اسلامواقعات

زبان مبارک حضور ﷺ

زبان مبارک

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم افصح الخلق تھے اور فصاحت میں خارقِ عادت حد کو پہنچے ہو ئے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جوامع کلم، بدائع حکم، امثال سائرہ، دررمنثورہ، قضایائے محکمہ، وصایائے مبرمہ اور مواعظ ومکاتیب ومناشیر مشہور آفاق ہیں ، ان کی تفصیل کا یہ محل نہیں ۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام تمہارے کلام کی مانند نہ تھا کہ بو جہ عجلت سامع پر مُلْتَبس (3 ) ہو بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام واضح اور مبین ایسا تھاکہ پاس بیٹھنے والا اسے یاد کر لیتا۔ ( 4)
حضرت اُم مَعْبَد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حلیہ شریف بیان کیا ہے اس میں یوں ہے: ’’ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام ( 5) شیریں ، حق وباطل میں فرق کر نے والا، نہ حد سے کم نہ حد سے زیادہ، گویا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام لڑی کے موتی ہیں جو گر رہے ہیں ۔ ‘‘ (6 )
حافظ ابن حجر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (متوفی۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی

حیات شریف میں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کوئی اصم یعنی بہرا نہ تھا اور یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کرامات میں سے ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمان کے لئے احکامِ الٰہی کے مُبَلِّغ تھے اور بہر اپن اس کام کے سہو لت کے ساتھ ہونے سے مانع ہو تا ہے۔ برعکس نا بینا ئی کے کہ وہ مانع نہیں ہو تی۔ (1 )

آواز مبارک

تمام انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوبرو اور خوش آواز تھے مگر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان سب سے زیادہ خوبرو (2 ) اور خوش آواز تھے۔ (3 ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز میں ذر اگرانی پا ئی جاتی تھی جو اَوصافِ حمید ہ میں شمار ہوتی ہے۔ خوش آواز ہو نے کے علاوہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بلند آواز اتنے تھے کہ جہاں تک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز شریف پہنچتی اور کسی کی آواز نہ پہنچتی تھی۔ بالخصوص خطبوں میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز شریف گھر وں میں پر دہ نشین عورتوں تک پہنچ جا تی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر پر رونق افر وز ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حاضر ین سے فرمایاکہ خطبہ سننے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ اس آواز کو حضرت عبد اللّٰہ بن رواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو شہر مدینہ میں قبیلہ بنی غَنَم میں تھے سن لیا اور ار شاد نبوی کی تعمیل میں وہیں اپنے مکان میں دوزانوہو بیٹھے۔ ( 4) حضرت عبد الرحمن بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منیٰ میں خطبہ پڑھاجس سے ہمارے کان کھل گئے یہاں تک کہ ہم اپنی اپنی جگہ پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام مبارک سنتے تھے۔ حضرت ام ہانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ہم آدھی رات کے وقت حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قرأت سنا کر تے تھے حالانکہ میں مکان کے اندر چارپائی پر ہو اکرتی تھی۔ (1 )

خندہ و گریہ مبارک

حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عمومًاتبسم فرمایا کر تے تھے۔ تبسم مبادی ضحک سے ہے اور ضحک کے معنی چہرہ کا انبساط (2 ) ہے یہاں تک کہ خوشی سے دانت ظاہر ہوجائیں ۔ اگر آواز کے ساتھ ہو اور دور سے سنا جائے اسے قَہقَہَہ کہتے ہیں ۔ اگر آواز تو ہو اور دور سے نہ سنا جائے تو ضَحِک کہتے ہیں ۔ اگر بالکل آواز نہ پا ئی جائے تو اسے تبسم بولتے ہیں ۔ پس یوں سمجھئے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثر اوقات تبسم کی حد سے تجاو زنہ فرماتے۔ شاذ و نادر ضحک کی حد تک پہنچتے کیونکہ کثرت ضحک دل کو ہلاک کر دیتی ہے اور قہقہہ کبھی نہ مارتے کیونکہ یہ مکر وہ ہے۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گریہ شریف ضحک کی جنس سے تھاکہ آواز بلند نہ ہو تی تھی مگر آنسو مبارک آنکھوں سے گر پڑتے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سینہ شریف سے دیگ مِسِی ( 3) کے جوش کی سی آواز سنی جاتی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گر یہ مبارک صفت جلالِ الٰہی کی تجلی اور اُمت پر شفقت اور میت پر رحمت کے باعث ہوا کر تا اور اکثرقرآن شریف کے سننے سے اور کبھی کبھی نماز شب میں بھی ہوا کر تا۔ (4 ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انگڑائی کبھی نہیں لی۔

سر مبارک

سر مبارک بڑا تھا۔ یہ وہی سر مبارک ہے کہ جس پر قبل بعثت بطر یق اِرہاص (5 ) وکرامت گرما میں بادل سایہ کیے رہتا تھا۔ چنانچہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مائی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاں پر ورش پارہے تھے تو

وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کسی دور جگہ نہ جانے دیتی تھیں ۔ ایک روز وہ غافل ہوگئیں اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی رضاعی بہن شَیماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ دو پہر کے وقت مو یشیوں میں تشریف لے گئے۔ مائی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا تلاش میں نکلیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شَیماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ پایا۔ کہنے لگیں : ایسی تپش میں ؟ شَیماء بولی: ’’ اماں جان! میرے بھائی نے تپش محسوس نہیں کی، میں نے دیکھاکہ بادل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ کرتا تھا جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ٹھہر جاتے تو بادل بھی ٹھہر جاتا اور جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تو وہ بھی چلتا، یہی حال رہا یہاں تک کہ ہم اس جگہ آپہنچے ہیں ۔ ‘‘ مائی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے پوچھا: بیٹی! کیا یہ سچ ہے؟ شَیماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جواب دیا: ’’ ہاں خدا کی قسم۔ ‘‘ (1 ) اسی طرح جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارہ برس کی عمر شریف میں اپنے چچا ابوطالب اور دیگر شیوخ قریش کے ساتھ ملک شام میں تشریف لے گئے تو بحیرا راہب کے عباد ت خانے کے قریب اترے۔ اس راہب نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہچا ن لیا اور کھانا تیار کرکے لایا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بلوایا۔ پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لا ئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بادل سایہ کیے ہوئے تھا۔ ( 2)

 

گردن مبارک

گردن مبارک کیا تھی گو یا بت عاج (3 ) کی گر دن تھی، چاند ی کی ما نند صاف۔ ( 4 )

 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!