اَصحابِ صُفَّہ
پا یا نِ مسجد (4) میں ایک سائبان تھا جو صُفَّہ کہلا تا تھا اور ان فقر اء و مساکین صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے لئے تھاجو مال ومَنال اور اَہل وعِیال نہ رکھتے تھے۔ ان ہی کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ (کہف ، ع۴)
اور روک رکھ جان اپنی ساتھ ان لوگوں کے کہ پکار تے ہیں پروردگار اپنے کو صبح کو اور شام کو چاہتے ہیں رضا مندی اس کی ۔ (1)
ان کی تعداد میں موت یا سفر یا تزوُّج کے سبب سے کمی بیشی ہو تی رہتی تھی۔ بعض وقت ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی تھی۔ باہر سے مدینہ میں اگر کوئی آتا اور شہر میں اس کا کوئی شریف جان پہچان نہ ہوتا تو وہ بھی صُفَّہ میں اتراکر تا تھا۔ حافظ ابو نعیم نے حِلْیَۃُ الا َولیاء میں سے سوسے کچھ اوپر اہل صُفَّہ کے نام گنائے ہیں ۔جن میں حضرات ابو ذَر غفاری، عَمَّار بن یاسر، سلمان فارسی، صُہَیب رُومی، بلال حبشی، ابو ہُرَیرَہ، خَبَّاب بن الا َ رت، حُذَیفہ بن الیَمَان، ابو سعید خُدْرِی، بَشِیر بن الخَصَاصِیہ، ابو مُوَیْہَبَہ (مولیٰ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) وغیرہم مشاہیرمیں سے تھے۔رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین۔ (2)
اہل صُفَّہ پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بڑی نظر عنایت تھی۔ ایک دفعہ غنیمت میں کنیز یں آئی ہوئی تھیں ، اس موقع کو غنیمت سمجھ کر آپ کی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت علی المر تضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم دونوں خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے اور ایک خادمہ کے لئے درخواست کی۔ آپ نے یوں جواب دیا: ’’ اللّٰہکی قسم! یہ نہیں ہونے کا کہ تم کو خادمہ دوں اور اہل صُفَّہ بھوکے مریں ۔ ان کے خرچ کے لئے میرے پاس کچھ نہیں میں ان اسیرانِ جنگ کو بیچ کر ان کی قیمت اہل صُفَّہ پر خرچ کر وں گا۔ (