إِسْمَاعُ الْأَرْبَعِیْن فِیْ شَفَاعَۃِ سَیِّدِالْمَحْبُوْبِیْن ( ۱۳۰۵ھ
إِسْمَاعُ الْأَرْبَعِیْن فِیْ شَفَاعَۃِ سَیِّدِالْمَحْبُوْبِیْن ( ۱۳۰۵ھ)
( محبوبوں کے سردار کی شفاعت کے بارے میں چالیس حدیثیں سنانا)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
مسئلہ :
کیا فرماتے ہیں علماءِ دین اس مسئلہ میں کہ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کا شَفِیْع ہونا کس حدیث سے ثابت ہے ؟ بَيِّنُوْا تُؤْجَرُوْا ( بیان فرمائیے اجرپائیے ۔ ت)
اَلْجَوا ب
اَلْحَمْدُ لِلهِ الْبَصِيْرِ السَّمِيْعِ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَی الْبَشِيْرِ الشَّفِيْعِ وَعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ کُلَّ مَسَاءٍ وَسَطِيْع.
( سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جو دیکھنے سننے والا ہے اورصبح وشام دُرود و سلام نازل ہوں بشارت دینے ، شفاعت کرنے والی ذات اور ان کی آل و اصحاب پر ۔ ت)
سُبْحٰنَ اللہ ! ایسے سوال سُن کر تعجب آتا ہے کہ مسلمان و مدعیانِ سُنّیت(1 ) اور ایسے واضح عقائد میں تَشْکِیْک( 2) کی آفت ، یہ بھی قُربِ قیامت کی ایک علامت ہے ۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ احادیثِ شفاعت بھی ایسی چیز ہیں جو کسی طرح چُھپ سکیں ! ، بیسیوں صحابہ ، صدہا( 3) تابعین ، ہزار ہا محدثین ان کے راوی ، حدیث کی ہرگُونَہ(4 ) کتابیں
آیتِ اُولٰی :
عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا( ۷۹) ( پ۱۵ ، بنی اسرائیل : ۷۹) قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقامِ محمود میں بھیجے ۔
حدیث شریف میں ہے : حُضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے عرض کی گئی : مقامِ محمود کیا چیز ہے ؟ فرمایا : ( ( هُوَ الشَّفَاعَةُ) ) (1 ) وہ شفاعت ہے ۔
آیتِ ثانیہ :
قَالَ اللہُ تَعَالٰی :
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ( ۵) ( پ۳۰ ، الضحی : ۵) اور قریب تر ہے تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تُو راضی ہوجائے گا ۔
دَیلمی ’’مسند الفردوس‘‘ میں اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ سے راوی ، جب یہ آیت اُتری حُضورشَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : ( ( إذًا لَا أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِنْ أُمَّتِيْ فِي النَّار) ) (2 ) یعنی جب اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی کردینے کا وعدہ فرماتا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں رہا ۔
اَللهم صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلَيْه.
( اے اللہ عَزَّوَجَل ! ان پر درود وسلام اوربرکت نازل فرما ۔ ت)
طبرانی ’’معجم اَوسط‘‘ اور بَزار ’’مسند‘‘ میں جناب مَوْلَی الْمُسْلِمِیْن(1 ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( أَشْفَعُ لِأُمَّتِيْ حَتّٰی يُنَادِيَنِيْ رَبِّيْ قَدْ رَضِيْتَ يَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ : أَيْ رَبِّ قَدْ رَضِيْتُ) ) (2 ) میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا یہاں تک کہ میرا رب پکارے گا اے محمد ! تو راضی ہوا؟ میں عرض کروں گا : اے رب میرے ! میں راضی ہوا ۔
آیتِ ثالثہ :
قَالَ اللہُ تَعَالٰی( اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ت) :
وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ ( پ۲۶ ، محمد : ۱۹)
اے محبوب ! اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اورعورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْمکو حکم دیتا ہے کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے گناہ مجھ سے بخشواؤ ، اور شفاعت کا ہے ( 3) کا نام ہے !
آیتِ رابعہ :
قَالَ اللہُ تَعَالٰی :
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا( ۶۴) ( پ۵ ، النسآء : ۶۴)
اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں ، تیرے پاس حاضر ہوں پھر خدا سے استغفار کریں اور رسول ان کی بخشش مانگے تو بیشک اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
اس آیت میں مسلمانوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ گناہ کرکے اس نبی کی سرکار(1 ) میں حاضر ہو اور اس سے درخواستِ شفاعت( 2) کرو ، محبوب تمہاری شفاعت فرمائے گا تو ہم یقیناً تمہارے گناہ بخش دیں گے ۔
آیتِ خامسہ :
قَالَ اللہُ تَعَالٰی :
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ ( پ۲۸ ، المنٰفقون : ۵)
جب ان منافقوں سے کہا جائے کہ آؤ رسولُ اللہ تمہاری مغفرت مانگیں تو اپنے سر پھیر لیتے ہیں ۔
اس آیت میں منافقوں کا حالِ بد مآل ارشاد ہوا( 3) کہ وہ حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے شفاعت نہیں چاہتے پھر جو آج نہیں چاہتے وہ کل نہ پائیں گے ۔ اللہ دنیا و آخرت میں ان کی شفاعت سے بَہرہ مند(4 ) فرمائے ۔ ع
حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے منکر آج ان سے التجا نہ کرے
وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی شَفِيْعِ الْمُذْنِبِيْنَ وَاٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَحِزْبِهٖ أَجْمَعِيْن.
( اللہ تعالیٰ دُرودنازل فرمائے گناہ گاروں کی شفاعت فرمانے والے پر اور اُن کی آل ، اَصحاب اور تمام اُمت پر ۔ ت)
اَلْاَحَادِیْث
شَفاعتِ کُبریٰ کی حدیثیں جن میں صاف صَریح(1 ) ارشاد ہوا کہ عَرصاتِ محشر(2 ) میں وہ طویل دن ہوگا کہ کاٹے نہ کٹے (3 ) اور سَروں پر آفتاب( 4) اور دوزخ نزدیک ، اُس دن سورج میں دس برس کامل کی(5 ) گرمی جمع کریں گے اور سَروں سے کچھ ہی فاصلہ پر لارکھیں گے (6 ) ، پیاس کی وہ شدت کہ خدا نہ دکھائے ، گرمی وہ قیامت کہ اللہ بچائے ، بانسوں پسینہ(7 ) زمین میں جذب ہو کر اوپر چڑھے گا یہاں تک کہ گلے گلے سے بھی اونچا ہوگا ، جہاز چھوڑیں تو بہنے لگیں ، لوگ اس میں غوطے کھائیں گے ، گھبرا گھبرا کر دل حلق تک آجائیں گے ۔ ( 8) لوگ ان عظیم آفتوں میں جان سے تنگ آکر شَفِیْع (9 ) کی تلاش میں جابجا( 10) پِھریں گے ، آدم ونوح ، خَلیل وکلیم ومسیح عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم کے پاس
حاضر ہوکر جواب صاف( 1) سنیں گے ، سب انبیاء فرمائیں گے : ہمارا یہ مرتبہ نہیں ہم اس لائق نہیں ہم سے یہ کام نہ نکلے گا ، نَفْسِی نَفْسِی ، تم اور کسی کے پاس جاؤ ، یہاں تک کہ سب کے بعدحضور پُرنور خَاتَمُ النَّبِیِّیْن ، سَیِّدُالْاَوَّلِیْن وَالْاٰخِرِیْن ، شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن ، رَحْمَۃٌ لِّلعٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوں گے ۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم ( ( أَنَا لَهَا أَنَا لَهَا) ) فرمائیں گے یعنی میں ہوں شفاعت کے لیے ، میں ہوں شفاعت کے لیے ۔ پھر اپنے ربِّ کریم جَلَّ جَلَالُہٗٗ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سجدہ کریں گے اُن کا ربّ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی ارشاد فرمائے گا : ( ( يَا مُحَمَّدُ ! اِرْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّع) ) ( 2) اے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ اور عَرْض کرو تمہاری بات سنی جائے گی اور مانگو کہ تمہیں عطا ہوگا اورشفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہے ۔
یہی مقامِ محمود ہوگا جہاں تمام اَوَّلین و آخرین میں حُضور کی تعریف و حمد و ثنا کا غُل(3 ) پڑ جائے گا اور موافق ومخالف( 4) سب پر کُھل جائے گابارگاہِ الٰہی میں جو وَجاہت( 5) ہمارے آقا کی ہے کسی کی نہیں اور مالکِ عظیم جَلَّ جَلَالُہٗ کے یہاں جو عَظَمت ہمارے مَوْلیٰ کے لیے ہے کسی کے لیے نہیں وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن. ( اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے
ہیں جو سب جہانوں کا پَرْوَرْدگار ہے ۔ ت) اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی حکمتِ کاملہ کے مطابق لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا کہ پہلے اور( 1) انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے پاس جائیں اور وہاں سے محروم پِھر کر اِن کی خدمت میں حاضر آئیں تاکہ سب جان لیں کہ منصبِ شفاعت اِسی سرکار کا خاصَّہ ہے دوسرے کی مجال( 2) نہیں کہ اس کا دروازہ کھول سکے ، وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن.
یہ حدیثیں ’’صحیح بخاری‘‘ و’’صحیح مسلم‘‘ تمام کتابوں میں مذکور اور اہلِ اسلام میں معروف ومشہور ہیں ، ذکر کی حاجت نہیں کہ بہت طویل ہیں ۔ شک لانے والا اگر دو حَرْف بھی پڑھا ہو تو ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ کا اُردو میں ترجمہ منگاکر دیکھ لے یا کسی مسلمان سے کہے کہ پڑھ کر سُنا دے ۔ اور اِنہیں حدیثوں کے آخر میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ شفاعت کرنے کے بعدحُضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم بخششِ گنہگاران(3 ) کے لیے بار بار شفاعت فرمائیں گے اور ہر دفعہ اللہتعالیٰ وہی کلمات فرمائے گا اور حضور ہر مرتبہ بے شمار بندگانِ خداکو نجات بخشیں گے ۔ میں اِن مشہور حدیثوں کے سِوا (4 ) ایک اَرْبعین یعنی چالیس حدیثیں اور( 5) لکھتا ہوں جو گَوشِ عوام( 6) تک کم پہنچی ہوں ، جن سے مسلمانوں کا ایمان
ترقی پائے ، مُنْکِر(1 ) کا دل آتشِ غیظ( 2) میں جل جائے ، بالخُصُوص جن سے اس ناپاک تحریف کا رَد شریف ہو جوبعض بددینوں ، خدا ناترسوں(3 ) ، ناحق کوشُوں(4 ) ، باطل کَیْشوں(5 ) نے معنیٔ شفاعت میں کیں اور انکارِ شفاعت کے چہرۂ نجس چھپانے کو(6 ) ایک جھوٹی صورت نام کی شفاعت دل سے گَھڑی ۔
ان حدیثوں سے واضح ہوگا کہ ہمارے آقائے اَعظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم شفاعت کے لیے مُتَعَیَّن ہیں ، اِنہی کی سرکار بیکس پناہ ہے (7 ) ، اِنہی کے دَر سے بے یاروں کا نِباہ(8) ہے ، نہ جس طرح ایک بد مذہب کہتا ہے کہ جس کو چاہے گا اپنے حکم سے شَفِیْع بنادے گا ۔ یہ حدیثیں ظاہر کریں گی کہ ہمیں خدا اور رَسول نے کان کھول کر ’’شَفِیْع‘‘ کا پیارا نام بتادیا اور صاف فرمایا کہ وہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ ہیں( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) نہ یہ کہ بات گول(9 ) رکھی ہو جیسے ایک بدبخت کہتا ہے کہ اُسی کے اختیار پر چھوڑ دیجئے جس کو وہ چاہے ہمارا شفیع کردے ۔
یہ حدیثیں مُژدہ جانفزا(1 ) دیں گی کہ حضور کی شفاعت نہ اس کے لیے ہے جس سے اتّفاقاً گناہ ہوگیا ہو اور وہ اس پر ہر وقت نادم و پریشان و تَرساں ولَرزاں( 2) ہے جس طرح ایک دُزد ِباطن(3 ) کہتا ہے کہ چور پر تو چوری ثابت ہوگئی مگر وہ ہمیشہ کا چور نہیں اور چوری کو اس نے کچھ اپنا پیشہ نہیں ٹھہرایا مگر نفس کی شامت سے قُصُور ہوگیا(4 ) سواُس پر شرمندہ ہے اور رات دن ڈرتا ہے ۔ نہیں نہیں اُن کے رب کی قسم ! جس نے اُنہیں شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْنکیا ۔ اُن کی شفاعت ہم جیسے رُوسِیاہوں( 5) ، پُرگناہوں( 6) ، سیاہ کاروں( 7) ستم گاروں(8 ) کے لیے ہے جن کا بال بال گناہ میں بندھا ہے جن کے نام سے گناہ بھی ننگ وعار( 9) رکھتا ہے ۔ ع
ترسم آلودہ شَوَد دامنِ عصیاں اَز مَن
( میں ڈرتا ہوں کہ گناہوں کا دامن میری وجہ سے آلودہ ہوجائے گا ۔ ت)
وَحَسْبُنَا اللہُ تَعَالٰی وَنِعْمَ الْوَکِيْلُ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَی الشَّفِيْعِ الْجَمِيْلِ
وَعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ بِأُلُوْفِ التَّبْجِيْلِ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن.
( اور اللہتعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے اور کیا ہی خوب کار ساز ہے اور دُرود و سلام نازل ہوں جمال والے شفیع پر اور ان کے آل و اصحاب پر ہزاروں تعظیم و تکریم کے ساتھ اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ت)
حدیث ۱ و۲ :
امام احمد بسندِ صحیح اپنی ’’مسند‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے اور ابنِ ماجہ حضرت ابوموسٰی اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوِی ، حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يَّدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّها أَعَمُّ وَأَکْفٰی أَتَرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ ! لَا وَلٰکِنَّهَا لِلْمُذْنِبِيْنَ الْخَطَّائِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَ) ) (1 )
اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو شفاعت لو یا یہ کہ تمہاری آدھی امّت جنت میں جائے ، میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ تمام اور زیادہ کام آنے والی ہے ، کیا تم یہ سمجھ لیے ہو کہ میری شفاعت پاکیزہ مسلمانوں کے لیے ہے ؟ نہیں بلکہ وہ اُن گنہگاروں کے واسطے ہے جو گناہوں میں آلودہ اور سخت خطا کار ہیں ۔
اَللهم صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن.
( اے اللہ ! درود و سلام اور برکت نازل فرما اُن پر ، اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کاپروردگار ہے ۔ ت)
حدیث ۳ :
ابنِ عدی حضرت اُمُّ المومنین اُمِّ سَلَمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے راوی حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( شَفَاعَتِيْ لِلْهَالِكِيْنَ مِنْ أُمَّتِیْ) ) ( 1) میری شفاعت میرے اُن امتیوں کے لیے ہے جنہیں گناہوں نے ہلاک کر ڈالا ، حق ہے ۔ اے شفیع میرے ، میں قربان تیرے ، صَلَّی اللهُ عَلَيْكَ.( اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر درود بھیجے ۔ ت)
حدیث ۴تا۸ :
حضرت ابوداؤد و ترمذی و ابنِ حبان و حاکم و بیہقی بافادۂ تصحیح حضرتِ اَنَس بن مالک اور ترمذی ، ابنِ ماجہ ، ابنِ حبان و حاکم حضرت جابر بن عبداللہ اور طبرانی ’’معجم کبیر‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور خطیب بغدادی حضرت عبد اللہ ابنِ عمر فاروق وحضرت کعب بن عُجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے راوی ، حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( شَفَاعَتِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي) ) ( 2) میری شفاعت میری اُمت میں اُن کے لیے ہے جو کبیرہ گناہ والے ہیں ۔
صَلَّی اللهُ تَعَالٰی عَلَيْكَ وَسَلَّمَ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن( اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام نازل فرمائے اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کاپروردگار ہے ۔ ت)
حدیث ۹ :
ابوبکر احمد بن علی بغدادی حضرت ابودَرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی حُضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : ( ( شَفَاعَتِيْ لِأَهْلِ الذُّنُوْبِ مِنْ أُمَّتِي) ) میری شفاعت میرے گنہگار اُمتیوں کے لیے ہے ۔ ابودَرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : ( ( وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ) ) اگرچہ زانی ہو ، اگرچہ چور ہو ۔ فرمایا : ( ( وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ عَلٰی رَغْمِ أَنْفِ أَبِی الدَّرْدَاء) ) (1 ) اگرچہ زانی ہو اگرچہ چور ہو برخلاف خواہشِ ابودَرداء کے ۔
حدیث ۱۰ و ۱۱ :
طبرانی و بیہقی حضرت بُرَیْدہ اور طبرانی ’’معجم اَوسط‘‘ میں حضرت انس(2 ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، حُضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( أَنْ أَشْفَعَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِأَکْثَرَ مِمَّا عَلٰی وَجْهِ الْأَرْضِ مِنْ شَجَرٍ وَحَجَرٍ وَمَدَرٍ) ) (3 ) یعنی رُوئے زمین پر جتنے پیڑ ، پتھر ، ڈھیلے ہیں میں قیامت میں ان سب سے زیادہ آدمیوں کی شفاعت فرماؤں گا ۔
حدیث ۱۲ :
بخاری ، مسلم( 4) ، حاکم ، بیہقی حضرتِ ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، وَاللَّفْظُ لِهٰذَيْن ( اور الفاظ حاکم و بیہقی کے ہیں ۔ ت) حضورشَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمفرماتے ہیں : ( ( شَفَاعَتِيْ لِمَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ مُخْلِصًا يُصَدِّقُ قَلْبُه
لِسَانَه) ) ( 1) میری شفاعت ہر کلمہ گو کے لیے ہے جو سچے دل سے کلمہ پڑھے کہ زبان کی تصدیق دل کرتا ہو ۔
حدیث ۱۳ :
احمد ، طبرانی وبزار حضرت مُعاذ بن جبل و حضرت ابو موسیٰ اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، حضورشَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمفرماتے ہیں : ( ( أَنَّهَا أَوْسَعُ لَهُمْ وَهِیَ لِمَنْ مَاتَ وَلَا يُشْرِكُ بِاللہِ شَيْئًا) ) ( 2) شفاعت میں امت کے لیے زیادہ وُسعت ہے کہ وہ ہر شخص کے واسطے ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے یعنی جس کا خاتمہ ایمان پر ہو ۔
حدیث ۱۴ :
طبرانی ’’معجم اَوسط‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمفرماتے ہیں : ( ( آتِیْ جَهَنَّمَ فَأَضْرِبُ بَابَهَا فَيُفْتَحُ لِیْ فَأَدْخُلُهَا فَأَحْمَدُ اللہَ مَحَامِدَ مَا حَمِدَهٗ أَحَدٌ قَبْلِيْ مِثْلَهَا وَلَا يَحْمَدُ أَحَدٌ بَعْدِيْ ثُمَّ أُخْرِجُ مِنْهَا مَنْ قَالَ : لَا اِلٰهَ إِلَّا الله) ) ، ملخّصاً ( 3) ۔ میں جہنم کا دروازہ کھلوا کر تشریف لے جاؤں گا وہاں خُدا کی تعریف کروں گا ، ایسی نہ مجھ سے پہلے کسی نے کی ، نہ میرے بعد کوئی کرے پھر دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال لوں گا جس نے خالص دل سے لَا اِلٰهَ إِلَّا الله کہا ۔ ( خلاصَۂ حدیث ۔ ت)
حدیث ۱۵ :
حاکم بافادۂ تصحیح اور طبرانی و بیہقی حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، حضورشَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( يُوْضَعُ لِلْاَنْبِيَاءِ مَنَابِرُ مِنْ ذَهَبٍ فَيَجْلِسُوْنَ عَلَيْهَا وَيَبْقٰی مِنْبَرِيْ لَا أَجْلِسُ عَلَيْهِ أَوْ لَا أَقْعُدُ عَلَيْهِ قَائِمًا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّي مَخَافَةَ أَنْ يُبْعَثَ بِیْ إِلَی الْجَنَّةِ وَيَبْقٰی أُمَّتِيْ بَعْدِيْ فَأَقُوْلُ : يَارَبِّ أُمَّتِيْ أُمَّتِيْ فَيَقُوْلُ اللہُ عَزَّوَجَلَّ : يَا مُحَمَّدُ مَا تُرِيْدُ أَنْ أَصْنَعَ بِأُمِّتِكَ؟ فَأَقُوْلُ : يَا رَبِّ عَجِّلْ حِسَابَهُمْ فَمَا أَزَالُ أَشْفَعُ حَتّٰی أُعْطٰی صِکَاکًا بِرِجَالٍ قَدْ بُعِثَ بِهِمْ إِلَی النَّارِ حَتّٰی أَنَّ مَالِکاً خَازِنَ النَّارِ يَقُوْلُ : يَا مُحَمَّدُ مَا تَرَکْتَ لِغَضَبِ رَبِّكَ فِیْ أُمَّتِكَ مِنْ نِقْمَةٍ) ) (1 )
انبیا کے لیے سونے کے منبر بچھائیں گے وہ ان پر بیٹھیں گے ، اور میرا منبر باقی رہے گا کہ میں اس پر جلوس نہ فرماؤں گا (2 ) بلکہ اپنے رب کے حُضور سَر وقَد(3 ) کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو مجھے جنّت میں بھیج دے اور میری امّت میرے بعد رہ جائے ، پھر عرض کروں گا : اے رب میرے ! میری امّت ، میری امّت ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد ! تیری کیا مرضی ہے میں تیری امّت کے ساتھ کیا کروں؟ عرض کروں گا : اے رب میرے ! اِن کا حساب جلد فرمادے ۔ پس میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ مجھے اُن کی رہائی کی چٹھیاں ملیں گی جنہیں دوزخ بھیج چکے تھے یہاں تک کہ مالک داروغَۂ
دوزخ(1 ) عَرْض کرے گا : اے محمد ! آپ نے اپنی اُمت میں رب کا غضب نام کو نہ چھوڑا( 2) ۔
اَللهم صَلِّ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن
( اے اللہ ! درود و برکت نازل فرما اُن پر اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ت)
حدیث ۱۶ تا ۲۱ :
بخاری و مسلم و نسائی حضرت جابر بن عبداللہ ، اور احمد بسندِ حَسَن اور بخاری ’’تاریخ‘‘ میں اور بزّار اور طبرانی و بیہقی و ابونعیم حضرتِ عبداللہ بن عباس اور احمد بسندِ حَسَن و بزّار بسندِ جیّد و دارمی و ابنِ ابی شیبہ و ابویعلیٰ وابونعیم وبیہقی حضرت ابوذر اور طبرانی ’’معجمِ اوسط‘‘ میں بسندِ حضرت ابوسعید خدری اور’’ کبیر‘‘ میں حضرت سائب ابنِ یزید اور احمد باسنادِ حَسَن اور ابنِ ابی شیبہ و طبرانی حضرت ابوموسٰی اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے راوی : وَاللَّفْظُ لِجَابِرٍ( اور لفظ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کردہ حدیث کے ہیں ۔ ت) قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( ( وَأُعْطِيْتُ مَا لَمْ يُعْطَ أَحَدٌ قَبْلِيْ) ) إِلٰی قَوْلِهٖ صَلَّی اللهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( ( وَأُعْطِيْتُ الشَّفَاعَةَ) ) (3 )
( حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ”مجھے وہ کچھ عطا ہوا جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا ۔ “یہاں تک فرمایا کہ ”مجھے شفاعت دی گئی ۔ “ت)
ان چھئوں حدیثوں( 1) میں یہ بیان ہوا ہے کہ حُضورشَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : میں شفیع مقرّر کردیا گیا اور شفاعت خاص مجھی کو عطا ہوگی ، میرے سوا کسی نبی کو یہ منصب
نہ ملا ۔
حدیث ۲۲ و ۲۳ :
ابنِ عباس وابوسعید وا بو موسٰی سے انہیں حدیثوں میں وہ مضمون بھی ہے جو احمد و بخاری و مسلم نے اَنَس اور شیخین نے ابوہُرَیرہ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن) سے روایت کیا کہ حُضورشَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةً قَدْ دَعَا بِهَا فِيْ أُمَّتِهٖ وَاسْتُجِيْبَ لَهٗ) ) (2 ) . وَهٰذَا اللَّفْظُ لِأَنَسٍ وَلَفْظُ أَبِيْ سَعِيْدٍ : ( ( لَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أُعْطِيَ دَعْوَةً فَتَعَجَّلَهَا) ) (3 ) وَلَفْظُ ابْنِ عَبَّاسٍ :
( ( لَمْ يَبْقَ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ سُؤْلَهٗ) ) (1 ) . رَجَعْنَا إِلَی لَفْظِ أَنَسٍ وَأَلْفَاظُ الْبَاقِيْنَ کَمِثْلِهٖ مَعْنًی ، قَالَ : ( ( وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِيْ شَفَاعَةً لِأُمَّتِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) ) ( 2) . زَادَ أَبُوْ مُوْسٰی : ( ( جَعَلْتُهَا لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاﷲِ شَيْئاً) ) ( 3) .
( ”ہر نبی کے لیے ایک خاص دعا ہے جو وہ اپنی امّت کے بارے میں کرچکا ہے اور وہ قبول ہوئی ہے ۔ “ یہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روایت کے ا لفاظ ہیں اور حضرت ابوسعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروِی حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ ”نہیں ہے کوئی نبی مگر یہ کہ اُسے ایک خاص دعا عطا ہوئی جسے اس نے دنیا میں مانگ لیا ، روایتِ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے الفاظ ہیں کہ”کوئی نبی نہ بچا جس کو خاص دُعا عطا نہ ہوئی ہو ۔ “ ہم حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ والی حدیث کے الفاظ کی طرف رجوع کرتے ہیں ، باقی راویوں کے الفاظ معنیٰ کے اعتبار سے اُن ہی کی مِثل ہیں ۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا : ”میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امّت کی شفاعت کے لیے بچا رکھا ہے ۔ “ ابو موسٰی نے اپنی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا کہ میں ہر اُس امّتی کے لیے شفاعت کروں گا جو اس حال پر مَرا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ۔ ت)
یعنی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اگرچہ ہزاروں دُعائیں قَبول ہوتی ہیں مگر ایک دُعا انہیں خاص جناب باری تَبَارَک وَ تَعَالٰی سے ملتی ہے کہ جو چاہے مانگ لو بے شک دیا جائے گا ۔ تمام انبیاء آدم سے عیسٰی( عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) تک سب اپنی اپنی وہ دُعا دنیا میں کرچکے اور میں نے آخرت کے لیے اٹھا رکھی ، وہ میری شفاعت ہے میری امّت کے لیے قیامت
کے دن ، میں نے اسے اپنی ساری امت کے لیے رکھا ہے جو ایمان پر دنیا سے اُٹھی ۔ اَللهم ارْزُقْنَا بِجَاهِهٖ عِنْدَكَ آمِيْن ! ( اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں ان کی اِس وجاہت کے صدقے میں عطا فرما جو اُن کو تیری بارگاہ میں حاصل ہے ۔ ت)
اللہ اکبر ! اے گنہگارانِ اُمّت ! کیا تم نے اپنے مالک و مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی یہ کمالِ رأفت و رحمت اپنے حال پر نہ دیکھی( 1) کہ بارگاہِ الٰہی عَزَّجَلَالُہٗ سے تین سوال حضور کو ملے کہ جو چاہو مانگ لو عطا ہوگا ۔ حضور نے ان میں کوئی سوال اپنی ذاتِ پاک کے لیے نہ رکھا ، سب تمہارے ہی کام میں صَرف فرمادیئے ، دو سوال دنیا میں کیے وہ بھی تمہارے ہی واسطے ، تیسرا آخرت کو اٹھا رکھا(2 ) ، وہ تمہاری اس عظیم حاجت کے واسطے جب اس مہربان مولیٰ رؤف و رحیم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے سوا کوئی کام آنے والا ، بگڑی بنانے والا نہ ہوگا( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) ۔ حق فرما یا حضرت حق عَزَّوَجَلَّ نے :
عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ( ۱۲۸) ( پ۱۱ ، توبه : ۱۲۸)
ترجمۂ کنزالایمان : جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔
وَاللہِ الْعَظِيْم ! قسم اُس کی جس نے انہیں آپ پر مہربان کیا ہر گز ہر گز کوئی ماں اپنے عزیز پیارے اکلوتے بیٹے پر زِنْہار(3 ) اتنی مہربان نہیں جس قدر وہ اپنے ایک ایک اُمّتی پر
مہربان ہیں( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) ۔ الٰہی ! تو ہمارا عجزو ضعف( 1) اور اُن کے حقوقِ عظیمہ( 2) کی عظمت جانتا ہے ۔ اے قادِر ! اے واجِد ! ہماری طرف سے اُن پر اور اُن کی آل پر وہ برکت والی درودیں نازل فرما جو اُن کے حُقوق کو وافِی ہوں اور اُن کی رَحمتوں کو مکافِی (3 ) ۔
اَللهم صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ قَدْرَ رَأْفَتِهٖ وَرَحْمَتِهٖ بِأُمَّتِهٖ وَقَدْرَ رَأْفَتِكَ وَرَحْمَتِكَ بِهٖ آمِيْن آمِيْن اِلٰهَ الْحَقّ ، آمِيْن.
( اے اللہ ! درود وسلام اور برکت نازل فرما آپ پر ، آپ کی آل پر اور آپ کے اصحاب پر جتنا کہ وہ اپنی اُمت پر مہربان اور رحمت والے ہیں اور جس قدر تو اُن پر مہربان اور رحیم ہے ۔ اے معبودِ برحق ! ہماری دُعا قبول فرما ۔ ت)
سُبْحٰنَ اللہ ! امّتیوں نے اُن کی رحمتوں کا یہ مُعاوَضَہ(4 ) رکھا کہ کوئی افضلیت میں تَشْکِیْکِیْں(5 ) نکالتا ہے ، کوئی اُن کی تعریف اپنی سِی جانتا ہے ( 6) ، کوئی اُن کی تعظیم پر بگڑ کرکَرَّاتا( 7) ہے ۔ اَفعالِ محبت کا بدعت نام ، اِجْلال واَدَب پر شرک کے اَحکام( 8) ،
اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِيْم ( بے شک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور ہم کو اُسی کی طرف لوٹنا ہے ، عنقریب ظالم جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹتے ہیں اور اللہ بلند و عظیم کی توفیق کے بغیر نہ تو گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت ۔ ت)
حدیث ۲۴ :
’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت اُبَی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَرْوِی ، حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمفرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے مجھے تین سوال عطا فرمائے ، میں نے دو بار تو دنیامیں عرض کرلی : ( ( اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي) ) الٰہی ! میری اُمت کی مغفرت فرما ، الٰہی ! میری اُمت کی مغفرت فرما ۔ ( ( وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إلَیَّ فِيْهِ الْخَلْقُ حَتّٰی إِبْرَاهِيْم) ) ( 1) اور تیسری عرض اُس دن کے لیے اُٹھا رکھی( 2) جس میں مخلوقِ الٰہی میری طرف نیاز مند(3 ) ہوگی یہاں تک کہ ابراہیم خلیلُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ۔
وَصَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن ( اور دُرود و سلام و برکت نازل فرما اُن پر اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ت)
حدیث ۲۵ :
بیہقی حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، حضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے شبِ اَسریٰ اپنے ربّ سے عرض کی : تو نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو یہ
یہ فضائل بخشے ، رب عَزَّ مَجْدُہٗ نے فرمایا : ( ( أَعْطَيْتُكَ خَيْرًا مِنْ ذٰلِكَ -اِلٰی قَوْلِهٖ : -خَبَأْتُ شَفَاعَتَكَ وَلَمْ أَخْبَأْهَا النَّبِيَّ غَيْرَكَ) ) ( 1) میں نے تجھے جو عطا فرمایا وہ ان سب سے بہتر ہے ، میں نے تیرے لیے شفاعت چھپا رکھی اور تیرے سوا دوسرے کو نہ دی ۔
حدیث ۲۶ :
ابنِ ابی شیبہ و ترمذی بافادۂ تحسین وتصحیح اور ابنِ ماجہ و حاکم بحکمِ تصحیح حضرت اُبَی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی حُضور شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ وَخَطِيْبَهُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ) ) ( 2) قیامت کے دن میں انبیاء کا پیشوااور ان کا خطیب اور ان کا شفاعت والا ہوں اور یہ کچھ فخر کی راہ سے (3 ) نہیں فرماتا ۔
حدیث ۲۷ تا ۴۰ :
ابنِ مَنِیع حضرت زید بن اَرقم وغیرہ چودہ صحابَۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْسے راوی ، حضرت شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں : ( ( شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِهَا لَمْ يَکُنْ مِنْ أَهْلِهَا) ) (4 ) میری شفاعت روزِ قیامت حق ہے جو اس پر ایمان نہ لائے گا اس کے قابل نہ ہوگا ۔
مُنْکِرمسکین( 1) اس حدیثِ مُتَواتر(2 ) کو دیکھے اور اپنی جان پر رحم کرکے شفاعتِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان لائے ۔
اَللهم إِنَّكَ تَعْلَمُ هَدَيْتَ فَاٰمَنَّا بِشَفَاعَةِ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلْنَا مِنْ أَهْلِهَا فِی الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ يَا أَهْلَ التَّقْوٰی وَاَهْلَ الْمَغْفِرَةِ وَاجْعَلْ أَشْرَفَ صَلَوَاتِكَ وَأَنْمٰی بَرَکَاتِكَ وَأَزْکٰی تَحِيَّاتِكَ عَلٰی هٰذَا الْحَبِيْبِ الْمُجْتَبٰی وَالشَّفِيْعِ الْمُرْتَجٰی وَعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ دَائِمًا أَبَدًا ، آمِيْن يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن.
( اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! تو جانتا ہے ، بے شک تو نے ہدایت عطا فرمائی ہے تو ہم تیرے حبیب محمدِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شفاعت پر ایمان لائے ہیں ۔ اے اللہ ! تو ہمیں دُنیا وآخرت میں لائِقِ شفاعت بنادے ۔ اے تقویٰ ومغفرت والے ! اپنا افضل درود ، اکثر بَرکات اور پاکیزہ تحیات بھیج اُس منتخب محبوب پر جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے اور ان کی آل اور اصحاب پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔ اے بہترین رحم فرمانے والے ! ہماری دُعا کو قبول فرما ۔ اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پَروَرْدگار ہے ۔ ت)
________________________________
1 – صحاح : حدیث کی وہ کتابیں جن میں صرف احادیثِ صحیحہ ذکر کرنے کا اِلتزام کیا گیا ہو ، جیسے : صحیح بخاری ومسلم ۔
2 – سنن : حدیث کی وہ کتابیں جن میں ابوابِِ فقہ کی ترتیب پر فقط احادیث ِاحکام جمع کی گئی ہوں ، جیسے : سنن ابوداود ۔
3 – مسانید : حدیث کی وہ کتابیں جن میں ہر صحابی کی مرویات الگ الگ جمع کی جائیں ، جیسے : مسند امام احمد وغیرہ ۔
4 – معاجیم : حدیث کی وہ کتابیں جن میں اسمائے شیوخ کی ترتیب سے احادیث لائی جائیں ، جیسے : معجم طبرانی ۔
5 – جوامع : حدیث کی وہ کتابیں جن میں آٹھ عنوانات کے تحت احادیث لائی جائیں ۔ وہ آٹھ عنوانات یہ ہیں : سیر ، آداب ، تفسیر ، عقائد ، فتن ، احکام ، اشراط ، مناقب ۔ ( تيسیر مصطلح الحدیث ، ص۱۲۸ ، نصاب اصول حدیث ، ص۲۱)
6 – مصنفات : حدیث کی وہ کتابیں جن میں ترتیب ابواب فقہ پر ہو اور احادیثِ مرفوعہ کے ساتھ موقوف ومقطوع احادیث بھی مذکور ہوں ۔ ( جامع الاحادیث ، ۱/۵۶۷)
7 – یعنی ہرزندہ دل سنی ۔
8 – خواتین اور بچے ۔
9 – اَن پڑھ گنوار ۔
10 – 4 یعنی انتہائی اختصار کے ساتھ ۔
11 – 5 اشارہ ۔
________________________________
1 – ترمذی ، کتاب التفسیر ، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل ، ۵/۹۳ ، حدیث : ۳۱۴۸ ۔
2 – شرح الزرقانی علی المواھب ، المقصد الخامس ، النوع الخامس ، ۸/۴۴۸ ( عن مسند الفردوس) ۔
مسند الفردوس ، فصل فی تفسیر القرآن ، ۴/ ۴۰۶ ، حدیث : ۷۱۷۹ ( عن ابن عباس موقوفاً بنحوه) ۔
________________________________
1 – یعنی مولائے کائنات سَیِّدُناعَلِیُّ المرتضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ۔
2 – معجم اوسط ، من اسمہ احمد ، ۱/ ۵۶۰ ، حدیث : ۲۰۶۲ ۔
مسند البزار ، مسند علی بن ابی طالب ، ۲/۲۴۰ ، حدیث : ۶۳۸ ۔
3 – کس چیز ۔
________________________________
1 – بارگاہ ۔
2 – شفاعت کی گزارش ۔
3 – یعنی برے انجام والی حالت بیان ہوئی ۔
4 – یعنی مشرف ۔
________________________________
1 – یعنی واضح ترین طور پر ۔
2 – میدانِ حشر ۔
3 – پ۲۹ ، المعارج : ۴ ۔
4 – مسلم ، کتاب الجنۃ … الخ ، باب فی صفۃ یوم القیامۃ … الخ ، ص۱۱۷۳ ، حدیث : ۷۲۰۶ ۔
5 – پورے دس برس جتنی ۔
6 – مصنف عبد الرزاق ، کتاب الجامع ، باب قیام الساعۃ ، ۱۰/۳۳۸ ، حدیث : ۲۱۰۱۴ ۔
7 – بہت سارا پسینہ ۔
8 – بخاری ، کتاب الرقاق ، باب قول اللہ تعالی : الا یظن اولئک انھم مبعوثون … الخ ، ۴/۲۵۵ ۔
مسند امام احمد ، مسند الشامیین ، ۶/۱۴۶ ، حدیث : ۱۷۴۴۴ ۔
معجم اوسط ، ۱/۵۳۵ ، حدیث : ۵۳۵ ، حلیۃ الاولیاء ، کعب الاحبار ، ۵/ ۴۰۹ ، رقم : ۷۵۴۶ ۔
9 – شفاعت فرمانے والے ۔
10 – 2 جگہ جگہ ۔
________________________________
1 – یعنی صاف انکار ۔
2 – بخاری ، کتاب التوحید ، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الانبیاء وغیرھم ، ۴/ ۵۷۷ ، حدیث : ۷۵۱۰ ، بخاری ، کتاب التوحید ، باب قول اللہ تعالی : لما خلقت بیدی ، ۴/۵۴۲ ، حدیث : ۷۴۱۰ ۔
3 – شور ۔
4 – اپنے اور پَرائے ۔
5 – عزت ۔
________________________________
1 – تاریخ بغداد ، رقم : ۴۱۷ : محمد بن ابراھیم بن محمد بن یزید ، ۱/۴۳۳ ۔
2 – قد وجدناھذہ الروایۃ عن انیس الانصاری ۔
3 – معجم اوسط ، ذکر من اسمہ محمد ، ۴/۱۰۴ ، حدیث : ۵۳۶۰ ۔
انظر مسند امام احمد ، حدیث بریدۃ الاسلمی ، ۹/۷ ، حدیث : ۲۳۰۰۴ ۔
4 – بخاری ، کتاب العلم ، باب الحرص علی الحدیث ، ۱/ ۵۳ ، حدیث : ۹۹ ، مسلم ، کتاب الایمان ، باب اختباء النبی صلی اللہ علیہ وسلم دعوۃ الشفاعۃ لامتہ ، ص۱۰۸ ، حدیث : ۴۹۱ ۔
________________________________
1 – الشفا ، الباب الثالث ، الفصل الاول ، ص۱۷۰ ، الجزء الاول ( عن ابن وھب ) ۔
2 – مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب الفضائل ، ما اعطی اللہ محمداً صلی اللہ علیہ وسلم ، ۱۶/۳۸۷ ، حدیث : ۳۲۲۹۷ ۔
ترمذی ، کتاب المناقب ، باب ما جاء فی فضل النبی ، ۵/۳۵۳ ، حدیث : ۳۶۳۳ ۔
ابن ماجہ ، کتاب الزھد ، باب ذکر الشفاعۃ ، ۴/۵۲۷ ، حدیث : ۴۳۱۴ ۔
مستدرک حاکم ، کتاب الایمان ، اذا کان یوم القیامۃ … الخ ، ۱/۲۵۱ ، حدیث : ۲۴۹ ۔
3 – یعنی بطورِ فخر ۔
4 – جامع صغیر ، حرف الشین ، ص۳۰۱ ، حدیث : ۴۸۹۶ ( عن ابن منیع) ۔
المطالب العالیۃ ، کتاب الفتن ، باب الشفاعۃ ، ۸/ ۶۹۱ ، حدیث : ۴۵۵۵ ۔
________________________________
1 – یعنی انکار کرنے والا بے چارہ ۔
2 – حدیثِ متواتر : وہ حدیث جس کو سَنَد کے ہر طبقہ میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد روایت کرے جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً محال ہو اور سند کی انتہاء اَمرِحِسِّی پر ہو ۔ حدیث کے درجۂ تواتر تک پہنچنے کیلئے چار شرائط ہیں : ( 1) حدیث کے راوی کثیر ہوں ۔ ( 2) یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے یعنی ابتداء سے انتہاء تک راوی کثیر ہوں ۔ ( 3) یہ کثرت اس درجہ کی ہوکہ عادۃً یا اتفاقاً اُن کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو ۔ ( 4) سند کی انتہاء امرِ حسی پر ہو ۔ ( نصاب اصول حدیث ، ص۳۱)