صَدَقہ وخیرات سے بَلائیں ٹَلتی ہیں
حکایت نمبر447: صَدَقہ وخیرات سے بَلائیں ٹَلتی ہیں
حضرتِ سیِّدُنا سَلام بن مِسکِین علیہ رحمۃ اللہ المبین فرماتے ہیں: ایک شخص ہرسال کبوتری کے گھونسلے سے اس کے بچے اُتار لیا کرتا تھا۔ کبوتر اور کبوتری نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس شخص کے خلاف شکایت کی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ”میں اسے ہلاک کرنے والا ہوں۔” اس سال جب کبوتری نے انڈے دیئے اور بچے نکلے تو وہ شخص گھر سے دوروٹیاں لے کر نکلا۔ راستے میں ایک مسکین ملاتودونوں روٹیاں اسے دے دیں، پھر درخت پر چڑھا کبوتری کے بچے اُتارے اور واپس چلا آیا۔ کبوتراور کبوتری نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں شکایت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے عہد کر رکھا ہے کہ ”جو شخص کسی دن کوئی صدقہ کریگا میں اسے اس دن ہلاک نہ کروں گا۔”
یہ حکایت حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح مروی ہے، رسولِ کریم رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جوہر مرتبہ پرندے کے گھونسلے سے بچے نکال لیتا۔پرندے نے اس کے خلاف اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں شکایت کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:” اگروہ اسی حال پرباقی رہا تو ہلا ک ہوجائے گا ۔” جب اس سا ل وہ شخص گھر سے سیڑھی لے کر پرندے کے بچوں کو پکڑنے کے لئے چلا تو راستے میں اسے ایک فقیر ملا اس نے اپنے زادِ راہ میں سے ایک روٹی اسے دے دی، پھر درخت کے اوپرچڑھا اوربچوں کو پکڑلیا۔ پرندہ یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تو نے ہم سے وعدہ فرمایاتھا کہ اس مرتبہ وہ ہلا ک ہوجائے گا لیکن وہ تو صحیح وسالم جا رہا ہے ؟” اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:”کیا تم نہیں جانتے کہ جو شخص کسی دن کوئی صدقہ کرے میں اسے اس دن ہلاک نہيں کرتااور نہ ہی اسے اس دن کوئی برائی پہنچتی ہے ۔” (کنزالعمال،کتاب الزکاۃ،قسم الاقوال، الحدیث۱۶۱۱۲، ج۶، ص۱۵۹)
یہی حکایت اس طرح بھی مروی ہے:” حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن داؤدعلٰی نبیناوعلیہما الصلٰوۃ والسلام کے ایک امتی کے گھر میں درخت تھا۔ایک کبوتری نے اس پر گھونسلا بنالیا،پھراس کے اَنڈوں سے بچے نکلے تو اس شخص کی زوجہ نے کہا:” اس درخت پر چڑھ کر پرندے کے بچوں کو پکڑ لوا ور پکا کر اپنے بچوں کو کھلادو ۔”چنانچہ، اس نے ایسا ہی کیا۔پرندے نے حضرتِ سیِّدُنا سلیمان بن داؤد علٰی نبیناوعلیہما الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہ میں شکایت کردی۔ آپ علیہ السلام نے اسے بلایا اور سزا کی دھمکی دی، اس نے عرض کی:” یا نبی اللہ علیہ السلام !آئندہ ایسا ہرگز نہ کروں گا۔” آپ علیہ السلام نے اسے چھوڑدیا اور وہ گھر چلا آیا ۔
کبوتری نے جب دوبارہ انڈے دے کر بچے نکالے تو اس شخص کی زوجہ نے کہا:”درخت پر چڑھو اور پرندے کے بچے پکڑ لاؤ۔”اس نے کہا :”مجھے حضرتِ سیِّدُنا سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے۔”عورت نے کہا:”تم کیا سمجھتے ہو کہ حضرتِ
سیِّدُنا سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام تمہارے اور اس کبوتری کے لئے فارغ بیٹھے ہوں گے، پوری دنیا پر ان کی حکومت ہے، وہ اپنی مملکت کے معاملات میں مصروف ہوں گے،جلدی کرواور کبوتری کے بچوں کو پکڑ لاؤ ۔” بیوی کا جواب سن کر وہ بے چارہ درخت پرچڑھا اور کبوتری کے بچوں کو پکڑ لایا۔ کبوتری نے دوبارہ حضرتِ سیِّدُنا سلیمان علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہ میں شکایت کر دی۔ آپ علیہ السلام کو بڑا جلال آیا اور مشرق ومغرب کے کناروں سے دو جِنّوں کو بُلا کر فرمایا: ”تم دونوں فلاں درخت کے پاس ٹھہرے رہو۔ جب وہ شخص درخت پر چڑھے تواس کا ایک پاؤں مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی طرف کھینچنا ،اس طرح اس نافرمان کے دو ٹکڑے کر دینا۔” حکم پا تے ہی دونوں جنّ مطلوبہ درخت کے پاس پہنچ گئے۔ وہ شخص درخت پر چڑھنے کے لئے تیار ہواہی تھاکہ کسی فقیر نے روٹی مانگی ،اس نے اپنی بیوی سے کہا :”اگر گھر میں کچھ ہے تو اس فقیر کو دے دو۔”عورت نے کہا: ”میرے پاس اس فقیر کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔” تووہ خود کمرے میں گیا اوراسے وہاں سے روٹی کا ایک لقمہ ملا، وہی لقمہ فقیر کودیااور درخت پر چڑھ کر بغیر کسی تکلیف کے بآسانی کبوتری کے بچوں کو پکڑلایا۔ کبوتری نے پھر شکایت کی، تو آپ علیہ السلام نے دونوں جنّوں کو بلاکر ارشاد فرمایا:” کیاتم دونوں نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے؟” انہوں نے عرض کی:” یانَبِیَّ ا للہ علیہ السلام ! ہم نے ہرگز آپ علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، بات دراصل یہ ہے کہ ہم توآپ علیہ السلام کا حکم پاتے ہی اس درخت کے پاس پہنچ گئے مگر جب وہ شخص درخت پر چڑھنے لگا تو کسی سائل نے روٹی مانگی، اس نے اسے روٹی کا ایک لقمہ دیا اور درخت پر چڑھنے لگا، ہم اسے پکڑنے کے لئے بڑھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دو فرشتے ہماری طرف بھیجے۔ انہوں نے ہمیں گردن سے پکڑا اور مغرب ومشرق کی طرف پھینک دیا۔ اس طرح ایک لقمہ صدقہ کرنے کی برکت سے وہ ہلاکت سے محفوظ رہا ۔”