واقعات

کامیاب نومسلم :

کامیاب نومسلم :

حضرت سیِّدُنا عبد الواحد بن زید رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم فقراء کے ایک قافلے کی معیت میں سمندر کے سفر پر نکلے، تیز ہوا چلی اور ہمیں سمندر کے ایک جزیرے کی طرف بہا کرلے گئی۔ ہم نے وہاں ایک شخص کو بُت پرستی کرتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے اس سے پوچھا: ” تم کس کی عبادت کر رہے ہو؟”اس نے اپنی اُنگلی سے بت کی طرف اشارہ کیا۔ ہم نے کہا: ”اے مسکین! ہمارے ساتھ کشتی میں ایک رفیق ہے جو اس طرح کی چیزوں کا بہت اچھا کاری گر ہے اور یہ بت اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے۔”تو وہ کہنے لگا:”پھر تم لوگ کس کی عبادت کرتے ہو؟” ہم نے جواب دیا: ”ہم تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں۔”اس نے پوچھا :”اللہ عَزَّوَجَلَّ کون ہے؟” ہم نے کہا : ”جس کاعرش آسمان پر ہے،جس کی سلطنت زمین میں ہے،جو سمندر کو راستہ بنادیتا ،زندوں اورمردوں میں اسی کا فیصلہ نافذہوتا ہے۔”اس نے پھر پوچھا: ”تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟” ہم نے کہا :”اس نے ہماری طرف اپنا ایک رسول بھیجاجس نے ہمیں یہ سب کچھ بتایا۔” اس نے پھر پوچھا: ”رسول نے کیاکیا؟” ہم نے جواب دیا: ”جب اس نے بادشاہِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کا پیغام مکمل طور پر پہنچا دیا تو اس نے اپنے رسول کو اپنے پاس واپس بلالیا۔”اس نے پھر پوچھا:”کیا اس رسول نے تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی نشانی بھی چھوڑی ہے؟”ہم نے کہا: ”کیوں نہیں، ہمارے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب ہے۔”اس نے کہا :”تو پھر مجھے دکھاؤکیونکہ بادشاہوں کی کتابیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔”
ہم مصحف شریف لائے تو اس نے کہا :”میں پڑھنا نہیں جانتا۔”ہم نے ایک سورت پڑھ کر سنائی تو وہ رونے لگا حتّٰی کہ سورت ختم ہو گئی۔پھر وہ بولا: ”ایسے کلام والے ہی کے لئے زیبا ہے کہ اس کی نافرمانی نہ کی جائے۔”چنانچہ، وہ اسلام کی دولت سے سرفراز ہوگیا،ہم نے اس کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اور اسے احکامِ شریعت اور قرآنِ کریم کی کچھ آیات سکھائیں۔جب رات ہوئی تو ہم نمازِ عشاء پڑھ کر سونے کے لئے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے، اس نے پوچھا: ”اے لوگو! جس معبود کی طرف تم نے میری رہنمائی کی ہے، کیا وہ سوتا ہے؟”ہم نے کہا:”نہیں،وہ زند ہ ہے، قیوم ہے، اُسے نہ اُونگھ آتی ہے، نہ نیند۔”اس نے کہا:”تم کتنے بُرے لوگ ہوکہ تم سوتے ہو اور تمہارا مالک نہیں سوتا۔” ہمیں اس کی یہ بات بڑی پسند آئی۔پھر جب ہم آبادی تک پہنچ گئے اور جدا ہونے کا ارادہ کیاتو ہم نے چند درہم اکٹھے کر کے اسے دئیے اور کہا:”یہ رکھ لیں،ضرورت کے وقت خرچ کر لیجئے گا۔” تو اس نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہنے لگا: ”لَا ۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تم نے جس راستے کی طرف میری رہنمائی کی خود اس پر نہیں چلتے۔ میں سمندر کے ایک جزیرے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر بت کی عبادت کرتا تھا ،اس وقت اس نے مجھے ہلاکت میں نہ ڈالا تو اب کہاں ڈالے گا؟ اب تو مجھے ا س کی معرفت بھی حاصل ہو چکی ہے۔”ہم نے اسے چھوڑ دیا، اور وہ چلا گیا۔

حضرت سیِّدُنا عبدالواحدعلیہ رحمۃاللہ الواحدفرماتے ہیں:”چند دن بعد کسی نے مجھے اس کے متعلق بتایا کہ وہ فلاں جگہ موت کی سختیوں سے دوچار ہے ۔”چنانچہ، میں اس کے پاس گیااورپوچھا:”آپ کو کسی قسم کی حاجت ہو تو فرمائیے؟”اس نے جواب دیا: ”میری سب حاجتیں اس نے پوری کر دی ہیں جس کی میں نے معرفت حاصل کی ہے۔” میں اس سے گفتگو کر رہا تھا کہ اس دوران مجھ پر نیند کا غلبہ ہو گیا۔ میں نے خواب میں ایک باغ دیکھا، جس میں ایک قبہ ہے، اور اس میں ایک ایساتخت ہے جس پر سورج و چاند سے بھی زیادہ خوبصورت چہرے والی حوربیٹھی کہہ رہی ہے: ”میں تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتی ہوں کہ اسے جلدی سے میرے پاس بھیج دو۔” میں بیدار ہوا اور دیکھا تو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔میں نے اس کو کفن دے کر قبر میں دفن کردیا اور جب میں سویا تو خواب میں اسی قبہ کو دیکھا جس کو پہلے دیکھا تھا۔ وہ نو مسلم بھی اس قبہ میں تھا۔حُور اُس کی ایک جانب کھڑی ہوئی تھی اوروہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمانِ عالیشان کی تلاوت کر رہا تھا:

(1) وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ کُلِّ بَابٍ ﴿ۚ23﴾سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ﴿ؕ24﴾

ترجمہ کنزالایمان:اور فرشتے ہر دروازے سے ان پر یہ کہتے آئیں گے سلامتی ہو تم پر تمہارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا ہی خوب ملا۔(پ13،الرعد: 23۔24)
اے میرے اسلامی بھائیو! فقر کی پوشاک زیب ِ تن کئے رکھو،کیونکہ اس پر عزت ووقار کے انوار ہیں۔

(2) وَلَکُمْ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَحِیۡنَ تَسْرَحُوۡنَ ﴿۪6﴾

ترجمہ کنزالایمان:اور تمہاراان ميں تجمل ہے جب ا نہیں شام کوواپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو۔(پ14، النحل:6)
مدینے کے تاجدار، دوعالم کے مالک ومختار بِاذنِ پروردگار عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ”بہت سے پراگندہ سر اور غبار آلود ایسے ہیں جنہیں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی، اگر وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر (کسی بات کی )قسم کھا لیں تو وہ ان کی قسم پوری فرما دے۔”

(جامع الترمذی،ابواب المناقب،باب مناقب البراء بن مالک،الحدیث۳۴۵۴،ص۲0۴۷)

؎ بکھرے بال، آزردہ صورت ہوتے ہیں کچھ اہلِ محبت
بدؔر مگر یہ شان ہے، اُن کی بات نہ ٹالے ربُّ العزَّت

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!