اعجاز ا لقرآن کا بیان
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے دیگر انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اپنے اپنے زمانے میں معجزات دکھائے ، مگر ان معجزات کا وجود صرف ان کی حیاتِ دنیوی تک رہا۔ علاوہ ازیں ان کے معجزات عموماً حِسِّی تھے جن کو فقط حاضرین وقت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مثلاً عصائے موسوی کو اگر دیکھا تو اس وقت کے حاضرین نے، ناقہ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا اگر مشاہدہ کیا تو اس وقت کے موجودین نے اور مَائدہ (3 ) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا
اگر ملاحظہ کیا تو حاظرین وقت نے، مگر حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شریعت قیامت تک باقی رہے گی اور ہر زمانے میں ہر صاحب ِعقل ِسلیم اس کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ سکے گا۔ چنانچہ جب کفار نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے نبیوں کے سے حِسِّی معجزے طلب کیے تو ان کے جواب میں اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْؕ- (عنکبوت ، ع ۵)
کیا ان کو بس نہیں کہ ہم نے اتاری تجھ پر کتاب جو ان پر پڑھی جاتی ہے۔ (1 )
مطلب یہ کہ اگر کفارواقعی طالب حق ہیں تو ہم نے تجھے قرآن مجید ایک ایسا معجزہ عطا کیا ہے کہ جس کی موجودگی میں ان معجزوں کی ضرورت نہیں جو اَزروئے تعنت و عناد تجھ ( 2) سے طلب کرتے ہیں ۔ یہ قرآن ہر مکان (3 ) و ہر زمان میں منکرین پر پڑھا جاتا ہے اور پڑھا جائے گا لہٰذا یہ زندہ معجزہ تا قیامت ان کے ساتھ رہے گااور دوسرے معجزوں کی طرح نہیں کہ وجود میں آئے اور جاتے رہے، یا ایک مکان میں ہوئے اور دوسرے میں نہ ہوئے۔ اسی مطلب کو امام بوصیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے قصیدہ بُردہ میں یوں ادا کیاہے ؎
دَامَتْ لَدَیْنَا فَفَاقَتْ کُلَّ مُعْجِزَۃٍ مِنَ النَّبِیّٖنَ اِذْ جَاءَ تْ وَ لَمْ تَدُمٖ (4 )
ہیں ہمارے پاس باقی آج تک وہ آیتیں معجزے اور انبیاء کے ہوگئے سب کالعدم (5 )
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت کی سب سے بڑی سب سے اَشرف اور سب سے واضح دلیل یہی قرآنِ مجید ہے۔ وجہ یہ کہ معجزات عموماً اس وحی کے مغائر ہوا کرتے تھے جو کسی نبی پر نازل ہوتی تھی اور وہ نبی اس وحی کی صداقت پر معجزے کو بطورِ شاہد پیش کرتا تھا۔ مگر قرآنِ کریم وحی ہے اور معجزہ بھی اس لئے یہ اپنا شاہد خود آپ ہے اور کسی دوسری دلیل کا محتاج نہیں ۔ ؎
آفتاب آمد دلیل آفتاب گردلیلت بایداز وے رومتاب
حدیث ’’ مَا مِنَ الْاَنْبِیَاء ‘‘ (1 ) کے یہی معنے ہیں (2 ) کیونکہ اس حدیث میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمادیا کہ جب معجزہ نفس وحی ہو تو بوجہ اتحادِ دلیل و مدلول وہ دلالت میں اَوضح و اَقویٰ ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے والے زیادہ ہوتے ہیں اسی واسطے قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہر زمانے میں بکثرت رہے اور رہیں گے۔ (3 ) خلاصہ کلام یہ کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت قرآن مجید پر مبنی ہے۔ چنانچہ خود قرآن مجید میں وارد ہے:
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ (۱) (فرقان، ع۱)
بڑی برکت ہے اس کی جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر کہ ہوجہان والوں کے لئے ڈرانے والا۔ ( 4)
اور قرآن کریم کے وحی الٰہی ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل مغائر کی ضرورت نہیں ( 5) لہٰذا ہم قرآن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وجوہ ذیل سے اس کا معجزہ ہونا ثابت ہے:
اعجاز القرآن کی پہلی وجہ
فصاحت و بلاغت:
وجوہِ اعجاز میں سب سے اعلیٰ اور مقدم قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت ہے جو خارِقِ عادت عرب ہے۔ زمانہ
جاہلیت میں فصاحت و بلاغت میں عرب (1 ) کا وہ پایہ تھا کہ کسی دوسری قوم کو نصیب نہیں ہوا۔ ان کا نام ہی بتا رہا ہے کہ اس فن میں ان کو کس قدر مُزَاوَلت ( 2) تھی۔ مہمات امور میں وہ اس فن کے عجائبات بدا ہۃً ظاہر کیا کرتے تھے۔ محافل و مجالس میں فی البدیہ خطبے پڑھ دیا کرتے تھے اور گھمسان کے معرکوں میں طعن و ضرب کے درمیان رجز پڑھا کرتے تھے اور مطالب ِعالیہ کے حصول میں بھی اپنی سحر بیانی سے کام لیتے تھے۔ اس فن سے وہ بزدل کو دلیر ‘ بخیل کو سخی‘ ناقص کو کامل‘ گمنام کونامور اور مشکل کو آسان کردیتے تھے۔ جسے چاہتے مدح سے شریف اور ہجو سے وَضِیع ( 3) بنا دیتے ۔اور اسی سے کینہ دیرینہ دلوں سے دور کر کے بیگانے کو اپنا بنالیتے۔ انہیں یقین تھا کہ اِقلیم سخن کے مالک اور میدانِ فصاحت وبلاغت کے شہسوار ہم ہی ہیں اور وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ کوئی کلام ہمارے کلام سے سبقت نہیں لے جاسکتا۔
فصاحت و بلاغت کے اس کمال پر ان کی روحانی حالت نہایت ہی گری ہوئی تھی وہ عموماً بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ خانۂ خدا کو انہوں نے بت خانہ بنایا ہوا تھا۔ بعضے آگ کی پرستش کرتے تھے۔ کچھ لوگ ستاروں اور سورج اور چاند کو پوجتے تھے۔ بعضے تشبیہ کے قائل تھے اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور بعض کو خدا کی ہستی ہی سے انکار تھا۔ اوامرونواہی کی انہیں مطلق خبر نہ تھی اور نہ ان کے پاس کوئی الہامی کتاب تھی۔ دین ابراہیمی بجز چند رُسوم کے بالکل مفقود تھا۔ قَساَوَتِ قلب کا یہ عالم تھا کہ بعضے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیتے تھے۔ وہ شب و روز زنا کاری، شراب خوری، قمار بازی اور قتل و غارتگری میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے درمیان جو اہل کتاب موجود تھے ان کی حالت بھی دگرگوں تھی اور ان کی کتابیں بھی مُحرَّف ہوچکی تھیں ۔ ( 4) یہود حضرت عزیر عَلَیْہِ السَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور نصاریٰ تین خدا مانتے تھے اور مسئلۂ کفارہ کی آڑ میں اعمالِ حَسَنہ کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے تھے۔ غرض ملک عرب میں ساری دنیا کے مذاہب باطلہ اور عقائد قبیحہ موجود تھے۔ مشرکین وہاں تھے، آتش پرست، ستارہ پرست، آفتاب پرست، ماہتاب پرست اور درخت پرست وہاں تھے، نصاریٰ وہاں تھے، یہود وہاں تھے، مشبہ و مجسمہ وہاں تھے، تناسخیہ وہاں تھے دہریہ (5 ) وہاں تھے۔
نظر بحالات مذکورہ بالا اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ ایسے مرکز میں خدا کی طرف سے ایک کامل طبیب روحانی ساری دنیا کے لئے مبعوث ہو چنانچہ حسب عادتِ الٰہی ان کے پاس اللّٰہ کا ایک کامل بندہ آیااور ایک کامل کتاب لایا۔ جس میں قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم کے تمام رُوحانی امراض (1 ) کا خدائی نسخہ درج تھا۔
اس طبیب روحانی سے وہ پہلے ہی آشنا تھے کیونکہ وہ اللّٰہ کا پیارا خاتم سلسلہ انبیاء انہیں میں سے تھا۔ انہیں کے درمیان پیدا ہوا اور انہیں کے درمیان پرورش پائی۔ ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک ہی میں تھاکہ والد ماجد نے انتقال فرمایا۔ جب چھ سال کا ہوا تو والدہ ماجدہ نے بھی اس دارِفانی سے رحلت فرمائی۔ بعد ازاں دادا اور چچا یکے بعد دیگرے اس کی پرورش کے متکفل ہوئے۔ اس طرح اس دُرِّیتیم کی تعلیم کا کوئی سامان نہ ہوا نہ ہوسکتا تھا کیونکہ مکہ میں نہ کوئی مدرسہ تھا نہ کتب خانہ اور نہ وطن سے باہر کسی دوسری جگہ جا کر تعلیم پانے کا اتفاق ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو اہل مکہ سے کب پوشیدہ رہ سکتا تھا۔ غرض چالیس سال کی عمر تک وہ بندہ کامل اُمِّیَوں میں اُمی مگر صدق و امانت میں مشہور رہا پھر یکایک استادِ اَزل کی تعلیم سے منصب نبوت پر سرفراز ہوا۔
اس اُمی لقب امین نے جو کتاب اپنی نبوت کے ثبوت میں اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کی وہ انہیں کی زبان میں تھی اور اسی فن میں ان سے معارضہ طلب کیا جس میں وہ نقارۂ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم بجارہے تھے۔ (2 ) اس میں شک نہیں کہ ان میں اَفصح الفُصَحَاء اَبلغ ا لبُلَغَاء مَصَاقع الخطباء اور اشعر الشعراء موجود تھے مگر جب معارضہ کے لئے وہ کتاب پیش کی گئی تو ان کی عقلیں چکراگئیں ۔
اس رحمت عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے باجود قلت اَتباع (3 ) کے کھلے الفاظ میں یوں فرمادیا کہ اگر تمام انس و جن مل کر اس کا معارضہ کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں گے۔ ( بنی اسرائیل، رکوع ۱۰) پھر بطور اِرخاء عِنان (4 ) کہہ دیا کہ سارا نہیں تو ایسی دس سورتیں ہی بنالاؤ۔ ( ہود، ع ۲) پھر اِ تما م حجت کے لئے فرمادیا کہ دس نہیں تو ایسی ایک ہی سورت پیش
کرو۔ (یونس، ع ۴) اسی طرح وہ اللّٰہ کا پیارا، دوجہان میں ہم گنہگاروں کا سہارا مکہ مشرفہ میں لگاتار دس سال کفار سے طلب معارضہ فرماتا رہا۔ پھر جب حکم الٰہی سے ہجرت فرما کر مدینے میں رونق افروز ہوا تو وہاں بھی دس سال ’’ فَأْتُوا بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ ‘‘ سے تحدی کرتا رہااور ساتھ ہی ’’ وَلَن تَفْعَلُوا ‘‘ سے انہیں چونکاتا اور اکسا تا رہا۔
اس عرصۂ دراز میں اس ختم المرسلین نے اسی تحدی ( 1) پر اکتفانہ کیا بلکہ عرب جیسی قوم کو جس کی حمیت جاہلیہ مشہور ہے مجالس میں عَلٰی رُؤُس الاَشْہَاد ( 2) یوں پکار کر فرما دیا کہ تم گمراہ ہو، تمہارے آباء و اجداد گمراہ تھے، تمہارے معبود دوزخ کا ایندھن ہیں ، تمہاری جانیں اور تمہارے مال مسلمانوں کے لئے مباح ہیں ۔ بایں ہمہ (3 ) انہوں نے معارضہ سے پہلو تہی کی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اسلام کی شوکت روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ ان کے شہر اسلام کے قبضے میں آرہے تھے ان کی اولاد کو گرفتار کرکے غلام بنایا جارہاتھا۔ ان کے بت توڑے جارہے تھے، ان کے باپ دادا دوزخی بتائے جارہے تھے۔ اس حالت میں اگر وہ ذرا سا معارضہ بھی کرسکتے تو اس ذلت کو ہر گز گوارا نہ کرتے کیونکہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کے معارضہ سے یہ تمام خواری و رسوائی دور ہو سکتی تھی اور اسلام کی جمعیت و شوکت کا شیرازہ ہمیشہ کے لئے پراگندہ ہوسکتا تھا۔ جمعیت کے باوجود ان کا بیس سال اس ذلت کو برداشت کرنا اور جلاوطنی اور جزیہ کو گوارا کرنا صاف بتا رہا ہے کہ وہ معارضہ سے عاجز تھے۔ مگر اپنے عجز پر پردہ ڈالنے کے لئے قسم قسم کے عذر اور حیلے بہانے کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ کبھی اسے منظوم دیکھ کر شاعر کا قول یاکا ہن کا قول بتاتے۔ (حاقہ، ع۲) کبھی اپنی قدرت سے خارج دیکھ کر حیرت سے کہا کرتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ (سبا، ع۵) کبھی اپنی جہالت کے سبب سے کہتے کہ چاہیں تو ہم بھی ایسا کہہ لیں یہ تو پہلوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔ (انفال، ع ۴) کبھی کہتے کہ یہ اضغاث احلام یعنی اڑتے خواب ہیں (4 ) ۔ ( انبیاء، ع ۱) کبھی اس کی تاثیر روکنے کیلئے کہتے کہ شور مچاؤ اور سننے نہ دو۔ ( حم سجدہ، ع۴) کبھی کہتے کہ قرآن سے ہمارے دل غلاف میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے۔ ( حم سجدہ، ع۱) کبھی کہتے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں میں یہ نہیں سنایہ تو بتائی بات ہے۔ (ص، ع۱) اور کبھی اس رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ساحر کذاب یعنی بڑا جھوٹا جادوگر۔ (ص، ع۱) کبھی مسحور یعنی جادو مارا۔ (فرقان، ع ۱) کبھی مُعلَّم مجنون یعنی سکھایا ہواباؤلا۔ (دخان، ع۱) کبھی کاہن اور کبھی شاعر کہتے۔ (طور، ع۲) مگر ایسے حیلوں اور عذروں سے کیا بن سکتا تھا۔ ؎
چراغے راکہ ایز بر فروزد ہرآں کو پف زند ریشش بسوزد
جب عرب کے کمال فصاحت و بلاغت کے زمانے میں فُصَحاء و بُلَغا چھوٹی سے چھوٹی سورت کے معارضے سے عاجز آگئے تواَزمِنَۂ ما بعد (1 ) کے عرب و عجم کا عجز خود ثابت ہوگیا۔ سیدنا ومولیٰنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رسالت کی یہ کیسی دلیل ِساطع اور برہانِ قاطع (2 ) ہے کہ ساڑھے تیرہ سوسال سے زائد عرصہ گز رچکا کوئی شخص اَقْصَر سورت (3 ) کے معارضہ پر قادر نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا۔
اگر ہم کسی انسان کے کلام کو خواہ وہ کتنا ہی فصیح و بلیغ ہو مطالعہ کریں تو اختلافِ مضامین، اختلافِ اَحوال اور اختلافِ اَغراض سے ان کی فصاحت و بلاغت میں ظاہر فرق نظر آئے گا۔ مثلاً شعرا ء و خطبائے عرب جو فصاحت میں بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے بعضے مدح میں بہت بڑھ چڑھ کر اور ہجو میں معمول سے بہت گرے ہوئے اور بعضے اس کے برعکس ہیں ۔ بعضے مرثیہ گوئی میں فائق اور غزل میں بھدے اور بعضے اس کے خلاف ہیں اور بعضے رجز میں اچھے اور قصیدے میں خراب اور بعضے اس کے برعکس ہیں ۔ بعضے کسی خاص شے کے وصف میں اوروں سے سبقت لے گئے ہیں ۔ چنانچہ امرؤ القیس گھوڑے اور عورت کے وصف میں ، اعشٰی شراب کے وصف میں ، نابغہ ترہیب اور زہیر ترغیب میں مشہور ہیں ۔ ذوالرمہ تشبیب و تشبیہ میں اچھا اور ریت، دوپہر، بیابان، پانی اور سانپ کے وصف میں بڑھ کر ہے مگر مدیح وہجا میں گرا ہوا ہے اسی سبب سے اسے فَحو ل شُعَراء (4 ) میں شمار نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اس کے شعر میں ہرنوں کی مینگنیاں اور خالِ عروس (5 ) ہیں ۔ فرزدق اگرچہ صاحب غزل ہے مگر تشبیب میں اچھا نہیں ۔ جریر اگرچہ عورتوں سے پرہیز کرنے والا ہے مگر تشبیب میں سب سے اچھا ہے۔ اسی طرح شاعرا گرزُہد کو بیان کرنے لگے تو قاصر رہ جائے۔ اگر کوئی لائق اَدیب حلال و حرام کو بیان کرے تو اس کا کلام معمول سے گرجائے گا۔ علی ہذا القیاس اِختلافِ اَحوال سے بھی انسان کا کلام متفاوت ہوجاتا ہے۔ مثلاً خوشی کے وقت کا کلام غصہ کے وقت کے کلام سے بلحاظ فصاحت مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح اختلاف اغراض کے سبب سے انسان کبھی ایک چیز کی مدح کرتا ہے اور کبھی مذمت جس سے اس کے کلام میں ضرور فرق ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں فصحاء و بلغاء کا کلام فصل و وصل، علو ونزول، تقریب و تبعید وغیرہ میں متفاوِت ہے۔مثلاً بہت
سے شعراء ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف اِنتقال کرنے اور ایک باب سے دوسرے باب کی طرف خروج کرنے میں ناقص ہیں ۔ چنانچہ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بختری جو نظم میں اچھا ہے۔نسیب سے مَدیح کی طرف انتقال کرنے میں قاصر ہے۔ اس تمام کے برعکس قرآن کریم پر غورکیجئے باوجودیکہ اس میں وجوہ خطاب مختلف ہیں کہیں قصص و مواعظ ہیں ، کہیں حلال و حرام کا ذکر ہے، کہیں اعذاروانذار، کہیں وعدہ و وعید، کہیں تخویف وتبشیراور کہیں تعلیم اَخلاقِ حسنہ ہے۔ مگر وہ ہر فن میں فصاحت و بلاحت وبلاغت کے خارقِ عادات اعلیٰ درجے میں ہے اور اس میں کہیں اس منزلت علیا سے اِنحطاط نہیں پایا جاتا اور اوَّل سے آخر تک مقصد واحد کے لئے ہے اور وہ خلقت کو اللّٰہ کی طرف بلانا اور دنیا سے دین کی طرف پھیرنا ہے۔ چنانچہ آیہ ذیل میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا (۸۲) (نسآء، رکوع ۱۱)
کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر یہ ہوتا کسی اور کا سوائے اللّٰہ کے تو پاتے اس میں بہت تفاوت۔ (1 )
مثال کے طور پر دیکھئے:
ترغیب میں :
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۱۷) (سجدہ، ع ۲)سو کسی جی کو معلوم نہیں جو چھپا دھرا ہے ان کے واسطے جو ٹھنڈک ہے آنکھوں کی بدلہ اس کا جو کرتے تھے۔ ( 2)
اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ (۷۰) یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍۚ-وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُۚ-وَ اَنْتُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَۚ (۷۱) (زخرف، ع۷)
چلے جاؤ بہشت میں تم اور تمہاری عورتیں کہ بناؤ کردیئے جاؤ گے۔ لئے پھریں گے ان پر رکابیاں سونے کی اور آب خورے اور وہاں ہے جو دل چاہے اور جس سے آنکھیں آرام پاویں اور تم کو اس میں ہمیشہ رہناہے۔ ( 3)
ترہیب میں :
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًاۙ (۶۸) اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ یُّعِیْدَكُمْ فِیْهِ تَارَةً اُخْرٰى فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْۙ-ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهٖ تَبِیْعًا (۶۹) (بنی اسرائیل، ع ۷)
سوکیا تم نڈرہو اس سے کہ دھنسا دے تم کو جنگل کے کنارے یا بھیج دے تم پر آندھی پھر نہ پاؤ تم اپنا کوئی کار ساز یا نڈر ہو اس سے کہ پھر لے جاوے تم کو دریا میں دوسری بار پھر بھیجے تم پر پتھراؤ ہوا کا پھر غرق کرے تم کو بدلے اس ناشکری کے پھر نہ پاؤ تم اپنی طرف سے ہم پراس کا دعویٰ کرنے والا۔ ( 1)
ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُۙ (۱۶) اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًاؕ-فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ (۱۷) (ملک، ع۲)
کیا نڈر ہو تم اس سے جو آسمان میں ہے کہ دھنسادے تم کوزمین میں ۔ پس ناگاہ وہ جنبش کرے یا نڈر ہواس سے جو آسمان میں ہے کہ بھیجے تم پرپتھراؤ ہوا کا سو اب جانو گے کیسا ہے ڈرانا میرا۔ (2 )
زجر میں :
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًاۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاۚ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ (۴۰) (عنکبوت، ع ۴)
پھر ہر ایک کو پکڑا ہم نے اس کے گناہ پر سو ان میں سے کوئی تھا کہ اس پر بھیجا ہم نے پتھراؤ ہوا کااور کوئی تھا کہ اس کو پکڑا چنگھاڑنے اور کوئی تھا کہ اس کو دھنسایا ہم نے زمین میں اور کوئی تھا کہ اس کو ڈبودیا ہم نے اور اللّٰہا یسا نہیں ہے کہ ان پر ظلم کرے پر تھے وہ اپنا آپ برا کرتے۔ (3 )
وعظ میں :
اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ (۲۰۵) ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ (۲۰۶) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَؕ (۲۰۷) (شعراء، ع۱۱)
بھلا بتلاؤ اگر ہم فائدہ دیں ان کو کئی برس پھر آوے ان پر (عذاب) جس کا ان سے وعدہ تھا کیا کام آوے گا ان کے تمتع ان کا۔ (1 )
اِلٰہیات میں :
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُؕ-وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ (۸) عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ (۹) سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ (۱۰) ( رعد، ع ۲)
اللّٰہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ اور جو سکڑتے ہیں پیٹ اور بڑھتے ہیں اور ہر چیز اس کے نزدیک اندازہ پر ہے۔ وہ جاننے والا چھپے اور کھلے کا۔ عظیم الشان بلند۔ برابر ہے تم میں جو چپکے بات کہے اور جو کہے پکار کراور جو چھپنے والا ہے رات کو چلنے والا ہے دن کو۔ (2 )
اسی طرح قرآن کریم کے فواتح و خواتم، مواضع فصل ووصل اور مواقع تحول و تنقل کو دیکھئے اس کے پڑھنے والوں کو خارقِ عادت بدیع تالیف کے سبب سے فصل بھی وصل معلوم دیتا ہے اور ایک قصے سے دوسرے قصے کی طرف اور ایک شے سے دوسری شے کی طرف مثلاً وعدہ سے وعید اور ترغیب سے ترہیب کی طرف انتقال کرنے میں مختلف مؤتلف اور متبائن متناسب نظر آتا ہے۔
اس مقام پر بغرضِ توضیح قرآن کی فصاحت وبلاغت کے متعلق چند شہاد تیں پیش کی جاتیں ہیں ۔ سَبْع مُعَلَّقَات جو تمام عرب جاہلیت کا مایۂ فخر وناز تھے اور خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں تھے۔ قرآن شریف کے نازل ہونے پر
اتار لئے گئے۔ یہ قصائد اب تک موجود ہیں مگر سبع طوال ( 1) کی جھلک سے اپنی آب و تاب سب کھو بیٹھے ہیں ۔
حضرت لبید (2 ) بن ربیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو سبع معلقات کے شعراء میں سے تھے اسلام لے آئے تھے اور ساٹھ سال اسلام میں زندہ رہے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے سوائے ایک بیت کے کوئی شعر نہیں کہا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنی خلافت میں ان سے فرمایا کہ مجھے اپنے شعر سناؤ۔ اس پر آپ نے سورۂ بقرہ پڑھی اور عرض کیا: میں شعر نہیں کہنے کا جب کہ اللّٰہ تعالٰی نے مجھے سورۂ بقرہ سکھادی ہے۔
ابو عبیدہ (3 ) قاسم بن سلام بغدادی (متوفی ۲۲۳ ھ) جو امام شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شاگرد اور فقہ و حدیث و لغت میں امام ہیں حکایت کرتے ہیں کہ ایک بادیہ نشین عرب نے کسی کو یہ آیت پڑھتے سنا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ (حجر، ع ۶)
سو سنادے کھول کر جو تجھ کو حکم ہوا۔ (4 )
اس نے سنتے ہی سجدہ کیاا ور کہا کہ میں نے اس کلام کی فصاحت کو سجدہ کیا ہے۔
ایک دفعہ کسی اعرابی نے یہ آیت سنی:
فَلَمَّا اسْتَیْــٴَـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِیًّاؕ- ( یوسف، ع۱۰)
پھر جب ناامید ہوئے اس سے اکیلے بیٹھے مصلحت کو۔ (5 )
کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی مخلوق اس کلام کی مثل پر قادر نہیں ۔ (6 )
امام اصمعی یعنی عبدالملک بن اصمع بصری ( متوفی ۲۱۰ھ) جو لغت و نحوو ادب و نوادر میں امام ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک پانچ یا چھ سال کی لڑکی کو یہ کہتے سنا کہ میں اپنے تمام گناہوں سے استغفار کرتی ہوں ۔ میں نے سن کر کہا: تو کس چیز پر استغفار کرتی ہے تو تو مکلف ہی نہیں ۔ وہ بولی:
استغفر اﷲ لذنبی کلہ قتلت انسانا بغیر حلہ
مثل غزال ناعم فی دلہ انتصف اللیل ولم اصلہ
میں نے کہا: اللّٰہ تجھے مارے تو کیسی فصیح ہے! وہ کہنے لگی: قرآن میں یہ آیت ہے:
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ-فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْۚ-اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷) (قصص، ع۱)
اور ہم نے حکم بھیجاموسیٰ کی ماں کو کہ اسکو دودھ پلاپھر جب تجھ کو ڈر ہو اس کا توڈال دے اسکو دریا میں اور ڈر مت اور غم مت کھا بے شک ہم لوٹانے والے ہیں اس کو تیری طرف اور بنانے والے ہیں اس کورسولوں سے۔ (1 )
کیا اس آیت کے مقابل میرا یہ قول فصیح کہا جاسکتا ہے؟ اس ایک آیت میں دو امر، دو نہی، دو خبریں اور دو بشارتیں جمع ہیں ۔ (2 )
حکایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک روز مسجد نبوی میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کے سرہانے کھڑا ہوا ایک شخص کلمہ شہادت پڑھ رہاتھا آپ نے اس سے سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ میں بطارقہ روم میں سے ہوں مجھے عربی زبانیں آتی ہیں میں نے ایک مسلمان قیدی سے سنا کہ وہ آپ مسلمانوں کی کتاب میں سے ایک آیت پڑھ رہا تھا میں نے اس آیت پر غور کیا اس میں وہ احوال دنیاو آخرت جمع ہیں جو اللّٰہ تعالٰی نے حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِمَا السَّلَام پر نازل فرمائے وہ آیت یہ ہے:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ (۵۲) (نور، ع۷) (3 )
اور جو کوئی حکم پر چلے اللّٰہ کے اور اسکے رسول کے اور ڈرتا رہے اللّٰہ سے اوربچ کر چلے اس سے سو وہی لوگ ہیں مراد کو پہنچنے والے۔ (4 )
ابن مُقَفَّع (1 ) نے جو فصاحت و بلاغت میں یگانہ روزگار تھا اور زمانہ تابعین میں تھا قرآن شریف کے معارَضہ میں کچھ لکھنا شروع کیا ایک روز ایک مکتب پر سے اس کا گزر ہواجس میں ایک لڑکا یہ آیت پڑھ رہا تھا:
وَ قِیْلَ یٰٓـاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَ یٰسَمَآئُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآئُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ o ( ہود، ع ۴)
اور حکم آیا اے زمین نگل جا اپنا پانی اور اے آسمان تھم جااور خشک کیا گیا پانی اور تمام کیا گیا کام اور کشتی ٹھہری جو دی پہاڑ پر اور حکم ہوا کہ دورہوں قوم بے انصاف۔ ( 2)
وہ سن کر واپس آیااور جو کچھ لکھا تھا سب مٹا ڈالا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کا معارضہ نہیں ہوسکتایہ انسان کا کلام نہیں ۔ (3 )
یحییٰ بن الحکم الغزال نے جو بقول ذہبی دوسری اور بقول ابن حبان تیسری صدی ہجری میں اندلس میں فحول شعراء میں سے تھا قرآن کے معارضے کا ارادہ کیا ایک روز سورۂ اخلاص کا معارضہ کرنے لگا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی جو اس کی توبہ کا باعث ہوئی۔
امام ابن الجوزی (4 ) ( متوفی ۵۹۷ ھ) نے وفاء فی فضائل المصطفیٰ میں ذکر کیا ہے کہ امام ابن عقیل نے کہا کہ ابو محمد بن مسلم نحوی نے مجھ سے حکایت کی ہے کہ ہم اعجاز القرآن پر گفتگو کر رہے تھے۔ وہاں ایک فاضل شیخ موجود تھا اس نے کہا کہ قرآن میں ایسی کون سی چیز ہے جس سے فضلاء عاجز آجائیں ۔ پھر وہ کاغذدوات لے کر بالاخانے پر چڑھ گیا اور وعدہ کیا کہ تین دن کے بعد قرآن کے معارضے میں کچھ لکھ کر لاؤں گاجب تین دن گزر گئے تو ایک شخص بالاخانے پر چڑھا اور اس کو سہارا لئے ہوئے اس حال میں پایا کہ اس کا ہاتھ قلم پر سوکھ گیا تھا۔ ( 5)
مُسَیْلمہ کذَّاب نے قرآن کی بعض چھوٹی سورتوں کے معارضہ میں کچھ لکھا مگر ایسا کہ اَطفالِ مکتب بھی اسے دیکھ کر ہنسیں ۔ سورۂ کوثر پر جو اس لعین نے لکھا تھا ہم ان شاء اللّٰہ اسے اس بحث کے اخیر میں لائیں گے اور اس لعین کے کلام کی سخافت ( 1) ظاہر کرنے کے لئے اس سورت کی وجہ اعجاز پر مفصل بحث کریں گے اور مزید توضیح کے لئے قرآن کی فصاحت کے متعلق دو اور مثالیں پیش کریں گے۔
اعتراض : ۔
قرآن شریف میں انبیاءے کرام کے قصے بار بار لائے گئے ہیں چنانچہ بقولِ بعض حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکا ذکر ایک سو بیس جگہ ہے اور بقول ابن عربی حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَامکا قصہ پچیس آیتوں میں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا قصہ نوے آیتوں میں ذکر کیا گیا ہے یہ خلافِ فصاحت ہے۔
جواب: ۔
وہ تکرار خلاف ِفصاحت ہوتی ہے جس میں کچھ فائدہ نہ ہو مگر قَصَصِ قرآنی کی تکرار فوائد سے خالی نہیں ۔ علامہ بدر بن جماعہ نے اس مضمون پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’ اَ لْمُقْتَنَص فِیْ فَوَائِدِ تَکْرَارِ الْقَصَص ‘‘ ہے۔ اس میں تکریر ِقَصَص کے کئی فائدے (2 ) ذکر کیے ہیں ۔
{1} … ہر جگہ کچھ نہ کچھ زیادتی ہے جودوسری جگہ نہیں یا کسی نکتہ کے لئے ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ لایا گیا ہے اور یہ بلغاء کی عادت ہے۔
{2} …ایک جماعت ایک قصہ سن کر اپنے گھر چلی جاتی تھی اس کے بعد دوسری جماعت ہجرت کرکے آتی تھی اور جو کچھ پہلی جماعت کے چلے جانے کے بعد نازل ہوتا اسے روایت کرتی اگر تکرار قصص نہ ہوتی تو قصہ موسیٰ کو ایک قوم سنتی اور قصہ عیسیٰ کو دوسری قوم سنتی اسی طرح باقی قصوں کا حال ہوتا۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے چاہا کہ تمام لوگ ان قصوں کے سننے میں مشترک ہوں تاکہ ایک قوم کو اِفادہ اور دوسری کو زیادہ تاکید حاصل ہو۔
{3} … ایک ہی مضمون کو مختلف اَسالیب میں بیان کرنے میں جو فصاحت ہے وہ پوشیدہ نہیں ۔
{4} … قصص کے نقل کرنے پر اس قدر دَواعی نہیں جتنے کہ احکام کے نقل کرنے پر ہیں اس لئے احکام کے برعکس قصص کو بار بار لایا گیا ہے۔
{5} … اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید نازل فرمایااور لوگ اس کی مثل لانے سے عاجز آگئے پھر ان کے عجز کے معاملہ کو اس طرح واضح کردیا کہ ایک قصہ کو کئی جگہ ذکر کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہ اس کی مثل لانے سے عاجز ہیں خواہ کوئی سے الفاظ میں لائیں اور کسی عبارت سے تعبیر کریں ۔
{6} … جب اللّٰہ تعالٰی نے منکرین سے تَحَدّی ( 1) کی کہ اس کی مثل ایک سورت بنا لاؤ تو اگر ایک قصے کو ایک ہی جگہ ذکر کیا جاتا اور اسی پر کفایت کی جاتی، اہل عرب کہتے کہ تم ہی اس کی مثل ایک سورت پیش کرو پس اللّٰہ تعالٰی نے ہر طرح سے ان کی حجت دورکرنے کے لئے ایک قصے کو کئی سورتوں میں نازل فرمایا۔
{7} … جب ایک قصے کو بار بار ذکر کیا گیا اور ہر جگہ اس کے الفاظ میں کمی بیشی اور تقدیم و تاخیر کردی گئی اور مختلف اُسلوب عمل میں لایا گیا تو یہ عجیب بات پیدا ہوگئی کہ ایک ہی معنی مختلف صورتوں میں جلوہ اَفروز ہوااور لوگوں کو اس کے سننے کی طرف کشش ہوگئی کیونکہ ہر نئے اَمر میں لذت ہوتی ہے اوراس سے قرآن مجید کا ایک خاصہ ظاہر ہوگیا کیونکہ باوجود تکرار کے لفظ میں کوئی عیب اور سننے کے وقت کوئی ملال پیدا نہیں ہوتا پس کلامِ الٰہی بندوں کے کلام سے ممتاز رہا۔ (2 )
اعتراض :
مانا کہ ایک معنی کو مختلف لباس اور مختلف اسلوب میں ظاہر کرنے سے فصاحت میں کوئی خلل نہیں آتا بلکہ یہ ابلغ ہے مگر بعض جگہ ایک ہی جملہ بار بار لایا گیا ہے چنانچہ سورۂ شعرا ء میں
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (۸) وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠ (۹) (3 )
آٹھ بار لایا گیا ہے۔ اور سورۂ قمر میں :
لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۠ (۲۲) ( 1)
چار بار اور سورۂ رحمن میں
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ (۱۳) (2 )
اکتیس باراور سورہ مرسلات میں
وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ (۴۹) (3 )
دس بار مذکور ہے۔
جواب:
ان سورتوں میں بھی تکرارِ آیت فائدہ سے خالی نہیں کیونکہ ہر جگہ متعلق بہ مختلف ہے تاکہ ہر خبر کے سننے کے بعد تجدید نصیحت و عبرت ہو۔ چنانچہ سورۂ شعراء میں ہر قصے کے بعد
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ- ( 4)
مذکور ہے اور ہر دفعہ ایک نبی اور اس کی امت کے قصے کی طرف اشارہ ہے کہ اس نبی پر ایمان لانے والے سلامت رہے اور منکرین تباہ ہوئے اور پھر بار بار بتلادیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی مومنوں کے لئے رحم والا اور منکروں کے لئے عزیز یعنی زبردست ہے تاکہ اس امت کے لوگ نصیحت پکڑیں ۔ یہی حال سورۂ قمر میں تکرارِ آیت کا ہے کیونکہ اس میں قصہ نوح وعاد و ثمودو لوط میں سے ہر ایک کے بعد
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ الآیۃ ( 5)
مذکور ہے تاکہ قرآن پڑھنے والے اس سے عبرت پکڑیں ۔ اسی طرح سورۂ مرسلات میں ہر دفعہ ایک نشانی کے ذکر کے
بعد آیا ہے کہ قیامت کے دن خرابی ہوگی ان لوگوں کے لئے جو اس نشان کو جھٹلانے والے ہیں ، علیٰ ہذا القیاس۔ سورۂ رحمن میں ہر بار مختلف نعمتوں کے ذکر کے بعد:
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ (۱۳) (1 )
آیا ہے تاکہ لوگ سن کر ہدایت پائیں ۔ جیسا کہ ایک ناشکر گزار محسن الیہ کو محسن کہے: کیا تو فقیر نہیں تھا میں نے تجھے امیر بنا دیا، آیا تجھے اس سے انکار ہے؟ کیا تو ننگا نہ تھا میں نے تجھے لباس پہنادیا، آیا تجھے اس سے انکار ہے؟ کیا تو گمنام نہ تھا میں نے تجھے نامور کردیا، آیا تجھے اس سے انکار ہے؟
کتب عہد عتیق میں مزمور ۱۳۶ میں یہی طرز پایا جاتا ہے جس کا عربی ترجمہ جو قسیس ولیم ہاج مل مدرس مدرسہ اسقفیہ کلکتہ نے کیا ہے وہ اس وقت ہمارے زیر نظر ہے اس میں ہر آیت کے بعد ’’ اِنَّ رَحْمَتَہٗ اِلَی الْاَبَدِ ‘‘ اٹھائیس بار آیا ہے۔ بخوفِ طوالت ہم اس مزمور کو یہاں نقل نہیں کرتے۔
________________________________
1 – لفظ عرب اعراب سے ہے۔ جس کے معنی ہیں پیدا گفتن سخن را وبفصاحت سخن گفتن۔۱۲منہ
2 – مہارت۔
3 – کمینہ۔
4 – یعنی ان میں ردوبدل ہو چکا تھا۔
5 – مُشَبَّہ: حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّنا و عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام کو خدا کے مشابہ قرار دینے والے ۔ مُجَسَّمَہ:بت پرست۔ تَنَاسُخِیَّہ: وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ روح ایک قالب سے دوسرے میں منتقل ہو جاتی ہے۔دَہْرِیَہ: خدا کو نہ ماننے والے،لامذہب۔