اَ سراء و معراج شریف
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَخص خصائص اور اَظہر معجزات میں سے یہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اَسراء و معراج کی فضیلت سے خاص کیا اور کسی دوسرے نبی کو اس فضیلت سے مُشَرَّف و مُکَرَّم نہیں فرمایا اور جہاں تک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہنچایا کسی کو نہیں پہنچایا اور جو آیات و عجائبات آپ کو دکھائے وہ کسی کو نہیں دکھائے۔ ؎
بدیدہ آنچہ از دیدن بروں بود مپرس از ما ز کیفیت کہ چوں بود
بلکہ اگر تما م انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے تمام فضائل یکجا جمع کیے جائیں تو ان کامجموعہ ہمارے آقائے
نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اس ایک فضیلت (یعنی معراج اور اس میں جو اَنوار و اَسرار اور حُب و قرب آپ کو حاصل ہوا) کے برابر نہ ہوگا۔
اَسراء سے مراد خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک رات کو جاناہے اور معراج بیت المقدس سے آسمانوں کے اوپر تشریف لے جانے کا نام ہے۔ اَسراء قرآن کریم سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے :
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (۱) (بنی اسرائیل، شروع)
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جسکے گرد ہم نے برکتیں دی ہیں تاکہ ہم اسکو اپنے چند عجائبات اور نشانیاں دکھلائیں بیشک اللّٰہ ہے سننے والا دیکھنے والا۔ (1 )
یہ آیت شریف اَسراء کے ثبوت پر نَص ہے (2 ) اور اس کااَخیر حصہ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا (3 ) معراج شریف کی طرف اشارہ ہے یعنی مسجد اَقصیٰ تک لے گیا تاکہ وہاں سے آسمانوں پر لے جا کر عجائب ملکوت و ربوبیت دکھلائے کیونکہ آیات کا دکھانا اور غایت کرامات و معجزات کا ظہور آسمانوں پر ہے صرف ان امور پر مقصور ( 4) نہیں جو مسجد اَقصیٰ میں ظاہر ہوئے۔ مسجد اَقصیٰ تک لے جانا تواس کا مبدأ ہے اور فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ (۹) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ (۱۰) ( 5) (سورہ نجم) ( 6) میں بنابر تحقیق منتہائے معراج کا ذکر ہے۔
صحیح یہ ہے کہ اَسراء و معراج شریف ہر دو جسد مبارک کے ساتھ حالت بیداری میں ایک ہی رات وقوع میں آئے۔ جمہور صحابہ و تابعین ومحدثین و فقہاء و متکلمین وصوفیائے کرام کا یہی مذہب ہے اور یہی قرآنِ مجید سے ثابت ہے
کیونکہ آیۂ کریمہ سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ( 1) میں لفظ عبد موجود ہے اور عبد مجموعہ ٔ جسم ورُوح کو کہتے ہیں ۔ قرآن شریف میں جہاں کہیں کسی انسان کو کلمہ ٔ عبد سے تعبیرکیا ہے وہاں روح اور جسم دونوں مراد ہیں ۔ مثلاً سورۂ مریم میں
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّاۖۚ (۲)
یہ ذکر اس رحمت کاہے جو پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔ ( 2)
یہاں عبدسے یقیناً حضر ت زکریا مع جسم و رو ح کے مراد ہیں ۔سورۂ جن میں ہے:
وَّ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ یَدْعُوْهُ كَادُوْا یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِ لِبَدًا (۱۹) ﮒ
جب اللّٰہ کے بندے (محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) عبادت کے واسطے کھڑے ہوئے تو جن ان پر ٹوٹے پڑتے ہیں (تاکہ قرآن شریف سنیں ) ( 3)
اسی طرح آیت زیر بحث میں عبد سے مراد جسمِ اَقدس مع روحِ اَنور ہے۔ پس معراج جسمانی کا ثبوت اس آیت سے روزِ روشن کی طر ح ثابت ہے اوراحادیث صحیحہ کثیرہ سے بھی جو حد تواترکو پہنچنے والی ہیں یہی ثابت ہوتاہے۔ فی الواقع اگر خواب میں ہوتا تو کفار انکا ر نہ کرتے اور بعض ضعیف مومن فتنہ میں نہ پڑتے۔ کیونکہ خواب میں تو اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہم ایک لحظہ میں مشرق میں ہیں دوسرے لحظہ میں ہزاروں کوسوں پر مغرب میں ہیں ۔ فلاسفہ اور دیگر عقل کے مقلد جو اعتراضات اس پر کرتے ہیں ان تمام کا جواب اسرٰی بعبدہٖ (اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا) سے ملتا ہے کیونکہ لے جانے والا تو خدا ہے جو قادرِ مطلق اور جمیع نقائص سے پاک ہے۔ پس اگروہ اپنے کامل بندے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ سیدولد آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جسم اَطہر کے ساتھ حالت بیداری میں رات کے ایک حصے میں خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک اور بیت المقدس سے آسمانوں کے اوپر جہاں تک چاہا لے گیا تو ا س میں کونسا اِستحالہ لازم آتا ہے۔ وما ذٰ لک علی اللّٰہ بعزیز
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیامسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۱) ۔ علمیہ
2 – یعنی صراحتاً دلالت کر رہی ہے۔
3 – ترجمۂکنزالایمان:کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۱) ۔ علمیہ
4 – محدود۔
5 – ترجمہ: پھر رہ گیا فرق دو کمان کا میانہ یا اس سے بھی نزدیک پھر حکم بھیجا اللّٰہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا۔۱۲منہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔
(پ۲۷، النجم:۹۔۱۰) ۔ علمیہ