مدینے والے صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کامہمان
حکایت نمبر:344 مدینے والے صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کامہمان
حضرتِ سیِّدُنا ابو عبدالرحمن سُلَمِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے، حضرتِ سیِّدُنا منصور بن عبداللہ اَصْبَہَانیِ قُدِّسَ سِرُّہ، الرَّبَّانِی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرتِ ابو الخیر اَقطع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :” ایک مرتبہ جب میں مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماًگیا تو مسلسل پانچ دن کا فاقہ تھا ،پانچ دن سے ایک لقمہ بھی نہ کھایا تھا اب جان لَبوں پرآچکی تھی۔چنانچہ، میں حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہو ا۔ آپ کے روضۂ مبارکہ کے سامنے کھڑے ہو کرسلام عرض کیا، پھرامیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا صدیقِ اکبر اورامیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو سلام عرض کیا پھر پیارے آقا ،مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں فریاد کی: ”میرے آقا! میرے سردارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! آج رات میں آپ کا مہمان ہوں۔ ”
اتنا کہہ کر میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے منبرشریف کے پیچھے جاکر سوگیا۔ سر کی آنکھیں تو کیا بند ہوئیں، دل کی آنکھیں کھل گئیں ،میرا سویاہوا نصیب جاگ اُٹھا، میرے مشکل کُشاآقا اپنے غلام کی حالتِ زار دیکھ کر مشکل کُشائی کے لئے تشریف لے آئے۔خواب میں پیارے آقا صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ،آپ کے دائیں جانب امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدیق ،بائیں طرف امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور آپ کے سامنے امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حاضر تھے۔
امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے مجھے بیدار کیا اور فرمایا:” اٹھو! دیکھو! حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے ہیں ۔” اتنا سنتے ہی میں اپنے رحیم وکریم آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی طرف دوڑ پڑا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی مُبَارَک پیشانی کا بوسہ لیا۔پیارے آقا،مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے ایک روٹی عطا فرمائی اور تشریف لے گئے ۔ میں نے ابھی آدھی روٹی ہی کھائی تھی کہ آنکھ کھل گئی، حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی عطا کردہ بقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں موجود تھی ۔”
؎ مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میں ہجومِ جُود نے روکا ہے، بڑھنا دستِ حاجت کا
غنی ہے دل، بھرا ہے نعمتِ کونین سے دامن گدا ہوں میں فقیر، آستانِ خود بدولت کا
حسنؔ سرکارِ طیبہ کا عجب دربار عالی ہے درِ دولت پہ اک میلا لگا ہے اہلِ حاجت کا
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے خو د آکر روٹی عنایت فرمائی اور اپنے دیوانے کی کس طر ح مشکل کشائی فرمائی ۔ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اللہ ربُّ العزَّت نے بے شمار اختیارات عطا فرمائے ، جس طر ح آپ وصالِ ظاہری سے قبل لوگو ں کی رہنمائی ومشکل کشائی فرماتے تھے بعد از وصال بھی ربِّ قدیر کی عطا سے اپنے غلاموں کی مشکلیں حل کرتے ہیں۔
؎ رَبّ ہے مُعْطِی، یہ ہیں قاسم
رزق اس کا ہے، کھِلاتے یہ ہیں
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا
پیتے ہم ہیں، پِلاتے یہ ہیں
اللہ ربُّ العزَّت ہمیں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سچی محبت عطا فرمائے۔ جنت البقیع میں مدفن اور جنت الفردوس میں حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوس عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)