اسلامسوانحِ كربلا مصنف صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ القویفضائل

پیش لفظ

پیش لفظ

راہِ خدا عزوجل میں ہمارے اَسلاف کرام اور بزرگانِ دین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی پیش کردہ قربانیوں کے سبب ہی آج دین ِاسلام کا یہ چمنستان سرسبز و شاداب ہے ان نفوس قدسیہ کو پیش آنے والے مصائب و آلام کا تذکرہ بڑا دل سوز وجاں گداز ہے بالخصوص میدانِ کربلامیں اہل ِبیت اَطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جو مصیبتیں جھیلیں ان کا تو تصور ہی دل دہلا دیتا ہے۔ جفاکار و ستم شعارکوفیوں نے جس بے مروتی اور بے دینی کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ خود ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدہادرخواستیں بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی اور جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی زمین کو شرف قدم بوسی عطا فرمایا تو بجائے استقبال کرنے کے وہ آپ کے خون کے پیاسے ہوگئے مسلح لشکر لیکر آپ کے سد ِراہ ہوئے نہ شہر میں داخل ہونے دیا نہ ہی وطن واپس لوٹ جانے پر راضی ہوئے، حسینی قافلہ کو ریگزار کربلا میں اقامت پذیر ہونا پڑا،کور باطنوں نے فرات کاآبِ رواں خاندانِ رسالت پر بند کردیا۔ اہل بیت کے ننھے ننھے حقیقی مدنی منے تشنہ لب ایک ایک قطرہ کے لئے تڑپ رہے تھے، چھوٹے چھوٹے بچے اورباپردہ بیبیاں سب بھوک و پیاس سے بیتاب ونا تواں ہوگئے تھے۔ تیز دھوپ، گرم ریت ، گرم ہوائیں، اور بے وطنی کا احساس الگ دامن گیر ہے۔ اُدھر بائیس ہزار کا لشکر جرار تیغ و سنان سے مسلح درپئے آزار اور اپنے ہنر آزمانے کا طلب گار ہے مگر بھوک پیاس کی شدت کے باوجود فرزندان آلِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایسی بہادری اور جواں مردی کا مظاہرہ کیا کہ اعدا انگشت بدنداں رہ گئے، کئی کئی یزیدیوں کو ہلاک کرنے کے بعد خاندانِ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نونہال دادِ شجاعت دیتے یکے بعد دیگرے شہادت سے سرفراز ہوتے گئے۔ عزیز واقارب، دوست واحباب، خدام و موالی،

دلبندو جگرپیوند سب نے آئین وفاادا کرکے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنی جانیں فدا کردیں اور اب سید انبیا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نورِ نظر ، فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا لختِ جگر بے کسی و بھوک پیاس کی حالت میں آل واصحاب کی مُفارَقَت کا زخم دل پر لئے ہوئے شمشیر بکف ہوگیااور اس کمال مہارت و ہنر مندی سے مقابلہ کیا کہ بڑے بڑے ناموران صف شکن کے خون سے کربلا کے تشنہ ریگستان کو سیراب فرما دیا اور نعشوں کے انبار لگادےئے، ناموران کوفہ کی جماعتیں ایک حجازی جوان کے ہاتھ سے جان نہ بچا سکیں،بالآخر تیر اندازوں کی جماعتیں ہر طرف سے گھر آئیں امام تشنہ کام کو گرداب بلا میں گھیر کر تیر برسانے شروع کردےئے ،تیروں کی بوچھاڑ میں نورانی جسم زخموں سے چکنا چور اور لہولہان ہوگیا، ایک تیر پیشانی اقدس پر لگا اور آپ گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے ،ظالموں نے نیزوں پر رکھ لیا اور آپ شربت شہادت سے سیراب ہوگئے۔
اس معرکہ ظلم و ستم میں اگرر ستم بھی ہوتا تو اس کے حوصلے پست ہوجاتے اور سرِ نیاز جھکادیتا مگر فرزند ِرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مصائب کا ہجوم اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا اور ان کے عزم و استقلال میں فرق نہ آیا، حق وصداقت کا حامی مصیبتوں کی بھیانک گھٹاؤں سے نہ ڈرا اور طوفانِ بلا کے سیلاب سے اس کے پائے ثبات میں جنبش بھینہ ہوئی۔ راہِ حق میں پہنچنے والی مصیبتوں کاخوش دلی سے خیر مقدم کیا ،اپنا گھر لٹانا اور اپنے خون بہانا منظور کیا مگر اسلام کی عزت میں فرق آنا برداشت نہ ہوسکا۔ سروتن کو خاک میں ملا کر اپنے جد کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دین کی حقانیت کی عملی شہادت دی اور ریگستانِ کوفہ کے ورق پر صدق و امانت پر جان قربان کرنے کے نقوش ثبت فرمائے۔
گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے

جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہل ِبیت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقعہ کربلا اکسٹھ ہجری ماہ محرم الحرام میں پیش آیا، آج کئی صدیاں گزرجانے کے باوجود اس کی یاد دلوں میں تروتازہ ہے ، اسلامی تاریخ کے اوراق پر شہدائے کربلا رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کارنامے سنہری حروف میں کندہ ہیں۔ان کی شان وسیرت کے بیان میں آج بھی تُزُک واحتشام سے محافل و مجالس منعقد کی جاتی ہیں شہیدانِ کربلا رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شاندار اور بے مثال قربانیوں کا تذکرہ سن کر دلوں پر سوز کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ان حضرات کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں اور مختلف انداز میں ان سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! بلاشبہ کربلا والوں کی یاد منانا، ان کے ایصالِ ثواب کی خاطر کھچڑا اور دیگر کھانے پکانا،پانی کی سبیلیں قائم کرنا اور ذکر ِشہادت ومناقب ِاہل ِبیت کی محفلیں منعقد کرنا جائز اور مستحسن ہے مگر ہمیں ان کی سیرتِ مبارکہ پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہے، حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دین کی خاطر اتنی اتنی مصیبتیں برداشت کیں اور زبان تو کُجا، دِل میں بھی شکوہ و شکایت کو پناہ نہ دی اور ہم ہیں کہ ذرا سی مشکل آئے یا معمولی سی پریشانی لاحق ہو ، شکوؤں کے اَنبار لگادیتے ہیں ۔ یاد رکھیے! مسلمان پر امتحان ضرور آتا ہے ،کبھی بیماری کی صورت میں تو کبھی بیروزگاری کی شکل میں ، کبھی اولاد کے سبب تو کبھی ہمسایوں کے ذریعے ، کبھی اپنوں کی وجہ سے تو کبھی بیگانوں کے ذریعے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ امتحان کے لئے تیار رہے اس سے جی نہ چرائے اور ہرگز ہرگز حرفِ شکایت زبان پرنہ لائے۔ جس طرح ثابت قدمی اور خوش دلی سے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام مصائب کا مردانہ وار سامنا کیا اس کا تصور کرکے ہمیں بھی مصیبتوں پر صبر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور جس طرح اسلام کی

سربلندی اور حق کی برتری کے لیے آپ نے اپنے وطن مدینہ طیبہ سے کربلا کاسفر اختیار کیا اسکی یاد میں ہمیں بھی چاہیے کہ اسلام کی اشاعت اور نیکی کی دعوت دینے کے لیے راہِ خداعزوجل میں سفر اختیار کریں بلکہ ہو سکے تو دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلوں میں سفر کو اپنا معمول بنالیں ان شآء اللہ عزوجل اسکی برکت سے ہمارے دلوں میں بزرگانِ دین اور اَسلاف کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی محبت مزید پختہ اور ان کی قربانیوں کی اہمیت بھی اجاگر ہوگی ۔
الحمدللہ! عزوجل تبلیغ ِقرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ”دعوتِ اسلامی ” کی مجلس ”المدینۃ العلمیۃ”نے اَکابرین وبزرگانِ اہل ِسنت کی مایہ نازکتب کو حتی المقدور جدید انداز میں شائع کرنے کا عزم کیا ہے لہٰذا واقعہء کربلا سے متعلق برادرِ اعلیٰ حضرت، استاذِ زمن، شہنشاہِ سخن حضرت علامہ مولانا حسن رضا خان علیہ رحمۃ اللہ المنان کی منفرد کتاب ” آئینہ قیامت” کے بعد اب استاذ العلماء،سند الفضلاء،فخر الاماثل،صدر الافاضل مولانا سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی مایہ ناز تصنیف ” سوانح کربلا” کو بھی دورِ جدید کے تقاضوں کومد ِنظر رکھتے ہوئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے۔
کتاب ہذا ” سوانح کربلا ”میں صدر الافاضل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے واقعہء کربلا بڑے پُرسوز انداز میں تحریر فرمایاہے اور حضرت امام حسین اور آپ کے جاں نثاروں رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادت کو نہایت ہی رقت انگیز انداز میں بیان کیاہے نیز شہادت کے بعد کے واقعات اور یزید اور یزیدیوں کے انجام بد کا بھی قدرے تفصیل سے تذکرہ فرمایا ہے۔ اس کتاب پر مدنی علمائے کرام دامت فیوضہم کے کام کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱)کتاب پر کام شروع کرنے سے پہلے اس کتاب کے مختلف نسخوں میں حتی المقدور

صحیح ترین نسخے کا انتخاب کرنے کی کوشش کی گئی اور الحمد للہ عزوجل ۱۳۷۷؁ھ کے مطبوعہ ایک قدیم نسخہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کتاب پر کام کیا گیا۔
(۲) جدید تقاضوں کے مطابق کمپیوٹر کمپوزنگ جس میں رموز ِاَوقاف (فل اسٹاپ، کاماز، کالنز وغیرہ )کا مقدور بھر اہتمام کیا گیاہے۔
(۳)کمپوز شدہ مواد کا اصل سے تقابل تاکہ محذوفات ومکررات وغیرہ جیسی اغلاط نہ رہیں
(۴)عربی عبارات، سن ِواقعات ا ور اَسمائے مقامات و مذکورات کی اصل مآخذسے تطبیق
(۵)آیاتِ قرآنیہ، اَحادیث وروایات وغیرہا کی اصل مآخذسے حتی المقدور تخریج وتطبیق
(۶) حوالہ جات کی تفتیش تاکہ اغلاط کا امکان کم سے کم ہو۔
(۷) اِرتباطِ متن وحواشی یعنی حو الہ جات وغیرہ کو متن سے جدا رکھتے ہوئے اسی صفحہ پر نیچے حاشیہ میں تحریر کیا گیاہے،نیز مصنف کے حاشیہ کے ساتھ بطورِ امتیاز ۱۲منہ لکھ دیا ہے۔
اللہ عزوجل کی بارگاہ ِبے کس پناہ میں اِ ستدعا ہے کہ اس کتاب کو پیش کرنے میں علمائے کرام دامت فیوضہم نے جو محنت وکوشش کی اسے قبول فرماکر انہیں بہترین جزا دے اورانکے علم وعمل میں برکتیں عطافرمائے اور دعوتِ اسلامی کی مجلس ”المدینۃ العلمیۃ ” اور دیگر مجالس کو دن گیارھویں رات بارھویں ترقی عطافرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
شعبہ تخریج مجلس المدینۃ العلمیۃ

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!