اسلامواقعات

اپنے مدفن کی خبر

اپنے مدفن کی خبر

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ امیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے اس حصہ میں تشریف لے گئے جو "حش کوکب”کہلاتا ہے توآپ نے وہاں کھڑے ہوکر ایک جگہ پر یہ فرمایا کہ عنقریب یہاں ایک مرد صالح دفن کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کے بعد ہی آپ کی شہادت ہوگئی ا ورباغیوں نے آپ کے جنازہ مبارکہ کے ساتھ اس قدر ہلڑبازی کی کہ آپ کونہ روضہ منورہ کے قریب دفن کیا جاسکا نہ جنت البقیع کے اس حصہ میں مدفون کیے جاسکے جو کبارصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا قبرستان تھا بلکہ سب سے دورالگ تھلگ "حش کوکب”میں آپ سپردِ خا ک کئے گئے جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں امیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک بنے گی کیونکہ اس وقت تک وہاں کوئی قبر تھی ہی نہیں ۔(2) (ازالۃ الخفاع،مقصد۲،ص۲۲۷)

تبصرہ

اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو ان باتوں کا بھی علم عطافرمادیتاہے کہ وہ کب اورکہاں وفات پائیں گے اورکس جگہ انکی قبر بنے گی۔ چنانچہ سینکڑوں اولیاء کرام کے تذکروں میں لکھاہوا ہے کہ ان اللہ والوں نے قبل از وقت لوگوں کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ کب؟ اورکہاں ؟اورکس جگہ وفات پاکر مدفون ہوں گے ۔

ضروری انتباہ

اس موقع پر بعض کج فہم اوربدعقیدہ لوگ عوام کو بہکاتے رہتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے : وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ م بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ(1) یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس کو نہیں جانتا کہ وہ کونسی زمین میں مرے گا۔لہٰذا اولیاء کرام کے سب قصے غلط ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت حق اور برحق ہے اورہر مؤمن کا اس پر ایمان ہے مگر اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کوئی شخص اپنی عقل وفہم سے اس بات کو نہیں جان سکتا کہ وہ کب اورکہاںمرے گا۔لیکن اگراللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوںحضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کوبذریعہ وحی اوراولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو بطریق کشف وکرامت ان چیزوں کا علم عطا فرمادے تو وہ بھی یہ جان لیتے ہیں کب اورکہاں ان کا انتقال ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اس بات کو جانتا ہی ہے کہ کون کہاں مرے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے بتادینے سے خاصان خدابھی اس بات کو جان لیتے ہیں کہ کون کہاں مرے گا ۔مگر کہاں اللہ تعالیٰ کا علم اورکہاں بندوں کا علم ،اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ، ذاتی اور قدیم ہے اوربندوں کا علم عطائی اورحادث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ، ابدی اورغیر محدود ہے اوربندوں کا علم فانی اورمحدود ہے ۔
اب یہ مسئلہ نہایت ہی صفائی کے ساتھ واضح ہوگیا کہ قرآنی ارشاد کا مفاد کہ
اللہ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں جانتا کہ کون کب اورکہاں مرے گا؟اوراہل حق کا یہ عقیدہ کہ اولیاء کرام بھی جانتے ہیں کہ کون کب اورکہاں مرے گا؟یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں اوران دونوں باتوں میں ہرگزہرگزکوئی تعارض نہیں۔کیونکہ جہاں یہ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کون کب اورکہاں مرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر خداکے بتائے کوئی نہیں جانتا اورجہاں یہ کہا گیا کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام واولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم جانتے ہیں کہ کون کب اورکہاں مرے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام و اولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم خدا عزوجل کے بتا دینے سے جان لیتے ہیں۔ اب ناظرین کرام انصاف فرمائیں کہ ان دونوں باتوں میں کونسا تعارض اور ٹکراؤ ہے ؟دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ پرسوفیصدی صحیح اوردرست ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!