سود کا عذاب و حرمت
سود کا عذاب و حرمت
(۱)’’عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَیْہِ وَقَالَ ہُمْ سَوَاء ٌ‘‘۔ (1)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے سود لینے والوں، سود دینے والوں، سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ اور فرمایا کہ وہ سب ( گناہ میں) برابر کے شریک ہیں۔ (مسلم شریف)
(۲)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ غَسِیلِ الْمَلَائِکَۃِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِرْہَم رِبًا یَأْکُلُہُ الرَّجُلُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلاثِینَ زنْیَۃً‘‘۔ (2)
حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلوۃو السلام نے فرمایا کہ سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا گناہ چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ ہے ۔ (احمد، دار قطنی، مشکوۃ)
(۳)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّبَا سَبْعُونَ جُزْئً أَیْسَرُہَا أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ‘‘۔ (3)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ سود (کا گناہ) ایسے ستّر گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجہ کا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے زنا کرے ۔ (ابن ماجہ ، بیہقی)
(۴)’’ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُکُمْ قَرْضًا فَأَہْدَی إِلَیْہِ أَوْ حَمَلَہُ عَلَی الدَّابَّۃِ فَلا یَرْکَبہُ
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو قرض دے اور پھر قرض لینے والا اس کے پاس کوئی ہدیہ اور تحفہ بھیجے
وَلَا یَقْبَلْہَا إِلَّا أَنْ یَکُونَ جَرَی بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ قَبْلَ ذَلِکَ‘‘۔ (1)
یا سواری کے لیے کوئی جانور پیش کرے تو اس سواری پر سوار نہ ہو اور اس کا ہدیہ اور تحفہ قبول نہ کرے البتہ قرض دینے سے پہلے آپس میں اس قسم کا معاملہ ہوتا رہا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ (ابن ماجہ، بیہقی)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث شریف کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
’’ہر قرضے کہ بکشد سودے را پس آں ربوا است‘‘۔ (2)
یعنی ہر وہ قرض کہ جس سے نفع حاصل ہو سود ہے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد سوم ص ۲۵)
انتباہ:
(۱)… سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے حرام سمجھ کر سود لینے والا فاسق مردود الشہادت ہے ۔ (3)(بہار شریعت)
(۲)…عقد فاسد کے ذریعہ کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنوع نہیں یعنی جو عقد مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر کافر حربی کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو۔ مثلاً ایک روپیہ کے بدلے میں دو روپیہ خریدے یا اس کے ہاتھ مردار کو بیچ ڈالا کہ اس طریقہ پر مسلمان سے روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور کافر سے حاصل کرنا جائز ہے ۔ (4)(شامی، بہار شریعت، ج ۱۱ ، ص۱۵۳)
(۳)… ہندوستان اگرچہ دار الاسلام ہے اس کو دارالحرب کہنا صحیح نہیں مگر یہاں کے کفار یقیناً نہ تو ذمی ہیں نہ مستامن کیونکہ ذمی یا مستامن کے لیے بادشاہ اسلام کا ذمہ اور امن دینا ضروری ہے لہذا یہاں کے کفار کے اموال عقودِ فاسدہ کے ذریعہ حاصل کیے جاسکتے ہیں جب کہ بدعہدی نہ ہو۔ (5) (بہار شریعت، جلد ۱۱ ص۱۵۳)
(۴)…ہندوستانی کفار کا مال چوری ، ڈاکہ ، مکاری اور فریب سے حاصل کرنا جائز نہیں۔
(۵)…انڈیا گورنمنٹ کی طرف سے جگہ جگہ جو بلاک قائم ہیں وہاں سے روپیہ وغیرہ زائد رقم دینے کی شرط پر بلا ضرورت لانا اور انہیں نفع دینا منع ہے ۔
(۶)…بینک خواہ انڈیا ( غیر مسلم حکومت) کا ہو یا کسی کافر حربی کا اس کا نفع شرعاً سود نہیں اسی طرح انڈیا گورنمنٹ یا کافری حربی کے مسلم ملازمین کو فنڈ کا جو نفع ملتا ہے وہ بھی سود نہیں۔ البتہ مسلم بینک کا نفع سود ہے ۔
فتاویٰ عزیزیہ جلد اول ص :۳۹ پر ہے :’’گرفتن سود از حربیاں بایں وجہ حلال است کہ مال حربی مباح ست اگر در ضمن آں نقص عہد نہ باشد وحربی چوں خود بخود بدہد بلاشبہ حلال خواہد بود‘‘۔
٭…٭…٭…٭