توکل کی عظمت
توکل کی عظمت
(۱)’’ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَکَّلَ عَلَی اللَّہِ کَفَاہُ ‘‘۔ (1)
حضرت عمر وبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور اپنے تمام کاموں کو خدائے تعالیٰ کے سپرد کردے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہے ۔ (ابن ماجہ)
(۲)’’ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَوْ أَنَّکُمْ تَتَوَکَّلُونَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا‘‘۔ (2)
حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم لوگ خدائے تعالیٰ پر توکل کرلو جیسا کہ توکل کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ (ترمذی)
(۳)’’عَنْ أَبِی ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الزَّہَادَۃُ فِی الدُّنْیَا لَیْسَتْ بِتَحْرِیمِ الْحَلَالِ وَلَا إِضَاعَۃِ الْمَالِ وَلَکِنَّ الزَّہَادَۃَ فِی الدُّنْیَا أَنْ لَا تَکُونَ بِمَا فِی یَدَیْکَ أَوْثَقَ بِمَا فِی یَدِ اللَّہِ‘‘۔ (3)
حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ حلال کو اپنے اوپر حرام کرلینے اور مال کو ضائع کردینے کا نام ترک ِدنیا نہیں ہے بلکہ دنیا سے بے رغبتی یہ ہے کہ جو کچھ (مال و دولت) تیرے ہاتھوں میں ہے اس پر بھروسہ نہ کر بلکہ اس پر بھروسہ کر جو خدائے تعالیٰ کی دست ِقدرت میں ہے ۔ (ترمذی)(۴)’’ عَنْ صُہَیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاء شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ‘‘۔ (1)
حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ عجیب ہے کہ اس کے ہر کام میں بھلائی ہے اور یہ شرف مومن کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے اگر اسے خوشی کا موقع نصیب ہو اور اس پر خدا تعالیٰ کا شکر بجا لائے تو اس میں اس کے لیے بہتری ہے اور اگر کبھی مصیبت پہنچے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس میں بھی اس کے لیے بہتری ہے ۔ (مسلم)
(۵)’’ عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ رِضَاہُ بِمَا قَضَی اللَّہُ لَہُ وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُہُ اسْتِخَارَۃَ اللَّہِ وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُہُ بِمَا قَضَی اللَّہُ لَہُ‘‘۔ (2)
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سرکار ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ آدمی کی نیک بختی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقدر کردیا ہے اس پر راضی رہے ۔ اور آدمی کی بدبختی یہ ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ سے بھلائی مانگنا چھوڑ دے ۔ اور آدمی کی بدبختی یہ بھی ہے کہ خدائے تعالیٰ نے (اس کے بارے میں) جو کچھ مقدر فرمادیا ہے وہ اس پر آزردہ ہو۔ (احمد، ترمذی)
٭…٭…٭…٭
________________________________
1 – ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الزھد والرقائق، باب المؤمن أمرہ إلخ، الحدیث: ۶۴۔ (۲۹۹۹) ص۱۵۹۸.
2 – ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، مسند أبی اسحاق سعد بن أبی وقاص، الحدیث: ۱۴۴۴، ج۱، ص۳۵۷، ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب القدر عن رسول اللہ، الحدیث: ۲۱۵۸، ج۴، ص۶۰.