اسلامواقعات

محاسنِ ظاہر ی وبا طنی

محاسنِ ظاہر ی وبا طنی

حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے او صافِ جمیلہ واخلاقِ جلیلہ منجملہ دلائل و ثبوت ہیں ۔چنانچہ آپ کی طلاقت، (  – خوش بیانی۔) آپ کا حسن منظر اور آپ کا اعتدالِ صورت ایسا تھا کہ اپنوں کا تو کیا ذکر، بیگا نے بھی جب رُوئے

مبارک (۱ ) کو دیکھتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے: ھذا الوجہ لیس بوجہ کذاب ( یہ جھوٹے کا چہر ہ نہیں ہے ) ان شمائل کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حسنِ اخلاق وآداب پر غور کریں ۔آپ اُمی تھے، آپ کی ولادت ایسے شہر میں ہوئی جہاں کوئی ذریعۂ تعلیم نہ تھانہ آپ نے کبھی وطن کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جا کر علم حاصل کیا بلکہ اُمیوں ہی میں یتیمی کی حالت میں نشوو نما پا ئی علوم ومعارف سے قطع نظر یہ مکارم اَخلاق اور محاسن آداب آپ نے بجزوحی الٰہی کہاں سے سیکھے۔
الغرض جو شخص بنظر انصاف آپ کی صورت ، آپ کی سیر ت، آپ کے اَفعال اور آپ کے اَحوال کا مطالعہ کرتا ہے اسے آپ کی نبوت کی صحت میں ذر ابھی شک نہیں رہتا کیونکہ جو اَوصاف آپ میں مجتمع تھے وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے یا آپ کے زمانہ میں کبھی کسی میں جمع نہیں ہو ئے اور نہ قیامت تک ہوں گے۔
نصاریٰ کا اعتراض
معجزوں کا اکثر ذکر قرآن میں پایا جاتا ہے مگر کوئی آیت ایسی نظر نہیں آتی جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت محمد صاحب نے معجز ے دکھا ئے ہیں بلکہ بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں معجزے نہ دکھانے کا سبب درج ہے اور بعض ایسی بھی ہیں جن میں وہ صاف ظاہر کر تے ہیں کہ میں معجزے دکھا نے کو نہیں بھیجاگیا۔سورۂ عنکبوت میں یوں مر قوم ہے:
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ (۵۰) (عنکبوت، ع۵)
کہتے ہیں کہ اگر اس کے خدا کی طرف سے کوئی نشانی اس پر نازل نہ ہو گی تو ہم ایمان نہ لائیں گے پس (اے محمد ) آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں خدا کے پاس ہیں میں تو ایک نصیحت کرنے والا ہوں ۔ (۲ )
پھر سورۂ بنی اسر ائیل میں لکھا ہے :
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَؕ-
کوئی چیز ہمیں مانع نہیں ہوئی کہ تجھے معجزوں کے ساتھ بھیجیں مگر یہ کہ اگلے پیغمبر وں کو جو ہم نے معجز ے دے کر بھیجا تھا تو انہیں لوگوں

نے جھٹلا یا۔ (۱ )
اس مضمون کو طو یل کر نا ضروری نہیں اس لئے کہ قرآن کا ہر بے تعصب پڑھنے والا اس قول کی تصدیق کرے گا کہ اکثر محمد ی ( مسلمان ) مصنف معجزوں کا ذکر کر کے محمد صاحب سے منسوب کر تے ہیں مگر یہ بات خود محمد صاحب کی باتوں کے خلاف ہے کہ بالکل قابل اعتبار نہیں ۔ ( خطوط بنا م جوانانِ ہند۔پنجاب رلیجس بک سوسائٹی لود ھیانہ امریکن مشن پریس ۱۸۹۰ئ، صفحہ ۲۴۳۔۲۴۴)
جواب
عیسائی لوگ مسلمانوں پر اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں مگر انہیں اپنے گھر کی بھی خبر نہیں ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے معجزات کی نسبت جو کچھ انا جیل اربعہ (۲ ) میں آیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :
{1} مَتّٰی، ( ۳) باب ۱۲، آیہ ۳۸۔۳۹میں ہے کہ بعض فقیہیوں اور فریسیوں نے مسیح سے ایک نشان طلب کیاجس کے جواب میں آپ نے فرمایا :
’’ اس زمانہ کے بد اور حرامکا ر لوگ نشان ڈھونڈ تے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھا یا نہ جائے گاکیونکہ جیسا یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہے ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔ ‘‘
اسی طرح متی، باب ۱۶، آیہ ۱۔۴ میں ہے کہ فریسیوں اور صدوقیوں (۴ ) نے آزمائش کے لئے حضرت مسیح سے آسمانی نشان طلب کیا مگر یہاں بھی آپ نے وہی جواب دیا کہ یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان انہیں نہ دکھایا جائے گا۔ اگر بنظر غور دیکھیں تو یہ جواب بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ سوال تو آسمانی نشان کا تھا اور جواب میں زمینی نشان کا وعدہ ہوا۔ سوال اَز آسماں جواب اَز رِیسماں ۔ ( ۵) باوجود اس کے اسی انجیل میں مسیح عَلَیْہِ السَّلام سے بہت سے معجز ے منسوب

کیے گئے ہیں چنانچہ پانچ روٹیوں سے چار ہزار آدمیوں کا پیٹ بھر ا ( باب ۱۴، آیہ ۱۵۔۲۱) اور دریاپر اپنے پاؤں سے چلے (باب۱۴، آیہ۲۵) پھر سات روٹیوں سے چار ہزار کو کھلایا (باب۱۵، آیہ ۳۸) پھر دو اندھوں کوبینا کیا (باب ۲۰، آیہ ۳۰۔۳۴) پھر انجیر کے درخت کو سکھا دیا (باب ۲۱، آیہ۱۹) وغیرہ۔ اسی طرح جب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے حضرت مسیح عَلَیْہِ السَّلام سے ان کے اختیار کی بابت پو چھا (باب۱۲، آیہ۲۳۔۲۴) تب بھی آپ نے کچھ صاف جواب نہ دیا۔
{2} مرقس، باب۸، آیہ۱۱۔۱۳ میں ہے کہ فریسیوں نے مسیح کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کرکہا: ’’ اس زمانے کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں میں تم سے سچ کہتاہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہ دیا جائے گا۔ ‘‘
یہاں یو نس نبی عَلَیْہِ السَّلام کے نشان کا کوئی ذکر نہیں ۔بایں ہمہ (۱ ) اس انجیل میں بھی اندھے کو چنگا ( ۲) کرنا، چار ہزار کو سات روٹیوں سے سیر کر نا، کو ڑھی کو چنگا کرنا (۳ ) وغیرہ معجزات حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کی طرف منسوب کیے گئے ہیں ۔
{3} لوقا، ( ۴) باب۱۱، آیہ۱۴۔۱۶و۳۰ میں ہے کہ مسیح نے ایک دیو کو نکالا مگر دیکھنے والوں نے اس معجزے کو تسلیم نہ کیا بلکہ آزمائش کے لئے ایک آسمانی نشان مانگا۔ آپ نے یونس نبی کے نشان کا وعدہ فرمایا۔ اس انجیل میں اور بھی بہت سے معجزات آپ سے منسوب کیے گئے ہیں ۔ مسیح نے ہیرودیس کو کوئی معجزہ نہیں دکھایا حالانکہ ہیر ودیس آپ کے معجزات دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ آپ سے اس نے بہتیری باتیں پو چھیں پر آپ نے کچھ جواب نہ دیا۔
{4} یو حنا، باب۶، آیہ ۳۰میں ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح سے کہا: ’’ پس توکو نسا نشان دکھا تا ہے تاکہ ہم دیکھ کر تجھ پرا یمان لاویں ۔ ‘‘ یہاں بھی حضرت عیسیٰ نے کوئی معجزہ نہیں دکھایابلکہ یونس نبی کے نشان کا بھی وعدہ نہ فرمایا با یں ہمہ اس انجیل میں بھی بہت سے معجزے حضرت مسیح سے منسوب ہیں ۔
اب ہم اس اعتراض کے تحقیقی جواب کی طرف متوجہ ہو تے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی

عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس قدر معجزات دکھائے کہ کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں دکھا ئے۔اور وہ ایسے متواتر و مشہور طریقوں سے ثابت ہیں کہ دنیا کے کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں پا ئی جاتی۔ ( جیسا کہ اس کتاب کے ناظرین پر روشن ہے) مگر کفارِ قریش کے مکابرہ ( ) کا یہ عالم تھا کہ وہ معجزات گو یا ان کے نزدیک معجزے ہی نہ تھے اس لئے سر کشی وعنا دکے سبب انہوں نے اور نشانیاں طلب کیں جو عطا نہ کی گئیں ۔ جن دو آیتوں سے معترض نے استدلال کیا ہے۔ان میں ایسی نشانیوں کے نہ ملنے کی وجہ مذکور ہے جس کی تفصیل ذیل میں درج ہے:
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَؕ-وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَاؕ-وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا (۵۹) ( بنی اسرئیل، ع۶)
ہم کو نہیں روکا نشانیاں بھیجنے سے کسی شے نے مگر یہ کہ جھٹلا یا ان کو اگلوں نے اور ہم نے دی ثمو د کو او نٹنی سو جھانے کو پھر اس کا حق نہ مانا اور ہم نہیں بھیجتے نشانیاں مگر ڈرا نے کو۔ ( )
اس آیت کا خلاصۂ تفسیر یہ ہے کہ باری تعالٰی فرماتا ہے کہ قریش جو باوجود معجزاتِ کثیرہ دیکھنے کے اور نشانیاں (مثلاً کوہِ صفاکا سونا ہو جانا، مکہ کے پہاڑ وں کا دور کیا جانا تا کہ زمین قابل زراعت ہو جائے اور نہر وں کا جاری ہو نا تا کہ با غا ت لگ جائیں ) طلب کرتے ہیں۔ان نشانیوں کے دینے سے ہمیں اس امر ( ) نے روکا ہے کہ اس قسم کی نشانیاں ہم نے پہلی امتوں کو طلب کر نے پر عطا کیں مگر وہ ایمان نہ لا ئے اور ہلاک ہوئے۔ چنانچہ قوم ثمود نے، جن کی ہلاکت کے آثار بو جہ قربِ دِیار، یہ قریش آتے جاتے دیکھتے ہیں ، حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلام سے نشانی طلب کی اور ہم نے ان کی دعا سے پتھر سے اونٹنی نکالی مگر اس قوم نے اس سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ اس کے پاؤں کاٹ ڈالے اس لئے وہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ ہماری عادت یوں ہی جاری ہے کہ ہم کسی قوم کے سوال پر ایسی آیات کو صرف عذابِ استیصال ( ) سے ڈرانے کے لئے بطورِ پیش خیمہ بھیجا کر تے ہیں ۔ اگر وہ قوم ان آیات پر ایمان نہ لائے تو ہم ضروران پر عذابِ استیصال نازل کر دیتے ہیں ۔

اسی طرح اگر کفار قریش کے سوال پر وہ نشانیاں ہمارے حبیب کی دعا سے عطا کی جائیں تو یہ بھی انہیں (۱ ) کی طرح تکذیب کریں گے اور عذابِ استیصال کے مستوجب ( ۲) ہوں گے مگر ہم نے بمقتضائے حکمت (۳ ) اس امت کو عذابِ استیصال سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا ہم نے وہ نشانیاں ان کو عطا نہیں کیں ۔
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ (۵۰) اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠ (۵۱)
اور کہتے ہیں کیوں نہ اتریں اس پر کچھ نشانیاں اس کے رب سے تو کہہ نشانیاں تو ہیں اختیار میں اللّٰہ کے اور میں تو سنا دینے والا ہوں کھول کر کیا ان کو بس نہیں کہ ہم نے تجھ پر اتاری کتاب کہ ان پر پڑھی جاتی ہے۔ بیشک اس میں بڑی رحمت ہے اور سمجھانا ان لوگوں کو جو مانتے ہیں ۔ ( ۴)
ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے: اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے کہ کفارِ قریش باوجود ملا حظۂ آیات (۵ ) سر کشی وعناد کے سبب سے ہمارے حبیب پاک کی نسبت کہتے ہیں کہ ان پر ایسی نشانیاں کیوں نہیں اُتریں جیسا کہ ناقۂ صالح اور عصائے موسیٰ اور مائدۂ عیسیٰ ہیں ۔ اے ہمارے حبیب ! ان کفار سے کہہ دیجئے کہ ایسی نشانیاں اللّٰہ کی قدرت و حکم میں ہیں وہ ان کو حسب مقتضائے حکمت نازل کر تا ہے۔میرا کام تو یہ ہے کہ ان آیات کے ساتھ جو مجھے ملی ہیں کفارکو ڈراؤں نہ یہ کہ وہ نشانیاں لاؤں جو وہ عنادو تعنت سے طلب کر تے ہیں ۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالٰی ان کفار کی تر دید میں جو ایسی نشانیاں
طلب کر تے ہیں یوں فرماتا ہے: کیا ان کو ایک نشانی کا فی نہیں جو تمام نشانیوں سے مستغنی (۱ ) کر دینے والی ہے یعنی قرآن کریم جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے وہ ایک زندہ معجزہ ہے ہر مکان وزمان میں ان پر پڑھا جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے ان کے ساتھ رہے گا۔ اس میں بڑی رحمت اور تذکرہ ہے ایمان والوں کے لئے نہ ان کے لئے جو عنادر کھتے ہیں ۔
اس تقریر سے واضح ہو گیا کہ آیاتِ بالاسے معجزات کی نفی نہیں پائی جاتی بلکہ ان میں باوجودِ کثرتِ معجزات ان خاص نشانیوں کے نہ ملنے کی وجہ بیان ہو ئی ہے جو کفار نے محض عناد سے طلب کیں ۔لہٰذا عیسا ئیوں کا یہ کہنا کہ قرآن میں کوئی آیت نظر نہیں آتی جس سے ثابت ہو کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معجزے دکھائے صرف عنا د پر مبنی ہے وہ اپنے منہ سے بڑا بول بو لتے ہیں ۔ (یہودا ہ، ۱۶)
كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُ جُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْؕ-اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا (۵) (کہف، ع۱)
کیا بڑی بات ہو کر نکلتی ہے ان کے منہ سے سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں ۔ ( ۲)

________________________________
1 – چہرہِ انور۔
2 – ترجمۂ کنزالایمان:اور بولے کیوں نہ اتریں کچھ نشانیاں ان پر ان کے رب کی طرف سے تم فرماؤ نشانیاں تو اللّٰہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں ۔(پ۲۱،العنکبوت:۵۰)۔علمیہ

________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اور ہم ایسی نشانیاں بھیجنے سے یوں ہی باز رہے کہ انہیں اگلوں نے جھٹلایا۔ (پ۱۵، بنی اسرٰء یل:۵۹)۔علمیہ
2 – چاروں انجیلوں ۔
3 – ایک انجیل کا نام۔
4 – حضرت سیدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے دور مبارک کا ایک فرقہ جو قیامت کا منکر تھا۔
5 – کہاوت ہے یعنی سوال کچھ اور جواب کچھ ۔

________________________________
1 – اس کے باوجود۔
2 – ٹھیک یعنی انکھیارا۔
3 – کوڑھی کو اچھا کرنا۔
4 – ایک انجیل کا نام۔

________________________________
1 – غرور و تکبر۔
2 – ترجمۂکنزالایمان:اور ہم ایسی نشانیاں بھیجنے سے یوں ہی باز رہے کہ انہیں اگلوں نے جھٹلایا اور ہم نے ثمود کو ناقہ دیا آنکھیں کھولنے کو تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو۔ (پ۱۵، بنی اسرٰء یل:۵۹)۔علمیہ
3 – بات۔
4 – ایسا عذاب جو انہیں بالکل نیست و نابود کر دے۔

________________________________
1 – مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۚ-اَفَهُمْ یُؤْمِنُوْنَ(۶) (انبیاء، ع۱)نہیں مانا ان سے پہلے کسی بستی نے جس کو ہلاک کیاہم نے اب یہ کیا مانیں گے۔ترجمۂکنزالایمان: ان سے پہلے کوئی بستی ایمان نہ لائی جسے ہم نے ہلاک کیا تو کیا یہ ایمان لائیں گے۔ (پ۱۷،الانبیاء:۶)۔علمیہ
2 – لائق۔
3 – ازروئے حکمت۔علمیہ حکمت یہ کہ ان میں سے بعض ایمان لائیں گے اور بعض کی نسل سے مومن پیدا ہوں گے۔ فافہم۔۱۲منہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور بولے کیوں نہ اتریں کچھ نشانیاں ان پر ان کے رب کی طرف سے تم فرماؤ نشانیاں تو اللّٰہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔ (پ۲۱،العنکبوت:۵۰۔۵۱)۔علمیہ
5 – نشانیاں دیکھنے کے باوجود۔

________________________________
1 – بے نیاز۔
2 – ترجمۂکنزالایمان:کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نِرا جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔ (پ۱۵،الکہف:۵)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!