نہرکی صدا ئیں
حکایت نمبر316: نہرکی صدا ئیں
حضرتِ سیِّدُناکَعْبُ الْا َ حْبَار علیہ رحمۃ اللہ الغفار سے منقول ہے کہ” بنی اسرائیل کا ایک شخص تو بہ کر نے کے بعد پھر ایک بد کار عورت سے منہ کا لا کر کے غسل کر نے کے لئے نہر میں داخل ہوا تو نہرسے صدائیں آنے لگیں ،” اے فلاں ! تجھے شرم نہیں آتی ؟ کیا تو نے توبہ کر کے یہ عہد نہ کیا تھا کہ اب کبھی یہ گناہ نہ کروں گا؟” نہر کی صدائیں سن کر خوفزدہ ہوکر پانی سے باہر نکل آیا اور یہ کہتا ہوا وہاں سے بھاگا :” اب کبھی بھی اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ ” روتا ہوا ایک پہاڑ پر پہنچا جہاں بارہ افراد
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مشغول تھے یہ بھی ان کے ساتھ عبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہوگیا ، کچھ عرصہ بعد وہاں قحط پڑا توتیرہ(13) افراد پر مشتمل نیک لوگوں کا وہ قافلہ غذا کی تلاش میں پہاڑ سے نیچے اترا اور آبادی کی طرف چل دیا اتفاق سے ان کا گزر اسی نہر کی طرف سے ہوا ، وہ شخص خوف سے تھرّا اٹھا اور کہنے لگا:” میں اس نہر کی طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ وہاں میرے گناہوں کو جاننے والا موجود ہے ، مجھے اس کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔” یہ کہہ کر وہ وہیں رک گیا ۔
باقی بارہ افراد جب نہر پر پہنچے تو نہر سے صدائیں آناشرو ع ہوگئیں:” اے نیک بندو! تمہارا رفیق کہا ں ہے ؟ ” انہوں نے جواب دیا:”وہ کہتا ہے کہ اس نہر پر میرے گناہوں کو جاننے والا موجود ہے، مجھے اس کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ” نہر سے آواز آئی: ” سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر تمہارا کوئی عزیز تمہیں تکلیف پہنچائے پھر نادِم ہوکر تم سے معافی مانگ لے اور اپنی غلط عادت ترک کردے تو تم اس سے صلح نہ کر لوگے؟تمہارا رفیق بھی اپنے گناہ سے تائب ہوکر عبادت میں مشغول ہوگیا ہے لہٰذا اب اس کی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے صلح ہوچکی ہے۔ اب میں اس سے راضی ہوں۔” جاؤ! اسے یہاں لے آؤ اور تم سب میرے کنارے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو ۔” انہوں نے اپنے رفیق کو خوشخبری دی اور پھر یہ سب مل کر وہاں مشغولِ عبادت ہوگئے ۔ وہیں ا س نیک شخص کا انتقال ہوا، نہر سے آوازیں آنے لگیں،” اے نیک بندو ! اسے میرے پانی سے غسل دو اور میرے ہی کنارے دفن کرو تا کہ بر وزِ قیامت بھی وہ یہیں سے اٹھایا جائے۔ ”
چنانچہ، انہوں نے ایسا ہی کیا اورساری رات اس کے مزار کے قریب عبادت کرتے اور روتے ہوئے گزاری ، وقتِ سحر انہیں نیند نے آ لیا، جب جاگے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس نیک شخص کے مزار کے اطراف میں سَرْو(۱) کے بارہ درخت کھڑے تھے ، زمین پر سب سے پہلے سرو (یعنی صنوبر ) کے درخت یہیں اُگے، یہ سب سمجھ گئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ درخت ہمارے لئے ہی پیدا فرمائے ہیں، تاکہ ہم کہیں اور جانے کی بجائے ان کے سائے میں ہی رہیں اور یہیں رہ کر اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں۔ چنانچہ وہ لوگ وہیں عبادت میں مشغول ہوگئے۔ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا تو اسی شخص کے پہلو میں دفن کردیا جاتا حتیٰ کہ سب وفات پاگئے۔ اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد حضرت سیِّدُنا کَعْبُ الْا َ حْبَار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” نبی اسرائیل ان کے مزارات کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کتنا مہربان اوررحمن ورحیم ہے، جب کوئی بندہ سچے دل
سے تائب ہوتا ہے تو اس سے خوش ہوجاتا ہے ۔ یہ درس بھی ملاکہ گناہ کر نے والااگرچہ لاکھ پردوں میں چھپ کرگناہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ تو دیکھ ہی رہا ہے ۔ لہٰذا انسان کو ہر وقت رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہنا چاہے اور گناہوں سے کنارہ کَشی اختیار کرتے ہوئے اعمالِ صالحہ کو اپنا وَطِیرہ بنانا چاہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں گناہوں سے بچاکر اعمالِ صالحہ کی تو فیق عطا فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔ایک خوبصورت مخروطی (گاجرکی) شکل کا قدآوردرخت جواکثرباغات میں لگایاجاتاہے(جسے صنوبرکادرخت کہاجاتاہے)۔