لعنت بھیجنا
لعنت بھیجنا
کسی کو اللہ کی رحمت سے دور کہنا اورکرنا ”لعنت ”کہلاتی ہے ۔ یقین کے ساتھ کسی پر بھی لعنت کرنا جائز نہیں چاہے وہ کافر ہویامومن ، گنہگار ہویا فرمانبردار کیونکہ کسی کے خاتمہ کا حال کوئی نہیں جانتا۔ (حدیقہ ندیہ ،ج۲،ص۲۳۰)
فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ ”لعنت بہت سخت چیز ہے ،ہر مسلمان کو اس سے بچایا جائے بلکہ کافر پر بھی لعنت جائز نہیں جب تک اس کا کفر پر مرنا قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو۔”(جلد ۱۰،نصف ثانی ، ص ۲۵۵بتغیرمّا)
ہمارے معاشرے میں بات بات پرلعنت ملامت کرنے کا مرض بھی عام ہے اور علم دین سے محرومی کے باعث اس میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھاجاتا حالانکہ کسی مؤمن کو لعنت کرنااسے قتل کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ حضرتِ سیدناضحاک سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔” (صحیح البخاری ، کتاب الایمان والنذر ، رقم الحدیث ۶۶۵۲، ج۴،ص۲۸۹)
اور کسی پر لعنت کرنا مؤمن کی شان کے بھی منافی ہے جیسا کہ حضرتِ سیدنا ابن مسعود رضي اللہ عنه
روایت کرتے ہیں کہ مدنی آقاصلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مومن لعن طعن
اورفحش کام نہیں کرتا۔” (سنن الترمذی ، کتاب البر والصلۃ ،رقم الحدیث ۱۹۸۴،ج۳،ص۳۹۳)
کسی کو لعن طعن کرنے کی عادت پالنے والے بھائی اس حدیث پر غور کریں :
حضرتِ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِاکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب لعنت کرتاہے وہ آسمان کی طرف جاتی ہے تو وہاں کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ،پھر یہ زمین کی طرف لوٹتی ہے تو زمین کے دروازے بھی بند کردئیے جاتے ہیں اوریہ دائیں بائیں کہیں سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے ،جب کوئی راستہ نہیں پاتی تو جس پر بھیجی گئی وہ اہل ہوتو اس کی طرف لوٹتی ہے ورنہ لعنت بھیجنے والے پر واپس آتی ہے۔” (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ، رقم الحدیث ۴۹۰۵،ج۴،ص۳۶۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حوالے سے بھی اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم