اعمال

امامت کے آداب

امامت کے آداب

امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو نماز کے فرائض، سنتیں اور دیگر مسائل زیادہ جانتا ہو، ان چیزوں کی معلومات رکھتا ہو جو اُسے نماز میں پیش آتی ہیں اور جن سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا امام نہ بنے جو اسے ناپسندکرتے ہوں، اپنے قریب اہلِ علم کو کھڑا کرے اور انہیں حکم دے کہ وہ لوگوں کی صفیں درست کریں، لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے ،نہ لمبی لمبی سورتیں پڑھے ،نہ رکوع وسجودکی تسبیحات میں اتنی زیادتی کرے کہ لوگ کبیدہ خاطر ہو جائیں (یعنی اُکتا جائیں)، اورنہ ہی اتنی تخفیف (یعنی کمی) کرے کہ نمازکامل ہی نہ ہو،بلکہ لوگوں میں کمزور وضعیف شخص کی قدرت وطاقت کا خیال رکھتے ہوئے نماز پڑھائے، رکوع وسجودمیں نرمی کرے(یعنی کچھ دیر ٹھہرا رہے) تاکہ لوگوں کو اطمینان ہو جائے، سورۂ فاتحہ پڑھنے سے پہلے اور بعد اور قراء َت سے فارغ ہونے کے بعدمعمولی سا وقفہ کرے (۱)، امام رکوع میں ہو اور اپنے پیچھے کسی ایسے شخص کو آتا ہوا محسوس کرے جسے جانتا نہ ہو تو رکوع میں اس کا انتظار کرے تاکہ وہ نماز میں شامل ہو سکے، نماز سے پہلے اپنے پڑوسیوں میں سے کسی کو نہ پائے توجب تک نمازکا وقت نکلنے کا خوف نہ ہو اس کا انتظار کرے،دونوں سلاموں کے مابین تھوڑا سا وقفہ کرتے ہوئے فرق کرے۔ جب نماز سے فارغ ہو تو اللہ عزَّوَجَلَّ کے پردہ پوشی فرمانے اوراس کے احسان پر نظررکھے اور بکثرت اپنے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ کاشکرادا کرتا رہے، اورہرحال میں ہمیشہ اس کا ذکر کرتا رہے۔

1۔۔۔۔۔۔یادرہے کہ وقفہ اتناطویل نہ ہوکہ تین بار”سبحان اللہ ”کہنے کی مقدارگزرجائے ورنہ ترک واجب کے سبب سجدہ سہولازم ہوگا۔
(ماخوزازبہارِشریعت ،ج۱،حصہ،۳،ص۵۱۹۔مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،باب المدینہ کراچی)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!