ان کے طفیل بارش ہوئی
امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جب شدید قحط پڑگیا اور خشک سالی کی مصیبت سے دنیا ئے عرب بدحالی میں مبتلا ہوگئی تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز استسقاء کے لیے مدینہ منورہ سے باہر میدان میں تشریف لے گئے اور
اس موقع پر ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجتماع ہوا ۔ اس بھرے مجمع میں دعا کے وقت حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بازو تھام کرانہیں اٹھایا اور انکو اپنے آگے کھڑا کر کے اس طرح دعا مانگی:
”یا اللہ ! عزوجل پہلے جب ہم لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تھے تو تیرے نبی کو وسیلہ بناکر بارش کی دعائیں مانگتے تھے اورتو ہم کو بارش عطافرماتا تھا مگر آج ہم تیرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناکر دعا مانگتے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش عطافرمادے۔”
پھر جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بارش کے ليے دعامانگی تو ناگہاں اسی وقت اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ گھٹنوں گھٹنوں تک پانی میں چلتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آئے اورلوگ جو ش مسرت اورجذبہ عقیدت سے آپ کی چادر مبارک کو چومنے لگے اورکچھ لوگ آپ کے جسم مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے چنانچہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو دربار نبوت کے شاعر تھے اس واقعہ کو اپنے اشعار میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے ؎
سَئَلَ الْاِمَامُ وَقَدْ تَتَابَعَ جَدْبُنَا
فَسَقَی الْغَمَامُ بِغُرَّۃِ الْعَبَّاسٖ
اَحْیَی الْاِلٰہُ بِہِ الْبِلَادَ فَاَصْبَحَتْ
مُخْضَرَّۃَ الْاَجْنَابِ بَعْدَ الْیَاسٖ
(یعنی امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حالت میں دعا مانگی کہ لگاتار کئی سال سے قحط پڑا ہوا تھا تو بدلی نے حضرت عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی روشن پیشانی کے طفیل میں سب کو سیراب کردیا۔معبود برحق نے اس بارش سے تمام شہروں کو زندگی عطافرمائی اور ناامیدی کے بعد
تمام شہروں کے اطراف ہرے بھرے ہوگئے۔)(1)
(بخاری ،ج۱،ص۵۲۶وحجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۵و دلائل النبوۃ، ج۳،ص۲۰۶)