زمین سونابن گئی
زمین سونابن گئی
حضرت سیدنا محمد بن داؤد علیہ رحمۃ اللہ الودود فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا ابو سلیمان مغربی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سنا: ” مَیں رزقِ حلال حاصل کرنے کے لئے پہاڑ سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انہیں بیچ کر اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتا،اس طرح میراگزر بسر ہو تا تھا ۔ مَیں حد درجہ اِحتیاط کرتا کہ کہیں میرے رزقِ حلال میں شبہ والی یا ناجائز چیز شامل نہ ہوجائے۔الغر ض! میں خوب احتیاط سے کام لیتا اور شکوک وشبہات والی چیزوں کو ترک کردیتا ۔
ایک رات مجھے خواب میں بصرہ کے مشہور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی ،ان میں حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی ، حضرت سیدنا فر قد علیہ رحمۃ اللہ الاحد اور حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفار بھی شامل تھے۔
مَیں نے انہیں اپنے حالات سے آگاہ کیااور عرض کی:” آپ لوگ مسلمانوں کے امام و مقتدا ہیں، مجھے رزقِ حلال کے حصول کا کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ جس میں نہ خالق عزوجل کی نافرمانی ہو ،نہ مخلوق میں سے کسی کااِحسان ہو ۔” میری یہ بات سن کر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مقام” طر طوس ”سے دور ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں حلال پر ندو ں کی کثرت تھی۔ ان بزرگو ں نے مجھے یہا ں چھوڑ دیا اور فرمایا:” تم یہاں رہو اور اللہ عزوجل کی نعمتیں کھاؤ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس میں نہ خالق عزوجل کی نافرمانی ہے ،نہ مخلوق میں سے کسی کا احسان۔”
حضرت سیدنا ابو سلیمان مغربی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” میں تقریباً چھ ماہ اس جگہ ٹھہرا رہا، وہاں سے حلال پرندے شکار کرتا، کبھی ان کو بھون کر اور کبھی کچا ہی کھالیتا اور پھر شام کو ایک مسافر خانہ میں جاکر قیام کرتا۔ میری اس حالت سے لوگ باخبر ہوگئے اورجب مَیں مشہور ہو گیا تو لوگ میری عزت کر نے لگے۔ مَیں نے اپنے دل میں سوچا کہ اب یہاں رہنا مناسب نہیں۔
اگرمزید یہاں رہا تو ریا کاری یا غرور و تکبرجیسے فتنوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔چنا نچہ میں نے اس مسافر خانہ میں جانا چھوڑ دیا اور تین ماہ کسی اور جگہ رہائش رکھی۔اب اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے میں اپنے دل کو پاک وصاف اورمطمئن پاتااور میری حالت ایسی ہوچکی تھی کہ مجھے لوگوں کی باتوں سے بالکل اُنس بھی نہ رہا۔
ایک مرتبہ میں مقام” مدیف ” کی طر ف گیا اور راستے میں بیٹھ گیا ۔ اچانک میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو” لامیس ،، سے” طر طوس ”کی جانب جارہا تھا ۔ میرے پاس کچھ رقم تھی جو میں نے اس وقت سے بچا کر رکھی تھی جب میں لکڑیاں بیچا کرتا تھا۔ میں نے سوچا، مَیں تو حلال پرندوں کا گو شت کھاکر گزارہ کر لیتا ہوں،کیا ہی اچھا ہوا گر میں یہ رقم اس مسافر کو دے دو ں تا کہ جب یہ طرطو س شہر میں داخل ہو تو وہاں سے کوئی چیز خرید کرکھالے۔ اس خیال کے آتے ہی میں اس نوجوان کی طرف بڑھا او ررقم کی تھیلی نکالنے کے لئے جیسے ہی میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس مسافرنوجوان کے ہونٹوں نے حرکت کی اور میرے آس پاس کی ساری زمین سونا بن گئی۔ قریب تھا کہ اس کی چمک سے میری آنکھوں کی رو شنی ضائع ہوجاتی، مجھ پر یکدم ایسی وحشت طاری ہوئی کہ میں آگے بڑھ کراسے سلام بھی نہ کر سکا اور وہ وہاں سے آگے گزر گیا ۔پھر کچھ عرصہ بعد اس عظیم نوجوان سے دوبارہ میری ملاقات ہوئی ،وہ طر طوس کے علاقے میں ایک بُر ج کے نیچے بیٹھا تھا او راس کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھا ہوا تھا۔ میں اس کے پاس گیا، سلام کیا اوردرخواست کی:”حضور! مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔” میری اس بات پرنوجوان نے اپنا پاؤں پھیلا یا اوراس برتن کوالٹا دیا جس میں پانی تھا ،سارا پانی بہہ گیا اوراسے زمین نے فوراً جذب کرلیا ۔پھر اس نوجوان نے کہا: ”فضول گوئی نیکیوں کو اس طر ح چو س لیتی ہے جس طر ح خشک زمین پانی کو چُو س لیتی ہے ، پس اب تم جاؤ تمہارے لئے اتنی ہی نصیحت کافی ہے ۔ ”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ میں بے کار با تو ں سے بچ کر ہمیشہ کر وں تیری حمد وثناء یا الٰہی عزوجل !