سلسلۂ روایت کی تقویت کے اسباب
سلسلۂ روایت کی تقویت کے اسباب
عہدِ صحابہ میں سلسلۂ روایت کی تقویت کے لیے جہاں راویوں کی کثرتِ تعداد کو اہمیت دی جاتی تھی وہاںنقل و روایت کی صحت جانچنے اور اسے یقین کی حد تک پہنچانے کے لیے اور بھی طریقے رائج تھے ۔ مثال کے طور پر حضرت مولائے کائنات علی مرتضٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں منقول ہے :
’’ إِذَا فَاتَہُ عَنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَدِیْثٌ ثُمَّ سَمِعَہُ مِنْ غَیْرِہِ یُحَلِّفُ
جب ان کو کسی حدیث کی سماعت حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فوت ہو جاتی تو دوسرے راوی سے حدیث
الْمُحَدِّثَ الَّذِی یُحَدِّثُ بِہِ‘‘ ۔ (1) (معرفۃ علوم الحدیث ص ۹)
کی سماعت فرماتے لیکن اس سے قسم لیا کرتے تھے ۔
یہ بیان کرنے کے بعد حضرت حافظ نیشاپوری تحر یرفرماتے ہیں:
’’ وَکَذَلِکَ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ وَاتْبَاعِ التَّابِعِیْنَ ثُمَّ عَنْ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ کَانُوْا یَبْحَثُوْنَ وَیَنْقُرُوْنَ عَنِ الْحَدِیْثِ إِلَی أَنْ یَّصِحَّ لَھُمْ‘‘۔ (2)
یہی حال صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مسلمین کا تھا کہ وہ حدیث کے بارے میں بحث و کرید کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کو حدیث کی صحت کا یقین ہوجاتا۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص ۱۵)
ر وایتِ حدیث کا فن اپنی جس عظیم خصوصیت کے باعث سار ے جہان میں منفرد ہے وہ یہ ہے کہ کسی واقعہ کے نقل و روایت کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ نفسِ واقعہ بیان کردیا جائے بلکہ بیان واقعہ سے پہلے ناقل کے لیے یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ اس واقعہ کا علم اسے کیونکرہوا۔ کتنے واسطوں سے وہ بات اس تک پہنچی ہے اور وہ کون لوگ ہیں ، ان کے نام و نشان کیا ہیں، اِن کی عمر کیا ہے ، وہ کہاں کے رہنے والے ہیں، دیانت، تقویٰ ، راست گفتار ی ، حسنِ اعتقاد ، قوتِ حافظہ ، عقل و فہم اور فکر و بصیرت کے اعتبار سے ان کے حالات کیا ہیں۔ ا سی کو اصطلاح ِ حدیث میں اسناد کہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اصحابِ حدیث کے یہاں اسناد اتنی ضروری چیز ہے کہ اس کے بغیر ان کے یہاں کوئی بات قابلِ اعتماد نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ حضرت حافظ نیشاپوری نے حضرت عبداللہ بن مبارک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا یہ قول نقل کیا ہے :’’ أَلإِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ وَلَوْلاَ الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاء مَاشَاء‘‘۔ اسناد دین کا حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتی تو جس کے دل میں جو آتا کہتا۔
اسی ضمن میںحضرت حافظ نیشاپوری نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مر تبہ ابنِ ابو فروہ نامی کسی شخص نے حضرت امام زہری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بغیر کسی اسناد کے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک حدیث بیان کی اس پر امام زہری نے آزردہ ہو کر فرمایا:
’’ قَاتَلَکَ اللَّہُ یَا ابْن أَبِی فَرْوَۃَ مَا أَجْرَأ کَ عَلَی اللَّہِ أَنْ لَا تُسْنِدَ حَدِیثکَ تُحَدِّثُنَا بِأَحَادِیْثَ لَیْسَ لَھَا خُطُمٌ وَلَا أَزِمَّۃٌ ‘‘۔ (1)
(معرفۃ علوم الحدیث ص ۶)
اے ابو فروہ !تجھ کو اللہ تباہ کرے تجھ کو کس چیز نے اللہ پر جری کردیا ہے کہ تیری حدیث کی کوئی سند نہیں ہے تو ہم سے ایسی حدیثیں بیان کرتا ہے کہ جن کے لیے نہ نکیل ہیں نہ لگام۔
________________________________
1 – ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘، ص۹.
2 – ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘، ص۱۵.