اسلام

۔۔۔۔۔مفعول لہ کا بیان۔۔۔۔۔

مفعول لہ کی تعریف:
    وہ مفعول ہے جو فعل مذکور کے واقع ہونے کا سبب بنے۔ جیسے ضَرَبْتُہ، تَادِیْبًا  (میں نے اسے ادب سکھانے کے لیے مارا)اس مثال میں تَادِیْبًا مفعول لہ ہے جو فعلِ ضرب کے واقع ہونے کاسبب بنا۔ 
مفعول لہ کے چند ضروری قواعد:
    ۱۔مفعول لہ کو مَفْعُوْل لِأَجْلِہٖ بھی کہتے ہیں۔
    ۲۔مفعول لہ کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ایسا مصدر ہوتاہے جو ماقبل فعل کے متعلق سوال کا جواب ہوتاہے۔ جیسے جب یہ کہاجائے ضَرَبْتُہ، (میں نے اسے مارا)تو اگر سوال کیاجائے لِمَاذَا ضَرَبْتَ؟ کہ (تو نے کیوں مارا؟) تو جواب میں تَادِیْبًا کہیں گے۔     
    ۳۔ مفعول لہ منصوب اسی صور ت میں ہوگا جب مصدرہو گا۔ اگر مصدر نہیں ہو گا تو منصوب بھی نہیں ہوگا، جیسے وَالْأَرْضَ وَضَعَھَا لِلْأَنَامِ (اللہ نے زمین کو مخلوق کے لئے بنایا)۔اس مثال میں”للانام” مصدر نہ ہونے کی وجہ سے منصوب نہیں ہے۔        
    ۴۔مفعول لہ کے منصوب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ فعل اور مفعول کا زمانہ ایک ہو نیز دونوں کا فاعل بھی ایک ہی ہو۔اگرایسا نہ ہوتو مفعول لہ منصوب نہیں ہوگا۔ جیسے اَکْرَمْتُکَ الْیَوْمَ لِوَعْدِیْ بِذٰلِکَ أَمْسِ۔  (میں نے آج آپ کی عزت کی کیونکہ کل میں نے اس کا وعدہ کیا تھا) اس مثال میں فعل کازمانہ آج ہے اور مفعول (لوعدی
بذلک أمس) کا زمانہ گذشتہ ہے۔
أَکْرَمْتُہ، لِاکْرَامِہٖ أَخِیْ (میں نے اس کی عزت کی اس لیے کہ اس نے میرے بھائی کی تعظیم کی )اس مثال میں فعل(اکرمت)کا فاعل متکلم ہے جبکہ مفعول لہ (لاکرامہ)کا فاعل غائب ہے ۔لہذا ان دونوں مثالوں میں مفعول لہ منصوب نہیں ہو سکتا۔
     ۵۔اگر مفعول لہ منصوب ہوتو اسے مفعول لہ صریح کہتے ہیں ۔ اور اگر مجرور ہوتو اسے مفعول لہ غیر صریح کہتے ہیں۔ جیسے  ( یَجْعَلُوْنَ أَصَابِعَھُمْ فِیْ أٰذٰانِھِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ) ترجمہ کنز الایمان:” اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں، کڑک کے سبب، موت کے ڈر سے ”۔اس مثال میں حَذَرَ الْمَوْتِ مفعول لہ صریح ہے اورمِنَ الصَّوَاعِقِ مفعول لہ غیر صریح ہے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!