اسلام

تقویٰ بہترین توشۂ راہ

تقویٰ بہترین توشۂ راہ

نورِ دیدہ ! 
جب تقویٰ و طہارت کی چول صحت ودرستی پر قائم ہو گی تو روئے خیرو صلاح کو تم
بے نقاب دیکھ لو گے۔ صاحب تقویٰ کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ خلق خدا کے دکھاوے کے لیے
کچھ نہیں کرتا(جو کرتا ہے محض رضائے مولا کے لیے کرتا ہے) اور ایسی چیزوں کو ہاتھ
بھی نہیں لگاتا جو اس کے دین و ایمان کے لیے مضرت رساں ہوں۔ سیدھی سی بات ہے جو
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حدود و حقوق کی رعایت کرتا ہے پروردگار عالم خود اُس کی
حفاظت فرماتا ہے۔
جیساکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا 
:
اِحْفَظِ اللهَ يحْفَظْکَ، اِحْفَظِ اللهَ تَجِدْهُ
أمَامَکَ
….   (۱)
یعنی اللہ (کے فرامین )کی حفاظت کرو، اللہ خود تمہارا
محافظ بن جائے گا، اور جب تم اللہ کے حقوق کی رعایت کرو گے تو ہر کام میں تم اسے پیش
پیش پاؤ گے، (یعنی مددگار)۔
جگر پارے! 
حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ پر غور کرو تو تم پر خود بخود عیاں ہو جائے
گا کہ اُن کے پاس اعمالِ خیر کا جو ذخیرہ موجود تھا محض اس نے انھیں مشکل کی گھڑی
سے نجات دلوائی۔ اللہ جل مجدہ فرماتا ہے :


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

فَلَو لاَ أنَّہُ کَانَ مِنَ المُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ
فِي بَطْنِہٖ إلٰی یَومِ یُبْعَثُونَ
(۲)
پھر اگر وہ (اللہ کی )تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے
تو اس (مچھلی) کے پیٹ میں اُس دن تک رہتے جب لوگ (قبروں سے) اُٹھائے جائیں گے۔
________________
(۱)       مسندعبدبن حمید:۲؍۲۵۴حدیث: ۶۳۸… شعب
الایمان بیہقی:
۳؍۱۳۵حدیث: ۱۰۸۹… مستدرک حاکم:۱۴؍۴۰۷حدیث:
۶۳۶۴… مسند شہاب قضاعی:۳؍۱۵۵حدیث:۶۹۵… مسند
احمد بن حنبل:
۶؍۳۸۳ حدیث: ۲۸۵۷… مجمع الزوائد و منبع
الفوائد:
۷؍۱۰۸ حدیث:
۱۱۷۸۵۔
(۲)      سورۂ  صافات: ۱۴۳تا۱۴۴۔
________________
اب قصہ فرعون کا جائزہ لو کہ اس کا دامن حیات‘ عمل خیر
اور اچھائیوں سے یکسر خالی تھا پھر کیا ہوا کہ وہ بے موت مارا گیااوراس کی مشکل میں

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

کچھ کام نہ آیا۔ ارشادِ خداوندی ہوا  :

آلئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ(۱)
اب(ایمان لاتا ہے!) حالاں کہ تو پہلے (مسلسل) نافرمانی
کرتا رہا ہے۔
لہٰذا زندگی کی بچی کھچی سانسوں کو تم نیکیوں اور تقویٰ
و طہارت کے پھول سے آراستہ کر کو اُس کی تاثیر و برکت (دارین میں )کھلے آسمان کی
طرح دیکھو گے۔
حدیث رسالت مآب میں آتا ہے  :
مَا منْ شَاب اتقَی اللهَ تعالٰی في شبَابه إلا رفعَه
اللهُ تعالیٰ في کِبَره
(۲)
یعنی جو شخص بھی اپنے عہد شباب کو  تقویِ الٰہی اور خشیت مولاسے آباد رکھتا ہے
پروردگار عالم (عالم جوانی میں عزت دینے کے ساتھ ساتھ ) اس کے بڑھاپے کو بھی قابل
قدر اور باعث عزت بنا دیتا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے  :
وَ لَمَّا بَلَغَ أشُدَّہُ اٰتَیْنَا حُکْماً وَّ
عِلْماً وَّ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ 
(۳)
________________
(۱)       سورۂ  یونس: ۱۰؍۹۱۔
(۲)      یہ روایت مجھے کہیں نہیں ملی۔ہاں اس مضمون کی ایک روایت
یوں ملتی ہے  :
٭        ما من
شاب يدع لذة الدنياولهوها ويستقبل بشبابه طاعة الله الا اعطاه الله اجر اثنين وسبعين
صديقا۔  (جمع الجوامع:
۲۱۳۱۴حدیث:۱۱۵۶… حلیۃ الاولیا۴؍ ۱۳۹… جامع
الاحادیث:
۱۹؍ ۱۷۹حدیث:۲۰۵۱۲… جامع الاحادیث القدسیہ:۱؍۶۳ حدیث:۱۰۸۸۶)                                                                                    (۳)    سورۂ  یوسف: ۱۲؍۲۲۔
________________
یعنی اور جب وہ اپنے کمالِ شباب کو پہنچ گیا(تو) ہم نے
اسے حکمِ(نبوت) اور علمِ(تعبیر) عطا فرمایا، اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو صلہ بخشا
کرتے ہیں۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

فرزند ارجمند! تجھے ایک تجربے کی بات بتائے دیتا ہوں کہ
ذخائر اعمال میں سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ نامحرم سے نگاہوں کی حفاظت کی جائے،اور
فضول و عبث باتوں سے زبان کو روکا جائے،حدودِ الٰہیہ کی رعایت کے ساتھ نفسانی
خواہشات پر اَوامر الٰہی کو مقدم رکھا جائے۔ تمہیں زمانۂ  ماضی کے اُن تین بندوں والی حدیث معلوم ہو گی جو
کسی غار کے اندرگھسے تو اوپرسے ایک چٹان نے ان کا راستہ بند کر دیا۔ انھوں نے چٹان
ہٹانے کے ہزار جتن کیے،مگر کامیاب نہ ہوئے۔
تینوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ اب اس کے علاوہ کوئی
راستہ نہیں کہ ہم باری تعالیٰ سے دعا کریں اور اپنے نیک عمل کے وسیلے سے نجات کے
طلب گار ہوں۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے جنابِ باری میں عرض کیا: بارِ الٰہا! تجھے
معلوم ہے کہ میرے والدین بھی تھے اور بچے بھی،مگر میں ہمیشہ پہلے اپنے والدین کو سیراب
کر کے پھر بچوں کو دودھ پلایا کرتا تھا، میرا وہ کام اگر خالص تیری رضا کے لیے ہوا
ہو تو اس کی برکت سے اس مشکل میں آسانی پیدا فرما،چنانچہ غار کے دہانے سے ایک تہائی
چٹان کھسک گئی۔
دوسرے نے کہا: مولا! میں نے چند مزدور کرائے پر حاصل کیے
تھے، اور ان سب کو اُجرت دے دی تھی، صرف ایک شخص ایسا باقی رہ گیا تھا جو اپنی
اُجرت لیے بغیر چلا گیا تھا۔پھر میں نے اس کی اُجرت کی رقم تجارت میں لگا دی،اس کا
مال بے حساب بڑھتا چلا گیا۔
ایک دن وہ شخص آیا اور کہنے لگا: اے بندۂ  خدا! میری اُجرت دے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ سب
اونٹ، گائیں، بکریاں اور غلام تیری اُجرت ہیں۔ اس نے کہا: کیا تو مذاق کر رہا ہے؟۔
میں نے کہا: یہ مذاق نہیں ہے تو اپنا مال اُٹھا اور جہاں
چاہے لے جا،چنانچہ وہ اپنے تمام جانور اور غلام ہنکا کر لے گیا۔اے پروردگار! اگر میں
نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا ہو توہم پر مہربانی فرما،چنانچہ چٹان دو تہائی کھسک
گئی،مگر اتنی نہیں کہ اس سے وہ باہر نکل سکیں۔
تیسرے نے کہا: اے اللہ!  ایک بار اپنی چچازاد بیٹی پر میرا دل آ گیا تو
جیسے ہی میں اس کے قریب گیا وہ بول اُٹھی:کچھ تو اللہ کا خوف کر، یہ سن کر میں خوف
زدہ ہو گیا اور اپنے ناپاک اِرادے سے باز آ گیا۔ اب اگر ایسا میں نے تیری رضا کے لیے
کیا ہو توہم پرراستہ کشادہ فرما دے،چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ تینوں باسلامت
باہر نکل آئے۔
 حضرت سفیان
ثوری رحمہ اللہ(م
۲۶۱ھ) کو خواب میں دیکھ کر پوچھا
گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟، فرمایا: جیسے ہی مجھے زیر لحد
رکھا گیا، میری مولا جل و علا کی بارگاہ میں پیشی ہوئی،اور پھر لگے ہاتھوں مجھے
جنت میں داخل ہونے کا پروانہ جاری ہو گیا۔
اب جب میں اس کے اندر داخل ہوا تو کوئی کہنے والا کہہ
رہا تھا: کیا تم سفیان ہو!۔ میں نے کہا:ہاں سفیان ہی ہوں۔ فرمایا: اُن دِنوں کو یاد
کرو جن میں تم نے اپنی خواہشوں پر ذاتِ باری تعالیٰ کو ترجیح دیا تھا۔ میں نے کہا:
ہاں یاد ہیں۔پھر اتنے میں بہشت کے دسترخوان قطار در قطار میرے لیے بچھا دیے گئے
اور جنتی حوروں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔

(اپنے لختِ جگر کے لیے
مصنف ابن جوزی
مترجم علامہ محمدافروز القادری چریاکوٹی 

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!