نبی کا علم
اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کو غیب کی باتیں بتائیں ، زمین و آسمان کا ہر ذرہ ذرہ ہر نبی کی نظر کے سامنے ہے۔ یہ علم غیب اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کے دیئے سے ہے لہٰذا یہ علم عطائی ہوا اور اللّٰہ تعالیٰ کا علم چونکہ کسی کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ خود اُسے حاصل ہے لہٰذا ذاتی ہوا، اب جب کہ اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کے علم اور رسول کے علم کا فرق معلوم ہوگیا تو ظاہر ہوگیا کہ نبی و رسول کے لیے خدا کا دیا ہوا علم غیب ماننا شرک نہیں بلکہ ایمان ہے جیسا کہ آیتوں اور حدیثوں سے ثابت ہے۔ (1)
عقیدہ۱۹: کوئی اُمتی زُہد و تقوی ، (2) اِطاعت و عبادت میں نبی سے نہیں بڑھ سکتا، انبیاء (عَلَیْہِمُ السَّلَام) سوتے جاگتے ہر وقت یاد ِالٰہی میں لگے رہتے ہیں ۔
عقیدہ۲۰: انبیاء (عَلَیْہِمُ السَّلَام) کی تعداد مقرر کرنی ناجائز ہے، ان کی پوری تعداد کا صحیح علم اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) ہی کو ہے۔
________________________________
1 – قرآن شریف میں ہے کہ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ (۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ (پ۲۹،الجن:۲۷) یعنی اللّٰہ تعالیٰ اپنے غیب کا علم اپنے پسندیدہ رسولوں کو دیتا ہے۔ (جمل) (حاشیۃ الجمل علی الجلالین، سورۃ الجن،تحت الآیۃ:۲۶،۸/ ۱۴۰) اور فرمایا: وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ (۲۴) (پ۳۰،التکویر:۲۴) یعنی یہ رسول غیب کی باتیںبتاتے ہیں۔رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :ان اللّٰہ قد رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا والٰی ما ھو کائن الٰی یوم القیامۃ کانما انظر الی کفی ھذہ جلیان من امر اللّٰہ تعالٰی جلاہ لنبیہ کما جلاہ للنبین من قبلہ۔ (طبرانی و نعیم ابن حماد و ابو نعیم) (حلیۃ الاولیائ،حدیر بن کریب،۶/ ۱۰۷،حدیث:۷۹۷۹) یعنی دنیا مجھ پر روشنی کی گئی جیسا کہ مجھ سے پہلے اور نبیوں پر روشن کی گئی تو دنیا کی طرف اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اس کی طرح دیکھتا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی ۔ (۱۲منہ)
2 – زہد و تقویٰ: نیکی و پرہیزگاری ۔۱۲ (منہ)