واقعات

چار مقبول لڑکیاں:

چار مقبول لڑکیاں:

حضرت سیِّدُنا محمد بن مروان علیہ رحمۃاللہ المنان، جو فقر و تقویٰ اورپرہیزگاری اختیار کرنے والوں میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں کعبہ مشرَّفہ

زَادَھا اللہُ تعالٰی شرفًا وتکریمًا میں رُکنِ یمانی کے قریب طواف میں مشغول تھاکہ اچانک چار لڑکیوں کو آتے دیکھا ،ان پر مقبولیت کے آثار نمایاں تھے ۔ان میں سب سے بڑی نے غلافِ کعبہ سے لپٹ کر عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:

اِلَیْکَ حَجِّیْ لَا لِلْبَیْتِ وَالْحَجَرْ
وَلَا طَوَافَ بِاَرْکَانٍ وَّلَا جُدُرْ

ترجمہ:میرا حج تو صرف تیرے لئے ہے،نہ بیت اللہ شریف کا،نہ حجرِ اَسود کا، نہ ارکان کا طواف اور نہ ہی دیواروں کا ۔
پھر اس نے اپنے سر کو بلند کر کے عرض کی: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ !تیری محبت نے مجھے مضطرب کر دیا ہے اور میں عشق و محبت میں گرفتار ہو گئی ہوں،اب میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں،یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر میری لغزشوں نے مجھے تیری بارگاہ سے لوٹا دیا تو مجھے میری محبت تیرے دروازے پر کھینچ لائے گی ۔اگر میرے گناہوں نے مجھے تیرے دروازے سے دور کر دیا تو تیرے عفووکرم کی امید مجھے تیرے قریب کر دے گی۔ اگر میری خطاؤں نے مجھے قید کرا دیا توتیری طرف رجوع میں میرا اخلاص مجھے آزاد کرا دے گا۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! مجھے تیرا وصال کب حاصل ہو گا،تیری بارگاہِ جمال تک کب پہنچوں گی ؟اے وحشت زدوں کے دوست! اے محبین کے محبوب ! اے خائفین کو پناہ دینے والے! اے گنہگاروں پر رحم کرنے والے اور اے تائبین کی توبہ قبول فرمانے والے!اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ! مجھ پر اپنی خاص رحمت کا نزول فرما اور میری مغفرت فرما۔”پھر اس نے لمبا سانس لیا اور چند اشعار پڑھے :

اَسْتَغْفِرُ اللہَ مِمَّا کَانَ مِنْ زُلَلِیْ
وَ مِنْ ذُنُوْبِیْ وَتَفْرِیْطِیْ وَاِصْرَارِیْ
یَا رَبِّ ھَبْ لِیْ ذُنُوْبِیْ یَا کَرِیْمُ فَقَدْ
اَمْسَکْتُ حَبْلَ الرَّجَاءِ یَا خَیْرَ غَفَّارِ

ترجمہ:میں اپنے گناہوں ،لغزشوں ،خطاؤں اور گناہ پر اصرار سے مغفرت چاہتی ہوں،اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ ! اے کریم ! میرے گناہوں کی مغفرت فرمادے ، اے بخشنے والے مہربان! میں نے امید کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا ہے۔
پھروہ غمگین و پریشان بیٹھ گئی ۔اور دوسری مضطرب و بے قرار ہوکرگریہ و زاری کرتے ہوئے پکارنے لگی:”اے تمام امیدوں کی انتہائي!اے نیکوں کو نیک اعمال پر ابھارنے والے! اے عارفین کے دلوں میں محبت کی قندیل روشن کرنے والے! اے وحشت زدوں کے انیس!اے دلوں کے طبیب!اے گناہوں کوبخشنے والے!میرا جسم تیری محبت سے پگھل رہا ہے،مجھے تیری بارگاہ میں پیش ہونے سے شرم آتی ہے،اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ! مجھ پر اپنی خاص رحمت کا نزول فرما اور مجھ سے در گزر فرما۔پھروہ اِدھر اُدھرگھومنے لگی اور یہ اشعار پڑھ رہی تھی:

اَتَیْتُکَ اَشْتَکِیْ سُقُمِیْ وَدَآئِیْ
وَعِنْدَکَ یَا مُنٰی قَلْبِیْ دَوَآئِیْ
فَلَآ اَحَدٌ سِوَاکَ اِلَیْہِ اَشْکُوْ
فَیَرْحَمَ عَبْرَتِیْ وَ یَرٰی بُکَآئِیْ
فَیَا مَوْلَی الْوَرٰی جُدْ لِیْ بِعَفْوٍ
وَّمَنٍّ بِنَظْرَۃٍ فِیْھَا شِفَآئِیْ

ترجمہ:میں تیری بارگاہ میں اپنی کمزوری و بیماری کی درخواست لے کر حاضر ہوئی ہوں،اے میرے دل کی آرزو! میرے مرض کی دوا تیرے پاس ہے۔تیرے سوا کوئی نہیں جسے میں اپنی بیماری بتاسکوں اور وہ میری گریہ وزاری کو دیکھے اورمیرے آنسوؤں پر رحم کرے۔اے ساری مخلوق کے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اپنی بخشش وکرم فرما کر مجھ پر احسان فرما ، اورایسی نظرِرحمت فرما دے جس میں میری شفا ہو۔
پھر وہ بیٹھ گئی اور تیسری کھڑی ہوئی ،وہ بھی کافی دیر تک روتی رہی۔ پھر عرض کرنے لگی:”یااللہ عَزَّوَجَلَّ!میرے گناہوں نے مجھے تیرے دروازے سے دُھتکار دیا ہے اور ہمیشہ کی غفلت نے تیری بارگاہ سے دور کر دیاہے ،میں تیرے دروازے پر ذلت و محتاجی کے ساتھ گناہوں اور خطاؤں کی معافی کی آس لگائے کھڑ ی ہوں، میں تیرے عذاب سے فرار ہو کرتیری پناہ میں آ گئی ہوں، پھر اس نے بھی چند اشعار پڑھے،جو یہ ہیں:

بِبَابِکَ رَبِّیْ قَدْ اَنَخْتُ رَکَآئِبِیْ
وَ مَا لِیْ مَنْ اَرْجُوْہ، یَا خَیْرَ وَاھِبِ
سِوَاکَ فَجُدْ لِیْ بِالَّذِیْ اَنْتَ اَھْلُہٗ
لَا ئعْطِیْ مِنَ الْاَفْضَالِ اَسْنَی الْمَوَاھِبِ
اِذَا لَمْ اَمُتْ شَوْقًا اِلَیْکَ وَحَسْرَۃً
عَلَیْکَ فَلَا بَلَغْتُ مِنْکَ مَآرَبِیْ

ترجمہ:اے میرے مالک عَزَّوَجَلَّ!تیرے دروازے پر میں نے ڈیرہ لگا لیا ہے، اے بہتر عطا کرنے والے! تیرے علاوہ میرا کون ہے جس سے میں اُمید رکھوں ، مجھ پراپنی شان کے مطابق جود وکرم فرما اور مجھے اپنا بہترین فضل عطا فرما، اگر میں تیرے شوقِ دیدار اور حسرتِ دیدار میں نہ مری تو اپنے مقصود کو نہ پہنچی۔
اس کے بعد وہ اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہاتے ہوئے بیٹھ گئی۔ اورچوتھی لڑکی روتے ہوئے کھڑی ہوئی، وہ

حسرت کے عالم میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کررہی تھی۔ چنانچہ، اس نے عرض کی : ”یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ! تو نے عبادت و ریاضت کرنے والوں کو حکم دیا کہ وہ تیرے دروازے پر کھڑے ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ میں ان میں سے ہوں یا نہیں۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! اگر معاف کرنا تیری صفت نہ ہوتی توعبادت وکوشش کرنے والے جب گناہوں میں مبتلا ہوتے تو تیری بارگاہ میں نہ آتے۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اگر تو معاف نہ کر سکتا تو میں تجھ سے مغفرت کی امید نہ رکھتی۔بے شک تیری ہی یہ شان ہے کہ تو مجھ پر اپنی وسیع رحمت کے ساتھ کرم فرما سکتا ہے ۔ اے وہ ذات جس سے کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ شئے بھی مخفی نہیں! اے وہ ذات جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں! تو میرے گناہوں کی پردہ پوشی فرما، توہی میرا مطلوب ومقصودہے ۔”پھر اس نے درج ذیل اشعار پڑھے:

تَعَطَّفْتَ بِفَضْلٍ مِّنْکَ یَا مَالِکَ الْوَرٰی
فَاَنْتَ مَلَاذِیْ سَیِدِیْ وَ مُعِیْنِیْ
لَئِنْ اَبْعَدَتْنِیْ عَنْ جَنَابِکَ زَلَّتِیْ
فَاِنَّ رَجَآئِیْ فِیْکَ حُسْنُ یَقِیْنِیْ
وَظَنِّیْ جَمِیْلٌ اِنَّنِیْ مِنْکَ اَرْتَجِیْ
عَوَاطِفَکَ الْحُسْنٰی فَخُذْ بِیَمِیْنِیْ

ترجمہ:اے مخلوق کے مالک عَزَّوَجَلَّ! اپنے فضل سے مجھ پر عنایت کی ہوا چلا دے۔تو میری پناہ گاہ ،میرا مالک اور میری مدد فرمانے والا ہے۔ اگر میری لغزشوں نے مجھے تیری بارگاہ سے دور کر دیا ہے تو کوئی غم نہیں کیونکہ تیرے متعلق مجھے حسنِ ظن ہے۔میرا حسن ظن یہ ہے کہ میں تجھ سے تیرے انعام و اکرام کی اُمید رکھو ں لہٰذا میری دستگیری فرما۔
حضرت سیِّدُنا محمد بن مروان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان کی گفتگو اور دعا سن کر بہت سکون ملا اور ان کے نصیحت بھرے بیانات سے میری آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!