ثَرِید کا پیالہ
حکایت نمبر439: ثَرِید کا پیالہ
حضرت سیِّدُنا مُصْعَب بن ثابِت بن عبداللہ بن زُبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم بہت زیادہ متقی وعبادت گزار تھے۔ روزانہ ایک ہزار نوافل پڑھاکرتے اور ہمیشہ روزہ رکھتے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:”ایک رات میں مسجدنبوی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں تھا۔ جب سب نمازی چلے گئے تواچانک حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے حجرۂ مبارکہ کی طرف سے ایک شخص ظاہر ہوا اور مسجد کی دیوار
سے ٹیک لگا کر اس طرح مناجات کرنے لگا : ”اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تو خوب جانتا ہے کہ آج میرا روزہ تھااورابھی تک میں نے کوئی چیز نہیں کھائی۔ میرے خالق جَلَّ جَلَالُہٗ ! اب ثَرِید کھانے کو بہت جی چاہ رہا ہے، مولیٰ! کرم فرمادے ۔”
ابھی اس نے دعا مکمل بھی نہ کی تھی کہ مِنارہ کی جانب سے ایک عجیب وغریب شخص آیا جس میں انسانوں کی کوئی نشانی نہ تھی وہ کوئی اور ہی مخلوق تھی اس نے ایک بڑا سا پیالہ دعا مانگنے والے کے سامنے رکھ دیا اور خود ایک جانب کھڑا ہوگیا۔وہ پیالے سے کھانے لگا اورمجھے بھی بلایا۔میں سمجھا کہ شاید! یہ جنت کا بابرکت کھانا ہے ،اسی لئے تھوڑاسا کھایا تووہ ایسا عمدہ ولذید تھاکہ اہلِ دنیاکے کھانے اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ میں نے صرف چند لقمے کھائے پھر شرم کی وجہ سے واپس اپنی جگہ آگیا۔ جب وہ شخص کھانا کھا چکا تو پاس کھڑے ہوئے عجیب وغریب شخص نے پیالہ اٹھایا اورجِدھر سے آیا تھا اسی سمت چلاگیا۔ جب دُعا مانگنے والا جانے لگاتومیں بھی اس کے پیچھے چل دیا تاکہ اس کے بارے میں معلومات کر سکوں۔ لیکن اچانک نہ جانے وہ کہاں غائب ہو گیا۔ میرا گمان ہے کہ شاید! وہ حضر تِ سیِّدُناخضر علیہ السلام تھے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)