مسائل

رویت ہلال کے مسائل و احکام

رویت ہلال کے مسائل و احکام

(۱)’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَصُومُوا حَتَّی تَرَوْا الْہِلَالَ وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّی تَرَوْہُ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدِرُوا لَہُ وَفِی رِوَایَۃٍ قَالَ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً فَلَا تَصُومُوا حَتَّی تَرَوْہُ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ثَلَاثِینَ‘‘۔ (1)
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو۔ اور جب تک چاند نہ دیکھ لو افطار نہ کرو۔ اور اگر ابریا غبار ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو ( تیس دن کی ) مقدار پوری کرلو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے پس تم جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور اگر تمہارے سامنے ابر یا غبار ہوجائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرلو۔ (بخاری، مسلم)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’ قول منجمین نامقبول ونامعتبر ست در شرع واعتماد برآں نہ تو ان کرد وآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واصحاب واتباع رضی اللہ تعالی عنہم وسلف وخلف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم بداں عمل ننمودہ اند واعتبار نہ کردہ اند‘‘۔ (2)
یعنی شرع میں نجومیوں کا قول نامقبول وغیر معتبر ہے ۔ اس پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔ اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، صحابہ کرام و تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، نیز سلف و خلف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اور نہ اعتبار فرمایا۔
(۲)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور

صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلَاثِینَ‘‘۔ (1)
عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کر و اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ ا ور اگر ابر ہو تو شعبان کی گنتی تیس پوری کرلو۔ (بخاری، مسلم)
(۳)’’عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّی رَأَیْتُ الْہِلَالَ یَعْنِی ہِلَالَ رَمَضَانَ فَقَالَ أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ (صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) قَالَ نَعَمْ قَالَ یَا بِلَالُ أَذِّنْ فِی النَّاسِ أَنْ یَصُومُوا غَدًا ‘‘۔ (2)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ ایک اعرابی نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے حضور نے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، عرض کیا ہاں، فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اس نے کہا ہاں حضور نے ار شاد فرمایا اے بلال لوگوں میں اعلان کردو کہ کل روزہ رکھیں۔ (ابو داود، ترمذی، نسائی)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’دریں حدیث دلیل ست برآنکہ یک مرد مستور الحال یعنی آنکہ فسق او معلوم نہ باشد مقبول ست خبروے در ماہ رمضان وشرط نیست لفظ شہادت‘‘۔ (3)
یعنی اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ ایک مرد مستور الحال یعنی جس کا فاسق ہونا ظاہر نہ ہو اس کی خبر ماہ رمضان میں مقبول ہے لفظ شہادت کی شرط نہیں۔ (اشعۃ اللمعات، جلد دوم ، ص ۷۹)

انتباہ:

(۱) …چاند کے ثبوت کی چند صورتیں ہیں۔

اوّل چاند کی خبر:

۲۹ شعبان کو مطلع صاف نہ ہو تو ایک مسلمان مرد یا عورت عادل یا مستور الحال کی خبر سے رمضان المبارک کا چاند ثابت ہو جائے گا اور مطلع صاف ہونے کی صورت میں باوصاف مذکورہ ایک شخص کاآبادی سے باہر کھلے میدان میں یا بلند مکان پر سے دیکھنا کافی ہے ورنہ ایک کثیر جماعت چاہیے جو اپنی آنکھ سے چاند کا دیکھنا بیان کرے باقی گیارہ مہینوں کے چاند کے لیے مطلع صاف نہ ہونے کی صورت میں دوعادلوں کی گواہی ضروری ہے اور مطلع صاف ہونے کی صورت میں اتنی بڑی جماعت درکار ہے جن کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً مشکل ہو۔
درمختار مع ردالمحتار جلد دوم، ص:۹۳ میں ہے : ’’قُبِلَ بِلَا دَعْوَی وَبِلَا لَفْظِ أَشْہَدُ وَبِلَا حُکْمٍ وَمَجْلِسِ قَضَائٍ لِلصَّوْمِ مَعَ عِلَّۃٍ کَغَیْمٍ وَغُبَارٍ خَبَرُ عَدْلٍ أَوْ مَسْتُورٍ لَا فَاسِق اتِّفَاقًا۔ ملخصاً‘‘۔ (1)
پھر اسی کتاب کے ص :۹۵ پر ہے : ’’ قُبِلَ بِلَا عِلَّۃٍ جَمْعٌ عَظِیمٌ یَقَعُ الْعِلْمُ الشَّرْعِیُّ وَہُوَ غَلَبَۃُ الظَّنِّ بِخَبَرِہِمْ وَصَحَّحَ فِي الْأَقْضِیَۃِ الِاکْتِفَائَ بِوَاحِدٍ إنْ جَائَ مِنْ خَارِجِ الْبَلَدِ أَوْ کَانَ عَلَی مَکَان مُرْتَفِعٍ وَاخْتَارَہُ ظَہِیرُ الدِّینِ‘‘۔ (2)
اور بحرالرائق جلد دوم ص:۲۶۹میں ہے : ’’ أَمَّا فِی ہِلَالِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَی وَغَیْرِہِمَا مِنْ الْأَہِلَّۃِ فَإِنَّہُ لَا یُقْبَلُ فِیہِ إلَّا شَہَادَۃُ رَجُلَیْنِ أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَیْنِ عُدُولٍ أَحْرَارٍ غَیْرِ مَحْدُودِینَ کَمَا فِی سَائِرِ الْأَحْکَامِ‘‘۔ (3)

دوم شہادۃ علی الشہادۃ :

یعنی گواہوں نے چاند خود نہ دیکھا بلکہ دیکھنے والوں نے ان کے سامنے گواہی دی اور اپنی گواہی پر انہیں گواہ کیا تو اس طرح بھی چاند کا ثبوت ہوجاتا ہے ۔ جب کہ گواہان اصل حاضری سے معذور ہوں۔ اس کا طریقہ یہ

ہے کہ گواہان اصل میں سے ہر ایک دو آدمیوں میں سے کہیں کہ میری اس گواہی پر گواہ ہوجائو کہ میں نے فلاں سنہ کے فلاں مہینہ کا چاند فلاں دن کی شام کو دیکھا۔ پھر ان گواہان فرع میں سے ہر ایک آکر یوں شہادت دیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں بن فلاں اور فلاں بن فلاں نے مجھے اپنی اس گواہی پرگواہ کیا کہ انہوں نے فلاں سنہ کے فلاں مہینہ کا چاند فلاں دن کی شام کو دیکھا اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری اس گواہی پر گواہ ہوجاؤ۔
درمختار مع ردالمحتار جلد چہارم ص:۴۰۹ میں ہے : ’’الشَّہَادَۃُ عَلَی الشَّہَادَۃِ مَقْبُولَۃٌ وَإِنْ کَثُرَتْ اسْتِحْسَانًا‘‘۔ (1)
اورفتاویٰ عالمگیری جلد سوم مصری ص:۴۱۰میں ہے : ’’وَیَنْبَغِی أَنْ یَذْکُرَ الْفَرْعُ اسْمَ الشَّاہِدِ الْأَصْلِ وَاسْمَ أَبِیہِ وَجَدِّہِ حَتَّی لَوْ تُرِکَ ذَلِکَ فَالْقَاضِی لَا یَقْبَلُ شَہَادَتَہُمَا‘‘۔ (2)

سوم شہادۃ علی القضا:

یعنی کسی دوسرے شہر میں قاضی شر ع یا مفتی کے سامنے چاند ہونے پر شہادتیں گزریں اور اس نے ثبوت ہلال کا حکم دیا۔ اس گواہی اور حکم کے وقت دو شاہد عادل دارالقضا میں موجود تھے ۔ انہوں نے یہاں آکر مفتی کے سامنے کہا کہ’’ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سامنے فلاں شہر کے فلاں مفتی کے پاس گواہیاں گزریں کہ فلاں ہلال کی رؤیت فلاں دن کی شام کوہوئی ہے اورمفتی نے ان گواہیوں پر ثبوت ِ ہلال فلاں روز کا حکم دیا تو اس طرح بھی چاند کا ثبوت ہوجاتا ہے ۔
جیسا کہ فتاویٰ الامام الغزی ص :۶ اور فتح القدیر جلد دوم ص:۲۴۳ میں ہے : ’’ لَوْ شَہِدُوا أَنَّ قَاضِیَ بَلْدَۃِ کَذَا شَہِدَ عِنْدَہُ اثْنَانِ بِرُؤْیَۃِ الْہِلَالِ فِی لَیْلَۃِ کَذَا وَقَضَی بِشَہَادَتِہِمَا جَازَ لِہَذَا الْقَاضِی أَنْ یَحْکُمَ بِشَہَادَتِہِمَا لِأَنَّ قَضَائَ الْقَاضِی حُجَّۃٌ وَقَدْ شَہِدُوا بِہِ کَذَا فِی شَرْحِ الْکَنْزِ‘‘۔ (3)

چہارم استفاضہ :

یعنی جس اسلامی شہر میں مفتی اسلام مرجع عوام و متبع الاحکام ہو کہ روزہ اور عیدین کے احکام اسی کے فتویٰ سے نافذ ہوتے ہوں۔ عوام خود عید و رمضان نہ ٹھہرالیتے ہوں وہاں سے متعدد جماعتیں آئیں اور سب بیکزبان خبردیں کہ وہاں فلاں دن چاند دیکھ کر روزہ ہوا یا عید کی گئی تو اس طرح بھی چاند کا ثبوت ہوجاتا ہے ۔ لیکن صرف بازاری افواہ اڑ جائے اور کہنے والے کا پتہ نہ ہو۔ پوچھنے پر جواب ملے کہ سنا ہے یا لوگ کہتے ہیں تو ایسی خبر ہر گز استفاضہ نہیں، نیز ایسا شہر کہ جہاں کوئی مفتی اسلام نہ ہو یا ہو مگر نااہل ہو یا محقق اور معتمد ہو۔ مگر وہاں کے عوام جب چاہتے ہیں عید و رمضان خود مقرر کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل عام طور پر ہورہا ہے ۔ تو ایسے شہروں کی شہرت بلکہ تواتر بھی قابلِ قبول نہیں ہے ۔ (1) (فتاوی رضویہ، جلد چہارم ، ص ۵۵۳)
اور جیسا کہ درمختار بحث رویت ہلال میں ہے : ’’ لَوْ اسْتَفَاضَ الْخَبَرُ فِی الْبَلْدَۃِ الْأُخْرَی لَزِمَہُمْ عَلَی الصَّحِیحِ مِنَ الْمَذْہَبِ، مُجْتَبَی وَغَیْرُہُ ‘‘۔ (2)
اور شامی جلد دوم ص:۹۷پر ہے : ’’قَالَ الرَّحْمَتِیُّ مَعْنَی الاسْتِفَاضَۃِ أَنْ تَأْتِیَ مِنْ تِلْکَ الْبَلْدَۃِ جَمَاعَاتٌ مُتَعَدِّدُونَ کُلٌّ مِنْہُمْ یُخْبِرُ عَنْ أَہْلِ تِلْکَ الْبَلْدَۃِ أَنَّہُمْ صَامُوا عَنْ رُؤْیَۃٍ لَا مُجَرَّدِ الشُّیُوعِ مِنْ غَیْرِ عِلْمٍ بِمَنْ أَشَاعَہُ کَمَا قَدْ تَشِیعُ أَخْبَارٌ یَتَحَدَّثُ سَائِرُ أَہْلِ الْبَلْدَۃِ وَلَا یُعْلَمُ مَنْ أَشَاعَہَا کَمَا وَرَدَ أَنَّ فِی آخِرِ الزَّمَانِ یَجْلِسُ الشَّیْطَانُ بَیْنَ الْجَمَاعَۃِ فَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ فَیَتَحَدَّثُونَ بِہَا وَیَقُولُونَ لَا نَدْرِی مَنْ قَالَہَا فَمِثْلُ ہَذَا لَا یَنْبَغِی أَنْ یُسْمَعَ فَضْلًا عَنْ أَنْ یَثْبُتَ بِہِ حُکْمٌ ا ہـ قُلْت وَہُوَ کَلَامٌ حَسَنٌ‘‘۔ (3)

پنجم اکمالِ عدت :

یعنی جب ایک مہینہ کا تیس دن پورا ہوجائے تو دوسرے مہینہ کا چاند ثابت ہوجائے گا لیکن اگر ایک گواہ کی شہادت پر رمضان کا چاند مان لیا گیا اور اس حساب سے تیس دن پورے ہوگئے مگر مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہیں آیا تو یہ اکمالِ عدت کافی نہیں بلکہ ایک روزہ اور رکھنا پڑے گا۔
درمختار مع ردالمحتار جلد دو م ص:۹۷ میں ہے : ’’بَعْدَ صَوْمِ ثَلاثِینَ بِقَوْلِ عَدْلَیْنِ حَلَّ الْفِطْرُ وبِقَوْلِ
عَدْلٍ لَا، لَکِنْ نَقَلَ ابْنُ الْکَمَالِ عَنِ الذَّخِیرَۃِ إنْ غُمَّ ہِلَالُ الْفِطْرِ حَلَّ اتِّفَاقًا۔ ملخصاً‘‘۔ (1)
(۲) …اگر چاند شرعی طریقہ سے ثابت ہوجائے تو اہلِ مغرب کا دیکھنا اہلِ مشرق کے لیے لازم ہوگا ۔
جیسا کہ فتاویٰ الامام الغزی ص :۵ میں ہے : ’’یَلْزَمُ أَہْل الْمَشْرِقِ بِرُؤْیَۃِ أَہْلِ الْمَغْرِبِ عَلَی مَا ھُوَ ظَاھِرُ الرِّوَایَۃِ عَلَیْہِ الْفَتْوَی کَمَا فِی فَتْح الْقَدِیْرِ وَالْخُلَاصَۃِ‘‘۔ (2)

(۳) …جنتری:

جنتری سے چاند کا ثبوت ہر گز نہ ہوگا۔ درمختار میں ہے : ’’ لَا عِبْرَۃَ بِقَوْلِ الْمُؤَقِّتِینَ وَلَوْ عُدُولًا عَلَی الْمَذْہَبِ‘‘۔ (3)
اور شامی جلد دوم ص:۹۴پر ہے : ’’لَا یُعْتَبَرُ قَوْلُہُمْ بِالْإِجْمَاعِ وَلَا یَجُوزُ لِلْمُنَجِّمِ أَنْ یَعْمَلَ بِحِسَابِ نَفْسِہِ‘‘۔ (4)

(۴) …اخبار :

اخبار سے بھی چاند کا ثبوت ہرگز نہ ہوگا اس لیے کہ اخباری خبریں بسا اوقات گپ نکلتی ہیں اور اگر خبر صحیح ہو تو بھی بغیر ثبوت شرعی کے ہر گز قابلِ قبول نہیں۔ ’’ فَإِنَّہُمْ لَم یَشْہَدُوا بِالرُّؤْیَۃِ وَلَا عَلَی شَہَادَۃِ غَیْرِہِمْ وَإِنَّمَا حَکَوْا رُؤْیَۃَ غَیْرِہِمْ کَذَا فِی فَتْحِ الْقَدِیرِ‘‘۔ (5) (رد المحتار، جلد دوم ، ص ۹۷)

(۵) …خط :

خط سے بھی چاند کا ثبوت نہ ہوگا اس لیے کہ ایک تحریر دوسری تحریر سے مل جاتی ہے ۔ لہذا اس سے علمِ یقینی حاصل نہ ہوگا۔ درمختار میں ہے : ’’ لَا یَعْمَلُ بِالْخَطِّ‘‘۔ (6) ہدایہ میں ہے :’’ اَلْخَطُّ یُشْبِہُ الْخَطَّ فَلَا یُعْتَبَرُ‘‘۔ (7)

(۶) …تار اور ٹیلی فون:

تار اور ٹیلیفون بے اعتباری میں خط سے بڑھ کر ہیں اس لیے کہ خط میں کم از کم کاتب کے ہاتھ کی علامت ہوتی ہے ، تار و ٹیلیفون میں وہ بھی مفقود ، نیز جب گواہ پر دے کے پیچھے ہوتا ہے تو گواہی معتبر نہیںہوتی اس لیے کہ ایک آواز سے دوسری آواز مل جاتی ہے ۔ تو تار اورٹیلی فون کے ذریعہ گواہی کیسے معتبر ہوسکتی ہے ۔
فتاویٰ عالمگیری جلد سوم مصری ص:۳۵۷ میں ہے : ’’ لَوْ سَمِعَ مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ لَا یَسَعُہُ أَنْ یَشْہَدَ لِاحْتِمَالِ أَنْ یَکُونَ غَیْرَہُ إذْ النَّغْمَۃُ تُشْبِہُ النَّغْمَۃَ‘‘۔ (1)

(۷) … ریڈیو اور ٹیلیویژن :

ریڈیواور ٹیلیویژن میں تار و ٹیلیفون سے زیادہ دشواریاں ہیں اس لیے کہ تار و ٹیلیفون پر سوال و جواب بھی کرسکتے ہیں مگر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔
غرضیکہ یہ نئے آلات خبر پہنچانے میں تو کام آسکتے ہیں لیکن شہادتوں میں معتبر نہیں ہوسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ خط، تار ، ٹیلیفون ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی خبروں پر کچہریوں کے مقدموںکا فیصلہ نہیں ہوتا۔ بلکہ گواہوں کو حاضر ہو کر گواہی دینی پڑتی ہے پھر فیصلہ ہوتا ہے ۔
تعجب ہے کہ جب دنیوی جھگڑوں میں موجودہ کچہری کا قانون ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ گواہی ماننے کو تیار نہیں تو پھر دینی اُمور میں شریعت کا قانون ان کے ذریعہ گواہی کیوں کرمان سکتا ہے ۔
حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا ارشادِ گرامی اوپر گزر چکا ہے کہ:
’’ فَإِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ثَلَاثِینَ‘‘ ۔ (2)
یعنی اگر چاند مشتبہ ہوجائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔ (بخاری، مسلم)
مگر افسوس کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے مسلمان کہ ان میں اکثر بے نمازی و بے روزہ دار ہوتے ہیں، ٹیلیفون اور ریڈیو وغیرہ کی خبر پر ایک ہنگامہ کھڑا کرکے قیامت برپا کردیتے ہیں۔
خدائے تعالیٰ ان ناسمجھ مسلمانوں کو اپنے نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کے ارشاد گرامی پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمِین بِجَاہِ حَبِیْبِہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ صَلَوَاتُ اﷲِ تَعَالَی وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمِ أَجْمَعِیْنَ۔

(۸) …جہاں سلطانِ اسلام اور قاضی شرع کوئی نہ ہو تو شہر کا سب سے بڑا سُنّی صحیح العقیدہ مفتی اس کا قائم مقام ہے اور جہاں کوئی مفتی نہ ہو تو عامہ مومنین کے سامنے چاند کی گواہی دی جائے ۔ (1)
(فتاوی رضویہ، جلد چہارم، ص۵۴۷ )
اور حدیقہ ندیہ میں ہے :
’’إِذَا خَلا الزَّمَانُ مِنْ سُلْطَانٍ ذِی کِفَایَۃٍ فَالأُمُوْرُ مُؤکلَۃٌ إِلَی الْعُلَمَائِ وَیَلْزَمُ الأُمَّۃَ الْمَرْجُوْعُ إِلَیْھِمْ وَیَصِیْرُوْنَ ولاۃً فَإِذَا عَسَرَ جَمْعُھُمْ عَلَی وَاحِدٍ اِستَقلّ کلّ قطر بِاتّبَاعِ عُلمَائِہِ فَإنْ کَثَرُوْا فَالمُتَّبَع أَعْلَمُھُمْ فَإِنْ اسْتَوَوا أقرع بَیْنَھُمْ‘‘۔ (2)
یعنی جب زمانہ ایسے سلطان سے خالی ہو جو معاملاتِ شرعیہ میں کفایت کرسکے تو سب شرعی کام علماء کے سپرد ہوں گے اور تمام معاملاتِ شرعیہ میں ان کی طرف رجوع کرنا مسلمانوں پر لازم ہوگا۔ وہی علماء قاضی و حاکم سمجھے جائیں گے پھر اگر سب مسلمانوں کا ایک عالم پر اتفاق مشکل ہو تو ہر ضلع کے لوگ اپنے علماء کی اتباع کریں۔ پھر اگر ضلع میں عالم بہت زیادہ ہوں تو جوان میں سب سے زیادہ احکام شرع جانتا ہو اس کی پیروی ہوگی اور اگر علم میں برابر ہوں تو ان میں قرعہ ڈالا جائے گا۔
(۹) …بے نمازی، یا نماز پڑھتا ہو مگر ترک جماعت کا عادی ہو، داڑھی منڈھے داڑھی کتروا کر ایک مشت سے کم رکھانے والے یہ سب فاسق معلن ہیں ان کی گواہی شرعاً معتبر نہیں۔ یونہی کافر، بدمذہب، مجنون ، نابالغ کی گواہی بھی شرع کے نزدیک قابلِ اعتبار نہیں۔ ( عامہ کتب)
(۱۰) …چاند دیکھ کر اس کی طرف انگلی سے اشارہ کرنا مکروہ ہے اگرچہ دوسرے کو بتانے کے لیے ہو۔ (3)
(بہار شریعت، پنجم ص ۶۸۵)
اور جیسا کہ درمختار میں ہے :
’’ إِذَا رَأَوْا الْہِلَالَ یُکْرَہُ أَنْ یُشِیرُوا إلَیْہِ‘‘۔ (4)
یعنی چاند دیکھ کر اس کی جانب اشارہ کرنا مکروہ ہے ۔
اور فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۱۸۴میں ہے :
’’ تُکْرَہُ الْإِشَارَۃُ عِنْدَ رُؤْیَۃِ الْہِلَالِ کَذَا فِی الظَّہِیرِیَّۃِ‘‘۔ (1)
یعنی چاند دیکھ کر اشار ہ کرنا مکروہ ہے ایسا ہی ظہیر یہ میں ہے ۔
(۱۱) … مسلمانوں کو اپنے معاملات میں عربی اسلامی تاریخ وسنہ کا اعتبار کرنا واجب ہے ۔ دوسری تاریخ و سنہ کا اعتبار کرنا جائز نہیں۔
جیسا کہ تفسیر کبیرجلد چہارم ص:۴۴۵ میں ہے : ’’ قاَلَ أَہْلُ الْعِلْمِ اَلْوَاجِبُ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ بِحُکْمِ ہِذِہِ الْآیَۃِ(2) أَنْ یَعْتَبِرُوْا فِی بُیُوْعِہِمْ وَمَدد دُیُوْنِہِمْ وَأَحْوَالِ زَکَواتِہِمْ وَسَائِرِ أَحْکَامِہِمْ السَّنَۃَ الْعَرَبِیَّۃَ بِالأَہِلَّۃِ وَلَا یَجُوْزُ لَہُمْ اِعْتِبَارُ السَّنَۃِ الْعَجمِیَّۃِ وَالرُّوْمِیَّۃِ ‘‘۔ (3)
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!