فضائل

شب قدر عظمت و فضائل

شب قدر

(۱)’’ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ دَخَلَ رَمَضَانُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ ہَذَا الشَّہْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ وَفِیہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ مَنْ حَرُمَہَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہُ وَلَا یُحْرَمُ خَیْرَہَا إِلَّا مَحْرُوم‘‘۔ (1)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوا تو حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ یہ مہینہ تم میں آیا ہے ۔ اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ تو جو شخص اس کی برکتوں سے محروم رہا وہ تمام بھلائیوں سے محروم رہا اور نہیں محروم رکھا جاتا اس کی بھلائیوں سے مگر وہ جو بالکل بے نصیب ہو۔ (ابن ماجہ)
(۲)’’ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ‘‘۔ (2)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کو تلا ش کرو۔ (بخاری)
(۳)’’ عَنْ عَائِشَۃَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرَأَیْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَیُّ لَیْلَۃٍ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِیہَا قَالَ قُولِی اللَّہُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘۔ (3)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے فرمایا کہ میں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے پوچھا کہ یارسول اللہ! اگر مجھ کو شبِ قدر معلوم ہوجائے تو میں اس میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھو۔ ’’ أَللَّھُمَّ إِنَّکَ عَفُو تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ‘‘۔ (4) (ترمذی)

(۴)’’ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْتَہِدُ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا یَجْتَہِدُ فِی غَیْرِہِ‘‘۔ (1)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام جس قدر رمضان کے آخری عشرہ میں (طاعت و عبادت کے لیے ) کوشش فرماتے تھے ، اتنی کسی دوسرے عشرہ میں نہ فرماتے تھے ۔ (مسلم)
(۵)’’ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا کَانَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی کُبْکُبَۃٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ یُصَلُّوْنَ عَلَی کُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ یَذْکُرُ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِذَا کَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہَی بِہِمْ مَلَائِکَتَہُ فَقَالَ یَا مَلَائِکَتِیْ مَا جَزَائُ أَجِیْرٍ وَفَّی عَمَلَہُ ؟ قَالُوْا رَبَّنَا جَزَاؤُہُ أَنْ یُوَفَّی أَجْرُہُ قَالَ مَلَائِکَتِی عَبِیْدِیْ وَإِمَائِی قَضَوْا فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعِجُّوْنَ إِلَی الدُّعَائِ وَعِزَّتِیْ وَجَلَالِی وَکَرَمِیْ وَعُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِی لَأُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ اِرْجِعُوْا فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ وَبَدَّلْتُ سَیِّئَاتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ ‘‘۔ (2)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ جب شبِ قدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ آتے ہیں اور ہر اس بندہ کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر خدائے تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے پھر جب انہیں عید الفطر کا دن نصیب ہوتا ہے تو خدائے تعالیٰ اپنے ان بندوں پر اپنے فرشتوں کے سامنے اپنی خوشنودی کا اظہار کر تا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کی اجرت کیا ہے جو اپنا کام پورا کردے ، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے میرے پروردگار اس کی اجرت یہ ہے کہ ا سکو پورا معاوضہ دیا جائے ۔ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور میری لونڈیوں نے ( میرے مقرر کیے ہوئے ) فرض کو ادا کردیا اب وہ گھر وں سے دعا کے لیے عیدگاہ کی طرف نکلے ہیں۔ قسم ہے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنی بخشش و رحمت اپنی عظمت شان اور اپنی رفعت مکان کی کہ میں ان کی دعائوں کو قبول کروں گا۔ پھر خدائے تعالیٰ فرماتا

ہے اے میرے بندو ! اپنے گھروں کو لوٹ جائو میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیا۔ فرمایا حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے کہ پس مسلمان واپس ہوتے ہیں۔ عیدگاہ سے اس حال میں کہ ان کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (بیہقی)
(۶)’’ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَہُ وَأَحْیَا لَیْلَہُ وَأَیْقَظَ أَہْلَہُ ‘‘۔ (1)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے فرمایا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے ( یعنی عبادت میں بہت کوشش فرماتے ) راتوں کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کو جگاتے ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شَدَّ مِئْزَرَہُ کے تحت فرماتے ہیں: ’’کنایت ست از اجتہاد در عبادات زیادہ بر عادت یاکنایت از گوشہ گرفتن از زناں‘‘۔ (2)(اشعۃ اللمعات، جلد دوم، ص۱۱۵)

انتباہ :

بعض جگہ شب قدر میں عشاء کی نماز کے لیے سات باراذان کہتے ہیں یہ بے اصل ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!