اسلام

سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتقویٰ

  سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتقویٰ

حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س یَمَن کا (مالِ)خراج آتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُسے بیت المال میں جمع کرا دیتے اور خود تاریکی میں رات گزارتے اور ارشاد فرمایا کرتے، ”جب میں عوام کے معاملات نِپٹانے کے لئے بیدار رہتا ہوں تو بیت المال کا چراغ جلاتا ہوں اور جب اپنے کام کے لئے جاگتاہوں تو ذاتی مال سے چراغ جلاتا ہوں۔”

(الطبقات الکبری لابن سعد،الرقم۹۹۵عمر بن عبد العزیز،ج۵،ص۳۱۱۔۳۱۲۔بتغیرٍ )

منقول ہے کہ ایک مرتبہ یمن کا خراج آیا۔جس میں بارہ( 12) خچر وں پر لدا ہوا عَنبر (عَم ْ۔ بَر) بھی تھا۔پہلے مال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کیاگیا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دیا پھر عنبر لانے کا حکم دیا۔ جب عنبر لایاگیاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ناک بند کر لی اور حکم دیاکہ اس کو بھی بیت المال میں جمع کر دو۔ عرض کی گئی :”حضور! یہ عنبر ہے،یہ خوشبو سونگھنے سے کم نہیں ہوتا۔” تو ارشاد فرمایا: ”اس کی خوشبو ہی سے نفع اٹھایا جاتاہے۔”

(حلیۃ الاولیاء،عمربن عبد العزیز، الحدیث۷۳۹۸، ج۵، ص۳۶0، بتغیرٍ ۔ تاریخ دمشق لابن عساکر،الرقم۵۲۴۲، عمر بن عبد العزیز، ج۴۵،ص۲۱۷، بتغیرٍ۔ سیر اعلام النبلاء، الرقم۶۶۲، عمر بن عبد العزیز،ج۵،ص۵۹۲۔بتغیرٍ)

منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک چمک دار موتی بھیجا اور عرض کی کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس قسم کا ایک اور موتی مجھے بھیج دیں تاکہ میں ان کو اپنے دونوں کانوں میں ڈال سکوں۔ تو

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو انگارے اپنی بیٹی کی طرف بھیجے اور ارشاد فرمایا:” اگر تم اپنے کانوں میں ان دو انگاروں کو ڈالنے کی طاقت رکھتی ہو تو میں تمہاری طرف موتی بھیج دوں گا۔”
حضرت سیِّدُنا عیسیٰ بن سنان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں کہ ”حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی گھر تعمیر نہیں کیا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وجہ پوچھی گئی تو ارشاد فرمایا: ”یہ نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سُنَّتِ مبارکہ ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس حال میں دنیا سے پردہ فرما گئے کہ اینٹ پر اینٹ رکھی نہ سَرکَنڈے (یعنی کانے) پر سَرکَنڈا(یعنی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے کوئی عمارت نہ بنائی)۔

(شعب الایمان للبیھقی،باب فی الزھد وقصر الامل،فصل فی ذم بناء ما لا۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۱0۷۲۶،ج۷،ص۳۹۵)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!