اسلاماعمال

تیمّم کے احکام و مسائل

تیمّم کا بیان

جس کا وضو نہ ہو، یا نہانے کی ضرورت ہو اور پانی پر قدرت نہ ہو تو وضو اور غسل کی جگہ تیمم کرے، پانی پر قدرت نہ ہونے کی چند صورتیں ہیں :
پہلی صورت: یہ کہ ایسی بیماری ہو کہ وضو یا غسل سے اُس کے بڑھنے یا دیر میں اچھا ہونے کا صحیح اندیشہ ہو چاہے اس نے خود آزمایا ہو کہ جب وضو یا غسل کرتا ہے تو بیماری بڑھتی ہے یا کسی مسلمان پرہیزگار قابل حکیم نے کہہ دیا ہو کہ پانی نقصان کرے گا تو تیمم جائز ہے۔
مسئلہ۱: محض خیال ہی خیال بیماری بڑھنے کا ہو تو تیمم جائز نہیں یوہیں کافر یا فاسق یا معمولی طبیب کے کہنے کا اعتبار نہیں ۔
مسئلہ۲: بیماری میں اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہے اورگرم پانی نقصان نہ کرے تو گرم پانی سے وضو اور غسل ضروری ہے، تیمم جائز نہیں ، ہاں اگر ایسی جگہ ہو کہ گرم پانی نہ مل سکے تو تیمم کرے، یوہیں اگر ٹھنڈے وقت میں وضو یا غسل نقصان کرتا ہے اور گرم وقت میں نقصان نہیں کرتا تو ٹھنڈے وقت تیمم کرے، پھر جب گرم وقت آئے تو آئندہ کے لیے وضو کر لینا چاہیے، جو نماز اس تیمم سے پڑھ لی اِس کے اعادہ کی حاجت نہیں ۔

مسئلہ۳: اگر سر پر پانی ڈالنا نقصان کرتا ہے تو گلے سے نیچے نہائے اور پورے سر کا مسح کرے۔
مسئلہ۴: اگر کسی خاص عضو میں پانی نقصان کرتا ہے اور باقی میں نہیں تو جس میں نقصان کرتا ہے اُس پر مسح کرے اور باقی کو دھوئے۔
مسئلہ۵: اگر کسی عضو پر مسح بھی نقصان کرتا ہو تو اس عضو پر کپڑا ڈال کر اس پرمسح کرے۔
مسئلہ۶: زخم کے کنارے کنارے جہاں تک پانی نقصان نہ کرے پٹی وغیرہ کھول کر دھونا فرض ہے، ہاں اگر پٹی کھولنے میں نقصان ہو تو پٹی پر مسح کرے۔
دوسری صورت: یہ ہے کہ وہاں چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی کا پتا نہیں تو تیمم جائز ہے۔
مسئلہ۷: اگر یہ گمان ہو کہ ایک میل کے اندر پانی ہوگا تو تلاش کرلینا ضروری ہے، بلا تلاش کے تیمم جائز نہیں ، بلا تلاش کیے تیمم کرکے نماز پڑھ لی اور تلاش کرنے پر پانی مل گیا تو وضو کرکے نماز کا اعادہ لازم ہے اور اگر نہ ملا تو ہوگئی۔
مسئلہ۸: نماز پڑھتے میں کسی کے پاس پانی دیکھا اور گمان غالب ہے کہ مانگنے سے دے دے گا تو نماز توڑ کے پانی مانگے۔
تیسری صورت:یہ کہ اِتنی سردی ہو کہ نہانے سے مرجانے یا بیمار ہونے کا قوی اَندیشہ ہو اور نہانے کے بعد سردی کے نقصان سے بچنے کا کوئی سامان بھی نہ ہو تو تیمم جائز ہے۔
چوتھی صورت: یہ کہ دشمن کا خوف ہو کہ اگر دیکھ لے گا تو مار ڈالے یا مال چھین لے گا یا اس غریب نادار کا قرض خواہ ہے کہ اُسے قید کرادے گا یا اس طرف سانپ ہے وہ کاٹ کھائے گا

یا شیر ہے کہ پھاڑ کھائے گا یا کوئی بدکار شخص ہے جو بے آبروئی کرے گا تو تیمم جائز ہے۔
پانچویں صورت: یہ کہ جنگل میں ڈول رسی نہیں کہ پانی بھرے تو تیمم جائز ہے۔
چھٹی صورت :یہ ہے کہ پیاس کا خوف ہو یعنی پانی تو ہے لیکن اگر اس پانی کو وضو یا غسل میں خرچ کردے گا تو یہ خود یا دوسرا مسلمان یا اس کا یا دوسرے مسلمان کا جانور (چاہے جانور ایسا کتا ہی کیوں نہ ہو جس کا پالنا جائز ہے) پیاسا رہ جائے گااور یہ پیاس خواہ ابھی موجود ہو یا آگے چل کر ہوگی کہ راہ ایسی ہے کہ دور تک پانی کا پتا نہیں تو تیمم جائز ہے۔
مسئلہ۹: پانی موجود ہے مگر آٹا گوندھنے کی ضرورت ہے جب بھی تیمم جائز ہے، شوربے کی ضرورت کے لیے تیمم جائز نہیں ۔
مسئلہ۱۰: بدن یا کپڑے پر اتنی نجاست ہے کہ جتنی نجاست کے ہوتے ہوئے نمازجائز نہیں اور پانی صرف اتنا ہے کہ چاہے وضو کرے یا نجاست دور کرے تو پانی سے نجاست دھوئے اور پھر دھونے کے بعد تیمم کرے، پاک کرنے سے پہلے تیمم نہ ہوگا، اگر پہلے کرلیا ہے تو پھر کرے۔
ساتویں صورت: یہ کہ پانی مہنگا ہو یعنی وہاں جس بھاؤ بکتا ہے اس سے دو گنادام مانگتا ہے تو تیمم جائز ہے اور اگر دام میں اتنا فرق نہ ہو یعنی دونے سے کم میں ملے تو تیمم جائز نہیں ۔
مسئلہ۱۱: پانی مول ملتا ہے اور اس کے پاس حاجت ضروریہ سے زیادہ دام نہیں تو بھی تیمم جائز ہے۔
آٹھویں صورت: یہ کہ پانی تلاش کرنے میں قافلہ نظر سے غائب ہوجائے گا یا ریل چھوٹ جائے گی، تو تیمم جائز ہے۔

نویں صورت: یہ گمان کہ وضو یا غسل کرنے میں عیدین کی نماز جاتی رہے گی تو تیمم جائز ہے خواہ یوں کہ امام پڑھ کر فارغ ہوجائے گا یا زوال کا وقت آجائے گا، دونوں صورتوں میں تیمم جائز ہے۔
مسئلہ۱۲: اگریہ سمجھے کہ وضو کرنے میں ظہر یا مغرب یا عشاء یا جمعہ کی پچھلی سنتوں کایا چاشت کی نماز (1 ) کا وقت جاتا رہے گا تو تیمم کرکے پڑھ لے۔
دسویں صورت:یہ کہ آدمی میت کا ولی نہ ہو اور ڈر ہو کہ وضو کرنے میں نماز جنازہ نہ ملے گی تو تیمم جائز ہے۔
مسئلہ۱۳: مسجد میں سوگیا اور نہانے کی ضرورت ہوگئی تو آنکھ کھلتے ہی جہاں تھا وہیں فوراً تیمم کر کے نکل آئے (2 ) دیر کرنا حرام ہے۔

مسئلہ۱۴: قرآنِ مجید چھونے کے لیے یا سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر کے لیے تیمم جائز نہیں جب کہ پانی پر قدرت ہو۔
مسئلہ۱۵: وقت اتنا تنگ (1 ) ہوگیا کہ وضو یا غسل کرے تو نماز قضاہوجائے گی تو چاہیے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور پھر وضو یا غسل کرکے اِعادہ کرنا لازم ہے۔
مسئلہ۱۶: حیض یا نفاس سے پاک ہوئی اور پانی پر قادر نہیں تو تیمم کرے۔
مسئلہ۱۷: اتنا پانی مِلا جس سے وضو ہوسکتا ہے اور نہانے کی ضرورت ہے تو اس پانی سے وضو کرلینا چاہیے اور غسل کے لیے تیمم کرے۔

________________________________
1 – مجدّد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: پانی نہ ہونے کی حالت میں بے وضو نے مسجد میں ذکر کے لیے بیٹھنے بلکہ مسجد میں سونے کے لیے (کہ سرے سے عبادت ہی نہیں) یا پانی ہوتے ہوئے سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر یا مسِ مصحف یا باوجود وسعت وقت نمازِ پنجگانہ یا جمعہ یا جنب نے تلاوتِ قرآن کے لیے تیمم کیا لغووباطل وناجائز ہوگا کہ ان میں سے کوئی بے بدل فوت نہ ہوتا تھا، یونہی ہماری تحقیق پرتہجد یا چاشت یا چاند گہن کی نماز کے لیے، اگرچہ اُن کا وقت جاتا ہوکہ یہ نفل ہیں سنت مؤکدہ نہیں تو باوجودِ آب (یعنی پانی کی موجودگی میں) زیارتِ قبور یا عیا دتِ مریض یا سونے کے لیے تیمم بدرَجہ اَولیٰ لغو ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۳/۵۵۷)
2 – ہاں جو شخص عین کنارہ مسجدمیں ہو کہ پہلے ہی قدم میں خارج ہو جائے جیسے دروازے یا حُجرے یا زمین پیش حجرہ (یعنی حجرہ کے سامنے والی زمین ) کے متصل سوتا تھا اور احتلام ہوا یا جنابت یاد نہ رہی اور مسجد میں ایک ہی قدم رکھا تھا، ان صورتوں میں فوراً ایک قدم رکھ کر باہر ہو جائے کہ اس خروج (یعنی نکلنے میں) میں مرور فی المسجد (یعنی مسجد میں چلنا ) نہ ہوگا اور جب تک تیمم پورانہ ہو بحالِ جنابت (یعنی جنابت کی حالت میں) مسجد میں ٹھہرنا رہے گا۔ (فتاوی رضویہ،۳/۴۸۰)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!