اسلامواقعات

تبلیغ علی الا علان

تبلیغ علی الا علان

خفیہ دعوت کو جب تین سال ہو چکے تو اعلان کا حکم اس طرح آیا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ (۹۴) (سورۂ حجر )
پس تو کھول کر بیان کر دے جو تجھے حکم دیا جا تا ہے اور مشرکوں سے کنارہ کر۔ (6)
نیز حکم آیا:
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ (۲۱۴) (شعراء )
اور ڈرا اپنے نزدیک کے ناطے والوں کو۔ (7)
اس (8) پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کو ہِ صفاپر چڑھ کر قبیلہ قریش کے بطون (9) کو یوں پکارا:
یابنی فِہْر! یابنی عَدِی! یہاں تک کہ وہ جمع ہوگئے، جو خودنہ آسکتا تھاوہ اپنی طرف سے کسی اور کو بھیجتا تا کہ دیکھے کہ یہ پکار کیسی

ہے۔پس ابو لہب اور قریش آگئے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ بتاؤ اگر میں تم سے کہوں کہ وادی ٔمکہ سے ایک سواروں کا لشکر تم پر تاخت وتاراج کر نا چاہتا ہے (1) تو کیا تمہیں یقین آجائے گا ؟ ‘‘ وہ بولے: ہاں ! کیونکہ ہم نے تم کو سچ ہی بولتے دیکھا ہے۔آپ نے فرمایا: تو میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم مجھ پر ایمان نہ لاؤگے تو تم پر سخت عذاب نازل ہو گا۔اس پرابو لہب بولا: تجھ پر آیندہ ہمیشہ ہلاک و زیان ہو، کیا اس کے لئے تو نے ہم کو جمع کیا ہے! تب یہ آیتیں نازل ہوئیں : (2)
تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ (۱) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَؕ (۲)
ہلاک ہو جیو ہاتھ ابو لہب کے اور ہلاک ہو وہ، کام نہ آیا اس کو مال اس کا اور نہ جو کچھ کمایا۔ (3)
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اعلانِ دعوت کیا اور بت پر ستی کی علانیہ مذمت شروع کی تو سردارانِ قریش عُتْبَہ وشَیبہ پسرانِ رَبیعہ بن عبدشمس، ابوسفیان، ابو جہل، ولید بن مغیر ہ، عاص بن وائل سہمی اور اَسوَدبن مُطَّلِب وغیرہ ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تیرا بھتیجاہمارے معبودوں کو براکہتا ہے اور ہمارے آباء واجداد کو گمراہ بتا تا ہے اور ہمیں احمق ٹھہر اتا ہے تم اس کو منع کر دو یا بیچ میں سے ہٹ جاؤ، ہم اس سے سمجھ لیں گے۔ابو طالب نے انہیں نرمی سے سمجھا کر رخصت کردیا۔ آپ نے تبلیغ کو جاری رکھا مگر قریش بجائے روبر اہ (4) ہو نے کے آپ سے حقد و عداوت (5) زیادہ کر نے لگے اور ایک دوسرے کو آپ سے لڑنے پر اُبھار نے لگے۔وہ دوبارہ ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’ ابو طالب! بیشک ہم میں تیری قدر ومنزلت ہے ہم نے تم سے کہا تھا کہ اپنے بھتیجے کو منع کردو، مگر تم نے ایسا نہیں کیا، خدا کی قسم! ہم اپنے معبود وں اور آباء واجداد کی توہین گوار انہیں کر سکتے، تم اس کوروک دو ورنہ وہ اور تم میدان میں آؤ کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہو جائے۔ ‘‘ وہ یہ کہہ کر چلے گئے۔ابو طالب نے حضور

عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکو بلاکر کہا: ’’ اے میرے بھتیجے! تیری قوم نے میرے پاس آکر ایسا ایسا کہا ہے ، تو اپنے آپ پر اور مجھ پر رحم کر اور مجھے اَ مْرمَا لایُطَاق (1) کی تکلیف نہ دے۔ ‘‘ یہ سن کر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدیں خیال کہ اب میرے چچا نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور میر ی مدد سے عاجز آگیا ہے، یوں فرمایا: ’’ اے میرے چچا! اللّٰہکی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیں تا کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کو نہ چھوڑوں گایہاں تک کہ اللّٰہ اسے غالب کردے یا میں خود اس میں ہلاک ہو جاؤں ۔ ‘‘ (2)
دست از طلب ندارم تاکام من برآید یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید
پھر آپ آبد ید ہ ہوئے اور روپڑے۔آپ واپس ہوئے تو ابو طالب نے بلا کر کہا: ’’ اے میرے بھتیجے! جو کچھ آپ چاہیں کہیں میں کبھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ ‘‘ جب قریش نے دیکھا کہ ابو طالب اس طرح نہیں مانتا تو عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو ساتھ لے کر اس کے پاس آئے، کہنے لگے: اے ابو طالب! یہ عمارہ قریش میں نہایت قوی اور خوبصورت نوجوان ہے۔ہم یہ تجھے دیتے ہیں تو اس کو اپنا بیٹا بنالے اور اس کے عوض میں اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کردے۔ ابو طالب نے کہا: ’’ اللّٰہ کی قسم! تم مجھے بڑی تکلیف دیتے ہو، کیا تم مجھے اپنا بیٹا دیتے ہو کہ میں اسے تمہارے واسطے پالوں اور اپنا بیٹا تمہیں دوں کہ اسے قتل کرڈالو! اللّٰہکی قسم! ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ ‘‘ (3) یہ سن کر قریش اور بھی براَفروختہ ہو گئے وہ ایک روزولیدبن مغیرہ کے پاس جمع ہو ئے، ولید مذکور فصاحت وبلاغت میں ان کا سر دار تھا۔ایا مِ حج قریب تھے۔ولید وقریش میں یوں گفتگوہوئی :
ولید: اے گر وہِ قریش! حج کا موسم آگیا ہے، عرب کے قبائل تمہارے پاس آئیں گے جنہوں نے تمہارے صاحب کا حال سن لیا ہے۔اس کے بارے میں ایک رائے پر اتفاق کر لوایسا نہ ہو کہ تم ایک دوسرے کی تکذیب کرو۔
قریش: آپ ہی ایک رائے قائم کر دیں ہم اسے تسلیم کر لیں گے۔
ولید: نہیں ! تم ہی کہو میں سنتا ہوں ۔
قریش: ہم کہیں گے کہ وہ کاہن ہے ۔
ولید: اللّٰہ کی قسم! وہ کاہن نہیں ، ہم نے کاہن دیکھے ہو ئے ہیں اس کا کلام نہ کاہن کا زَمزَمہ (1) ہے نہ سَجْعْ ۔ (2)
قریش: ہم کہیں گے کہ وہ دیوانہ ہے۔
ولید: وہ دیوانہ نہیں ، ہم نے دیوانگی دیکھی ہو ئی ہے وہ دیوانہ کا غیظ وغضب نہیں نہ دیوانہ کا خلجان (3) ووسوسہ ہے۔
قریش: ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہے۔
ولید: وہ شاعر نہیں ، ہمیں تما م اقسام شعر َرجْز ، ہَزَج ، قَرِیض ، مَقْبوض اور مَبْسوط معلوم ہیں اس کا کلام شعر نہیں ۔
قریش: ہم کہیں گے کہ وہ جادو گرہے۔
ولید: وہ جادو گر نہیں ، ہم نے جادو گر اور ا ن کے جادو دیکھے ہوئے ہیں ، یہ جادو گروں کا پھونک مارنا نہیں اور نہ ان کا رسیوں یا بالوں کو گر ہ دینا ہے ۔
قریش: ابو عبد شمس ! پھر تم بتا ؤہم کیا کہیں ؟
ولید: اللّٰہکی قسم! اس کے کلام میں بڑی حَلاوَت (4) ہے، اس کلام کی اَصل مضبوط جڑ والا درخت خُرماہے اور اس کی فَرْع پھل ہے۔ان باتوں میں سے جو تم کہو گے وہ ضرور پہچان لی جائے گی کہ جھوٹ ہے اس کے بارے میں صحت سے قریب تر قول یہ ہے کہ تم کہو: وہ جادو گر ہے اور ایسا کلام لا یا ہے جو جادو ہے، اس کلام میں وہ باپ بیٹے میں ، بھائی بھائی میں ، میاں بیوی میں اور خویش (5) واَقارب میں جدائی ڈال دیتا ہے۔
ولید کا کلام سن کر وہ مجلس سے چلے گئے جب موسم حج میں لوگ آنے لگے تو وہ ان کے راستوں میں بیٹھتے جو کوئی ان کے پاس سے گزرتا وہ اس کو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ڈراد یتے اور آپ کا حال بیان کر دیتے اللّٰہ تعالٰی نے ولید کے بارے میں یہ آیات نازل فرمائیں :
ذَرْنِیْ وَ مَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًاۙ (۱۱) وَّ جَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًاۙ (۱۲) وَّ بَنِیْنَ شُهُوْدًاۙ (۱۳) وَّ مَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِیْدًاۙ (۱۴)
چھوڑ دے مجھ کو اور اس کو جو میں نے بنایا اکیلا اور دیا میں نے اس کو مال پھیلا کر اور بیٹے موجود (یعنی زندگی والے) اورتیاری کر
ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَۗۙ (۱۵) كَلَّاؕ-اِنَّهٗ كَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًاؕ (۱۶) (مدثر، ع۱، آیت ۱۱) (1)
دی اس کو خوب تیاری اور پھر لالچ رکھتا ہے کہ اور دوں ۔کو ئی نہیں وہ ہے ہماری آیتوں کا مخالف۔ (2)
ان کے بعد کی اور کئی آیتیں وَلید ہی کے بارے میں ہیں ۔
اسی طرح ایک دن جب کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد میں اکیلے بیٹھے ہو ئے تھے سر دارِ قوم عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس اور قریش میں یوں (3) گفتگوہوئی :
عتبہ: اے گروہ قریش! کیا میں محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے پاس جاؤں تا کہ اس سے کلام کروں اور چند باتیں اس کے آگے پیش کروں شاید وہ ان میں سے ایک بات کو پسند کرے پس ہم وہ کردیں اور وہ ہم سے بازر ہے۔
قریش: ہاں اے ابو الولید! آپ جائیے اور اس سے گفتگوکیجئے۔
عتبہ: (حضرت سے مخاطب ہو کر ) بھائی کے بیٹے! آپ کو معلوم ہے کہ خویش واقارب (4) میں آپ بزرگ و برگزید ہ اور نسب میں عالی رتبہ ہیں آپ اپنی قوم میں ایک نیا مذہب لائے ہیں جس سے آپ نے ان کی جماعت کو پراگندہ (5) کردیا ہے آپ نے ان کے داناؤں کو نادان بتایا ان کے معبودوں اور ان کے دین کو براکہااور ان کے گزشتہ آباء و اجد اد کو کافربتا یا۔ سنئے! میں چند باتیں پیش کر تا ہوں شاید آپ ان میں سے ایک بات پسند فرمائیں ۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ابو الولید! بیان کر ، میں سنتا ہوں ۔
عتبہ: بھائی کے بیٹے! اس نئے مذہب سے آپ کا مقصود اگر مال ہے تو ہم آپ کے لئے اتنا مال جمع کردیتے ہیں کہ آپ ہم سب سے زیادہ مالد ار بن جائیں ، اگر اس سے ہم پر شرف مقصود ہے تو ہم آپ کو اپنا سر دار بنالیتے ہیں آپ کے بغیر کوئی کام نہ کیا کریں گے۔اگر آپ کو ملک مطلوب ہے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں ۔ اگر ہم آپ سے اس جن کو نہ روک سکیں جو آپ کے پاس آتا ہے تو آپ کا علاج کرائیں گے اور علاج میں اپنا خرچ کریں گے یہاں تک کہ وہ جن
بھاگ جائے۔

آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ابو الولید ! کیا تو کہہ چکا جو کہنا تھا ؟
عتبہ: ہاں !
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : مجھ سے سن!
عتبہ: سنائیے !
(آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سورۂ حم السجد ہ کی آیات تاآیۂ سجدہ تلاوت فرماکر سجدہ کیا اور عتبہ کھڑا سنتا رہا)
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : ابو الولید ! تونے سنا !
عتبہ: میں نے سن لیا، آپ جانیں اور آپ کاکام!
قریش: (عتبہ کو آتا دیکھ کر ایک دوسرے سے ) اللّٰہ کی قسم! ابو الولید وہ چہرہ لے کر نہیں آیا جو لے کر گیا تھا۔ (عتبہ کو پاس بیٹھا دیکھ کر ) ابو الولید ! وہاں کا حال سنا ئیے!
عتبہ: اللّٰہ کی قسم! میں نے ایسا کلام سنا کہ اس کی مثل کبھی نہیں سنا، اللّٰہ کی قسم! وہ شعرنہیں نہ جادو ہے نہ کہانت۔اے گروہ قریش! میرا کہامانو، اس شخص کو کر نے دو جو کر تا ہے اور اس سے الگ ہو جاؤ۔ اللّٰہ کی قسم! میں نے جو کلام اس سے سنا ہے اس کی بڑی عظمت وشان ہو گی۔اگر عرب ا س کو مغلوب کر لیں تو تم غیر کے ذریعے اس سے بچ گئے۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کا ملک تمہارا ملک ہے اور اس کی عزت تمہاری عزت ہے تم اس کے سبب سے خوش نصیب ہو جاؤ گے۔
قریش: ابو الولید ! اللّٰہ کی قسم! اس نے اپنی زبان سے تجھے بھی جادو کر دیا۔
عتبہ: اس کی نسبت میری یہی رائے ہے، تم جو چاہو کر و ۔ (1)
اب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکر بلا دعرب میں دور دور پہنچ چکا تھا قریش روز بر وز تشدد میں زیادتی کر تے جاتے تھے، انہوں نے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دیں کمینے لوگوں کو آپ پر برانگیختہ کیا، آپ کی تکذیب کی، آپ پر استہزاء کیا، آپکو شاعر کہا، جادو گر بتا یا، کاہن کہا، سڑی (2) اور پا گل بتا یا مگر آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم برابر تبلیغ فرماتے رہے۔
ایک روز آپ خانہ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے۔حرم شریف میں اس وقت قریش کی ایک جماعت موجود تھی۔عُقْبَہ بن اَبی مُعِیطنے ابو جہل کی ترغیب سے ذبح کیے ہوئے اونٹوں کی اوجھ (1) سجدے کی حالت میں آپ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دی، یہ دیکھ کر وہ سب نابکار قہقہہ مار کر ہنسے۔کسی نے آپ کی صاحبز ادی بی بی فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو خبر کر دی وہ فوراً دوڑی آئیں اور آپ کی پشت مبارک سے وہ پلید ی دور کر دی اور ان کو بر ابھلا کہا۔ یہ نابکار حرمات اللّٰہ (2) کی بے حرمتی بھی کیا کر تے تھے۔اس لئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو یوں بددعا فرمائی: (3) ’’ یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تو گر وہ قریش کوپکڑ۔ یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تو ابوجہل بن ہِشام، عُتبہ بن رَبیعہ، شَیْبَہ بن رَبیعہ، عُقْبَہ بن اَبی مُعِیط اور اُمَیَّہ بن خَلَف کو پکڑ۔ ‘‘ اس حدیث کے راوی حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بَدْر کے دن مقتول دیکھا اورا ُمَیَّہ کے سوا سب چاہِ بدرمیں پھینک دیئے گئے، امیہ مو ٹا تھا، جب اسے کھینچنے لگے تو چاہ میں ڈالنے سے پہلے ہی اس کے اعضاء ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ (4)
اسی طرح شیاطین قریش ایک دن خانہ کعبہ میں جمع تھے۔ابو جہل ایک بھاری پتھر اٹھا کر سجدے کی حالت میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سر مبارک کو کچلنے کے لئے آگے بڑ ھا جب وہ نزدیک پہنچا تو وہ خوف زدہ اور رنگ بدلا ہوا پیچھے بھا گا اور پتھر ہاتھ سے نہ پھینک سکا۔قریش نے پوچھااے ابو الْحَکَم! تجھے کیا ہو ا؟ بو لا: جب میں نزدیک گیا تو میں نے اس کے وَرِے (5) ایک اونٹ دیکھا۔اللّٰہ کی قسم! میں نے اس کا وہ سراور گردن اور دانت دیکھے کہ کبھی کسی اونٹ کے دیکھنے میں نہیں آئے، وہ اونٹ مجھے کھانے لگا تھا۔رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: (6) ’’ وہ جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامتھے، اگر ابو جہل اور نزدیک آتا تو اسے پکڑ لیتے۔ ‘‘ (7) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ نابکار کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہو ئے تھے اور رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑ ھ رہے تھے۔عقبہ بن ابی معیط نے آپ کی گردن مبارک میں چادر ڈال لی پھر اسے کھینچا یہاں تک کہ آپ گھٹنوں کے بل گر پڑے۔لوگوں کو گمان ہوا کہ
آپ کا انتقال ہوگیا، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوڑے آئے اور فرمانے لگے: (1) ’’ کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کر تے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پر وردگار اللّٰہ ہے۔ ‘‘ (2) یہ سن کر وہ ہٹ گئے۔
یہ اذیتیں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک محدودنہ تھیں بلکہ آپ کے اصحاب بھی طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا تھے۔ وہ غریب مسلمان جن کا مکہ میں کوئی قبیلہ اور یارویاور (3) نہ تھاخصوصیت سے قریش کا تختہ مشق (4) بنے ہوئے تھے۔ اذیتیں مختلف انواع کی تھیں مثلاً آگ پر لٹا دینا، تپتی ریت پر لٹا کر بھاری پتھر سینہ پر رکھ دینا تا کہ کروٹ نہ لے سکے، چابک سے اس قدر مارنا کہ ٹوٹ جائے، چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دینا، جکڑ کر کو ٹھٹری میں بند کر دینا، پاؤں میں رسی باندھ کر تپتی ریت پر گھسیٹنا، گلااس قدر گھونٹنا کہ دم نکل جانے کا گمان ہو جائے، زدوکوب (5) سے بیہوش و مختل الحواس (6) کردینا، نیزہ مار کر ہلاک کر دینا وغیرہ۔

 

________________________________
1 – تمہیں تہس نہس کرنا چاہتا ہے۔
2 – صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الشعراء،باب ولاتخزنی یوم یبعثون، الحدیث:۴۷۷۰،ج۱،ص۲۹۴ علمیہ۔
3 – ترجمۂکنز الایمان: تباہ ہو جائیں ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو ہی گیا اسے کچھ کام نہ آیااس کا مال اور نہ جو کمایا۔ (پ۳۰،اللھب:۱،۲) علمیہ۔
4 – آمادہ۔
5 – کینہ و دشمنی۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!