اسلام

متفقہ فیصلہ وہابیہ کی تردید

متفقہ فیصلہ وہابیہ کی تردید

 اعلیٰ حضرت سیدمقبول احمدشاہ قادری فاضل کشمیری؄  

سنی حضرات جومضمون ’’متفقہ فیصلہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا اس میں مفتی پھلواری، مفتی ویلوری، مفتی حیدرآبادی کے سوا باقی سب متفقہ فیصلہ وہابیوں کا ہے۔اکثرگلابی وہابیہ کا اسمیں حصہ ہے ، بھوپالی وغیرہ تبرائی ہیں اور جمیعۃ لعلما ہند یا دہلی کر کے مشہور ہے یہ بھی انہیں کا مجمع ہے اس میں کوئی سنی عالم نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی سنی مسلمان ان فتوں کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آجائیں۔ خبردار رہیں۔ میں نے وہابیہ کا متفقہ فیصلہ کا خلاصہ ذیل میں لکھ دیا ۔غور سے پڑھیںاور میں دوفتوؤں کو جو استاد اور شاگرد کے ہیں۔ذراتشریح کے ساتھ لکھ دیا۔ وہ اس کوغور سےپڑھیں اور یاد رکھیںپھر ان وہابیوں کی ناک پکڑ کر خوب رگڑدیں۔ وہابی کی تردید کرنے کے لیے ایک معمولی سنی مسلمان کی گھنٹے بھر کی محنت کافی ہےچونکہ وہابیہ کو ایمان کے ساتھ سروکار نہیں ۔ان کو جھوٹ بولنے اور لکھنے میںکمال ہے ۔اسی لیے انہوں نے تین مہینہ کا عرصہ ان کی تردید کے لیے قرار دیا ہے۔
-وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَجو شخص حکم نہیں کرتا موافق اس حکم کے جواللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ۔ایسے لوگ بالکل ہی کافر ہیں۔
وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵)جو شخص حکم نہیں کرتا موافق اس حکم کے جواللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ۔ایسے لوگ بالکل ہی ظالم ہیں۔
وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)جو شخص حکم نہیں کرتا موافق اس حکم کے جواللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ۔ایسے لوگ بالکل ہی فاسق ہیں۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

میں پہلے لکھ چکا تھا کہ ان کا مورد خاص اور حکم عام ہے۔ وہابیہ کہتے ہیں یہ آیۂ کریمہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں مگروہابیہ کوکیا معلوم مورد خاص حکم عام کس بلا کانام ہے۔ مورد خاص یعنی ہروہ شخص کافر اورظالم اور فاسق ہے۔جو اللہ کے نازل کیے ہوئےحکم کے موافق حکم نہیں کرتا مسلمانوں کے نزدیک یہ حکم ہرمسلمان کے لیے قیامت تک جاری رہے گا۔

وہابیہ کے نزدیک یہ حکم صرف یہود کے لیے مخصوص ہے  ساراقرآن مجیدمخصوص مواقع مخصوص ضروریات اورمخصوص لوگوں کے لیے تھوڑا تھوڑا تینتیس سال تک نازل ہوتارہا ۔مگر حکم عام ہے۔سب لوگوں کو شامل تا قیام قیامت ان وہابیہ نے ثابت کردیا۔ یہ قرآن حکیم کا حکم انہیں ضروریات اور انہیں مخصوص لوگوں کے لیے منحصر ہے۔یہ اپنے زعم باطل سے اہل کتاب بھی نہ رہے۔جب قرآن حکیم ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوا جو چودہ سو برس سے پہلے تھے۔ ان وہابیہ کے نزدیک قرآن مجید کے احکام بھی انہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہے۔ان کو آزادی ملی، نہ ان کے لیے روزہ نہ نماز وغیرہ۔یہود ونصاریٰ اہلِ کتاب ہیں مگر یہ ان سے بھی گیے گزرے ہیں ان کے لیے نہ کوئی کتاب نہ احکام کتب جاری ہیں۔ ان کا پیر نیچر ان سےپہلے کہہ چکا اورلکھ چکا احکام قرآن انہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہیں۔ جو لوگ نبی کریمﷺ کے زمانے میں موجودتھے ۔ خصوصاً صحابہ اللہ تعالیٰ نے بصیغۂ جمع حاضرین کو مخاطب کیا۔ وضو اورغسل انہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہیں۔ کیونکہ وہ محنت و مشقت کےسبب سے پسینہ و دھول میں آلودہ رہتے تھے۔ان کے بعد والوں کے لیے نہ قرآن نازل ہوانہ قرآن مجید نے ان کو مخاطب کیا۔ وہابی اس کے چیلے ہیں۔انہوں نے بھی مذکورہ آیتیں صرف یہودہی کے لیے مخصوص کیے ہیں۔اگر یہ بھی قرآن مجید کے احکام کوبصحابہ مخصوص 
کریں تو کوئی تعجب نہیں۔
مسلمانو! یاد رکھو اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ قرآن کے احکام انہیں لوگوں کے لیے ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا۔یا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ قرآن کے احکام صرف صحابہ کے لیے ہیں، ان کے بعد آنے والوں کے لیے نہیں یا یہ عقیدہ مذکورہ بالاآیتیں صرف یہود کے لیے ہیں۔ اگر کوئی اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف دوسرا حکم دے وہ کافر ظالم فاسق نہیں ۔ یہ مذکورہ بالاسب کفریا ت ہیں۔ اس نے سارے قرآن کے احکام پر عمل کرنے سے انکار کیا۔اس نے اللہ رب العزت کے حکم کے خلاف یہ حکم دیا ایسا عقیدہ رکھنے والا اور حکم دینےوالا اسلام سے خارج ہے۔
مسلمانوں کو لازم ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہرگز تعلق نہ رکھیں اپنے ایمان کو بچائیں۔ میں نے مذکورہ بالاآیتیں ان مفتیوں کے زجروتوبیخ کے لیے پیش کی تھیں۔ جنہوں نے اللہ کے حکم کے خلاف اور غلط فتویٰ دیا۔ فاتحہ مروجہ ثابت کرنے کے لیے نہیں۔یہ وہابیہ سمجھ گے فاتحہ مروجہ کے ثبوت کے لیے ہے۔ جب ان کورمغزوں کو معمولی اردو عبارت سمجھنے کا مادہ نہیں تو عربی جملے کو کیا خاک سمجھیں گے۔
خرچہ میدا ند کہ زعفراں چیست


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سنی حضرات اللہ پاک کے نازل کیے ہوے احکام بہت ہیں ۔ان میں سے بعض فرض، مباح ہیں اگرکوئی ان احکاموں میں سے اللہ پاک پرنازل کیے ہوے حکم کے موافق حکم نہیں کرتا۔بلکہ اس کے خلاف حکم دیتا ہے ،اس کے فرض ہونے سے اور مباح ہونے سے انکار کرتا ہے وہ کافر ظالم، فاسق ہے۔ یہودی اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف حکم دینے اور اس کے انکار کرنے سے کافر ہوے جو بیشتر ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار اور توہین کرنے سے کافر ہوچکے تھے۔ پھر کافر بنانا اس کو خوب وہابی ہی سمجھیں گے۔ قرآن پڑھنا اللہ تعالٰی کا نازل کیا ہوا حکم ہے، اس کے پڑھنے کے خلاف حکم دینے والا اس کے پڑھنے کوناجائز کہنے والا وہابیہ کے نزدیک کافر نہیں۔یہ تقسیم وہابیہ کی ٹیڑھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں نے میرے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف حکم دیا وہ کافر ہوئے، اگرکوئی دوسرا میرے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف حکم دے وہ کافر نہیں۔

سنی حضرات اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے حکموں میں سے یہ مندرجہ ذیل اللہ تعالیٰ کانازل کیا ہوا حکم غور سے ملاحظہ کریں۔
۱)اس کتاب کو جو آپ کے طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کیجیے۔ قرآن ترتیل کے ساتھ پڑھا کیجیے۔
۲) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’ پڑھو جو کچھ تم کو آسان ہو قرآن میں سے۔مورد ان کا خاص ہے، حکم عام ہے‘ اس کی تشریح اوپر ہوچکی ہے اس کو خوب یاد رکھو۔
حالتِ جنابت اور حیض و نفاس کے سوا ہر وقت اللہ تعالیٰ کے طرف سے قرآن پڑھنے کا ہم مسلمانوں کو حکم ملا یہ حکم فاتحہ مروجہ اور غیر مروجہ کو بھی شامل ہے۔ کیوں کہ فاتحہ مروجہ قرآن ہی تو ہے ۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

خواہ دن ہو یارات ، نماز سے پہلے ہو یا نماز کے اندر،بعد التزام کے ساتھ ہو یا غیر التزام کے اجتماع کے ساتھ ہو ، یا غیر اجتماع جنازے کی نماز کے پہلے ہو یا جنازے کی نماز کے بعد، میت کے دفن کرنے سے پہلے ہو یا دفن کرنے کے بعد چالیس قدم ہو یا چالیس قدم سے پہلے، ہاں بعض جگہوں میں قرآن پڑھنا فرض ہے، بعض جگہ واجب بعض جگہ میں سنت اور مستحب ہے۔

اللہ تعالیٰ کاحکم ہے مجھ سے دعامانگو میں سنتا ہوں ، قبول کرتا ہوں یہ حکم بھی عام ہے ۔خواہ نماز سے پہلے ہو یا نماز کے بعد اجتماع کے ساتھ یا انفراد کے ساتھ، التزام کے ساتھ ہو یا غیر التزام ، جنازے کی نماز سے پہلے ہو یا جنازے کی نماز کے بعد دفن کرنے سے پہلے یا دفن کرنے کے بعد ہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم مسلمانوں کو حکم ملا قرآن پڑھو  جب ہم قرآن 
پڑھیں گے اور دعا کریں گے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تعمیل کرنے والے ٹھہریں گے ہم کو اجر عظیم اللہ کی طرف سے ملے گا۔افسوس ان مفتیوں کے اوپر! جو یہ کہتے ہیں کہ اس کا پڑھنا التزاماً اور اجتماعاًنبی کریم ﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے ثابت نہیں۔
میں کہتا ہوں اگر یہ اجتماع اور التزام کے ساتھ نبی کریم ﷺ سے اور صحابہ سے اور تابعین سے ثابت ہوتاتو اس کا پڑھنا فرض ہوجاتا۔حالانکہ اس کےفرض کے قائل کوئی نہیں نہ واجب کے قائل نہ سنت مؤکدہ کے قائل ہیں۔ بلکہ اس کو ہم سنی سنت اور مستحب سمجھ کر ہمیشہ التزام اجتماع کے ساتھ پڑھتے ہیں۔فاتحہ مروجہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل درود شریف کو فرداً فرداً نبی کریم ﷺ بیان فرمائے ہیں ان کے پڑھنے والے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے سنت مستحب کے ثبوت کے لیے یہی کافی ہے۔
مفتی کفایت اللہ صاحب مدرسہ امینیہ دہلی النکات شاگرد ضیاء الحق دہلی مفرور محمد شفیع مفتی سابق دیوبند ، مہدی حسن مفتی دیوبند، سعید احمدمفتی سہارنپور، ڈابھیلی لکھنوی ،وانمباڑی پیرم پٹی، رائے چٹی ، بھوپال، لاہوری، یہ سب دیوبندیوں کے متعقد اور مقلد اور اذناب ہیں۔
مذکوربالا مفتیوں کے فتویٰ کا خلاصہ یہ ہے ۔ ان سبھوں نے لکھا فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنا نعوذ باللہ ان میں سے بعض نے بے اصل بے سند بعض نے مکروہ کہا بعض نے بدعت شنیع واجب الترک کہا ہے۔ ان کا یہ حکم اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص حکم نہیں کرتا۔ موافق اس حکم کے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ایسے لوگ بالکل ہی کافر ہی ہیں بالکل ظالم ہیں۔ بالکل ہی فاسق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے طرف سے یہ حکم کفرانِ مفتیوں کے اوپر جاری ہیں اگر کوئی شخص کسی چیز کو بے اصل ناجائز حرام بدعت شنیع کہے۔اس نے اس کے کرنے سے انکار کیا۔یہ کہنے کے بعد وہ اس کو ہرگز نہ کر سکے گا اگر وہ کہے کہ ہم اس فاتحہ پڑھنے سے انکار نہیں کرتے تو عقلمندوں کے نزدیک اس دعویٰ میں وہ جھوٹاہے۔

اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ مسلمات سے ہیں اگر کوئی ایسے نفل یا ایسے مباح کو جس کا ثبوت دلیل قطعی سے ہوانکار کرنے والا کافرہوجاتاہے۔ دیکھ لو حصول وغیرہ کو جناب مفتی صاحب سے گزارش یہ ہے اس وقت مفتی حقیقی نہیں ہیں بلکہ مجازی ہیں یعنی ناقل ہیں۔
لہٰذا آپ کو منقول منہ پیش کرنا  ضرور ہے یعنی وہ کتاب مفتا بہ جس سے آپ نے استفتا کا جواب نقل کیا ہو مادہ قرآن کی آیت یا وہ حدیث رسولﷺ پیش نہ کی۔آپ کے اوپر کفر کا حکم عائد ہوتا ہے کیوں کہ آپ نے نص قطعی کو انکار کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اس کتاب کو جو آپ کی طرف وحی کی گئی پڑھا کیجئے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ قرآن ترتیل کے ساتھ پڑھا کیجیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے پڑھو جو کچھ تم کو آسان ہو قرآن میں سے بحالت جنابت اور حیض ونفاس کے سوا باقی سب حالت میں قرآن پڑھنا جائز ہے۔ اس میں کسی مکان اور زماں کی تخصیص نہیں ہے یہ حکم ہر وقت کو شامل ہے۔خواہ نماز سے پہلے ہو یا نماز کے بعد ہرگز بعض جگہوں میں یانماز کے اندر قرآن پڑھنا فرض ہے۔ بعض جگہوں میں قرآن پڑھنا واجب ہے بعض جگہوں میں سنت اور بعض مستحب ہے۔
انفراداً ہو یا اجتماعاً آہستہ ہویابلند آواز سے فاتحہ غیرمروجہ کو بھی شامل ہے ۔جنازے کی نماز سے پہلے ہو یا جنازے کے بعد کو بھی شامل ہے۔ دفن کرنے کے بعد کو بھی شامل ہے، چالیس قدم کے پہلے ، چالیس قدم کے بعد بھی شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔اللہ تعالیٰ خود اوراس کے فرشتے نبی کریمﷺ کے اوپر درود پڑھتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم بھی ان پر درود پڑھو ۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس میں کسی زماں ومکاں کی تخصیص نہیں اگر آپ نے یہ حکم اپنے اجتہاد سے دیا ہوتو آپ مقلد محض ہیں ۔ آپ اجتہاد کا حق نہیں رکھتے پھر آپ نے اجتہاد کیا۔ اس اجتہاد میں آپ نے غلطی 

کی سید عالم ﷺ نے آپ کے لیے ٹھکانا جہنم قرار دیا ہے۔ مستدرک حاکم اور مسند ابن حبان کی حدیث وغیرہ کو دیکھ لو جس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا جب غیرمجتہد اس اجتہاد سے حکم دے پھر اس اجتہاد میں غلطی کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ آپ نے بڑی غلطی کی نص قطعی کے خلاف کے حکم دیاگیا۔
کیا نبی کریم ﷺ نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل نہیں پڑھا کیا صحابہ نے سورۂ قل نہیں پڑھا اس نہ پڑھنے پر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے۔ کیا آپ کے نزدیک عدم ذکر اور عدم نقل کو عدم وجود مستلزم ہے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہوتے ہوئے ۔زید ۔ عمر کا قول فعل دریافت کرنا۔ کمالِ بے وقوفی ہے اور نشانی گلابی وہابی کی ہے ۔ سنی حضرات مذکور حکم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ اوپر معلوم ہوچکا اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف حکم دینے پر اللہ تعالیٰ نے اس حکم دینے والے کوکافر، ظالمِ فاسق کہا ہے۔ آپ کے فتوی سے یہ ثابت ہوتا ہے ۔ جس چیز کاوجود عہدِ رسالت میں ہووہی جائز ہے۔ جس کا وجود عہدِ رسالت میں نہ ہووہ چیز ناجائز بدعت ہے۔ خواہ عبادت سے ہو یا معاملات سے ۔ لہٰذا دارالافتا مدرسہ امینیہ اسلامیہ دہلی بہت کذابیہ عہدرسالت میں موجود نہ تھا
نہ اس نام کی کوئی جگہ تھی لہٰذا مدرسہ امنیہ بہئیت کذبیہ بدعت کاگھر ہے۔ یہ نام رکھنے والے سب بدعتی ہیں۔اس نام کے پکارنے والے سب کے سب بدعتی ہیں۔ اس میں کام کرنے والے بدعتی ہیں۔ یہ دارالافتا نہ رہا بلکہ دارالبدعت بدعت کا گھر بنا ۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ مسلمات سے ہیں ۔ جو کوئی کسی ایسے نفل کو یا کسی ایسے مباح کو جس کا ثبوت دلیل قطعی سے ہوانکار کرے انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے، دیکھوحصول وغیرہ۔
نبی کریمﷺ کاارشاد ہے تم میں سے بہتر وہ ہے ۔ جو قرآن پڑھتا اور دوسروں کو پڑھتا ہے۔ نبی کریمﷺ کاارشاد ہے۔سورہ فاتحہ تین بار پڑھنے سے ایک پورے قرآن کا ثواب ملتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ شریف کو مقلب بقلب سبع مثانی فرمایا ہے، یہ ایسے اعلیٰ برتر سات آئتیں ہیں کہ بار بار پڑھی جاتی ہیں، باربار پڑھنا اس سورہ شریف کا اللہ تعالیٰ نے صفت ٹھہرایا باربار پڑھنا نماز سے پہلے ہو یا نماز کے اندر یا نماز کے بعد ہو۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا سورۂ قل ثلث قرآن ہے یعنی تیسرا حصہ قرآن کا ہے۔ تین مرتبہ پڑھنے سے پورے قرآن کا ثواب ملتا ہے ۔ طبرانی اور طبقات ابن سعد میں ہے۔ تبوک میں جبرئیل امین رسولﷺ پر نازل ہوےاور خبر دیا ۔ معاویۃ ابن معاویۃ المزنی جن کو لیثی بھی کہتے ہیں۔ انتقال کر گیے آپ دوست رکھتے ہیں کہ آپ اس پر نماز پڑھے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہاں۔ جبرئیل امیں نے ان کی لاش مبارک کونبی کریمﷺ کے سامنے حاضر کیا پھر آپ نے ان کے اوپر نماز پڑھی اور ان کے ہمراہ فرشتوں کی صفیں تھی ہر ایک صف میں ستر ستر ہزار فرشتے تھے ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریمﷺ نے جبرئیل امیں سےپوچھا معاویہ کو اس قدر بڑا درجہ کیوں ملا۔ حضرت جبرئیل نے عرض کی یارسول اللہﷺ یہ سورۂ قل کو بہت دوست رکھتا تھا۔ جاتے وقت آتے وقت کھڑے ہوتے وقت اٹھتے وقت ، بیٹھتے وقت یعنی ہر وقت اس سورۂ شریف کو تلاوت کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا بڑا مرتبہ دیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنازے کی نماز میں میت حاضرہونے کے سوا جائز نہیں ۔میت کا حاضر ہونا یاامام کومیت نظرآنا شرط ہے اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوں یا دونوں میں سے ایک نہ ہو نماز جنازہ جائز نہیں بعض جہلا حنفی وہابیوں کے ساتھ مل کر کبھی جنازے کی نماز میت کے غائب ہونے پرپڑھتے ہیں۔ یہ ہرگز جائز نہیں اگر بلا میت یہ نماز جائز ہوجاتی تو حضرت جبرئیل امین کو میت حاضر کرنے کی ضرورت کیا تھی، اس سے ثابت ہوا یہ نماز میت حاضر ہونے کے سوا جائز نہیں۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نجاشی کا واقعہ اس پر قیاس کروان کی لاش نبی کریم ﷺ کے سامنے حاضر کی گئی تھی یا نبی کریمﷺ اس کی لاش دیکھ رہے 

تھے، امام کادیکھنا مقتدیوں کی نماز کے جواز کے لیے کافی ہے یہاں پرزیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں۔
سبحان اللہ کیا خوش نصیب ہیں وہ مسلمان مرد ومسلمان عورت جو فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل کو ہروقت ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے ہیں۔ مذکوربالاحدیث پر نظر کرنے سے  معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے والوں کو سب سے سے بہتر قرار دیا کیوں کہ فاتحہ مروجہ قرآن ہی تو ہے۔افسوس ہے ان وہابیوں پر جو فاتحہ مروجہ کو بدعت کہتے ہیں۔ فاتحہ مروجہ قرآن یعنی سورۂ فاتحہ اور سورہ قل پڑھنے والے ایسے مقدس جماعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قسم کھاتا ہے قسم ہے مجھے ان لوگوں کی جو قرآن پڑھتے ہیں۔
قرآن مجید کا نام ذکر بھی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے قرآن پڑھنے والے کو ہر حرف کے بدلے میں دس نیکی دس سے ساٹھ تک ساٹھ سے زائد بھی آیا ہے ۔کیا فاسق بدعتی وہ مسلمان ہیں جو فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے کو بدعت شنیع کہتے ہیں، اس کو واجب الترک کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےاور ان کے رسولﷺ نے حکم کہیں نہیںدیا کہ فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل ہروقت پڑھنا یا سب نمازوں کے بعد پڑھنا یا بعض نمازوں کے بعد پڑھنا بدعت شنیع واجب الترک ہیں۔ نہ کسی مجتہد نے یہ حکم دیانہ کسی مفتابہ کتاب میں یہ حکم موجود ہے۔ ان مفتیوں نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کےخلاف یہ حکم دیا ہے اور انہوں نے نصوص قطعی کے خلاف خانہ ساز فتویٰ دیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک قاعدہ کلیہ ہے۔ اگر خبرواحد کتاب اللہ کے مقابلہ میں آجائے تو اگر دونوں کے اوپر عمل کرنا ممکن ہوتو دونوں پرعمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ممکن نہ ہوتو اس خبر واحد کو چھوڑ دیتے ہیں۔کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں ۔جب یہ حال خبرواحد کا ہے بغرض محال اگر قول صحابہ قول ائمہ اسلام جس کی کوئی سند نہ ہو کتاب اللہ کے مقابل میں آجائے وہ کب قابلِ عمل ٹھہرے گا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ان سب کے اوپر حکم کفرعائدہوتا ہے۔خواہ تبرائی ہو یا گلابی  ان کا فتویٰ ہرگز اہل سنت والجماعت کے نزدیک قابل عمل نہیں۔ان سے دریافت کرو یہ مسئلہ جزئیہ کس مفتابہ کتاب میں موجود ہےیعنی فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل پڑھنا بدعت شنیع واجب الترک ہے۔ ہم سنت جماعت کے مسلمان ان دونوں سورتوں کے پڑھنے کو سنت، مستحب جان کر التزاماً اجتماعاً بہ نیت ثواب پڑھتے ہیں۔ مسلمانو! جو کوئی نیک کام کرو التزاماً ہمیشہ کرو ہمیشہ نیک کام کرنا سنت ہے۔

نبی کریمﷺ کی عادت مبارک بھی یہی تھی جب کوئی نیک  کام کرتے تھے ہمیشہ کرتے تھے۔ دیکھو حدیث مسلم کو۔۔
وہابیہ کا یہ کہنا کہ جب کوئی کام نیک التزاماً ہمیشہ کیا جائے۔ لوگ اس کو فرض جاننے لگیں گے اس لیے واجب الترک ہے صد حیف صدافسوس ہے ان وہابیوں پر جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلوب العقل بنا دیا ہم التزاماً رات دن میں بارہ رکعتیں سنت موکدہ پڑھتے ہیں۔ ابتدائے اسلام سے اب تک سب مسلمان التزاماً ان کو پڑھتے آئے اب بھی التزاماً پڑھ رہے ہیں۔ کوئی مسلمان نادان بے علم ان بارہ رکعتوں کو فرض نہیں جانتا۔ جب نبی کریم ﷺ کے ان سنتوں کو فرض نہیں جانتا تو آپ کے یا میرے کسی فعل مستحسن کو کوئی بیوقوف جاہل کیوں فرض سمجھے گا، یہ صرف وہابیوں کو طاعون کی بیماری لگ گئ ہے ۔ یہ ہمیشہ اس میں مبتلا رہیں گے اسی مرض سے اس دنیا فانی سے جائیں گے۔،


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جناب مفتی صاحب!ً گزارش یہ ہے آپ ناقل ہیں حقیقی مفتی نہیں۔ لہٰذا آپ نے استفتا کا جواب جو نقل کیا اس مفتا بہ کتاب کا نام فوراً پیش کریں۔

کفایت اللہ صاحب! فاتحہ مروجہ کا یہ طریقہ جو آپ نے سوال میں ذکرکیا ہے ثابت نہیں۔ میں کہتا ہوں مذکورہ طریقہ کا نہ کر ناکہیں ثابت نہیں۔ عدم ثبوت سے اس کا ناجائز ہونا لازم نہیں آتا ۔ناجائز ہونے کے لیے دلیل پیش کیجیے۔
کفایت اللہ صاحب!سورۂ فاتحہ ایک بار سورۂ اخلاص تین 
باراور پھر بلند آوازسے درود شریف پڑھنے اوراس طرح دعا ختم کرنے کاااور اس کو لازم کرلینے کاثبوت حضورﷺ سےہے نہ صحابہ کرام اورنہ ائمہ اسلام سے میں کہتاہوں مذکورہ طریقہ کے لازم نہ کرنے کاثبوت حضور ﷺ سے نہ صحابہ کرام سے نہ ائمہ اسلام سے ثابت نہیں عدمِ ثابت اسلام میں کوئی دلیل نہیں کیوں عدم ثبوت خوونیست ونابود ہے۔ معدوم محض کسی چیز کے وجود کے لیے نفی کاسبب نہیں بن سکتا۔ علاوہ اس کے آپ کے پاس عدم ثبوت پرثبوت شرعی کیاہے۔ مفتی صاحب عدم ثبوت سے طریقہ مذکورکا ناجائز ہونالازم نہیں آتا۔ اس کے ناجائز ہونے کے لیے دلیل شرعی پیش کیجیے۔
کفایت اللہ صاحب! نماز جمعہ میں سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد کوئی اجتماعی دعا کاکرنا جائز ہے یا ناجائز ۔اس کے ناجائز ہونے کے لیے دلیل شرعی پیش کیجیے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

کفایت اللہ صاحب! نما ز جنازہ خود دعا ہے۔ میں کہتا ہوں نہ غلط ہے ۔ نمازجنازہ من کل وجوہ ۔۔۔نہیں من وجہ دعا ہے۔ من وجہ نماز ہے اور یہ ۔۔۔دعا ہوتی ہے تو بے وضو بھی جائز ہوجاتی ۔۔۔۔ بے وضو جائز نہیں دعا کے لیے وضو شرط نہیں۔ اس نماز جنازہ کے لیے وضو شرط ہے۔

کفایت اللہ صاحب! اس کے بعد اجتماعی دعا ثابت نہیں ، میں کہتا ہوں اس کے بعد کوئی اجتماعی دعا نہ کرنا ثابت نہیں!۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم دعا کرو میں سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ یہ حکم عام ہے ۔ ہر ایک وقت کو شامل ہے خواہ حالت اجتماعی ہویا حالت انفرادی ۔ جنازے کی نماز سے پہلے ہو جنازے کی نماز کے بعد ۔
مفتی صاحب! اجتماعی دعا ثابت نہ ہونے سے اس اجتماعی دعا کاکرنا ناجائز ہونا لازم نہیں آتا۔ ناجائز ہونے کے لیے دلیل پیش کیجیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جب فارغ ہوجاؤ یعنی قرب فرائض سے ٹھہر جاؤ اللہ کی طرف راغب ہو جاؤ بذریعہ قرب نوافل کے یعنی تسبیح، تہلیل، تکبیر، دعا، تلاقت، قرآن وغیرہ سے۔ 
اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ ۔
اس آیۂ کریمہ سے فقہا ومفسرین نے نماز کے بعد دعا کرنے کااستدلال کیا ہے، نماز جنازہ قرب فرائض میں داخل ہے۔اس کے بعد دعا کرنا قرب نوافل سے ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی عبادت اور نماز کے بعد دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتا ہے ، وہ عبادت ہی کیا ہوئی جس سے اللہ ناراض ہوجائے۔ کفار اپنے زعم باطل سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں مگر اللہ ان سے ناراض ہے ۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جنازے کی نماز عبادت ہے اس کے بعد بھی دعا کرنا اللہ کی رضامندی طلب کرنے کےلیے ضروری ہے۔ جولوگ جنازے کی نماز کے بعد دعا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہے ۔ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
وہابی خواہ تبرائی ہو یا گلابی یہ دونوں نماز جنازے کے بعد دعا نہیں کرتے بلکہ حکم دیتے ہیں جنازے کی نماز کے بعد دعاکرنا ناجائز  اور حرام ، بدعت ہے۔ یہ حکم ان کے اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کے خلاف ہے۔ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ مگر یہ ہمیشہ جہنم نہیں رہیں گے اگر ان میں ایمان ہے اگر ایمان نہیں ہے تو یہ بھی ہمیشہ کافروں کی طرح جہنم میں رہیں گے ، اگر کوئی کہے یہ نماز بھی پڑھتے ہیں روزہ بھی رکھتے پھر جہنم میں کیوں جائیں گے ، نماز و روزہ تب کام آجائے جب ایمان ہے ، جب ایمان نہیں تو نماز وروزہ کچھ کام نہیں آتا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نبی کریمﷺ کے زمانے میں منافق نماز پڑھتے تھے۔ جہادوں میں بھی جاتے تھے۔ یہاں تک انہوں نے ایک مسجد بھی بنوائی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے واسطے جہنم کے طبقوں میں سے نچلا طبقہ مقرر کیا ہے کیوں کہ ان کے پاس ایمان نہیں تھا۔

کفایت اللہ صاحب! نے لکھا میت کی تدفین کے بعد اس کی مغفرت کے لیے ہرشخص دعاکرے اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ہے ، مولوی کفایت اللہ صاحب نے وہابیوں کی ناک کاٹ دی ، 
فرداً فرداً دعا کرنے کا حکم دیا وہابی اس کو بدعت کہتے ہیں، میں کہتاہوں کہ تدفین کے بعد کوئی اجتماعی دعا نہ کرنا ثابت نہیں۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ فرداً فرداً دعا کرنا کسی دلیل سے ثابت ہے؟ اور اجتماعی دعا کرنا جائز ہے یاناجائز؟ ناجائز کے لیے دلیل پیش کریں۔
ہر نیک کام کو لازم کرنا ہمیشہ مسنون ہے۔ نبی کریمﷺ جب کوئی نیک کام کرتے تھے ہمیشہ کرتے تھے جوکوئی اس کو نہ کرے اور اس کو جائز کہے اس پر طعن وتشنیع ضرور کرے، واغلظ علیہم کا مصداق ہے کیوں اس نےجائز کو اپنے طرف سے ناجائز کہا ہے۔ یہ وہابی خواہ تبرائی ہو گلابی۔ الفاتحہ کی آواز سنتے ہی ایسے بھاگ جاتے ہیں جیسے شیطان اذان کی آواز سن کر انگلی کانوں میں رکھ کر گوزمارتا ہوا بھاگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مذمت کرتے ہوئے جو قرآن پڑھنے سے قرآن کے اوپر عمل کرنے سے بھاگ جاتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کیا ہوگیا ان کو قرآن سے بھاگتے ہیں جیسے وحشی گدھے شکاری سے یا شیر سے بھاگتے ہیں ، وحشی گدھے شکار ی کو یاشیر کو دیکھ کر بھاگتے ہیں جیسا وحشی گدھا شیر یاشکاری دیکھ کر بھاگتا ہے۔اسلام کے اندر سب احکام آٹھ ہیں ۔اس میں تمام احکام آگئے خواہ عبادت ہو یا معاملات یا عادات فرض، واجب ، سنت موکدہ، مستحب ، مباح ، حرام مکرو ہ تحریمی مکروہ تنزیہی ،بدعت اور شبہ بدعت انہیں میں داخل ہے کوئی نواں قسم علیحدہ نہیں حرام بہ مقابلہ فرض کوآتا ہے۔ ۱) مکروہ تحریمی بمقابلہ واجب کو آتا ہے ۔مکروہ تنزیہی بمقابلہ سنت اور مستحب کو آتا ہے ۔ فرض کے واسطےدلیل موجود ہونا ضروری ہے۔ واجب کے واسطے دلیل ہونا ضروری ہے، سنت موکدہ کے واسطے دلیل موجود ہونا ضروری ہے اور مباح کے واسطے دلیل کی ضرورت نہیںکیون کہ اصل شئے میں اباحت جواز ہے۔
اللہ پاک کا ارشاد ہےاللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جس نے تمہارے فائدے کے لیے ہر وہ چیز جو زمین کے اندر ہے پیدا کیا۔جمیعاً کے ساتھ اس کو تاکید کیا ۔جس چیز کو قرآن مجید نے منع کیا وہ منع جس چیز کو حدیث رسولﷺ نے منع کیا منع ہے۔ جس چیز کے منع ثابت نہیں وہ سب مباح اور جائز ہے مگر وہابیوں کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ ہرگز بدعت سے بچ سکتے نہیں۔ علمائے محققین ماتریدین واشاعرہ سب کا اتفاق اس پر ہے ، ۱) اشیا خباثت، ۲) اشیا مضر،۳) دم، ۴) فروج باقی سب چیزوں کے اندر اباحت جواز ہے۔ یہ سب کتب اصول وفروع میں موجود ہیں آپ کے اور دیوبندیوں اور سہارنپور یوں کے مفتیوں کے تحریر سے ثابت ہوا۔ مباح کوئی چیز نہیں آپ اور ان مفتیوں کے فتویٰ سے شریعت کا بہت بڑا حصہ باطل اور فاسد ہونا لازم آتا ہے۔ چند مثالوں کےساتھ میں اس کو واضح کروں گا ۔ ناظرین باقی چیزوں کو انہیں پرقیاس کریں مثلاً لفظ مفتی اور مولوی کسی نام کے ساتھ ہم سنیوں کے نزدیک لکھنا جائز اور مباح ہے  اور ان مفتیوں سے کوئی پوچھے ان کا لکھنا جائز ہے یا ناجائز َ؟ آپ جواب یہ دیں گے اس کا لکھنا حضور ﷺ کے زمانے سے اور صحابہ کے زمانے سے اور ائمہ اسلام کے زمانے سے ثابت نہیں لہٰذا یہ بدعت شنیع واجب الترک ہے۔ آپ اس کو بدعت بھی کہیں اور آپ اپنے نام کے ساتھ لکھتے بھی رہیں۔ ہم سنیوں کے نزدیک یہ جائز ہے ۔ اگرکوئی آدمی دن کے دس بجے قرآن شریف کی تلاوت چند آدمیوں کے ساتھ التزاماً ہمیشہ کرتے رہیں اور قرآن تلاوت کے بعد چند غربا کوکھانا کھلاتے رہیں اور ان کو چند پیسے بھی تقسیم کرتے رہیں اگر آپ سے کوئی سوال کرے یہ جائز ہے یا ناجائز؟ آپ اور مفتی مذکور بالا یہ جواب دیں گے اس کا کرنا نبی کریمﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ ثابت نہیں۔ لہٰذا بدعت شنیع واجب الترک ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نبی کریمﷺ نے سنت حسنہ کے موجد کے لیے دو اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا۔ آپ کے اور مفتی مذکور کے فتویٰ سے ثابت ہوا یہ حرام ہے۔ ہم سنیوں کے نزدیک ہر ایک میوہ کھانا مباح اور جائز ہے۔
اگرآپ سے کوئی دریافت کرے اخروٹ اور آم کھانا جائز ہےیا ناجائز ؟ آپ اور مفتی مذکور یہ جواب دیں گے ۔ اس کا کھانا نبی کریمﷺ سے اور صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ ثابت نہیں۔لہٰذا حرام واجب الترک ہے آپ اس کو حرام بھی کہیں اور کھاتے بھی رہیں۔ ہم سنیوں کے نزدیک ہر غذا حلال کھانا جائز ہے۔ اگر آپ سے کوئی بنگلوری سوال کرے یہاں ایک غلہ جس کو غیر مسلم راگی کہتے ہیں مسلمان بھی راگی بولتے ہیں اس کا کھانا جائز ہے یا ناجائز؟ آپ اور مفتی مذکور یہ جواب دیں گے نبی کریم ﷺسے، صحابہ، ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ اس کا کھانا ثابت نہیں۔ لہٰذا حرام واجب الترک ہے آپ لوگوں نے مسلمانوں کے اوپر راستہ بہت تنگ کردیا مسلمانوں کو حرج میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میں نے تمہارے دین میں ہرج اور تنگی پیدا نہیں کیااب بتلاؤ مباح تمہارے نزدیک کیا چیز ہے۔ حضور نبی کریمﷺ سے اجتماعی دعا کرناجنازے کی نماز پڑھنے کے بعد ثابت ہے ۔ مغازی واقدی میں ہے ۔ غزوہ موتہ میں جب مسلمانوں کورومیوں کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ نبی کریمﷺ مدینہ طیبہ میں منبر شریف پررونق افروز ہوئے نبی کریم ﷺ پر مدینہ سے لے کر سارا ملک شام موتہ جنگ کے جگہ سینکڑوں میل کا فاصلہ منکشف ہوا۔ جیسے ہم کسی چیز کو سامنے دیکھ رہے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے منبر سے خبر دی لیا جھنڈا ہاتھ میں زید بن حارث نے ۔ دشمن کے مقابلے میں نکلا یہاں تک کہ شہیدا ہوا پھر نبی کریمﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور دعا کا حکم دیا صحابیوں کو ان کے واسطے دعاکرو۔پھر ارشاد ہوا لیا جھنڈا ہاتھ میں جعفر بن ابی طالب نے دشمنوں کے مقابلے میں نکلا یہاں تک کہ شہیدہوگیے پھر آپﷺ نے اس پر نماز پڑھی اوردعا کی صحابہ کو حکم دیا دعا کرو۔ آپﷺ نے یہ حکم صیغۂ جمع کے ساتھ دیا ہے۔
حضورﷺ نے خود بھی دعا کی آپ ﷺ کے ہمراہ سب صحابہ نے دعا کی یہی اجتماعی دعا ہے۔اصل موجوب کے لیے آتا ہے ۔ اگر قرینہ صاف ہو سنت مستحب مباح کے لیے بھی آتا ہے ۔ افسوس ہے وہابیہ کے اوپر جو یہ کہتے ہیں اجتماعی دعا نماز جنازے کے بعد ثابت نہیں حالاں کہ یہاں پر ابھی وہ شہدا دفن نہیں ہوئے تھے ۔ شہادت ہوتے ہی حضورﷺ نے ان پر نماز پڑھی اور اجتماعی دعا کا حکم دیا کسی مفتابہ کتاب میں نہیں ہے ، جنازے کی نماز پڑھنے کے بعد میت کے لیے دعا کرنا حرام بدعت ہے۔ یہ صرف وہابیوں کی بکواس ہے۔جب نبی کریمﷺ سے قولاً و فعلاً جنازے کی نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہوچکا اب اگر کسی زید عمر کا قول اس کے مقابلے میں آجاے ہرگزقابل اعتبار نہ ہوگا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

قبر اگر بغلی ہے تو اس کو اینٹوں کے ساتھ بند کرنا اجماع صحابہ کے ساتھ ثابت ہے۔ نبی کریمﷺ کی لحد شریف کو صحابہ نے کچے اینٹوں کو دہن پر کھڑے کیے تھے اس طور سے کہ مٹی اندرنہ جاے اگربغلی ممکن نہ ہو توشق بنانا جائز ہے۔ اس کو بند کرنا کچے اینٹوں کے ساتھ یا بڑے بڑے سلوں کے ساتھ تختہ دینا ضرورتاً جائز ہے۔ اس طور پر کہ مٹی میت کے اوپر نہ گرجائے۔جہاں تبرائی وہابی میت کے اوپر ہی مٹی ڈالتے ہیں میت کے اوپر مٹی ڈالنا میت کے لیے توہین وتحقیر، تذلیل ہے، اس میں ہندوؤں کے ساتھ مشابہت ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ بھی میت کے اوپر مٹی ڈالتے ہیں۔اور اس کو اینٹوں سے یا پتھروں سے یا تختوں سے بند نہیں کرتے۔ یہ اس کو بدعت شنیع کہتے ہیں۔ صحابہ کاکچے اینٹوں سے نبی کریمﷺ کی قبر شریف کابند کرنا ثابت ہے۔ یہ اجماع قطعی ہے جو چیز اجماع قطعی سے ثابت ہوجائے اس کو بدعت اور اس کو انکار کرنے سے مسلمان کافرہوجاتاہے ۔دیکھو کتب اصول کو اس کو بدعت کہنا خلاف اجماع صحابہ کا ہے۔قبر کے اوپر اونٹ کی پیٹھ کی طرح بنانا مستحب ہے، اسی طرح نبی کریمﷺ کے قبر شریف کواسی طرح جمہور صحابہ نے بنایا تھا۔ادھر کے جہاں تبرائی وہابی اس کو بدعت شنیع کہتے ہیں یہ بھی اجماع قطعی کے خلاف کفر ہے۔ قبر 

کے اوپر پانی چھڑکناامام محمد کے نزدیک کوئی حرج نہیں یعنی جائز ہے۔ جس کو ادھر کے لوگ مہرکرنا کہتے ہیں مہرکرنا بھی جائز ہے۔بیقہی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر میت دفن کرنے کے بعد سورہ بقر کاابتدا کوسورۂ بقر کے اخیر کوقبر پر پڑھنا مستحب جانتے تھے ۔ بیہقی شریف میں ہے اور ابوداؤد شریف میں ہے کہ نبی کریمﷺ جب میت کے دفن کرنے سے فارغ ہوتے تھے قبر پرٹھہرجاتے تھے اور صحابہ کو حکم دیتے تھے اپنے بھائی کے لیے اللہ سے دعا مانگو ۔اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھے اب ان کو سوال ہوتے ہیں وہابی خواہ بترائی ہو یا گلابی اس کو بدعت شنیع واجب الترک کہتے ہیں ۔ دیکھو یہ اجتماعی دعا مانگتے تھے میت کے دفن کرنے کے بعد میت کے لیے دعا کرنا حضوررسول کریمﷺ کے قول و فعل سے ثابت ہے۔ 
مگریہ وہابی خواہ گلابی ہو یا تبرائی بعد دفن کے دعا نہیں کرتے بلکہ اس کو بدعت شنیع کہتے ہیں ہاں کسی فعل مستحسن کواجتماع التزام کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے کرنے سے فرض ہونے کااحتمال تھا۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ نے جب رمضان شریف کے اخیر عشرہ میں جب پہلی رات مسجد میں تشریف لائے لوگ بھی آپ کے ساتھ جمع ہوگیے پھر جب دوسری رات تشریف لائے لوگ زیادہ جمع ہو گیے پھر تیسری رات میں لوگوں کا بہت بڑا مجمع جمع ہوا۔ مسجد کے اندر انتظار میں رہے اور کھنکارتے رہے مگر نبی کریمﷺ تشریف نہ لائے ۔صبح کو جب لوگ نماز کے لئے جمع ہوئے تو نبی کریمﷺ نے عذربیان فرمایا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ارشاد ہوا کہ مجھ کو معلوم ہے کہ آپ لوگ مسجد میں رات نماز کے لیے جمع ہوگیے تھے مگر میں عمداًمسجد میں حاضر نہ ہواْ ۔اس احتمال سے شاید یہ نماز یعنی تراویح تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے کیوں کہ زمانہ نبوت اور وحی کا تھا اب یہ احتمال جاتا رہا۔

 اب نہ زمانہ نبوت اور وحی کاہے نہ صحابہ کا نہ تابعین کا نہ تبع تابعین کا۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا مسلمانوں کے اوپر فرض کرنا وہ فرض کر چکا اب کوئی چیز ہمارے اوپر فرض نہیں ہو سکتی ۔ اگر تمام وہابی خواہ تبرائی ہو یا گلابی ہندی ہو یا سندھی کوہی ہو یا جنگلی کسی چیز کے اوپر التزاماً اجتماع کے ساتھ ہمیشہ کرتے رہیں وہ چیز ان کے اوپر فرض نہ ہوجائے۔
جناب مفتی صاحب ! شاید آپ کے نزدیک عدم ذکر عدم نقل کوعدم وجود لازم ہوگا۔ اس لیے آپ نے ثبوت سے استدلال کیا مگر سب دنیا کے عاقلوںکے نزدیک عدم ذکر عدم نقل کو عدم وجود ہرگز لازم نہیںاور آپ نے عدم علت سے عدم حکم پر استدلال کیا حنفیہ کے نزدیک یہ باطل ہے۔ جب حکم کے لیے متعدد علتیں ہوں قرون ثلاثہ میں کسی فعل مستحسن کاثبوت نہ ملنے پر کسی فعل مستحسن کاناجائز ہونا ہرگز لازم نہیں آتا اول تو قرون ثلاثہ کو جائز اور ناجائز کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں نہ قرون ثلاثہ کسی حکم شرعی کے علت تامہ ہے۔نہ کسی حکم شرعی کے علت  ناقصہ ہے فرض اور واجب اور سنت موکدہ کے سوا نبی کریمﷺ نے جتنے افعال مستحسن اپنی عمر شریف میں کیے ہیں وہ سب کے سب بتمامہ کیا لکھے گیے۔؟ وہ سب کے سب نقل کیے گئے ہیں ؟۔آپ کے پاس اس کا ثبوت ہے۔؟ صحابہ نے جتنے افعال مستحسن کیے ہیں۔ ائمہ اسلام نے کیے۔اس کاثبوت آپ کے پاس کیاہے؟۔ جب اس کے لیے کوئی ثبوت شرعی نہیں پھر یہ کہنا اس فعل مستحسن کا ثبوت نبی کریمﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے ثابت نہیں محض نادانی اور بیوقوفی ہے۔ خواہ یہ امور مستحسن ۔۔۔ترقی کے لیے ہوں یا دنیوی۔ خیر قرون کے بہتر ہونے میں نوراً اعلیٰ نوراً ہونے میں کسی سنی مسلمان کو انکار نہیں اگر صحابہ سے کسی امرحادث پر اجتماع ہو یابعض صحابہ کا امرحادثہ پر ہوبعض کاسکوت رد سے ہو یا کسی امر حادث پر تابعین کا اجماعی ہو یا تابعین کاکسی قول صحابہ پر اجماع ہو یہ سب دلائل شرعی اور دلائل وجود ہی واجب العمل ہیں۔ عدم ثبوت کوئی دلیل ہی نہیں مگراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جوکچھ اس خیر قرون میں موجود تھا جولوگوں نے اس میں کیا تھا۔ وہ سب قابل سند واجب التقلید ہے۔ورنہ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ 


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بدعات قدریہ بدعات جبریہ بدعات معتزلہ بدعات رافضیہ بدعات خارجیہ سب خیرقرون میں موجود تھے؟ یہ سب قابل سند واجب التقلید ہے؟ حالانکہ آپ اس کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے ضرور انکار کریں گے پھر خیرالقرون کو چار اصولوں کی طرح پانچواں اصل گردانا صریحاً لغو اور بیہودہ ہےلہٰذا آپ پر واجب لازم ہے کوئی ایسی دلیل شرعی پیش کریں جس سے یہ ثابت ہوجائے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنا التزاماً اجتماعاً نعوذباللہ بدعت شنیع واجب الترک ہے مگر یہ کسی شرعی دلیل سے آپ ہرگزنہ ثابت کرسکیں گے اگر آپ کے نزدیک جائز اورناجائز کادارومدار خیرقرون ہی پر یعنی جس چیز کا وجود ان قرون میں ہو وہ جائز ہے جس کا وجود ان قرون میں نہ ہو وہ ناجائز خواہ از قسم عبادات ہویا معاملات سے دینی ترقی کے لیے ہے یا دنیاوی میں آپ سے دریافت کرتا ہوںآپ آپ کے اساتذہ اور آپ کے پیرومرشد اور سب دیوبندی اورسہارنپوری اور ان کے اذناب یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ نعوذ باللہ خدا جھوٹ بول سکتا ہے خدا کا جھوٹ بولنا جائز ہے خدا کاجھوٹ بولنا ممکن ہے۔ کیا اس عقیدے والے لوگ قرون ثلاثہ میں تھے ۔کیا نبی کریم ﷺ العیاذ باللہ اس عقیدے کے قائل تھے؟۔ کیا صحابہ ائمہ اسلام اس کے قائل تھے۔ ظاہر ہے ان پیشواے دین میں سے اس عقیدۂ کفریہ کے کوئی قائل نہ تھے۔ پھر آپ اور سب دیوبندی ، سہارنپوری اس کے قائل کیوں ہوئے قائل ہی نہیں بلکہ اس کے ثبوت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔دیوبندیوں نے اور سہارنپوریوں نے اس کے متعلق متعدد رسالے شائع کرائے ہیں اور تبرائی وہابی امرتسری نے چند سال پیشتر اپنے اخبار میں متعدد مرتبہ اس کی اشاعت کرائی ہے۔
افسوس اس کفریات کے عقیدے آپ اور دیوبندیوں کے نزدیک رکھنااور اس کی اشاعت اور تبلیغ کرنا جائز ہے۔ اور فاتحہ مروجہ قرآن سورہ قل پڑھنا ناجائز اور واجب الترک ہے۔ فاالیٰ اللہ المشتکیٰ۔
سنی حضرات !!جو کوئی صفات مذمومہ میں سے کوئی صفت نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرے اس نے االلہ تعالیٰ کی توہین و تحقیر تذلیل کی وہ اسلام سے خارج ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں سے فتویٰ طلب کرنا ہرگز جائز نہیں ان مفتیوں کے اوپر اور ان کے عقیدے کی پیروی کرنے والوں پر بہت سے کفر کے فتوے موجود ہیں۔۱) مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے علما نے ان پر کفر کے فتویٰ دیئے ہیں جس کو جی چاہے ’حسام الحرمین‘ کو دیکھ لے ۔
ان مفتیوں نے اپنے فتوؤں میں گھریلو حکم جاری کیاہے۔ یہ فتویٰ بالکل بے اصل وبے سند ہے، ہرگز قابل عمل کے نہیں۔ (پتہ مولوی محمدابراہیم صاحب کتب فروش اہلِ سنت والجماعت محلہ سودا گران بریلی)۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

امام طحاوی نے حاشیہ درالمختار میں فرمایا جنت میںجانے والی جماعت آج کے دن ان چارمذہبوں میں مجتمع ہوگئی ہیں۔ وہ حنفی مالکی شافعی حنبلی ہیں جوکوئی ان چارمذہبوں سے اس وقت خارج ہے وہ بدعتی جہنمی ہے ۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے بدعتی کی نہ نماز قبول ہے نہ روزہ وغیرہ۔ حدیث دارقطنی میںآیا ہے بدعتی دوزخ کے کتے ہیں کیا دوزخی کتے کے پیچھے نماز جائز ہے۔ ہرگز نہیں۔ لہٰذا ان سنیوں کو لازم ہے کہ وہابی کوامام ہرگز نہ بنائیں  خواہ وہابی عقلی ہو یا اعتقادی، اعتقادی وہابی عملی وہابی سے بدتر ہیں۔ بدعتی فاسق کے پیچھے نماز مکرو تحریمی ہے فاسق اعتقادی بدترہیں ، فاسق عملی سے جتنی نمازیں اس وہابی کے پیچھے پڑھی گئی ہوں ان سب کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور اگر اس امام وہابی نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ  سورۂ قل پڑھنے سے انکار کیا العیاذ باللہ یا اس کو ناجائزکہا توجماعت کثیرہ کے سامنے توبہ اور اس کو دوبارہ کلمہ پڑھنا اس کو اگرنکاح ہو دوبارہ پڑھنا فرض ہے انکار کے بعد جتنے نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئی ہوں۔ ان کا دوبارہ پڑھنا فرض ہے کیوں کہ اس نے ایسی نفل اور مبا ح 

کوانکار کیا۔ جس کا ثبوت دلیل قطعی سے ہو، انکار کرے وہ کافر ہوجاتا ہے ۔ پہلی صورت میں اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی تھی۔ انکار کی صورت میں ان نمازوں کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے۔امام تمرتاشی ذبح کے بارے میں کس کاذبح جائز اور کس کا ذبح ناجائز ۔ تنویر الابصار میں فرماتے ہیں۔ ولا جبری ابوہ سنی ، نہیں ذبح جائز جبری مذہب والے کا جس کا باپ سنی ہو۔ یعنی باپ ان چارمذہبوں میں سےکسی کا متبع اور مقلد تھا بیٹا یہ مذہب چھوڑ کر جبری ہوا۔اس کا ذبح جائز نہیں یہی حکم وہابیہ کا ہے جس کا باپ ان چار مذہبوں میں سے کسی مذہب کامتبع اور مقلد تھا ، بیٹا وہابی ہوا ۔ اس کا ذبح بھی جائز نہیں بلکہ ہربدعتی فرقے کا یہی حکم ہے۔ جن کا باپ ان چار مذہبوں میں سے کسی مذہب کا متبع اور مقلد تھا ۔ بیٹا یہ مذہب چھوڑااسی بدعتی فرقے میں مل گیا کیوں کہ اس وقت ان کی بدعت کفر تک پہنچ گئی۔ یہ اپنی زبان سے کافر بنتے رہتے ہیں مگر ہم ان کو کافر نہیں کہتے خصوصاً فرقہ تبرائی وہابیہ کا ان کا عقیدہ ہے کہ تقلید ائمہ اربعہ کی کفر اور شرک ہے۔ تقلید کرنے والا کافر اور مشرک ہے العیاذ باللہ تمام مسلمان اس طائفہ کے نزدیک کافراور مشرک ہے ۔کیوں کہ تمام دنیا کے مسلمان ائمہ اربعہ کے مقلد ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہی مقلدین ائمہ اربعہ مومن کامل اور مسلمان کامل ہیں ۔ان کو کافر کہنے والاخود کافرہوجاتاہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے اگرکوئی مسلمان کسی مسلمان کو کافر کہے اگر کفر اس میں ہے توخیر ، اگر اس میں کفر نہیں ہے تو یہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ جاتا ہے یعنی کہنے والا کافر ہوجاتا ہے نبی کریمﷺ نے کفر اس تبرائی وہابیہ کی طرف لوٹا دیا ۔جو تقلید کو کفر شرک کہتا ہے اور اس کو نبی کریم ﷺ نےکافرفرمایا۔

امام محمد بن علاؤالدین حصکفی نے تنویرالابصار کے شرح درالمختار میں جبری کا ذبح ناجائز ہونے کی یوں وجہ بیان فرمائی۔
 یہ جبری سنت جماعت چارمذہبوں کے چھوڑنے سے جبری مذہب اختیار کرنے سے مرتد کی طرح ہوا۔ مرتد کا ذبح جائز نہیں گواہلِ کتاب یہودکا ذبح جائز ہے، کیوں کہ وہ مرتد نہیں یہ حکم وہابیہ کابھی ہے۔ جس کاباپ ان چارمذہبوں میں سے کسی مذہب کامقلد تھا سنت جماعت  (چارمذہب) چھوڑنے سے مرتد کی طرح ہوا۔ مرتد کا ذبح جائز نہیں۔ہاں اگر اس وہابی کا بیٹا ذبح کرے بشرطیکہ وہ تقلید ائمہ اربعہ کو کفر و شرک نہ کہتا ہو اور کسی ضروریات دین کاانکار نہ کرتا ہو وہ جائز ہے کیوں کہ وہ مرتد نہیں ہے ۔اپنے باپ کے مذہب پرہے۔ اہلِ کتاب کی طرح وہابی کے بیٹے کا بھی ذبح جائز ہے بشرطیکہ تقلید ائمہ اربعہ کو کفروشرک نہ کہتاہو اور مقلدین کو کافرمشرک نہ کہتا ہو اور کسی ضروریات دین کا انکار نہ کرتا ہو اگر اس کایہ عقیدہ ہے کہ تقلید کرنا ئمہ اربعہ کی کفر وشرک ہے اور تقلید کرنے والے العیاذ باللہ کافرمشرک ہے تو اس کا ذبح جائز نہیں مذکور بالاحدیث میں اس کو کافر قرار دیا ہے ۔ کافر کا ذبح جائز نہیں مذکورہ بالا جو کچھ لکھا گیا پڑھو سمجھو اور یاد رکھو تمہارے لیے بہتر ہوگا ورنہ یہ سب اندھے اور بہرے کے سامنے رونا اور بھینس کے سامنے بین بجانا ہے ۔ جب اس مضمون میں جنازے کی نماز کے متعلق کچھ باتیں ہوئیں لہٰذا میں تبرائی وہابی حضرات سے مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب کی فوراًطلب کررہا ہوں۔ ان سوالوں کے جوابوں کی اشد ضرورت ہے۔نماز جنازہ میں آپ لوگ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھوں کو باندھتے ہو اگرباندھتے ہوتو کہاں پر نبی کریم ﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو اگر ہاتھوں کو چھوڑتے ہوتو یہ نبی کریم کے قول وفعل سے ثابت کرو دوسرے تکبیر میں رفع الیدین کرتے ہو یا نہ کرتے ہوتو نبی کریمﷺ کے قول و فعل سے ثابت کرو ۔ اگر نہیں کرتے ہو نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے نہ کرنا ثابت کرو اس پر قیاس کرکے تیسرے اور چوتھے تکبیر میں یہ سب جو کچھ کرتے ہو نبی کریم ﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو۔
نماز عیدین میں تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھوں کو باندھتے ہو یا 


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

چھوڑتے ہو اگر باندھتے ہوتو کہاں پر باندھتے ہو نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو تکبیرات زوائد میں جب رفع الیدین کرتے ہو پھر ہاتھوں کو باندھتے ہویاچھوڑتے ہو اگر باندھتے ہوتو کہاں پر باندھتے ہو نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو اگر چھوڑتے ہوتو بھی نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو، مذکورہ بالا دونوں نمازوں میں تم یہ سب ضرور کرتے ہو۔ اگر نبی کریم ﷺ کاقول وفعل پیش نہیں کیا۔ توتمہارے نزدیک یہ سب ناجائز حرام بدعت شنیع واجب الترک ہےان چیزوں کو کرنے والا بدعتی ہے بدعتی کی نم نماز مقبول ہے نہ روزہ نہ حج نہ فرض نہ نفل۔ لہٰذا گزارش ہے نبی کریمﷺ کا قول یافعل ضرور پیش کرکے اپنے تبرائی حضرات کوممنون ومشکور فرمائے گا۔ گلابی اورر تبرائی حضرات دونوں مل کر جواب فوراً دیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا اور نبی کریمﷺ  نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا۔ سورۂ فاتحہ سورۂ قل عین قرآن ہے۔ کوئی مسلمان اس کا انکارنہیں کرسکتا۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کرنا فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل پڑھنا تمہارے نزدیک رسم ورواج ٹھہرا۔ تمہارے نزدیک عبادت کیا چیز ہے؟۔رسم کی تعریف جامع اور مانع کیجیے اور عبادت کی تعریف جامع اور مانع کیجیے۔ گلابی گلابیوں پر اور تبرائی تبرائیوں پراحسان کر کے ان کو شکریہ ادا کرنے کا موقع دیجیے۔
تنبیہ :۔ دلائل شرعی کے ساتھ فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل کو العیاذ باللہ ناجائز ثابت کرنے پر ہرگز قادر نہ ہوگا۔ خواہ گلابی ہو یا تبرائی ، غدودی ہو یا مردودی، بہائی ہو یا مودودی ، نیچری ہو چکڑالوی،خاکساری ہو بروزی۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ان کی زبانی بکواس کوگوزِ شتر سمجھ کر ردی کے ٹوکرے میںدفن کر دو ۔ وہابیہ کہتے ہیں اس وقت کے مفتیوں کو مفتیٔ مجازی اور ناقل کہنا ان کی توہین ، تحقیروتذلیل ہے۔ اس جہالت کا کیا علاج ان بے بصروں کو معلوم نہیں کہ مفتی حقیقی کس کو کہتے ہیں اور مفتیِ مجازی کس کو کہتے ہیں۔ نہ یہ لوگ ان لفظوں کوکبھی سنا ہے ۔ان بےخبروں کو لازم تھا کہ کسی جاننے والے سے اس کی تحقیق کریں پھر اپنی جہالت کو جاہلوں میں ظاہر کریں ان کی جہالت ان پر ماتم کرتی ہے اور اس پر ہنسی اور مذاق اڑاتی ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیںجوکسی چیز کو سمجھنے جاننے کے بغیر اس کے خرافات بکتے ہیں۔
صدہا سال گزر گیے مفتی حقیقی دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس کے لیے شرط ہے ۔ شرط نہ ہونے سے مشروط بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت مفتیوں کو مجازی ناقل کہنا اظہارِ حق ہے۔ گالی اور توہین تحقیر نہیں ہے مگر یہ نادان حق کو ناحق ، حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھ گیے ،ایسے لوگ خرد کو جنون، جنون کو خرد سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ انہوں نے ناقل کو ناقابل سمجھے اگر کسی نااہل کاتب صاحب نے ایسا لکھ بھی دیا ہو سمجھ دار آدمی یہی کہے گا یہ کاتب صاحب کی غلطی ہے کیو ں کہ لفطا مجازاور لفط مفتی اور طلب کتاب قرینہ موجود ہے۔ ناقابل کو مفتی کون کہے گااورناقابل سے طلب کتاب کون کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا یہ لوگ بے مغزپوست ہیں ۔ بلکہ پوست برپوست ہم چوں ۔۔۔ہیں گلابی کہتے ہیں کہ ہم وہابی نہیں۔ کیا وہابی کو سینگ ہوتے ہیں یا دم ۔ جس سے پہچانا جائے۔ سینگ اور دم کسی میں نہیں یہ صرف اعتقاد سے معلوم ہوتے ہیں ۔ سنیوں کے خلاف تبرائی اور گلابی ہردو نے بہت سارے رسالے لکھے ہیں۔ ان کو دیکھ کر آپ کو یقین آ جائے گا۔ دور مت جایئے مولوی کفایت اللہ کے رسالوں کو دیکھ لیجئے گا۔ آپ کو معلوم ہو جائے کہ کہیں تیتر بنے کہیں بیٹر گلابی۔ وہابی مقلدیت اور حنفیت کے پردے میں وہابیت کی اشاعت کرتے ہیں ۔ یہ گندم نما جوفروش ہیں۔ عوام ان کی چال چلن پر جلدی واقف نہیں ہوتے۔ گلابی قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ آپ نے یہ بڑاغضب کیا ۔ آپ کو یہ معلوم نہیں ہے۔
ہرایک باطل فرقے نے اپنے زعم باطل سے قرآن 


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

حدیث سے استدلال کرنے کی کوشش کی مثلا مرزا قادیانی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اپنے زعم باطل سے قرآن وحدیث سے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاہلوں کی ایک جماعت اس کے تابع ہوگئی۔ تبرائی وہابیوں نے تقلید ائمہ اربعہ کو کفر وشرک کہا ہے ۔ انہوں نے بھی اپنے زعم باطل سے قرآن حدیث سےا س دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جاہلوں کی ایک جماعت ان کے تابع ہوگئی۔ تبرائی اور گلابی دونوں نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے کواورجنازے کے بعد کی دعا کرنے کو ناجائز ، حرام، بدعت شنیع کہا۔ انہوں نے بھی اپنے زعم باطل سے قرآن حدیث سے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جاہلوں کی ایک جماعت ان کے تابع ہو گئی گلابی اور تبرائی دونوں نے فاتحہ مروجہ، سورۂ فاتحہ، سورۂ قل پڑھنے کو اور جنازے کے بعد کی دعا کرنے کو ناجائز حرام بدعت شنیع کہا ۔ انہوں نے بھی اپنے زعم باطل کوقرآن حدیث سے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جاہلوں کی ایک جماعت ان کے تابع ہوگی۔
سنی علما نے الحمداللہ ان کے دعوؤں کو ان کے دلیلوں کے پرخچے اڑادیئے ہیں۔ ہبا منثوراً کردیا سنی علما نے۔ بکثرت ان کی تردید میں رسالے لکھے ہیں۔ ہر سنی مسلمان کو لازم ہے کہ ان رسالوں کو منگائےاورپڑھے اورسمجھے اپنے ایمان کو مضبوط بنائے۔ وہابیہ اپنے اصول کے اعتبار سے جس میں کسی قسم سے تخصیص نہیں۔ہمیشہ بدعت ہی کے اندر رہیں گے اپنے آپ کو بدعتی ہی کہلائیں گے۔ خواہ دنیاکے ترقی کے گدھے کے اوپر سوار ہو یادنیا کے ذلت کے کیچڑ میں مبتلا ہو۔اس سے ان کو ہرگز نجات نہ ہوگی ۔ بعض ۔۔۔جہلا جو استنجا کرنے سے واقف نہیں مروجہ قرآن سوۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے سے انکار کرتے ہیں العیاذ باللہ ان کے پڑھنے کوناجائز کہتے ہیں ۔ یہ سب کفر ہے ۔ اللہ اور رسولﷺ کے حکم کے خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ نے فاتحہ بہتر فرمایا۔کیوں کہ فاتحہ مروجہ قرآن ہی تو ہے ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ ان بے علم جہلا کو اس کفر سے بچانے کی غرض سے اور حصولِ ثواب کے لیے عبدالرحیم صاحب تاجر ابریشم مقیم ماب ہلی نے اس رسالہ کو طبع کراکر شائع کیا۔ امید ہے یہ بے علم جاہل اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اپنے عقیدہ فاسد کفریہ سے تائب ہو کر یہ کہ سنی مسلمان بن جائیں گے جب مذکورہ بالامفتیوں کے پاس فاتحہ کے ناجائز ہونے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ۔ انہوں نے خانہ سازی فتویٰ جاری کرکے جاہلوں کو گمراہ کیاجاہلوں اور بے علموں کے پاس کیا ثبوت ہوگا۔ اگر یہ ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہیں یہ بھی تبرائی وہابیوں کی طرح مسلمانوں کے درمیان تفریق اور فساد ڈالنے کے سبب مسلمانوں کے نزدیک ہمیشہ ذلیل وخوار رہیں گے۔ہمارے اوپرلازم تھا یہ احکام ان کے پاس پہنچانا وہ ہم پہنچادیئے۔آئندہ ان کو اختیار ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مالک مطبع اور کاتب صاحب کی غفلت سے اس میں بہت سی عبارتیں چھوٹ گئی بعض جگہ میں غلط عبارت لکھی گئی بلکہ بعض جگہوں میں مستقل مضمون چھوٹ گیا۔ لہٰذا ہم نے اخیر صفحہ پر لکھ دیا ۔قارئین اس کو بھی پڑھیں ہم سنیوں کے نزدیک دعا کرنا ہر وقت مباح اور جائز ہے نمازوں کے بعد دعا کرنا سنت اور مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کرنے کے لیے حکم دیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے دعا کرنے کے لیے حکم دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں، نبی کریمﷺ نے دعا کو اصلی عبادت قرار دیاہے۔

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے جوکوئی عبادت اور نماز کے بعد دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتا ہے ۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ حی و کریم ہے۔ شرم رکھتا ہے اس بندہ سے جو اس کی طرف ہاتھ اٹھاکر آجائے تواس کے ہاتھوں کو خالی کرے ۔آداب دعا یہ ہے دعا کے اندر ہاتھ اٹھانا جتنی ضرورت زیادہ رہی اتنے زیادہ دراز کرنا یہاں تک کہ اگر بیچ میں پردہ نہ ہوتو بغلوں کی سفیدی نظرآ جائے۔ورنہ ہاتھوں کو اونچا کرنا اور سینہ کے مقابلے میں رکھنا ۔ہم سنیوں کے نزدیک دعا کرنا اجتماعاً اور انفراداً دونوں طریقے سے جائز ہے ۔ جماعت کے ساتھ دعا کرنا بہتر ہے سبب یہ کہ بعض لوگ جو نیک اور صالح ہوتے ہیں ان کی 
دعا مقبول ہوتی ہے۔ ان کے وسیلے سے دوسروں کی دعا بھی قبول ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ حضور نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے لیے اعلان فرمائے اس وقت حضورﷺ نے اپنے اہل وعیال کو ساتھ نکالے ۔حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین رضوان اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ نے ۔ان کو فرمایامیں دعا کروں تو تم سب آمین ، آمین کہنا۔ امام جب قوم کے ساتھ دعا مانگے امام کو لازم ہے۔ ضمیر ماضی جمع متکلم کی صیغے کا استعمال کرے اورقوم کو لازم ہےکہ آمین آمین کرتے رہیں ۔ دعا کے وقت میں اپنے مظالم، مصیبت کو ذکر نہ کریں اللہ تعالیٰ سے اپنے دینی دنیوی ترقی و بہتری کے لیے درخواست کریں۔ یہ کتب سنیہ میں موجود ہے، زیادہ لکھنے کی یہاں حاجت نہیں ، وہابیہ کے نزدیک فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنا ناجائز ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نبی کریمﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام اور اجتماع کے ساتھ اس کا پڑھنا ثابت نہیں، وہابیہ کے نزدیک امام کا دعا مانگنا مقتدیوں کا آمین کہنا نبی کریم ﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ ثابت نہیں۔

سوال: کیا نبی کریمﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تھے مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ دعا مانگتے تھے۔ مقتدی آمین آمین کہتے تھے، اس کو ثابت کرو ور نہ تمہارے نزدیک امام کا دعا مانگنا اور مقتدیوں کا آمین آمین کرنا ناجائز حرام بدعت شنیع واجب الترک ہے۔ ہرہر جگہ وہابی خواہ تبرائی ہو یا گلابی امام کے ساتھ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں۔ خصوصاً نماز عصر اور صبح کے بعد امام دعا مانگتے ہیں یہ لوگ آمین آمین کرتے ہیں۔ اپنے اصول کے اعتبار سے اس کو حرام بدعت شنیع بھی کہتے ہیں۔ اور یہ وہابی اس کوالتزم اجتماع کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ گلابی اور تبرائی یہ سب مل کر اپنے عقل پر ماتم کریں جس کو یہ حرام کہتے ہیں اسی کو یہ کرتے بھی ہیں۔
مندرجہ بالا مضمون رسالہ کی صورت میں ۱۳۶۳؁ھ میں شائع ہوا تھا اور جناب کفایت اللہ صاحب کی خدمت میں پہنچا مگر ان سے جواب نہ بن سکا۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!