نماز کی تیسری شرط یعنی :
نماز کے اوقات کیا ہیں
فجر کا وقت
صبح صادق سے لے کر سورج کی کرن چمکنے تک ہے۔
صبح صادق کس کو کہتے ہیں
صبح صادق ایک روشنی ہے جو سور ج نکلنے سے پہلے سورج کے اوپر آسمان کے پوربی کناروں (1 ) میں دکھائی دیتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے،یہاں تک کہ تمام آسمان پر پھیل جاتی ہے اور اُجالا ہوجاتا ہے، اس روشنی کے ظاہر ہوتے ہی سحری کا وقت ختم اور نماز فجر کا وقت شروع ہوجاتا ہے، اس روشنی کے پہلے بیچ آسمان میں ایک لمبی سفید ی پورب سے پچھم ( )
کی طرف اُٹھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جس کے نیچے سارا اُفق ( ) سیاہ ہوتا ہے، صبح صادق اس کے نیچے سے پھوٹ کر اُتر، دکھن ( ) دونوں پہلوئوں پر پھیل کر اُوپر بڑھتی ہے، یہ لمبی سفید ی صبح صادق کی سفیدی میں غائب ہوجاتی ہے، اس لمبی سفیدی کو صبح کاذِب کہتے ہیں اس سے فجر کا وقت نہیں ہوتا۔ (قاضی خان و بہار)
فائدہ :
صبح صادق کی ر وشنی میں ان شہروں میں جو ۲۷۔۲۸ درجہ یا اس کے قریب عرض البلد پر واقع ہیں ( جیسے بریلی، لکھنؤ، کانپور وغیرہ) چھوٹے دنوں میں تقریباً سوا گھنٹہ اور گرمی میں تقریبا ً ڈیڑھ گھنٹہ (کچھ کم وبیش) سورج نکلنے سے پہلے ظاہر ہوتی ہے۔
مسئلہ۱: فجر کی نماز کے لیے تو صبح صادق کی سفیدی جب چمک کر ذرا پھیلنی شروع ہو اس کا اعتبار کیا جائے اور عشاء پڑھنے اور سحری کھانے میں ابتدائے طلوع صبح صادق کا اعتبار کریں یعنی فجر اس وقت پڑھیں جب اچھی طرح روشن ہوجائے اور عشاء اور سحری کا وقت اسی دم ختم سمجھیں ، جب کہ صبح صادق کی سفیدی ذرا سی بھی شروع ہو۔ ( عالمگیری وغیرہ)
ظہر کا وقت
زوال یعنی سورج ڈھلنے سے لے کر اس وقت تک ہے کہ ہرچیز کا سایہ علاوہ سایہ اصلی کے دُونا ہوجائے۔ مثلاً ٹھیک دوپہر کو کسی چیز کا سایہ چار انگل تھا اور وہ چیز آٹھ اُنگل کی ہے تو جب اس چیز کا سایہ کل بیس اُنگل کا ہوجائے تب ظہر کا وقت ختم ہوگا۔
سایہ اصلی کی تعریف
سایہ اصلی وہ سایہ ہے جو ٹھیک دوپہر کے وقت ہوتا ہے، جب آفتاب خط نصف النہار پر پہنچتا ہے یعنی ٹھیک بیچ و بیچ آسمان پر کہ پورب پچھم ( ) کا فاصلہ برابر ہوتا ہے تویہ ٹھیک دوپہر ہوتی ہے، اس جگہ سے ذرا پچھم کا جھکا اور ظہر کا وقت شروع ہوا۔
فائدہ :
ٍ سورج ڈھلنے کی پہچان یہ ہے کہ برابر زمین پر ایک برابر لکڑی سیدھی اس طرح گاڑیں کہ پورب پچھم بالکل جھکی نہ ہو، جتنا سورج اونچا ہوتا جائے گا اس لکڑی کا سایہ کم ہوتا جائے گا جب کم ہونا رُک جائے تو یہ ٹھیک دوپہر ہے اور یہ سایہ سایۂ اصلی ہے اس کے بعد سایہ بڑھنا شروع ہوگا اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ سورج خط نصف النہار سے جھکا اور یہ ظہر کا وقت ہوا، جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔
عصر کا وقت
ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور سورج ڈوبنے تک رہتاہے۔
فائدہ :
ان شہروں میں عصر کا وقت کم سے کم تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ دو گھنٹہ ( کچھ منٹ کم و بیش) جاڑوں میں یعنی نومبر سے فروری کے تیسرے ہفتہ تک تقریباً پونے
چار مہینہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ رہتا ہے اور یہ قریب قریب سب سے چھوٹا وقت عصر ہے اور اپریل مئی میں تقریباً پونے دو گھنٹہ (کچھ کم وبیش مختلف تاریخوں میں ) اور آخر مئی و جون میں تقریباً دو گھنٹہ (کچھ کم و بیش مختلف تاریخوں میں ) پھر اگست، ستمبرمیں تقریباً پونے دو گھنٹہ اور آخر اکتوبر تک ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب آجاتا ہے۔
تنبیہ:
یہ جو وقت لکھا گیا ہے وہ مختلف شہروں اور مختلف تاریخوں کے لحاظ سے دو چار چھ منٹ کم و بیش بھی ہوگا، یہ ایک موٹا اندازہ کرنے کے لیے لکھ دیا ہے، جن صاحبوں کو ہر مقام اور ہر تاریخ کا صحیح صحیح وقت معلوم کرنا ہو وہ ہماری کتاب الاوقات ملاحظہ فرمائیں ۔
مغرب کا وقت
سورج ڈوبنے کے بعد سے شفق جانے تک ہے۔
شفق کس کو کہتے ہیں ؟
شفق سے مراد وہ سپیدی ہے جو سرخی جانے کے بعد پچھم میں صبح صادق کی سپیدی کی طرح اُتراور دکھن (1 ) پھیلی رہتی ہے۔ (ہدایہ، عالمگیری، خانیہ) یہ وقت ان شہروں میں کم سے کم سوا گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوتا ہے تقریباً۔
فائدہ:
ہر روز جتنا وقت فجر کا ہوتا ہے اتنا ہی مغرب کا بھی ہوتا ہے۔
عشاء کا وقت
شفق کی سپیدی غائب ہونے کے بعد سے لے کر صبح صادق شروع ہونے تک ہے۔ شفق کی سپیدی غائب ہونے کے بعدایک لمبی پورپ پچھم پھیلی ہوئی سپیدی بھی ہوتی ہے ، اس کا کچھ اعتبار نہیں وہ مثل صبح کاذب کے ہے، اس سے پہلے مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے بھی عشاء کا وقت ہوجاتا ہے۔
وتر کا وقت
وہی ہے جو عشاء کا وقت ہے، البتہ عشاء کی نماز سے پہلے نہیں پڑھی جاسکتی کہ ان میں ترتیب فرض ہے اگر قصداً عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے وتر پڑھ لی تو وتر نہ ہوگی، عشاء کے بعد پھر پڑھناہوگا۔ ہاں اگر بھول کر وتر پڑھ لی یا بعد کو معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز بے وضو پڑھی تھی اور وتر وضو کے ساتھ تو وتر ہوگئی۔ (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ۲: جس خطہ زمین میں جن دنوں میں عشاء کا وقت آتا ہی نہیں تو وہاں ان دنوں میں عشاء اور وتر کی قضا پڑھی جائے۔ (بہار شریعت)
مستحب اَوقات
فجر میں تاخیر مستحب ہے یعنی جب خوب اُجالا ہوجائے تب شروع کرے مگر ایسا وقت ہونا مستحب ہے کہ چالیس سے ساٹھ آیت ترتیل کے ساتھ ( 1) پڑھ سکے اور سلام پھیرنےکے بعد پھر اِتناوقت باقی رہے کہ اگر نماز میں فساد ظاہر ہو توطہارت کرکے ترتیل سے چالیس سے ساٹھ آیت دوبارہ پڑھ سکے اور اِتنی تاخیر مکروہ ہے کہ آفتاب نکلنے کا شک ہوجائے۔
(قاضی خان وغیرہ)
مسئلہ۳: عورتوں کے لیے ہمیشہ فجر کی نماز اول وقت میں مستحب ہے اور باقی نمازوں میں بہتر یہ ہے کہ مردوں کی جماعت کا انتظارکریں ، جب جماعت ہوچکے تب پڑھیں ۔
مسئلہ۴: جاڑے کی ظہر میں جلدی مستحب ہے، گرمی کے دنوں میں دیر کرکے پڑھنا مستحب ہے خواہ تنہا پڑھے یا جماعت کے ساتھ، البتہ اگر گرمیوں میں ظہر کی نمازجماعت اول وقت میں ہوتی ہو تو مستحب وقت کے لیے جماعت چھوڑنا جائز نہیں ، موسم ربیع (1 ) جاڑوں ( 2) کے حکم میں ہے اور خریف (3 ) گرمیوں کے حکم میں ۔
(ردالمحتار، عالمگیری)
مسئلہ۵: جمعہ کا مستحب وقت وہی ہے جو ظہر کے لیے مستحب ہے۔ (بحر)
مسئلہ۶: عصر کی نماز میں ہمیشہ تاخیر مستحب ہے مگر نہ اتنی تاخیرکہ خود آفتاب کے گولہ میں زردی آجائے کہ اس پر بے تکلف بے غبار و بخار نگاہ جمنے لگے، دھوپ کی زردی کا اعتبار نہیں ۔ (عالمگیری و ردالمحتار وغیرہ)
مسئلہ۷: بہتر یہ ہے کہ ظہر مثل اول میں پڑھے اور عصر مثل ثانی کے بعد۔ ( غنیہ)
مسئلہ۸: تجربہ سے ثابت ہوا کہ قرصِ آفتاب ( 4) میں یہ زردی اس وقت آجاتی ہے
جب غروب میں بیس منٹ باقی رہ جاتے ہیں تو اسی قدر وقت کراہت ہے یوہیں بعد طلوع بیس منٹ کے بعد جو از نماز کا وقت ہوجاتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، بہار شریعت)
مسئلہ۹: تاخیر (1 ) سے مراد یہ ہے کہ وقت مستحب کے دو حصے کیے جائیں اور پچھلے حصہ میں نماز ادا کی جائے۔
مسئلہ۱۰: بدلی کے دن (2 ) کے سوا مغرب میں ہمیشہ تعجیل (3 ) مستحب ہے اور دو رکعت سے زائد کی تاخیر مکروہ تنزیہی اور اگر بغیر عذر سفر و مرض وغیرہ اتنی تاخیر کی کہ ستارے گتھ (4 ) گئے تو مکروہ تحریمی۔ (درمختار، عالمگیری، فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ۱۱: عشاء میں تہائی رات گئے تاخیر مستحب ہے اور آدھی رات تک تاخیر مباح، یعنی جب کہ آدھی رات ہونے سے پہلے فرض پڑھ چکے اور اتنی تاخیر کہ رات ڈھل گئی مکروہ ہے کہ باعث تقلیل جماعت ہے۔ ( ) (بحر، درمختار، خانیہ)
مسئلہ۱۲: عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے سونا مکروہ ہے۔
مسئلہ۱۳: عشاء کی نماز کے بعد دنیا کی باتیں کرنا قصے کہانی کہنا سننا مکروہ ہے ضروری باتیں تلاوت قرآن شریف اور ذکراور دینی مسائل اور بزرگوں کے قصے اور مہمان سے بات چیت کرنے میں حرج نہیں ۔ یوہیں صبح صادق سے آفتاب نکلنے تک ذکرِ الٰہی کے سوا ہر بات مکروہ ہے۔ (درمختار، ردالمختار)مسئلہ۱۴: جوشخص اپنے جاگنے پر بھروسا رکھتا ہو اس کو آخر رات میں وترپڑھنا مستحب ہے ورنہ سونے سے پہلے پڑھ لے، پھر اگر آخر رات میں آنکھ کھلی تو تہجد پڑھے، وتر دوبارہ پڑھنا جائز نہیں ۔ (قاضی خان)
مسئلہ۱۵: بدلی کے دن (1 ) عصر اور عشاء میں تعجیل مستحب ہے اور باقی نمازوں میں تاخیر مستحب ہے۔
مکروہ اَوقات
مسئلہ۱۶: طلوع ( 2) و غروب ( 3) و نصف النہار ( 4) ، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں ۔ نہ فرض، نہ واجب، نہ نفل، نہ ادا، نہ قضا، نہ سجدہ تلاوت، نہ سجدہ سہو، البتہ اس روز کی عصر کی نماز اگر نہیں پڑھی تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے مگر اتنی دیر کرنا حرام ہے۔
طلوع سے کیا مرا د ہے
مسئلہ۱۷: طلوع سے مراد سورج کا کنارہ نکلنے سے لے کر پورا نکل آنے کے بعد اس وقت تک ہے کہ اس پر آنکھ چندھیانے لگے اور اتنا کل وقت بیس منٹ ہے۔
________________________________
1 – آسمان کا کنارہ جو زمین سے ملا ہوا دکھائی دیتاہے۔
2 – شمال ،جنوب
________________________________
1 – بہار کا موسم
2 – سردیوں
3 – خزاں کا موسم
4 – سورج کا گولہ
________________________________
1 – مشرقی کناروں
2 – مشرق سے مغرب
________________________________
1 – تاخیر: دیر کرنا۔ (۱۲منہ)
2 – جس دن آسمان پر بادل ہوں۔
3 – تعجیل: جلدی کرنا۔ (۱۲منہ)
4 – یعنی خوب ظاہر ہوگئے۔
5 – یعنی نمازِ باجماعت میں حاضر ہونے والوں کی تعداد میں کمی کا باعث ہے۔