتی وہ سمجھتے تھے کہ جس قدر محبت اور عظمت کے آثار صادر ہوں سب باعث تقرب الٓہی ہیں بلکہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم کوخدائے تعالیٰ کی محبت اور تعظیم سمجھتے تھے ہر چند اس وقت صحابہ ؓ کی سی معرفت حاصل ہونا ممکن نہیں ا سلئے کہ انکو مشاہدات سے وہ معرفت حاصل ہوئی تھی جن کا وجوداب ممکن نہیں مگر اتنا مسلمانوں کو ضرور ہے کہ ایمانی طریقہ سے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل کرنے میں کوشش کریں اور کیا تعجب کہ شدہ شدہ اِس کی برکت سے اِس قسم کا فیضان ہونے لگے جو صحابہ ؓ پر ہوتا تھا۔
نہ تنہا عشق ازدیدار خیزد بساکیں دولت ازگفتار خیزد
خدا اور رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
اِس حدیث شریف سے ظاہر ہے جو بخاری شریف میں ہے کہ ایک بار آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ ملائے ہوئے تھے حضرت عمر ؓ نے کمال جوش محبت میں عرض کی یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم قسم خداکی میں آپ کو سوائے اپنی ذات کے ہر چیز سے زیادہ دوست رکھتا ہوں ارشاد ہواکہ جب تک میری محبت اپنی ذات سے کسی کو زیادہ نہو اُسکوایمان ہی نہیں حضرت عمر ؓ نے عرض کی کہ قسم ہے خداکی جس نے آپ پر کتاب نازل کی میں آپ کو اپنی ذات سے بھی زیادہ ترمحبوب رکھتا ہوں فرمایا الآن یاعمرؓ یعنی اب تمہارا ایمان پورا ہوا۔اگر چہ اس حدیث شریف میں صرف آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ذکر ہے مگر چونکہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا منشاء حق تعالیٰ کی محبت ہے اس لئے یہی حدیث دونوں محبتوں کے استدلال میں کافی ہوسکتی ہے۔
ابن تیمیہ نے’’ الصار م المسلو ل ‘‘میںبعض حقوق خدا اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کرکے لکھا ہے وفی ھذوغیر ہ بیان لتلازم الحقین واللہ جھۃ اللہ تعالیٰ ورسولہ جھۃ واحد ۃ غرض اِس حدیث شریف سے ظاہر ہے کہ اہل اسلام حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑہانے پر مامور و مجبور ہیں کیونکہ حضرت عمر ؓ نے ابتداء میں جس مقدار محبت کی خبردی تھی وہ کافی نہیں سمجھی گئی اسلئے انہوں اختیار سے اپنے نفس پر جبر کرکے جو کسر باقی تھی نکالدی۔
یہاں یہ امرغور طلب ہے کہ محبت ایک کیفیت قلبی ہے اُس پر زیادتی و کمی اختیار سے کیونکرہوسکتی ہے کیونکہ اندرونی کیفیات پر تو آدمی کا تصرف ہی نہیں چل سکتا مثلاً بھوکا اگر چاہے کہ بغیر سبب خارجی کے بھوک جاتی رہے تو ممکن نہیں اور صرف زیادتی و کمی کی خواہش کو یا طبیعت پر جبر کرنے سے موجودہ بھوک کے وجدان میں فرق نہ آئے گا جب تک اُس کے کم یا زیادہ ہونے کے اسباب خارج سے نہ پیدا گئے جائیں مثلاً کچھ کھالینے سے کم اور نہ کھانے سے زیادہ ہوجائیگی۔
مواہب ؔ لدینہ میں علامہ قسطلانیؒ نے خطائی کا قول نقل کیا ہے کہ یہاں مقصود حبِ اختیاری ہے جب طبعی نہیں جو احتیار سے خارج ہے ۔ علامہ زرقانی ؒ نے اُسکی شرح میں لکھا ہے کہ حبِ اختیاری مقتضائے عقل ہوتی ہے گو خلاف طبع ہو جیسے بیماردوا کو دوست رکھتا ہے اگرچہ کڑوی ار مخالف طبع ہو۔اور مواہب میں امام نووی ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ مقصود یہاں یہ ہے کہ نفس معمُنہ کو نفس امارہ پر غالب کردی جائے جس سے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تمام اشیا سے بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ ہوجائے گی اور نفس امارہ کا غلبہ ہوتو یہ ممکن نہیں اور اسی میں لکھا ہے کہ قاضی عیاض ؒ نے ایمان میں محبت شرط ہونیکی یہ وجہ لکھی ہے کہ محبت لازمہء عظمت ہے یعنی جس کے دل میں نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ہوگی اُسکو محبت بھی ہوگی اور محبت نہونے سے سمجھا جائے گا کہ اسکے دل میں عظمت نہیں اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دل میں نہو نا کفر ہے ۔ مگر اُس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اعتقاد عظمت کو محبت لازم نہیں حضرت عمر ؓ کے دل میں جس قدر آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت تھی ظاہر ہے باوجود اسکے انہوں نے ابتدا میں اپنی ذات کی محبت پر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو فوقیت نہیں دی۔
اور لکھا ہے کہحضرت عمر ؓ نے پہلی بار حب طبعی کی خبر دی تھی جو اپنے نفس کے ساتھ تھی اور حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ حب اختیاری کی ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ دلائل اپنے دل میں قائم کرکے فوراً ترجیح محبت کی خبردی ۔ انتہیٰ
اسمیں شک نہیں کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ایمان سے بڑاہی تعلق ہے اِس لئے کہ بہت سے آیات و احادیث ایسے ہیں کہ اُن پر کامل ایمان ہو تو محبت کی زیادتی ضرور ہوگی مثلاً آیہ شریفہ وما ارسلنا ک الا رحمۃً للعالمین اگر آدمی اسی میںغورکرے اور اسکو یقین ہوجائے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم ہمہ تن رحمت الٓہی ہیں تو اُسکو ضرور آپ سے دلی محبت ہوگی کیونکہ یہ امر آدمی کی فطرت میں داخل ہے کہ جب کسی ذی رتبہ شخص کا حال سنتا ہے کہ وہ رحم دل ہے اور اُس سے لوگوںکو فائدہ پہنچتا ہے تو اِس سے دلی محبت پیدا ہوتی ہے اور جوں جوں اُسکے رحم اور فائدہ رسانی کے واقعات سنتا ہے محبت میں ترقی ہوتی ہے اسی کو دیکھ لیجئے کہ حاتم طائی کے واقعات سننے سے وجدانی طور پر دل میں اُس سے محبت محسوس ہوتی ہے بخلاف اُسکے حجاج اور چنگیز خاں سے دشمنی کی کیفیت پائی جاتی ہے حالانکہ اس وقت نہ حاتم سے نفع کی توقع ہے نہ اُن سے ضرر کا اندیشہ۔ بخلاف اسکے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے وجود با جود سے تو بے انتہا فوائد ہمیں حاصل ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں اور آئندہ کے لئے بے شمار منافع کی امیدیں ہیں کیونکہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت للعالمیں ہونا اسوقت تک محدود نہ تھا کہ آپ اِس عالم میں تشریف رکھتے تھے بلکہ قیامت کے روز اُس رحمت عامہ کا ایسے طور پر ظہور ہوگا کہ تمام عالم اُسکو مشاہدہ کرلے گا ۔ اگر عالمین میں کفار بھی داخل ہیں مگر ہمیں اس جگہ جھگڑے سے کیا کام کہ اُن کو اُس رحمت عامہ سے حصّہ ملے گا یا نہ ملے گا دشمنان خدا و ررسولصلی اللہ علیہ وسلم جہنم میں جائیں ہمیں اپنی مشت خاک بخشوانے کی پڑی ہے اگر ہماری بخشش بطفیل محبت رحمۃ للعالمین ہوگئی تو ہم جیسا کوئی خوش نصیب نہیں حق تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا ہے’’ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ‘‘ اور فرماتے ہیں یعنی البتہ قریب میں تمہارا رب تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم راضی ہوجائو گے جس شخص کو قیامت کے روز اور اُس میں جو جو وقائع پیش آنے والے ہیں اُن پر پورا ایمان ہوتو صرف اِسی ایک آیت اور حدیث پر ایمان لاکر دیکھ لے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنی جان سے زیادہ ہوتی ہے یا نہیں مگر اس کا خیال رہے کہ ایمان وہ ہونا چاہئے جسکا حال اوپر معلوم ہوا اگر اُن مضامین کا ذہول ہوگیا ہوتو پھر ایک نظر اُس پر ڈال لیجائے تاکہ حقیقت ایمان پیش نظر اور متحقق ہوجاوے صحیح صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ قیامت کے روز شان قہاری اور غضب الٓہی کا ظہور ایک ایسی غیر معمولی طورپر ہوگا کہ اُسکے پہلے کبھی ہواتھا اور نہ بعد ہوگا دیکھئے پہلے توخدا کا غضب الامان اُس پر غضب بھی کیسا کہ ازل سے اُس وقت تک ویسا ہواہی نہیں ۔ نہ نوح علیہ السلا م کے وقت نہ اور کبھی اور نہ اُسکے بعد ہوگا حالانکہ ابدالا باد غضب الٓہی میں رہیں گے مگر اُس غضب کے مقابلہ میں جو اُس روزہوگا یہ غضب بھی کم ہوگا اُس غضب کا تھوڑا سا حال اِس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انبیا علیہم السلام جنکے مقربین بارگاہ الٓہی ہونے میں ذرا بھی شک نہیں اُس روز نفسی نفسی کہیں گے اور طرفہ یہ ہے کہ خلیل علیہ الصلوۃ والسلام بھی باوجود خلت کے نفسی نفسی فرمادیں گے اب نفسی نفسی کا مطلب کُھلے لفظوں میں سن لیجئے کہ جب جن وانس انبیا ء علیہم السلام سے طالب شفا عت ہونگے تو وہ سب بالا تفاق یہ کہیں گے کہ اسوقت غضب الٓہی کو وہ جوش ہے کہ شفاعت تو بڑی چیز ہے ہمیں اسوقت اپنی پڑی ہے کہ نہیں معلوم کہ جو لغزشیں بمقتضائے بشریت ہم سے سر زدہوئی تھیں اُن کا آج کیا حشر ہوگا۔ اسوقت تمام عالم میں ایک سنّاٹا ہوگا نہ فرشتوں کی مجال کہ کچھ عرض و معروض کرسکیں نہ انبیا علیہم السلام میں جرائت کہ دم مارسکیں پھر وہ دن بھی کتنا برا پچاس ہزار سال کا جسکی خبر خدائے تعالیٰ دیتا ہے’’ تعرج الملئکۃ والروح فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ مماتعدون‘‘ اس روز عرض اعمال اور فیصلہ حقوق ومحاسبہ وغیرہ پچاس کام ہونگے اور ہر کام ہوش ربا اور جاں گداز ہوگا حقوق اللہ کی بازپرس اسطرح کہ عمر بھر کے کل حرکات وسکنات کا دفتر پیش ہے اور بات بات کی پرسش ہورہی ہے کہ خلاف خد اور سولصلی اللہ علیہ وسلم فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہ کیا اور فلاں جگہ کیوں بیٹھا اور فلاں شخص سے بات کیوں کی وغیرہ وغیرہ اگر بچائو کی غرض سے کسی بات کا انکار کیا تو ہاتھ پائوں وغیرہ اعضاء گواہی دے رہے ہیں کہ یہ شخص جھوٹا ہے خودہم سے اُس نے یہ کام لیا تھا’’ کما قال اللہ تعالیٰ وتشھد علیھم السنتھم واید یھم وارجلھم بما کانویعملون۔ وقال تعالی حتی اذا ما جاو ھا شھد علیھم سمعھم وابصارھم وجلودھم بما کانویعملون‘‘یعنی گواہی دیں گے اُن پر اُنکی زبانیں ہاتھ پائوں کا ن آنکھیں اور اُنکے چمڑے جو کچھ وہ کرتے تھے ۔ اور حقوق الناس کی یہ کیفیت کہ ہر شخص اپنی نجات کی فکر میں لگا ہوا اِس دھن میں ہے کہ کسی طرح گناہوں کابار سر سے ٹل کے اعمال حسنہ کا نصاب پورا ہوجائے اس غرض سے ادنیٰ ادنیٰ حقوق کے مطالبہ کہ لئے دوست قرابتدار ماں باپ جو روبچے دوڑے چلے آرہے ہیں کہ ہمارے یہ حقوق اسکے ذمہ ہیں دلادیئے جائیں اوراگر اُس کے پاس حسنات کا اس قدر سر مایہ نہیں تو ہمارے گنا ہ ہی اس کے سر لگا دئے جائیں وہ بیچارہ اُن سے بھاگ رہا ہے جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے یوم یفرالمر ء من اخیہ وامہ وابیہ واصا حبتہ وبینہ یہ لوگ وہ ہیں کہ عمر بھر اُنکے ساتھ احسان کرتے رہے اور اُنکے رنج وراحت میں شریک رہے اب یہی لوگ دوزخ میں پہونچانے کی فکر میں لگے ہیں اسی پر اُن پچاسوں واقعوں کا قیاص کیجئے جو اُس روز وقوع میں آنے والے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر ایک واقعہ جانکا ہ وجانگداز ہوگاادھر یہ پریشانی اُدھر جہنم پیش نظر ہے اور ھل من مزید کے نعرے پر نعرہ لگا رہا ہے اب غور کیجئے کہ ایسی حالت میں کیا جان کوئی عزیز چیز سمجھی جاسکتی ہے ہر گز نہیں ایسی زندگی سے تو مرجانا ہزار درجہ راحت ہی ہوگا اسی وجہ سے کفارآرزو کریں گے کہ کاش ہم مٹی ہوے ہوتے کما قال تعالی ویقول الکا فریا لتینی کنت تر ابااب تمام واقعوں کو پیش نظر رکھ کر غور کیجئے کہ ایسی حالت میں جب رحمۃ للعالمینصلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الٓہی میں پیش ہوکر اپنی امت میں سے خصوصاً اُن لوگوں کی شفاعت فرمادیں گے جن کو آپ کے ساتھ محبت ہے اور باجازت کبر یائی اُن تمام آفتوں سے نجات دلاکے جنت میں داخل فرمادیں گے تواب بتائے کہ وہ جان جو معرض تلف میں ہے جسکا نکل جانا بہتر سمجھا جاویگا وہ زیادہ تر محبوب ہونی چاہیئے یا وہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم جو اس جان کو ابدالآ باد کے بے انتہا مصائب سے بچاکر ابدالآ باد کے تلذذات میں پہونچا نیوالے ہیں مگر یا درہے کہ جان سے زیادہ محبت اُسی وقت ہوگی کہ ایمان امورمذکورہ بالاسے کامل طورپر ہو مقصود آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا اس حدیث شریف سے یہ تھا کہ کمال ایمان کی شناخت بتالادیں کہ اگر جان سے زیادہ محبت ہوتو سمجھ جائیں کہ ایمان کامل ہے ورنہ اُسکی تکمیل کی فکر کریں اُس پر بھی اگر کوئی حضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ رکھے تو حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے کوئی نقصان نہیں اُس نے اپنا ہی نقصان کیا ۔ اور دوسری وجہ ضرورت محبت کی یہ ہے کہ وہ آدمی کی فطرت میں داخل ہے کہ جس سے زیادہ محبت رکھتا ہے اُسکی بات مانتا ہے اور جس کام کے کرنے یا نہ کرنے کو وہ کہتا ہے اُسکی اطاعت کرتا ہے چنانچہ بزرگوں نے لکھا ہے ان الحب لمن یحب یطیع اِسی وجہ سے ہر شخص کو اپنے سچے دوستوں پر وثوق اور اس بات کا افتخارہوتا ہے کہ ہم اپنے دوستوں سے جو کچھ کہیں گے کیساہی وہ مشکل کام ہو اُسکو وہ انجام دیں گے اور وجدانی طورپر دوست کی محبت کا انداز ہ کرسکتا ہے کہ اپنے احباب میں کون سچے ولی قابل وثوق دوست ہیں اور کون ریائی اور غرضی ۔غرض کہ جس نے ساتھ کامل محبت ہوتی ہے اُسکی مخالفت کسی امر میں ہوہی نہیں سکتی کیونکہ مخالفت دشمنی کا لازمہ ہے ۔ انتہائی درجہ کی محبت کسی سے ہوتو اُسکے کہے پر جان بھی دینا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ جسکو اپنی بی بی کے ساتھ زیادہ محبت ہوتی ہے تو اُسکے حکم کے مقابل میں اپنے ماں باپ کے حکم کی کچھ پروانہیں کرتا بلکہ اُنکا دشمن ہوجاتا ہے حالانکہ اُنکے حقوق اور احسانات ایسے نہیں کہ اُنکا انکارکرسکے مگر اُس محبوبہ کی محبت کا یہ اثر ہے کہ وہ حقوق میںکان لم یکن ہیں ہر چند تقاضائے فطرت انسانی یہ تھا کہ والدین سے دشمنی یا مخالفت نہو سکی مگر محبوبہ کی محبت نے اُس کو آسان کردیا۔ اب غور کیجئے کہ مومن کو کسی کیساتھ اگر اتنی محبت ہوکہ اُسکے حکم کے مقابلہ میں اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کونہ مانے تو کیونکر کہاجائے کہ اُسکا ایمان کا مل ہے اسی طرح اگر نفس کو ئی حکم کرے اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اُسکے خلاف میں ہوتو مومن کافرض منصبی کیا ہونا چاہئے آیا نفس کا حکم مانے یا نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تو کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا کہ نبیؐ کاحکم نہ مانے گا مگر جب اپنے نفس کی محبت نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ ہوگی تو اکثر نفس ہی کی بات چل جائیگی جس سے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اکثر ہواکرے گی اس لئے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مومن کو ضرور ہے کہ اپنے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ محبت میرے ساتھ رکھے تاکہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مقابلہ میں کسی کا حکم نہ چلے کیونکہ یہ لوگ جس کام کاحکم کریں گے اُسمیں اُنکو اپنا نفع ذاتی پیش نظر ہوگا اسی طرح نفس بھی اُنہیں کاموں کی خواہش کرے گا جن میں صرف دنیوی تلذذات ہوں بخلاف آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کو امرونہی سے کوئی اپنا ذاتی نفع متصور نہیں بلکہ جن کاموں کے کرنے کاآپصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے اُن سے صرف ہماری بڑی بڑی منفعتیں دونوں جہاں کی متعلق اور وابستہ ہیں اور جن کاموں سے منع فرمایا دونوں جہاں میں وہ ہمارے مضر اور مہلک ہیں اِس امر ونہی سے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی غرض یہی ہے کہ ہمیں اُنکے بجالانے سے ابدالآ باد کی سعادت اور راحت نصیب ہو اور دارین میں کامیاب رہیں حق تعالی فرماتا ہے ’’لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم یالمو منین روف رحیم‘‘ یعنی آئے ہیں تم میں رسولصلی اللہ علیہ وسلم تم میں کے شاق ور بھاری ہے اُن پر کہ تم ایذا میں پڑوتمہاری بھلائی پر وہ حریص ہیں ایمان والوںپر شفقت اور مہربانی رکھتے ہیں انتہیٰ ۔ حاصل یہ کہ جب کوئی ایسا کام پیش ہوکہ اُس میں اپنے نفس یا اور کسی محبوب کی خواہش ہو اور اُس کا م میںنبیصلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اُسکے خلاف میں ہوتو مومن کو چاہئے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کوپوراکرے اور اُنکی خواہش پر خاک ڈالے جو خودغرضی سے اپنے دوست کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ نبیؐ کی پوری اطاعت اسوقت تک ممکن نہیں کہ اُن سب سے زیادہ محبت آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہواور جب تک امور مذکورہ پر کامل ایمان نہوگا اِس قسم کی محبت حضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے ہونہیں سکتی اِس سے ظاہر ہے کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ساتھ ایمان کو ایک تعلق خاص ہے غرض حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے جو خواہش فرمائی کہ تمام عالم سے زیادہ محبت آپکے ساتھ ہواُسمیں بھی صرف ہماری بھلائی پیش نظر ہے اب ہمیں ضرور ہے کہ اگر اس قسم کی محبت اپنے میں پائیں تو شکر الٓہی بجالائیں ورنہ دعاکریں کہ الٓہی ہمیں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی محبت عطا فرماکہ آپ کی اطاعت ہم پر آسا ن ہوجائے اور اُسکے مقابلہ میں ہم سے نہ اپنے نفس کی اطاعت ہوسکے نہ اور کسی محبوب کی اب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حال سنئے حق تعالیٰ فرماتا ہے’’ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحیکم اللہ‘‘ یعنی کہہ دواے محمدصلی اللہ علیہ وسلم اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہوتو میری اتباع کرو جس سے تم اللہ کے محبوب ہوجائوگے ۔سبحان اللہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیسی باوقعت چیز ہے کہ محبوب الٓہی بنادیتی ہے ۔دیکھئے یہاں بھی وہی بات ہے جو اوپر مذکور ہوی کہ جسکے ساتھ آدمی محبت رکھتا ہے اُسکی اطاعت کرنا ہے اِسی وجہ سے حق تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو دعوے محبت رکھتے تھے گویا یہ فرمایا کہ اگر تمہیں ہماری محبت ہے تو ضرور ہے کہ اُسکے آثار نمایاں ہونگے یعنی ہماری اطاعت کروکے اور ہماری اطاعت بھی ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروجیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ یعنی جس نے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اُس نے یقیناً اللہ کی اطاعت کی۔
یہاں ایک اور بات معلوم ہوئی کہ حق تعالیٰ کو منظور ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی مسلمانوں کو کامل محبت ہوکیونکہ ابھی معلوم ہواکہ پوری اطاعت اُسوقت تک نہیں ہوسکتی کہ کامل طور پر محبت نہو اور حق تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی اطاعت میں منحصر فرمادیا اِس سے ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ نے ان آیات میں اُن لوگوں کو جو محبت الٓہی کا دعویٰ کرتے ہیں اشارۃً یہ حکم فرمادیا کہ جس طرح ہمارے ساتھ محبت رکھتے ہوہمارے نبی ﷺکے ساتھ بھی پوری محبت رکھو جسکے آثار نمایاں ہوں یعنی اُنکی پوری اطاعت کرو اور اگر اطاعت نہ کی تو ہماری محبت کے دعوے میں جھوٹے سمجھے جائیں گے۔
غرضکہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین میں ضروری سمجھی گئی ہے اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ سے کمال درجہ کی محبت تھی جیسا کہ شفا میں قاصی عیاض ؓ نے لکھا ہے ۔کہ کسی نے حضرت علی کرم الہ وجہ سے پوچھاکہ صحابہ کی محبت آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیسی تھی فرمایا ٹھنڈے پانی کے ساتھ جو کمال تشنگی کے وقت محبت ہوتی ہے ۔ اِس سے بھی زیادوہ تر تھی اس میں لکھا ہے کہ ایک بار عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پائوں سن ہوگیا ۔ کسی نے کہا جسکے ساتھ آپ کو زیادہ محبت ہو اُسکو یاد کیجئے اچھا ہوجائے گا ۔یہ سنتے ہی یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہکر چیخ ماری۔
مواہب لدنیہ میں روایت ہے کہ ایک روز ایک انصاری نے انحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم خداکی قسم آپ کی محبت میرے دل میں اپنے جان ومال اہل واولاد سے زیادہ ہے اگر میں حاضر خدمت ہوکر دیدار سے مشرف نہ ہوں تو یقین ہے کہ مرجائوں گا ۔یہ کہکر رونے لگے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کی وجہ دریافت کی عرض کیا مجھے خیال آیا جب آپ انتقال فرمائیں گے اور میں بھی مرجائوںگا تو آپ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مقامات عالیہ میں تشریف فرماہوںگے اور ہم اگر جنت میں گئے بھی تو نیچے کے درجہ میں رہیں گے پھر آپ کا دیدار کیونکر نصیب ہوگا یہ سنکر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے اُسیوقت یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی’’ ومن یطع اللہ والرسول فاولٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھد ئوالصالحین وحسن اولٓئک رفیقا‘‘۔ یعنی جو لوگ خدا ورسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ انبیا ء وصدیقین اور شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوںگے اور اسمیں یہ روایت بھی ہے کہ جنگ احد کے روز آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مدینہ طیبہ میں مشہور ہوگئی یہ سنتے ہی گو شہ نشین عورتیں گھروں سے نکل پڑیں چنانچہ قبیلہ انصار کی ایک بی بی نے دیکھا کہ اپنے بھائی اور باپ اور شوہر کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں مگر اُس خبر وحشت اثر کی وجہ سے اُنہوں نے اُنکی کچھ پروانہ کی اور ایک ایک سے پوچھتی تھیں کہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں جب اُنہوں نے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بے اختیار دامن مبارک کو تھام کرکہنے لگیں یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم جب آپ سلامت ہیں تو مجھے اب کسی کے مرنیکی کچھ پروا نہیں ۔اور اسمیں یہ روایت ہے کہ ایک بی بی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پا س حاضر ہوکر کہنے لگیں کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مجھے دکھلائے جب آپ نے دکھلایا تو دیکھتے ہی اُن کا حال یہ ہواکہ روتے روتے بیہوش ہو گئیں اور انتقال کرگئیں۔
مواہب لدینہ میں ایوب سختیانی کا حال لکھا ہے کہ جب مجلس میں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا تو وہ اتنا روتے کہ بیخود ہوجاتے ۔ علامہ رزقانی ؒ نے اُس کی شرح میں لکھا ہے کہ اما م مالک ؒ اپنے شاگردوں سے فرماتے تھے کہ جن محدیثین سے میں روایت کرتا ہوں اُن سب میں ایوب افضل تھے میں نے اُنکے ساتھ دوحج کئے ۔ پہلے صرف اُنکو دیکھا کرتا کوئی روایت نہ لیتا اُنکی حالت یہ تھی کہ جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا ُذکر کرتے تو اسقدرروتے کہ مجھے اُن پر رحم آتا تھا ۔ جب اُن کی یہ حالت دیکھی اور اسقدر عظمت اُن کے دل میں پائی اُن سے روایتیں لینا شروع کیا ۔
مصعب ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ امام مالک ؒ جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکرتے چہرہ کا رنگ متغیر ہوجاتا جس سے حضار مجلس کے دلوں پر اثر پڑتا تھاکسی نے اُن سے یہ حالت بیان کی فرمایا جو میں نے دیکھا ہے اگر تم دیکھتے تو اسکا انکار نہ کرتے میں نے محمد بن منکدر کو دیکھا ہے کہ جب اُن سے کوئی حدیث پوچھی جاتی تو اتنا روتے کہ پوچھنے والے کو رحم آجاتا۔
مواہب میں لکھا ہے کہ امام جعفر صادق ؒ باوجود یکہ نہایت خوش طبع تھے اور بہت ہنستے تھے مگر جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک آجاتا تو چہرے کا رنگ زرد ہوجاتا ۔ عبدالرحمٰن بن قاسم جو محمد بن ابی بکر ؓ کے پوتے ہیں جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتے تو اُنکا رنک ایسا ہوجاتا کہ گویا جسم سے خون نکل گیا ۔ اور زبان خشک ہوجاتی تھی انتہیٰ۔
اِن روایات کے سوااور بہت سی روایتیں کتب سیر وغیرہ میںمروی ہیں جس کا ما حصل یہ ہے کہ اکا بر دین کو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت تھی خارج ازبیان ہے یہی وجہ تھی کہ اتباع اور اطاعت اعلیٰ درجہ کی ان حضرات پر آسان ہوگئی تھی ۔ اسی اتباع کی بدولت وہ حضرات اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوگئے ۔ حدیث شریف میں وارد ہے ادبوااولادکم علے خصال ثلات علی حب نبیکم وحب اھل بیہ وعلی قراء ۃالقرآن الحدیث رواہ الدیلمی فی الفردوس عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
یعنی اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تعلیم کرو اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے اہل بیت کی محبت اور قرآن کا پڑہنا ۔ ظاہر اً محبت کی تعلیم کی یہی صورت معلوم ہوتی ہے کہ حضرتﷺ کے پورے پورے فضائل وکمالات ذاتی اور ہماری احتیاج آپ کے ساتھ اور آپ کا ہر مصیبت میں ہماری دستگیری فرمانا وغیرہ امور لڑکوں کو تعلیم کئے جائیں جس سے اُن کی نشوونما حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ساتھ ہو اور قاعدہ ہے کہ اُسیوقت کی تعلیم کا اثر طبیعت میں راسخ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آدمی اپنے ماں پاپ کی روش عادتیں کو اختیار کرتا ہے ۔ ابن تیمیہؒ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں لکھا ہے’’ الایمان وان کان اصلہ تصدیق القلب فذلک التصد یق لا بدان یوجب حالاً فی القلب وعملاً لہ وھو تعظیم الرسول واجلا لہ محبتہ و ذلک امر لا زم کالتا لم والتغم عندالا حاس بالمولم والمنعم ‘‘یعنی اگر چہ کہ ایمان کا اصل تصدیق قلبی ہے مگر اُس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے کہ دل میں نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور اجلال اور محبت پیداہواور یہ امر لازمی ہے جس طرح کوئی دکھ دینے والی چیز کے احساس سے درداور لذت دار چیز کے احساس سے لذت پیداہوتی ہے۔
وقال ایضاً فیہ ان اللہ سبحانہ اوجب لنبینآصلی اللہ علیہ وسلم علی القلب واللسان والجوارح حقوقاً زائد ۃً علے مجردالتصدیق بنبو تہ کما اوجب سبحانہ علی خلقہ من العباد ات علی القلب واللسان والجوارح اموارزائد ۃ علی مجرد التصدیق بہ سبحانہ و حر م سبحانہ وحرم رسولہ ما یباح ان یفعل مع غیرہ امورازائد ۃ علی مجر دالتکذیب بنبو تہ ومن حقہ ان یکو ن احب الی المومن من لفسہ وولدہ وجمیع الخلق کما دل علی ذالک قولہ سبحانہ قل ان کان آباؤکم وابنا ؤکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقتر فتمو ھا وبخارۃ تخثون کسادھا ومساکن تر ضو نھا احب الیکم من اللہ ورسولہ۔
یعنی بن تیمیہ ؒ نے صارم مسلول میں یہ لکھا ہیکہ جس طرح خدائے تعالیٰ نے علاوہ مجرد تصدیق کے اپنی عبادت لوگوں کے دلوں اور زبانوں اور جوارح پر مقرر کی ہے اسیطرح نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق لوگوں کے دلوں اور زبانوں اور جوارح مقرر کئے ہیں جو علاوہ تصدیق نبوت کے ہیں اور کئی امور ایسے جو دوسروں کے ساتھ جائز ہیں ۔ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کیوجہ سے وہ حرام کردئے گئے جس طرح تکذیب آپکی حرام ہے منجملہ اور حقوق کے ایک حق آپ کا یہ ہے کہ آپکی محبت اپنی جان اور اولاد اور جمیع خلق سے زیادہ ہونی چاہئیے جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے۔
ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے ان اللہ فرض علینا تعزیر رسولہ وتو قیرہ ونصرہ ومنعہ وتو قیرہ واجلالہ وتعظیمہ یعنی حق تعالیٰ نے ہم پر رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیرہ فرض کی ہے اور نیز ابن تیمیہؒ نے اُس میں لکھا ہے فقیام المدحتوالثنا ء علیہ والتعظیم والتوقیر لہ قیام الدین کلہ وسقوط ذالک سقوط الدین کلہ یعنے مدح و ثنا ء و تعظیم و تو قیر آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی کرنا ہے دین کو قایٔم کرناہے اوراس کو دین کو ساقط کردینا ہے۔
الحاصل جسطرح محبت آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی واجب ہے اسیطرح حصرتصلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر ومدح و ثنا بھی واجب بلکہ فرض ہے۔

اسلام
بحث اسلام کے معنے میں۔
اسلام بمعنی انقیادوگردن نہاون ہے ۔کما فی لسان العرب الا سلام ولا ستسلامالا نقیاداور نیز بمعنی تفویض ہے جیسا کہ منتہیٰ الارب میں ہے اسلم امرہ الی اللہ ای سلمہ و قال النبیصلی اللہ علیہ وسلم اسلمت نفسی الیک ای فوضت۔
تمہید ابو شکور میں لکھا ہے کہ بعض فقہا ایمان واسلام میں فرق کرتے ہیں ۔ اور شیعہ کا قول بھی یہی ہے وہ کہتے ہیں کہ جو شرایع کو اداکرے اور علوم تاویل و تنزیل کو نہ جانے وہ مسلم ہے ۔ اور مومن وہ ہے جو حقایق تاویل کو جانتا ہو۔
معتزلہ کے نزدیک ایمان باطن میں ہے اور اسلام ظاہر میں ۔ گناہ کبیرہ سے آدمی ایمان سے نکل جاتا ہے اور اسلام سے نہیں نکلتا اسلئے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے قالت الا عراب آمنا قل لم تو منو اولکن قولو ااسلمنا ۔ اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایمان اور اسلام میں فرق کیا ہے چنانچہ ایمان کے باب میں فرماتے ہیں ان تومن باللہ ومالئکتہ وکتبہ ورسولہ الخ اور اسلام کے باب میں اقامۃ الصلوۃ وایتآء الزکوٰۃ ۔ لیکن عامہ فقہا سے اہل سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ ایمان اسلام ۔معرفت اور توحید میں اگرچہ با عتبار لغت کے فرق ہے لیکن حقیقۃً کچھ فرق نہیں اسلئے کہ جس میں یہ چاروں صفتیں ہوں وہ مسلمان ہے ۔ اور جس میں ایک صفت بھی نہ ہو وہ کافر ہے انتہیٰ۔
ملا علی قاری ؒنے شرح فقہ اکبرمیں لکھا ہے الاسلام ھوالتسلیم ای باطنا ً والا نقیا دلا وامر اللہ تعالی ای ظاھراً ففی طریق اللغۃ فرق بین الا یمان والا سلام ولکن لا یکون ایمان بلا اسلام والا سلام بلا ایمان فھما کالظھر مع البطن والدین اسم واقع علی الا یمان والا سلام والشرائع کلھا ۔ یعنے اسلام تسلیم باطنی اور انقیاد ظاہری کا نام ہے اگر چہ با عتبار لغت کے ان دونوں میں فرق ہے ۔لیکن نہ ایمان بغیر اسلام کے ہو سکتا ہے نہ اسلام بغیر ایمان کے وہ دونوں ایسے ہیں جیسے ظاہر باطن کے ساتھ اور دین کا اطلاق ایمان اور اسلام اور کل شرائع پر ہوتا ہے۔
شرح مقا صد میں لکھاہے کہ اسلام دین کے معنی میں مشہور ہوگیاہے اور لفظ ایمان مسلمان کے فعل قلبی کے نام سے اسی وجہ سے ایمان کے متعلقات بیان کرنے کی ضرورت ہے مثلاً خدائے تعالیٰ اور انبیاء و کتب وغیرہ پر ایمان لانا کما قال لا شتھا رلفظ الاسلام فی طریقۃ النبیصلی اللہ علیہ وسلم واعبتا رالا ضا فۃ الیہ حتی صار بمنزلہ اسم لدین محمدصلی اللہ علیہ وسلم فلفظ الایمان فی فعل المومن من حیث الا ضا نۃ الیہ ولم یصر بمنزلۃ الا سم للدین و ولھذاکثیراما یفتقرفی الا یمان الی ذکر المتعلق مثل امنو اباللہ ورسولہ وغیرذلک بخلاف الا سلام بحث تصدیق و معرفت سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کفار کو معجزات وغیرہ دلائل سے یقین واذعان اِس امر کا ہوجاتا تھا کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں ۔ اور قرآن شریف کلام الٓہی ہے۔ مگر استکبار وغیرہ اسباب سے بعض اپنے کفر پر مصررہتے اور بعض اُس اذعان کی بنا پر تصدیق کرکے مشرف باسلام ہوجاتے ہر چند اذعان اور یقین دونوں ایک ہی قسم کے ہوں مگر اہل اسلام تمام موانع کو دفع کرکے زبان اور دل سے اقرار اور تصدیق کرتے ہیں اور انقیا دوفرمان برداری قبول کرکے اپنی ذات کو خدااور رسول کے تفویض کردیتے ہیںکہ جس طرح چاہیں اُس میں تصرف کریں اس لئے کہ جن اعضا وقوی کے حرکات و سکنات میں انسان کے اختیار کو دخل ہے ۔ اُن میں شارع کا تصرف بھی نافذ ہے کہ بعض حرکات وسکنات سے وہ روک دئے جائیں اور بعض عمل میں لائیں تا معلوم ہوجائے کہ تصرف شرعی کو پوری طورپر قبول کرتے ہیں یا نہیں مثلاً ہاتھ پائوں سے جو کام متعلق ہیںاُن میں یہ حکم ہے کہ برے کام کے طرف ہاتھ نہ بڑہائیںاور چل کر نہ جائیں زبان کو بد گوئی وغیرہ سے محفوظ رکھیں ۔ علیٰ ہذا القیاس سماعت، بصارت، شکم ، فرج وغیرہ اعضا کو چند قسم کے افعال و حرکات سے روکنے اور چند افعا ل کرنے کا حکم ہے ۔ اسی طرح قوای باطنی مثل خیال وغیرہ کو برے کاموںسے متعلق نہ کرنے اور اچھے کاموں سے متعلق کرنے کا حکم ہے ۔ جنکی تفصیل علم فقہ واخلاق میں مذکور ہے۔
غرضکہ حق تعالیٰ نے انسان کو جن اعضا و قویٰ پر تصرف دیا اُن میں آزمایش کے لئے اپنا بھی تصرف شرعی لگا رکھا ہے ۔ اگر اس تصرف کو قبول نہ کریں تو نافرمانی کا الزام عائد ہوگا ۔جس سے اپنا سراپا اور ظاہر و باطن کو اپنے خالق کے تفویض کردینا صادق نہ آئیگا حالانکہ اُسکی ضرورت ہے حق تعالیٰ سبحانہ فرماتا ہے ۔ ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ ۔یعنے اللہ تعالیٰ نے خریدلیا ہے مسلمانوں کی جان ومال کو بدلہ میں اسکے کہ اونکے لئے جنت ہے جب مسلمان جان ومال سے بک گئے تو اُنکے تسلیم کردینے میں کیا تامل۔
الحاصل مقتضائے ایمان بھی ہے کہ آدمی اپنی جان ومال خداورسول کو تسلیم و تفویض کردے جس سے اسلام کے پورے معنی صادق آجائیں ۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے کیسی ہی خلاف قیاس بات سنتے فوراً اُسکو تسلیم کرلیتے تھے ۔اور کیونکر نہ کرتے اُنکی عقل نے تو ہر روز معجزات دیکھ دیکھ کر یقین کرلیا تھا کہ خدائے تعالیٰ کی قدرت ہماری عقول کی پابند نہیں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک سے آسمانوں پر تشریف لیجانا، عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیداہونا ،موسیٰ علیہ السلام کا دریا کو عصا مار کر جداکردینا، ابرہیم علیہ السلام کے روبرو پر ندوںکازندہ ہونا ،جنات و ملائکہ کو چھپنے اور ظاہر ہونیکی قدرت عطا ہونا ،اس جسم سے حشر کے روز اٹھنا وغیرہ امور جو قرآن شریف میں مذکور ہیںاور وہ امور جنکی آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے گو معمولی عقل نہ مانے ۔ مگر خدا ئے تعالیٰ کی قدرت میں کوئی بڑی بات نہیں۔ الغرض جسکو اسلام کا دعویٰ ہے تو ضرور ہے کہ ظاہر و باطن کے ساتھ عقل کو بھی تسلیم خداورسولصلی اللہ علیہ وسلم کردے۔ ورنہ اسلام کے ساتھ ایمان کو بھی خیر باد کہہ دینا پڑے گا کیونکہ تقریر بالا سے ظاہر ہے کہ اسلام گویا عین ایمان ہے ۔ اور نیز اس آیۂ شریفہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ’’کما قال اللہ تعالیٰ فی قصّۃ ابراہیم علیہ السلام یا بنی انی اری فی المنام انی اذ بحک فانظر ما ذا تری قال یا ابت افعل ما تو مرستجدنی ان شاء اللہ من الصابریں فلما اسلما و تلہ للجبین ونادینا ہ ان یا ابراھیم قد صدقت الرؤ یا‘‘ یعنے ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے پیارے فرزند میں نے خواب میں دیکھاہے کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں تو تم غور کروکہ کیا مناسب سمجھتے ہو۔ کہا اے پدر مہربان جو آپ کو حکم ہواہے اِسکی تعمیل کیجئے مجھے بھی آپ انشاء اللہ تعالیٰ صابروں میں پائو گے ۔ پھر جب دونوں نے حکم مانا اور پچھاڑا ابراہیم علیہالسلام نے اُنکو ماتھے کے بل اور ہمنے اُنکو پُکار کر کہا اے ابراہیم تم نے سچ کردکھا یا اپنا خواب ۔انتہیٰ
دیکھئے فلما اسلما بآواز بلند کہ رہا ہے کہ اسلام اسے کہتے ہیں کہ ادھر پدر مشفق اپنے جگر گو شہ کو ذبح کرنے پرمستعد خنجر بکف ہیں اور ادہر ہو نہار نوجوان فرزند اپنے نازک گلے کو خنجر براں کے تلے رکھ کر کہہ رہے ہیں کہ اے حضرت امتثال امرمیں دیر نہ کیجئے ۔ اور یہ خیال تک نہیں کہ آخر جرم ہی کیا ہے جسکی سزا دی جارہی ہے نہ طبیعت میں یہ خلجان کہ خواب کی باتوں پر تشدد کیسا کسی کی معمولی عقل یہ ہر گز قبول نہیں کر سکتی کہ بے گناہ نوجوان لڑکا یوں ذبح کیا جائے مگر سبحان اللہ کیا اسلام تھا کہ صاحبزادے نے باوجود استمزاج و مشورہ لینے ،یہ بھی نہ کہا کہ حضرت خواب کے لئے تعبیر بھی ہواکرتی ہے جیسے دودھ کی تعبیر علم ہے آخر آپ نے یہی دیکھا کہ ذبح فرمارہے ہیں یہ ایک واقعہ ہے حکم الٓہی نہیں جس کی تعمیل ضروری ہو۔ بات یہی تھی کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام نے قرینہ گفتگو سے معلوم کرلیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اِس خواب کی بنا پر ذبح کرنا منظور ہے اسلئے نبی علیہ السلام کے خلاف مرضی چوں وچرا کرنے کی مجال نہ پاکر اپنے ظاہر و باطن اور عقل کو تسلیم کردیا۔
اب دیکھئے کہ اسلام کیسی چیز ہے کہ جسکے مقابلہ میں جان بھی کوئی چیز نہیں سمجھی جاتی تھی ۔چنانچہ صحابہ کی یہی حالت تھی کہ کیسی کیسی سختیاں اُن پر مخالفین اسلام ڈالتے تھے۔
عرب کی وہ سخت دہو پ جس میں زمین پر پائوں رکھنا مشکل ہے ۔ اِسی دھوپ میں گرم پتھر پر برہنہ لٹاکر چھاتی پر پتھر رکھتے اور اقسام کے عذاب دیکر مجبور کرتے تھے کہ اسلام چھوڑدیں مگر اُن شیفتگان اسلام پر اُسکا ذرا بھی اثر نہیں ہوتا تھا ۔ بخلاف اِس کے اِس زمانہ میں بعض اُن لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جان و مال کا خطرہ تو درکنا ر، صرف اِس احتمال پر کہ مخالفین اسلام کی موافقت میں اپنی دنیوی ترقی ہوگی اورشاید مخالفت ملت مانع ترقی ہو،مخالفین کی ہاں میں ہاں ملادی تاکہ مذہبی تعصب کا الزام جاتا رہے اور کڑوڑہا مسلمان قرنا بعد قرن جن اعتقادات پر چلے آرہے ہیں اور یہ عملدرآمد لاکھوں کتابوں سے ثابت ہوتا ہے اُسکا کچھ اعتبار نہیں کیا اور تدبیر یہ نکالی کہ فقہ وغیرہ خدا و رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہ ہو نیکی وجہ سے قابل التفات نہیں ۔ رہی حدیث سووہ متواتر نہ ہو نیکی وجہ سے بیکار ہے البتہ قرآن شریف متواتر ہے مگر اُسکی تفسیر جو مفسرین و محدثین و سلف نے کی ہے وہ سب ڈھکو سلے ہیں قابل اعتبار وہ تفسیر ہے جو ہم کرتے ہیں ۔ اب تفسیر کی حالت سنئے ۔ پہلے چند قواعد اپنے مطلب کے تراشے منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ جو مضمون قرآن کا خلاف عقل و نیچر ہواُس میں تاویل کی ضرورت ہے پھر جو چاہا معنے لکھدیا اور وہ قرآن ہی نہ رکھا جس پر تیرہ سو برس سے مسلمانوں کا عملدرآمد تھا اگر سچ پوچھئے تو قطع نظر اعتقادی بات کے اِس نئے قرآن پر ایمان لانے کی خود ضرورت نہ رہی اسلئے کہ ایمان کی ضرورت تو جب ہو کہ کو ئی بات اُسمیں خلاف عقل ہو جو قائل کے اعتماد پر ما نی جائے ۔ جب سرے سے کوئی بات بھی ایسی نہیں تو اب ایمان کی ضروت ہی کیا۔ یہ تفسیر بلامبالغہ ایسی ہے جیسے کافیہ کی شرح اسطرح سے کیجائے قولہ الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد اقول کلمہ سے کلمہ طیبہ مراد ہے یعنے لا الٓہ الا اللہ جو صرف توحید وتفرید کے واسطے وضع کیا گیا ہے جسکے معنی مفرد ہیں یعنے ذات بحث جسکا کوئی شریک نہیں قولہ وھی اسم وفعل وحرف وا قول ضمیر ہی کلمہ کی طرف راجع ہے لیکن علی سبیل الاستخدام کلمہ سے مرادیہاں ماسواللہ ہے ۔ ماسوی اللہ کو کلمات اس و اسطے کہتے ہیں کہ سب لفظ کن سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ماسوی اللہ تین قسم پر ہیں اسم یعنی ذات مع الوصف فعل توحید افعال کے لحاظ سے کل افعال جو عالم میں وجودمیں آتے ہیں۔ افعال الٓہی میں فعل کا دوسرا مرتبہ اسلئے ہواکہ افعال کے مناشی صفات ہیںجو اسم میں ملحوظ ہیں اصطلاحات صوفیہ میں اسکی تعریف یہ ہے الصورۃ المعلومۃ فی عرصۃ العلم الا لھی قبل الضبا غھا با لوجودالعینی کذالک فی کشاف الا صطلاحات پھر حروف دوقسم پر ہیں حروف عالیات وسافلات۔ حروف عالیات شیون ذاتیہ کو کہتے ہیں جو علم غیب میں کامن میں جیسے شجرہ نواۃ میں کما قیل ۔ کنا حروفاً عالیات لم تقبل متعلقات فی ذری اعلی القال ۔چونکہ توحید تین قسم پر ہے توحید ذات جو کلمہ شہادت سے معلوم ہوئی اور توحید صفات جو اسم سے معلوم ہوتی ہے اور توحید افعال جو فعل کا مدلول ہے اِس لئے مصنفؒ نے تینوں توحیدوں کو علی الترتیب بیان کرکے حروف کو سب کے آخر میں ذکر کیا الخ۔
اب غور کیجئے اس قسم کی شرح یا تفسیر کو مصنف کی مراد سے کچھ بھی تعلق ہے ۔ بیش ازیں نیست کہ طبیعت آزمائی اور دل لگی خوب ہوگی اسیطرح ان تفسیروں کا حال ہے جو اِس آخری زمانہ میں اپنی رائے سے لکھی جاتی ہیں۔
الغرض عقل سے خدا و رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا مقابلہ کرنا اور اپنی عقل کو ترجیح دے کرنصوص قطعیہ کا انکار کرجانا ،نہ تفویض ہے نہ انقیاد ،پھر معلوم نہیں کہ اسلام کے کیامعنے لئے جاتے ہیں ۔ بہر حال تسلیم وانقیاد مذکورہ بالا کا نام اسلام اور اُنکا حصول بغیر کامل تصدیق کے مکن نہیں اسیطرح کامل تصدیق کے بعد وہ دونوں ضرور حاصل ہونگے اس سے یہ بات ثابت ہے کہ ایمان واسلام میں تلازم ہے۔
یہاں یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ تصدیق صرف اخبار سے متعلق ہے انشائیات میں نہیں ہواکرتی مثلاً کسی کام کا کسی کو حکم کریں اور وہ تصدیق کرکے کہے کہ آپ سچ کہتے ہیں تو بے موقع سمجھا جائیگا پھر ایمان واسلام میں تلازم کیونکر ہو ،جو اب اس کا شرح مقاصد میں لکھا ہے کہ اوامر نواہی کی تصدیق اِس طورپر ہوگی کہ وہ سب حق اور من جانب اللہ ہیں ۔ اور اخبار کے منقا د ہونے کی یہ صورت ہے کہ گو وہ خلاف عقل ہوں اُنکے ماننے اور تسلیم کرنے پر عقل مجبور کیجائے جیسے اعضا او امرونواہی کے انقیاد پر مجبور کئے جاتے ہیں ۔
اگر کہا جائے کہ احادیث سے ایمان واسلام میں فرق ثابت ہے اس لئے کہ شارع علیہ السلام نے نماز روزہ وغیرہ اعمال جو ارح کو اسلام قرار دیا ہے اور ایمان فعل قلبی کو۔
اسکا جواب یہ ہے کہ نصوص قطعیہ سے ثابت ہے کہ منافق کفار سے بھی بدتر ہیں حالانکہ یہ افعال برابر اُن سے صادر ہوتے تھے ۔ اُس سے ظاہر ہے کہ صرف اعمال اسلام کے لئے کافی نہیں انقیادمعنوی اس کے لئے ضرور ہے ۔ البتہ ایمان و اسلام میں فی الجملہ یہ فرق ہوسکتا ہے کہ اسلام کا بالذات تعلق اکثر افعال جوارح سے ہے اور ایمان صرف فعل قلبی ہے اِس مقام میں یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے وقالت الا عراب آمنا قل لم تو منوا ولکن قولوا اسلمنا یعنی بدوں نے کہا لو ہم ایمان لائے اُن سے کہئے کہ تم ایمان نہیں لائے یوں کہو کہ اسلام لائے ۔ اِس سے ثابت ہے کہ دونوں میں تلازم نہیں۔
اِسکا جواب یہ کہ اسلام کا لفظ کبھی صلح میں داخل ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے جیسا کہ لسان العرب میں لکھا ہے چونکہ اُن لوگوں کا اصلی منشا صلح کرنے کا تھا اور برائے نام آمنا کہتے تھے اسلئے ارشاد ہواکہ تم کو ایمان سے کیا تعلق تم تو صلح میں داخل ہونا چاہتے ہواِسلئے اسلمنا کہو یعنے دخلنا فی الصلح چنانچہ تفسیر درمنشور میں اس آئیہ شریفہ کی شان نزول میں لکھا ہے کہ عرب کا ایک قبیلہ حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیااور مسلمان ہونے کا احسان حضرتصلی اللہ علیہ وسلم پر رکھ کر کہا کہ جیسا فلاں قبیلہ آپ سے لڑاتھا ہم نہ لڑینگے اِس سے ظاہر ہے کہ اُنکو صلح مقصود تھی ۔ الحاصل منافق پر اسلام کا اطلاق نہ ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ عرف شرع میں اسلام مرادف یا مساوی ایمان ہے جس سے متبادر ہے کہ آیۃ موصوفہ میں لفظ اسلام با عتبار عرف شرع مجازی معنی میں مستعمل ہے اور اس آئیہ شریفہ سے بھی معلوم ہوتا ہیکہ اصل اسلام دل سے متعلق ہے قولہ تعالیٰ افمن شرح اللہ صدرہ للا سلام فھوعلی نورمن ربہ۔
اور اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔عن صفوان ابن امیۃ عن ابیہ قال استعارمنی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم درعاً من حد ید فقلت مضمو نہ یا رسول اللہ قال مضمو نۃ فضاع بعضھا فقال النبیصلی اللہ علیہ وسلم وسلم ان شئت غرمتھا قلت لا الان فی قلبی من الا سلام غیرما کان یومئذرواہ الدارقطنی فی المجتبی ۔یعنی امیہ کہتے ہیں کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فولادی ذرہ مجھ سے مستعارلی میں نے عرض کی کہ اگر وہ تلف ہوجائے تو اسکی قیمت عطا ہوگی فرمایا ہاں اتفاقاً وہ تھوڑا تلف ہوگیا حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اُسکا تاوان دوںمیں نے عرض کی کہ اب ضرورت نہیں آج میرے دل میں وہ اسلام ہے جو اُس روز نہ تھا۔
الحاصل اصل اسلام بھی مثل ایمان دل ہی سے متعلق ہے ۔مگر چونکہ اقوال وافعال سے اسلام ظاہر ہوتا ہے اِس لئے جس سے یہ امور صادر ہوں بحسب ظاہر اُس کو مسلمان کہنا چاہئے ۔چنانچہ امام موفق الدینؒ نے کتاب فضائل امام اعظم ؒمیں امام صاحب کا قول نقل کیا ہے کہ تصدیق کے باب میں تین قسم کے لوگ ہیں بعض وہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ اور اُسکی طرف سے جو کچھ آیا ہے سب کی تصدیق دل اور زبان سے کرتے ہیں اور بعض صرف زبان سے تصدیق کرتے ہیں اور بعض صرف دل سے جو لوگ زبان و دل سے تصدیق کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک بھی مومن اور اور لوگوں کے نزدیک بھی ۔ اور جو صرف زبان سے تصدیق کرتے ہیں اور دل سے تکذیب وہ اللہ کے نزدیک کافر اور لوگوں کے نزدیک مومن ہیںاسلئے کہ لوگ نہیںجانتے کہ دل میں کیا ہے ۔ اُنکو چاہئے کہ اقرار شہادت کی وجہ سے اُنکو مومن کہیں اور دل کا حال معلوم کرنیکی کوشش نہ کریں اور جولوگ دل سے تصدیق کرتے ہیں اور بلحاظ تقیہ زبان سے تکذیب کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک مومن ہیں اور نا واقف شخص کے پاس کافر انتہیٰ ۔چونکہ کتاب مذکور چھب گئی ہے اسلئے عبارت اُسکی نقل نہیں کی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی کو مسلمان کہنے کے لئے اُسکے دل کی کیفیت معلوم ہونا ضرورنہیں اگر اسکی ضرورت ہوتی تو کسی کو مسلمان کہنا درست نہ ہوتا جس سے مسلمانوں میں مناکرت بلکہ مخالفت پیداہوجاتی اِس لئے شریعت نے حکم دیدیا کہ جس سے اسلام کے اقوال و افعال صادر ہو اُسکو مسلمان سمجھ لو۔ اور اُس سے مخالفانہ برتائو نہ کرو ۔حق تعالیٰ فرماتاہے ولا تقولو المن القی الیکم السلام لست مومنا یعنے اگر کوئی تم پر سلام کرے تو یہ مت کہو تو مومن نہیں اسی طرح آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی توحید و رسالت کی گواہی دے اور نمازوروزہ وغیرہ اداکرے تو اُسکے جان ومال سے کوئی تعرض نہیں ۔الغرض بقرینہ ظاہر حال اسلام وایمان باطنی پر حکم کیا جائے گا۔اسی طرح اگر کفر پر قرینہ ہوتو بحسب ظاہر کفر کا حکم کیا جائیگا چنانچہ ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے الایمان والنفاق اصلہ فی القلب وانماالذی یظھرمن القول والفعل دلیل علیہ فاذاظھر شئی یر تب علیہالحکم۔ شرح مقاصد وغیرہ میں لکھا ہے کہ بعض معاصی کو شارع نے عدم تصدیق کے امارات و علامات قرار دئے ہیں جیسے نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے بُغض رکھنا قرآن شریف کو نجاست میں پھینکدینا بت کو سجدہ کرنا وغیرہ امور انتہیٰ۔ اِس سے اہل اسلام سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ قاعدہ قراردے کہ جو امور قرآن و حدیث میں خلاف عقل ہوں اُن میں تاویل کرنے کی ضرورت ہے جسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ نہ مانے جائیں تو ایسے عقیدہ والے کو کیا سمجھنا چاہئے۔
السیف المسلول میں امام تقی الدین نے لکھا ہے کہ اجماع اس امر پر ہوگیا ہے کہ جو مسلمان آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص شان کرے یا گالی دے اُسکا قتل واجب ہے ۔ اور لکھا ہے کہ حضرت عمر نے صاف حکم دیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو یا کسی نبی کو گالی دے اُسکو قتل کرڈالو اور امام شافعی ؒ کا قول ہے کہ جو شخص کسی آیت قرآنی کے ساتھ ہزل اور تمسخر کرے وہ کافر ہوجاتا ہے با عتبار ظاہر ایسے شخص کی تکفیر کا حکم دیا جائے۔
ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے’’ قال اصحابنا التعر یض بسب اللہ وسب رسولہصلی اللہ علیہ وسلم ردۃ وھوموجب للقتل۔وایضاًقولہ قال مالک فی روایۃالمدنیین عنہ من سب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اوشتمہ اور عابہ اوتنقصہ قتل مسلماکان اوکا فراً۔ وایضاً قولہ وان یز عم ان زھذہ لم یکن قصد ولوقدرعلی الطیبات لا کلھا واشباہ ھذاقال فھذاالباب کلہ مماعد العلماء سبا وتنقیصا یجب قتل قا ئلہ ولم یختلف فی ذالک متقدمھم متاخرھم وایضاً قولہ ان السَّاب ان کان مسلماَفانہ یکفرویقتل بغیر خلاف وھومذھب الا ئمۃ الاربع وغیر ھم وقدتقدم ممن حکے الاجماع علی ذٰلک اسحاق بن راھویہوغیرہ ‘‘ماحصل اِن روایات کا یہ ہے کہ حق تعالیٰ اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے اگرچہ تنقیص شان کنایتہً ہو۔ اگر کوئی کہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کا زہد قصداً نہ تھا۔ اگر عمدہ چیز یں ملتیں تو آپ کھاتے ایسے شخص کا بھی قتل واجب ہے۔
ان روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر چند کوئی اسلام ظاہر کرے مگر جب قرائن مذکور اس میں پائے جائیں تو وہ کافر سمجھا جائیگا اور اسکا یہ کہنا کہ میں مسلمان ہو ں یا شعار اسلام اُس سے ظاہر ہوں کچھ مفید نہ ہوگا ۔یہ صرف ایک آیت کے انکار کا نتیجہ تھا کہ حق تعالے فرماتا ہے وتغرر وہ وتو قروہ یعنی نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کرو، اب خیال کیا جائے کہ جس کسی کو خدائے تعالیٰ کی قدرت میں کلام ہوکہ وہ عادکے سوا کچھ نہیں کرسکتا ۔اِس قاعدہ سے کتنے آیات قرآنی کا انکار ہواجاتا ہے کل معجزات انبیائے سابق کا۔ حشر ونشر کا ۔جنت ودوزخ کا۔جن وملائکہ وغیرہ جن کا وجود قرآن شریف سے ثابت ہے جب قرآن کا یہ حال ہوتو حدیث کو کون پوچھے ۔اور جب خداورسولصلی اللہ علیہ وسلم پر تہذیبی پیرایہ میں جھوٹ کا الزام لگایاجائے تو صحابہ اور علماء امت وغیر ہم کس قطار و شمار میں پھر باوجود ان تمام انکاروں کے معلوم نہیں کہ اسلام کس چیز کانام رکھا جاتا ہے ۔ ھدانا اللہ وایاھم سواء السبیل ۔
اس زمانہ میں مسلمانوں کو اِس قدر ضرور ہے کہ نہ ایسی تفسیریں دیکھیں نہ اس قسم کی تفسیریں سنیں جس سے شک پیدا ہو۔ بلکہ دعا کریںکہ خدائے تعالیٰ ہمکو اور انکو ہدایت کرے اور وہ ایمان واسلام عطا فرمادے جو باعث نجات اخروی ہے وماتوفیقنا الاباللہ۔
یہ بات اوپر معلوم ہوئی کہ ایمان نہ معمولی تصدیق کا نام ہے نہ معرفت کا بلکہ جبتک دس چیزیں نہ ہوں ایمان کا وجود نہیں ہوسکتا ۔ اگرچہ یہ کام نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے مگر خدائے تعالیٰ کی طرف سے شرح صدرہوجاتا ہے تو پھر کوئی دشواری باقی نہیں رہتی ۔چنانچہ بخاری ومسلم کی اِس حدیث شریف سے ظاہر ہے جسکا ماحصل یہ ہے کہ غزوہ احد میں ایک اعرابی بطور تفریح اِس سادگی سے معرکہ جنگ میں آیا کہ ہاتھ میں کھجوریں ہیں اور بلاتکلف کھاتے ہوئے تماشا دیکھ رہا تھا کہ یکبارگی دوسرا خیال پیداہوا جو باعث ہدایت تھا چنانچہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں آپکی طرف سے لڑوں تو میرا مقام کہاں ہوگا آپ نے فرمایا جنت میں یہ سنتے ہی کھجوریں پھینک کفار کے لشکر پر حملہ آور ہوا اور داد جوانمردی دیکر مقصود کو پہونچ گیا دیکھئے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خبردی کہ اگر ہماری طرف سے لڑکر مروگے تو جنت میں داخل ہوجائوگے نہ کوئی اُنکو معجزہ دکھلانے کی ضرورت ہوئی نہ مناظرہ کی نوبت آئی صرف ایک ہی اشارہ نے وہ کام کیا کہ فوراً اُنہوں نے یہ مان لیا کہ عالم کا ایک خالق ہے جس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر بھیجا ہے وہ جو کچھ کہتے ہیں صحیح اور اس قابل ہے کہ اگر اُسپر عمل کیا جائے تو سعادت ابدی حاصل ہوتی ہے اور وہ مقام ملتا ہے جو صرف راحت اور عیش کیلئے بنایاگیا ہے گو اُنہوں نے زبان سے کچھ بھی نہیں کہا مگر یہ سب امور اور تصدیقیں اُنکی ایک تصدیق میں شامل ہیں ۔ پھر صرف تصدیق ہی نہیں بلکہ طور پر یہ دکھلادیا کہ ایمان والے خدا اور رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد نہ اپنی محبوبہ کے بیوہ ہونیکی پرواکرتے ہیں نہ اولاد کے یتیم ہونیکا خیال بلکہ پروانہ کی طرح جان کو فداکردیتے ہیں ۔بخلاف اسکے بہت سے لوگ عمر بھر معجزے دیکھا کئے اور پوری معرفت حاصل تھی کہ حضرت اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہیں پھر اُسپر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے تر غیبیں بھی دیں کذافی تفسیر ابن جریر وغیرہ ۔اور فرمایا کہ اگر تم ایک کلمہ کہدوگے یعنی لااللہ الا للہ تو تمام عرب تمہارا مطیع ومنقاد ہوجائیگا ۔ اور عجم خراج وجزیہ تمہیں دینگے ۔اور یہ یقین بھی تھا کہ حضرت ﷺکبھی جھوٹ نہیں کہتے باوجود اسکے اُس ایک کلمہ کی تصدیق ان سے نہ ہوسکی اور کہنے لگے اجعل الا لھۃ الھاواحداان ھذالشئی عجاب یعنی تمام معبودوں کو ایک بنادیا یہ عجب بات ہے ۔اونکی درایت گویا یہ کہتی کہ اتنے معبودوں سے تو کام چل ہی نہیں سکتا پھر ایک معبود اس تمام عالم کا کام کیونکر چلاسکے اور جن لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ تو کہتے ہی نہیں اور انکے دعویٰ رسالت پر معجزات بھی گواہی دے رہے ہیں تو اُنکی تصدیق کرنے میں کیا تامل ۔چنانچہ انہوں نے اُس ایک کلمہ کی کیا اس ایک قسم کی کل باتوں کی تصدیق کرلی اور آپکے قول کے مقابلہ میں عقل کی ایک نہ مانی اور یہی گروہ یوماً فیوماً ترقی کرنے لگا پھر جب اہل ایمان کی ترقی دکھلاکر اُن پابندانِ عقل ودرایت سے کہا کہ تم کیوں نہیں ایمان لاتے تو اُسکے جواب میں اُنہوں نے کہا وہ لوگ بیوقوف ہیں جو خلاف عقل باتوں کا یقین کرلیتے ہیں کیا ہم بھی اُنکی طرح بیوقوف بنیں چنانچہ قرآن شریف سے اُسکی تصدیق ہوتی ہے کماقال تعالیٰ وَاذاقیل لھم امنو اکما امن الناس قالو اانومن کما امن السقہا غرض اونکی درایت نے اُنکو ایما ن سے روکا ۔اور اُس جماعت نے جواُن پابندان درایت کی دانست میں سفیہ اور احمق تھی اس درجہ ترقی کی کہ اُن عقلا کو اپنا قول واپس لینا پڑا چنانچہ سوائے معدودے چند متعصب لوگوں کے جو ہٹ دھرمی سے اپنی بات پراڑے رہے ،کل عقلا گروہ اہل ایمان میں شامل ہوگئے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ فوج فوج ازخود آکر ایمان لانے لگے ۔کما قال تعالیٰ ورأیت الناس ید خلون فی دین اللہ افوا جاًمگر ہر زمانے کے متعصب کفار مسلمانوں پر یہ الزا م لگاتے رہے ہ یہ لوگ خلاف عقل باتوں کو مانتے ہیں ۔ اور ایک نہ ایک جماعت اہل اسلام کی اس الزام کے اُٹھا نیکی کوشش میں لگی رہی چنانچہ معتزلہ نے فلسفہ سے مددلیکر بہت سی آیتوں کی تاویل کرڈالی اور اُنکو عقل کے مطابق کردیا اور قرآن کو ایسا بنا دیا جیسے کافیہ کی شرح مذکور پھر ہر کہ آمدبراں مزید کردکا مضمون صادق آگیا یہاں تک کہ اب تویہ نوبت پہنچی ہے کہ آجکل کے اعتقادات وعملیات کو قرآن وحدیث سے ملاکر دیکھیں تو ہر گز نہ معلوم ہوگا کہ اُن سے کیا تعلق ہے ۔ اور قرآن تو ایسا بنالیا گیا کہ اب اسپر ایمان لانیکی ضرورت ہی نہ رہی کیونکہ اُسمیں ایسی بات ہی نہ رکھی جس کے ماننے میں معمولی عقل کوترددہواور ایمان کی ضرورت پڑے ۔مثلاً الم ترکیف میں جو مذکور ہے کہ پرندوں نے بحکم خدائے تعالیٰ ایک لشکر عظیم کو ہلاک کرڈالا جسکے ماننے میں عقل کا امتحان ہواتھا کہ خداورسولصلی اللہ علیہ وسلم کی بات قابل قبول سمجھتی ہے یا نہیں اور عقل کو مجبورومقور کرکے اوس پر ایمان لانیکی ضرورت سمجھی جاتی تھی اور اب اُسکی ضرورت ہی نہ رہی ۔اسلئے اس کا یہ مطلب بنالیا کہ کنکر پتھر یا اور کوئی بیماری لشکر میں پھیلی تھی جس سے لوگ ہلاک ہوگئے نہ وہاں پرندے تھے نہ کنکریاں سرے سے وہ قصہ ہی غلط ہے جس پر قدیم زمانہ اسلام سے آجتک لوگ ایمان لاتے رہے ۔اگر اُن سے کہا جائے کہ جسطرح تیرا سو سال سے لوگ ایمان لارہے ہیں تم بھی ایمان لائو تو صاف کہا جائیگا انومن کما آمن السفھاء یعنی کیا پُرانی فیشن والوں کی طرح ہم خلاف عقل باتوں کا یقین کرینگے ہرگز نہیں چونکہ آجکل کے محاورہ میں پرانی فیشن والے احمق سمجھے جاتے ہیں اسلئے سفہا کے ترجمہ میں وہ لفظ لکھا گیا ہے ۔ ہر چند اس لفظ کا صدمہ گالی سے کم نہیں مگر ایک جہت سے ہم لوگوں کو خوش بھی ہونا چاہئے اسلئے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو صحابہ علیہم الرضوان کو عقلانے جو لقب دیا تھا وہ لقب آج ہمکو دیا جارہا ہے اور غالباً صحابہ بھی اُس لقب سے ناراض ہوئے ہونگے اسلئے کہ سفہاء کہنے والو ں کی نسبت حق تعالیٰ نے فرمایا الا انھم ھم السفھا ء ولکن لا یعلمون یعنے یادرہے کہ جواہل ایمان کوسفہا ء کہتے ہیں وہی سفہاء ہیں لیکن وہ جانتے نہیں ۔دیکھئے اہل ایمان کی کیسی فضیلت ہے کہ خود حق تعالیٰ نے اُنکو تشفی کیلئے فرمایا کہ جو لوگ تم کو بے وقوف کہتے ہیں دراصل وہی بیوقوف ہیں ۔ظاہر اً اس تشفی دینے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی کی فطرت میں داخل ہے کہ سفیہ اور احمق کہنے سے بڑارنج ہوتا ہے ۔اعلیٰ درجہ کے احمق بلکہ کم عمر لڑکے کو بھی اگر کہا جائے کہ سفیہ اور احمق ہے تو اسکو رنج ہوتا ہے اور حتی الوسع وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ لفظ اپنی نسبت نہ کہا جائے چنانچہ یہ امر مشاہدہے کہ پر انی فیشن کاالزام نہ آنیکی غرض سے کیسی کیسی مصیبتیں اُٹھائی جاتی ہیں اگر چہ نوخیز مشائخین وعلماء وغیرہم کا دل گوارا نہیں کرتا کہ اپنا آبائی لباس اور وضع ترک کریں مگر اُس ڈرکے مارے کہ کوئی یہ نہ کہدے کہ پرانی فیشن والے ہیں مجبوراً لباس بدل دیتے ہیں اور صرف لباس ہی نہیںبلکہ ڈاڑھی کو بھی خیر باد کہدیتے ہیں اور اگر کسی ضرورت کے لحاظ سے ڈارھی رکھ بھی لی تو خاص قسم کی قطع و برید کرکے تاکہ پرانے لوگ سمجھ جائیں کہ کسی طرح منہ پر ڈاڑھی تو ہے اور اُسی پر قناعت کرلیںاور نئی روشنی کے لوگ بھی چوں چرانہ کرسکیں اسلئے کہ وہ فرنچ فیشن ہے جسکی تقلید بھی روشن خیالی سمجھی جاتی ہے غرضکہ سفاہت کا الزام اہل ایمان کو سخت صدمہ ہونیوالا تھا جس سے احتمال تھا کہ وہ شکست خاطر ہوکر الزام اٹھا نیکی فکر کرینگے اسلئے حق تعالیٰ نے اُنکے حوصلے بڑہانے کیلئے فرمایا کہ تم سفہا ء نہیں ہو بلکہ وہی سفہا ء ہیں جو تمکو سفیہ کہتے ہیں اِس سے اہل ایمان کو کمال درجہ کا افتخار حاصل ہوگیا کہ سفاہت کو حق تعالیٰ نے اُنہی لوگوں میں منحصر کردیا جو ہمیں سفہا ء کہا کرتے ہیں جیسا کہ انہم ہم السفہاء کی ترکیب سے ظاہر ہے جس سے یہ ثابت ہواکہ حق تعالیٰ کے نزدیک ہم عقلا ہیں اِسی وجہ سے فاتقون یا اولی االباب کا خطاب ہواکیونکہ خداسے ڈرنیوالے وہی لوگ ہیں جنکا ایمان کامل ہے ورنہ خدا کا خوف تو درکنارجن لوگو پر خوف الہٓی غالب ہوتا ہے اُن سے اِس زمانہ میں تمسخر کیا جاتا ہے ۔اور اُن پر بہتان اڑائے جاتے ہیں جس طرح آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اہل ایمان کے ساتھ تمسخر کیا جاتا تھا جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے زین للذین کفرواالحیو ۃالدنیا ویسخرون من الذین امنواوالذین اتقوافو قھم یوم القیامۃ یعنے کافروں کو زندگی دنیا کی اچھی معلوم ہوتی ہے اور وہ ایمان والوں کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں اور جو لوگ متقی ہیں قیامت کے روز اُنکے اوپر ہوںگے یعنی جنت میں ۔اس سے معلوم ہواکہ اہل ایمان کیساتھ تمسخر کرنا عقلا کا لازمہ ہے اور ہونا بھی چاہئے اسلئے کہ جب اہل ایمان عقلا کے دانست میں سفہا اور بیوقوف ٹہرے تو بیوقوفوں کیساتھ تمسخرکرنیکو خواہ مخواہ آدمی کا جی چاہتاہے جس سے ایک قسم کا سرور ہوتا ہے اِس موقع میں اہل ایمان کو فراخ حوصلگی سے کام لیکر یہ سمجھنا چاہئے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہم بحسب وعدہ الٓہی آخرت میں دایمی عیش و عشرت اور فرحت وسرور میں رہیں گے اگر وہ لوگ چندروزہ دنیا میں تمسخر سے اپنا دل بہلالیں اور سرور حاصل کریں تو بے موقع نہوگا کیونکہ آخروہ بھی بندہ خداہیں کم سے کم اتنا تو چاہئے کہ اِس عالم میں ہر طرح سے سرور حاصل کریں۔
اب ہم اپنی تقریر کو اِس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ اپنے حبیب کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے جمیع اہل اسلام کو ایمان کامل عطا فرما کے دارین فائزالمرام رکھے آمین یا رب العالمین وَصَلیَ اللّٰہ تعالی علی خیرخلقہ سیدنا محمد والہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔

تمت بالخیر

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!