سیِّدُنافضیل بن عیاض کی توبہ:
سیِّدُنافضیل بن عیاض رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی توبہ:
حضرت سیِّدُنافضیل بن عیاض رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا: ”اے فضیل! آپ ڈکیتی سے راہِ ہدایت پر کیسے آئے؟ اور بدبختوں کے گروہ سے نکل کر خوش بختوں کے گروہ میں کیسے شامل ہوئے؟”تو آپ نے جواب دیا:”میں توفیق سے بہت دور اور راہِ ہدایت سے بھٹکا ہوا تھا۔مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے گناہوں کے سمندر سے نکال کر نوازشات و انعامات سے ڈھانپ دیا۔” عرض کی گئی:”یہ کیسے ہوا اور کس طرح راہِ حق آپ کے قریب ہوئی؟” جواب میں فرمایا:”حسب ِ معمول ایک دن میں رہزنی کرنے کے لئے نکلا ، میرے ( برائی پر اُبھارنے والے) نفس نے مجھے شر کی بیڑیاں ڈال رکھی تھیں، زمانے نے مجھے دھوکے میں ڈالا ہوا تھا،شیطان مجھ پر غالب تھا۔ چنانچہ، میں قتل و غارت گری اور سواریوں کو پریشان کرنے چل پڑا۔ میں تاریکی کے پردوں میں چُھپا ہوا آرہا تھا اور راہِ ہدایت کا کوئی دروازہ مجھے معلوم نہ تھا کہ اچانک ہدایت کی توفیق کی جگہ مجھ پر ظاہر ہوئی، وہ یوں کہ ایک قاریئ قرآں اس آیتِ مبارکہ کی تلاوت کررہا تھا:
(1) اَلَمْ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخْشَعَ قُلُوۡبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ
ترجمۂ کنز الایمان :کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لئے۔(پ27، الحدید:16)
میں نے اس کی طرف اپنے کان لگا دیئے۔ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اورمیرے دل کے ہوش اُڑ گئے۔ اسی کا اثر ہے کہ میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کر لیا اور کلامِ باری تعالیٰ کا جواب دیتے ہوئے عرض کی: ”کیوں نہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! وہ وقت آ چکاہے، میرے رحمن کی طرف رجوع کرنے اور نافرمانی سے خوفزدہ ہونے کا وقت آچکا ہے۔
لیکن ڈرنے والے کے لئے امان بھی ضروری ہے۔ پس قرآنِ کریم نے مجھے دائمی امان کی خوشخبری دی:
(2) وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ46﴾
ترجمۂ کنز الایمان :اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ27،الرحمن:46)
پھر میں ڈکیتی سے مُصَلِّے پر آگیا،راہِ شقاوت ترک کرکے سعادت کے راستے پر پلٹ آیا، اس کے قہرِقدرت کا قیدی بن گیا اور اس کے دروازۂ رحمت پر فقیر بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے دروازۂ عزت پر عاجزی و انکساری کا سر جھکا دیااور میں نے عرض کی: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ !تیرا بندہ بھاگے ہوئے غلام کی طرح تیری بارگاہ میں لوٹ آیا ہے اور تیرے گذشتہ فضل وکرم کا طلبگار ہے، صبح میں شکاری بن کر نکلا تھااب خود شکار ہوگیاہوں،قائد بن کر نکلا تھااب مطیع و فرمانبردار بن کر تیرے دروازے پر لوٹ آیا ہوں۔”
(عیون الحکایات ،الحکایۃ الخامسۃ عشرۃ بعد المائتین،توبۃ الفضیل بن عیاض،ص۲۱۲)