اسلام
مقصد رسالت
مقصد رسالت
از :ڈاکٹر و حکیم اے ،یم ،یس
نوٹ: (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے جتنے نبی آئے وہ سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت میں کام کرے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کا عہد ان سے لیا گیا تھا اس واسطے وہ تمام کے تمام امتی نبی آخرالزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی الانبیاء ہیں۔( ادارہ)
نسل انسانی کی تاریخ میں عجیب ترین بات یہ ہے کہ علم الٰہی کا دروازہ ایک امی عرب نے کھولا جو سرزمین عرب میں پیدا
ہو تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس احسان عظیم کا صحیح اندازہ اس وقت نہیں ہوسکتا جب تک اس ماحول کا علم نہ ہو جس میں اس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تھے، عربوں کا قومی انتشار بہت ہی درد ناک تھا ،ظلم و ستم کا بازار گرم تھا ،عورت کے ساتھ حقارت آمیز اور شرمناک سلوک کی انتہا نہیں تھی،اس خطہ زمین پر اور ایسے ماحول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کی طرف سے تمام عالم کے لئے اخری پیغبر بن کر آئے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
عربستان بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا،مرد وعورت سب سچے خدا سے بے خبر اپنی اپنی بنائے ہوئی مصنوعات کی پرستش ہوتی تھی اور ایسے لوگوں کو صحیح راستہ دکھانا کوئی آسان کام نہ ،کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اپنی ہی قوم کی اصلاح کے لئے پیغمبر بن کر آئے تھے یا آپ کے پاس تمام دنیا کے لئے کوئی پیغام تھا؟ بے شک آپ کا پیغام کسی خاص ملک سے وابستہ نہ تھا ،بلکہ تمام دنیا کے لئے توحید الٰہی کا پیغام لائے تھے ،آپ کی تعلیمات تمام دنیا کے بیشمارانسانوں کے خیالات وتمدن میں ایک زبردست انقلاب برپا کر دیا اسلام نے اس وقت کے فلاسفر کو غور وفکر کے لئے کافی مواد دیا جنہوں نے مختلف ممالک میں اس کا مطالعہ اور سبھوں نے اسلام کو سراہا،آج بھی ہم ذرا دنیا کے نقشہ پر دیکھیں اور
خاص طور پر ایک طرف چین کا ملک اور دوسری طرف اسپین ،ہمیں پتہ چلے گا کہ اسلام کا پیغام صدیوں پہلے کتنے دور درور کے ملکوں میں پہنچا ہے ،بعض متعصب مؤرخین نے مسلمانوں کی فتوحات اور تلوار کی زور سے اسلام کی اشاعت ہونے کی جھوٹی اور لغو دلیل پیش کی ہے ؛حالانکہ یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے اسلام میں بذات خود ختم کرنے کی طاقت ہے کیونکہ اس اقوام کی آنکھیں کھول دیں جو خود اپنے بنائے ہوئے مخلوقات کی پرستش میں مبتلا تھی، ان کو اس حقیقت کا کوئی علم نہ تھا کہ ان بتوں سے بالا تر بھی کوئی عبادت ہے جو زیادہ طاقور زیاہایم اور بے پایاں اور عالی مرتبہ ہے۔
جب آپ کی عمر 40سال کی ہوئی تو آپ کو وحی نازل ہوئی جس کی بدولت آپ نے دنیا کو جدید اور کامل تصور عطا فرمایا ، لیکن دنیا نے شروع میں آپ کی بات پر کان نہ دھرا حالانکہ عربوں نے آپ کو ایماندار متقی شخص ہونے کے باعث ’’ امین ‘‘ کا لقب دیا تھا، صرف چند لوگ ایمان لائے سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو آپ کی زوجہ صالحہ تھیں ایمان لے آئے ، ان کے بعد حضرت کرم اللہ وجہہ رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور غلام زید رضی اللہ عنہ شروع میں آپ علانیہ طور پر تبلیغ نہیں کرتے تھے ، کچھ عرصہ کے بعد خدا نے آپ کو علانیہ تبلیغ کا حکم دیا ، اس پر نئی دشواریاں پیدا ہوئیں
(بقیہ آئندہ)