عقائد

اثر دست مبارک

{اثر دست مبارک}

الحمد اللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد و الہ و اصحابہ اجعمین
اہل اسلام کے اکثر طبقات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبر کات عقیدت کی نظر سے دیکھے جا تے ہیں ۔مگر بعض حضرات اس میں اقسام کی توجیہات اور شکوک میں مو شگا فیاں کر تے ہیں جس سے بے علم او رکم فہم لوگ بد عقیدت ہو کر جو بڑا ذخیرہ اُنے کے سعادت حاصل کرنیکا منجانب اللہ اُن تک پہونچا ہے اس سے محروم ہو جا تے ہیں ۔ اس لئے اس باب میں جو احادیث وارد ہوئے ہیں اُن کا معلوم کرلینا مناسب ہوگا ۔قبل اسکے کہ مسئلہ استبراک کے مضامین لکھے جائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک او ر لعاب مبارک وغیرہ سے جو جو برکات صادر ہو ے ہیں اُن کالکھنا مناسب سمجھا گیا تاکہ مقصود کے سمجھنے کے وقت سہولت ہو ۔
{کہجور کی ڈالی تلوار ہو گئی }
خصاؔیص کبریٰ روایت ہے کہ عبد اللہ حجش کی تلوار جنگ احد میں جاتی رہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو کہجور کی چھڑی عنایت کی ۔ فوراً و ہ تلوار ہوگئی جس ے وہ لڑتے رہے اتہیٰ ۔
{اجزائے دیمقراطیسیہ کا حال او رقلب ماہیت کا امکان }
لکڑی کی قلب ماہیت ہوکر لوہا ہو جا نا سائنس والے تو شاید جائز نہ رکھیں گے مگر اس کو تو متا خرین حکمأ بلکہ ابل سائنس نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اجزاے دیمقرا طیسی کے حالات بدلنے سے تمام چیزیں ظاہر ہو تے ہیں دراصل جوچیز محسوس ہو تی ہے وہ مجموعہ اُنہی اجزاکا ہے ۔ اگر پتھر ہے تو اُنہی اجزا کا مجموعہ ہے جو خاص وضع پر واقع ہو ے ہیں ۔اور اگر ہوا میں اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں اجزاے دیمقراطیسیہ ہیں ۔ فرق ہے تو اسی قدر ہے کہ شاید ا ُ س کے نزدیک نزدیک ہو نے کی وجہ سے پتھر میں کثافت ہے ۔اور نزدیک نزدیک نہ ہونے کی وجہ سے ہوا میں لطافت ہے ۔ یہ امر عقلا کی راے پر محول کر دیا جا تا ہے کہ ہر جز و دیمقراطیسی کی اہمیت یہ ہے کہ وہ بہت چھوٹا ہے اور ٹوٹتا پھوٹتا نہیں ۔ اگر وہ اجزاء کثیف ہیںتو اُن کا مجموعہ کثیف ہوگا ۔ پھر ہوا کا لطیف ہونا ۔ اور پتھر وغیرہ کا کثیف ہونا کیسا ۔
بہر حال جولوگ ایسے اجزاکے وجدان پرایمان لا تے ہیں لایاکریں مگر ہمارا مطلب اس سے یہ ثابت ہو جا نا ہے کہ وہ اجزا چھڑی میں خاص وضع پر تھے ۔اور جب حضر ت نے اُس سے تلوا کا کام لینے کے لئے انھیں دیا تو وہی اجزاء خاص وضع پر ہوگئے اور تلوار کاکام دینے لگے ۔ جب آج کل کی فلسفی عقل نے اِسے مان لیا کہ تمام عالم اجزائے مذکور ہ جو قدیم سے موجود ہیں پھر تے رہتے ہیں اور جیسے جیسے اُن کے اشکال بحسب اتفاق بنتے ہیں اُسکے آثار نمایاں ہو تے ہیں تو اب یہ ماننا کوئی دشوار نہیں کہ انہی اجزانے چھڑی کی شکل چھوڑ کر تلوار کی شکل کو قبول کر لیا ۔مگر فرق اتنا ہوگا کہ اِس صورت میں خدا و رسول کے حکم کو ماننے کی ضرورت ہوگی اور اتفافی شکلیں جو وہ قبول کر تے ہیں اُس میں خدا کے حکم کی ضرورت نہیں سمجھی جا تی ۔اہل اسلام اس سے اتنا مطلب نکال سکتے ہیں کہ جب سائینس نے تسلیم کرلیا ہے کہ وہ اجزا پتھر پانی وغیرہ خود بخود بن جاتے ہیں تو خدا ے تعالیٰ کے حکم سے بننا کیوںخلاف عقل ہو سکتا ہے ۔
{با وجود قدرت کے شیوع اسلام میں تا خیر کیوں ہوئی }
سبحا ن اللہ جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ قدرت میں یہ بات تھی کہ ایک پتلی لکڑی کو خاص تلوار بنا دیں تو کہئے کہ اب ایسی کونسی چیز ہوگی جو حضرت سے نہ ہوسکے ۔یہاں یہ شبہہ ہو سکتا ہے کہ جب اتنی قدرت تھی تو پھر تکمیل دین میں تاخر کیوں ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی مہم اعظم کو وقت واحد انجام دینے میںلطف نہیں آتا ا س لئے بیس با وئیس بر س تک حضرت کا فروں کے ساتھ مقا بلے کر تے او راُنکے حوصلے برھا تے رہے اور دراصل یہ سنت الٰہی ہے کہ با وجود ا س کے کہ ایک کُن سے سب کچھ ہے مگرکئی روز میں زمین و آسمان بنا ئے ۔
{بغیر دوا کے قدرتی علاج }
خصایص کبریٰ میں ہے کہ معاویہ ابن حکم کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے میرے بھائی کے پائوں کو خندق کی دیوار کی سخت ٹھوکر لگی۔جس سے خون جا ری ہوگیا ۔ وہ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوے ۔آپ نے اپنا ہاتھ زخم پر پھیرکر بسم اللہ فرمائی ۔ اوروہ فوراً چنگا ہوگیا اور درد بھی اُسی وقت جا تا رہا ۔انتہیٰ۔
کیا کوئی حکیم یا ڈاکٹر کر دعوی سکتا ہے کہ اس قسم کا فوری علاج کرے یہ قدر تی علاج اُنہیں حضرات سے متعلق ہے کن کو عالم اکو ان میں تصرف کرنے کا اقتدار دیا گیا ہے ۔
{دست مبارک سے چہرہ روشن ہوگیا }
خصایص کبریٰ میں ہے کہ عائذ بن عمر کہتے ہیں کہ جنگ حنین میں میری پیشانی میں ایک تیر لگا جس سے خون جا ری ہوا اور سینے تک پہونچا۔حضرت نے اپنے دست مبارک سے اُس خون کو پونچا ۔ راوی کہتے ہیں کہ اُن کو ہم نے دیکھا کہ اُن کا چھرہ اور سینہ جہاں تک دست مبارک پہونچا تھا روشن ہو گیا تھا انتہیٰ ۔ظاہر امقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی قدر تھا کہ خون دور کیا جائے اور زخم چنگا ہوجائے ۔غالباً یہ بات پیش نظر نہ ہوگی کہ اُن کا چھرہ اورسینہ روشن بھی ہوجاے ۔مگر چونکہ دستِ شفقت کا یہ لازمہ تھا کہ کوئی خاص قسم کی خصوصیت باقی رہے اس لئے وہ مقام ہمیشہ کے لئے روشن ہو گیا ۔ یہ توجسمانی برکات تھے معلوم نہیں کہ روحانی برکات دست شفقت سے اور کیا حاصل ہو ئے ہونگے ۔
{دست مبارک سے محبت کا پیدا ہونا }
السیرؔالنبویہ میں ہے کہ شیبہ ابن عثمان ؓ کہتے ہیں کہ جب آنحضرت ؐ فتح مکہ کے بعد ہوا زن سے جنگ کرنے کونکلے تو میںنے اپنے دل میں کھا کہ یہ موقع اچھا ہے قریش کے ساتھ میں بھی چلوں ۔شاید کے ایسا موقع ملجاے کہ گڑ بڑ میں محمد ؐ کو قتل کر ڈالوں جس سے قریش کے خونریزی کا بدلہ ہو جاے اور میرے باپ اور چچا اور بنی اعمام کو جو اُنھوں نے جنگ احدمیںقتل کیا تھا اُس کا بھی بدلے لوں ۔ اُس وقت میرا خیال تھا کہ اگر تمام عرب و عجم کے لوگ محمد ؐ کے تابع ہو جائیں ۔او رکوئی شخص اُن سے علحدہ نہ ہوتو بھی میں اُن کا تابع نہ ہونگا بلکہ اُس سے میری عداوت اور بھی بڑہتی جائیگی ۔جب عین جنگ میں گڑبڑ ہوئی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیادہ ہو گئے اُس وقت میں حضرت کے قریب تھا ۔تلوار کہینچکر ہاتھ بلندکیا اور چاہتا تھا کہ وار کروں یکا یک ایک شعلہ آگ کا مثل برق کے میری جانب آیا جس سے میری آنکھیں چکا چوند ہوگئیں اور بے اختیار آنکھوں پرہاتھ رکھ لیا ۔اُس وقت حضرت نے مڑکر میری طرف دیکھا او رتبسم کر کے فرمایا اے شیبہ مییر نزدیک آئواور تین بار میرے سینہ پر دست مبارک مارا جس سے میرے دل میں حضرت کی محبت ایسی پیدا ہوگئی کہ اُس سے زیادہ متصور نہیں ہوسکتی ۔تمام مخلوقات سے زیادہ حضرت کی محبت میرے دل میں جا گزیں ہوئی ۔ اُس کے بعد حضرت نے جنگ کرنے کو فرمایا میں حضرت کے آگے بڑھا اور تلورا چلانا شروع کیا ۔ خدا جانتا ہے کہ اُس وقت یہ دوست رکھتا تھا کہ اگر کوئی وار حضرت پر آئے تو میں اُسے اپنے پر لوں۔ اگر میرے باپ زندہ ہوتے اور اس وقت میرے سامنے آتے تو میں اُن پر بھی تلوار چلا تا ۔ غرضکہ میں حضرت کے سامنے اُس وقت تک رہا کر کہ اہل اسلام کے پیر اُکھڑ گئے تھے وہ ایک بار گی پلٹ کر آگئے ۔اور میں نے حضرت کی سواری کو نزدیک کیا اور آپ اُس پر سوار ہوگئے اُس کے بعد جب حضرت اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے تو میں بھی حضرت کے ساتھ چلا گیا ۔ دیکھا کہ حضرت کے چھرۂ مبارک پر آثار مسرت نما یاں ہیںاور فرمایا کہ شیبہ خدا ے تعالیٰ نے تمہارے لئے جو ارادہ کیا تھا وہ بہتر ہے اُ س چیز سے کہ تم نے ارادہ کیا تھا ۔پھرحضرت نے میرے اُن تمام خیالات کو بیان فرمایا جو کسی سے میں نے کہا نہ تھا ۔ میں نے توحید و رسالت کی گواہی دے کر عرض کی کہ میرے لئے حضرت استغفار فرما دیں ۔ارشاد ہوا کہ خدا ے تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں حضرت کے ساتھ کھڑا تھا اس وقت ابلق گھوڑے مجھے نظر آنے لگے میںنے اُس کی خبرحضرت کو دی حضرت نے فرمایا اے شیبہ یہ گھوڑے تو کا فروں کو دکھا کر تے ہیں ۔
{فرشتے لشکر کے ساتھ رہتے تھے}
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابلق گھوڑوں پر فرشتے ساور ہوکر حضرت کے ساتھ جنگ میں شریک ہو تے اور وہ صرف کافروں ہی کو نظر آتے تھے تا کہ اُن کے دلوںپر کثرت فوج کا رعب پڑے یہی وجہ تھی کہ تھوڑا سا لشکر اسلام کفار کے لشکر کثیرکے مقابلے میں جاتا اور فتح یاب ہوتا تھا اور کسی مصلحت خاص کی وجہ سے کبھی کفار کی آنکھوں میں لشکر اسلام کم بھی نطر آجا تا تھا ۔غرض کہ حق تعالیٰ کو اپنے دین کی ترقی منظور تھی جس کے تدابیر و قتاً فوقتاً کئے جاتے تھے ۔
حضرت نے شیبہ کے سینہ کوتین بار جومارا اُس کی وجہ یہ معلوم ہو تی ہے کہ پہلی ضرب میں اُن کے دل سے کفر کو نکال دیا اور دوسری ضرب میں ایمان کو داخل کیا تیسری ضرب میں محبت بھر دی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت کی محبت کا فر کے دل میں کبھی جا گز یں نہیں ہو سکتی ۔اُ س کے لئے ایسا بر گزیدہ شینہ و دل درکا ہے کہ انور ایمان سے منور ہو ۔
{حفط قرآن ببرکت دست مبارک }
خصاؔیص کبریٰ میں ہے کہ عثمان ابن ابی العاص ؓ کہتے ہیں کہ میںنے حضرت سے شکایت کی کہ قرآن مجھے یاد نہیں رہتا ،فرما یا اس کا اس کا سبب ایک شیطان ہے جس کو (خِنْزَبْ ) کہتے ہیں ۔اے عثمان تم میرے نزدیک آئو ۔پھر آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینہ پر رکھا فرمایا ۔ اے شیطان عثمان کے سینہ سے نکل جا ۔وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری یہ حالت ہوئی کہ جو کچھ سنتا وہ مجھے یاد رہ جا تا انتہیٰ ۔
یہاں اطباکو حیرانی ہوگی کہ نسیان فرطیہ بوست و برودت وغیرہ سے ہوا کرتا ہے ۔ اور اس حدیث سے ثابت ہے کہ شیطان بھی بھلا دیا کرتا ہے یہ حیرانی اُس وقت تک دفع نہیں ہوسکتی کہ خدا ے تعالیٰ کی قدرت پورپوری طورسے ایمان لایا جاے ۔یہ کمال درجہ کی ہٹ دھر می ہے کہ آدمی اپنے معلومات پر اعتماد کر کے دوسروں کے معلومات کو نظر انداز کردے ۔عقلا اسباب ب بیماری وغیرہ پر ہمیشہ غور و فکر کر تے تھے او راُ س کے بدولت اُن کے پاس نئے نئے معلومات کا ایک ذخیرہ حاصل ہو جا تا ہے ۔
{جنون کے وجود اور ان کے حیرت فزا واقعات کو اہل یورپ نے مان لیا }
ابھی کا ذکر ہے کہ جنوںکا انکار کیا جا تا تھا ۔ اور وہی شخص علقمند سمجھا جا تا تھا جو جنوں سے متعلق واقعات میں میں اُن کو پُرانے خیالات تصور کر ے ۔چنانچہ سر سید احمد خان صاحب نے بڑی شوومد سے جنوں کا انکار کر کے ایک رسالہ بھی لکھ دیا جس کو نئی روشنی کے لوگ اپنے استدلال میں پیش کیا کر تے تھے ۔مگر یورپ کی کمیٹی نے جو جنوں کے تحقیقات کے واسطے قائم ہوئی تھی فیصلہ کر دیا کہ جنوں کے حیرت افزا واقعات سب صحیح ہیں ۔ اور ڈاکٹر خانوں میں اعلان دے دیا کہ مرض جنوںکے اسباب صرف مادّدی نہیں ہیں بلکہ جنوں کے مسلط ہونے سے بھی ہوا کر تا ہے اس کا مفصل حال ہم نے مقاصد الاسلام کے کسی حصہ میں لکھا ہے بہر حال مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن امور کی خبر دی ہے اُن کو بالکل صحیح و قابل و ثوق جانیں اور شیطانی وسوسے جو بے علمی کی وجہ سے دل میں خطور کر تے ہیں لاحول پڑھ کر اُن کو دور کر دیا کریں ۔
{ببرکت دست مبارک شہسوار بن گئے }
خصاؔیص کبریٰ میں ہے کہ جریر ؓ کہتے ہیں کہ جب میں گھوڑے پر سوار ہوتاتو گر جاتا تھا ۔حضرت سے یہ حال عرض کیا ۔ آپنے میرے سینہ پر اپنا دست مبارک مار کر فرمایا اللہم ثبتہ واجعلہ ھادیا مہد یا ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعدمیں گھوڑے پر سے کبھی نہ گرا۔ انتہیٰ
اگر سلاطین کے روبرو کوئی سپاہی اپنے اس قسم کی حالت کو ظاہر کر ے تو مورد عتاب شاہی ہوجائے ۔ مگر سبحا ن اللہ سردار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کس صفائی سے جریرؓ نے اپنا یہ عیب بیان کیا ۔اور کس عمدگی سے حضرت نے اُس کی اصلاح فرمائی ۔
اصل یہ ہے کہ صحابہ ؓ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پرقدرت حاصل ہے کہ جو چاہیں کریں ۔ اس وجہ سے وہ ایسے ایسے امراض و حوایج پیش کر تے تھے کہ سواے خدا ے تعالیٰ کے کوئی دوسر اُس کا علاج اور حاجت روانی نے کر سکے ۔اور حضرت بھی اُن کے خیال کے موافق اُن کی حاجت روائیاں فرما تے تاکہ اُن کا اعتقاد راسخ اور ایمان مستحکم ہوجاے ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرت فرما دیتے کہ گھوڑے پر سے گر جا نا تمہا را طبعی امر ہے مجھے اس سے کیا تعلق بخلاف اس کے حضرت نے دست مبارک ان کے سینہ پر مار کر یہ ثابت فرمادیا کہ ہمارے دست قدرت میں حق تعالیٰ نے یہ بات رکھی ہے کہ ہمیشہ کے لئے تمہاری یہ شکا یت کودفع کردیں ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ ہمیشہ معرکوں میں گھوڑے پر سوار ہوتے اور شہسواری کی داد دیتے ۔
{دفع جنون }
خصاؔیص کبریٰ میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنا لڑکا حضرت کی خدمت میں لاکر عرض کی یا رسو ل اللہ اِسے جنون ہے اور ہم جب صبح اور شام کا کھانا کہا تے ہیں تو اُسے جوش ہوتا ہے اور وہ ہم پر مُصیبت ڈالتا ہے ۔حضرت نے اُس کے سینہ پر دست مبارک پھیر کر کچھ دعا کی ۔اس کے ساتھ ہی اُ س نے کہنکا را اور اس اُس کے پیٹ میں سے کوئی سیاہ چیز نکلی اور اُس کو شفاہوئگی ۔انتہیٰ ۔
یہ روحانی تا ثیرات ہیں طب جسمانی میں طبیب کو اسباب و علامات دریافت کر کے دوا تجویز کر نے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہاں اُس کی ضرورت نہیں برائے نام ہاتھ پھیر دیا اور صحت ہوگئی ۔ خواہ وہ بیماری اخلاط سے متعلق ہو یا جن و ارواح خبیشہ کا اثر ہو ۔
{ایضاً }
خصا ؔیص کبریٰ میں ہے کہ وازع ؓحضرت کے پاس اپنے لڑکے لائے جن کو جنون تھا ۔ آپ نے اپنا دست مبارک اُن کے منہ پھیرا ۔اور دعا کی اُس کے بعد وہ صاحب زادے ایسے عقلمند ہوگئے کہ وفدمیں اُن سے زیادہ کوئی علقمند نہ تھا ۔ انتہیٰ ۔
اس سے ظاہر ہے کہ دست مبارک کی برکت فقط اُس مقام پر محدود نہیں ہوتی تھی جہاں وہ پھیرا جا تا تھا کیونکہ دست مبارک تو چھرہ پور پھیرا گیا تھا۔ امور جنوں جس کاتعلق قواے دما غیہ سے ہے وہ زائل ہو کر قوت عاقلہ بجا ے اس کے قائم ہوگئی۔اور وہ بھی کیسی کہ بہ نسبت اوروں کے بدر جہا زائد ۔
{دست مبارک رکھ نے سے بھوک جا تی رہی }
خصاؔیص کبریٰ میں عمران بن حسین ؓ سے روایت سے ہے کہ کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔یکایک حضـرت فاطمہ ؓ تشریف لائیں اور حضرت کے سامنے کھڑی ہوئیںاُ س وقت ان کا چھرہ زرد تھا ۔حضرت چھرہ دیکھ کر پہچان گئے کہ بھوک کی شدت سے یہ بات ہوئی ہے اوردست مبارک اُن کے گلے کے نیچے جہاں قلاوہ ہوتا ہے رکھ کر انگلیوں کو کشادہ کیا اور دعاکی کہ یا اللہ بھوکوں کو سیر کرنے والے او پر لست کو بلند کرنے والے فاطمہ ؓ بن محمد ؐ کو بلند کر عمران ؓ کہتے ہیں کہ بمجرد اس کے بھوک آثار اُن چھرہ سے جا تے رہے ۔پھراُس کے کئی روز بعد میںنے حضرت فاطمہ ؓ سے اسبا باب میں سوال کیا تو فرمایا کہ اُس روز کے بعد مجھے بھوک سے اذیت کبھی نہیں ہوئی ۔انتہیٰ ۔یہ واقعہ پردہ سے پہلے کا ہے ۔
{فقر و فاقہ اہل بیت کرام }
اس حدیث شریف میں اہل بیت کے گزران کاحال ظاہر ہے کہ حضرت موصوفہ پر کتنے وقت کا فاقہ گزار ہوگا ۔کہ جسم کا خون تحلیل ہوکر چھرے پر زردی نمایاں ہوئی ۔ باوجود اس کے ایک روز بھی زبان پرنہ لائیں کہ ہم ایسے فقر و فاقہ میں مبتلا ہیں اور آپ خزا نے کے خزانے لٹا دیتے ہیں جس سے اجنبی لوگ نفع اٹھا تے ہیں ۔ان کو نفوس قدسیہ کہتے ہیں ۔
{معجزات کا ظہور قدرت الٰہی میں ہوتا ہے }
اب یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک باردست مبارک رکھ نے سے عمر بھر کی اذیت کا بندوبست ہوگیا ۔ ایسے کام خدا ئی طاقت سے متعلق ہیں اس میں قوت بشری کو کوئی دخل نہیں جب یہ کام حضرت کے دست مبارک سے ظہور کیا تو اِس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہرقدرت الٰہی ٹھرے ۔
چاند کے دو تکڑے کرنا اور عالم علوی اور سفلی میں تصرف کو نا اُسی قدرت سے متعلق ہے ۔جو لوگ اس مسئلہ سے ناواقف ہیں اُن کو بڑی دقتوں کا سامنا ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت کی قدرت مانی جا ے تو شرک لازم آجا تا ہے ۔ اس وجہ سے وہ اکثر معجزات سے انکار ہی کر دیتے ہیں ۔زمانۂ سابقہ میںمعتزلہ نے اس قسم کے اصول قائم کئے تھے ۔مگراہل وسنت جماعت برابر معجزات کے قائل رہے ۔ چنانچہ اسی جماعت کثیرہ کی وجہ سے ہم تک وہ معجزے پہونچے اگر و ہ حضرت اس قسم کا خیال کر کے معجزوں کے احادیث کو موضوع خیال کر کے اپنی کتا بوں کو نہ لکھتے تو ہم تک ہر گز پہنچ نہ سکتے ۔جو لوگ مدعی نبوت پچہلے زمانہ میں گزرے وہ سب جانتے تھے کہ مسلمان جب تک خوراق عادت نہ دیکھیں گے ایمان نہ لائینگے ۔اس لئے وہ خوراق عادات ظاہر کر نے کے تدابیر سو نچتے اور شعبد ے وغیرہ لوگوں کو بتلابھی دیتے جس سے بعضے لوگ اُن کے معتقد ہو تے اور وہ بہت سارے اُ ن کی جعل سازیوں پرمطلع ہو کر اُن کی تکذیب کر تے تھے ۔قادیانی مرزا صاحب نے اس قسم کے معجزات کا قطعی طورپر انکا رہی کر یا ۔اوراُن سے متعلق احادیث کو موضوع ٹھیرا یا ۔تاکہ معجزے دکھا نے کا جھگڑا جا تا رہے ۔افادۃ الافہام میں ہم نے اس کے متعلق تفصیلی بحث کی ہے ۔
{دست مبارکنے فطرتی آثار کو روک دیا }
خصاؔیص کبریٰ میں خزیمہ ؓسے روایت ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر مشرف با سلام ہوے حضرت نے اُن کے چھرہ پر ہاتھ پھیرا ۔اُس کا اثر یہ ہوا کہ مرنے تک اُن کا چھرہ تر و تازہ رہا یعنی کبرسنی سے جو تغیرات واقع ہو تے میں وہ آنے نہ پائے ۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ دست مبارک اثر سے ہمیشہ اُن کے چھرہ سے جوانی نما یاں تھی دست مبارک کا یہ اثر کہ ہمیشہ جوانی باقی رہے ایک روحانی اثر ہے ۔ ورنہ ہر سن کی فطرتی آثار و لوازم کسی طرح رُک نہیں سکتے یہاں یہ بات سمجھ میںنہیں آتی کہ حضرت نے اسلام لاتے ہی اُن کے چھرہ پہ دست مبارک کی خصوصیت کے ساتھ کیوں پھیرا ۔مگریہ کہہ سکتے ہیں کہ اندرونی راز کو ئی ضرور تھا جس سے مقصود یہ تھا کہ اُن کا چھرہ ہمیشہ تر وتازہ رہے ۔
{ولید کے سرپر ہاتھ نہ پھیر نے کی وجہ }
خصاؔیص کبریٰ میں ولید ابن عقبہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ؐ بعد فتح مکہ میں داخل ہو تے تواہل مکہ اپنے بچوں کو حضرت کی خدمت میں لاتے ۔اورحضرت اُن کے سروں پرہاتھ پھیر تے ۔میری ماں نے مجھے بھی خوشبو لگاکر حضرت کی خدمت میں حاضر کیا مگر حضرت نے میرے سرپر ہاتھ نہیں پھیرا ۔ انتہیٰ
بیہقیؔ نے یہ روایت بیان کرکے لکھا ہے کہ اُس کی وجہ یہ تھی کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید کوعامل بنا یا تو اُس نے شراب پی نمازمیں تاخیر کی ۔ اور اقسام کے بُرے کام کئے جو مشہور ہیں ۔یہی امور تھے جو عثمان ؓ کے قتل کے باعث ہوئے اس وجہ سے حضرت نے اُس کو ہاتھ نہیں لگا یا ۔انتہیٰ ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک کسی پر پھیر نا باعث سعادت دینوی و اُخروی تھا ۔ اور جو اس سعادت کے مسحتق نہ ہوتے اُن کی نسبت یہ شفقت نہیں ہوتی تھی۔ کیوں نہ ہو ہرشخص کے حالات آئندہ حضرت کے پیش نظر تھے پھر دیدو دانستہ اس کو برکت سے کیوںمشرف فرماتے ۔
{زنا کی اجازت کی درخواست اور اس خواہش کادفع ہونا }
خصاؔیص کبریٰ میں ابو امامہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک جوان نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسو ل اللہ مجھے زنا کی اجازت دیجئے ۔یہ سُن کر ہر طرف سے اُن پر زجر و توبیخ کے نعرے بلند ہوئے حضـرت نے اُن سے فرمایا نزدیک آئو وہ نزدیک آئے فرما یا بیٹھ جائو وہ بیٹھ گئے پھر فرمایا کیا تمہیں اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری ماں کے ساتھ کوئی زنا کرے عرض کی یا رسول اللہ خدا ے تعالیٰ مجھ کو آپ پر سے فدا کر ے ۔خدا کی قسم یہ ہرگز مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔ فرمایا اسی طرح لوگو کوبھی اچھا نہیں معلوم ہوتا کوئی اُن کی ماں کے ساتھ زنا کرے ۔پھر فرمایا کہ تمہیں اچھا معلوم ہو تا ہے کہ کوئی تمہاری بیٹی یس زناکرے ۔ عرض کی ہر گز نہیں فرمایا اسی طرح لوگو ںکوبھی اچھا معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کوئی تمہاری بہن کے ساتھ زنا کرے ۔کہا ہرگز نہیں فرما اسی طرح لوگوں کو بھی اچھا نہیں نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی ان کے بہنوں کے ساتھ ز نا کرے ۔۔فرمایا اسی طرح لوگوں کوبھی اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی تمہاری خالہ کے ساتھ زنا کرے ۔پھر فرما کہ کیا تمہیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی تمہاری خالہ کے ساتھ زنا کرے ۔عرض کی ہرگز نہیں ۔ فرما یا اسی طرح لوگوں کوبھی اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ لوئی اُن کے خالائوں کے ساتھ زنا کرے ۔پھر حضرت نے اُن پر دست مبارک رکھ کر فرمایا یا اللہ ان کے گنا ہوں کو بخش دے اِن کے دل کوپاک کر ۔اوران کو زنا سے بچا ۔ راوی کہتے ہیں اُ س کے بعد اُن کی یہ حال تھا کہ کبھی کسی کی طرف نگاہ اٹھاکر نہ دیکھتے انتہیٰ۔ف۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی عورت پر عاشق ہوگئے تھے اور وصال کی ٹھیر بھی گئی تھی ۔مگر خوف خدا سے بغیر اجازت نبوی اُس فعل کامرتکب ہونا اُنہیں ناگوار ہو ا ۔ ہر چند جانتے تھے کہ زنا کی کس قدر بُرا ئیاں ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک یہ فعل کیسا شنیع ہے یہاں تک کہ رجم اُس کی سزا ہے مگر اُن کی راستبازی اورکمال ایمان نے اس بات پراُن کو آمادہ کیا کہ درخواست اجازت تو کریں شاید خاص طورپر اجازت ہوجاے اسی وجہ سے عین مجمع میں حجاب کوبالائے طاق رکھ کر درخواست کی ۔
{طریقہ موعظتہ حسنہ}
اس بد نما سوال کاتمام صحابہ پر ایسا اثرپڑا کہ ہر طر ف سے زجر وہ توبیخ کے نعرے بلند ہوئے اگر حضرت کا خیال نہ ہو تا تو تعجب نہیں کہ اچھی طرح اُن کی تا دیب ہو تی جب صحابہ کا یہ حال ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سوال کس قدر شاق گزرا ہوگا ۔ مگر سبحا ن اللہ موعظت حسنہ اِسے کہ تے ہیں کہ کس خوبی اور شائستگی سے اور نرمی سے آپ نے جواب دیا کہ خود اُن کی زبا ن سے ان کا جواب کھلا دیا زبان سے جواب ہوجانا آسان بات ہے ۔آدمی عقل کی بات کو مان ہی لیتا ہے ۔مگر اُس پر عمل پیراہ ہونا مشکل با ت ہے۔اسی وجہ سے علماے واعظین ہمیشہ احادیث پڑھتے پڑھا تے او رلوگوں کو سُنا تے رہتے ہیں ۔ مگر اُن میں عمل کر نے والے اگر دیکھے جائیں تو بہت تھوڑے نکلیں گے ۔اس سے بڑھ کر کیا حضرت یوسف علی بنینا وعلیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی ؑ فرما تے ہیں وما ابری نفسی ان النفس لا مار ۃ باسوء ۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کا بھی انتظام فرما دیا ۔ کہ دست مبارک کی برکت سے اُن کا وہ جوش کہ جنون کی حدسے قریب پہونچ گیا تھا ٹھنڈا ہوگیا ۔ اور عمر بھر دست مبارک کا اثر باقی رہا کہ کبھی کسی عورت کو انہوں نے اُچٹتی نگا ہ سے بھی نہیں دیکھا ۔
{اثر دست مبارک سے شک کا جا تا رہنا}
خصاؔیص کبریٰ میں روایت ہے کہ ابی بن کعبؓ کؤنے دو شخصوں کو دیکھا کہ قرأت قرآن میں اختلاف کر رہے ہیں ۔ ہر شخص کہتا ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی پڑھا یا ہے ،وہ اُن دونوں کو حضرت کی خدمت میںلے ائے ،حضرت نے اُن دونوں سے پڑھوا کر سُنا اورفرمایا کہ تم دونوں اچھا پڑ ھتے ہو ۔ ابی ؓ کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے مجھے اس قدر رشک پڑ گیا کہ جاہلیت میں بھی اتنا نہ تھ ،حضرت نے میرے سینہ پر ہاتھ مارکر فرما یا کہ الہم اذھب عنہ الشیطان ۔یعنی اے اللہ شیطان کواُن سے دور کر ۔اُس کے بعد میر ی یہ حالت ہوئی کہ مارے شرم کہ پسینہ پسینہ ہوگیا اور خوف الٰہی اس قدر غالب ہوا کہ گو یا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں انتہیٰ ۔
{وجہ اختلاف قرأت قرآن}
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کلام شریف مختلف الفاظ میں نازل ہوا چنانچہ اس بنا ء پر سات قرا ٔتیں ہوگئیں جو مشہورہیں ۔اختلاف قرآت کی حقیقت سمجھنا مشکل کام ہے اسی وجہ سے ابی ابن کعب ؓ کو حضرت کی نبوت ہی میں شک پڑ گیا تھا ۔اگر دست مبارک کی تا ئید نہ ہوتی تواُن کے ایمان کا خاتمہ ہو گیا تھا ۔ اگر چہ انھوں نے کوئی ایسی بات نہیں بتائی جس سے اصل قرآن میں اختلاف ہونے کی وجہ معلوم ہوسکے ۔مگر جب یہ کہہ دیا کہ دست مبارک رکھ نے کے بعد تسکین ہوئگی تو اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ وجدانی طورپر بہ توفیق الٰہی اہل ایمان کو کوئی بات ضرور سمجھ میں آجا تی ہے جس کو بیان سے کوئی تعلق نہیں ۔ اور شیطان ہزار طرح سے شک ڈالے کچھ نہیں ہوتا ۔
{دست مبارک سے فصل مقدمات کا طریقہ معلوم ہوگیا }
خصاؔیص کبریٰ میں علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے ۔آپ فرما تے ہیں کہ آنحضرت نے مجھے یمن کو قا ضی بناکر بھیجنا چاہا ،میںنے عرض کی یا رسول اللہ ؐ آپ مجھے ایسی قوم کی طرف بھیجتے ہیں جہاںبوڑھے بوڑھے لوگ ہیںاور میں ایک کم عمر کا شخص ہوں اور جانتا بھی نہیں کہ فیصلہ کسے کہتے ہیں۔حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینہ پر مار کر بارگاہ کبریانی میں عرض کی یا اللہ اُن کو فیصلہ کرنے کا طریقہ بتلا دے انتہیٰ ۔
علی ؓ فرما تے ہیں کہ خدا کی قسم اُس کے بعد مجھے کسی دو شخصوں کے فیصلہ کے وقت ذرا بھی شک نہ آیا ۔دست مبارک کا یہ اثر ہوا کہ حضرت علی ؓ سے بہتر فیصلہ کرنے والے صحابہ ؓ میں سے کوئی نہ تھے ،جیسا کہ متعد دروایات سے ثابت ہے کہ ۔ اس میں شبہ نہیںکہ ایسے مواقع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو دعا کرتے تھے وہ دعا مقبول ہوجا تی تھی ۔اور خدا ے تعالیٰ کی طرف سے اُن امور کا ظہور ہو جا تا ۔ مگر دست مبارک جوایسے موقعوں میں رکھا جا تا تھا یہ حرکت بھی آنحضرت کی بے سبب نہ تھی ورنہ حضرت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا تے جیسا کہ عادت شریف تھی ۔ہاتھ اُٹھا کر سینہ پر ہاتھ رکھ نا اس بات پر قرینہ ہے کہ شرح صدر ہونے کے لئے آپ سینے پر ہاتھ رکھا چونکہ شرح صدر بغیر حکم الٰہی نہیںہوسکتا تھا ۔ اس لئے دعا یہی کی اورعالم اسباب میں ظاہر ی سبب کی بھی ضرورت ہے ۔اس لئے اپنا دست مبارک شرح صدر کے لئے رکھا ۔تاکہ اُس کی بھی تاثیر ہو ،اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح دوائیں وغیرہ اسباب عالم میں تاثیر کی کر تے ہیں اسی طرح دست مبارک میں بھی تاثیر رکھی تھی جس کاثبوت احادیث کثیرہ سے ملتا ہے ۔
{دست مبارک کے رکھنے سے چھرہ روشن ہوگیا }
خصایص کبری ٰ میں ہے کہ ہے کہ بشر بن معاویہ کہتے ہیں کہ میںاپنے والد کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپنے میرے سرپر ہاتھ پھیرکر دعا کی جہاں تک حضرت کا دست مبارک پہونچا تا وہ مقام ممتا ز اور روشن ہو گیا انتہیٰ ۔
وہ روشنی بظاہر نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے دست مبارک میں محسوس تھی جو انکے جسم میں منتقل ہوئی اور نہ اُن کے جسم میں پوشیدہ تھی جس کو حضرت نے ظاہر فرمایا ہو۔بلکہ دست مبارک کے اثر سے وہ روشنی اُسی وقت پیدا ہوگئی تھی دست مبارک کی تاثیر جس کا دسترس معدومات تک تھا ۔
{دست مبارک سے پانی کا پیدا ہونا }
خصاؔیص کبریٰ میں انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت صلی اللہ علی وسلم قُبا کے طرف تشریف لے گئے حضرت کی خدمت میں ایک چھوٹا قدح لا یا گیا ۔ آپ نے اُس میں دست مبارک داخل کرنا چاہا مگر اُ س میں گنجا یش نہ تھی صرف انگلیاں اُس میں رکھدیں اور خاضرین کو پانی پینے کے لئے فرمایا ۔انس ؓکہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ پانی حضرت کی انگلیوں میں سے جوش مار رہا ہے ۔اورحاضرین وہ پانی پی رہے ہیں یہاں تک کہ سب سیراب ہوگئے ،اور وضو کرلیا ۔انس ؓ سے ہم نے پوچھا کہ اُ س وقت کتنے لوگ ہونگے ،کہا اسی (۸۰)سے زیا دہ تھے ۔انس ؓ سے دوسرا وقعہ اسی قسم کا مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام زورا میں ایک قدح منگو ا یا اور اُس میں اپنا دست مبارک رکھا ۔آپ کے انگلیوں میں سے پانی جوش مارنے لگا جس سے کل صحابہ نے وضو کیا ،راوی کہتے ہیں کہ میں نے اُ ن سے پوچھا کہ اُس وقت صحابہ کتنے تھے ،کہا تین سو سے زیا دہ تھے ۔
{صحیح احا دیث سے تصرف فی الاکوان کا ثبوت او را س کی حقیقت}
یہ روایتیں بخاری اور مسلم میں موجود ہیں جن کا انکا رہو نہیں سکتا خصوصاً حضرات غیر مقلدین تو ان میںذرا بھی شک نہیں کر سکتے ۔دیکھئے ان رویات میں اس کا ذکر بھی نہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پانی انگلیوں سے موجود کرنا چاہا ،اُ وقت دعا کی کہ ہو کہ الٰہی تو میر ی انگلیوں سے پانی پیداکر سب کو سیراب فرما ۔ بلکہ بطور خود پانی میں ہاتھ رکھ دیا اورپکاردیا کہ پانی پینے چلے آئو کونسا پانی جواب تک معدوم تھا اور اب حضرت کے دست مبارک کے کرشمہ سے وجود میں آیا ہے ۔ کیا اِ س مقام میں یہ کھا جا سکتا ہے کہ ایسے احادیث بیان کرنے والے مشرک ہیں جن کی تقریر سے شرک فی التخلیق لازم آتا ہے میری دانست میں یہ کہنا بے ادبی ہوگا کیونکہ اگر ایسے خیالات مشر کا نہ تے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض تھا کہ پانی کی زیاد تی کے لئے دعا کرکے اُ س شرک سے لوگوں کو بچا تے اِس قسم کے حملے صرف علمائوں پرہی نہیں بلکہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہیں ۔بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف سے پانی جو پیدا ہوگیا و ہ مستقلانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تصرف نہ تھا ،بلکہ ہر مسلمان سمجھتاہے کہ وہ تصرف وا اقتدأ خدا ے تعالیٰ کی طرف سے حضرت کو عطا ہوا ہے شرک توجب ہو کہ حضرت کو یا اولیاء اللہ کو مستقل بالذات یا اقتدار مانیں یعنی یہ اعتقاد ہوکہ اگر خدا ے تعالیٰ بھی اُن کے تصرف کو روکنا چاہے تو نہ رک سکے ، چونکہ آنحضرت ؐ نے خدا ے تعالیٰ کی قدرت مستقل اور دوسروں کی عطائی یا ظلی ہونا رہا بیان فرما دیا تو اب اس کی ضرورت نہ رہی ہر وقت دعا کر کے مسلمانوں کو معلوم کرا ئیں کہ ہماری قدرت مستقل نہیں ہے ۔
{انگلیوں سے پانی کے چشمے جا ری ہوئے }
خصاؔیص کبریٰ میں زیادابن حارث صدائی سے روایات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں طلوع فجرسے پہلے اُترے صاحبت بشری کو تشریف لے گئے جب واپس تشریف لا ئے تو مجھ سے فرما یا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ،میں نے عرض کی بہت تھوڑا ہے جو آپ کو کا فی نہ ہوگا ۔فرما یا اس کوایک برتن میں ڈال کر لے آئو جب میں نے حاضر کیا تو اپنا دست مبارک اُس میں رکھا ساتھ ہی حضرت کے دو انگلیوںکے بیچ میں سے ایک چشمہ جوش مارنے لگا اور فرمایا کہ پکارو کہ جن کوپانی کی حاجت ہو آویں ۔چنانچہ بہت سے لوگ اُس میں سے پانی لئے ۔
{حضرت کے دئے ہوئے کنکریوں سے کنواں پانی سے بھر گیا }
ہم نے عرض کی یا رسو ل اللہ ہمارے قبیلہ میں ایک کنواں ہے موسم سرما میں اُ س کاپانی کا فی ہوتا ہے اور ہم سے وہاں جمع ہو جا تے ہیں اور جب موسم گرما آجا تا ہے تو اُ س کا پانی کم ہو جا تا ہے او رہم لوگ متفرق ہو کر جہاں پانی پا تے ہیں وہا ںچلے جا تے ہیں ۔اب ہم لوگ مسلمان ہوگئے اور اطراف کے قبیلے ہمارے دشمن ہیں ،آپ دعا فرمائیں کہ ہمارے کنوئیں کا پانی ہمیں کافی ہو جائے ،اور ہم ایک ہی جگہ جمع رہیں ۔متفرق ہونے کی ضرورت نہ ہو ،حضرت ؐ نے سات کنکر منگوا ے اور ان کو اپنے ہاتھ میں لیکر دعاکی ۔ پھر فرمایا کہ یہ کنکریاںلیجا ئو اورجب اُس کنوئیں پرپہنچو۔ اللہ کا نام لیکرایک ایک اس میں ڈال دو وہ کہتے ہیں کہ جب وہ کنکر اُس میں ڈالے گئے تواُس کنوئیں میں اِتنا پانی آیا کہ ہم اُ س کے تہ تک پہنچ نہیںسکتے تھے ۔انتہیٰ
انگلیوں کے بیچ میں سے پانی کا جوش مارنا ہرگز سمجھ میں نہیں آتاکیونکہ حضرت ؐ کے جسم مبارک کوئی پانی کاچشمہ تو تھا نہیں جسکے کہولنے سے جا ری ہوگیا ،اور وہ بھی کس قدر کہ سینکڑوں آدمی اُس سے سیراب ہوے اور وضو وغیرہ کئے ۔ اِقسم کی باتیں اُ س وقت تک سمجھ میں آنہیں سکتیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ پر اور اُسکے قدرت کا ملہ پر پورا ایمان نہ ہو کہ جس چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے اُس کی طرف کن کا خطاب ہو تا ہے اوروہ چیز فوراً وجود میں آجا تی ہے ۔ جب مسلمانوں نے خدا ے تعالیٰ کے کلام کو بصدق دل مان لیا تواب اُن پر اسکا سمجھنا آسان ہے کہ جہاں سے چاہے خدا ے تعالیٰ پانی کا دریا بھا دے اور جن لوگوں کو اس پر ایمان نہیں اور برائے نام مسلمانوںمیں شریک رہنا چا ہتے ہیں وہ خلاف عادت ہونے کا حیلہ کر کے معجزار کا انکار ہی کر دیتے ہیں ۔
{جن کنکریوں کو دست مبارک لگا تھا ان سے کنوئیں چشمے جا ری ہوگئے }
اس حدیث شریف میں جو مذکورہے کہ حضـرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کو ہاتھ میں ملکر کنوئیں میں ڈالنے کو فرمایا او راُس سے پانی بیحد بڑھ گیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ دست مبارک کا اثر اس کنوئیں تک پہونچا نا منظور تھا اس کی تدبیر یہ کی گئی کہ کنکریوںکو دست مبارک سے متاثر فرمایا ۔ اور وہ اثر کنوئیں میں پہونچا ۔اور پانی فوراً بڑھ گیا ۔ظاہراًدست مبارک کا اثر کنکریوں میں محسوس نہ تھا مگر معنوی اثر اس قدر اس میں تھا کہ اس کنوئیں کے پانی کو حد سے زیادہ بڑھا کر چھوڑ ا غرضکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتدا را معلوم ہو تا ہے کہ جن چیز کا ارادہ فرما یا اس کو وجود ہوگیا۔ ان لوگوں نے جب دست مبارک کا اثردیکھا کہ اس سے پانی جاری ہو تا ہے اپنے کنوئیں کا پانی زیادہ کرنے کی درخواست پیش کی اس وقت حضرت کا بنفس نفیس تشریف لیجا نا متعذر تھا ۔ اور ان کی درخواست کو رد کرنا بھی مناسب نہ معلوم ہوا ۔ اس لئے کنکریوں کے ذریعہ سے دست مبارک کی برکت کو وہاں پہونچاد ی ۔
{دست مبارک سے پا نی کا پیدا ہو جا نا }
خصاؔیص کبریٰ میں ابو یعلیٰ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک روز پانی کے میسر نہ ہونے سے سب پیا سے ہوگئے اور حضرتؐ کے پاس شکایت پہنچی حضرتؐ نے ایک گڑھا کھدوایا اور ااس میں چمڑا بجھا کر اس پر اپنا دست مبارک رکھدیا اور فرمایا کہ کچھ پانی ہے ایک شحص نے تھوڑا پانی ڈولچی میں لایا ،اس سے فرما یا کہ میری ہتیلی پر وہ پانی ڈالدو ،اوراللہ کا نام لو ابویعلیٰ ؓ کہتے ہیں کہ میںنے دیکھا کہ حضرتؐ کی انگلیوں میں سے فوراً پانی جوش مارنے لگا ۔اور اتنا کثرت سے جاری ہوا کہ تمام لوگ سیراب ہوگئے ،اور اپنے سواری کے جانور وں کو بھی پلادیا۔
{معجزوں کی ضرورت}
دیکھئے جب ہرطرف سے پیاس کی شکایت پہونچنے لگی تو حضرت نے کس وثوق سے گڑھا کھدوا کر اس میں چمڑا بچھوایا ۔اور تمام لشکرکو پانی پلانے کا سامان کیا ،ہر چند بعضے دیکھنے والوں کی عقل شاید اس راز تک نہ پہونچی ہوگی کہ یہ کیا حرکت ہے مگر اہل بصیرت سمجھ گئے ہونگے کہ تمام لشکر کو پانی پلانے کی تدبیر کی جا رہی ہے ۔اگر بالفرض پانی کا چشمہ جاری نہ ہوتا تو لوگوں میں کس قدر چہ میگو ئیاں ہوتیں ۔معلوم نہیں کہ کتنوں کے ایمان تباہ ہو جاتے ،مگر ممکن نہ تھا کہ جس بات کا ارادہ حضرت نے فرمایا اس کا ظہور نہ ہو ۔کیونکہ اگر ظہور نہ ہوتا تو حضرتؐ کی رسالت میں شک پڑ جا تا او رممکن نہیںکہ خدا ے تعالیٰ آپ کو رسو ل بنا کر رُسوا کرے البتہ بعضے مواقع میں حضرت ؐ کے خلاف مرضی بعض امور واقع ہوے ہیں ۔مگر اس کے اسباب دوسرے ہیں جن کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جا نتے تھے ع روموزِمملکت خویش خسرواں دانند۔
چند جزئی امور سے یہ لازمی نہیں آتا کہ خداے تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف مرـضی امور صادر کیا کر تاتھا ،بلکہ مقتضائے عقل یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کل افعال مرضی الٰہی کے موافق تھے ۔ اور حق تعالیٰ ہمیشہ آپ کی مدد فرما یا کر تا تھا ۔
{انگلیوں سے چشمے جا ری ہو جانا }
خصایص کبریٰ میں ابو عمر انصاری ؓسے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ایک روز لوگ بہت پیاسے ہوے ، آپ نے ڈولچی منگواکر اس کو اپنے روبرو رکھا اور تھوڑا پانی اس میں ڈالکر اس میں کلی کی اور کچھ تلفظ فرمایا ۔ پھر اپنی چھوٹی انگلی اس میں رکھدی۔راوی قسم کھا کر کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضرت کے تمام انگلیوں سے چشمے جا ری ہیں پھر حسب ارشاد لوگوں نے خود پانی پیا اور اپنے جانوروں کو پلایا ۔اور مشکیں ڈولچیاں بھر لیں یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے ۔یہاں تک کہ حضرت ؐ کے کل دندان مبارک نظر آے ،اور فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اور محمد ؐ اس کے بندے اور رسول ہیں جو شخص کہ ان دونوں باتوں کوقیامت کے دن اللہ کے روبرو پیش کر دیگا وہ ضرور جنت میں داخل ہو جائیگا ۔انتہیٰ ۔
عرب کے جنگل میں جہاں پانی منزلو ں نہیں ملتا جب تمام لشکر پیا سا ہوگیا ہوگا تو کس قدر پریشانی کا وقت ہوگا ۔ایسی حالت میں حضرتؐ کے دست مبارک سے خوشگوا ر چشمے پانی کے جا ری ہوجانا گو تن بیجان میں جان آجانا تھا ۔اور دست مبارک کو وہ کس وقعت کی نظر سے دیکھ تے ہونگے اس وقت کاتبسم فرمانا اس شعر کا مصداق تھا
ہر لبشؔ گاہِ تبسم معجر زہ داردجُدا ٭ یک لبش جاں مسیتا مذ یک لبش جان میدہد
فیضؔ دم صبح ازلب خندنِ تو یا بند ٭ شہد یست کشر خندہ کہ درشانِ تو یابند
حضرت ؐ نے اس واقعہ کے بعد جو خدا ے تعالیٰ کے معبود ہونے اور اپنے رسول ہونے کی گواہی دی اس سے ظاہر ہے کہ افعال بغیر خدا ے تعالیٰ کے حکم کے صادر نہیں ہو سکتے ،اور جس کے ہاتھ وہ صادر ہو تے ہیں اس کے دعوے کے صد اقت کی دلیل ہیں ۔
{دست مبارک کے اثر سے خدود کا جا تا رہنا }
شفاء اور اس کی شرح میں روایت ہے کہ شر جیل رضی اللہ عنہ کے ہتیلی میں خدود ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ تلوار یا گھوڑے کی باگ تھا نہیں سکتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ شکا یت پیش کی آپ نے چند بأ دست مبارک ان کی ہتیلی پر پھیرا فوراً ان کی وہ شکایت دفع ہوگئی ،اور کچھ اثر اس کا کچھ با قی نہ رہا ۔
{اخر دست مبارک سے روشنی }
کنزالعما ل کی کتاب الفضائیل میں ہے کہ بشربن معاویہ ؓ کو ان کے والد معاویہ ابن ثور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے،اور ان کو تقید کیا کہ صرف تین باتیں عرض کرو ،نہ کم نہ زیادہ ۔
پہلے السلام علیک یا رسول اللہ کہو ،اس کے بعد عرض کرو کہ یارسو ل اللہ میں اور دوسر ے یہ لوگ صرف سلام کی عرض سے حاضر ہوئے ہیں ،اور تیسرے یہ عرض کرو کہ آپ میرے برکت کی دعافرما ئیں۔بشر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا ، حضرتؐ نے تیسرے معروضہ کے بعدمیرے سرپرہا تھ پھیرا او ربرکت کی دعا کی راوی کہتے ہیں کہ جہاں دست مبارک لگا تھا و ہ مقام ان کا روشن ہو گیا اور ان میں یہ تیاثیر پیداہوگئی تھی کہ جس چیز کو وہ چھوتے اچھی ہوجا تی انتہیٰ ملحضاً ۔
{برکت کے معنی}
سبحان اللہ تینوں باتیں جو فرزند رجمند کو تعلیم کیں کیسی شستہ اور برجستہ تھیں کہ ان سے اخلاص ٹپک رہا ہے ،صرف سلام کے لئے دورو دراز سے حاضر ہونا کمال اخلاص کی دلیل ہے پھر دعا جوطلب کی اس میں تو خاتمہ ہی کردیا ۔برکت ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا و آخرت کی بھلائی اس میں متصور ہے لغت میں ’’برکت ‘‘کے معنی نیک بختی اور افزائش اور فزوئی کے ہیں جب کسی کو نیک بختی اور ہرکام میں افزائش ہوتواب کس چیز کی ضرورت رہی ۔،اس دعاے مبارک کے آثار توابد الآباد جا ری رہیں گے ۔سردست ا س کے یہ آثار ظاہر ہوے کہ جس بیمار و مصیبت زدہ او رمعیوب چیز کو خواہ آدمی ہو یا جانور وغیرہ ہاتھ لگا دیا وہ اچھا ہو گیا ،یہ شان نبوت تھی کہ حضرت ؐ نے ان کو نہ یہ فرمایا کہ میرے ہاتھ لگا نے سے تم میں برکت آئیگی ،اورنہ یہ کہ تمہارا ہاتھ جس کو لگ جا وے وہ اچھا ہو جاے گا ،با وجود اس کے ان تمام امور کلا ظہور منجانب اللہ ہوتا گیا ۔
ہمارے زمانہ میں مرزاغلام احمد صاحب قادیانی نے پنی رسالت ثابت کرنے پر بڑاہی زور لگا یا ۔قرآن شریف سے استدلال کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے جو کہا تھا ۔امی مبشرٌ برسول یأ تی من بعد ی اسمہ احمد الخ وہ میں ہی ہو ں ایسے مستند او رنص قطعی سے جو نبوت اپنے زعم میں ثابت کی گئی اس کی یہ کیفیت کہ قسمیں کھا کر با ور کرا تے ہیں کہ چنیں ہوگا ا ور چناں ہوگا ۔ اور جب کچھ ہواتو اس کے خلاف چنانچہ مرزا صاحب قادیانی نے قسم کھا کھا کر کہا خدا نے مجھ سے کہہ دیا ہے کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے ساتھ میر ا نکاح ہوگا ،اور کسی دوسرے کے ساتھ ہوگا تو اس کا شوہر اور باپ تین سال کے اندر مر جا ئینگے ۔اور ایک الہام اتہم صاحب کے مقابلے میں خدا کی قسم کھا کر فرما یا کہ مسٹرا تہم پندہ مہینے میں مرجائیگا ۔اگر نہ مرجا ے تو میرا منہ کالا کیا جاے ۔ اور میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاے تاور مجھ کو پھانسی دی جاے ۔ با وجود اس وثوق کے وہ نہ مرا اور مدتوں زندہ رہ کر مقابلہ کر تا رہا ۔اس قسم کے کئی واقعات ہیں ۔ اہل انصاف اصلی نبوت اور جعلی نبوت میں ان وقائع سے تمیز کرلیںگے ۔یوں تو باتیں بنا نا آسان ہے کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب کا اس میں کوئی قصور نہیں ،نعوذ باللہ خدا ے تعالیٰ نے جھوٹ کہہ دیا ۔کیونکہ مولویوں کی ایک جماعت اس زمانہ میں امکان کذب باری کے قائل بھی ہوگئی ہے ۔مگر جن لوگوں کے نزدیک خدا ے تعالیٰ اور برحق نبی کی وقعت و منزلت ہے ۔ایسی باتوں سے ان کی تسکین نہیں ہوسکتی ۔
یہ امر خاص توجہ کے قابل ہے کہ جس مقام میں دست مبارک پہنچا تھا وہ روشن ہوگیا ،یہ امر ظاہر ہے کہ روشنی کا کوئی مادہ دست مبارک میں نہ تھا جب خیال کیا جاے کہ وہ ڈال دیا گیا ۔ نہ کوئی دوالگائی گئی ۔پھر ہمیشہ کی روشنی کہا ں سے آگئی ۔یہ معمااس وقت تک حل نہیں ہوسکتا کہ یہ یقین کر لیا جائے کہ خالق عزوجل کو منظور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ وسلم دنیا میں ہمیشہ نیک نام رہیں اور آپ کا نظیر قائم نہ ہوسکے ۔
{اثر دست مبارک}
کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں ہے کہ جابربن سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ لڑکے خضرتؐ کی خدمت میں آتے توکسی کے ایک رخسار پراور کسی کے دونوں رخساروں پرآپ ہاتھ لگا تے ،ایک بار میں بھی حاضر ہوا ،حضرت ؐ نے میرے ایک رخسار کو دست مبارک سے مشرف کیا چنانچہ وہ دوسرے رخسار سے خوش منظر ہو گیا ۔
{اثر دست مبارک بر چھرہ }
کنزالعمال کی کتاب الحج میں ہے کہ حارث سھمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عرفات پر تھے۔ عرب لوگ جوق جوق آتے اور چھرۂ مبارک کو دیکھ کر کہتے ھذا وجہٌ مبارکٌ میں بھی اس موقع میں حاضر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میری مغفرت کے لئے دعا فرمائیں ۔حضرت ؐ نے فرمایا اللہم اغفر لنا اورجھک کر میرے چھرے پر ہاتھ پھیرا ۔راوی کہتے ہیں کہ ان کا چھرہ ان کے انتقال تک نہایت تر وتازہ تھا ۔انتہیٰ۔
{اثر دست مبارک و تا ثیرآں در بیماراں}
یہ دست مبارک کی برکت ایسی محسوس تھی کہ کوئی اس کا انکا رنہیں کر سکتا تھا کیونکہ تازگی معولی نہ تھی ورنہ تخصیص سے بیان کر نے کی ضرورت ہی کیا۔
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں یہ راویت ہے کہ حذیم رضی اللہ عنہ نے اپنے فرزند خنطلہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ عرض کی ۔آپ نے ان کو نزدیک بلا کر ان کے سر پردونوںہاتھ رکھے اور فرمایا بار ک اللہ فیہ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ان کی یہ کیفیت ہوئی کہ جس کسی کے چھرے پر ورم آجا تا یا کسی بکری کی تھن سوجھ جا تی تولوگ ان کے پاس لے آتے اوروہ اپنے سرپرہاتھ رکھ کر یہ کہتے بسم اللہ علی اثرید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھروہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے فوراً ورم اتر جا تا ۔انتہیٰ ملحـضاً ۔
دیکھئے حضرتؐ نے خنظلہ کے لڑکپن میں انکے سر پرہاتھ رکھا تھا اوراثر دست مبارک کا ان کی عمر بھر رہا اور اثر بھی کیسا کہ فقط وہی اس سے مستفید نہ تھے ۔ بلکہ ہر کس و ناکس کو اس سے شفا ہوتی تھی ۔یہاں عقل حیران ہے کہ دست مبارک کی برکت ان کے سر کے پوست پرقائم ہوئی ۔ اس پر جب کبھی اپنا ہاتھ لگا تے ان کے ہاتھ میں برکت آجا تی ۔پھروہ برکت بیمار تک پہنچتی اور وہاں جاکر یہ اثر کر تی کہ اس کو صحت ہوجا تی ،حیال کیجئے کہ کیسی دیر پاوہ برکت تھی اور کیسی متعدی کہ اس کا سمجھنا عقول متوسطہ کے احاطۂ ادر اک سے خارج ہے کیو ں نہ ہو عقول متوسطہ کا تعلق جسمانیات سے ہے روحانیات سے ان کو کیا تعلق ۔
{اثر دست مبارک سے بال سفید نہ ہوئے }
کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں عطار ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میںنے سائب ؓ کو دیکھا کہ ان کے سرکادر میانی حصہ سیاہ تھا اور باقی سراور داڑھی سفید ہوگئی ۔میں نے اس کا سبب دریافت کیا ۔انہوں نے کہا میں لکڑکپن میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرف گزر ہوا ۔ میں نے بڑھ کر حضرت ؐ پرسلامکیا ،حضرتؐ نے جواب دے کر فرمایا تم کون ہو میںنے عرض کی میں مزید کا سائب ہوں ،حضرتؐ نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا بارک اللہ فیک ۔ دست مبارک کا یہ اثر ہے کہ وہ ہر گز سفید نہ ہو گا ۔انتہی ملحضاً ۔
دیکھئے یہ دست مبارک کا محسوس اثر تھا جس کولوگ دیکھ کر متعجب ہو تے تھے اور کسی کو اس میں کلام کرنے کی گنجا ئش ہی نہ تھی ۔معقول کو محسوس کر دکھانا خد ے تعالیٰ ہی کا کام ہے ۔اس میں بڑی مصلحت یہ معلوم ہو تی ہے کہ اہل ایمان سمجھ جائیں کہ آثار نبویؐ کے برکات جس طر ح یہاں محسوس ہو ے دوسرے عالم میں بھی ان کے برکات بطریق اور لیٰ محسوس ہونگے ۔کیونکہ اس عالم میں تو عموماً اعراض جو اہر کی شکل میں نمایاں ہو نگے جیسا کہ نصوص قطعیہ سے ثابت ہے کہ وہاں میزان قائم ہو گی اور اعمال جوا س عالم میں اعراض تھے اس میں تُلینگے ۔جب یہ امر شاہد ہوگیا کہ آثار متبرکہ کے برکات کا ظہور مختلف طریقوں سے ہوا اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ زائرین آثار متبرکہ پر مختلف طریقوں سے ان کے برکات اس عالم میں ظاہر ہونگے ۔بہر حال امید ہے کہ برکات سے کوئی خوش اعتقاد محروم نہ رہے گا ۔
{اخر دست مبارک کا غلبہ طبعیت انسانی پر }
کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں یہ راویت ہے کہ محمدؐ بن فضالہؓ کہتے ہیں کہ میں دو ہفتہ کا تھا کہ میری والدہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے لائیں اور درخواست کی کہ میرے حق میں برکت کی دعا فرمادیں ۔ حضرتؐ نے دعا کرکے دست مبارک مرے سرکے پچھلے حصہ پررکھا۔راوی حدیث کہتے ہیں کہ جب وہ بوڑھے ہوے توان کے تمام جسم کے بال سفید ہوگئے تھے مگروہ حصہ جہاں دست مبارک گزرا تھا اس میں کوئی تغیر نہ ہوا ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
سبحان اللہ کیسا پر زور اثر تھا کہ طبیعت تمام جسمانی قویٰ اورآلات جن کو اس کا م میں دخل تھا متوجہ تھے کہ جس طرح تمام بالوں پر اتنا اثرڈالا اس متبرک مقام پر بھی اثر ڈالیں مگر اس اثر دست مبارک نے جو اس مقام کی حمایت کی کسی سے ایک بال بیکا نہ ہوا ۔کیا تعجب ہے کہ خوش اعتقاد زائرین کی حمایت پرآثار متبرکہ آمادہ ہوجائیں اور وہ آفات سے بال بال بچ جائیں ۔
{لکڑی کا تیر ہو جا نا }
شفاء میں قاضی عیاض ؓ نے روایت کی ہے کہ سعد ابن ابی قاصؓ کہ تے ہیں کہ جنگ احدکے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تیر کی لکڑیاں دیتے تھے جن کو پیکا ن نہ ہوتا اور فرماتے چلالو وہ لکڑیا تیر کاکام کر تی تھیں۔ انتہیٰ ۔ یہ فقط دست مبارک کی برکت تھی ورنہ تیر کی لکڑی اگر تیر کاکام کرے تو پیکان لگا نے کی ضرورت ہی کیوں ہوتی وہ مصنوعی تیر اس معرکہ ٔ کا رز ار میں یہ کہتا ہوا پہنچا تھا ۔شعر
تو میرا دل وہ دلیری ہیں روبۂ خویش خواں وشیری ہیں
{خارج شدہ آنکھ بہتر ہوجانا }
شفاء اور اس کی شرح میں یہ راویت ہے کہ احدکے روز قتاوہ ؓ کی آنکھ میں تیرلگا اور آنکھ رخسا رپر نکل پڑی ۔وہ حضرت کی خدمت میں اسی حالت میں حاضر ہوے حضرتؐ نے فرمایا اگر چاہتے ہو تو آنکھ درست کر دیتا ہوں اور صبر کر تے ہوں تو تمہا رے لئے جنت ہے ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسو اللہ جنت بیشک بڑی ہے اور نہایت عمدہ عطاہے مگر مجھے کا نے پن کا عیب گوار ا نہیں ہوتا ۔آپنے دست مبارک سے آنکھ قدیم جگہ پرقائم فرمادی اور جنت کی دعا بھی کی ۔راوی کہتے ہیں کہ اس آنکھ میں دوسری آنکھ سے زیادہ حسن و خوبی اور بصار ت بڑھی ہوئی تھی ۔ انتہیٰ۔
اس کی وجہ سے ظاہراً یہ معلوم ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ کومنظور تھا کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتہہ کو جس کو اصلاح میں دخل ہے اس میں حسن بڑہا رہے تاکہ شان محبوبی عالم میں ممتاز طورپر نمایاں ہو ۔
{تھوڑے سے پانی سے لشکر کثیر کی سیرابی }
خصائص کبریٰ میں انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے طرف ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں ابوبکر ؓبھی تھے اورفرما یا کہ بہت جلد جائو۔ کیونکہ تمہارے اور مشرکین کے بیچ میں پانی ہے ۔اگتر وہ اس پر پھلے پہنچ جائیں گے تو تم لوگوں پر مشقت ہوگی اور پیاسے رہ جائیں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ آدمیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے ۔اور ان سے فرمایا کہ تم چاہتے ہوکہ تھوڑی دیر آرام کر کے لوگوں کو ملالیں ؟ان لوگوں نے عرض کی بہتر ہے چنانچہ سب سو رہے اورجب دہوپ کی تیزی نے ان کو بیدار کیا تو حضرت ؐ نے ان سے فرمایا کہ حاجت سے فارغ ہو کر آجائوجب حاضر خدمت ہو ے تو فرمایا کہ کسی کے ساتھ پانی بھی ہے ایک شخص نے عرض کی میری ڈولچی میں تھوڑا پانی ہے فرمایا لائو جب حاضر کیا گیا تو دست مبارک اس کو لگا کر یہ برکت کی دعاکی ۔پھر حاضرین سے فرمایا وضو کر لواورآپ ان کو وضو کر انے لگے یہاں تک کہ سب وضو کر لئے حضرتؐ نے ان کو نماز پڑھا کر فرمایا کہ ڈولچی کی حافظت کرو ۔کیونکہ قریب ہے اس کے لئے ایک شان ہوگی۔پھر حضرت ؐسوار ہوکر لشکر کے جانب روانہ ہوئے ۔اصحاب سے فرمایا کہ تم کیا خیال کر تے ہو کہ ان لوگوں نے کیا کیا ؟لوگوں نے عرض کئے خدا اور اس کے رسول ؐزیادہ جا تے ہیں ۔فرمایا ان میں ابوبکرؓ اورعمر ؓ ہیں ۔ لوگوں کو راہ راست پررکھیں گے ۔ مگر مشرکین سبقت کر کے پانی پر پہنچ گئے ۔ اور لوگ سخت مشقت میں ہیں اوروہ اور ان کے جانور سخت پیاس میں مبتلا ہیں ۔جب حضرت ؐ وہاں پہنچے تو وہ ڈولچی منگوائی جس میں تھوڑا پانی تھا پھر اعلان دیا کہ سب آکر پانی پئیں ۔اور حضرت ؐ نے پلانا شروع کیا یہاں تک کہ سب سیراب ہوگئے ۔پھر جانوروں کو پلایا جور جتنے پانی کے برتن یعنی ڈولچیاں مشکیں پکھال تھیں سب بھر لئے گئے۔ پھرحضرت ؐ و صحابہ ؓ مشرکین کی طرف متوجہ ہوے اس وقت منجاجب اللہ ایک ہوا ایسی چلی کہ مشرکوں کے منہ پھر گئے ،اوروہ بھاگ نے لگے چنانچہ بہت سے قتل اور بہت سے قید کئے گئے ،اور بہت غنیمت ملی ،اور حضرتؐ کا میابی کے ساتھ خیر و عافیت سے واپس تشریف لائے انتہیٰ ۔ تھوڑسے پانی سے تمام لشکر کا سیراب ہونا سواے قدرت الٰہی کے ممکن نہیں۔اسی قدرت کا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے ہوا ۔
{اکیس کھجوریں دیڑھ ہزار من ہوگئیں اور اسکا فلسفہ }
خائص کبریٰ میں ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہار ے ساتھ کچھ ہے ؟میں نے عرض کی کہ توشہ دان میں تھوڑا کھجور ہے فرمایا آئو ۔ میںنے حاضرضر کیا ۔وہ کل اکیس دانہ تھے ، دست مبارک اس پر پھیر کر کچھ دعا کی اور فرمایا کہ دس شخصوں کو بلا لو میں نے بلا یا وہ آئے اورسیری سے کھاکر چلے گئے پھر دس شخصوں کو بلا نے کا حکم ہوا ۔وہ بھی فارغ ہوے اسی طرح دس دس شخص بلا ے جاتے اور سیری سے کھاکر اٹھ جا تے تھے ۔یہاں تک کہ تمام لشکر کو ان چند دانوںنے سیر کر دیا اور تھوڑے باقی رہ گئے ۔مجھے ارشاد ہوا کہ یہ تم اپنے پاس تو شہ دان میں رکھ لو ۔جب تمہیں ضرورت ہو ہاتھ ڈالکر اس میں سے نکال لیا کرو مگر یہ احتیاط رہے کہ سب اونڈیل کر پھیلا نہ دئے جائیں ۔ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ؐ کے زمانہ میں وہی کھجور یں کھا یا گیا اس کے بعد ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد خلافت میں ان کھجور وں کو خرچ کرتا رہا تخمیناًپچاس وسق فی سبیل اللہ دیا ۔ اور دو سو وسق سے زیادہ میں منے کھا یا اور کھلا یا جب حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے تووہ کھجو ریں میرے پاس سے جا تے رہے انتہیٰ ۔
نہتی الارب میں لکھا ہے کہ’’ وسق ‘‘ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ہر صاع تخمیناً چار سیر کا ۔
اکیس کھجور وںسے تخمیناً دیڑ ہزار کھجور یں خرچ ہونا ۔صرف خداے تعالیٰ کی قدرت سے متعلق ہے جس چیز کو وہ چاہتا ہے برکت دے کر زیادہ کر تا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے اس میں برکت نہیں دیتا ہے بلکہ زیادہ کو کم کر دیایتا ہے ایک بر گد کے درخت ہی کو دیکھ لیجئے کہ کتنا بڑا ہوتا ہے ۔اور جس تخم سے اس اس کی نشو نما ہوتی ہے وہ کس قدر چھوٹا ہے ۔اس چھوٹے سے تخم سے جو دأ نہ خشناش سے کسی قدر بڑا ہو اتا ہے اتنادرخت جس کو وزن کی جائے تو ہزار ہا من ہو ۔ او رجسامت دیکھی جاے تو ہزارہا آدمی اس کے سایہ میں آسکتے ہیں ۔ یہ نشو ونما کیسی قدرت نمائی ہے جو در اصل یہاں بھی وہی برکت ہے کہ خدا ے تعالیٰ نے اس چھوٹے سے تخم میں برکت دے کر اس کو اتنا بڑھا یا کہ لاکھوں حصے اس سے زیادہ ہو گیا ۔ اگر یہاں یہ کہا جا ے کہ درخت میں ہر روز بلکہ ہر وقت مٹی سے اس کی مدد ہوتی ہے جس سے وہ بڑھتا ہے تو ہم کہیں گے اس میں شک نہیں کہ خدا ئے تعالیٰ جب برکت دیتا ہے تو تواندرونی مددضروری ہوتی ہے ۔مگر یہ کہنا بلا دلیل ہوگا کہ زمین کی مٹی اس کی جسامت میں شریک ہو کر اس کو بڑھا تی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی جڑیں زمین میں گڑی رہتی ہیں اور زمین اپنی حالت پر رہتی ہے ۔اگر زمین کے اجزا درخت کے جسامت میں صرف ہو تے تو جتنا درخت بڑا ہو تخمیناً اتنا ہی غاراس کے جڑوں کے قریب ہوتا ۔حالانکہ برخلاف ا س کے جڑیں جب زمین میں گھس تی ہیں تو وہاں کی مٹی متکاسف ہو جا تی ہے( یعنی سمٹ جا تی ہے )۔ بہر حال یہ ہرگز ثابت نہ ہوسکے گا درخت کے جتنے اجزا ہیں وہ صرف مٹی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ سلالۂ زمین اس میں داخل ہوتا ہے مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ وہ کل سلالہ ہے ۔اس میں برکت الٰہی کو دخل نہیں ؟
{ایک پسو جو سے اسی آدمی سیر ہوے }
خصائص کبریٰ میں ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برآمد ہوئے ۔اور فرمایا کہ اہل صفہ کو بلائو میں نہ بلایا اسکے بعد ایک بڑاپیالہ رکھا جس میں جو کی پکی ہوئی کوئی غذا تھی جو تخمناً ایک مد یعنی ایک پسو ہوگی ۔حضرت ؐ نے اپنادست مبارک اس پررکھ کے فرمایا کہ ہاںبسم اللہ ہم نے کھا نا شروع کیا ۔اور تقریباً اسّی (۸۰) شخص سیر ہو کر کھا ے جب فارغ ہوے تو وہ اسی قدر بھر ا ہوا تھا جو رکہنے کے وقت تھا البتہ اس قدر فرق ہوا تھا کہ حضرت کی انگلیوں کے آثار اس میں نمودار تھے انتہیٰ ۔
{ایک صحنک کہا ہیں برکت}
خصائص کبریٰ میں ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا کہ مکان کو جا کر کھو کہ کھانا جو کچھ تمہارے پاس موجود ہو لائو ۔چنانچہ ایک صحنک مجھے دی گئی جس میں عصیدہ تھا جو ایک قسم کا کھانا آٹے اور گھی او رمیٹھی چیز سے تیار کیا جا تاہے میں وہ لیکر حاضر ہوا ارشاد ہوا کہ مسجد واولوں کو بلالو میں نے اپنے دل میں کھا کہ کھانا اتنا ہے اورمسجد کے لوگ بہت اگرنہ بلائوں تومعصیت ہوئی جا تی ہے ۔
بہر حال ان کو بلا یا اور سب جمع ہوگئے ۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنی انگلیاں رکھ دیں اور فرمایا یا اللہ کانام لے کر کھائو چنانچہ سب کھائے اور سیر ہوئے اور میںنے بھی کھایا او رسیر ہوگیا ۔اور جب میں نے ا س کو اٹھا یا تو جتنا رکھنے کے وقت تھا اتنا ہی اٹھا نے کے وقت بھی تھا مگر فرق یہ تھا کہ اس وقت حضرتؐ کے انگلیوں کا نشا ں تھا ۔
{بکریوں کی حالت خود بخود بدل جانا }
خصائص کبریٰ میں ابو قرضافہ ؓ سے روایت ہے کہ ابتدا ئے اسلام میں میںیتیم اور ماں اور خالہ کی زیر پرورش تھا ۔ اپنی چند بکریاں چرا یا کر تا تھا۔میری خالہ مجھے اکثر کہتی تھیں کہ اے لڑکے اس شخص یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کبھی نہ جانا ۔ کیونکہ وہ اغوا دے کر گمراہ کر دیں گے ۔ میں چرا گا ہ کو جاکر بکریوں کو چھوڑ دیتا ۔ اور حضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر ارشاد مبارک کو سنتا ،پھر بکریوں کے پاس جاتا توان کو دبلے اور ان کے تھنو کو سوکھے پاتا۔میری خالہ نے مجھ سے کہا کہ تیر ی بکریوں کو کیا ہوا ۔ میں نے کھا مجھے معلوم نہیں دوسرے روز ایسا ہی کیا ۔ پھر تیسرے روز حضرتؐکی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام سے مشرف ہوا ۔ اور اپنی خالہ کا حال بیان کیا ۔حضرتؐ نے فرمایا کہ بکریوں کو لے آئو میں نے حاضرکیا حضرتؐ نے ان کی تھنوں اور پیٹ پر ہاتھ پھیر کر دعا ے برکت کی ۔ساتھ ہی وہ چربی اور دودھ سے بھر گئیں ۔جب میں نے خالہ کے پاس ان بکریو ںکو لے گیا تو کہا کہ اے لڑکے !ایسے ہی چُرا نا چہاہئے جب میںان کو یہ سب واقعہ کہہ سنا یا تو وہ اورمیری والدہ دونوں مشرف با سلام ہوئی انتہیٰ۔
{کرشمہ ٔ توفیق }
توفیق ازلی جب مددگا ر ہوتی ہے تو ایسے ہی آثار ظاہر ہو تے ہیں ۔دیکھئے صاحبزادے جو ییتم و نابالغ تھے ان کو حضرتؐ کی خدمت حاضر ہونے کا خیال پیدا ہونا اور بکریوں کو جن پر ان کی روزی کا مدرا تھا کس مپرس حا لت میں چھوڑ دینا حیرت انگیز بات ہے ۔کیونکہ یہ عمر تو ایسی نہیں ہوتی کہ ا س میں آدمی اپنے منافع اُخروی کی طرف توجہ کرے ۔بلکہ عمر توہ ہے کہ دنیوی منافع حاصل کر نے کے طرف بھی پوری توجہ نہیں ہوتی ۔
غرض ان سے یہ کام جوصا در ہوا بہت سے بڑے بڑے عقلا بھی نہ کر سکے ع ایںمیں سعادت بزرو بازو نیست ۔
{ایک بکری کے دودھ میں برکت }
خصائص کبریٰ میں ابوالعالیہؓ سے راویت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اس وقت بہت سے صحابہ ؓ جمع تھے آپ کا خیال ہوا کہ ان کوکچھ کھلائیں آپ نے ہر محل سے کھا نا طلب فرما یا ۔ نوئوں محلو سے صاف جواب آیا کہ کھانے کی کوئی چیز موجد نہیں ہے ۔آپ نے ایک کم عمر بکری دیکھی کہ گھر میں کھڑی ہے اس کے تھن پرہاتھ پھیرا فوراً اس کے تھن پائوں میں لٹکنے لگے ۔اور شہ کاسہ منگو ا کر اس کا دودھ ہر محل مبارک میں ایک ایک شہ کا سہ بھیجا گیا ۔ اور سب صحابہؓ نے بہ سیری تمام اس کو پیا ۔انتہیٰ ۔
اہل انصاف اس واقعہ سے سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت کا کیا حال تھا ۔نو محلوں میں سے بھی تھوڑی سی کھا نے کی چیز نہ نکل سکی ۔
{حضرت کی معیشت جو نبوت پردلیل ہے }
اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کاثبوت صد ہا ہزار ہا واقعات سے ہوتا ہے ۔یہ اصلی نبوت کے آثار ہیں کہ صرف ہدایت خلق اللہ مقصود تھی ۔ بر خلاف اس کے حضرت ؐ کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان کو اس سواے دنیا اور پیسہ کمانے کے اورکوئی مقصود نہیں ، ان کی یہ حالت ہے کہ ہمارے اسلام ہی کے مسائل میں کچھ الٹ پھیر کرکے کھد یتے ہیں کہ خدا نے االہام کیا ۔وحی اتری ۔اگرخوش اعتقاد لوگوں نے مان لیا اور ہر طرف سے امدشروع ہوگئی تو پھر کیا کہنا بریانی ،امزعفر ،اقسام کی نعمتیں استعمال کی جا تی ہیں ،جن کا تھوڑا سا حال ہم نے افادۃ الافہام میں لکھا ہے ۔
اہل انصاف سمجھ سکتے ہیں کہ جو اقسام کی تدبیریں کر کے تو قیرآمدنی کے ذرائع قائم کر ے ۔اور ایک بڑا حصہ اپنی آسائش اور منافع ذاتی میں خرچ کرے ۔کیا اسکو نبوت سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کے منافع بے حساب بیان فرماے اور قرآن شریف میں بھی اس کے لئے بہت کچھ ترغیب دی گئی ہے چنانچہ ہر فر د بشر حتیٰ کہ فقیر تک حضرتؐ کی خدمت میں صدقے لالا پیش کر تے مگر حضرت ؐ نے پہلے سے ہی فرمایا کہ صدقات میرے اور میرے اہل بیت کے حق میں حرام ہیں ۔ اواس باب میں احتیاط اس قدر کہ کھیں کھجور پڑی ہوئی تھی ۔حضرت امام حسین ؓ نے جو نہایت کم عمر صاحبزادے تھے کھا نا چاہا آپ نے سختی سے ان کواس خیال سے منع فرمایا کہ کھیں وہ صدقہ کی نہ ہو اب دیکھئے کہ مصنوعی نبوتوں اور اصل نبوت کے آثار لوازم میں کس قدر فرق ہے ۔
آپ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایسی بکری جو کبھی بیاہ نہ گئی ہو اس سے اس قدر دودھ دھو ہا گیا کہ کئی گھر کے لوگ اور ایک جماعت سیراب ہوگئی ۔اصل نبو ت کے یہ آثار ہو تے ہیں ۔
{مرزاصاحب نے معجزات کا انکار کر دیا }
جعلی نبوت میں جب اس قسم کے معجزات کا صدور ممکن نہیں ۔اس لئے مرزا صاحب نے صاف لکھ دیا کہ جس قدر معجزات بیان کئے جا تے ہیں سب بے اصل محض ہیں ۔اس سے زیادہ کیاہو کہ قرآن شریف میں جن معجزات کا ذکر ہے ان کابھی انکا کرکے ایسی تا ویلیں کیں کہ جس کو ذری بھی عزیت اور عقل ہو وہ ہرگز خیا ل نہ کرے گا کہ ہو معنی خدا ے تعالیٰ کی مراد ہیں ۔
{دست مبارک سے داد جا تا رہا }
خصائص کبری میں روایت ہے کہ ابیض ابن حمال ؓ کے منہ پر دادتھا جو ان کی ناک کو چیر گیا تھا حضرتؐ نے ان کو بلا کر ان کے چہرے پرہاتھ پھیرا فوراً دفع ہوگیا ۔اور اس کا اثر بھی نہ رہا ۔
اطبّاُ لکھتے ہیں کہ امراض سودا ویہ بہت دیر میں علاج پذیر ہوتے ہیں۔ کیسا ہی طبیب حاذق ہو ۔اگر داد کا علاج کر تا تو اس کو کتنا زمانہ درکار ہو تا۔پھر داد اگر زائل بھی ہوتا توناک جس کو داد نے چیر گیا تھا۔ اس کو ارنسر نو پیدا کر نے کی کیا ضرورت ۔میری دانست میں ایسی دوا کا ملنا نہایت دشوار ہے جوناک کے اجزاء کو بڑھا کر اس کو ہیت اصلیہ پر لے آوے ۔ایسی سخت بیماری کو حضرتؐ نے صرف ہاتھ پھیر کر زائل فرما دیا ۔
{بالوں میں دست مبارک کا اور لکنت میںآب دہن مبارک کا اثر}
خصائص کبری ٰ میں ہے ک بشر بن عرقبہ کہتے ہیں کہ جب جنگ اُحد میں میرے والد شہید ہوے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روتا ہوا آیا فرما یا کیوں رو تے ہو کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ میں تمہا را باپ اور عائشہ تمہا ری ماں ہوں ۔ ا س کے بعد آپ نے میرے سر پرہاتھ پھیرا جس کا اثر یہ ہوا کہ با وجود یکہ تمام سر کے بال بو جہ پیرا نہ سالی سفید ہو گئے تھے ۔مگرجہاں دست مبارک لگا تھا وہ اب تک سیاہ ہیں او روہ کہتے ہیں کہ میر ی زبان میںگرہ تھی جس کی وجہ سے میں بات برا بر نہیں کر سکتا تھا ۔ حضرت ؐ نے اس پر تھو کا فوراً وہ گرہ کھل گئی اور عقدہ کشائی ہو گئی اس کے بعد ارشاد ہوا کہ تمہارے نام کیا ہے میں نے عرض کی بُجیر فرمایا نہیں تم بشیر ہو ۔انتہیٰ۔
لعاب مبارک سے جو بشیر ؓ کی زبان کی گرہ کھل گئی یہ کوئی نئی بات نہیں اس قسم کاعقدہ کشائیاں ہمیشہ ہو ا کر تی تھیں ۔ اور آپ نے ان کا نام جو بدل دیا ا س کی وجہ یہ تھی کہ بُجیر کے معنی بدی اور عیب کے ہیں ۔آپ کو ایسا نام جو پسندنہیں تھا ۔ جس کے معنی میں کسی قسم کی بُرائی ہو اگر چہ کہ احلام میں معنی کا لحاظ نہیں ہوتا مگر یہ تو ظاہر ہے کہ اگر کسی کانام مثلاً شیطان یا خبیث رکھ دیا جائے او راس نام سے ا سے پکا ریں تو اس کی خاطر شکنی ضرور ہوگی ۔ماں باپ جب کوئی بُرا نام اپنے بچے کا رکھ دیتے ہیں تو عقل آنے کے بعد وہ کچھ کرتو نہیں سکتا مگر اس نام سے پکا را جانا اس کو بُرا ضرور معلوم ہوتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بُر ے ناموں کو بدل دیا کر تے تھے یہ حضرت ؐ کی کمال شفقت کا باعث تھا کہ دل شکنی کے اسباب کوآپ دور فرما دیا کر تے تھے۔اگر غور سے دیکھا جا ے تو اکثر معاملات اور اخلا ق حسنہ میں وہی امر ملحوظ ہے اور اسی پر اصلاح تمدن کا مدار ہے ۔
{اثر پاے مبارک}
شفاء اور اس کی شرح میں روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرما تے ہیں کہ ایک بار میں سخت بیمار ہوا اور حضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا دردکی شدت میں یہ دعا کر تا تھا کہ الٰہی اگر موت آگئی ہے تو درد سے مجھے راحت دے اور اگر نہیں آئی تو شفاء دے اور اگر یہ آزمائش ہے تو مجھے صبر عطا فرما حضرتؐ نے سن کر مجھے دعا دی اور ایک ٹھو کر ماری اس کے بعد وہ درد مجھے کبھی نہ ہوا انتہیٰ ملحضاً ۔
ٹھوکر کا یہ اثر تھا کہ مھلک دردہمیشہ کے لئے جا تا رہا دراصل یہ اثر حضرتؐ کے قدم مبارک کا تھا جو ان کے جسم کو لگ گیا ۔
{کسی کی ایک اونٹنی زمین پکڑی تھی حضرت کی ٹھوکر بک سیر ہوگئی }
خصائص کبریٰ میں ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے کسی شخص کو کہیں بھیجا ا س نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری ناقہ نے مجھے تھکا دیا ۔وہ اپنے مقام سے اٹھتی ہی نہیں ۔حضرتؐ نے وہاں تشریف لیجا کر اس کو ٹھوکر ماری ۔ابوہریرہ ؓ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ سامنے چلنے والوں سے بڑہجا تی تھی ۔ انتہیٰ ۔یہ ٹھوکر کا اثر تھا ایسے کہ مردہ کو زندہ اور چست و چالاک بنا دایا ۔
{آبلہ اور دردکا جا تا رہنا }
شمس التوا ریخ وغیرہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت فرمانے کے بعد تین دن مکہ میں رہے آنحضرتؐ کی طرف سے لوگوں کی امانیتں ان کو سپرد کر کے مکہ سے باہر نکلے اور مدینہ کی طرف متوجہ ہوئے ۔رات کو پیادہ پا چلتے اور دن کو کسی ایک گوشے میں چھپ رہتے ابھی حضرت ؐ محلہ قباہی میں تشریف رکھتے تھے کہ آپ بھی پہنچ گئے ۔پیادہ روی کے باعث پائوں میں چھالے پڑ گئے تھے اور نہایت ہی درد تھا ۔ آنحضرت ؐ نے اپنادشت مبارک ان کے پائوں پر پھیر دیا ۔اور دعاء شفا کی اسی د م آرام ہوگیا۔
ہر چند حضرت علی کرم اللہ وجہ امام الاولیا ہیں اوراس قسم کے کرامات خود آپ سے صادر ہوتے تھے ۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے مقابلہ میں ان کا وجودایسا ہی تھا۔ جیسے چاند وغیرہ کو اکب کا وجود آفتا ب کے مقا بلہ میں اسی وجہ سے آبلہ وغیرہ کی شکایت کو دورنہ کر سکے جب تک کہ آنحضرت ؐ کے دست مبارک نے دستگیری نہ فرمائی ۔
{لاغر قریب مرگ بکری کاددودھ دینا }
سیرۃ النبویہ اور شمس التواریخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت میں لکھا ہے کہ اثناء راہ میںمنزل قدیرپر جو رابغ کے قریب ہے ام معبد عا مکہ بنت خالہ خزاعیہ کے خیمہ کے پاس سے خضرتؐ کا گزر ہوا ۔یہ ایک بہت عا قلہ بوڑھی عورت تھی ۔جو کوئی اس کے خیمہ کے پا س سے نکل تا تھا اس کی مہمانی کوتی تھی ۔ آنحضرتؐ نے اس سے فرما یا اور گوشت طلب فرمایا ۔ اس نے ایک آہ بھری او رکہا افسوس ا س نواح میں ایسا سخت قحط ہے کہ ہمیں کئی کئی دن کت کھانا نصیب نہیں ہوتا ۔میںمجبور ہوں آپ کی خدمت نہیں کرسکتی حضرتؐ کو بھی اس کے حال پر رحم آیا آپ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک کبری نظر آئی۔آپ نے دریافت کی کہ یہ کس کی بکری ہے ۔ام معید ؓ بولی کہ ہے تومیری مگرلاغری اور بھوک سے کوئی دم کی مہمان ہے ۔اب اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی آپ نے فرمایا کہ یہ بتائو کہ دودھ بھی دیتی ہے یانہیں ۔ ام معید نے جواب دیا کہ جب لاغری کا یہ حال ہے تو دودھ کیا دے گی ۔ آپ نے فرما یا کہ تم اجازت دو تومیںدودھ لوں ۔اس نے جواب دیا شوق سے لیجئے ۔ آپ نے اس بکری کو اپنے پا س منگوا کے اس کے تھنوں پرہاتھ پھیرا اور فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہم بارک لھا فی شا تھا ۔یعنی اے اللہ ام معید کی بکری میں اس کے لئے برکت دے فوراً اس کے تھن دودھ سے بھر گئے آنحضرت ؐ نے برتن منگا کر اپنے ہاتھ سے دوہا پھلے اہل خیمہ کو پلایا بعد ازاں اپنے ہمرا ہیوں کو پھر خود پیا ۔ اس لا غربکری سے اتنا دودھ ملا کہ حاضرین نے دو دو بار پیا اور ام معیدکے سارے برتن بھر دئے۔ آپ وہاں سے روانہ ہوے تھوڑی دیر کے بعد ا س کاخاوند ابو معید اکثم ابن ابی الجون آیا اور گھر کے سب برتن دودھ سے بھرے دیکھ کر حیران رہ گیا بیوی سے پوچھا گھرمیں توکوئی شیر دار جانور نہ تھا پھر یہ دودھ کہاں سے آیا امعید نے جواب دیا کہ ایک نہایت متبرک آدمی آیا تھا اس کے ہا تھ کی برکت ہے اسی مردہ بکری نے اتنا دودھ دیا ہے اس مرد فرشتہ سیرت کی باتی میٹھی صورت پیاری اور زبان فصیح اور بیان ملیح تھا ۔ ابو معید بولا واللہ وہ مرد قریشی ہے اسے لوگ ڈہونڈتے پھر تے ہیںجس کا شہرہ تمام عالم میں مچ رہا ہے ۔اگر میں اس وقت موجود ہوتا تو اس کا ساتھ کبھی نہ چھوڑ تا اب میری آرزو ہے کہ میں اس سے جاملوں ۔غرضکہ دونوںمیاں بیوی مدینہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے ۔
{لکڑی کا تلوارہوجا نا }
سیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ عکاشہ محص ؓ کی تلوار جنگ بدرمیں جب ٹوٹ گئی تو آنحضرت ؐ نے ایک موٹی لکڑی ان کودی جو کسی درخت کی جڑ تھی اور فرمایا کہ اس سے مارو ۔ وہ ان کے ہاتھ میں ایک دراز دل درا سخت چکمتی ہوئی تلوار ہوگئی جس سے وہ لڑ تے رہے ۔چنانچہ ہر جنگ میں وہ اسی سے لڑ تے تھے ۔اس تلوار کا نام عون رکھا گیا ۔
خصائص کبریٰ میں روایت ہے کہ قبیلۂ بنی اشہل کے کئی لوگوں نے خبر دی کہ سلمہ ابن اسلم کی تلوا رجنگ بدر میں ٹوٹ گئی اور وہ نہتے رہ گئے۔آنحضرتؐ نے ایک ڈالی کھجور کی ان کو دے کر فرمایا کہ اس سے لڑو ۔ یکا یک ان کے ہاتھ میںو ہ نہایت عمدہ تلوار ہوگئی ۔ او روہ ہمیشہ اس کو انے پاس رکھتے تھے یہاں تک کہ شہید ہوے ۔
{ایک مشت خاک نے سب کو اندھا بنا دیا }
شمس التواریخ وغیرہ میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم کیا مدینہ طیبہ کو ہجر ت کر کے چلے جائیں ۔او رسب چلے گئے۔اور صرف علی کرم اللہ وجہہ اور ابوبکر صدیق ؓ باقی رہہ گئے توکفار کویہ فکر ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہیں تشریف نہ لے جائیں اس لئے اس رات کفار نے مکہ ٔمعظمہ کے دار الندوہ میں مشورہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح نجات پائیں ؟مختلف رایوں کے بعدیہ راے قرارا پائی کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک جوان دلا ور منتخب کیا جاے اور وہ سب مجتمع ہوکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرحملہ کر کے قتل کر ڈالیں جب ایسا ہو گا تو ان کا خون سب قائل پر بٹ جاے گا ۔اور بنی عبد مناف کو سارے قبائل کے مقابلہ کی طاقت نہ ہوگی اور خون بہا پر راضی ہوجائیں گے جب رات ہوئی تو قریش حضرت ؐ کے آرام فرمانے کے منتظر بیٹھے ۔ اور سردار ان قریش مثل ابوجہل اور ابو لہب وغیرہ نے اس کا م کو انجام دینا اپنے ذمہ لیا ۔آنحضرت ؐ نے علی مرتضی ؓ کوفرما یا کہ کفار کا اس قسم کا رارا دہ ہو گیا ہے ۔اب میں یہاں سے چلا جا تاوں تم میری جگہ سور ہو تمہیںکچھ نقصان نہ پہنچے گا ۔اور اما نتیں جو قریش کی میرے پا س ہیں ا ن کو پہنچا کر تم بھی مدینہ کو چلے آنا یہ فرما کر حضرتؐ باہر نکلے دکھا کہ کفار مستعد کھڑے ہیں آپ نے ایک مشت خاک ان پر ڈالی اور چند آیتیں پڑھیں ۔ وہ مشت خاک کل کفار کے آنکھوں میں پڑی او رکسی نے آپ کو نہ دیکھا جب حضرتؐ تشریف لے گئے تو ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیوںکھڑے ہو اور کس کا انتظار ہے انہوں نے جواب دیا صبح ہونے کی راہ دیکھ رہے ہیں صبح ہوتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالیں گے ۔ تاکہ بنی ہاشم دیکھ لیں کہ سب نے اکٹھا ہو کر ان کو مارا ہے او رانہیں بد لا لینے کی ہمت نہ بند ھیگی ۔ اسنے کہاکہ لعنت ہے تم پرا ندھوں یہی شخص جو ابھی تمہارے سامنے سے نکلا اور چلا گیا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھا اب تو ابوجہل اور سب کا فروں نے سپر یٹ لئے اور سب نے مٹی اپنے اپنے سروں پر پائی ۔ یہ وہی مٹی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روانگی کے وقت پھینگی تھی ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے دست مبارک کی مٹی میں کیسی برکت ہو ئی کہ ان سب کفار کے آنکھوں میںاور سر پر پڑی او ران کو اندھا بنا دیا ۔ اور حضرت ؐ کے جا تے وقت کسی کو یہ بھی خیال نہ ہوا کہ کون شخص جا تا ہے ۔ اور سب قدرت نمائیاں تھیں کہ ہر طرح سے کفار پورے طورپر حضرت پر مسلط کئے گئے۔ تمام شہر دشمن ہر شخص خون کا پیا سا اور ہر وقت قتل پر آمادہ اوررات کا وقت ہے کہ تمام سرد اران قریش حضرتؐ کے دولتخانہ کا محاصرہ کئے ہوے ہیں ۔اور حضرتؐ تن تنہ نہ گھر پرکوئی در بان ہے نہ محافظ نہ یار نہ رفیق ایسی حالت میں اندر ونی حکم صادر ہوا کہ اپنی جگہ علی کرم اللہ وجہہ کو سلا کر مدیانہ کی جانب ہجرت کیجئے جب آپ نے دروازے کے باہر قدم رکھا ہوگا اس وقت حضرتؐ کی کیا حالت ہوگی کبھی توان کی حماقت پر ہنسی آتی ہوگی کہ یہ حمقا خدا ے مقابلہ کے لئے آکر کھڑے ہیں۔اورکبھی شان کبریانی پرنظر پڑتی ہوگی کہ کیسے کیسے سر برآور دہ کا ر آموز وہ بھا دران قوم کو جن کا شجاعت تمام ملک عرب میں مسلم تھی مقابلہ کے لئے لا کر کھڑا کر دیا اور تدبیر بہ بتلائی کہ ایک مُشت خاک سے ان کے سب منصوبے خاک میں ملا دئے جائیں ۔ اسباب ظاہر ی پر جن لوگوں کو گھمنڈ ہو تا ہے ان کو اس واقعہ سے سبق لینا چاہئے کہ مسبب الاسباب کے مقابلہ میں کوئی سبب کا ر گر نہیں ہوتا ۔ اور ایک ادنیٰ سبب ایسا پیدا ہو جا تا ہے جو سارے اسباب کو نیست و نابود کر ڈالتا ہے ۔
{اثر یک مشت خاک}
تفسیرابن جریر میں آیۂ وما رمیت اذرمیت کی تفسیر میں کئی احادیث نقل کئے گئے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قریش جب جنگ بدر میں حضرتؐ کے مقابل ہوے اور گھمان کی لڑائی شروع ہوئی توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی مٹی کفار کے طرف پھینکی وہ مٹی ہر ایک کی آنکھ میںناک میں ،منہ میں ، پڑی اور ان میں بھا گڑمچی ۔ اور صحابہ ؓ نے ان کاقتل اور قید کرنا شروع کیا انتہیٰ ۔
دست مبارک کی برکت دیکھئے کہ ایک مٹھی میں جس قدر مٹی آتی ہے ظاہر ہے اتنی سی مٹی تمام لشکر کفار کے آنکھ ،ناک، منہ میںجا پڑی ۔ حالانکہ کفا ر نو سو (۹۰۰) سے زیا دہ تھے ۔ یہ واقعہ قرآن شریف میں موجود ہے حق تعالیٰ فرما تا ہے و ما رمیت اذرمیت ولکن اللہ رمیٰ ۔ ا س کے بعد کون مسلمان ہو گا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برت کا انکا ر کر سکے ؟ کیا یہ واقعہ عقل کے موافق ہوسکتا ہے کہ ایک مشت خاک لشکر کی ہزیمت کے لئے کافی ہو ہر گز نہیں ۔ یہ اثر دینا صرف خدا ے تعالیٰ کا کام ہے اس کا ظہور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ہوا ۔ بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت تھی ۔ جس نے ہر کا فر کی آنکھ میں اس مٹی کو پہنچا یا ۔ مگر در باطن وہ قوت اور قدرت الٰہی تھی اس واسطے آیۂ شریفہ میں ارشادہے کہ آپ نے جب مٹی پھینکی آپ نے نہیں پھینکی بلکہ خدا ے تعالیٰ پھینکی جس کا مطلب ظاہر ہے کہ بظاہر آپ کا پھینکنا تھا ۔ اور باطن میں وہی پھینکنا خدا ے تعالیٰ کا تھا ۔ اسی پر تمام معجزات کا قیاس کر لیجئے کہ ظاہر ان کا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وزبان وغیرہ جوا رح سے ہوتا تھا ۔ مگر در باطن وہ خدا ے تعالیٰ کا فعل تھا ۔
خصائص کبری ٰ میں ابو سفیان ابن سہل سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر پر چڑھا ئی کی تو یہود نے وہاں کے قلعوں میں پناہ لی ۔اور وہاں سے تیرمارنے لگے یہاںتک کہ ایک تیر حضرتؐ کے کپڑوں میں لگا حضرتؐ نے ایک مٹھی بھر کنکر قلعہ پر مارے جس کی وجہ سے اس کی دیوار وں میں زلزلہ ہوا اور زمین میں دھنس گئیں اور صحابہؓ نے اندر گھس کے ان لوگوں کو گرفتار کرلیا انتہیٰ ملحضاً ۔
چند کنکریوں کا قلعہ کی مستحکم دیواروں کو زمین میں دھنسا دینا اس قوت کا اثر تھا جو دست مبارک سے نکل کر ان کے ساتھ ساتھ قلعہ کی دیوا روں تک پہنچی تھی ۔ ورنہ کجا چند کنکر اور کجا دیوار قلعہ اور جوقوت کہ کنکر یوں کے ساتھ اس کے ساتھ حضرتؐ کی خاص توجہ کا م کر رہی تھی جیسا کہ اس حدیث شریف سے معلو م ہوتا ہے و خائص کبریٰ میں جابر ؓ اور عروہؓ سے مروی ہے کہ غزوہ ٔ خیبر میں ایک حبشی غلام حضرتؐ کی خدمت میں خاضرت ہوا اور عرض کیا کہ یا نبی اللہ اگر میں اسلام لائوں تومیرے لئے کیاہوگا ۔فرمایا جنت ۔چنانچہ وہ اسلا ملایا اور جنگ کرنے پر امادہ ہوکر عرض کی یہ بکریوں جن کو میں چرا تا ہوں لوگوں کی ہیں ۔ کسی کی ایک ،کسی کی دو،کسی کی زیادہ ان کو مالکوں کے پاس پہنچا نے کی کیا صورت ؟ فرما یا کہ چند کنکریاں لیکر ان کو مار کر ہانک دو ۔ وہ اپنے مالکوں کے پا س چلی جائیں گی چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا بمجرد ہانکنے کے وہ بکریاں دوڑیں اوراپنے اپنے مالکوں کے گھر پہنچ گئیں اوراس ادائی امانت کے بعد وہ بزرگوار صف کا ر زار میں شریک ہوے اور شہید ہوگئے۔ انہوں نے کبھی نماز پڑھی نہ سجدہ کیا مگر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے پاس دو حوریں آئیں۔انتہیٰ ملحضاً ۔
{جنت جزائے اعمال ہے }
ان بزرگوار کے کنکر مارنے سے جو بکریاں اپنے اپنے مالکوں کے گھرگئیں وہ ان کی قوت کا اکثر نہ تھا ۔بلکہ حضرتؐ کی توجہ کا اکثر تھا ۔ اس روایت میںجو مذکور ہے کہ انہوں نے نہ نماز پڑھی نہ سجدہ کیا با وجود ا سکے وہ جنتی ہوگئے ۔ ا سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ جنت میں جانے کیلئے نماز روزہ وغیرہ کی ضرورت نہیں حالانکہ جنت معا وضہ اعمال قراردی گئی ہے چنانچہ حق تعالیٰ فرما تا ہے تلک الجنۃ التی اورثو ہا بما کنتم تعملون ۔یعنی تم اس کو جنت کا ان کاموں کے بدلے میں وارث کیا گیا جو تم کیا کرتے تھے تلک الجنۃ التی نورث من عبدانا من کان تقیا ۔یعنی یہ وہ جنت ہے جس کا ہم اپنے بندونمین سے اس کو وارث کر تے ہیں جو پرہیز گا ر ہو تا ہے قولہ تعالیٰ ونودوآان تلکم الجنۃ اورثتمو ہا بماکنتم تعملون ۔یعنی ان کو سنا دیا جا ئے گا کہ تم اس جنت کے وارث کے گئے ہو ۔ ان عمولوںکی وجہ سے جوتم کر تے تھے ۔ ان نصوص قطعیہ سے ثابت ہے کہ جنت جزاے اعمال حسنہ ہے اس لحاظ سے یہ کہنا پڑے گا کہ بغیر اعمال حسنہ کہ آدمی مستحق جنت نہیں ہوسکتا ۔ اس صورت میں مطلب اس حدیث شریف کا یہ ہوگا کہ ایمان لاتے ہیں تھوڑی دیر میںوہ بزرگ شہید ہوگئے کیونکہ کوئی نماز کا وقت ان پر نہیںگزرا جس سے ان پرنماز واجب ہوسکے ۔با وجود نماز واجب ہونے کے نہ پڑھنا اور مستحق جنت ہونا کسی حدیث سے ثا بت نہیں ہے ہوسکتا ۔ ہا ں یہ بات اور ہے کہ خدا ے تعالیٰ اپنے فضـل سے جنت میں داخل کر دے ۔
{معد بصلہ امتثال امر مستجاب الدعوات ہوگئے }
سیرۃ النبویہ میں لکھاہے کہ کہ گروہ مخالفین میں حبان ابن العرفہ اور ابو سلمہ حیثمی فن تیر اندازی میں استاد تھے نشانہ ان کابہت کم خطا کرتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعید بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ تم جا کر ان کا مقابلہ کرو سعدیہ حکم سنتے ہیں کپڑوں میں پھولے نہ سماے اوران دونوں کے مقابل کھڑے ہوکے تیر چلانے لگے ۔ حبان ابن العرفہ کا تیر ام ایمن کے جامہ پر دائیں طرف لگا وہ اس وقت لشکر اسلام میں زخمیوں کو پانی پلارہی تھیں ۔ حبان کی تیر سے ان کا جا مراتنا کھل گیا کہ ٹخنہ اور ساق نظر آگئی ۔ اس پر ان عرفہ قہقہ مارکے ہنسا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی یہ حرکت نہایت ناگورا معلوم ہوئی آپ نے ایک تیر بے پیکان کا سعد کو دیکر فرمایا کہ اس سے حبان کو مارو ۔سعدنے حکم انور کی تعمیل کی وہ تیر ٹھیک اس کے سینے پر بیٹھا او ر ابن عرفہ زمین پر گرا ۔اور ننگا ہوگیا حضرتؐ نے یہ دیکھ کر تبسم فرمایا اور سعد کے حق میں دعاکی کہ الٰہی تو کبھی سعد کے سوال کو رد نہ کیجو ۔ حضرت سعد ؓ اس وقت سے مستجات الدعوات ہوگئے پھر مدینہ میں جس کسی کو کوئی مشکل پیش آتی وہ سعد سے دعا کرا تا فوراً اس کی مراد بر آتی انتہیٰ۔
لکڑی نے جو تیر کا کام کیا وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کا اثرتھا دراصل حضرتؐ کے غیرت کو بھی اس میں دخل تھا کیونکہ ابن عرفہ نے جو ساق کے کھلنے سے قہقہہ ماراتھا اس کو بھی اسی قسم کی سزا دینی منظور تھی ۔ چنانچہ جب وہ گر کرننگا ہوگیا تو حضرت ؐنے ا س پر تبسم فرما یا اور سعدؓ نے جو حضرتؐ کی غرض پوری کی کہ بغیر چون و چرا کے بے پیکان تیر مارا اور یہ عذر نہ کیا کہ یا رسول اللہ بے پیکان تیرمارنے سے کیا فائدہ ۔اس امتثال کے صلہ میں نعمت عظمیٰ عطاہوئی کہ جوکچھ خدا ے تعالیٰ کی با رگاہ میں عرض کریں وہ فوراً قبول ہوجاے ۔
جس سے ظاہر ہے کہ خدا ے تعالیٰ کو ان کا بے چوں و چر احضرت ؐ کے امر کا امتثال کرنا نہایت پسندہو اس کے صلہ میں گویا وعدہ فرمایا کہ سعد ؓ جو کچھ ہم سے خواہش ظاہر کریں گے وہ چیز ان کو دی جا ئے گی ۔
{چھڑی کے اشارہ سے بتوں کا گر جانا }
سیرۃ النبویہ وغیرہ میں لکھا ہے کہ جب مکہ ٔ معظمہ فتح ہوا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر کے اونٹ سے اوترے خانہ کعبہ میں دیکھا تو تین سو ساٹھ بُت برابر چنے ہوے تھے جن کے پائوں زمین میں سیسے سے ایسے مضبوط جمائے گئے تھے کہ کلہا ڑی اور کدال سے ان کا اکھڑ نا مشکل تھا ۔ حضرتؐ کے ہا تھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی اسے ہر بت سے لگا دیتے اور فرما تے تھے ۔ جاء الحق و زھق الباطل و ہ بت اوندھے منہ زمین پر آجا تا تھا لوگ تعجب کر تے تھے کہ سیسے سے جمع ہوئی موتیں چھڑی کی اطاعت کر رہی ہیں انتہیٰ ملحضاً ۔
سبحا ن اللہ دست مبارکل کا کیا اثر تھا کہ چھڑی میں وہ اثر پیدا کر دیا کہ بمجرد لگنے کے زمین میں گڑھے ہوے مستحکم بت اوندھے منہ گر جا تے تھے کیوں نہ ہو چھڑ ی حضرتؐ کے دست مبارک میں تھی اور حضرتؐ کادست مبارک دست قدرت الٰہی میں دیکھنے کو تووہ حضرت کادست مبارک تھا ۔ مگر دراصل اس ہا تھ کی حقیقت ہی کچھ اور تھی جس کا ادراک معمولی عقلوں سے ممکن نہیں ۔
{خیالات فاسد ہ کا دور ہو کر محبت پیدا ہو نا }
سیرۃالنبویہ میں راویت ہے کہ فتح مکہ کے وقت جب حضرت ؐ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ۔ فضالہ بن عمرؓ نے اپنے دل میں کھا کہ یہ موقع حضرت ؐ کے قتل کا اچھا ہے ۔ جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم طواف کرتے ہوے اس کے نزدیک پہنچے تو حضرتؐ نے اس سے فرما یا کہ فضالہ ہو ؟انہو ںنے کہا ! ہاں ہاں یا رسو ل اللہ میں فضالہ ؓ ہوں ۔فرمایا کہ دل ہی دل میں کیا باتیں کر رہے تھے ۔کہا کہ کچھ نہیں ۔ اللہ کا ذکر کر رہا تھا یہ سن کر حضرتؐ نے تبسم کر کے فرمایا کہ خدا سے مغفرت چاہو ۔ پھر دستِ مبارک اپنا ان کے سینے پر رکھد یا جس سے ان کے دل سے خیالات فاسدہ دور ہوگئے ۔
اس کے بعد فضالہ ؓ کھا کر کر تے ہیں کہ خدا کی قسم خضرت ؐ نے اپنا دست مبارک میرے سینے سے نہیں اُٹھا یا تھا کہ میرے دل کی یہ کیفیت ہوگئی کہ مخلوق میں کوئی حضرت ؐ سے زیادہ تر میرا محبوب نہ تھا ۔انتہیٰ ۔
فضالہ ؓکو ذکر الٰہی میں مشغول ہونے کی بر محل سو جھی ۔کیونکہ حضرت ؐ اس وقت طواف میں مشغول تھے مگر بارگاہ نبوت میں ایسی چالا کیاں کب چل سکتی تھیں ۔ وہا ںتو جس طرح چھرہ پیش نظر ہوتا ہے دل پیش ہوتے تھے حضرتؐ کے اس موقع میں ہنس کر استغفار کرنے کیلئے فرما نے کا جو اثر فضالہ ؓ کے دل پر ہوا ہوگا ۔ اس کو ا نہیں کا دل جانتا تھا۔ مگر اس شقاوت کو حضرت ؐ نے اپنا دست شفقت پھیر کر دور کردیا ۔ او راس قدر اثر ہوا کہ حضرتؐ سے زیادہ وہ کسی کو اپنا محبوب نہیں سمجھتے تھے ۔ جب ایسے لوگوں کے ساتھ جو قتل کی تاک میں رہتے تھے حضرتؐ کی یہ شفقت ہوتو خیال کیا جاے کہ محبان صادق پرکیسی عنایتیں مبذول ہونگی ۔
دوستاں راکجا کنی محروم تو کہ بادشمناں نظر داری
غرض کہ دست مبارک کا ان میں یہ اثر ہوا کہ صرف ایمان ہی نہیں بلکہ کامل طورپر آپ کی محبت ان کے دل میں جا گزیں ہوئی جس سے پر طرح کے مراتب عالیہ کے مستحق ہوئے ۔
{دست مبارک کے اثر سے اسلام لا نا }
سیرۃ النبویہ ص( ۱۴۵) میں راویت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز کعبتہ اللہ سے نکل کر مسجد حرام میں معہ صحابہ ؓ تشریف فرما تھے۔ ابوبکر ؓ اٹھے اور جاکر اپنے والدابو قحافہ کا ہاتھ پکڑ کر حضرتؐ کی خدمت میں لائے کیونکہ وہ بہت بوڑھے اور نا بینا ہوگئے تھے ۔ حضرتؐ نے ان کو فرمایا کہ ان کو گھر ہی میںکیوں نہ رہنے دیا ۔ میں خود ان کے پاس جاتا ابوبکرؓ نے عرض کی یارسول اللہ ان کو حضوری خدمت کا شرف حاصل کرنے کی ضرورت تھی اس کے بعد ابوبکر ؓ نے اپنے باپ کو حضرتؐ کے روبرو بٹھا یا ۔ اور حضرتؐ نے ان کے سینے پر اپنادست مبارک پھیر کر فرمایا کہ اسلم تسلم یعنی اسلام لائو تو سلامت رہو گے ۔چنانچہ وہ اسلام لاے ۔حضرتؐ نے ابوبکر ؓ کو اس کی مبارک باد کی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو نبی بنایا ۔اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے زیادہ تر ابوطالب کے اسلام سے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ۔کیونکہ ابو طالب کے اسلام لانے کی زیادہ تر آپ کو خواہش تھی انتہیٰ ۔
یہ دست مبارک کی تا ثیر تھی جس سے وہ فوراً مسلمان ہوگئے ورنہ ابتدا ے نبوت سے جس کو تخیمناًبیس سال سے زیادہ عرصہ گذر ا تھا ۔ وہ اس دولت سے محروم تھے ۔ اور قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدرآدمی زیادہ بوڑھا ہو تا ہے۔ اس میں سخن شنوی کا مادہ کم ہوتا ہے ۔غر ض کہ دست مبارک کے اثر سے ان کو دولت ابدی حاصل ہوئی ۔جس کی خوشی میں حضرتؐ نے صدیق اکبرؓ کو مبارک باد دی ۔فی الحقیقت صدیق اکبرؓ کو اس سے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ پہلے تو ان کے والد کو سعادت ابدی حاصل ہوئی دوسرے وہ عیب جا تا رہا جو باپ کے کافر ہونے سے لگتا ہے ۔چنانچہ مروی ہے کہ عکرمہ ؓ نے حضرتؐ کے روبرو شکایت کی کہ لوگ مجھے عکرمہ ابن ابی جھل کہتے ہیں حضرتؐ نے اس سے لوگوں کو منع فرمادیا اس سے ظاہر ہے کہ باپ کے کفر وغیرہ کا اثر اولاد کے دل پرپڑتا ہے غرضکہ ا س عار کے دفع ہونے سے ابوبکر ؓ کو بہت خوشی ہوئی جس کی مبارکباد حضرتؐ نے دی ۔مگر انہوں نے جواب میںعرض کیا کہ ابو طالب اگر ایمان لا تے تو مجھے اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ۔کیونکہ حضرتؐ کی ذاتی خوشی اس میں متصور تھی ۔ اس سے صدیق اکبرؓ کی محبت کا حال معلوم ہو تا ہے کہ بالذات فرحت پربالغرض فرحت کو تفوق دیا ۔یہ کمالِ ایمان کا مقتضیٰ تھا ۔ کہ جس بات میں حضرتؐ کی خوشی ہو اپنی خوشی، اور جس بات سے حضرت ؐ کو رنج ہو اپنے کو رنج ، اور جس پر حضرت ؐ کو غصہ ہو اپنا غصہ ،خواہ وہ بیٹا ہو یا باپ ۔جب تک یہ بات مسلمان میں رہی اسلام کا غلبہ رہا اور جب سے یہ بات کم ہوتی گئی ۔ اسلام میں ضُعف آتا گیا ۔اور اب تو یہ نوبت پہنچ گئی ہے کہ تقریباً وہ صفت ہی مفقود ہے ۔احا دیث سے ظاہر ہے کہ کن امور کو حضرتؐ پسند فرما تے تھے ، اورکن امور سے نفرت تھی ، او رکن صفات کے لوگوں سے دشمنی یا دوستی تھی ،بہت سے کم لوگ یہ سب جانتے ہیں مگر دیکھا جا تا ہے کہ جس کامیں اپنا نفع دیکھا وہ کر لیا ۔ خواہ وہ کیسا ہی مغبوض خدا و رسول کیو ںنہ ہو ۔ اورجس سے کوئی دنیوں کام نکلنے کی امید ہو اس کے ساتھ خا ص تعلق او رمیل جول پیدا کر لیا اور اس کی کچھ پر نہیں کہ حضرت ؐ نے ان کسے احتراز کرنے کے کئے کیسی کیسی تاکید یں کیں ہیں ۔
{ایک مشت خاک سے لشکر کو بھگا دینا }
سیرۃ النبویہ میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا تو ہوا زن جو ایک بہت بڑا قبیلہ فنون جنگ میں نہایت ماہراور تیراندازی میں مشہور تھا ۔ حضرت ؐ سے جنگ کرنے پر آدمادہ ہوا اور تیس ہزار (۰۰۰۔۳۰)کا لشکر فراہم کر کے با رادہ ٔجنگ پیش قدمی کی ۔حضرت ؐ بھی بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوے جب دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا اورہوا زن کے تیر متصل پڑنے لگے مسلمانوں کے پیراُکھڑ گئے اور لشکر اسلام کو ہزیمت ہوئی۔حضرت ؐ کے ساتھ صرف چند صحابہ ٔ کبار تخمیناً سو آدمی رہ گئے اس وست حضرتؐ نے ابن مسعود ؓ سے فرما یا کہ زمین سے تھوڑی مٹی اٹھا دیں ایہ سنتے ہی مادہ خچر جس پر حضرت ؐ سوار تھے اس قدر جھک گئی کہ ا س کاپیٹ زمین سے قریب ہوگیا ۔اور حضرتؐ نیایک مٹھی مٹی کنکر زمین سے اٹھاکر کافروں کی طرف پھینک مارا اس مٹھی کنکر میں اس قدر برکت ہوئی کہ تمام لشکر کفار کے آنکھوں میںپڑی جو لوگ اس واقعہ میں شریک تھے ان کا بیان ہے کہ اس مٹی سے ہم سب کی آنکھیں اور منہ بھر گئے تھے ۔ او رہمارے سینوں میں رعب کی ایک عجیب کیفیت پیداہوگئی ۔غرض کہ ا ن کو ہزیمت ہوئی اور جن اہل اسلام کے پیراُکھڑ گئے تھے انہوںنے پلٹ کر ان کا تعاقب کیا اور مال کثر غنیمت میں ملا ۔اہل اسلام سے اس وقت اس جنگ میں صرف چار آدمی شہید ہوے ۔ اور کفار کے تین سو سے زیادہ مارے گئے۔ اور بہت سے قید کئے گئے ۔ اور چھ ہزار عور تیں چوبیس ہزار اونٹ اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں اور چار ہزار وقیہ چاندی اور بہت سارے بیل گاے وغیرہ غنیمت میں ملے ۔اوراس جنگ کے بعد بہت سے کفار مکہ وغیرہ مشرف با سلام ہوتے گئے ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے ایک مشت خاک سے تیس ہزار آدمیوں کے آنکھوں اورمنہ کو بھر دینا اور سب کے دل میں رعب پیدا کر کے ہزیمت دینا کیسی بات ہے کیا کسی فرد بشر سے یہ کام ہوسکتا ہے ہر گز نہیں ۔ ہر چند حضرتؐ کے ساتھ بھی لشکر کثیر تھا ۔یعنی بارہ ہزار کالشکر جرار تھا ۔جس سے صحابہ ؓکو یہ خیال پیداہوگیا تھا کہ اس کثرت پر ہم کبھی مغلوب نہیں ہوسکتے ۔چنانچہ خدا ے تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس کی خبر دی ہے قولہ تعالیٰ ویوم حنین ادا عجبتم کثرتکم مگراس لشکر کثیر کو فتح میں کسی قسم کا دخل نہ تھا ۔ فتح توا سی مشت خاک سے وابستہ تھی جس نے بہمراہی قوت بازوے ے نبویؐ لشکر کفار میں جا کر سب کی آنکھیں اور منہ کو بھر دیا اور دل میں رعب ڈال دیا ۔ ہاں اسلامی لشکر نے اتنا تو کیا کہ بعد فتح مال غنیمت بہت ساجمع کر لیا ۔
با وجود کثرت کے صحابہ ؓ کو جو ہزیمت ہوئی اس کاسبب سواے ا س کے او رکچھ نہیں معلوم ہوتا ۔کہ اس وقت صحابہؓ کے خیال میں یہ بات تھی کہ لشکر کثیر صرف اپنے قوت بازو سے فتح کر لے گا ۔ اور آنحضرتؐ کے وجود با وجود کی طرف ان کی نظر نہ تھی حق تعالیٰ کو منظور ہوا کہ ان کو مشاہدہ کر ا دے کہ جتنے فتوحات اور ترقی اسلام ہو رہی ہے وہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توجہ کا اثر ہے ۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشارۃً یہ ثابت فرما دیا کہ ہم ایک مشت خاک سے وہ کام لے سکتے ہیں جو تمہا رے لشکر کثیر سے نہ ہو سکا ۔اگرچہ آنحضرت ؐ نے صرا حتہً کسی پراس موقع میں یہ عتاب نہیں فرمایا کہ تیس ہزار کے مقابلہ اپنے نبی ؐ کو تن تنہا چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی غرض سے بھا گ جانا کس قدر بے حمیتی تھی مگر اشارہً اس مضمون کو ادا فر ما دیا اس میں بڑا راز یہ تھا کہ آنحضرت ؐ کو ان کے اس حرکت سے عالباً غصہ نہ آیا ہوگا ۔کیونکہ غصہ تو جب آئے کے بھاگ جانے کا بُرا اثر کچھ حضرتؐ پر پڑنے کا احتمال ہو ۔وہاں تو یہ اطمینان تھاکہ تیس ہزا تو کیا اگر تمام روے زمین کے کفار مقابل ہو ںتو ایک بال بیکا نہ کر سکیں گے ۔ چنانچہ ابتداے نبوت سے ہر وقت یہی امر پیش نظر رہا کر تا تھا ۔
حضرتؐ کی سواری کے جانور کی وہ حرکت کہ مٹی کی ضرورت کو سنتے ہی زمین سے قریب ہوگیا ۔ کس قدر عبرت خیز ہے ۔اور اس سے یہ امر ثابت ہو رہا ہے کہ حضرتؐ کے فتوحات معمولی نہ تھے جیسے سلاطین کے ہوا کر تے ہیں ۔ بلکہ حیوانات ،نباتات ،جمادات ،آپ کی مددکے لئے مستعد رہا کر تے تھے اسی کو دیکھ لیجئے کہ جب مٹی حضرتؐ کے ہاتھ سے نکلی تو و ہ کافروں کے آنکھوں او رمنہ کو تلاش کر کے وہاں پہنچ جا تی تھی ۔ با وجود یکہ کفار متفرق مقاموں میں پھیلے ہو ئے تھے ۔برابر سب کے آنکھوں اور منہ میں جا نا کیسی عاقلانہ حرکت تھی۔ بات یہ ہے کہ عقل خدا کی مخلوق چیز ہے جہاں چاہے وہاں پیدا کر دے اور جس سے چاہے چھین لے ۔دیکھئے بہت سے عقلا مجنون ہو جا تے ہیں ۔حالانکہ ان کی صورت نوعیۂ انسانی میں کچھ فرق نہیں آتا ۔جب عقلمند کو بے عقل بنا نے پر وہ قادر ہے تو اسی قدرت سے بے عقل کو عاقل بنا دیتا ہے ۔اسی موقع میں دیکھ لیجئے کہ تقریباً بارہ ہزا رجلیل القدر صحابہ ؓ جن جو بلحاظ ایمان کے دیکھا جا ے تو قیامت تک مسلمانوں سے ایمان میں کامل ترنظر آئیں گے ۔ اور عقل کے لحاظ سے اپنے کل اقران و اماثل سے زیادہ تر عاقل تھے جس کی وجہ سے توحید اور رسالت کے قائل ہو گئے ۔مگر صرف ایک خطا جو ان سے سر زد ہو ئی یعنی( غرور)اس سے ان کی عقل چھین لی گئی اور حضرت ؐ کو تن تنہا چھوڑ کر بھا گنے پور مجبور ہوے اور اسوری کے جانور اور مٹی نے وہ عاقلانہ کام کئے جس سے عقلا کی عقلیں حیران ہیں ۔
{جنگ توک میں صرف سات کھجور کثیر مقدر ہوگئے بہت سے صحابہؓ کھانے کے بعد بھی پھر اتنے ہی رہے }
سیرۃ النبویہ ص ( ۱۸۸ )میں عرباض ؓ سے روایت ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ تبوک میں تھے ۔ایک رات آپ نے بلال ؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے عرض کی کہ ہم نے توشہ داونوں کو جھٹک کر خالی کر دیا ۔فرمایا دیکھو شاید کھیں کوئی چیز مل جاے یہ سن کر انہوں نے ایک ایک توشہ دان کو جھٹکنا شروع کیا ۔کسی میں سے ایک کھجور اور کسی میںسے دوکھجور یں گریں ۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھ میں سات کھجو ریں جمع ہو گئیں ۔ آپ نے ایک برتن منگوایا اور اس میں وہ کھجور یں ڈالدیں اور دست مبارک ان پر رکھ کر فرمایا بسم اللہ کھائو تین شخصوں نے ان کھجورں کو کھا یا ۔ میں نے کھجور یں کھائیں ان کے گھٹلیوں کو گنا توچوپن ۵۴ تھیں ۔ جن کو بائیں ہاتھ میں جمع کر رہا تھا اسی طرح اور دو شخصو ں نے بھی سیر ی سے کھا ئیں ۔جب ہم نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ تب بھی برتن میںسات کھجوریں موجود تھیں ۔حضرت ؐ نے ان کواٹھار کہنے کے لے فرمایا پھر دوسرے روز وہی کھجور یں منگوائیں ۔ اور اپنادست مبارک رکھ کر فرمایا ۔ بسم اللہ کھائو ۔ اس وقت ہم دس آدمی تھے ۔ سب نے سیری سے کھائیں اور وہ کم نہ ہوئیں پھر فرمایا کہ اگر مجھے اپنے رب سے شرم نہ ہوتی تو ہم یہی کھجو ر یں مدینہ تک کھا تے اس کے بعد وہ کھجور یں ایک لڑکے کو دے دیں اور وہ کھا تا ہوا چلا گیا ۔ انتہیٰ ۔
{مقام عبودیت }
اس حدیث شریف سے ظاہر ہے کہ حضرت ؐ کا فقراختیاری تھا ۔کیونکہ اقتدار میں یہ بات تھی کہ ان سات کھجور وں میں جتنی چاہتے برکت دیتے۔مگر خدا ے تعالیٰ سے شرم کر کے ان کھجو روں کو خرچ فرما دیا ۔اور اسی بے توشگی اور بے سر وسا مائی کو ترجیح دی یہ ظاہر ہے کہ ان سات کھجو رں کی کوئی خصوصیت نہ تھی ۔جن کھجوروں پرآپ ہا تھ دے تے اس میں برکت ہو جا تی مگر آپ کو یہ منظور نہ تھا کہ خود ی اور ذاتی تصرف سے اپنا رزق حاصل فرما دیں جس سے بظاہر شان ربو بیت اور رزّاقیت الہی میں کسی قدرکمی ظاہر بینوں کی نظر میں ہونے کا اندیشہ تھا ۔محققین کے نزدیک عبودیت تمام مقامات سے افضل و اکمل ہے اور یہی مقام حضرتؐ کا تھا ۔تو حضرتؐ اس کو کب گوار فر ما تے کہ ظاہر بینوں کو وہ موقع مل سکے ؟
غرض کہ آپ ہمیشہ فقروفاقہ میں خوش رہتے ۔ اور جب تک منجانب اللہ کو ئی تدیبر نہ ہوتی آپ اپنے اختیار و اقتدار کو پنے معاملہ میں صرف نہ کرتے ۔ اسی قسم کی ایک روایت دوسری بھی ہے جو سیرۃ النبو ۃ میں مذکور ہے کہ زیادہ ابن حارث صدائی ؓ کہتے ہیں کہ کسی سفر میں میں حضرت ؐ کے ساتھ تھا اور چونکہ ایک قوی شخص تھا حضرت ؐ سے علحدہ نہیں ہوا ۔ ایک روم صبح کے وقت حضرتؐ نے مجھ سے فرمایا کہ اذان کہو میںنے اپنی سواری ہی پر بیٹھ کر اذان کہدی او رہم چلتے رہے ۔ یہا ں تک کہ ایک جگہ ٹھیرے۔ اور حضرتؐ حاجت کو جا ر واپس تشریف لا ے اور فرمایا کہ تمہارے پا س کچھ پا نی ہے ؟ میںنے عرض کی کہ ڈولچی میں ہے مگر وضو کے لئے کافی نہ ہوگا ۔ فرما یا کہ وہی لائو ۔جب میں لا یا تو فرمایا ایک بڑے پیالے میںاسے ڈالدو ۔چنانچہ میں نے لا کر پیالے میں لا کر ڈالدیا ۔حضرتؐ نے اس میں ہاتھ رکھا میں دیکھ رہا تھا کہ حصرتؐ کے ہر دو انگلیوں کے بیچ میں سے پانی کا چشمہ جا ری تھا پھر حضرتؐ نے مجھ سے فرما یا کہ اگر خدا ے تعالیٰ سے مجھے شرم نہ ہوتی تو اسی طرح ہمیشہ ہم پانی پیتے پلاتے رہتے پھر آپ نے وضو فرما یا اور حکم دیا کہ پکا ردو۔ جس کو وضو کی حاجت ہو اس پانی سے وضو کر لیں۔ چنانچہ سب لوگ وضو سے فارغ ہوے اور بلال ؓ آے اور چاہتے تھے کہ اقامت کہیں ۔ حضرتؐ نے فرمایا کہ صدائی ؓ نے اذان کہی ہے اور جو اذان کہے اقامت بھی اسی کو کہنا چاہئے ۔پھر حضرت ؐ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی انتہیٰ ملحضاً ۔
اس حدیث شریف سے بھی یہی ظاہر ہے کہ حضرت ؐ کے اقتدار میں یہ بات تھی کہ جب چاہیں لشکر کو پانی پلا دیں ۔مگر حیا دا منگیر تھی کہ یہ کام خاص خدا ے تعالیٰ کا ہے اس میں دخل دینا کہیں خلاف مرضی نہ ہو ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر حضرتؐ اپنا اقتدار صرف کر کے ضرورت کے وقت کھلا تے اورپلاتے اور خد اے تعالیٰ کی طرف سے کوئی عتاب نہ ہوتا ورنہ حضرتؐ یہ فرما دیتے کہ اگر میں ایسا کرو ںتو مجھے عتاب الٰہی کا اندیشہ ہے بجائے ا سکے فرما یا کہ ان کاموں کے کرنے ے حیا مانع ہے منشاء اس کا یہی ہو تا ہے کہ خدا ے تعالیٰ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق تمام کام انجام دیا کر تا تھا ۔ با وجود اس کے اپنے اقتدار سے ایسے امور کو وجود میں لاناجن کا متکفل خود خدا ے تعالیٰ ہے کسی قدر خلاف شان نبویؐ تھا ۔ خداجا نے اوراس کے سوا کیا کیا امور باعث حیا تھے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحق تعالیٰ کے باہمی خصوصیات میں ممکن نہیں کہ کسی کی عقل راہ پا سکے ۔غرض کہ یہ سب لوازم کمال عبودیت کے تھے جن کا مقتضیٰ یہ ہے کہ کسی قسم کی خود نمائی اور خود سری وجود میں نہ آے ۔
{واقعہ حدیبیہ }
یہی وجہ ہے کہ غزۂحد یبیہ میں ایسے امور حضرتؐ سے ظہور میں آے کہ بظاہر شانِ نبوت اور حضرتؐ کی علوی منزلت کے مناسب نہیںمعلوم ہوتے
چنانچہ مختصراً وہ واقعہ سیرۃالنبویہ وغیرہ کتب سیر سے لکھا جا تا ہے۔وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ اور صحابہ ؓ بیت اللہ میں امن کے ساتھ احرام کھول کر داخل ہوے ۔ اس خواب کے بعد حضرتؐ نے عمرہ کے ارادہ سے مکہ معظمہ کا قصد فرما یا اور دیڑھ ہزار صحابہ ؓ حضرت ؐکے ہمراہ ہوئے۔ جب حدیبیہ کو پہنچے جو مکہ معظمہ سے نومیل پر واقع ہے کفار کو خبر ہوئی انہوں نے بالا تفاق فیصلہ کر لیا کہ حضرتؐ کو مکہ میں ہر گز داخل نہ ہونے دیں گے ۔اور یہ بات حضرتؐ کو کھلا دی حضرتؐ نے فرمایا کہ ہم صرف عمرہ لا نا چاہتے ہیں ۔ہم تم سے کسی قسم کا تعرض نہ کریں گے مگر انہوں نے ایک نہ مانی آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط اشراف قریش کے نام لکھ کر عثمان ؓ کے ہاتھ روانہ فرمایا جس کا مضمون یہ تھا ’’کہ صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کی تعظیم حرمت کے لئے آئے ہیں ‘‘۔اور عثمان ؓ سے فرمایا کہ معکہ معظمہ میں جو غریب ضعیف مسلمان مرد اور عورتیں رہ گئے ہیں ان کو فتح کی خوشخبری سنادیں ۔اور یہ کھدیں کہ قریب میں اسلام مکہ میں ظاہر ہونے والا ہے ،عثمان ؓ دس صحابہ ؓ کو اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوے اور سراداران قریش کو حضرتؐ کا نامہ دے کر حضرت ؐ کا مقصود بیان کیا ۔مگر سب نے یہی کہاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر میں کبھی داخل نہیں ہو سکتے ۔عثمان ؓ کو قریش نے تین روز اپنے پاس روک رکھا ۔ او ریہ خبر مشہور ہوگئی کہ وہ قتل کر دئے گئے جب یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی توفرما یا کہ اب ہم ان کفار سے ضرور جنگ کرینگے اور عمرؓ سے فرمایا کہ لوگوں میں پکار دیں کہ بیعت کے لئے سب آجائیں۔ چنانچہ صحابہؓ نے اس بات پر بیعت کرلی کہ ہم کبھی نہ بھا گیں گے ۔ یا فتح کر لینگے یا شہید ہو جائیںگے جب کفار قریش کو اس آمادگی اور بیعت کی خبر پہنچی تو ان میں کے اہل راے نے مشورت کی کہ اس موقع میں یہ صلح کرلینا مناسب ہے۔کہ اس سال تو حضرتؐ واپس جائیں ۔البتہ سال آئندہ آکر تین روزرہ سکتے ہیں مگر ہتیا روںمیں صرف تلوار ،اور تیروکمان ساتھ لائیں ۔قریش کے جانب سے سہیل ابن عمر آیا ۔آپنے ا س سے فرما یا کہ ہم کو بیت اللہ میں طواف کر نے کے لئے کیوںنہیں جا نے دیتے ؟اس نے کہا کہ ا س وجہ سے کہ عرب میں چرچا ہو جائے گا کہ زبردستی آپ داخل ہوگئے ۔ البتہ سال آئندہ آپ آسکتے ہیں ۔اور اس نے صلح میں شرط لگائی کہ آپ کے پا س ہم میں سے جوکوئی مسلمان ہوکر آوے ا س کو ہمارے پا س واپس کر دینا ۔حصرتؐ نے اس کو قبول فرما لیا عمرؓ نے جب یہ سنا تو جلدی سے ابوبکرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ اے ابوبکر ؓ کیا یہ رسول اللہ نہیں ہیں ؟ کہا کیوں نہیں پھر عمرؓ نے کہا کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ کہا کیوں نہیں پھر عمرؓ نے کہا جب مسلم ہیں تو ہم اپنے دین میں ایسی دناء ت اور ذلت کیوں اختیار کریں ۔ابوبکرؓ نے کہا اے عمرؓ کیا وہ رسول اللہ نہیں ہیں ؟تمہیں معلوم ہے کہ وہ اپنے رب کی نا فرما نی نہیں کرتے اور خدا ان کا مددگارہے تمہیں چاہئے کہ ان کی رکاب ہمیشہ تھامے رہو ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ۔عمر ؓ نے کہا کہ یہ گواہی تو میں بھی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ مگر عمر ؓ کی بے تابی میں کمی نہ ہوئی ۔اور حضرت ؐ کے پاس آکر وہ تمام سوالات کئے جو ابوبکر ؓ سے کئے تھے حضرتؐ نے فرما یا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرونگا اور وہ مجھے ہر گز ضائع نہ کرے گا پھر حضرتؐ نے اوش بن خوالہ ؓ کو بلا کر حکم فرما یا کہ صلح نامہ لکھو سہیل نے کہا کہ صلح نامہ یا تو آپ کے بھا ئی علیؓ لکھیں یا عثمان ابن عفان ؓ اس وقت عثمانؓ مکہ سے واپس آگئے تھے حضرتؐ نے علی کرم اللہ وجہہ سے فرما کہ لکھو ’’بسم للہ الرحمن الرحیم ‘‘ سہیل نے کہا کہ میں رحمان اور رحیم کو نہیں جانتا بسمک اللہم لکھو ۔مسلمانوں نے کہا خدا کی قسم یہ نہ لکھا جاے گا بلکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی لکھنا چاہئے اس وقت مسلمانوں میں ایک جوش پیدہوگیا تھا حضرتؐ نے ان کوتھما یا اور فرمایا کہ خیر بسمک اللہم ہی لکھدو ۔ پھر فرمایا کہ لکھو یہ امور ہیں کہ جس پر محمد رسول اللہ اور سہیل نے صلح کی ہے سہیل نے کہا کہ اگرمیںآپ کے رسول ہونے کو مانتاتو نہ آپ سے لڑتا اور نہ آپ کو بیت اللہ سے روکتا آپ اپنانام اور اپنے والد کانام لکھئے علیؓ آپ کے نام کے ساتھ رسو ل اللہ لکھ چکے تھے سہیل نے کہا کہ لفظ رسول اللہ کو مٹا دو علی ؓ نے کہا کہ وہ اللہ کہ رسول ہیں اگر تم ناک بھی رگڑو گے تب بھی میں اس کو کبھی نہ مٹا ئو ںگا حضرتؐ نے فرمایا کہ مٹا دو۔علیؓ نے عرض کی یہ مجھ سے ہر گزنہ ہوسکے گا۔حضرتؐ نے اپنے ہاتھ سے اس لفظ رسول اللہ کو مٹا دیا ۔حضرت ؐ نے فرما یا لکھو یہ وہ صلح ہے کہ محمد ابن عبدا للہ اور سہیل ابن عمر ونے کی ہے ۔یہ کھکر فرما یا کہ اگر چہ اس نے مجھے جھٹلا یا مگرمیں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور میں محمد ابن عبدا للہ ابن عبدن المطلب بھی ہوں ۔علیؓمارے غصے کہ رونے لگے اور کہاکہ میں تومحمد رسول اللہ ہی لکھوں گا ۔حضرتؐ نے فرمایا محمد ابن عبداللہ لکھو اور تم پر بھی اس قسم کا ایک وقت آنے والا ہے جس میں تم مجبور ہو جائوگے چنانچہ ایسا بھی ہوا کہ علی کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ؓ میں جب صلح ہوئی اور کاتب نے لفظ علی ؓ کے ساتھ امیر المومنین لکھا تو اس لفظ کے لکھنے سے روک دئے گئے ۔ اور کھا گیا کہ اگر امیر المومنین ہونے کو ہم تسلیم کر تے تو جھگڑا ہی کیا تھا ۔لفظ امیر المومنین کو مٹادو چنانچہ مٹا دیا گیا اس وقت علی ؓ نے اس واقعہ کو یا دکیا ۔عرض کی علی ؓ کے ہم زبان اکثر صحابہ ؓ ہوگئے اور ان کاہاتھ پکڑلیا او رکہا کہ رسول اللہ کے سوائے دوسرا لفظ نہ لکھنے دینگے ۔اگر ایسا نہ ہو گا تو ہمارے اور ان کفار کے بیچ میں تلوار ہے اس وقت مسلمانوں میں ایک ہل چل مچ گئی ۔ اور آواز بلند ہوگئے ۔ او رکہنے لگے کہ ہم اپنے دین میں ایسی دلت کوکبھی گوارا نہ کریں گے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انہیں تھما یا ۔ آخر علیؓ نے جب ارشاد محمد ابن عبد اللہ لکھا ۔ا سکے بعدسہیل نے کہا یہ لکھو ہمارے یہاں کا یعنی مشرکین میں کا کوئی شحض اسلام لا کر تمہارے پاس آوے تواس کو واپس کردیں گے اور جوتمہاررا شخص ہمارے یہاں آوے ہم اس کو واپس نہ کریں گے صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا یہ بھی لکھ دیا جائے گا جو حضرت ؐ نے فرمایا کہ ہان ۔اگر ہمارے یہاں سے کوئی ان کے طرف جا وے تو ایسے شحص کو خدا ے تعالیٰ ہم سے دور کر دے اور جو ہمارے پاس آوے او رہم اس کو دے دیں تو خدا ے تعالیٰ اس کے لئے کوئی راستہ نکال ہی دے گا ۔مگر صحابہؓ اس پر بہت اڑے رہے ۔اور سہیل اس پر اڑا رہا کہ جب تک یہ بات نہ لکھی جاے صلح ممکن نہیں حضرتؐ نے جب اس کے لکھنے کا حکم دیا تو کمال تعجب سے اہل اسلام کہنے لگے کہ جو شخص مسلمان ہو کر ہمارے یہاں آوے ہم اس کو کافروں کے ہاتھ میں کیو نکر دیں گے پھر سہیل نے کہا کہ صلح نامہ میں یہ بھی لکھا جاے کہ جب مکہ میں آئینگے تو سواے تلوار کے کوئی ہتیار نہ رکھیں گے ۔ اور اگرکوئی مکہ والا آپ کے ساتھ جانے کا ارادہ کر ے ا س کوساتھ نہ لیجائیں گے اور جو کوئی ہمراہیوں میں سے مکہ میں رہنا چاہے اس منع نہ کریں گے ۔
{ہمارے یہاں سے جوکفر کی طرف جا وے ایسے شخص کو خدا ہم سے دور کرے}
یہ امور ہنوزنہیں لکھے گئے تھے کہ ابو جندل بیڑیاں پھنے ہوے حضرتؐ کی خدمت میں آے یہ وہ شخص ہیںجو پہلے اسلام لاچکے تھے اور ان کے باپ سہیل نے ان کو بیڑیاں پہنا کر قید خانہ میں رکھا تھا جب انہوں نے یہ خبر سنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ صحابہؓ حدیبیہ میں تشریف لا ے ہیں تو کسی حیلہ سے قید خانہ سے نکل کر راستہ سے علحدہ پھا ڑوں میں سے ہوتے ہوے حضرتؐ کے پا س بکمال مسرت آے صحابہ ؐ کو دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اوران سے ملاقات کی ۔سہیل جو ان کاباپ تھا ان کی طرف دوڑا اور نہایت غصے سے ایک خاردار جھاڑ کی ٹھنی توڑی اور اس سے ان کے منہ پر زور سے مارا اور کپڑا گلے میں ڈالکر کھینچ نے لگا اس واقعہ سے تمام مسلمانوں پررقت طاری ہوئی اور رونے لگے سہیل نے کہاکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ پھلا معاملہ ہے حضرتؐ نے فرمایا اب تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا سہیل نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو صلح کی کاروائی موقوف کردیجائے ۔حضرتؐ نے فرما یا کہ اپنے طرف سے ابوجندل کے لے جانے کی مجھے اجازت دے دو اس نے کہا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔پھر حضرتؐ نے نہایت نرمی سے فرما یاکہ اجازت دے دے ۔کہا کہ یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کیونکہ ا س کے آنے سے پہلے آپ میں اور ہم میں یہ شرط طے ہوچکی تھی کہ یہ کہکر ا نکے گلے میں کپڑا ڈالا اور قریش کے حوالے کرنے کے لئے چلا ابو جندل نے دیکھا کہ وہ لے ہی چلا تو نہایت بلند آواز سے چیخا اور فریا د کی اے گروہ مسلماناں میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاتا ہو ں۔ حالانکہ مسلمان ہوکر پناہ کے لئے تم میں آیا تھا کیا تم نہیں جانتے کہ کیسے کسیے عذاب مجھے دئے گئے ؟اور کیسی مصیبتوں میں مجھے مبتلا کیا گیا ؟ اب اگر وہ مجھے لے جائیں گے تو سخت فتنہ میں ڈا لینگے یہ سن کر ان کی حالت دیکھ کر مسلمانوں پر عجیب حالت طاری ہوئی کہ اپنے بھائی کو دیدہ ودانستہ کافروں کے حوالے کیا جا رہا ہے آنحضرت ؐ نے فرمایا اے ابو جندل صبر کرو کیونکہ تمہارے آنے سے پہلے صلح تمام ہو چکی تھی اور میںنے تمہا رے لئے بہت کچھ کہا مگر تمہار اباپ نہیں مانتا خدا ے تعالیٰ تمہارے اور ان ضعفا کے لئے جو مکہ میں کوئی راستہ نکال ہی دے گا ۔ عمر ؓ کو دکرا بوجندل کے بازو میں آگئے اور کہنے لگے اے ابوجندل صبرر کر و وہ لوگ مشرک ہیں اور ان کاخون کرنا ایسا ہے جیسا کہ کتے کو مارڈالنا اورتلوار اس خیال سے ان کے نزدیک لے گئے کہ و اپنے باپ کو مار ڈالیں ۔ اور کہنے لگے کہ ٓادمی اپنے باپ کو مارسکتا ہے اگر ہم اپنے باپوں کو حالت کفر میں پا تے تو ان کوقتل کر ڈالتے ابوجندل نے کہا پھر تم ہی اس کو قتل کیو ں نہیں کر تے عمرؓ نے کہا کہ حضرتؐ نے ہمیں ا س سے منع فرما یا ابوجندل نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر نے کیلئے مجھ سے زیادہ مستحق نہیں ہو ۔غرضکہ ابو جندل کفار قریش کے حوالے کر دئے گئے ۔ اس سے صحابہ ؓ میں نہایت تشویش ہوئی اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خواب مکہ معظمہ میں داخل ہونے اور بیت اللہ کے طواف کر نے کا دیکھا تھا اس سے ان کو یقین تھا کہ ضرور طواف کر یں گے بخلاف اس کے صلح یہ ہوئی کہ اس سال واپس جائیں گے اور جو مسلمان ہوکر آویں ان کو مشرکوں کے حوالے کردیں گے اور ایک مسلمان شخص کفار کے حوالہ بھی دیا گیا۔ اس سے تمام صحابہ میں ایک تھلکہ عظیم برپا ہوا اور اکثر یہ حالت ہوئی کہ قریب تھاکہ دین کو خیر یا د کھدیں ۔انتہیٰ ملحـضاً ۔
اب غور کیجئے کہ یہ کیسا مصیبت خیز و قعہ تھا کہ مسلمان کتنا ہی ضعیف الایمان ہو اس کے سننے سے پیچ و تا ب کہا تا ہے ۔ تو خیال کیجئے کہ صحابہؓ جن کی ذاتی اور اسلامی او رغیرتوں نے ان کو بزدلی اور کم ہمتی کے مارے ہمیشہ محفوظ رکھا ۔اور بڑی بڑی سلطنوں کو مقابلہ کے وقت پنچا دکھا دیا ۔ان کی کیا حالت ہوگی کہ ادنیٰ قریش کے مقابلے میں اس قدر مجبور ہیں کہ وہ جو چاہتے ہیں لکھوا لیتے ہیں۔اور طواف خانہ ٔ کعبہ کے واسطے مزاحمتیں ہورہی ہیں یہی لوگ تھے جو لکوکھا جرا فوجوں کو ہزیمت دے کر ایران ،و شام ، اور آیقہ پر قبضہ کیا حالانکہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے بلکہ صرف حضرتؐ کا نام مبارک تھا ۔ اور یہاں تو خود خضرتؐ بہ نفس نفیس تشریف رکھ تے تھے جن کے قبضہ قدرت میں تمام روے زمین تھا ۔اگر پھا ڑوں کو فرما دیتے تووہ ان کوکچل ڈالتے زمین کو حکم دیتے تو ان کو نگل جا تی مگراس مقام پرحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ ایسی حالت ہے کہ ایک مسلمان کو کافروں سے لینا چاہتے ہیں ۔مگر وہ نہیں دیا جا تا اور دیڑھ ہزار مسلمانوں کے جرّا رلشکر میں سے چند کفار اس بزرگ کو کمال ذلت وخواری سے کھینچ تے لے جا رہے ہیں مگر کوئی دم مار نہیں سکتا۔حصرت ؐ کے نام مبارک سے لفظ رسول اللہ کو مٹا نے پراصرار ہورہا ہے ۔او رکوئی صحابی اس پر راضی نہیں مگر کفارہی کی چل گئی ۔
غرض کہ جتنی خواہشیں ادھر کی جانب سے ہوئیں ۔کا فروں نے ایک کو بھی منظور نہ کیا ۔ اور انہوںنے اپنی مرضی کے مطابق جو چاہا لکھوا چھوڑا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے با وجود ا سکے کہ کمال درجہ کے غیور تھے مگر اس موقع میں کچھ بھی نہ کیا ۔یہ ایک قسم کا امتحان تھا اور خدا ے تعالیٰ کے جانب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تا دیب مقصود تھی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اذبنی ربی فا حسن تا دیبیی ۔یعنی خدا ے تعالیٰ نے مجھے ادب سکھا یا اور عمدہ طورپر تادیب کی ۔دیکھئے پہلے خواب دکھا یا گیا کہ حضرت ؐ طواف کعبہ کر ینگے اس پر سفر فرمایا گیا ۔ اور ایسے واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں فتنہ پیداہوگیا۔ اور بظاہر ایسے اسباب قائم ہوئے کہ حضرت ؐ کی نفس نبوت میں شیطان کو شک ڈالنے کا موقع حاصل ہوا ۔ چنانچہ رز قانی شرح مواہب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس واقعہ سے میرے دل میں ایک امر عظیم پیدا ہوا۔ اورحضرتؐ سے میںنے ایسے سوال وجواب کئے کہ ویسے کبھی نہیں کئے تھے ۔کھلے لفظوں میں اس کا مضمون یہی ہوگا کہ اس واقعہ سے ان کو حضرتؐ کی نبوت میں بظاہر شک پیدا ہو گیاتھا۔ جب عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی کا یہ حال ہوتواوروں کا کیا حال ہوگا ۔مگر صحابہؓ چونکہ سعید ازلی تھے ایسے واقعات سے ان کے ایمان میں تذ بذب نہیں آسکتا تھا ۔ اس لئے تھوڑی دیر کے بعد سب راضی برعنا ہوگئے۔ اور اس بات کو مان گئے کہ دینی معاملات میں خود سری اور ننگ وعارکو ئی چیز نہیں خدا ورسول جس بات کو پسند کریں اسی کی اطاعت کی ضرورت ہے خواہ وہ نفس کے موافق ہویا مخالف اور خواہ اس میں ذلت ہو یا عزت ۔
سیرۃالنبویہ میں لکھا ہے کہ صلح حدیبیہ کے معا ملہ میں کل صحابہ ؓ عمر ؓ کی رائے پر تھے ۔مگر ابوبکرؓ نے ان کی موافقت نہیں کی ۔اس سے ظاہر ہے کہ ابو بکر ؓ کو اس باب میں بھی سب صحابہ پر تفوق تھا ۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مرضی کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔ گو اس میں کیسی ہی مصلحت ہو۔ دوسرے صحابہ ؓ بھی اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مرضی کا م کرنے اور راے قائم کر نے کو بہت بر سمجھ تے تھے ۔ مگر حمیت اسلامی کے موقع میں کبھی حضرتؐ کے خلاف مرضی بھی لیا کر تے تھے ۔اگر چہ اس کا منشاء صرف خیر خوا ہی اسلام ہوتا اور دربا طن اس میں رضاجوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملحوظ رہتی تھی مگر وہ بھی مستحن نہیں سمجھی جا تی تھی ۔چنانچہ سیرۃ النبویہ میں عمر ؓ سے روایت نقل کی گئی ہے ۔آپ فرما تے ہیں کہ دین کے معاملہ میں اپنی راے کو متہم سمجھا کرو ۔میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کو اپنی راے سے حدیبیہ کے روز رد کرنے لگا ۔اورحق کے ظاہر کرنے میں کچھ کوتا ہی نہیں کی ہر چند حضرتؐ راضی ہوگئے مگرمیں انکار کر تا رہا یہاںتک کہ حضرتؐ نے فرما یا کہ اے عمر ؓ تم دیکھتے ہو کہ میں راضی ہو گیا اورتم انکار ہی کئے جا تے ہو ۔غرض کہ اس سے ایک عتاب کی صورت نمایاں ہے اسی وجہ سے عمر ؓ کہتے ہیں کہ اس بے ادبی کے مکافات میں جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس روز گفتگو کی تھی کسی غلام آزاد کئے اور ایک زمانہ تک روزہ کھا اور ہمیشہ صدقہ دیا کر تا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اور لونڈیو ںاور غلام آزاد کیا کرتا ہوں ۔دیکھئے عمرؓ کااس روز حضرتؐ سے کچھ گفتگو کرنا نہ بد نیتی سے تھا اور نہ خود غرضی سے بلکہ جوش مذہبی میں کسی قدر نا ملائم گفتگو ہوگئی اور یہ بعینہ ایسی تھی کہ جو اسلام لانے کے دن انہوں نے کی تھی ۔
چنانچہ کنز العمال میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرؓ سے پوچھا کہ آپ کانام فاروق کس وجہ سے ہوا ۔ فرما یا کہ جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کوگیا اوردروازہ کھٹکٹا یا تو حضرتؐ باہر تشریف فرما ہوے اور میرے کپڑوں کو پکڑ کر ایسا کھینچا کہ میں اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا پھر فرمایا کہ اے عمرؓ کیا با ز نہیں آتا ؟ یہ سن کرمیں نے کلمہ شہا دت پڑھا ۔ اور جتنے صحابہ ؓ اس وقت وہا ںتھے اس زورسے تکبیر کہے کہ مسجد حرام والے لوگوںنے سن لیا اس وقت میں نے عرض کی یا رسول اللہ ہم خواہ مریں یا زندہ رہیں کیا حق پر نہیں ہیں فرمایا کیوں نہیں اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم حق پر ہو خواہ مرو یا زندہ ہو میںنے عرض کی پھر چہپنے کی کیا ضرورت ۔قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے باہر تشریف لے چلیں ۔چنانچہ وہ دو صفیں کئے ہوے حضرتؐ کے ہمراہ نکلے ایک صف میں حمزہ ؓتھے اور دوسری میں میں اور ہم نہایت جوش و خروش سے چلے۔یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہو ے جب کفار نے مجھے اور حمزہ ؓ کو دیکھا تو ان پرایسی مصیبت ٹوٹ پڑی کہ ویسی کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھا ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے یہاں بھی عمر ؓ نے کہا تھا کہ السنا علی الحق ان متنا وان حیینا ۔اسی طریقہ پر بحسب اقتضاے طبع حدیبیہ میں بھی اسی قسم کے الفاظ کہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جوش اسلام کو جانتے تھے اور اسی قسم کے الفاظ اور حرکات پرفاروق کا خطاب عطا فرما یا تھا ۔تویہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے خیر خواہ اسلام کی نسبت کبیدہ خاطر ہوے ہوں۔ البتہ مصلحت وقت کے لحاظ سے ان کی اصلاح کی ضرورت تھی جو چند مختصر الفاظ سے کردی ۔کہ جب راضی ہوگیا تو تم کیوں راضی نہیں ہوتے اور یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا اس کے بعد یہ آیۂ شریفہ نا زل ہوئی لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجر ۃ فعلم مافی قلوبہم فانزل السکینۃ علیہم فاثابہم فتحاً قریبا ومغانم کثیرۃ یا خذ و نہا یعنی یقیناً خدا ے تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہو اجس وقت وہ درخت کے تلے آپ سے بیعت کر تھے۔ پھر جان لیا جو ان کے دل میں تھا پس نازل کیا ان پر سکینہ اور بدلے میں اس کے بہت قریب ایک فتح اور بہت سی عنیمتیں ان کو دیں انتہیٰ ملحضاً ۔
اس آیۂ شریفہ میں جو بیعت مذکور ہے وہی بیعت ہے جو درخت کے تلے حدیبیہ میں ہوئی تھی ۔ اسی کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں ۔اس سے ظاہر ہے کہ جتنے صحابہ ؓ حدیبیہ کے دن بیعت میںشریک تھے سب سے خدا ے تعالیٰ راضی ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر چہ عمر ؓ اور تقریباً کل صحابہؓ کو اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کی بد گمانی پیداہوگئی تھی ۔مگر اس کے بعد ان کو طمانیت و تسکین ہوگئی جس کی خبر خدا ے تعالیٰ اس آیۂ شریفہ میں دیتا ہے۔فعلم ما فی قلوبہم فانزل السکینۃ علیہم الخ یعنی جو بات ان لوگوں کے دل میں پیدا ہو گئی تھی ا س کو خدا ے تعالیٰ نے جا ن لیا اوران کے دل پر سکینہ یعنی تسکین اور طما نیت نازل فرما دی اور اس کا بدلہ یہ کیا کہ قریب میں بہت سی غنیمتیں ان کو دیں ۔ تفسیر کبیر میں اس مقام میں اعتراض کیا ہے جس کی عبارت یہ ہے ثم قال تعالیٰ نعلم ما فی قلوبہم والفاء التعقیب و علم اللہ قبل الرضیٰ لا نہ علم ما فی قلوبہم من الصدق ورضی عنہم فکیف یفہم التعقیب فی علم اللہ قبل الرضیٰ ۔ اور جواب میں کسی قدر تطویل کے بعدلکھا ہے ۔ فعلم ما فی قلو بہم اشا رۃ الی ان الرضیٰ لم یکن عند المبا یعۃ فحب بل عند المبا یعۃ اللتی کان معہا علم اللہ بصدقہم و الفاء فی قولہ فانزل السکیۃ علیہم اللتعقیب الذی ذکرتہ۔ فانہ تعالیٰ رضی عنہم وانزل السکینۃ علیہم وھذا توفیق لا یتاتی الآلمن ھذا ہ اللہ تعالی الا معانی کتا بہ الکریم ۔ اس کا ماحصل یہ ہے کہ فعلم کا عطف یبا لیعو نک پرہے جس کی تصریح تفسیر ابو مسعود میں کی ہے اور ما فی قلوبہم کے معنی صدق کے لئے یعنی علم الٰہی ان کے صدق سے متعلق ہوا ۔ ان کے بعد سکینہ ان پرنازل کیا مگر جب ہم واقعہ حدیبیہ پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف طورپر معلوم ہوتا ہے کہ بیعت کے وقت صحابہ ؓ کو پورے طورپر صدق اور خلوص تھا ۔مگر اس کے بعد صلح ہوئی تو صحابہؓ کے دل میں ایک نا گفتہ یہ کیفیت پیدا ہوئی جس کا حال ابھی معلوم ہوا ۔ اس کے بعد بفضل الٰہی وہ حالت ان کے دلوں کی جاتی رہی ۔اور وہی تسکین و اطمینان و قبل صلح تھا اس نے عود کیا اس صو رت میں فعل کا عطف رضی پر ہو گا ۔اور آیۂ شریفہ کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا ے تعالیٰ ان مسلمانوں سے جنہوں نے زیر درخت آپ سے بیعت کی راضی ہوا ۔پھر ان کے دلو ںمیں نا گفتہ بہ کیفیت پیدا ہوئی اس کو جان لیا ۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کے دلوں میں سکون اور اطمیانی حالت پیدا کردی ۔ اس صورت میں جو سیاق و سباق کے ساتھ مناسبت ہے اور سکینہ کی ضرورت ثابت ہوتی ہے وہ اہل انصاف پر پوشیدہ نہ ہوگی ۔ عرض کہ ا س نص قطعی ہے عمر ؓ اور دیگر صحابہؓ کو باشارت دی گئی ۔ اور جو خیالات فاسد ہ ان کے دلوں میں پیدا ہوگئے تھے ۔ خداے تعالیٰ نے ان کو دفع کر کے ان کو اطمینانی کیفیت عطا فرما ئی اور خدا ے تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا ! ا سکے بعد ان کو اس لغزش سے کوئی خطر باقی نہ رہا ۔حق تعالیٰ جو ارشاد فرما یا ہے ۔وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملو الصلحت یستخلفہم فی الارض ۔یعنی وعدہ کیا اللہ نے ان لوگوں سے جوتم میں سے ایمان لاے اور اچھے کام کئے کہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا ے گا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ عمرؓ کا ایمان اور ان کے نیک کام قبول ہوے ۔اور وہ خلیفہ بنا ے گئے ۔ کیونکہ ان کی خلافت تمام ملک اور عجم اورشام اورافریقہ میں مسلم ہو چکی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ باوجود ان تمام بشا رتوں اور مقبولیت کے اور با وجود اس کے کہ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے راضی رہے ۔ کیا وجہ تھی کہ آپ کو اس کا خیال لگا رہتا تھا۔ چنانچہ فرما تے ہیں اس گستاخی کے معا وضہ میں جو حدیبیہ میں کی تھی بہت سے روزرکھے ،نمازیں پڑھیں، بردے آزدا کئے ،اور اب تک ہمیشہ نماز پڑھتا ہوں ۔روزے رکھتاہوں ، غلام اور لونڈیا ں آزاد کر تا ہوں ۔ اور صدقہ دیتا ہوں ۔حضرت عمر ؓ کا یہ خوف کہ رہ رہ کر ایک قسم کے کفارہ پر آپ کو آما دہ کر تا تھا اس بات پر قطعی قرینہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ادنیٰ درجہ کی گستاخی کو وہ بڑے سے بڑا گنا ہ سمجھتے تھے ۔کیونکہ با وجود اعلیٰ درجہ کی بشا رتوں کے اس کا خیال جا تا نہ تھا جس کی وجہ سے کسی نہ کسی قسم کا کفار ہ ہر وقت وہ دے دیا کر تے تھے بخلاف دوسرے گنا ہوں کے جن کے لئے کوئی ایک کفار ہ یا توبہ کا فی ہو جا تا ہے طرفہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کو بھی وہ کافی خیال نہیں کر تے تھے بلکہ حضرت ؐ سے اس کو معا فی قصور کا پورا اطمینان تھا ۔اگر اس واقعہ کے بعد حضرتؐ کے عتاب و نا را ضی کے کچھ بھی آثار نمایا ں ہوتے تو فوراً معذرت کر کے راضی کر لیتے ۔ مگر کسی روایت سے یہ نہیںمعلوم ہوتاکہ حضرتؐ نے ملال ظاہر فرمایا ۔یا آثار ِ ملال ہوے ۔اور عمرؓ نے معذرت کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ گستاخی محبوب رب العالمین کی خدمت میں ہوئی ۔اگر آپ معاف بھی کردی تو معلوم نہیں کہ خدا ے تعالیٰ معا ف کر ے گا یا نہیں ۔کیونکہ محبت کا قانون ہی جدا ہے ۔
اگر خدا ے تعالیٰ یہ فرما دے کہ تم نے ہمارے حبیب کی خدمت میں یہ گستا خی کی تھی تواس کا کوئی جوا ب نہیں ہوسکتا ۔ غرض کہ ہمیشہ اس گستاخی کا خیال رکھنا او راس کے کفار ے ادا کیا کرنا اس امر پر دلیل بین ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت ان کی نظروں میں بے حد و نہایت تھی۔ کیونکہ کسی گناہ کا ان کو اس قدر خیال نہ تھا جتنا اس گستاخی کا خال و ملال تھا ۔آپ معصوم نہ تھے ۔ ممکن ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق گنا ہ کر تے ہوں ۔ مگر ان کا بھی ذکر نہ کیا اب غورکیجئے کہ جب ایسے جلیل القدر صحابی ایک ادنیٰ گستاخی کو اس درجہ کا گناہ قرارا دے رہے ہیں کہ عمر بھر اس کے کفار ے ادا کر تے رہے تو بتائے کہ آخری زمانے کی مسلمانوں کی گستا خیاں جن کے سننے کی تاب کوئی مسلمان نہیں نہیں لاسکتا ۔خدا ے تعالیٰ کے نزدیک وہ کیسا رنگ لائیگی ۔خدا ے تعالیٰ ہم مسلمانوں کو توفیقِ ادب عطا فرما دے ۔
الحاصل عمر ؓ پر اس وقت غیرت و حمیت اسلامی کا غلبہ تھا جس سے یہ حرکت صادر ہوئی مگر ابوبکر صدیق ؓ کچھ ایسے مھذب تھے اور اپنے آپ کو حضرت کی محبت میں فنا کر دیا تھا کہ نہ غیرت و حمیت سے انہیں سرور کا ر تھا نہ ننگ دعار سے تعلق ہمہ تن تا بع مرضی ِ مبارک تھے ۔ انہی وجوہ سے اہل سنت والجماعت نے آپ کو تمام صحابہ سے افضل تسلیم کر لیا ہے ۔واقعہ ٔ حدیبیہ اسی کی تعلیم کر تا ہے کہ دینی کاموں میں مسلمان اپنی حمیت ،غیریت ،ننگ ، وعار کو بالاے طاق رکھ کر صرف خدا و رسول کی رضاجوئی میں مصروف رہے ۔ دیکھئے جو جو واقعات اس موقع میں پیش آئے سب کی نسبت حضرتؐ نے ایک ہی بات فرما دی کہ میں خدا کا بندہ ہوں یعنی حمیت ،غیرت ،اور نفسانیت سے مجھے کوئی تعلق نہیں ۔اور حدیث شریف میں ہے کہ کامل مسلمان وہی ہے جس کے نزدیک مدح وذم ایک ہو جاے یعنی نہ ندمت کے لحاظ سے برے کاموں کو چھوڑ ے نہ تعریف کے لحاظ سے اچھے کامو ں کو اختیار کر ے ۔بلکہ جو کچھ کرے اللہ کے واسطے کرے ۔چونکہ عرب کے نفوس میں حمیت اور تعلی کا مادہ بہت کچھ تھا ۔ چنانچہ ہرسال مختلف مقامات میں میلے ہوتے ۔اور وہاں مختلف قبائل کے لوگ جمع ہوتے اور اپنے اپنے قبیلوں کے فضائل میں فخر یہ اشعار پڑھے جا تے تھے ۔اس لئے حق تعالیٰ نے مقام حدیبیہ میں ان کو پوری نفس کشی کرکے ان کو مھّذب بنا دیا ۔اور یہ بات ذہن نشین کردی کہ با وجود یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اقتدا رتا م حاصل تھا مگر آپ حمیت اور تعلی کو ایک طرف رکھ کرعبدیت کام میںلائے ۔اور وہی خدا ے تعالیٰ کو پسند ہوا ۔ چنانچہ تھوڑے عرصے میں وہی کفار جہنوں نے حضرتؐ کو مجبور کیا تھا سر بہ سجود ہوگئے ۔ اور اسلام کا بول بالا ہوا ۔
الحاصل یہ ایک تجربہ ایسا تھا کہ صحابہ ؓ کوہمیشہ کے لئے مھّذب بنا دیا ۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرتؐ نے جو فرمایا کہ اگرکوئی شخص ہم میں سے نکل کر کافر وں میں چلا جاے تو خدا ے تعالیٰ اس کو دور کرے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ مسلمانوں سے علحدہ ہ وکر دوسرے فرقوں میں جا ملتے ہیں ۔ان پر افسوس کر نے کی کوئی ضرورت نہیں ۔بلکہ ایسوں کی نسبت صاف کہہ دینا چاہئے کہ خدا ان کو ہم سے دور کرے ۔ کیونکہ ہما را دین اس بات کا محتاج نہیں کہ نام کے مسلمانوں سے بھیڑ بھاڑ بڑھے ۔جن لوگوں کے ذہن میں دین قومیت کا نام ہے ۔البتہ ان کی غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ تعداد مسلمانوں کی جس قدر بڑھے گی سرکار سے قوری حقوق کے حاصل کرنے میں سہولت ہوگی ۔ایک حدتک ان کی یہ خیال درست ہے مگر دنیوی لحاظ سے دین سے اس کو کوئی تعلق نہیں دین کے لحاظ سے تو ایسے لوگوں کا علحدہ ہوجا نا حسن کم جہاں پا ک کا مصداق ہے کیونکہ ا ن کو یہ حرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمارا دین اور مذہب ان کے دل میں جا گزیں اور متمکن ہوا ہی نہیں ۔ ورنہ غیر مذہب والوں کے شبہات ڈالنے سے جن کو جنبش نہ ہوتی ۔پھر جن کا ایک خیالی مذہب ہوان سے دین و مذہب کو فائدہ ہی کیا ۔اسی لئے حضرتؐ نے فرمایا کہ خدا ایسوں کو ہم سے دور کرے ۔
وفا داری مدرا از بُلبنلاں چشم
کہ ہردم بر گلِ دیگر سر ایند
سیرۃ النبویہ ص ( ۲۰۶ ) میںلکھا ہے کہ جب وفد نجران جس میں ساٹھ سوار تھے ۔ حضرتؐ کی خدمت میں عصر کے وقت آیا آتے ہی نماز پڑھنے لگے صحابہ ؓ نے ان کو منع کرنا چاہا حضرتؐ نے فرما پڑھنے دو ۔پھر ان کو اسلام کی دعوت کی اور قرآن پڑھ کر سنایا ۔انہوںنے کہا ہم تو آپ کے آنے سے پہلے مسلمان تھے حضرتؐ نے فرمایا کہ جھوٹ کہتے ہو ۔ تم میںتین چیزیں ایسی ہیں کہ وہ مانع اسلام ہیں ۔ایک یہ کہ تم صلیب کی عبادت کرتے ہو ،دوسرا گوشت خنزیر کھا تے ہو ،تیسرا یہ کہتے ہوں کہ خدا کو بیٹا ہے۔ایک نے کہا کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں اس لئے خدا ان کا کوئی باپ نہیں ۔دوسرے نے کہا کہ مسیح ہی خدا ہے ۔کیونکہ مُردوں کو زندہ کر تے ، اور غیب کی خبر دیتے ،اور کل بیماریوں کو اچھا کر تے ،اور پرندوں کو زندہ کر تے تھے۔ ایک نے کہا با وجود ان کے فضائل کے آپ ان کویہ گالی کیوں دیتے ہوکہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔حضرتؐ نے فرمایا کہ وہ اللہ کہ بندے تھے ۔اور کلمہ تھے جو مریم میں ڈالا گیاتھا وہ یہ سن کر غصہ میں آگئے او رکہا کہ ہم تم جب ہی راضی ہو ں گے کہ ان کو معبود کہو۔ اور حضرتؐ سے کہا کہ اگر آپ سچے ہوتو ایسا بندہ بتلائیے جو مُردہ کو زندہ ،اور مادر زاد اندھے اور کوڑی کو اچھا کرتا ہو ۔ اور کیچڑسے پر ندے بنا کر اور ان کو پھوک کر اڑا دیتا ہو ۔
{وفد بحرا ن سے مباہلہ }
حضرتؐ یہ سن کر خاموش ہوگئے ۔ اور وحی نازل ہوئی ۔ قولہ تعالیٰ ان مثل عیسی عند اللہ الایہ ۔اور یہ بھی حکم نازل ہوا کہ حضرتؐ مباہلہ کریں ۔چنانچہ حضرتؐ نے ان سے فرما یا کہ خدا ے تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگرتم اسلام نہیں لا تے ہوتو میں تمہارے ساتھ مباہلہ کرو ں ۔یعنی تم بھی اولاد اور عورتوں اور لوگوں کو لے کر میدان میں آئو او رہم بھی اپنے لوگوں کو لے آتے ہیں ۔خدا ے تعالیٰ کی بارگا ہ میں کمالِ عاجزی سے دعا کریں کہ جو فریق جھوٹا ہو اس پرخدا کی لعنت اور پھٹکار پڑے ۔چنانچہ صبح ہوتے ہیں آنحضرت صلی علیہ وسلم امام حسن ؓ و اما حسینؓ و فاطمہ ؓ اورعلیؓ کو لے کر تشریف لا ئے ۔مگر وہ لوگ بہ خوف ہلاک میدان میںنہ آسکے ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
{مردہ کو زندہ کرنا }
دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کے تا ثیرات کیسے کیسے وجود میں آیا کر تے تھے ۔ان کے مقابلے میں اگر حضرتؐ چاہتے توجتنے کامو ںکی انہوں نے درخواست کی ان کا کر دکھانا کوئی بڑی بات نہ تھی ۔سب سے بڑ اکام مُردہ کو زندہ کر نا تھا ۔ سووہ بھی کر بتا یا ۔چنانچہ سیرۃ النبویہ میں دلائل بیہقی وغیرہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ؐ نے ایک شخص کو اسلام کی دعوت کی اس نے کہا اگر آپ میری لڑکی کو زندہ کر دیں تو میںاسلام لا ئونگا ۔آپ نے فرمایا اچھا اس کی قبر بتلائو اس نے بتلائی آپ نے اس لڑکی کانام لے کر پکارا اسن نے لبیک و سعد بیک جواب میں کہا ۔پھر آپ نے اس سے فرما یا کیا تو چاہتی ہے کہ دنیا کی طرف لوٹے کہا کہ خداے تعالیٰ کی قسم میں ہر گز لوٹنا نہیں چاہتی میں نے خدا کو اپنے حق میں اپنے ماں باپ سے بہتر پایا ۔اور آخرت کو دنیا سے بہتر پایا انتہیٰ ۔
خصائص کبریٰ میں کعب ابن مالکؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار جابربن عبداللہ ؓ سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوے دیکھا کہ آپ کا چھرۂ مبارک متغیر ہے ۔ساتھ ہی مکا ن کو لوٹے اور اپنی بی بی سے کہاکہ چھرہ ٔ مبارک میں حضرتؐ کے مجھے تغیرمحسوس ہوا اور میں خیال کر تا ہوں کہ سواے بھوک کے اس کی اور کوئی وجہ نہیں ۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز کھا نے کی ہے خدا کی قسم ہمارے یہاں سوا ے اس بکری کے اور تھوڑے سے گیھوں کے اور کچھ نہیں ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھیں اوربکری کو ذبح کیا ۔اور گیھوں پیس کر روٹی اورسالن پکایا ۔ہم نے ایک بڑے برتن میں چور کر حضرتؐ کی خدمت میں حاضر کیا۔حضرتؐ نے فرمایا کہ تھوڑے تھوڑے لوگوں کو آنے دو ۔چنانچہ ایک ایک جماعت آتی اور سیر ہوکر نکل تی ۔ اور دوسرے لوگ آتے یہاں تک سب نے بہ سیری کھا یا اور برتن میں اسی قدر باقی رہا ۔جولایا گیا تھا حضرتؐ کھانے والوں سے فرما تے کہ گوشت کھائو مگر ہڈیوں کونہ توڑو جب سب فارغ ہو ئے توآپ نے ہڈیوںکو جمع کر کے اپنادست مبارک اس پر رکھا اور کچھ بات کھی جس کو میںنے نہیں سنا اس کے ساتھ ہی بکری کان ہلاتی ہوئی کھڑی ہوگئی ۔ حضرتؐ نے مجھ سے فرمایا کہ لو اپنی بکری جب میں اسے گھر لایا تو میری بی بی نے کھا کہ یہ بکری کیسی ۔انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم یہ وہی بکری ہے جس کو ہم نے ذبح کیا تھا خدا سے دعا کرکے حضرتؐ نے اسے زندہ کر دیا ۔ بی بی نے کہا کہ بیشک وہ اللہ کے رسول ہیں ۔انتہیٰ ۔
اس قسم کی با توں کو وہ لوگ نہیں مانتے جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں مگر خدا ے تعالیٰ کی قدرت پر ایمان نہیں ۔ احیا سے اموات کو اسی وجہ سے وہ خلاف عقل سمجھتے ہیں کہ خلاف عادت ہے ۔ کیونکہ دیکھا جا تا ہے کہ کوئی مر کے جیتا نہیں ۔اگر عادت اور عقل میں وہ فرق کر لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ عقل کو عادت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر کوئی شخص ڈا ڑھی موٹڈ ھنے کی مثلاً عادت کرے تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ ا س کی ڈاڑھی کے بال نمایاں ہوں تو خلاف عقل ہے خلاف عقل تو وہ چیز ہوگی کہ جس کے وجود سے کوئی محال لازم آے ۔مثلاً اجتماع نقیضین کا وجود جس کو عقل با ور نہیں کرسکتی ۔اگر عقل کے لئے یہی حد ٹھرا ئی جاے کہ خلاف عادت چیز کو وہ محال سمجھ لیتی ہے تو وہ عقل ہی کیا ہوئی اس کو وہم کہنا چاہئے ۔بحر حال جن لوگوں نے خلاف عادت کو خلاف عقل سمجھ رکھا تھا وہ اسکے قائل تھے جس کہ خدا بھی چاہے تو مُرد ے کو زندہ نہیں کرسکتا ۔چنانچہ ایسے لوگوں کی خبرخدا ے تعالیٰ نے قرآن میں دی ہے مگر جن لوگو ں کی عقل نے گواہی دی کہ خلاف عادت اور خلاف عقل میں کوئی مناسبت نہیں ۔ انہوں نے مان لیا کہ خداے تعالیٰ مُردے کو زندہ کر نے پرقادر ہے ۔اور قیامت کے ہونے میں ان کو کوئی شبہ نہ رہا ۔ اس کے بعد آخری زمانہ کے مسلمانوں میں پھر وہی خیالات پیداہوئے کہ مُردے کا زندہ ہونا محال ہے ۔اب اگر ان کو قیامت کا انکار ہے توہمیں ان سے کوئی بحث نہیں ۔ چونکہ ہمارا روے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اہل ایمان ہیں ۔ اور اگر قیامت اور احیاء بعدالموت کو سچ سمجھتے ہیں تو ان سے پوچھا جا ئے گا کہ اس قسم کے روایات میں کیوں کلام کیا جا تا ہے ۔آخر یہ زندہ کرنابھی خدا ے تعالیٰ کا کام ہے جو قیامت میں مُردوں کو زندہ کرے گا ۔ کیا یہ بات عقل میں آسکتی ہے جس کو ایک وقت خاص میں زندہ کرنے کی قدرت ہے ۔ وہ دوسرے وقت میںاس کوقدرت نہیں ۔غرض کہ خدا ئے تعالیٰ کی نفس قدر پر اگر پورا ایمان ہو تو عقل یہ ضرور با ور کر ے گی کہ اس کو ہر وقت قدرت حاصل ہے ۔کوئی اس کی قدرت کو مزاحم نہیں کر سکتا ۔ آنحضرت ؐ کا مُردہ کو زندہ کر نا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ آپ محبوب رب العالمین ہیں ۔ آپ کے امتیوں نے مُردوں کو زندہ کیا ہے چنا نچہ
{ایک بڑھیا کا اپنے بیٹے کو زندہ کرنا }
خصائص کبری ٰ ص (۶۶)میںانس ؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرتؐ کے پاس ڈھا لیہ میں تھے ایک عورت ہجرت کر کے آئی اور اس کے ساتھ ایک لڑکا تھا جو بالغ ہو گیا تھا تھوڑے دن نہیں گزرے تھے کہ وہ وبا میں مبتلا ہوا اورکئی روز بیمار رہ کر مر گیا ۔حضرتؐ نے آنکھیں بند کیں اور اس کو تجہیز و تکفین کے لئے حکم فرمایا جب ہم نے اس کو غسل دینا چاہا تو ارشادہوا کہ اس کی ماں کو خبر دو انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کو خبر دی وہ آکرلڑکے کے دونوں پائوں کے بیچ میں بیٹھ گئی اور کھا کہ یا اللہ میں خاص تیری خوشی کے لئے اسلام لائی اور بتوں کو چھوڑ دیا ۔اور رغبت سے تیری طرف ہجرت کی تھی ۔ یا اللہ بت پرستوں میں میری ہنسی مت کرا اور مجھ پرایسی مصیبت نہ ڈال کہ جس کی بر داشت مجھے نہ ہوسکے ۔انس ؓ قسم کہا کر کہتے ہیں کہ یہ کلام ان کاپورا نہ ہوا تھا کہ لڑکے نے پائوں ہلائے اور منہ سے کپڑااٹھا یا ۔ اور اس وقت تک زندہ رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریف کے بعد اس کی ماں کا انتقال ہوا ۔
{ایک انصاری کی ما ں کی دعا سے اس کا بیٹا زندہ ہونا }
اور انسؓ ہی سے یہ بھی اسی میں راویت ہے کہ ایک انصاری کی عیادت کے لئے ہم گئے ۔ ان کی ماں بڑھیا اندھی تھی بہت دیر ہم بیٹھے رہے یہاں تک کہ اسکا انتقال ہو گیا ۔ہم نے اس کی آنکھیں بند کر کے اور منہ پر چادر اڑہا کر اس کے ماں سے کھا کہ صبر کرو ۔اس نے کہا کہ کیا وہ مرگیا ؟ہم نے کہا ہاں مر گیا یہ سنتے ہیں اس نے آسمان کی طرف ہا تھ اٹھاے اور دعا کر نے لگی انس ؓ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں وہ لڑکا اپنے چھرے پر سے کپڑے کو ہٹا کر اٹھ بیٹھا اور کھانا کھایا ۔اورہم لوگوںنے بھی اس کے ساتھ کھایا اس سے ظاہر ہے کہ حضرتؐ کی امت کے بڑھیوں کو یہ کرامت حاصل تھی کہ وہ دعا کر کے مردو ں کو جلا سکتی تھیں ۔
خصائص کبریٰ میں منیر ابن عبید اللہ دوسی سے روایت ہے کہ کہتے ہیں کہ ام شریک کے شوہر جن کا نام ابوالعکر ؓ تھا اسلام لا ئے اور ہجرت کر کے حصرتؐ کے پاس چلے گئے ۔ ام شریک کہتی ہیں کہ میرے شوہر کے قرا بتداء لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ شاید تم بھی ان کے دین پرہونگی میں نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں میں بھی انہیں کے دین پر ہو ں۔ انھوںنے کھا ہم تجھ پر عذاب کریں گے چنانچہ ایک سست اورنٹ پرجو سب اونٹوں سے خراب تھا مجھے بٹھاکر لے چلے اور روٹی او رشہد مجھے کھلا تے اور ایک قطرہ پا نی کا نہیں دیتے تھے ۔ اور جب دو پھر ہوتی اور آفتاب شدت سے گرم ہوتو اوتر پڑتے اور خیمہ لگا کر اس میں داخل ہو جا تے اور مجھے دھوپ میں چھوڑ دیا کرتے۔یہاں تک کہ میری عقل اور سماعت اور بصارت جا تی رہی۔تین روز تک ایسا ہی کیا تیسرے روز مجھ سے کھا کہ اس دین کو جسے تونے اخیار کیا ہے چھوڑ دے وہ کہتی ہیں کہ مجھے ان کی باتیں کچھ سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر میں آسمان کی طرف اپنی انگلی سے توحید کا اشارہ کر تی تھی جب وہ مجھے چھوڑ کر حسب عادت خیموں میں چلے گئے اور میں دھوپ میں پڑی رہی۔اس وقت تشنگی سے میں سخت بے تاب تھی کہ یکایک کیا دیکھتی ہوں کہ میرے سینے پر ڈول کی سردی محسوس ہورہی ہے اور دیکھا کہ اس میںپانی ہے میںنے ایک دم میں خوب پانی پیا پھر وہ مجھ سے علحدہ ہوگیا ۔میں اس کو دیکھنے لگی تو زمین وآسمان میں معلق ہو گیا اور مجھے اس کو لینے کی قدرت نہ تھی پھر دوسرے بار میرے قریب آگیا پھر میں نے ایک دم میں اور پیا ۔ پھر وہ بلند ہوکر معلق ہوگیا پھر تیسرے بار قریب ہوا اس وقت میں پی کر سیر ہوگئی اور اپنے سراور منہ اور کپڑوں پر اس کو اونڈیل لیا ۔تھوڑی دیر کے بعدوہ لوگ جب خیموں سے باہر آئے او رمیری یہ حالت دیکھی تو پوچھا کہ پانی کہاں سے آیا میںنے کھا اللہ کے پاس سے جو خاص میرے لئے بھیجا گیا ۔یہ سن کر وہ جلدی سے اپنے مشکوں اور ڈولچوں کی طرف دوڑے دیکھا کہ سب محفوظ ہیں ۔ اس وقت ان کو میری با ت کا یقین ہو ا اور کھا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہما را بھی رب وہی ہے جو تمھا را ہے اورجس خدا نے اس مقام اور ایسی خطرناک حالت میں تمھیں پانی پلایا ۔اسی نے اسلام اتا را ۔چنانچہ وہ سب مسلمان ہوئے ۔ اور ہجرت کر کے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضرہوئے ۔انتہیٰ ملحضاً
ایمان اسے کہتے ہیں ان بیوی کی حالت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ ان پر کیا مصیبت گزری ہوگی ۔پیاس لگانے کے اسباب مہیا کئے گئے اور سخت دھوپ میں ان کو ڈالدیا ۔اور ایک روز نہیں تین روزتک یہی کام کیا گیا یہاںتک کہ سماعت ،بصارت ، اورعقل زائل ہونے کو تھی مگر انھوںنے اشارے سے کچھ کھا بھی تو توحید ہی کا اشارہ کیا ۔جب ایمان اس درجہ کا ہوتا ہے تو خدا ے تعالیٰ کے نزدیک آدمی مکرم ہو تا ہے اور جب مکرم ہوتا ہے تو اس کی خصوصیت ظاہرفرما ئی جا تی ہے ۔ جسے کرامت کہتے ہیں اوراس خصوصیت کی وجہ سے وہ بندہ ممتازہوتا ہے آپ غورکیجئے کہ وہ بیوی تھیں تو عورت مگر ان کی ہمت کیسی مردانہ تھی کہ آخری زمانہ کے ہزار ہا مردوں میں شاید کوئی ہو بہ خلاف اس زمانہ کے کہ ہر شخص کی یہی حالت تھی ۔
خصائص کبریٰ میں یہ روایت بھی ہے کہ فروہ ابن عمر بادشاہ روم کی طرف سے عمان پر عامل تھے وہ مسلمان ہوگے اور آنحضرت ؐ کی خدمت میں بذریعہ خط اپنے اسلام کی اطلاع دی یہ خبر جب بادشاہ رو م کو ہوئی تواس نے ان کو طلب کرکے حکم کیا کہ اس دین سے تم پلٹ جائو گے تو میں تمھیں کسی ملک بادشاہ بنا دونگا ۔کھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تو ہر گز نہ چھوڑ ونگا اور تم بھی جانتے ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی بشارت دی ہے لیکن تم ملک کے لحاظ سے ایمان نہیں لاتے ۔بادشاہ نیانھیں کئی روز قید رکھا اور بہت کچھ سمجھا یا مگر نہ مانے ۔آخر ان کوقید خانہ سے نکال کر قتل کر دیا اور سولی پر چڑھایا انتہیٰ ۔
دیکھئے ان بزرگوں نے دین کے معاملہ میں نہ ملک کی خواہش کی جس کا وعدا بادشاہ نے کیا تھا اور نہ جان کی پرواکی ۔اصل ایمان کے یہ کرشمے ہیں ورنہ براے نام منافق بھی اپنے کو اہل اسلام کے زمرہ میں شریک کر دیتا ہے ا س قسم کے صدہا واقعات کتب سیر اور احادیث میں مذکور ہیں اگر خدا ے تعالیٰ کو منظور ہے تو کسی موقع میں ذکر کئے جائیں گے ۔عموماً اہل اسلام جانتے ہیں کہ فردہ بن عمر ؓ صحابہ میں کوئی نامی شخص نہ تھے جب ان کے ایمان کا یہ حال ہوتو دوسرے اولوالعزم اورجاں باز صحابہ کے ایمان کا کیا حال ہوگا جب ان کا ایمان اس درجہ قوی تھا توان کی مددبھی حق تعالیٰ فرما تاتھا ۔ جیساکہ ارشاد ہے وکان حقاعلینانصر المومنین ۔ جتنے فتوحات ادائل اسلام میں ہوئے وہ صرف ان کی کرامت تھی ۔کیونکہ تھوڑے سے لوگ جن کے پاس نہ پورے ہتھیار تھے نہ سرمایہ عجم اور شام اور افریقہ جسیے ملکوں کو فتح کر لیا خرق عادت نہیں تو کیا ہے ؟اس دعوے کے ثبوت میں ہم کتب تواریخ کو پیش کر تے ہیں جو شخص ان کتابوں کو دیکھے گا قصیر وکسر یٰ کی دولت و شان وشکوکت اور عرب کے افلاس اور بے سر و سامانی پر ضرور مطلع ہو گا ۔ اس وقت ہمارے بیان کی خو بخود تصدیق ہو جا ئے گی کہ صرف کرامت سے یہ ممالک فتح ہو ے ۔حق تعالیٰ ہم کوایمان کامل عطا فرماے اور ہمارے ایمان میں تزلزل کو راہ نے دے ۔غرض کہ کرامات حضرتؐ کی امت سے بہت سے صادر ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفد بخران کے مقابلے میں جو چاہتے کر سکتے تھے ۔مگر وہاں تو یہ مقصود ہی نہ تھی کہ اپنی بڑائی لوگوں میں ظاہر ہو ۔ بلکہ ہر وقت یہ امپریش نظر رہتا تھا کہ خدا ے تعالیٰ کی کیا مرضی ہے ۔چنانچہ اس موقع میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ اور جب یہ حکم ہو گیا کہ مباہلہ کیا جاے تو حضرتؐ ا س امر پر آمادہ ہو گئے اور جو اقتدار آپ کو حاصل تھا اس سے کچھ بھی کام نہ لیا یہ شانِ عبودیت تھی ۔
ظاہر میں کہ لوگ اس موقع میں اعتراض کرتے ہیں کہ جب کفار نے بر سر مقابلہ ہو کر معجزے طلب کئے تو حضرت ؐ نہ دکھا سکے ۔ ا س وجہ سے معجزوں کی جتنی روایتیں ہیں موضوع ہیں ۔یہ صرف ان کاتراشا ہوا خیال ہے اسلامی دنیا میں ایسے خیالات کو کچھ اثر نہیں ۔ یہاں تو خدا ئی کا رخانہ ہے جس میں عقل کی رسائی ممکن نہیں ۔اسی کو دیکھ لیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس یعنی تنِ تنہا سا ری دنیا کے مقابلے میں کھڑہوگئے اور ایک ایسے جنگ جو قبیلہ میں نئے دین کی طرف دعوت کی جس کونہ وہ جانتے تھے نہ ان کے آبادو اجداد اور ان کے بتوں کی توہین کی جن کی وہ پر ستش کر تے تھے ہر چند تمام کفار حضرتؐ کے خون کے پیا سے تھے مگر کسی سے حضرتؐ کا کچھ نہ ہوسکا ۔ اور چند سال کے عرصے میں تمام ملک عرب و عجم اور شام اور افریقہ میںاس مقدس دین کا ڈنکا بج گیا اور کڑوڑ ہا آدمی مشرف با سلام ہوے ۔کیا یہ بات عقل میں آسکتی ہے ؟۔
غرض کہ خد ے تعالیٰ کے مصلحتوں کے خلاف عقل لگانادرطۂ ہلاکت میں پڑنا ہے معلوم نہیں اس میں کیا مصلحت تھی کہ ان مسیحیوں کے مقابلے میں حضرتؐ کو معجزہ ظاہر کر نے کاحکم نہ ہوا ۔ حالانکہ دن رات ہزار ہا معجزے ظاہر ہو تے تھے مگر ان تمام چیزوں سے اتنا تو معلوم ہو تا ہے خدا ے تعالیٰ خود سریٰ اور کبر و نخوت کو پسند نہیں فرما تا ۔ بلکہ عبدیت کو بارگاہ الٰہی میں نہایت فروغ ہے ۔اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات شریف سے چند روز پہلے اسامہ ابن زید کو روم کے طرف جہاد کر نے کو روانہ فرمایا ۔اور ان کو امیر بنا کر ابوبکر ؓ اورعمرؓ اور عبیدۃ ابن الجراح اور سعدابن ابو اوقاص ؓ وغیرہ صحابہ ؓ کبار کو ان کا تابع بنا یا ۔ بعضے لوگوں نے اس میں کلام کیا کہ حضرتؐ نے قدیم مہاجرین اور انصارکا امیراس لڑکے کو بنایا ۔ یہ خبر حضرتؐ کو پہنچی ۔آپ نے ان پر سخت غصہ کیا اور خطبے میں فرمایاکہ اے لوگو! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ میں نے جو اسا مہ ؓ کو امیر بنایا اس میں لوگ کلام کر تے ہیں۔اگر ان کی امارت میں تم نے کلام کیا توکوئی نئی بات نہیں ۔کیونکہ ان کے باپ کے امارت میں بھی ایسا ہی تم نے کلام کیا تھا خدا کی قسم وہ بھی امارت کے قابل تھے اور ان کے بیٹے اسامہؓ بھی امارت کے قابل ہیں ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے اُسامہ ؓ صحابہ میں کوئی ایسے بر آوردہ اور کسی قبیلے کے رئیسوں میں نے تھے بلکہ وہ زید کے بیٹے تھے جو خدیجہ ؓ کے زر خرید غلام تھے ۔ پھر اُسامہ کو ئی معمر شخص بھی نہ تھے بلکہ اس وقت ان کی عمر سترہ (۱۷)بر س کی تھی ۔ہر شخص جا نتا ہے کہ عقلا کے نزدیک اس عمر کے لڑکوں کی وقعت نہیںہوتی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کو سردار بنایا اور صدیق اکبرؓ اورعمر فاروق ؓ وغیرہ جیسے جلیل القدر اور مدیر اور تمام امت میں بر گزیدہ اور سر برآوردہ اصحاب کو ان کے تابع او ران کی رعیت بنا دیا ۔کیا کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر نکتہ چینی کر سکتا ہے ؟ اُسی زمانے میں جب اس امر میں نکتہ چینیاں ہونے لگیں تووہ حضرتؐ کے کمالِ غضب کا باعث ہوئیں ۔ اس سے بھی حضرتؐ کا وہی مقصود معلوم ہوتا ہے کہ کبر و نخوت اور خودسری مسلمانوں میں نہ رہے چنانچہ
{عمرؓ اسامہ ؓ کو بوقت ملاقات یا امیر المومنین کہتے تھے}
سیرۃ النبویہ میں لکھا ہے کہ عمرؓ اپنی خلافت میں جب اُسامہ کو دیکھتے تو کہتے السلام علیک ایھا الامیر۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے امیر المومنین یہ لفظ آپ میری نسبت کہتے ہو ۔وہ جواب دیتے کہ جب تک میں زندہ رہونگا آپ کو اپنا امیر کہتا رہو نگا کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو آپ مجھ پرامیر تھے یہ گویا تمھید اس امر کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات شریف سے پہلے صدق اکبرؓ کو اپنا جانشین فرما کر تمام صحا بہ ؓ کا مقتدی بنا دیا ۔اس میں کسی کو کلام کی گنجائش نہ رہے ۔ کہ با وجود موجود گی حضرت ؐ عباس ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو قرابت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر تھے ۔ ابوبکر ؓ کیونکر جانشین ہوں ۔ اسی وجہ سے کل صحابہ ؓ نے صدیق اکبر ؓ کی خلافت کو تسلیم کرلیا ۔ اوروہ اوران کے بعد کے خلفا جس کو چاہتے کسی لشکر کا امیر بنا کر روانہ کر دیتے ۔ اور کسی کی یہ مجال نہ ہوتی کہ اپنی شرافت وغیرہ کے لحاظ سے اس میں کلام کرے غرض کہ صحابہ میں ان امور کے مشاہد ی کے بعد خودسری اور نخوت باکل باقی نہ رہی تھی ۔ اور مقام عبدیت ان کوحاصل ہوگیا تھا جو تصوف میں کمال درجہ کا سمجھا جا تا ہے ۔ سیرو تواریخ کے کتابوں سے اس قسم کے بہت سے واقعات پیش نظر ہو تے ہیں ۔ جو ہماری اس تقریر کے مو ئد ہیں ۔
{دست مبارک سے پانی کا جا ری ہونا }
السیرۃالنبویہ میں عبدا لرحمن غنم سے روایت ہے کہ آنحضرت ؐ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے راستے میں کسی مقام پر پانی کی بہت قلت تھی ۔ حضرتؐ نے اپنے ہمرا ہیوں سے فرمایا کہ اگر چشمے پرکوئی جا ے تو اس وقت تک اس کا پانی نہ لے کہ ہم وہاں آجا ئیں یہ سن کر وہا ںچند منافق پہنچے اور اس کا پانی لیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب وہاں تشریف لے جا کر کھڑے ہوے اور دیکھا کہ اس میں پانی باکل نہیں ہے تو فرمایا کہ ا س پانی پر ہم سے پہلے کون آگیا ۔ عرض کیا گیاکہ فلاں فلاں شخص فرما یا کیا میںنے ان کو منع نہیں کیا تھا کہ اس کا پانی نہ لیں جب تک میں نہ آئوں ۔ پھر حضرت ؐ نے ان پر لعنت اور بد دعا کی۔ اور پانی کے مقام میں اترے کے اپنے دونوں ہاتھ اس پر پھیرے اور کچھ دعا کی ساتھ ہی پانی جا ری ہوگیا اس قدر کہ زور سے آواز آنے لگی ۔سب لوگوں نے اس کا پانی پیا ۔ اور اپنی حاجتیں رواکیں ۔پھر فرمایا اگر تم میں سے کوئی باقی رہے گا توسن لے گا کہ یہ تمام میدان اور اس کے آگے اور پیچھے کی زمین سر سبز و شاداب ہوگئی ۔انتہیٰ ۔
{منحوست دست }
اس حدیث شریف میں جو مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمال غضب او ر غصے سے ان منافقین پرلعنت اور بد دعا کی جنہوں نے با جوود منع کر کے سب سے پہلے جاکر پانی کو پی لیا تھا ۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کے ہاتھوں کی نحوست نے اس پانی میں ضرور کچھ اثر بد کیا تھا ۔ ورنہ لعنت کرنا اور بددعا دینا حضرتؐ کی عادت کے خلاف تھا ۔ یہ معنوی امور ہیں ان کا ادراک واحساس صرف روحانیت سے متعلق ہے ۔چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس عالم کے اشیا ء اور تا ثیرات منکشف تھے ۔ اسی لئے حضرت ؐ کو دونوں ہاتھ ا س مقام پر پھیرنے اور دعا کر نے کی ضرورت ہوئی ہو ۔
{کنکریوں کا بات کرنا }
خصائص کبریٰ میں عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرتؐ کی خدمت میں حضر موت کے باشندے حاضر ہوے جن میں اشعث بن قیس بھی تھا انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک بات دل میں چھپائی ہے اس کو آپ بتا دیجئے کہ و ہ کیا ہے آپ نے فرمایا سبحا ن اللہ یہ تو کاہن کا کام ہے اور کاہن و کھانت کا مقام دوزخ ہے ۔انھوںنے کہا کہ پھرہم کیونکر جانیں کہ آپ اللہ کے رسول ہو ۔ آپ نے ایک مٹھی کنکر زمین سے اٹھاکر فرمایا دیکھو یہ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔چنانچہ حضرتؐ کے دست مبارک میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی یہ سنتے ہی وہ لوگ کہہ اٹھے کہ ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہو اور اس قسم کی کئی روایتیں ہیں جن سے ثابت ہے کہ حضرت ؐکے دست مبارک کی برکت سے کنکریوں نے بلند آواز سے تسبیح کھین ۔انتہیٰ ۔
{معجزہ وہی ہے جو کسی سے نہ ہو سکے}
اس میں شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دل کی باتوں پر مطلع تھے جس کا ثبوت متعد روایات سے ہوتا ہے ۔مگر اس موقع میں یہ فرمایا کہ یہ کا ہنوں کا کام ہے ۔مقصود اس سے یہ تھا کہ اگر حضرتؐ ان کی سونچی ہوئی بات کو بتا دیتے تولوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جا تا کہ یہ کام توکاہن بھی کیا کرتے ہیں اور ممکن تھا کہ ان کو اس قسم کا خیال کسی وقت شبہہ میں ڈالدیتا اس لئے حضرتؐ نے ایک ایسا معجزہ بتلایا کہ کسی سے ممکن نہ تھا ۔
{مقتضائے اسلام }
سیرۃ النبویہ میں اس روایت کے تکملے میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم اسلام نہیں لائے ؟انھوںنے کھا کیوں نہیں فرمایا کہ پھر حریر یعنی ریشمی لباس جو پھنے ہو کیونکر درست ہوگا ۔یہ سنتے ہیں سب لوگو ںنے اپنے اپنے ریشمی لباس کو پھا ڑ کر پھینکدیا ۔انتہیٰ ۔
سبحا ن اللہ اسلام اسے کہتے ہیں ۔ریشمی لبا س کانا جائزہونا معلوم ہو تے ہی پھاڑ کر پھینکدیا ۔بخلاف ہم لوگوں کے کہ جانتے تو ہیں سب کچھ مگرعمل ندارد ۔ خدا وند تعالیٰ ہم کوسچا ایمان اور اسلام نصیب فرماے جس سے عمل کر نا آسان ہو جائے ۔
{اثر دست پر رخسار }
خصائص کبریٰ میں ام اسحٰق سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے بھا ئی کے ساتھ ہجرت کرکے نکلی ۔ راستے میں میرے بھائی نے کھا کہ میں ایک چیز مکہ میں بھو ل گیا جب وہ واپس گئے تو میرے شوہر نے ان کو مار ڈالا میںنے حضرتؐ کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کی کہ میرا بھائی ما ر ڈالاگیا ۔حضرتؐ نے چلو پانی لے کر میرے منہ پر مارا اس وقت سے ان کی یہ حالت ہو ئی کہ کیسی ہی مصیبت ان پرآتی تو آنسو آنکھ میں نظر آتے بھی تو رخسار تک نہ بہتے ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے اثر دست مبارک سے ہمیشہ کے غم کا بندو بست ہوگیا ۔
{اثر دست مبارک سے رومال کو آگ نہ جلا سکی }
خصائص کبریٰ میں عباد ابن عبدالصمد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم انس بن مالک ؓ کے گھر گئے ۔ انھوںنے اپنی لونڈی کو پکار کر کھا کہ دسترخوان لا کہ ہم سب کھا نا کہا تے ہیں چنانچہ دسترخوان بچھا یا گیا ۔ پھر ا س سے فرمایا کہ رومال لا ۔ وہ ایک رومال لائی جو میلا تھا ۔فرمایا تنو ر سلگا ۔چنانچہ تنور سلگا یا گیا جب آگ دہکنے لگی فرما یا کہ یہ رومال اس میں ڈالدے وہ ڈالدیا گیا تھوڑی دیر کے بعد جب وہ نکالا گیا تو نہایت سفید مثل دودھ کے ہوگیا تھا ۔ ہم نے یہ حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر ان سے کھا کہ ہماری عقلوں نے توجواب دے دیا کہ اس کا راز کچھ سمجھ میںنہیں آتا اب ارشاد ہوکہ یہ کیا اسر ار ہیں ۔ فرما یا کہ یہ وہ رومال ہے جس سے آنحضرت ؐ اپنے ہاتھ اور منہ پوچتے تھے ۔ جب وہ میلاہوجا تا تا ہے تو ہم اس کو آگ سے دھو ڈال تے ہیں اس لئے کہ جو چیز انبیا کے چھروں پرگزرے آگ اسے نہیں جلا تی ۔انتہیٰ ۔
{مسئلہ فطرت}
یہاں ایک معرکتہ الآ لار انیچر یعنی فطرت کا مسئلہ پیش ہوجا تا ہے کہ ہر چیز کو اپنی فطرت کے مطابق کا م کرنا ضروری ہے ۔ آگ کی کتنی ہی خوشا مد کیجئے وہ اپنا جلانا نہ چھوڑے گی ۔
آگر صدسال گبر آتش فر و زد
چویک دم اندر اں افتد بسو زد
ہم اہل اسلام اس کا بھی جواب دیتے ہیں کہ آگ کو خدا ے تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس میں جلانے کی تا ثیر رکھی ۔ جب خدا ے تعالیٰ کو اس کے پیدا کرنے کی قدرت ہے تو اس کی ذات اور صفتِ احراق کو فنا کر نے کی بھی قدرت ہے ۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کو جب کفار نے آگ میں ڈالا توحق تعالیٰ نے آگ کو حکم کیا کہ سر د ہو جاے کما قال تعالیٰ قلنا یا نا رکونی برد او سلاما علیٰ ابرھیم ۔اس سے ظاہرہے کہ جلانے کی صفت سلب یا معطل کر دی گئی تھی یہاں تک کہ مثل گلزار ہوگئی غرض کہ جب خدا ے تعالیٰ کی قدرت مان لی جائے تو فلسفہ اورسائنس کا جھگڑا خو بخود مٹ جا تا ہے کہ خدا ے تعالیٰ اپنی قدرت کا ملہ سے جو چاہتا ہے کہ کر سکتا ہے ۔کوئی چیز اس سے سر تابی نہیںکر سکتی اورجولوگ خدا ے تعالیٰ کی قدرت ہی کونہیں مانتے ہمیں ان سے کوئی بحث نہیں ۔ کیونکہ یہ رسالہ مناظرہ کا نہیں ہے بلکہ خاص وہ لوگ اس کے مخاطب ہیں جن کو خداے تعالیٰ کی قدرت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرایمان ہے ۔حاصل یہ کہ ہر مسلمان کو یہ ماننا ضرور ہے کہ آگ بغیر حکم الٰہی کے خلاف نہیں کر سکتی ۔ اسی چیز کو جلاتی ہے جس کے جلانے کاحکم ہوتا ہے مگرعادت اللہ جب جاری ہے کہ جالانے کاکام آگ ہی سے لیا جا تا ہے تو مسلمان کو چاہئے کہ اس سے بچے اگراس میں کو دجاے یا اپنا مال اس میں ڈالدے توگناہ گار ہوگا ۔کیونکہ حسب عادت خودکشی یا اتلاف مال کا شرعاً الزام اس پرعائد ہو گا ۔
اب یہاں یہ بات قابل غورو توجہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے جو رومال کے دھونے کا طریقہ اختیار کیا تھا ۔ کیا شریعت اسکی اجازت دیتی ہے اگر استفتاکیا جا ئے کہ کوئی شخص اپنا عمدہ مال آگ میں ڈالنا چاہے تو کیا جائز ہوگا کوئی عالم اس کے جواز پر ہر گز فتویٰ نہ دے گا ۔بلکہ یہی کھا جا ے گا کہ اتلافِ مال حرام ہے پھر ایسے جلیل القدر صحابی نے پہلے بار اس متبرک اور با وقعت رومال کو جو آگ میں ڈالا یہ کیسی با ت تھی ۔یہ کسی روایت سے ثابت نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو وہ رومال دے کر یہ فرما دیا کہ اس کے دھونے کا طریقہ یہ ہے کہ آگ میں ڈالدیا جاے اگر حضرتؐ یہ فرما دیتے تو وہ پہلے اس کا ذکر کر تے کیونکر صحابہ ؓ کو تقید تھی کہ جو کچھ حضرتؐ سے سنیں دوسروں کو پہنچا دیا کریں ۔اسی وجہ سے حضرتؐ جو کچھ فرما تے صحابہ اس ارشادکے نقل کر نے کو اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ بخلاف اس کے اس روایت میں ہم دیکھتے ہیں کہ انس ؓ نے کوئی بات ایسی نہ کہی جس سے معلوم ہو کہ حضرتؐ نے یہ طریقہ انہیں بتلایا تھا ۔ بہر حال ان قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ انس ؓ نے اس رومال کے دھونے کا طریقہ اپنی ذات سے ایجا دکیا تھا ۔ وہ متبرک رومال ان کے نزدیک جان سے زیادہ عزیز تھا چناچنہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ صحابہ حضرتؐ کے تبرکات کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھ تے تھے ۔ایسے بیش بھانا در الوجود تبرک کو پہلے بار انھوںنے آگ میں ڈالنے کا قصد کیا ہو گا توان کے دل کی کیا حالت ہوگی۔ کیا یہ خیال نہ ہوگا کہ آگ ایسے کپڑوں کو دم بھر میں جلاکر خاک سیادہ کر دیتی ہے ۔اگرخدا نہ خواستہ وہ جل جا سے تو اس کا داغ حسرت عمر بھرنہ مٹے گا ۔ اورایک نعمت عظمیٰ صفحۂ ہستی سے معدوم ہو جاے گی جس سے تمام اہل اسلام نشا نہ ٔملامت بنیں گے ۔مگر میری راے میں ان کو ان باتوں کا خیال بھی نہ آیا ہوگا۔بلکہ اس امر کا جز م تھا کہ اس متبرک رومال کوآگ ہر گز جلا نہیں سکتی ۔ کیونکہ حضرتؐ کے دست ورد ے مبارک کا اس کو مساس حاصل ہوا ۔اور بلا تامل اسے آگ میں ڈالدیا ۔یہ تھے صحابہ کے مستحکم اعتقاد کہ شان نبوی کے مقابلہ میں کسی چیز کی وقعت ان کی نظرو ں میں نہ تھی حضرتؐ کی شان تو بہت ارفع وا علیٰ ہے ۔ حضرتؐ کے رومال مبارک کے مقابلہ میں بھی انھوں نے آگ کی کچھ وقعت نہ کی جس کو فلسفہ و سائنس خدا کے مقابل قرارا دے رہا ہے ۔ہمارے زمانہ کے بعض مسلمان بھی سائنس ہی کاکلمہ پڑ ھتے ہیں ۔او ران کی نظروں میں تبرکات تو کیا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی معاذاللہ کچھ وقعت نہیں ۔ جس طرح اس زمانے کے کفا ر کہتے تھے کہ حضرتؐ بھی نعوذ بااللہ ہمارے جیسے ایک آدمی ہیں ۔ یہ بھی وہی کہتے ہیں ۔خیروہ جانیں اور ان کا اعتقاد صحابہ کر دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو وقعت تھی اسی کا نتیجہ تھا نہ کسی بادشاہ کی وقعت ان کی نظروں میں تھی نہ کسی فوج ولشکر کی ۔ اسی وجہ سے تھوڑے تھوڑے لوگ با وجود بے سر و سامانی کے بڑی بڑی سلطنتوں کا مقا بلہ کر تے اور کامیاب ہو جا تے تھے ۔غرضکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت و محبت جو مسلمانوں کے دلوںمیں تھی ۔ اس نے اسلام میں بڑے بڑے کرشمے دکھلا ے ہیں ۔اورجب سے وہ بات جا تی رہی تنزل اور خرا بی کا سامنا ہے اگر چہ ایک جماعت مسلمانوں میں ایسی بھی ہے کہ ان کے حالات و حرکات سے معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقعت ان کے دلوں میں حد سے زیادہ ہے اور یہاں انھوںنے افراط کی مخالفین نے ان کو بد عتی مشہور کیا مگر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں کہ خوش اعتقاد وں میں اپنارسوخ جا نا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور وقعت دل میں ہوتو آپ کے کلام کی وقعت اگر تبرکات سے زائد نہیں ہوتو برابر توہونی چاہئے مگر دیکھا جا تا ہے کہ حضرتؐ کے ارشادات کے ساتھ ان کو کچھ تعلق نہیں ۔حضرت ؐ نے جن کاموں کے کرنے کا ارشاد فرمایا ان کی طرف کچھ توجہ نہیں ۔اور جن سے منع فرمایا اس کی کچھ پروا نہیں ۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں کہ محب اپنے محبوب کی اطاعت نہ کرے ۔ جو حرکات و افعال ان حضرات سے بظارصادر ہو تے ہیں شاید ان کا عشر عشیر عوماً صحابہ سے صادر ہو تاہوگا ۔ مگر بات بات میں ان کی اطاعت و فرما نبرداری ان کے دلی محبت کے سچے جذبات پرگواہی دیتی ہے اگر فی نفسہ نتیجہ خیز محبت ہے تواس قسم کی اصلی محبت ہے ۔تقلیدی یا تصنعی محبت مخالفت اور امر و نواہی کے اثرات کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔یعنی جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرسش فرما دیں گے کہ ہم نے جن کا موں کا حکم کیا تھا وہ کیوں نہیں کئے اور جن کاموں سے منع کیا تھا اس کے مرتکب کیو ںہوے توایسی محبت اس قابل نہ ہو سکے گی کہ اس موقع میں پیش ہو سکے ۔ہم لوگوں کو چاہئے کہ دعا کیا کریں کہ حق تعالیٰ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور سچی محبت ہمارے دلوں میں مستحکم کرے ۔
{اثر دست مبارک بر تصویر }
خصائص کبریٰ میں عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ایک روز کا اتفاق ہے کہ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم میر یہاں تشریف لاے ۔ اور دروازے پرپردہ پڑا ہوا تھا جس میں تصویر تھی حضرتؐ نے اسے نکال کر پھینکدیا اور فرمایا قیامت میں سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں پر ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق میں مشابہت کر تے ہیں ۔ایک روز حضرت ؐ نے میرے پاس ایک سپر لائی جس پر عقاب کی تصویر تھی ۔ آپ نے دست مبارک اس پر رکھا وہ فوراً ایسی معدوم ہو گئی کہ اس کا اثر تک با قی نہ رہا ۔ انتہیٰ۔
اس سے ظاہر ہے کہ دست مبارک میں یہ بھی تا ثیر تھی کہ کسی موجود چیز کو معدوم کر دے یہ سب کرشمے محبت کے ہیں چونکہ آپ حق تعالیٰ کے محبوبوں میں یکتا تھے ۔ اس لئے جس کام کے ارادہ سے دست مبارک کو کام میں لاتے فوراً حق تعالیٰ وہ کام کر دیتا ۔دیکھنے کو وہ ہاتھ حضرتؐ کا تھا مگر دراصل وہ یدِِقدرت تھا چنانچہ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ حق تعالیٰ فرما تا ہے کہ جب کوئی بندہ کثرت سے نوافل ادا رکرتا ہے تومیں اس کو دوست رکھتا ہوں اور جب میں دوست رکھتا ہوں تو اس کے کان ،آنکھیں ،زبان ، ہاتھ وغیرہ ہو جا تا ہوں ۔اب غور کیجئے کہ جب عام طورپر یہ خصوصیت حاصل ہوتی ہے جس میں صحابہ اور اولیااللہ بھی شریک ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کس درجہ کی خصوصیت ہو نی چاہئے ۔
{اثر دست مبارک در انگشتری}
خصائص کبری ٰ میں انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مہر بنوائی تھی وہ حضرت ؐ کے دست مبارک میں رہتی تھی ۔ آپ کے بعد ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ میں رکھ تے تھے ۔ ان کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بعد عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک روز عثمان ؓ بیر اریں پر بیٹھے مہر کو ہاتھ میں ہلا رہے تھے کہ یکایک وہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنوئیں میں گر گئی عثمان ؓ نے بہتیرا اس کی تلاش کی تمام صحابہ تین روز تک اس کام میں مصروف رہے کنوئیں کا پانی تک خالی کر ڈالا مگر وہ نہ ملی۔انتہیٰ ۔
اما م بیہقی ؒنے لکھا ہے کہ اس کے بعد حکام کے حالات میں تغیر واقع ہو گیا۔اور فتنوں کے اسباب قائم ہو نے لگے علماء نے لکھا ہے کہ اس مہر شریف میں سلیمان علیہ السلام کے مہر کا سر تھا ۔ کیونکہ سلیمان علیہ السلام کے پاس سے جب مہر جا تی رہی توان سے ملک بھی جا تا رہا ۔بیہقی نے سعید ابن مسیب ؓ سے راویت کیا ہے کہ زید بن خا رجہ انصاری جو نبی حارث بن خررج کے قبیلے میں رہتے تھے ۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کا انتقال ہوا ۔جب ان پرچادر اوڑا دی گئی تو تھوڑی دیر کے بعدان کے سینے سے کچھ آواز آنے لگی پھر انھوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ابوبکر صدیق اورعمر رضی اللہ عنہما کی تعریف کرکے کھا کہ عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ چار سال تک انہی کے طریقہ پر ہے ۔ اب دو سال باقی ہیں کہ ہر طرف سے فتنے شروع ہو جائیں گے ۔اور قوی ضعیف کو کھا جا ے گا اور ایک قیامت بر پا ہوگی قریب میں تمھا رے لشکر سے بیراریس کی خبر پہنچے گی اس کنوئیں کا حال کچھ نہ پوچھو ۔ اس واقعہ کے بعد قبیلے خطمہ میں سے ایک شخص کا انتقال ہو ااس نے بھی بات کی اور کھا کہ اس خز جی نے جو خبر دی ہے وہ سچ ہے ۔عثمان رضی اللہ عن کی خلافت کے چھ سال گزرنے کے بعدیہ واقعہ پیش آیا ہے ۔ مہر شریف گم ہو ئی اور فتوں کے اسباب قائم ہوے یہ کل مضامین خصائص کبریٰ سے بر سبیل اختصار لکھے گئے ۔
اس انگشتری میں دو قسم کی بر کتیں تھیں ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک اس پر کندہ تھا ۔دوسری دست مبارک کی برکت ان سے حاصل تھی جب تک ابو بکر صدیق ؓ عمر فاروق ؓ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں میں وہ برکت رہی تمام ملک زیر نگیں تھا ۔اورجب سے وہ برکت جا تی رہی فتنہ و فساد کا سلسلہ قائم ہو گیا ۔ اگر سچ بوچھئے توان حضرات سے جو کار نمایاں صادر ہو ے اور ان کی نیک نا می ہوئی ۔ اسی دست مبارک کا خاص اثر تھا جو بذریعہ انگشتری چلا آرہا تھا ۔ ورنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اصابت راے اور شجا عت میں کم نہ تھے ۔بلکہ آپ کی راے کی یہ حالت تھی کہ عمر ؓ بڑے بڑے معاملات میں آپ سے راے لیتے اور اکثر اسی پرکا ربند ہو تے اور شجاعت اور قوت کی یہ کیفیت کہ آپ کا نظیرنہ تھا ۔مگر با وجود خلافت حاصل ہونے کے عمر بھر پریشانی میں رہے ۔ کوئی کام آپ کے خاطر خواہ نہ ہونے پایا ۔اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ برکتِ دست مبارک جس نے ایک عالم کو زیر نگیں بنا دیا تھا ۔ آپ تک پہنچے نہ پائی ۔
دیکھئے مھر مبارک کے گرنے کا واقعہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کیسا مصیبت خیز تھا کہ جس سے ان پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ چنانچہ مردوں نے اس کو قیامت ہی سے تعمیر کی ۔ فی الحقیقت اسلام کی جو رفتا ر اس واقع تک ہو ئی اگر اورتھوڑی مدت یہی رفتا ر رہتی تو اسلام کے برکات سے کوئی شہر محرم نہ رہتا عرب و عجم یورپ و افریقہ میں جتنا ملک اس وقت اہل اسلام کے قبضے میں ہے تقریباً وہ سب اسی وقت کا مفتوحہ ہے ۔ اگر آپس کی خانہ جنگی نہ ہوتی اورکل اہل اسلام جیسے اس وقت تک ترقی اسلام کی طرف ہمہ تن متوجہ تھے اگر بعد بھی رہتے تو رفتا رِ ترقی اول سے زیادہ تر تیز ہو جا تی ۔ کیونکہ ایک عظیم الشان سلطنت جس کا حال ابھی معلوم ہوا ۔ جدھر متوجہ ہو تی صفا یا کر دیتی عرض کہ خانہ جنگیوں نے ترقی کا خاتمہ ہی کر دیا ۔ اس کا منشا یہ ہی تھا کہ وہ برکت جا تی رہی جو دست مبارک کے مساس سے خاص مہر مبارک کو حاصل تھی ۔جس سے فرامین خلافت مزین ہوکر اقطار بلا د میں نافذ ہوتے تھے ۔یہ مہر معمولی نہ تھی ۔
{فقط رسول اللہ بلا قصد کھدوگیا}
ہر چند مدینۂ طیبہ میں ہو کندہ کرا ئی گئی تھی مگراس کا معاملہ بھی عجیب و غریب ہے خصا ئص کبریٰ میں عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ کو بلا کر فر مایا کہ میرے لئے ایک چاندی کی مہر بنوا ئو جس کا نقش محمد بن عبد اللہ ہو ۔ انھو ں نے مہر کن سے کھدیا جب وہ تیار کر کے لایا تواس پر محمد رسول اللہ کندہ تھا ۔ آپ نے کہا کہ میں نے تو ایسی فرمائش کی تھی اس نے قسم کھاکر کہا کہ میںنے حسب فرما ئش محمد بن عبد اللہ ہی لکھا تھا ۔ مگر نقش کرتے وقت خدا ے تعالیٰ نے میرے ہاتھ کو پھیر دیا جس سے محمد رسول اللہ کھد گیا اس کے قسم کھانے کی وجہ سے علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی تصدیق کی اور حضرت ؐ سے وہ قصہ بیان کیا ۔ آپ نے تسلیم کرکے فرمایا کہ میں رسول اللہ ہوں انتہیٰ ۔
دیکھئے ہر چند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ازراہ تو ضع لفظ رسول اللہ کو مہر میں رکھنا نہیں چاہتے تھے ۔ اور حسب عادت عرب ولدیت ہی لکھوا نا چاہا ۔ مگر حق تعالیٰ کو منظور نہ تھا کہ یہ خاص لقب حضرتؐ کے نام مبارک سے جدا ہو ۔اس لئے مھر کن سے خلاف ارادہ و قصد اسی کے ہا تھ سے وہ کند ہ کر دیا گیا ۔
{دست مبارک سے چھرہ روشن ہوگیا }
سیرۃ النبو یہ میں لکھا ہے کہ جب وفدبنی محارب حضرت کی خدمت میں آیا تو ان میںسے ایک شخص کو آ پ نے بہت غور سے ملا حظہ فرما یا جن کا نام حذیمہ تھا اور فرمایا کہ میںنے تمھیں کھیں دیکھا ہے ۔انہوںنے عرض کیا کہ بہت درست ہے (عکاظ) میں ملا حظہ فرمایا ہے۔عکا ظ ایک موضع کا نام تھا جس کے جنگل میں بازار بھر تا تھا ۔اس میں تمام عرب کے قبیلے آکر اپنے اپنے فضائل اور کمالات فخریہ بیان کر تے اوراسی مضمون کے اشعار پڑھتے تھے ۔ یہ بازار بیس روز تک بھرا رہتا تھا ۔حذیمہ نے کھا کہ اس بازار میں حضر ت ؐ تشریف فرما تھے اور ہرہر قبیلے میں جاکر دعوت اسلام فرما تے تھے ۔اس روز یوں تو سب ہی آپ کے مخالف تھے ۔ مگر میں نے سب سے زیادہ آپ کی خدمت میں گستا خی کی اور بہت تا شالستہ کلمات کہے ۔ اور نہایت سختی سے پیش آیا۔حضرت ؐ نے فرمایا ہاں عرض کی کہ اگرچہ میںاپنے ہمراہیوں میں ایسا شخص ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی اسلام سے دور نہ تھا ۔ مگراب اللہ کا شکر کر تا ہوں کہ اس نے آپ کی خدمت میں مجھے بھیجا ۔ اور میں نے آپ کی تصدیق کی ۔ اس وقت جتنے میرے ساتھی تھے وہ سب اپنے دین پر مر گئے ۔ حضرتؐ نے فرمایا دل کہ خدا ے عزو جل کے ہا تھ میں ہیں یعنی جب تک خدا ے تعالیٰ نہ چاہے کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا عرض کی یا رسول اللہ میں نے جو آپ سے گفتگو کی تھی ۔اس باب میں آپ میرے لئے خدا ے تعالیٰ سے مغفرت مانگئے ۔ فرمایا اسلام اگلے تمام کفر کی با توں کو مٹا دیتا ہے ۔یہ کھکر آپ نے ان کی چھرے پرہاتھ پھیرا جس کی وجہ سے وہ روشن ہو گیا ۔ او رآپ نے حسب عادت ان کو انعام دے کر روانہ فرمایا ۔انتہیٰ ۔
{ہر مجمع میں حضرت ؐ کا تبلیغ اسلام فرما نا }
اس روایت سے ظاہر ہے کہ جہاں جہاں عرب کے مجمع ہوا کر تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے جا تے اور دعوت اسلام فرما تے مگر حضرت ؐ کا ان تمام مجموعوں میں ہم کلام و ہ ہم زبان کوئی بھی نہ ہوتا بلکہ ہر شخص حضرتؐ کی بات کو رد کرنے اور ایذا پہنچا نے کی فکر میں ہوتا ۔ ان واقعات کے خیال کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرتؐ کو کیسی کیسی سختیوں کا سامنا تھا ۔ ہزار ہا دشمنوں میں آپ تن تنہا فرما رہے ہیں کہ تمھارا مذہب جھوٹا ہے تمھارے معبود تمھارے ہاتھ کے تراشے ہوے پتھر اس قابل نہیں کہ پرستش کئے جائیں ۔اور ان اقوام کی وہ حالت کہ دنیا میں ان سے زیادہ جنگ جواور بامت بات پر لڑ نے بھڑنے والی کوئی قوم نہیں۔
{یہی ایک دلیل اسلام لانے کے لئے کافی ہے }
اور حضرت ؐ ان دشمنوں میں تن تنہا ہیں ۔ نہ کوئی یار ہے نہ مددگار اس سے بڑھ کر اس دین کے صداقت کی او رکیا دلیل ہو سکتی ہے کہ وہی جنگ جو قوم یعنی پورا ملک عرب مسلمان ہو گیا ۔اگر انصاف سے کام لیا جاے تو ایک منصف ،حق،پسند کے اسلام لانے کے لئے بھی ایک دلیل کا فی ہے اور اگر آنکھوں پر تعصب کا پردہ پڑا رہے تو پھر کسی دلیل پر نظر نہیں پڑ سکتی سو قسطا ئی کے ذہن میں جب یہ بات جمی کہ یہ سب عالم یو ںہی خیالی ہے تو کیسی ہی دلیل اس کے روبرو پیش کی جائے وہ یہ کھ کر اس کا انکار کر دیتا کہ یہ بھی ایک خیالی بات ہے یہاں تک کہ لوگوں نے ا س کو آگ میں جلا یا ۔اس غرض سے کہ آگ کی حقیقت و اقعیہ کا تو اقرار کر لے گا مگراس نے نہ کیا اسیے ہٹ دہرموں سے حق پسندی کی کیا توقع ہوسکتی ہے ۔
حدیث موصوفہ سے یہ نہیں معلوم ہو سکتا کہ ایا آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کو دست مبارک پھیر نے سے یہ مقصود تھا کہ ان کا چھرہ روشن ہو جا ے ۔یا حضرت ؐ نے محبت سے دست مبارک پھیرا اور خدا ے تعالیٰ نے اس مقام کو جہاں دست مبارک پہنچا تھا روش کر دیا ۔جو کچھ ہو دست مبار ک کی تا ثیر ضرورت ثابت ہو تی ہے ۔بغیر قصدحضرتؐ اگر حق تعالیٰ نے اس مقام کو روشن کر دیا تھا تواس میں اور زیادہ لطف ہے کیونکہ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ پرور دگار عالم کو مقصود تھا کہ بغیرحضرتؐ کی درخواست کے حضرت ؐ کے حرکات پر وہ آثار مرتب کرے جو دنیا میں کسی سے نہ ہو سکیں ۔ جن سے حضرت ؐ کا نام تمام عالم میں روشن ہو ۔
{معجزۂ شق القمر }
حضرت ؐ کا تصرف علاوہ عالم سفلی کے عالم علوی میں بھی جاری تھا چنانچہ قرآن شریف سے معجزۂ شق القمر ثابت ہے کما قال تعالیٰ اقتربت الساعۃ وانشق القمر ۔کفار مکہ نے جب آپ سے درخواست کی کہ اگر آپ چاند کو شق کر دینگے تو ہم ایمان لائیں گے ۔ آپ نے درخواست کی کہ اگر آپ چاند کو شق کر دینگے تو ہم ایمان لائیں گے ۔ آپ نیے دعا کی اور ایک اشارہ سے چاند کے دو تکڑے کر دئے ۔ایک تکڑا ابو قبیس کے پھاڑ پر گرا ۔اور دوسرا اسی پھاڑ کے دامن میں اور بعض روایات میں ہے کہ حضرتؐ کی آستین میں سے نکل گیا ۔ مواہب الدنیہ اور اس کی شرح زر قانی میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہ معجزہ بتواتر ثابت ہے۔اورجن صحابہؓ سے وہ مروی ہے ان کے نام اور جن کتا بوں میں وہ روایتیں درج ہیں ان کے نام بیان کئے ہیں ۔
غرض کہ قرآن شریف سے ا س کا وجود ثابت ہے اور احادیث سے اس کا معجزہ ہونا ۔اہل ایمان تو اس کو نہایت آسانی سے مان لیتے ہیں اس لئے کہ قرآن و حدیث سے اس کاوجود ثابت ہے مگر نئے خیالات اور فلسفی مذاق کے لوگ ایسے امور کی طرف توجہ نہیں کر تے ۔اس لئے انکا ر ہی کر دیتے ہیں۔اگرچہ یہ مسئلہ اس قسم کا ہے کہ کتنی ہی وضاحت سے بیان کیا جاے معمولی عقلوں سے اس کے ماننے کی توقع نہیں ہوسکتی ۔مگر صرف خیر خواہا انہ اس باب میں تھوڑی سی تقریر کی جا تی ہے ۔ممکن ہے کہ اہل انصاف توجہ اور تدقیق نظر سے کام لیں تو کسی حد تک کامیابی ہو جاے۔ قبل اس کے کہ اصل اشکال کا جواب دیا جاے ایک ایسی بات لکھی جا تی ہے کہ جس کو عموماً لو گ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ برقی روشنی کا کارخانہ ایک مقام میں ہو تاہے ۔جس میں مادہ روشنی کا جمع رکھا جا تا ہے اور بذریعہ تا ر و ہ ماد ہ جس کو پور کہتے ہیں تقسیم کیا جا تا ہے ۔اور وہ مادہ جہاں جہا ںگلوب یعنی چراغ ہو تے ہیں پہنچ ان کو روشن کردیتا ہے اور جب چاہتے ہیں چراغوں کو خاموش کر دیتے ہیں ۔ اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ ان چراغوں کو خاموش کرنا ان کو معدوم کردینا ہے ۔ یا یہ کہ پور کو روک لینے سے خود بخود وہ خاموش ہو جا تے ہیں ۔اگر یہ خیال کیا جاے کہ وہ معدوم کر دئے جا تے ہیں جس طرح حباب معدوم کر دیا جا تا ہے تو چاہئے جس طرح حباب کو معدوم کر تے وقت اس کو ہوا یا ہاتھ کا صدمہ پہنچا یا جاتا ہے ۔چراغ کو بھی کوئی صدمہ پہنچا یا جاے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ تارمیں کھٹکے ایسے لگا ئے جا تے ہیں کہ جب خاموش کرنا منظو ر ہو تا ہے توان کو حرکت دیتے ہیں تا کہ تار کا اتصال جاتار ہے ۔جس سے پور یعنی مادہ روشنی چراغ تک پہنچ نہ سکے ۔اور جب پور نہ پہنچے تو روشنی کا خاموش ہو جانا ضرور ی ہے ۔ کیونکہ شعلہ ٔ روشنی دراصل وہی پورہے جو بحسب استعداد مقام روشنی کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے ۔اس موقع میں ادنیٰ تامل سے یہ بات معلو ہو سکتی ہے کہ ہر آن میں ایک نیا شعلہ پیدا ہوتا ہے۔اس لئے کہ جو پور اس مقام خاص میں آتا ہے وہ شعلہ کی صورت میں متشکل ہو تا ہے ۔پھر جب تک وہ فنا نہ ہو یعنی آتش بن کر جل نہ جاے دوسرے پور کو جگہ نہیں مل سکتی ۔اس لئے وہ فوراً فنا ہو جا نا ہے اوراس کے مقام میں دوسرا پور آکر شعلہ سابقہ کی جگہ قائم ہوتا ہے۔ اگر کسی آن میں پور نہ پہنچے تو فنا شدہ شعلہ کی جگہ دوسرا شعلہ قائم نہیں ہو تا ۔ فورا ً چراغ گل ہو جا تا ہے اس سے تجدد امثال کا مسئلہ اس چراغ میں نہایت آسانی سے ثابت ہو گیا ۔ کیونکہ ہر آن میں جب نئے پور کا آنا ضرورہے تو ہر آن میں نیا شعلہ بننا بھی ضرور ہو ا ۔کیونکہ پور ہی ہے جو شعلہ میں ہے ۔مگر چونکہ ہر ایک شعلہ کا وجود دوسرے شعلے کے وجود کے متصل آن میں ہے ۔اس لئے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ابتدا سے انتہاتک ایک ہی شعلہ ہے ۔حالانکہ واقع میں بحسب تعداد آنات ایک ساعت میں ہزار ہا شعلے موجود ہو کر فنا ہو گئے ۔ اس کا ثبوت اس طرح بھی مل سکتا ہے کہ جس کھٹکے کو حرکت دینے سے پور کی مددمقطع ہو جا تی ہے ۔اگر فوراً فوراً متضاوہ حرکتیں اس کو دی جا ئیں تو صاف معلوم ہو گا کہ ایک شعلہ موجود ہوا۔اور وہ فنا ہوگیا ۔پھر دوسرا موجودہوا وہ بھی فنا ہوگیا ۔علی ہذا القیاس جب تک حرکتیں دیجئے اس کا وجود اور فنا محسوس ہو تی رہے گی ۔چونکہ وجود بھی ایک نور ہے چنانچہ حکما ء اشراقئین وجود کو نور ہی سے تعبیر کر تے ہیں ۔ اس کا بھی حال ایسا ہی ہے مگراس راز سر بستہ پر عموماً عقلا مطلع نہیں ہوے۔البتہ محققین صوفیہ نے اس کی تشریح کی ہے کہ عالم کا وجود اٰنا ًفاناً حق تعالیٰ کے طرف سے عطا ہوتا ہے کیونکہ ممکن اپنے وجود میں موجد کے طرف سے ممتاج ہے ۔ جب تک موجد تعالیٰ اس کے وجود کو ترجیح نہ دے وجود میں نہیں آسکتا ۔پھر جس آن میں اس کا وجود ہو گیا ۔ اس کے بعد کی آن میں وہ وجود سے عاری اور محتاج وجود ہے جب خدا ے تعالیٰ کو آن لا حقہ میں اس کو باقی رکھنا منظور ہو تا ہے تو پھر اس کو وجود عنایت فرما تا ہے علیٰ ہذا القیا س اٰناً فاناً وجو د عنایت ہو تا رہتا ہے ۔اور جب اسکو فنا کر دینا منظور ہو تا ہے تو وجود عطا نہیں ہوتا جس سے وہ چیز فنا ہو جا تی ہے ۔ جیسا کہ مثال مذکورمیں ابھی معلوم ہوا ۔ غرض کہ تمام عالم میں تجد د اشال کا سلسلہ جاری ہے ۔اور صرف دیکھنے میں ہر چیزقائم بالذات معلو م ہوتی ہے حالانکہ دراصل اٰناً فاناً ہو تی جاتی ہے ۔ اگر یہ مسئلہ تعمق نظر سے ذہن نشین ہو جا ے تو چاند کے دو تکڑوں میں جو اشکال پیدا ہو تا ہے اس کا جواب با آسانی سمجھ میں آجا ئے گا کیونکہ جب تجدد امثال کو مان لیا جاے تویہ بات معلوم ہو جائے گی کہ چاند جس آن میں دو تکڑے ہو ا تھا ۔اسوقت وہ اپنے مقام میں فنا ہو گیا ۔ اور آنِ لاحقہ میں خدا ے تعالیٰ نے اس کو جب وجود عطا فرما یا تو بجا ے اس کے ہیٔت اور جسامت مستمرہ پر ہے ۔ایسا وجوددیا گیا کہ وہ حصوں پر منقم ہوا ۔ پھرجب وہ تکڑے اپنے مقام سے علحدہ ہوے تو ہر آن میںجو وجود دیا جا تا تھا اس مقدار میں دیا گیا جو سابق سے کم ہو ۔یہاں تک کہ جب ایک تکڑا جبل ابو قبیس پر اترا اسی قدر اس کو وجود دیا گیا کہ پھاڑ میں اس کی گنجائش ہو سکے ۔علیٰ ہذاالقیاس دوسرے حصے کو بھی اس قسم کا وجود دیا گیا اس کے بعد اس کو آسمان پر وجود دیا گیا تو اس قدر دیا گیا جو تمام عالم میں نظر آسکے ۔
غرض کہ تجدامثال کے اصول پر میری دانست میں یہاں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ۔البتہ یہ بات عقول کے خلاف ہے کہ اشیا سے عالم اگر خیال کئے جائیںء تو حد شمار سے خارج ہیں ۔ ان سب کو ایک آن میں نیا وجود دینا قرین قیا س نہیں ۔اس شبھ کی خاص وجہ یہ ہے کہ خدا ے تعالیٰ کے حالات اپنے حالات پرقیاس کئے جا تے ہیں ۔ اور یہ خیال کیا گیا کہ جس طرح ہم کام کر نے سے تھک جا تے ہیں ۔خدا ے تعالیٰ ابھی اگر اتنا بڑا کام اپنے ذمہ لے تو تھک جائے گا ۔ مگر یہ قیاس مع الفار ق ہے ۔ اس لئے کہ تھکنا صفت نقصان ہے جب آدمی ضعیف ہو تا ہے توہرکام میں بہت جلد تھک جا تا ہے اسی خیال سے پچپن سالہ ملازم کو خدمت سے علحدہ کر دیتے ہیں ۔اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ خدا ے تعالیٰ ان تمام صفات سے بری ہے جن میں کسی قسم کا نقصان متصور ہو جس کو تھوڑی بھی عقل ہویہی کہے گا کہ تھکنے کی صفت سے وہ باکل بری اور منزہ ہے ۔اسی کو دیکھ لیجئے کہ خدا ے تعالیٰ سے علاوہ نظم ونسق عالم علوی و سفلی کے صرف تخلیق کس قدر متعلق ہے ۔ خلق افعال کو بھی جانے دیجئے صرف اجسام ہی کو دیکھئے تو اتنے پیش نظر ہو جائیں گے جس کا تصور تقریباً محال ہے ۔ پھلے نباتات پر نظر ڈالئے کہ ان کے کتنے اقسام اور اصناف ہیں ۔
{کثرت نبا تا ت}
اس کا انکار نہیں ہوسکتا کہ ہر ملک میں درخت اور بوٹیاں مختلف اقسام کی ہیں ۔غرض کہ اتنے قسم کے ہیں اس کاشمار دشوار ہے ۔اب ایک درخت اور بوٹی اوران کے پتے اور پھول پھل وغیرہ کا خیال کیجئے اور انصاف سے کہئے کہ کیا تمام روے زمین کے بناتات سے متعلق اشیاء کا شمارممکن ہے ۔پھر تمام روے زمین اور سمندروں کے حیوانات کا خیال کیجئے کہ کتنے قسم کے ہیں ۔ اور ان کے اشخاص کا خیال کیجئے ۔حکمت جدیدہ میں تو یہ امر بھی مسلم ہو چکا ہے کہ پانی کے ایک قطرے میں اتنے حیوان بستے ہیں جتنے روے زمین میں انسان ۔چنانچہ کلان بینوں کے ذریعہ سے ہر وقت ان کامشاہدہ ہو سکتا ہے ۔ اب تمام روے زمین کے کنوئوں ،تالابوں، اور دیائوں، سمندروں ، پرغورکیجئے کہ کس کثرت سے ہیں پھر ان کے قطروں پر نظر ڈالئے اور ہر قطرے میں جو کروڑہا حیوان ہیںایک اجمالی نظر سے دیکھئے توانصاف سے یہ کہنا پڑے گا کہ وہ بے حد و بے شمار ہیں اس کا انکار نہیں ہوسکتا کہ جتنے نباتا ت و حیوانات ذکر کئے گئے ہیں سب مخلوقات ہیںاورعقلمند ضرور اس امر کی تصدیق کر ے گاکہ کوئی مخلوق بغیر اس کے کہ خداے تعالیٰ اس کو وجود دے ۔ وجود میں نہیں آسکتی تو غورکیجئے کہ ہر آن میں خدا ے تعالیٰ کتنی چیزوں کو وجودمیں لا تا ہے ۔ اور فنا کر تا ہے اور یہ کام ہمیشہ جاری ہے ۔پھراگرہر آن میں تاتمام عالم کو وجود عطا فرمایا کرے تو کیا بعید ہے ۔غرض کہ خدا ے تعالیٰ کے کاموں کو اپنے کاموں پر قیاس کرنا ہر گز صحیح نہیں ۔ ذات الٰہی ازلی اور قدیم ہے
{توحید}
اور تمام عالم حادث اگر ہم عالم کو فرض کریں کہ پچاس ہزار کڑوڑ یا ارب سال اس کو پیدا ہو کر ہوے تو اس ایک ہی اجمالی نظر میں وہ محدود ہو جا ے گا ۔ اور خدا ے تعالیٰ کی نسبت اس قسم کی نظر صحیح نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ جب کوئی مدت کتنی ہی طویل ہو مقرر کر کے کھیں کہ اتنی مدت سے اس کا وجود ہے تولازم آئے گا کہ اس سے پہلے اس کا وجودنہ تھا جس سے اس کا حاد ث ہو نا ثابت ہوگا اور جو چیز حادث ہو اس کے پیداہونے کے لئے سب در کار ہے جس کو علت کہتے ہیں ۔اور جو پیدا ہونے میں علت کا محتاج ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا خدا ے تعالیٰ تو وہی ہے جو سب کو پیدا کرے ۔ اور اس کا وجود لذاتہ ہو ۔یعنی کسی کا دیا ہوا نہ ہو ۔غرض کہ خدا ے تعالیٰ کے وجود کے لئے کوئی مدت مقررنہیں ہوسکتی ۔او رجتنی جتنی چیزیں اس کے سوا ہیں سب کے لئے کچھ نہ کچھ مدت مقررہے تو غور کیجئے کہ یہاں کس قدر حیرانی ہو تی ہے ۔کیونکہ ہر چیز کی پیدایش کے سبب اور علت کو عقل ضرور تلاش کر تی ہے۔اور یہاں سبب مذ ارداور نیز عقل یہ بھی حکم کرتی ہے کہ جو چیز وجود میں آئے اسکے لئے ابتدا ضرور ہوگی ۔کروڑ ہا سال کیوں نہ ہوں مگر یہاں ابتدا ندارد ۔پھر جس طرح ذات الٰہی تمام عالم سے نرالی اور کسی بات میں کسی کے مشابہ نہیں تو اسی طرح صفاتِ الٰہی بھی تمام اہل عالم کے صفات سے ممتاز اور نرالے ہیں ۔
{صفاتِ حق تعالیٰ تشبیہ سے منزہ ہیں }
کیونکہ جس طرح ہر چیز کا وجود بغیر تخلیق خالق کے نہیں اسی طرح اس کے صفات بغیر تخلیق کے وجود میں نہیں آسکتے۔بخلاف صفاتِ الٰہیہ کے کہ ان کاکوئی خالق نہیں ۔ بلکہ وہ سب مقتضاے ذاتِ الٰہی ۔ اور ہر قسم کے نقص سے مبریٰ اور منزہ ہیں ۔الغرض خدا کی صفتِ تخلیق یعنی معدومات کو وجود دینا اس نقص سے مبریٰ ہے کہ وہ کثرتِ کارسے معاذ اللہ تھک جا تاہے۔ اسی کودیکھ لیجئے کہ آدمی اپنی باتوں کو شمار کرنا چاہے تو گنتے گنتے تھوڑی دیر میں تھک جائے گا ۔ اور خدا ے تعالیٰ ان کوہر آن میں برابر وجود دیتا ہے اس سے ہمارا مقصود تبحددامثال والا وجود نہیں بلکہ وہ وجود ہے جو معدومات محضہ کو عطا ہو تا ہے ہر آن میں وجود دینا اس سے ثابت ہے کہ جو مھذب لوگ ہر روز اصلاح بناتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک روز میں بال کچھ نہ کچھ نمایاں ہو جا تے ہیں ۔اوراورجو صفائی اصلاح بنانے سے ہوتی ہے اس میں فرق آجا تا ہے ۔اب فرض کیجئے کہ ایک روز میں خشخاش کے مقدرا میںوہ بڑھ جا تے ہیں پھر جو بیس ساعت میں جب وہ اس مقدار میں بڑھیںتو یہ تونہیں ہوسکتا کہ چوبیس ساعت تک وہ نمو یعنی بڑھنے سے رکے رہے ۔ اورچوبیس ساعت کے گزرتے ہی یکایک اس مقدار میں بڑھ گئے بلکہ یہ کہنا پڑے گا کہ ہر ساعت میں خشخاش کے مقدار کے چوبیسویں حصے کے مقدار میں وہ بڑھتے ہیں اسی طرح یہ بھی کہنا پڑے گا کہ جس قدر ایک ساعت میں وہ بڑھے ہیں ایک منٹ میںاس کا ساٹھواں حصہ بڑھے پھر یہ بھی کہنا پڑ گا کہ جس قدر وہ ایک منٹ میں بڑھے ایک سکنڈ میں اسکا ساٹھواں حصہ بڑھے ۔ اسی طرح ثالثہ را بعہ وغیرہ میں کسی خاص مقدار میں بڑھتے رہے ۔اب غور کیجئے کہ جو چیز چوبیس ساعت میںخوشخاس برابر بڑھے گی ثالثہ اور رابعہ میں اس کابڑھنا کس قدر کم کم ہوگا ۔صرف ایک سکنڈ میں خشخاش کے چوبیسویں حصے کا پچھتر ہزار آٹھ سو چالیسواں حصہ ہوگا ۔اب قیاس کیجئے کہ ایک آن میں اس کابڑھنا کس مقدار میں ہوگا ۔ معلوم نہیں خشخاش کا پدم واں حصہ ہوگا یا سنکہوں یااس سے بھی کم ۔کیونکہ آن ایسے طرفِ زمانہ کا نام ہے کہ زمانہ اس کا جزو نہ ہو سکے۔ بلکہ جو زمانہ فرض کیا جاے اس کا آخری حصہ جو متجر ی نہ ہو سکے وہ آن ہے جس طرح خط سطح کا آخری حصہ ہے جس کے عرض میں جز نہیں نکل سکتا الحاصل ایک آن میں بال ایسے کم مقدار میں بڑھتا ہے کہ اس کا محسوس ہونا تو درکنار عقل سے بھی اس کا ادراک دشوار ہے ۔حق تعالیٰ کا ہی کام ہے کہ ہرآن میں اتنا کم مقدار حصہ ہر بال کے برا بر وجود میں لا تا ہے ۔اور تھکتا نہیں اگر سائینس کی شہادت سے ہرقطرے میں پیدا ہونے والے حیوانات کا وجود ثابت نہ ہوتا توکبھی اس تقریر کی تصدیق نہ کی جاتی جب بتائید سائینس عقل سے ثابت ہوگیا کہ تجدد امثال کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کو عقل نہ مان سکے ۔ اور روایات متواترہ سے ثابت ہوا کہ شق قمر ہو کے دو تکڑے دو پھا ڑوں پر ے تو عقل کی روسے اس کی تصدیق کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ۔
سیرۃ النبویہ ص ۲۹۵ میں ابو ذرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہائی کا وقت تلاش کیا کرتا تھا ۔ایک روز میں حاضر ہوا ۔دیکھا کہ حضرتؐ تنہا ہیں میںنے اس وقت کو غنیمت سمجھ کر سلام کیا ۔ آپ نے میرا جواب دے کر فرمایا اس وقت کون چیز تمہیں یہاں لائی میںنے عرض کیا خدا اور رسول فرما یا بیٹھ جائو میں حضرتؐ کے بازو بیٹھ گیا مگر ایسی حالت میں کہ نہ میں کچھ عرض کرسکا اورنہ حضرتؐ نے کچھ فرمایا ۔ تھوڑی دیر کے بعد ابوبکر ؓ بہت جلد جلد آئے اور سلام عرض کیا۔حضرتؐ نے ان کا جواب دے کر فرما یا کون چیز تمہیں اس وقت لائی ۔ انہوں نے کہا خدا اور سول ۔حضرت ؐ نے بیٹھنے کے لئے اشارہ فرما یا وہ بیٹھ گئے ۔ پھر عمر ؓ آئے اور اسی طرح سلام وجواب اور بیٹھنے کا اشارہ فرمانے کے بعد ابوبکرؓ کے بازو بیٹھ گئے۔ ان کے بعد عثمانؓ آئے بعدسلام و اجازت وہ بھی عمر ؓکے بازو بیٹھ گئے ۔آنحضرت ؐ نے چند کنکریاں زمین سے اٹھائیں وہ حضرتؐ کے دست مبارک میں تکبیر کہنے لگیں ان کی آواز شہد کے مکھیوں کی آواز کے مشابہ تھی ۔پھر حصرتؐ نے ان کو زمین پررکھ دیا اور وہ خاموش ہوگئیں ۔ پھرانکو ابوبکرؓ کو دیا ان کے ہا تھ میں بھی انہوں نے تسبیح کہی ۔پھر ان سے لے کرزمین پر رکھ دیںاور وہ خاموش ہوگئیں ۔پھر عمرؓ کودیا ۔ ان کے ہاتھ میں تسبیح پڑھی۔ پھر ان سے لے کر زمین پر رکھ دیں ۔اوروہ خاموش ہوگئیں پھر عثمان ؓ کے ہاتھ میں رکھا وہاں بھی انھوں نے تسبیح کی۔ پھر ان سے لے کر آپ نے زمین پر رکھ دیں اور وہ خاموش ہوگئیں ۔ پھر ہمارے ہاتھ میں دیں مگر انھو ں نے تسبیح نہیں پڑھی انتہیٰ ملحضاً۔
حضرتؐ کے اور صحابٔہ کبار کے ہاتھ میں کنکر یوں کا تسبیح پڑھنا اور دوسر وں کے ہاتھ میں نہ پڑھنا بے سبب نہ تھا ۔ تعجب نہیں کہ صحابۂ کبار کو ممتاز فرما دینا آنحضرت ؐ کو ملحوظ ہو ۔ یا وہ قدرتی انتطام تھا ۔بہر حال جہاں جہاں ان کنکریوں نے تسبیح پڑھی وہ دست مبارک کا اثر تھا ۔ جس نے انھیں ناطق اور گویا بنا دیا تھا ۔اور نہ پتھر وں کو کلام سے کیانسبت ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جمادات کو بھی حضرتؐ ناطق بناتے تھے اور حیوان چونکہ ناطق کی جنس ہے اس لئے کہ جب تک کوئی چیز زندہ نہ ہو ناطق نہیں ہو سکتی۔اس لئے وہ حیوان بھی ہو گئیں۔ اور ظاہر ہے کہ ادراکا ت حیات کے لوازم ہیں اور ان لوازم کا ثبوت اس طرح ہوا کہ کنکریوں نے حضرتؐ کے دست مبارک کا ادارک کیا ۔ اور جو مقصود حضرتؐ کا تھا ا س کی پوری طورسے تعمیل کی ۔ اس سے ان کامدرک ہو نا بھی ثابت ہوا ۔ اگر یہاں یہ کھا جا ے کہ جمادات و نباتات کو ادراک نہیں ہوتا ۔اور یہاں کنکریوں کا تسبیح کہنا معجزہ تھا ۔ جس کا وجود ان سے ظہور میں آیا ۔خواہ ان کو ادراک ہو یا نہ ہو ۔
ا س کا جواب یہ ہے کہ دوسرے احادیث سے ثابت ہے کہ پتھر اور درخت حضرتؐ پرسلام کر تے اور خدا ے تعالیٰ سے درخواست کر کے سلام کو آتے تھے جیساکہ سیرۃ النبویہ ص ۲۹۱ میںیعنی ابن مرہ ؓ سے راویت ہے وہ کہتے ہیں کہ کسی سفرمیں ہم آنحضرتؐ صلی اللہ علیہ سلم کے ہمرا ہ تھے ۔ایک مقام میں حضرتؐ فرد کش ہوا کر آرام فرماے ۔ ایک درخت زمین کو چیرتے ہوے آیا اور حضرت ؐ کو گھیر لیا اور ایک روایت میں ہے کہ حضرتؐ کا طواف کر کے اپنے مقام پر چلا گیا جب حضرتؐ بیدار ہوے میںنے یہ واقعہ عرض کیا ۔ فرمایا ا س درخت نے خداے تعالیٰ سے درخواست کی کہ مجھ پر سلام کرے ۔چنانچہ اس کو اجازت ملی۔انتہیٰ ۔
اس سے ا س درخت کا ادراک ثابت ہو تا ہے کیونکہ پہلے اس نے آنحضرت ؐ کو پہچان لیا کہ آپ رسول اور مقبول بارگاہ الٰہی ہیں ۔ اس کے بعد یہ بھی سمجھا کہ حضرتؐ پر سلام عرض کرنا باعثِ سعادت ہے ۔پھر بارگاہ الٰہی سے اجازت طلب کرنی اور بعداجازت سلام اورطواف کرنایہ سب امورایسے ہیں کہ بغیر ادراک کے ان کا وجود ممکن نہیں ۔
اور سیرۃ البویہ ص ۲۹۳ میں علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے آپ فرما تے ہیں کہ میں آنحضرت ؐ کے ساتھ مکہ میں رہا کر تا تھا۔ایک وقت ہم کسی طرف نکل گئے دیکھا کہ جو درخت یا پتھر سامنے آتا وہ عرض کرتا السلام علیک یا رسول اللہ۔ انتہیٰ ۔
اسی قسم کے اور روایتیں بکثرت وارد ہیں غرض کہ جمادات و نبا تات کا ادارک بہت سے روایتوں سے ثابت ہے جو حد تواتر مصنوی کو پہنچ گئے ہیں ۔
{ٹھوکر سے چشمہ طاری ہوگیا }
سیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ ابوطالب ؓ کہتے ہیں کہ ذی المجا ز عرفہ کے قریب ایک بازارتھا کہ جاہلیت میں لوگ وہاں جمع ہوا کر تے تھے ۔میں وہا ںگیا مجھے وہا ںپیاس لگی ۔میں نے اپنے بھتیجے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیا س کی شکایت کی ۔ آپ سواری سے اترگئے ۔ اور کہا اے چچا کیا تم پیاسے ہو ۔میں نے کہا ہاں ۔انھوں نے زمین پراپنی ایڑی ماری یکا یک پانی نکل آیا ۔او رکہاکہ اے چچا پیو ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
یہ قدم مبارک کا اثر تھا کہ زمین نے قدم مبارک کے اشارے کو سمجھ کر پانی کا چشمہ بھا دیا ۔
{کھانے میں برکت}
سیرۃ النبویہ میں انس ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح زینب بنت حجش ؓ سے ہوا ۔ تومیری ماں ام حکیم نے کہا کہ ہم اس وقت کچھ ہدیہ حضرتؐ کی خدمت میں بھیجیں تو اچھا ہوگا ۔ میں نے کہا مناسب ہے وہ انہیں اور رحیس جو کھجور اور گھی اور پنیر سے بنایا جا تا ہے تیار کر ا کر ایک برتن میں ڈالا اور مجھ سے کہا کہ حضرتؐ کی خدمت میں پہنچا کر یہ عرض کرو کہ میری ماںنے یہ آپ کی خدمت میں بھیجا اور سلام عرض کیا ہے ۔ حضرتؐ نے فرمایا اس برتن کو رکھ دو اور جا کر فلاں فلاں شخصوں کو بلا لائو اور ان کے سوا جن سے ملاقات ہو ان کو دعوت دے دو ۔ چنانچہ تین سو سے زیادہ آدمی جمع ہوگئے حضرتؐ نے اس کھانے پر ہاتھ رکھا کچھ فرمایا اس کے بعد دس دس آدمی کو بلا تے اور ان سے فرما تے کہ بسم اللہ کھ کر اپنے سامنے سے کھائو۔چنانچہ سب لوگوں نے بسیری تما م کھا لیا ۔ پھر مجھ سے فرمایا اے انس ؓ اس کو اٹھائو میں نے اٹھایا ۔مگر مجھے یہ معلوم نہ ہوا کہ جس وقت رکھا تھا وہ زیادہ تھا یا جس وقت اٹھا یا وہ انتہیٰ ملحضاً ۔
تھوڑا سا کھا نا جو تین چار آدمی کے لئے کفالت کر سکے اس کا تین سو(۳۰۰)سے زیادہ لوگوں کو کفایت کرنا کس قدر حیرت انگیز ہے ۔مگروہاں ایک معمولی بات ہوگئی تھی ۔کیونکہ بارہا اس قسم کے واقعات صحابہ دیکھ چکے اور ہمیشہ دیکھتے تھے اس لئے جو تعجب ہونا چاہئے تھا ان کو نہ ہوا ۔ اور سوا چند صحابہ کے ان تین سو (۳۰۰) شخصوں میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا ۔ جس طرح معمولی دعوتوں کا ذکر نہیں کیا جاتا اب اس لحاظ سے کہ کل را ویوں سے یہ معجزہ مروی نہیں قابل اعتبار نہ ہو تو بخاری و مسلم کے اعتبار میں خلل آجا ئے گا ۔ کیونکہ ان میں یہ روایت موجود ہے اگریہ روایت صحیح نہ مانی جاے تو بخاری و مسلم وغیرہ کی روایت کو غیر معتبر کہنا پڑے گا جو خلاف مذہب اہل سنت و جماعت ہے ۔اوریہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے ایک جماعت کثیر سے یہ روایت مروی ہو ۔ مگر جو حدیثیں کہ تلف ہوگئیں ان میں یہ روایتیں بھی تلف ہوگئیں ہو ں ۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ بہت سی روایتیں تلف ہو گئی ہیں جس کا حال ہم نے حقیقتہ الفقہ میں بیان کیا ہے ۔اسی قیاس پردوسرے معجزات کی روایتوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے ۔
اس حدیث شریف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام کن عطا ہونا ثابت ہو تا ہے ۔
{تھوڑا کھانا حضرت کی شرکت سے بہت سے صحابہ کو کافی ہو کر بچ رہنا }
خصائص کبریٰ میں صہیب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرتؐ کے لئے تھوڑا کھانا پکایا۔ اور بلانے کے لئے حاضر ہوا ۔ دیکھا تو صحابہ کی ایک جماعتِ کثیر میں تشریف رکھتے ہیں ۔ مارے شرم کے کچھ کہہ نہ سکا ۔ اور خاموش کھڑا رہا جب حضرتؐ نے میرے طرف دیکھا میںنے اشارے سے کھا نے کو چلنے کے لئے کیا ۔حضرتؐ نے فرمایا اور یہ لوگ میںنے کھا نہیں حصرتؐ خاموش ہوگئے ۔ اور میں اسی مقام میں کھڑا رہا ۔پھرجب حضرتؐ نے میری طرف نظر کی میں نے وہی مضمون اشارے سے پھر ادا کیا ۔اور حضرتؐخاموش رہے ۔ اور دوسرے یا تیسرے وقت میں نے حضرتؐ کے جواب میں کھا ۔ بہت اچھا ۔ یعنی ان کو بھی لے چلئے ۔مگر ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دیا کہ خاص آپ کے لئے تھوڑا سا کھانا پکا یا ہے ۔حضرت ؐ ان سے صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے ۔اور اچھی طرح سے کھایا ۔اور کھانا بچ رہا ۔ انتہیٰ ۔
بار بار صہیب ؓ کا اصر ار کہ تنہا تشریف لے چلیں اور آنحضرتؐ کا ہر بار انکارکہ جب تک سب صحابہ نہ چلیں میں تنہا نہ آئو نگا۔ایک عجیب لطف خیزواقعہ ہے بظاہر جب مدعو صرف حضرتؐ تھے ۔صہیب ؓکا حق تھا کہ ان کو ہمراہ لا نے کی اجازت نہ دیں ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصرارا ان کے برخلاف۔گوان کا جواب تھا کہ تم ان کو اپنے گھر سے کھانا تھوڑا ہی کھلائو گے ۔ وہ تو تمہارے طفیلی ہیں ۔ ہم اپنے حصے میں سے ان کوکھلا دیں گے ۔ جس میں کوئی تمہا را حق نہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ ان سے صحابہ کو حضرتؐ نے اپنے حصے میں شریک کر کے بسیری تمام کھلادیا ۔ اور صاحب دعوت بھی نیک نام ہوگئے ۔
ہر چند کسی کے طفیل میں کسی چیز کوحاصل کرنا بدنما سمجھا جا تا ہے ۔اور غیور طبائع ا سکو پسند نہیں کر تے ۔مگرایسی طفیایت اگر حاصل ہو تو غیور طبائع کو بھی ناگوار نہیںہو سکتا ۔ جب ایک غریب صحابی کی دعوت میں آنحضرتؐ نے بغیر طفیلیوں کے تشریف لے جانے کو گوارا نہیں فرمایا تو خداے تعالیٰ جو غنی مطلق ہے ا س کو خوانِ نعمت پر تنہا جانے کوحضرتؐ کیونکر گوارا فرمادیں گے ۔ اور ہمیں قوی امید ہے کہ ہم طفیلیوں کو بارگاہ الٰہی میں شعر
کہ باشند مشتے گدایانِ خیل
بمہمانِ داراسلامت طفیل
ضرور حضرت ہمراہِ رکاب رکھیں گے ۔مگر یادرہے کہ طفیلی ہونا بھی آسان نہیں ۔ صرف زبان سے کہہ دینا کا فی نہیں ہوسکتا ۔اور دلی عقیدت اور نسبت طفیلیت ثابت ہونے کی ضرورت ہے ۔
یہاں ایک بات او رمعلوم ہو ئی کہ ہر فعل آنحضرت کا سنت نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ اس قسم کیاامور خصوصیات حصرتؐ سے تھے۔حضرتؐ کو اس بات کا اطمینان تھا کہ تھوڑا کھانا سب کو کافی ہو جائے گا ۔بخلاف اس کے بعضے مشائخین ہمارے زمانے کے کسی کی دعوت میں جب تشریف لے جا تے ہیں تو اکثر طفیلیوں کو ہمراہ لے جا تے ہیں جس سے صاحبِ دعوت پر ایک مصیبت ہو تی ہے کہ اگران طفیلیوں کو کھانا کھلا یا جاے تودعوتی لوگ بھوکے رہ جا تے ہیں ۔ اوراگر نہ کھلا یا جائے تو حضرت خفا ہو جا تے ہیں۔ چنانچہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسے طفیلیوں کی شان میں حدیث شریف وارد ہے جس کا مضمون یہ ہے ۔’’کہ وہ جو کھا تے ہیں حرام ہے اور وہ کھانے والے غاصب اور سارق ہیں ‘‘۔(مشکوۃ شریف)
دیکھئے کس قدر فرق ہے کہ وہاں تو طفیلیوں پر رحمت تھی ۔ اور یہاں طفیلیوں پر لعنت ہے ۔غرض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کام سنت نہیں ہوسکتا ۔بلکہ بعض صورتوں میں ان کا عمل کرنا گناہ ہو جا ے گا ۔
{تھوڑے سے کھجور سے کثیر مقدار قرض اداہوا }
سیرۃ النبویہ میں جا بر ابن عبدا للہ ؓ سے روایت ہے ۔ جب جنگ احد میںان کے والد شہید ہوے تو ان کے قرضداروں نے تقاضا کیا ۔انھوں نے اپنے والد کا باغ ونخلستان ان کے قرضے میں دینا چاہا ۔مگر چونکہ قرضہ بہت تھا اورکئی سال میں بھی اس سے ادانہیں ہوسکتا تھا اسلئے انھوں نے قبول نہیں کیا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں کے پاس سفارش بھی کی ۔مگر چونکہ وہ یہود تھے راضی نہ ہوے حضرتؐ نے جابرؓ سے فرما یا کہ کھجوریں توڑ کے درختوں کے تلے ان کے ڈھیر لگا دو ۔ اس کے بعد آنحضرت ؐ اس زمین میں جہاں خرما کے ڈھیر لگا دئے تھے چلے اور دعا کی کہ ان میںبرکت ہو ۔جابرؓ نے قرضداروں کو دیناشروع کیا اور اتنا دیا کہ ان کا قرض پوراادا ہوگیا ۔ اور وہ خرمے اس قدر باقی رہے جو ہرسال ان کے تصرف میں آتے تھے۔یہود کو اس سے تعجب ہوا ۔جابرؓ سے حضرتؐ نے فرمایا کہ ابوبکر اور عمر ؓ کو اس واقعہ کی خبر دے دو ۔انتہیٰ۔
یہ قدمِ مبارک کی برکت ہے کہ جوقرضہ سالہا سال کی پیدا ورا میں اس کا ادا ہونا مشکل تھا کل ادا ہوگیا ۔ اور اس قدر کھجوریں باقی رہیں جو ہرسال ان کو ملا کرتی تھیں ۔ گویا ادائی قرضہ میں انھوں نے گھر سے کچھ بھی نہ دیا ۔کیونکہ جتنی کھجوریں ان کوہرسال ملتی تھیں ملیں اور قرضہ کثیر جس کی ادائی سالہا سال میں ہونی دشوار تھی مفت میں ادا ہو گیا ۔ یہاں یہ امر بھی توجہ کے قابل ہے کہ اس قدرتی ادائی کے بعدآنحضرت ؐ نے جابر ؓ کو فرمایا کہ ابوبکر اور عمر ؓکو اس کی خبرکر دو ۔ ظاہر اکسی قسم کی ضرورت ان حضرات کے معلوم ہونے کی کوئی نہ تھی ۔کیونکہ وہ اس معاملہ میں نہ ضامن تھے نہ اس ادائی کے محرک ۔ادنے ٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ آنحضرتؐ کو منظور تھا کہ خاص طورپر ان کو اس معاملہ کی اطلاع ہو ۔ کیونکہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایسا کوئی فعل ظہور میں آتا ہے تو مقتضائے طبیعت بشری ہے کہ اپنے دوست کو ا س امر کی اطلاع کرکے خوش کیا جاے ۔ بخلاف اس کے کہ کسی شخص کا دل اپنے سے صاف نہ ہو تو ایسے خوش کن معاملات کی اطلاع دینے کو جی نہیں چاہتا ۔کیونکہ ہو ایسے امور میں بجاے خوش ہو نے کے ایسے توجیہات اور تا ویلات کرتا ہے ۔ جس سے وقعت اس معاملے کو گھٹ جا تی ہے۔
{شناخت محبت ومخالفت}
ا س کا تجربہ بہ آسانی یو ں ہوسکتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فضائل کسی مجلسِ وعظ میں بیان کئے جائیں توجن لوگو ں کوآنحضرتؐ کے ساتھ عقیدت اور محبت ہے وہ نہایت درجے خوش ہوں گے ۔ اورجن لوگوں کے دل میں صفائی نہیں ان کے چھروں سے یہ بات نمایاں ہو گی کہ اس بیان کو پسند نہیں کر تے بلکہ بعض راست گو تو صاف کھدیں گے کہ وعظ کو ان چیزوں سے کیا تعلق ۔ اس میں تو احکام بیان کرنا چاہئے ۔ تاکہ مسلمانوں کو کچھ فائدہ اور عمل کی توفیق ہو ۔
ایک حد تک یہ خیالات بھی صحیح ہیں ۔ اور واعظوں کواس کا خیال رکھنا ضرور ہے مگر یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ حضرتؐ کے فضائل بیان کر نے سے مسلمانوں کو فا ئدہ نہیں ۔کیونکہ جب اپنے نبی کے فضائل اور معجزات وہ سنیں گے توان کی محبت بڑھے گی۔ جو باعث تکمیل ایمان ہے اورجب ایمان اور محبت کامل ہوتو عمل کرنا بھی آسان ہوجائے گا ۔کیونکہ اپنے محبوب کی اطاعت کرناانسان بلکہ حیوان کا بھی مقتضاے طبع ہے ۔ غرض کہ جو لوگ آنحضرت ؐ کے فضائل میں کلام کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ حضرتؐ ہمارے بھائی تھے ۔
جس سے مقصود یہی ہو سکتا ہے کہ حصرتؐ کے مرتبے کو لوگوں کے خیال میںپست کرکے اپنے ساتھ مساوی ثابت کریں۔ان کوحضرتؐ کے فاضائل سے وحشت ہوتی ہے اوروجوہات قائم کرکے اس سے لوگوںکو روک دینا منظور ہوتا ہے ۔ الحاصل آنحضرت ؐ نے یہ واقعہ صدیق اکبراور عمرفاروق ؓ سے ذکر کرنے کو فرمایا تاکہ وہ خوش ہوں ۔ ہر چند کل صحابہ ایسے واقعات سے نہایت خوش ہو تے تھے ۔ مگر حضرتؐ نے ان دونوں صاحبوں کی تخصیص اس وجہ سے کی کہ بہ نسبت اوروں کے ان حضرات کو زیادہ تر خصوصیت حاصل تھی ۔ اس تخصیص سے دونوں صاحبوں کی فضیلت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
{بکری کے پاٹ سے دودھ دوھنا }
سیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ عبد اللہ ابن مسعودؓ کم عمر ی میں عقبہ بن ابی معیط کے بکریاں چرا تے تھے ۔ ایک بار ان پر آنحضرت ؐ اور ابوبکرؓ کا گذرہوا ۔ حضرتؐ نے ان سے فرمایا کہ تمھارے پاس دودھ ہے کھا ہاں لیکن میں امانت داہوں ۔حضرتؐ نے فرمایا کہ ایک ایسی بکری لائو جس پر ترنہ چڑ ھاہو ۔ میں ایک کم عمر بکری لایا ۔ حضرتؐ نے اس کے پائوں باندھے اور اس کے تھن پردست مبارک پھیرا اورابوبکرؓ ایک برتن لائے اور اس میں اس کادودھ دوھا ۔ حضرتؐ نے ان سے فرمایا کہ پیو اس کے بعد تھن کے طرف مخاطب ہو کر فرما یا کہ سمٹ جا چنانچہ وہ فوراً سکڑگیا ۔ یہی واقعہ عبد اللہ ابن مسعود کے اسلام کا سبب ہوا ۔انتہیٰ۔
{بکری کے تھن کو حضرت ؐ نے حکم فرمایا }
با وجود یکہ عقبہ کی بکری کا یہ دودھ تھا مگر ا س کی ملک نہ تھا ۔ورنہ حصرتؐ کبھی اس میں تصرف نہ فرما تے ۔کیونکہ اس کی تخلیق بطور عادت نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ بغیر توالد کے دودھ پیدا ہوگیاتھا ۔ جس کا سبب صرف آنحضرت ؐ کا دست مبارک تھا ۔نہ معمولی ذرائع پیش ازیں نیست کہ وہ بکری اس قدرتی دودھ کا ظرف ہوئی تھی ۔ اگر کھا جاے کہ کل بکریاں دودھ کے ظرف ہی ہوتی ہیں اور دودھ مخلوق الٰہی ہے ۔پھر ملک حضرتؐ کی کیسی ۔ ا س کا جواب یہ ہے کہ چونکہ تخلیق خاص قسم کی ہوئی ۔اس لئے احکام ملک بدل گئے ۔ اور وہ دودھ آنحضرتؐ کی ملک ہوگیا ۔ کیونکہ حق تعالیٰ نے آنحضرت ؐ کے دست مبارک کو اس کا واسطہ قرار دیا۔ ا سکا حال بعینہ اس پانی کا سا ہے جو بھری پکھال سے بتصرف نبوی جا ری ہوا ۔ حالانکہ وہاں پانی اس عورت کی ملک تھا ۔جو پکھال میں بھر کر گھرلے جا رہی تھی جس کا حال رسالہ میں معلوم ہو گا ۔ ہر چند بظاہر پانی بھری پکھا ل میں س گررہا تھا ۔مگر یہ پانی جو حضرت ؐ کی ملک میں تھا جس کے پینے اور مشکیں بھر نے کی اجازت آ نے دی تھی ۔ وہ پانی اس مشک کے پانی سے باکل علحدہ تھا ۔ کیونکہ اگرسابق کا پانی اس کے ساتھ مخلوط ہو تا تو حضرتؐ اس میں ہرگز تصرف نہ فرما تے ۔ اس لئے کہ اپنی اور غیر کی ملک جب مخلوط ہو جا تی ہے تو مقتضاے تقویٰ یہی ہے کہ اس میں مالکا نہ تصرف نہ کیا جاے ۔ غرض کہ جس طرح حضرتؐ نے تصرف سے نیا پانی اس مشک میں پیدا فرمایا اسی طرح ا س کا بھی انتطام فرما دیا کہ وہ پانی با وجود شدت اتصال کے اس میں مخلوط نہ ہونے پائے ۔ اور یہ کوئی مستبعدامر نہیں ۔ قدرتی معاملات سب ایسے ہی ہو تے ہیں دیکھئے دماغ میں جو رطوبت ہو تی ہے ا س میں تین چارنہریں بہتی ہیں ۔ جو منہ میں آتی ہے اس کا ذائقہ شیریں ہوتا ہے ۔ اور جو آنکھ میں آتی ہے اس کا ذائقہ ہی جدا ہے او رجو نا ک میں آتی ہے اس کا ذائقہ ہی کچھ اور ہے ۔ اور کبھی کانوں سے بھی پانی نکلتا ہے اس کا ذائقہ ہی دوسرا ہے ۔با وجود باہمی اختلاط کے جو دماغ میں ان کو تھا ایک دوسرے سے ممتاز ہیں ۔ علیٰ ہذا القیاس کا لبدانسانی میں اگر غور کیا جائے تو اس قسم کے تعجب خیز صدہا امور پیش ہو جائیں گے ۔
{چند روٹیوں میں برکت }
سیرۃ النبویہ میں انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز ابو طلحہ ؓ نے اپنی بیوی ام سلیم ؓ سے کھا کہ آج آنحضرت ؐ کی آواز میں نے سنی اس میں بھوک کی وجہ سے کچھ صعف پایا جا تا تھا ۔ کیا تمھا رے پاس کوئی چیز ہے ۔ جس کو حضرت ؐ تناول فرما دیں ۔ انھو ںنے کھا ہاں۔ اور چند روٹیاں جو کی نکالیں اور ایک کپڑ ے میں لپیٹ کر فرزند انسؓ کے بغل میں چھپا دیں اور کھا کہ حضرتؐ کی خدمت میں لے جائو ۔انس ؓ کہتے ہیں کہ وہ لے کر میں چلا ۔ دیکھا کہ حضرتؐ مسجد میں تشریف رکھتے ہیں ۔ اورآپ کے ساتھ بہت لوگ ہیں ۔ میں سلام عرض کر کے کھڑا ہو گیا ۔ حضرتؐ نے فرما یا کیا ابو طلحہ ؓنے تمھیں بھیجا ہے میں نے عرض کیا ہاں ۔ پھر فرمایا کیا کھانے کے لئے ۔ عرض کیا ہاں یہ سنتے ہی حضرتؐ نے تمام صحابہ سے فرما دیا کہ چلو ۔ چنانچہ حضرتؐ اور آپ کے ساتھ ستر (۷۰)یا اسی (۸۰)آدمی روانہ ہوے ۔ میں نے نہایت غم کی حالت میں آگے جا کے ابوطلحہ ؓ کو اس واقعہ کی خبر دی ۔ یہ سن کر انھوں نے کھا اے انس ؓ تونے ہمیں رسوا ہی کردیا ۔ اور پتھر ام سلیم ؓ سے کھا کہ حضرتؐ بہت لوگوں کے ساتھ تشریف لا ئے ہیں ۔او رہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو ان سب کو کھلا سکیں ۔ انھو ں نے کھا خدا اور خدا کا رسول ہماری حالت کو خوب جانتا ہے ۔ ابوطلحہ ؓ حضرتؐ کے استقبال کے لئے آئے اور عرض کی کہ میں نے انسؓ کو اس غرض سے بھیجا تھا صرف آپ کو بلا لائیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے ان سب کو کھلا سکیں ۔ فرمایا اللہ اسی میں برکت دے گا ۔ اور حضرتؐ ابوطلحہ ؓ کو لے کر ام سلیم ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا اے ام سلیم تمھارے پاس کوکچھ ہولے آئو ۔ وہ وہی روٹیاں لائیں جو انسؓ کے ساتھ بھیجی تھیں ۔ حضرتؐ نے ان کو تکڑے کر نے کاحکم دیا اور فرمایا کیا کچھ گھی بھی ہے ۔ابوطلحہ ؓ نے کھا کپی میں کچھ تھوڑا سا ہے ۔چنانچہ حضرتؐ نے اس کو اپنی انگلی سے روٹی پرچُپڑ دیا اور وہ روٹی پھول گئی ۔ اوربسم اللہ فرمایا ۔ اسی طرح تمام روٹیوں کو گھی چپڑ دیا ۔ اور سب پھول گئیں اور وہ گھی بمنزلۂ سالن ہو گیا ۔اور فرمایا د س دس شخصوں کو بلا تے جائو چنانچہ ستر (۷۰)یا اسی (۸۰)آدمی نے سیری سے کھایا ۔ اس کے بعد آنحضرت ؐ نے بھی گھر والوں کے ساتھ تناول فرما یا ۔ اور اس کے بعد بھی کچھ بچا رہا جو پڑ وسیوں میں تقسیم کیا گیا۔ انتہیٰ ۔
انسؓ کو اس وقت اس امر کا غم تھا کہ والدین سمجھ گئے ہیں ۔ کہ میں نے حضرت ؐ کی خدمت میں عرض کر نے میں کچھ علطی کی جس کی وجہ سے حضرتؐ مع صحابہ تشریف لائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ابوطلحہ ؓ نے ان پرپتھر پھینکے اور صاف کہہ دیا تم نے ہمیں رسوا کر دیا ۔ اس وقت دفعتہ آنحضرتؐ کا جماعتِ کثیر کے ساتھ مکا ن پر کھانے کے لئے تشریف لے جانے ان کے خیال کو اس طرف متوجہہ کیا تھا کہ ایسے معزز مہمان کی سربراہی نہ ہونا کہ کس قدر رسوائی اور مذامت کا باعث ہوگا ۔ اور یہی خیال ترقی پذیر ہوا ۔ اور فکر کی حالت طاری ہوئی ۔اور قاعدہ کی بات ہے جو حالت دل پر طاری ہو تی ہے اس وقت کسی دوسرے امر کی طرف توجہ نہیںہوتی ۔ اس وجہ سے ان کو یہ خیال نہیں آیا کہ آنحضرتؐ اپنے تصرف سے سب کچھ اہتمام فرما لیں گے اور خاص وجہ اس کی یہ تھی کہ انس ؓ کو بھیج کر حضرتؐ کو توجہہ دلائی تھی جس میں احتمال تھا شاید انس ؓ نے عرض کرنے میں کچھ غلطی کی ہے ۔ اس سے یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت ؐ کے تصرف معنوی میں انھیں کچھ شک آگیا تھا اس کی نظیریں بہت ساری مل سکتی ہیں ۔دیکھئے غزوۂ بد رمیں کفار کی کثرت اور شوکت کی وجہ سے آنحضرت ؐ پرجوحالت اضطراری طاری تھی اور صدیق ؓ نے حضرتؐ کو تسکین دی ۔ اس سے یہ لازم نہیںآتا کہ آنحضرت ؐ کو خداے تعالیٰ کے ایفا ے وعدہ میں کچھ شک آگیا ہو ۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔بلکہ اس وقت اس حالت خاص کا غلبہ تھا ۔ جس کی وجہ سے دوسرے طرف کچھ تو جہ ہی نہ ہوئی ۔ پھر ام سلیم ؓ نے جب استقلال کے ساتھ یہ کھا کہ حضرتؐ ہماری حالت کو خوب جانتے ہیں اس وقت ان کو تسکین ہوئی ۔ اور حضرت ؐ کو لینے کے لئے باہر آئے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ صحابہ ؓ حضرتؐ کے علم غیب کے قائل تھے ۔ اور بجاے اللہ اعلم کے اللہ و رسولہ اعلم کہنے میں ا ن کو کچھ تامل نہ ہوتا ۔چنانچہ اکثر صحابہ کا دستور تھا کہ ایسے موقعہ میں اللہ و رسولہ اعلم کھا کر تے تھے ۔جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے ۔ بحر حال ابو طلحہ ؓ کی وہ حالت مقتضاے بشری تھی جس نے حالتِ ایمانی کو مغلوب کر دیا تھا ۔
{گھوڑے کا تیز رفتار ہوجا نا }
سیرۃ النبویہ میں انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک باد مدینہ منورہ میں لشکرِ کفار آنے کی شہرت ہوئی ۔ اور سب گھبرا گئے آنحضرت ؐ ابو طلحہؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر بہ نفس نفیس واقعہ دریافت کر نے لئے روانہ ہوے جب واپس تشریف لاے تو بوطلحہؓ سے فرمایا کہ تمھارے گھوڑے کو ہم نے دریا پایا یعنی نہایت تیز رفتار حالانکہ یہ گھوڑا بہت سست اور مٹھا تھا ۔ حضرتؐ کے سورا ہونے کے بعد وہ ایسا تیز رفتار ہوگیا کہ کوئی گھوڑادوڑ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔انتہیٰ۔
یہ برکت آنحضرتؐ کی سواری کی تھی کہ اس کے اعصاب اور استخواں وغیرہ میں گویا نئی روح پھونکی اورجو اس کا مقتضائے طبعی تھا وہ جا کراس کی نئی طبیعت ہوگئی یہ سب جانتے ہیں کہ فطرت کسی چیز کی نہیں بدلتی ۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری نے اس کی فطرت کو بدل دیا ۔
{شریشر اونٹ مطیع اور ساجد ہوا }
خصائص کبریٰ ص (۵۷ )جلد دوم میں ثعلبہ ابن مالک سے روایت ہے کہ کسی شخص نے ایک اونٹ خرید کر کے ا س کو ایک محصور مقام میں داخل کیا ۔ جب اسے کام میں لگانا چاہا تو اس نے شرارت شروع کی ۔جب کوئی نزدیک جا تا تو اس پر حملہ کر تا ۔ یہ بات آنحضرتؐ کی خدمت میں عرض کی گئی ۔ آپ وہاں تشریف لے گئے ۔ اور فرمایا دروازہ کھول دو۔لوگوں نے عرض کی کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں آپ پر حملہ نہ کرے ۔ فرمایا کھول دو ۔ چنانچہ درواز ہ کھو ل دیا گیا جب اونٹ کی نظر حضرتؐ پر پڑی توفوراً سجدہ میں گرگیا ۔ یہ دیکھ کر قوم کو تعجب ہوا ۔اورعرض کی کہ جب یہ جانور آپ کو سجدہ کر تا ہے تو ہم زیادہ اس امر کے مستحق ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا کریں ۔ حضرتؐ نے فرمایا کہ یہ سزا وارہوتا کہ کوئی مخلوق کسی مخلوق کو سجدہ کر ے تو عورت کوسزا وار ہو تا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ اور اسی میں یہ روایت بھی ہے کہ
{شریر اونٹ مطیع بن گیا }
بریدہ ؓ کہتے ہیںایک انصاری نے آنحضرت ؐ کی خدمت میں آکر عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے یہاں ایک اونٹ ہے جو سخت حملہ کرتا ہے ۔اور کسی کی طاقت نہیں کہ اس کو نکیل لگا سکے ۔ یہ سنتے ہیں حضرت ؐ اوٹھے او رہم بھی حضرتؐ کے ساتھ ہو گئے اورحضرتؐ نے وہاں پہنچ کر دروازہ کھلوایا۔ اونٹ کسی قدر دور تھا جب حضرتؐ کو دیکھا تو نزدیک آکر سجدہ کیا اور گردن زمین پر رکھ دی ۔حضرتؐ نے اس کے سر کو پکڑ کر رسی طلب کی ۔ او راس کو مہار لگا کر انصاری کے ہاتھ میں دے دیا ابوبکر اورعمر ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ وہ پہچان گیا کہ آپ اللہ کے نبی ہو ۔ حضرتؐ نے فرمایا کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو نہ پہچانتی ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں ۔ صرف کفار جن وانس نہیں پہچانتے ۔
اور اسی میں انسؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری کا اونٹ سرکش ہو کر نکل گیا ۔ انھو ںنے کھا کہ وہ میری زمین سے اس پار ہے ۔ اورمجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے نزدیک جا سکوں ۔ اس ڈر کے مارے کہ وہ مجھے ہلاک کر دے گا ۔ حضرتؐ وہاں تشریف لے گئے ۔ جب اونٹ نے حضرتؐ کو دیکھا تو آہستہ آہستہ آواز کر تا ہوا حضرتؐ کے روبرو آکر سجدہ میں گر گیا ۔ اور گردن زمین پر رکھ دی ۔اور اس کے آنکھوں سے اشک جاری تھے ۔حضرتؐ نے ان انصاری سے فرما یا یہ اونٹ تمھاری شکایت کر تا ہے۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک رکھو ۔ صحابہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا یہ جانور جس کو عقل نہیں آپ کو سجدہ کر رہا ہے ہم تواس سے زیادہ مستحق ہیں ۔
اور اسی میں انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے اور آپ کے ہمراہ ابوبکر اور عمر ؓ اور بہت سے انصار تھے اس باغ میں کئی بکریاں تھیں ۔ حضرتؐ کو دیکھتے ہی بکریوں نے سجدہ کیا ۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ان بکریوں سے زیادہ تر ہمیں استحقاق اس امر کا ہے کہ آپ کو سجدہ کیا کریں ۔ حضرتؐ نے فرمایا میری امت میں کسی کو سزاوار نہیں کہ دوسرے کو سجدہ کرے ۔ اگرایسا ہو تا تو عورت کو حکم کرتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔
{چھڑی کی تحریک سے فطرت کا بدلنا }
سیرۃ النبویہ ص ۳۲۱ میں جابر ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرتؐ کے ساتھ غزوۂ ذات الرقاع میں تھا۔میرااونٹ تھک گیا ۔اتفاقاً آنحضرتؐ تشریف فرما ہوے اور پوچھا کہ تمھا را کیا حال ہے ۔میںنے عرض کی کہ میرا اونٹ تھک گیا اس سبب سے میں پیچھے رہ گیا تھا ۔ یہ سن کر حضرتؐ اوترپڑے اور اپنی چھڑی اس میں چھبو کر فرمایا اب سورا ہوجائو۔ اس تحریک کے اثر سے اونٹ اس قدر چست و چالاک ہوگیا کہ اس کا روکنا مشکل ہو ا ۔ پھر حضرتؐ نے اس کو خرید لیا ۔او ر جب واپس مدینہ تشریف لاے تواس کی قیمت معہ شئے زائد ان کودی ۔ اور وہ اونٹ بھی انہیں کو دے دیا ۔ انتہیٰ ۔
یہ برکت اسی چھڑی کی تھی جوآنحضرتؐ کے دست مبارک میں تھی ۔ گویا وہ چھڑی چبھو ناا س کی فطرت کو حرکت دینا تھا۔یوں تو جانور مارنے اور اذیت پہنچا نے سے تیز رفتار ہو جا تا ہے ۔ مگراسی وقت تک کہ اس میں درد موجودرہے جس کا تعلق ضرف جسم سے ہوتا ہے ۔ اورحضرت کا یہ فعل اس کے جسم تک محمدود نہ تھا بلکہ اس ک فطرت اور طبیعت پرعمل کرنے والاتھا ۔
{تبدیل فطرت }
سیرۃ النبویہ میںروایت ہے کہ جُعیل ابن زیاد کہتے ہیں کہ میں کسی غزوہ میں حضرتؐ کے ہمرا ہ تھا ۔ میری سواری میں ایک ضعیف اوردُبلی گھوڑی تھی جو چل نہیں سکتی تھی ۔حضرتؐنے جب مجھے دیکھا کہ میں بہت پیچھے رہ گیا فرمایا تمھاری کیا حالت ہے۔ میں نے عرض کی یہ گھوڑی دبلی اور ضعیف ہے جو چل نہیں سکتی ۔حضرتؐ کے دست مبارک میں جو چھڑی تھی اس سے آپ نے اسے مارا اور فرمایا باریک اللہ لک فیہا یعنی خدا ے تعالیٰ اس سے متعلق برکت تمھیں عطا فرما دے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ہر وقت سب کے آگے رہتا ۔ اور اسے روک نہیں سکتا تھا ۔ اور اس سے اتنی اولادہوئی کہ ان کی قیمت کے مجھے بارہ ہزار روپیہ ملے ۔انتہیٰ ۔
دبلی ضعیف گھوڑی بغیر اس کے کہ اس کو راتب اور مصالح کھلا یا جاے صرف اشارے سے اس کا چالاک ہو جانا اور ہمیشہ کے لئے اس کی چالاکی با قی رہنا تدبیر بشری سے خارج ہے ۔ یہ خاص خدا ے تعالیٰ کا کام ہے مگر ہوا یہ کہ ادھر آنحضرتؐ نے چھڑی ماردی اور ادھر حق تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوگیا اور جب تک وہ زندہ رہی اٰناً فاناً اس کے قویٰ کو وہ وجود ملتا رہا ۔جس سے چستی اورچالاکی ظہور میں آتی رہی ۔ اور اسی طرح حق تعالیٰ کے توجہ خاص اس کی اولاد کی طرف مبذول رہی ۔ تاکہ حضرتؐ نے جو برکت کی دعا دی تھی اس کا اثر پورے طورپر ہوا ۔ اگر غور کیا جا ے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت اس قسم کے واقعات سے با ٓسانی ثابت ہوسکتی ہے ۔ اگراس کی تفصیل کی جاے تو خوف اس امر کا ہے کہ بعض الفاظ ایسے صادر ہو جائیں جو منافی آداب ہوں ۔ اس لئے فقط وجدان پر حوالہ کر دیا جا تا ہے ۔
سیرۃ النبویہ ص ۳۲۲ میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات سخت تاریکی تھی ۔ اور پانی برس رہا تھا ۔آنحضرتؐ نے قتادہ ؓ کو درختِ خرما کی ایک چھڑی دے کر فرمایا کہ تم یہ لے کر جائو ۔ یہ روشن ہو جا ے گی او راس کی روشنی دس ہاتھ آگے اوردس ہاتھ پیچھے پڑے گی ۔ جب تم اپنے گھر میں داخل ہو جائو گے تو ایک سیا ہ چیز تمھیں نظر آئے گی ۔ وہ شیطان ہے ۔ اس سے اس سے مارنا تاکہ وہ نکل جاے ۔قتا دہؓ راونہ ہوے ۔ اور وہ شاخ روشن ہوگئی اور گھر میں جاکر دیکھا تو حقیقت میں ایک سیاہ چیز تھی جس کو انھوںنے مارا اور وہ گھر سے نکل گئی ۔ انتہیٰ ۔
دست مبارک کی برکت سے شاخ کا روشن ہونا اور اس کے مارنے سے شیطان کا گھر سے نکل جانا بظاہر تعجب خیز امر ہے۔ مگر جب ہم دست مبارک کی اور برکتوں اور تا ثیرات کو دیکھتے ہیں یہ امر چنداں قابل حیرت نہیں معلوم ہوتا اصل وجہ یہ ہے کہ دست مبارک میں ہر قسم کی قدرت دی گئی تھی ۔ اسی وجہ سے جب حضرتؐ کسی کام کا ارادہ فرما تے اور اس کو ہاتھ لگا دیتے تو دست مبارک سے فوراً اس کا ظہور ہو جا تا ۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ حضرتؐ کو اپنی امت کی کس قدر خیر خواہی منظور ہے ۔ باوجود یکہ قتاد ہ ؓ نے کوئی شکایت نہیں کی اپنے گھرمیں شیطان یا آسیب ہے ۔ مگر حضرتؐ نے اس کا حال معلوم کر کے اس کو دفع کرنے کی تدبیر بتلا دی ۔ بلکہ ایسی چیز ان کودی کہ اس کے استعمال سے شیطان خود بھا گ گیا ۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قتادہؓ کا مکان حضرتؐ کے دولت خانہ سے فاصلہ پر تھا ۔ اور جس وقت آپ نے شیطان کی خبر دی سخت تاریکی تھی ۔ حضوصاً ان کے گھر کے اندر تو روشنی کا گذر ہی نہ تھا ۔ اس پر شیطان کا سیاہ رنگ جس سے ظلمات بغضہا فوق بعض کا مضمون صادق آتا تھا ۔ حضرتؐ کوا س شیطان کا حال کیونکر معلو م ہوا ہوگا ۔ یہ ممکن ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے آکر اس کی خبر دی ہو کیونکہ وہ اسی کا م پر مقرر تھے کہ بحسب ضرورت حق تعالیٰ کے پیام حضرتؐ کے پاس لا دیں ۔ مگر یہ معاملہ ایسا اہم نہ تھاکہ جبرئیل علیہ السلام کے تکلیف کرنے کی ضرورت ہو ۔ اور نہ اس سے متعلق کوئی شرعی حکم تھا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرتؐ نے اسے دیکھ کر انتظام فرمادیا ۔یہ دیکھنا ایسا تھا کہ اس کو نہ دیوار حائل ہوتی تھی نہ تا ریکی ۔ اور نہ فاصلہ مانع تھا ۔ جو بصارت ایسی ہو کہ ایک دیوار حائل ہونے پر بھی دیکھ سکے تو اس کے لئے ہزار دیواریں بھی حائل نہیں ہوسکتی ہیں ۔ کیونکہ دیکھنے کہ لئے جو شروط تھے کہ خارج روشنی ہو اور کوئی کثیف چیز حائل نہ ہو وہ یہاں نہیں پا ئے گئے ۔ با وجود اس کے حضرتؐ نے اس شیطان کو دور سے دیکھ لیا تو معلوم ہو ا کہ حضرتؐ کا دیکھنا دوسروں کے دیکھنے کے جیسا نہ تھا ۔ اس صورت میں قرب و بعد سے متعلق شرط بھی باقی نہ رہے گی ۔ چنانچہ اس کی کئی نظیریں موجودہیں ۔کہ حضرتؐ نے صدہا کو س کی خبریں دیں ۔جو مطابق واقع ثابت ہوئیں۔ انشاء اللہ کسی موقع میں ان کا حال بھی بیان کیا جاے گا ۔
{چھرہ کا روشن ہو جا نا }
السیرۃ النبویہ ص ۳۲۴ میں روایت ہے کہ آنحضرت ؐ نے قیس ابن زید کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا کی ۔جب ان کاانتقال ہوا ان کی عمر سو برس کی تھی ۔ اور تمام سر کے بال سفیدہو گئے تھے ۔ مگر جہاں حضرتؐ کا دست مبارک پہنچا تھا ا س میں کوئی تغیر پیدا نہ ہوا ۔ اور ن کا چھرہ روشن ہو گیا تھا ۔ اس وجہ سے ان کو لوگ اعّر کہتے تھے ۔ یعنی روشن چھرے والے ۔انتہیٰ ۔
ہر چند ضعیفی میں بالوں کا سفیدہونا کوئی معیوب بات نہیں ۔ بلکہ ضعیفی کی زینت اور وقارہے ۔مگر خدا ے تعالیٰ کو یہ دکھلا نا منظور تھا کہ جن بالوں پر دست مبارک پہنچا تھا ان پر امر طبعی کا دستر س نہ ہوسکا ۔ حالانکہ وہ مقتضاے پیرانہ سری تھااس سے حضرتؐ کی قدرت کا ندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فطرتی امورپر بھی غالب تھی ۔
سیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قتادہ ؓ ابن ملحان کے منہ پر ہاتھ پھیرا ۔اس کی وجہ سے ان کے چھرے میں ایسی صفائی اور روشنی پیدا ہوگئی کہ ان کے مقابل و الاآدمی ان کے چھرے میں اپنی صورت دیکھ لیتا تھا ۔ انتہیٰ۔
{تا ثیر بلا لحاظ صلاحیت }
یہاں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جو مختلف آثار ہو تے تھے شاید وہ بحسب استعداد مقامات ہوں ۔ جیسے آگ تر چیز کو جلا تی نہیں ۔ اور خشک کو جلا تی ہے توان میں بحسب استعداد محل روشنی میں مختلف رنگ نمد ارہو تے ہیں ۔ اور کسی چیز کو پگلا دیتی ہے اور کبھی پتلی چیز کو گاڑھی کر دیتی ہے ،جیسے انڈے کی زردی و سفیدی کو ،اور کسی میں اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا جیسے ابرک کو بالکل نہیں جلاتی ۔ اور کسی کو جلا کر سیاہ کردیتی ہے جیسے گھانس وغیرہ کو ۔ یہ سب آثار ہر چند آگ کے ہیں ۔ مگر قابلیت مادہ کے لحاظ سے مختلف طورپر ان کا ظہور ہوتا ہے مگر ادنے ٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ یہاں استعدادکو کوئی دخل نہیں ۔کیونکہ دست مبارک کی تا ثیر سے چھڑی تلوارہو گئی۔ اور اس قسم کے مختلف آثار ظاہر ہوے ۔ حالانکہ چھڑی میں نہ لوہا بنے کی صلا حیت ہے نہ استعداد ۔بلکہ اس صورت میں یہی کہنا پڑے گا کہ دست مبارک کا اثر حضـرتؐ کے ارادے کے تابع تھا ۔ اس میں مادہ کی ذاتی صلاحیت اور عدم صلاحیت کو کوئی دخل نہیں ۔
{رونق چھرہ وفزونی عقل}
السیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ زینب بنت سلمہؓ حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اس حالت میں کہ آپ غسل فرما رہے تھے ۔حضرتؐ نے ان کے منہ پر پانی چھڑ کا اس وقت سے ان کاچھرہ رونق دار ہوگیا ۔ اور بڑھا پے میں بھی جوانی کی رونق ان کے چھرے پررہی ۔اورنہایت عقلمند اور سمجھدار سمجھی جا تی تھیں ۔انتہیٰ ۔
دست مبارک کا اثر پہنچا نے کے لئے پانی صرف ایک واسطہ تھا ۔کیونکہ پانی یاپونچ ڈا لا گیا ہوگا یا سوکھ گیا ہوگا ۔ مگر اس کے معدوم ہونے پر بھی اثر دست مبارک معدوم نہ ہو سکا ۔ بلکہ سالہا سال ان کے چھرے میںباقی رہا ۔ کیونکہ ضعیفی کے آثار بحسب اقتضاے طبع چھرہ پرنمایاں ہوتے رہتے ہیں ۔ اور رطوبات خشک ہو نے کی وجہ سے پیرانہ سالی میں جس قسم کی شکل بنتی ہے ظاہر ہے آنکھیں ڈونگی ہو جا تی ہیں ۔رخسار کی ہڈیاں اوبھر آتی ہیں ۔پوست ڈھیلا ہو کر جھر یا ںپڑ جا تی ہیں غرض کہ کیسا ہی خوبصورت انسان ہو ضعیفی میں ایسا بدشکل ہو جا تا ہے کہ اس کو دیکھنا جی نہیں چاہتا ۔ مگر دست مبارک کا کیسا اثر تھا کہ ان آثارِ طبعی کو روک کر جوانی کے آثار قائم کر تا رہا ۔ ہرچند اطبأ نے بہت سی دوائیںتجویز کی ہیں کہ پیرانہ سالی میں چھرے کی ہیٔت نہ بدلے مگر یہ ممکن نہیں کہ جوانی کی آب و تاب ان سے باقی رہ سکے یہ خصوصیت حضرتؐ ہی کے دست مبارک کے اثر کو تھی کہ تاثیر اخلاط و عناصر کو ہٹا کر اپنا پورا پورا رنگ جما لیا ۔
السیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ ابوہریرہ ؓ نے شکایت کی کہ نسیان کی وجہ سے مجھے کچھ یادنہیں رہتا ۔ حضرتؐ نے فرمایا کہ ایک کپڑا بچھائو ۔جب بچھا یا تو آپ نے اس میں ایک پسو ڈالا جس میں ظاہر کوئی چیز نہ تھی ۔پھر فرمایا کہ اس کو سمیٹ لو ۔انھو ں نے ایسا ہی کیا ۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کوئی بات نہیں بھولی ۔اور صحابہ میں مجھ سے زیادہ احادیث کو یادرکھنے والا کوئی نہ تھا ۔ البتہ عبد اللہ بن عمر ؓ کو بہت سی حدیثیں یا تھیں ۔ او راس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مجھ سے پہلے اسلام لا چکے تھے اورا ن کو لکھ نا آتا تھا۔ اورمجھے نہیں آتا تھا انتہیٰ ۔
{قوت حا فظہ کا ہا تھ میںلینا }
حضرتؐ کی ظاہر ایہ حرکت اسی قسم کی تھی کہ دیکھنے والوں کی عقل اسکی ادراک میں متحیر ہوگئی کہ خالی ہاتھ سے کپڑے میں کوئی چیز ڈالدے نا کیا بات ہے مگر جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی شکایت رفع ہوگئی اوراس قدر ان کا حافظہ قوی ہو گیا کہ ان کے جیسے حافظہ والا کوئی نہ تھا توان دیکھنے والوں کو یقین ہو گیا ہوگا کہ حضرت ؐ کا پسوخالی نہ تھا ۔بلکہ اس میں قوت حافظہ بھر ی ہو ئی تھی ۔اب رہی یہ بات کہ قوت حافظہ کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی کے ہاتھ میں آوے اور اس سے منتقل ہو کر دوسرے کے دماغ میںجاوے ۔ سو یہ بھی عقل سے خارج ہے ۔مگر جب اس کا مشاہدہ ان حضرات کو ہوگیا کہ ادھر حضرتؐ نے اپنے ہاتھ سے ان کے کپڑے میں ڈالا۔ اور اُدھر ان کی قوت حافظہ بڑھ گئی تواب ا س کے یقین کر نے میں ا ن کو ذرا بھی شک نہیں ہوسکتا تھا ۔ کیونکہ مشاہدہ سے بڑھ کر یقین دلانے والی کوئی چیز نہیںہوسکتی ۔ البتہ سننے والوں کو اس میں ضرورحیرانی ہو تی ہے۔ کیونکہ ا ن کو اس امر کامشاہدہ نہیں ہو ااور یہ بات ایسی ہے کہ اس قسم کی بات دیکھی نہیں جاتی جس پر قیاس کر نے کاموقع حاصل ہو ۔کیونکہ عقل کی جولانی دائرہ محسوسات میں محدود ہے ۔ اگر چہ قوت حافظہ میں محسوسات میںنہیں مگر چونکہ اس کے آثار اس طرح سے ظاہر ہو تے ہیں کہ بعضوں کو بہت ساری باتیں اور مضامین دیر تک یاد رہتے ہیں اور بعضوں کو نہیں رہتے ۔اس سے عقل کو قوت حافظہ کے ادراک کا موقعہ ملا ۔ ورنہ عقل اس کو بھی محال سمجھتی ۔
{قوت حافظہ کا حیرت انگیز ہونا }
کیونکہ فرض کروکہ ایک آدمی مثلاً سو برس کی عمر کاہے اور اس کا حافظہ اس قدر قوی ہے کہ جو سنتا ہے سب اس کے حافظہ میں جمع رہتے ہیں ۔ او ریہ غور کیا جاے کہ پہلے اس نے جس چیز کو دیکھا تھا وہ دماغ میں کسی جگہ مشقش اور کسی قسم سے محفوظ ہو ئی ہوگی۔ اس کے بعد جب دوسری بات دماغ میں پہنچی تو وہ بھی اسی طرح پہلی بات کے ساتھ جمع ہوئی ۔ اسی طرح وقتا ً فوقتاً جو جو چیز یں اس کے دماغ میں گئیں سب محفوظ ہوتی گئیں ۔یہاں تک کہ سوبرس تک جتنی چیزیں اس کے دماغ میں گئیں ۔ خواہ از قسم محسوسات ہوں یعنی بصارت ،سماعت، شامہ ، لامسہ ،و ذائقہ سے متعلق باوجود انیات و معقولات جن کا ادراک کیا ہو سب دماغ کے ایک حصہ میں جمع ہو گئیں۔ اب غور کیا جاے کہ ان تمام محفوظ چیزوں کا مجموعہ کس قدر ہوگا ۔ اگر وہ تمام چیزیں تحریر میں لائی جائیں تو صدہا بلکہ ہزار ہا جلدوں کی ایک کتاب بن جاے کیونکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نیا ادراک ہو تا ہی رہتا ہے ۔ کیا یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ ایک چھوٹا سا دماغ اتنا بڑا کتب خانہ بن جاے ۔ پھر ان محفوظات دماغ سے اگر کوئی کتاب لکھی جاے تواس میں تقدیم و تاخیر مضامین کی ضرورت ہوگی ۔پہلے صفحہ کا مضمون دوسرے صفحہ میں نہ ہو گا ۔اگرکوئی بات اس میں دیکھنا منظور ہوتو صدہا بلکہ ہزارہاا ورق الٹا نے کی ضرورت ہوگی ۔بخلاف اس کے دماغ میں جو چیز یں محفوظ ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ جس وقت جو مضمون نکالنا چاہیں کتنے ہیں مدت کا واقعہ کیوں نہ ہو فوراً پیش نظر ہو جا تا ہے ۔حالانکہ جو مضمون دماغ میں جمتے جا تے ہیں ایک کے بعد ایک آتے جا تے ہیں ۔مقتضاے عقل تو یہ تھا کہ جس طرح کتاب کی ورق گرد انی کرکے ایک مضمون نکالاجا تا ہے ۔ یہاں بھی اسی طرح تفحص کیا جا تا ۔ اس میں شبھ نہیںکہ عادت ہونے کی وجہ سے ایسے امو کی طر ف خیال نہیں کیا جاتا مگرتدبر اور فکر سے کام لیا جا ے تواس میں عقل ضرورحیران ہوگی ۔ اس حیرانی کو دور کرنے کے لئے سواے اس کے اور کوئی تدبیر نہیں کہ یہ کہہ دیا جاے کہ خدا ے تعالیٰ نے قوت خافظہ کی تخلیق ہی اس طرح سے کی ہے ۔ جب خدا ے تعالیٰ کی تخلیق پر محول کر دینے سے عقل کی حیرانی کس قدر کم ہو جا تی ہے تواس حدیث کے مضمون میں بھی اگر خدا ے تعالیٰ کی قدرت پر حوالہ کر دیا جاے اور کھا جاے کہ حق تعالیٰ نے جس طرح قوت حافظہ کوعجیب الخلقت بنا کر دماغ میں رکھا اسی طرح اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں رکھا ۔
{حقیقت ہر شئے}
اور حضرتؐ نے ابوہریرہ ؓ کے دماغ میں رکھدیا تو عقل کی حیرانی اور تشویش ضرورکم ہو جا ے گی ۔بات یہ ہے کہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہو تی ہے جس کو ہر شخص جان سکتا ہے ۔ اس کا ثبوت کئی حدیثوں سے ہوتا ہے ۔ جن میں سے چند حدیثیں بیان کی جاتی ہیں ۔ خصائص کبریٰ میں ام طارق ؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ایک روز آنحضرت ؐ سعدؓ کے مکان میںتشریف رکھتے تھے ۔میںنے دروازہ پر ایک آواز سنی کہ کوئی اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے اوروہاں کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا ۔
{تپ کی حقیقت }
حضرت نے پوچھا تو کون ہے؟اس نے کہا میں ام طوم ہوں یعنی (تپ) آپ نے فرمایا لا مرحبا ولا اھلا ۔ یعنی نہ تو مرحبا کہنے کے لائق ہے نہ اہلا کے ۔پھر فرمایا کیا تواہل قبا کے طرف جانا چاہتی ہے ۔کہا ہاں ۔فرما یا اچھا جا ۔ انتہیٰ۔
اورخصائص کبریٰ میں سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت دینے سے تپ حاضر خدمت ہوئی ۔آپ نے پوچھا توکون ہے ؟کہا تپ ہوں میں گوشت کو قطع کرتی ہوں اور خون کو چوس جا تی ہوں ۔ فرمایا کہ اہل قبا کے یہاں جا ۔ چنانچہ وہا ںگئی ۔ چندروز کے بعداہل قبا حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے چہرے تپ کی وجہ سے زرد ہوگئے تھے اور تپ کی شکایت کی ۔فرمایا اگر چاہتے ہوتو ا س کے دفع کرنے کی دعاکروں اور نہ ا س کو رہنے دوں جس کی وجہ سے تمہارے گناہ دور ہو جائیں ۔ انہوں نے عر ض کی کی ہم چاہتے ہیں کہ اس کو رہنے دیجئے انتہیٰ۔ اوریہ روایت بھی خصائص کبری ٰ میں ہے کہ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ تپ آنحضرت ؐ کی خدمت میں آئی اور عرض کی یا رسول اللہ جس قوم سے آپ کو زیادہ تر محبت ہے مجھے ان کے پاس بھیجئے ۔آپ نے فرمایا انصار کے یہاں جا چنانچہ وہا ں گئی اوران کو پچھاڑ دیا ۔ انہوں نے جب حضرت سے ا س کی شکایت کی آپ نے دعا کی اور وہ سب اچھے ہو گئے ۔انتہیٰ۔
ان روایات سے معلو م ہو اکہ تپ کسی شکل میں آئی تھی ۔گو کسی نے اس کی شکل نہیں بیان کی مگر اس کا بات چیت کرنا اور امتثال امر کرناثابت ہے ۔
{دنیا کی حقیقت }
اور خصائص کبری میں زید ابن ارقم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم ابوبکر صدقؓکے ساتھ تھے انہوں نے پینے کا پانی منگوایا ۔ چنانچہ پانی شہد ملا کر لا یا گیا یہ دیکھتے ہی آپ رونے لگے اور آپ کی سچی حا لت کا یہ اثر ہوا کہ کل حاضرین مجلس پر گریہ طاری ہو گیا ۔ بعد میں لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا توفرمایا کہ ایک روز میں آنحضرتؐ کے ساتھ تھا ۔دیکھا کہ حضرتؐکسی چیز کو دفع فرما رہے ہیں۔ حالانکہ وہاں کوئی چیز نہ تھی ۔ میںنے عرض کی یا رسول اللہ کس چیز کو آ پ دفع فرما رہے ہیں۔ فرمایا یہ دنیا متشکل ہو کرمیرے پاس آئی ہے میںنے اس سے کہا کہ میرے پاس سے ہٹ اور اس کو ڈکھیل دیا مگر وہ پھر پلٹ کر آئی اورکہا کہ اگر آپ مجھ سے بھا گتے ہوتو خیر۔ مگر جولوگ آپ کے بعد آئیں گے وہ مجھ سے نہ بھا گیں گے انتہیٰ ۔اس سے ثابت ہے کہ حقیقت دنیا متشکل اور متمثل ہو ئی تھی ۔ صدیق اکبرؓ کے لئے جب شہد ملا ہوا لا یا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال پیش نظر ہوگیا کہ کیسے فقر و فاقہ سے آپ نے گذار اکہ اس قسم کے ترفہ کے سامان کا پتا بھی نہ تھا ۔ اور اب یہ حالت ہے کہ پانی منگوا یا گیا شہد کے ساتھ لا یا جا رہا ہے ۔ہر چند آپ نے بھی فقر و فاقہ میں گذاری جس کا تھوڑا سا حال ہم نے مقاصد الاسلام کے کسی حصہ میں لکھا ہے ۔ مگر غم اس بات کا ہوا کہ دنیا نے جو کہا تھا کہ آپ کے بعد والے مجھ سے نہ بھا گیں گے ۔ وہ بات صادق آرہی ہے ۔اور سامان ترفہ ہر طرف پیش نظر ہے ۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مرضی ہے ۔
{دو پیشگوئی فتح }
خصائص کبریٰ میں عبد اللہ ابن حوالہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم لوگ آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر تھے اپنی برہنگی اور فقرا ور تنگدستی کی شکایت ہم سب نے کی ۔ حضرتؐ نے فرمایا تمہیں خوش خبری ہے خدا کی قسم تمہاری تنگدستی سے اس قدر مجھے خوف نہیں جو تمہارے تمول سے ہے ۔ خدا کی قسم ہمیشہ یہ امر تم میںجاری رہے گا ۔ یہاں تک کہ خدا ے تعالیٰـ زمین فارس اور روم اور حمیر تم پر فتح کرے گا اس وقت تم تین لشکر میں منقم ہونگے ۔ایک لشکر شام اور دوسراعراق تیسرا لشکر یمن اس وقت کی حالت یہ ہوگی کہ سو درہم اگر کسی کو دیے جا ئیں تو ا س کو غصہ آئے گا ۔ میںنے عرض کیا یا رسول اللہ شام کو فتح کرنے کی کس میں طاقت ہے۔وہاں تو رومی بڑے شان و شوکت والی ہیں فرمایا قسم ہے کہ تم اس کوفتح کروگے اور خدا ے تعالیٰ تمہیں وہاں کا خلیفہ بنا ئے گا۔ اور یہ حالت ہوگی کہ تم میں کا ایک کم رو کا لا شخص جس کا سر مونڈ ھا ہوا ہو گا اور اوس کے روبرو گورے گورے لوگوں کی ایک جماعت کھڑی ہوگی ۔ وہ شخص ان پر جو حکم کرے گا اس کو بجا لائیں گے ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں جو بیان کیا گیا وہ بات جزابن سھیل پر صاد ق آتی تھی جو اس وقت حاکم تھے ۔ جب وہ مسجد کو آتے جا تے تو صحابہ اونکواوران کے گرد وپیش گورے لوگوں کی جماعت کو دکھتے اون پر تعجب کرتے کہ حضرت نے جو خبر دی تھی کس قدر ا ن پرصادق ہے انتہیٰ اس سے ظاہر ہے کہ امت کے مالدار ہونے کا حضرت کو خوف لگا رہتا تھا ۔
{فقر و مصیبت کی ضرورت }
دیکھئے اصلی دین او رہمارے طریقوں میں کس قدر فر ق ہے ۔انہیں دو چار حدیثوں سے ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ کمال درجہ کی محبت تھی اون پر تپ کی مصیبت ڈالی گئی ۔ جسم کا خون خشک ہو گیا ۔ چہرے زردہو گئے ۔ اور دنیا کی راحت وآسایش کی کوئی چیز نزدیک آنا نا گوارا ہے۔اس کی وجہ کیا تھی ؟ صرف یہی تھی کہ مصیبت میں خدا ے تعالیٰ یا دآتا ہے ۔اور یاد الٰہی باعث ترقی مدارج اخروی ہے ۔ چندروز دنیا کسی طرح گزر جا ئے گی مگر جہاں ابد الآ بادہمیشہ رہنا ہے او رپھر اوس سے نکلنا ممکن نہیں وہاں کا سامان درست کرنے کی ضرورت ہے جو تر ک دنیا سے حاصل ہوتا ہے ۔برخلاف اس کے ہم لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دنیا کی حالت درست کریں گے یعنی ہرطرح کے عیش و عشرت مہیا کرنے کی فکر ہے ۔ اگر سامان عشرت موجود ہے تو علاوہ اوس کی مشغولی کے باقی وقت اس کی زیاد تی کی فکر میں گزر تا ہے ۔ او راگر مہیا نہیں تواوس کے غم اور فراہمی میں پورا وقت گزرا دیا جاہے جس سے خدا ے تعالیٰ کو یادکرنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ اگرکسی نے خدا ے تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے کی فکر کی تواوس کے دشمن ہو گئے اور اقسام کی پھبتیاں اوس پر اڑائیں اس کا نام قل اعوذ یا رکھا جا تا ہے ۔ غرض کہ توہیں کا تو کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکہا جا تا جن کو خدا رسول سے ایسی بے تعلقی ہوا نکا مسلمان کہنا بلحاظ قومیت ہو گا ۔ جس کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔
{حقیقت}
خصائص کبریٰ میں ابو طفیل اور سعدبن عمر وسے روایت ہے ک فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد ابن ولید ؓ کو سخلہ کی طرف روانہ کیا جو طائف کے قریب ہے او رفرمایا کہ بتخانہ عزی کو ڈھا ویں جب وہ وہاں پہونچے تو ایک سیاہ عورت برہنہ سر کے با ل بکھرائے ہوئے اوس میں سے نکلی ۔ خالد ؓ نے تلوار سے اوس کے دو ٹکڑے کر دئے اور آنحضرت ؐ کو اس واقعہ کی خبر دی ۔ فرمایا وہ عزی تھی اب او س کی پر ستش تمہارے شہروں میں ہونے سے او سے نا امیدی ہوگئی ہے ۔انتہیٰ ملحضـاً۔
عزیٰ ایک بت عرب میں مشہور تھا۔ اکثر بتخا نے اس کے نام کے بنا کر اس قسم کے پتھر اس میں رکھتے ۔اور اس کی پر ستش کیا کر تے تھے ۔ غالباً ہر بتخانے میں کچھ نہ کچھ آثار ظاہر ہوتے ہوں گے ۔ جس کی وجہ سے وہ اس کے والدادہ تھے ۔ چنانچہ اسی روایت میں ہے کہ جب خالد ؓ بتخانے میں اس کے توڑنے کی غرض سے گئے تو پوجا ر یوں نے عزیٰ پکا ر کر کہا (یا عزی خبلیہ یا عزی عوریہ والافموتی برغم ) یعنی اے عزی اس کو دیوانہ کردی اور عزی اس کو عیب دار کردے نہیں تو ناک زمین پر رگڑ کر مرجا ۔ اس سے ظاہر کہ وہ یہ جانتے تھے کہ عزی اپنے مخالف کو سزا دینے پر قادر ہے ۔ جہاں جہاں عزی کی شکل بنا کر پر ستش کر تے تھے سب کا یہی اعتقاد ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیٰ شخص معین نہ تھی بلکہ اگر او س کو ایک لوع کہیں تو بے موقع نہ ہو گا اسی وجہ سے آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ بلا د عرب میں اس کی پرستش ہونے سے اس کو نا امید ی ہوگئی ہے ۔اس لئے کہ اوس کی حقیقت فنا ہوگئی جب کے افراد بلا د عرب میں پوجے جا تا تھے۔ اسی طرح نائلہ کا واقعہ ہے ۔
{حقیقت نائلہ}
جو خصائص کبریٰ میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب مکہ معظمہ فتح ہوا توایک حبشی عورت ادھیڑ بوڑھیا اپنے منہ کو توچتی اورو اویلا کرتی آئی ۔ لوگوں نے اس کا واقعہ حضرت کی خدمت میں عرض کیا ۔ آپ نے فرمایا وہ نائلہ ہے وہ مایوس ہوگئی ہے کہ تمہارے اس شہر میں اوس کی پھر کبھی پر ستش ہوانتہیٰ ۔
{حقیقت مثلل}
اور نیز خصائص کبریٰ میں روایت ہے کہ جب فتح مکہ ہوئی توآنحضرت ؐ نے سعد ابن زید کو بیس سواروں کے ساتھ مشلل کو روانہ کیا تھا بتخانہ مناۃ کو جو مشہورتھا ڈھا دیں ۔جب وہ وہاں پہونچے تو پوجاری نے کہا کس ارادہ سے آے ہو کہا اس بتخانہ کو ہدم کرنے کے لئے کہا تم اور وہ جان لو ۔سعد جب بتخانے میں جانے لگے تواندر سے ایک برہنہ سیاہ عورت سر کے بال بکھرے ہوئے واو یلا اور سینہ زنی کر تی نکلی ۔ سعد اس کو مارنے لگے ۔ پوجاری نے کہا ہاں سنا ۃ لینا اور غصہ نکالنا سعدن اوسے اتنا مارا کہ وہ مرگئی اس کے بعد اوس پتھر کو جو منات کہلا تا تھا گرا دیا ۔ انتہیٰ ۔
اس قسم کے اور بہت سی روایتیں ہیں جن سے معلو م ہو تا ہے کہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہو تی ہے جو امر معنوی ہے ۔ الغرض قوت حافظہ کی ایک حقیقت ہے جو محسوس نہیں ہوسکتی ۔آنحضرت کومنظور ہوا کہ قوت حافظہ ابوہریرہ ؓ کو عنایت فرمادیں تواوس حقیقت میں سے ایک حصہ ان کو دیا ۔مگر اس طریقہ سے کہ مثل اجسام محسوسات کے اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کپڑے میں ڈالا جب انہوں نے اس کو جمع کر لیا تووہ اس کے ساتھ متصف ہو گئے ۔ کوئی عاقل اس کا انکار نہیں کر سکتا کہ نماز ،روزہ ،حج ،زکوۃ وغیرہ اعمال حسنہ اور سیۂ اعراض ہیں ۔ اوران کے لئے کوئی خارج میں علحدہ وجود نہیں ہے با وجود اس کے کوئی مسلمان اس کا انکار نہیں کرسکتا کہ قیامت کے روز وہ سب وزن کئے جا ئیں گے ۔ اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح وہ اعمال خارج میں میزان میں رکھ کر وزن کئے جائیں گے اوسی طرف قوت حافظہ آنحضرتؐ کے ہاتھ میں ائی اور آپ نے ابوہریرہ ؓ کو عنایت کی ۔ ایمانی طریقے سے اس میں کوئی استبعاد کی بات نہیں اگر اس کو عقل نہ مانے توعقل کا قصور ہے ہم نے کتاب العقل میں بفضلہ تعالیٰ ثابت کر دیا ہے کہ عقل ہر بات میں چل نہیں سکتی ۔ بلکہ محسوسات میں بھی ٹھوکر یں کھا تی ہے ۔جب محسوسات میں اوس کا یہ حال ہو تو حقائق محسوسات میں وہ بے چاری کیا حل سکے گی ۔ سچے مسلمان کو ضرور ہے کہ ایسے امور میں اگر شک آجاے تو بصدق دل بارگاہ کبریانی میں دعا کریں کہ اس فتنہ سے بچا کر ایمان سلامت رکھے ۔
سیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ عبد الرحمن ابن زید صغر سنی میں بہت حقیر اور بد رو تھے ۔حضرتؐ نے ان کے سر پرہاتھ پھیرا اور اعضااور تمام امور میں برکت کی دعاکی ۔ جب وہ بڑے ہوے تواو نچے پورے اور ان کے کل اعضاء صحیح وسالم اور وں سے بہتر تھے ۔
یہ دست مبارک کی برکت تھی کہ قوت نامیہ کو ترقی دے دی ۔ جس سے اعضاء کا نقص جو لڑکپن میں تھا جا تا رہا ۔ بظاہر قوت نامیہ تا بع مزاج اور طبیعت ہے مگر اس کا یہ اثر نہ تھا کیونکہ اگر ان کے مزاج اور طبیعت میں قوت ہوتی تو لڑکپن ہی میں جو کثرت نمو کازمانہ تھا پورے طورپر نمو ہو تا حالانکہ اوس وقت وہ بہت ضعیف القوۃ اور حقیر و سخیف تھے ۔ ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ حضرت کا تصرف فطرتی امور میں بھی نافذ اور جا ری تھا حالانکہ فطرتی امور بد ل نہیں سکتے چنانچہ حق تعالیٰ فرما تا ہے فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ۔یعنی فطرتی امور میں تبدیل نہیں ہوتی ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا ئے تعالیٰ بھی چاہے تو تبدیل نہیںہوسکتی ۔ اسی لئے مستتیات عقلی شرعاً اور عقلاً معتبر ہیں ۔ دیکھئے قانون میں بھی اقتدار شاہی قوانین سے مستثنیٰ ہوا کرتا ہے چونکہ حضرت کا تصرف حق تعالیٰ ہی کا تصرف تھا اس لئے فطرتی امو رمیں اس کا اثر ہونا تھا ۔
{حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قدرت دے جا نے کا منشا}
مواہب اللدنیہ اور اوس کی شرح زرقانی میں جا بر ؓ سے روایت ہے کہ اوائل نبوت میں جب آنحضرت ؐ قبائل کو دعوت اسلام فرمانے لگے توکفار جمع ہوکہ حضرت کو پکڑ ے اور اس قدر گستاخی سے پیش آے کہ آپ کے جسم مبارک سے خون جا ری ہوگیا ۔ اور کہنے لگے کہ تم ہی ہو کہ تمام معبود وں کو ایک معبود بنارہے ہو اس وقت ابوبکر ؓ درمیان میں آگئے اور کہا کہ کیا ایسے شخص کو تم قتل کر تے ہو جو کہتاہے میرا رب اللہ ہے ۔ حضرت وہاں سے تشریف لے جا کر کسی مقام میں نہایت غمگین تشریف رکھے تھے کہ جبرئیل علیہ السلام آے او رکہا آپ غمگین کیوں ہو ۔ حضرت نے واقعہ بیان فرمایا ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کیا آپ کی خواہش ہے کہ میں آپ کو کوئی نشانی بتلادوں ۔فرما یا اچھا ۔ جبرئیل ؑ نے ایک درخت کی طرف جو میدان کے اوس طرف تھا ۔کہا کہ اس درخت کو آپ بلائے ۔حضرت نے بلایا ۔ فوراً وہ چلتا ہوا آکر حضرت کے روبرو کھڑا ہوگیا ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا اب آپ اس کو کہئے کہاپنی جگہ چلا جائے ۔ حضرت نے حکم فرمایا فوراً وہ اپنی جگہ چلا گیا ۔ یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسبی حسبی یعنی مجھے یہ کافی ہے اور فرمایا کہ اس کے بعد اگر لوگ جھٹلادیں تواس کی مجھے کچھ پر وا نہیں انتہیٰ ۔
حضرت اوس واقعہ کے بعد مفموم تشریف رکھے تھے اس کی وجہ یہی ہو گی کہ جس طرف دیکھتے ہیں کوئی اپنا ہم خیال نہیں۔جس کو دیکھئے وہ خون کا پیاسا ہے ۔اظہار حق کی وجہ سے عداوت ٹرہتی جا تی ہے کوئی مدبیر ایسی انہیں ہوسکتی جو ان کو راہ راست پرلاے نصیحت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ قتل پرآمادہ ہو جا تے ہیں ایسے موقع میں جب جبرئیل علیہ السلام حضرت کی تسکین و تشفی کے لئے آئے اور یہ دکھا دیا کہ درخت نے آپ کے حکم کی ایسی تعمیل کی جیسے کوئی آدمی کر تا ہے ۔تو اس سے آپ کویقین ہوگیا کہ نبوت کا کارخانہ جم جا ے گا اور سمجھ گئے کہ اکوان میں تصرف کرنے کے اجازت مل گئی ہے ۔یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فقط اسی درخت میں تصرف کرنے کی قدرت دی گئی ہوگی ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت کا غم اوس وقت فرنہ ہوتا حسبی حسبی نہ فرماتے ۔ اور نہ یہ فرماتے کہ اب کسی کی تکذیب کی مجھے پر وار نہیں۔ چونکہ حالیہ صاف گواہی دے رہا ہے کہ حق تعالیٰ کو آنحضرت کی تسکین اور تشقی منظور تھی اس لئے ایسی قدرت دی گئی کہ امکان بشری سے خارج ہے اور حضرت بھی سمجھ گئے کہ اس قدرت کے ملنے کے بعد ہر موقع میں ایسے تصرفات بتلاے جا ئیں گے کہ اہل انصاف کو انکار کا موقع نہ ہوگا اور سواے اہل عناد وار متعقبین کے سب راہ راست پر آجا ئیں گے یہی مضمون حسبی حسبی کا ہے ۔اصل یہ ہے کہ خدا ے تعالیٰ جب کسی پر مہربان ہو تا ہے تواوس کے لئے ایک خصوصیت عطا ہو تی ہے کہ جو چیز وہ چاہے موجود ہو جا ے ۔ چنانچہ کل جنتیوں کویہ خصوصیت عطا ہوگی کمال قال اللہ تعالیٰ فیھا ما تشتھیہ الانفس و تلذ الاعین اس کا مقتضیٰ یہ ہوگا کہ ادھر کسی چیز کی خواہش پیداہوئی اور اودھر اوس کا وجود ہو گیا ۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کن عطا ہو تا ہے یعنی کسی چیز کو موجود کرنے کا تصور ہو ا تو گو یا کن اوس سے کہا گیا اور ساتھ ہی وہ موجود ہو گئی ۔ اس کی تصریح حضرت غوث الثقلین ؒنے فتوح الغیب میں فرما ئی ہے ۔
خصائص کبریٰ میں عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ حکم ابن عاص حضرتؐ کے پاس بیٹھا تھا ۔ جب حضرت کچھ کلام فرما تے تو اپنے چہرے کے پوست کو پھر کا تا ۔ حضرت نے فرمایا کن کذالک مرے تک اوس کی حالت یہی رہی کہ اوس کا چہرہ ہمیشہ پھر کتا رہا ۔انتہیٰ۔
اوراوسی میںابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت خطبہ پڑھ رہے تھے ایک شخص پہیچے کھڑے ہو چڑ ا نے لگا حضرت نے فرمایا کذلک فکن یعنی ایسا ہی ہو ا ۔ ساتھ ہی وہ گر گیا دو مہینے تک فریش رہا اورجب افاقہ ہوا تو اوس کا چہرہ ویسا ہی ہوگیا جو چڑانے کے وقت تھا۔انتہیٰ۔
دیکھئے صاف لفظوں میں حضرت نے کن جس کام کے لئے فرما فوراً اوس کا وجود ہوگیا ۔
خصاؔئص کبریٰ میں جابرؓ سے روایت ہے کہ ہم غزوۂ ذات الرقاع میں آنحضرت ؐ کے ہمر اہ تھے ۔ایک روز خضرت نے بعد قضا سے حاجت فرمایا کہ اے جابر وضو کے لئے لشکر میں پکا رو ۔میں ہر ایک سے پوچھتا پھرا کہ کسی کے پاس وضو کا پا نی ہے۔مگر کہیںنہ ملا چنانچہ آکر حضرت سے عرض کر دیا کہ ایک قطرہ پانی کسی کے پاس نہیں ۔ حضرت نے فرمایا فلاں انصاری کے پاس جائو اور دیکھو کہ اون کی مشک میں پانی ہے میں ان کے پاس گیا دیکھا کہ اس قدر پانی اوس میں ہے کہ اگر اونڈ یلا جا ے توخشک چمڑا اوس کو جذب کر لے ۔ حضرت سے آکر عرض کیا ۔ فرما یا وہی لا ئو ۔ میںنے حاضر کیا حضرت نے اوس کو ہاتھ میں لیا اور کچھ فرما نے لگے جس کو میں نے نہ سمجھا اور اوس مشک کو اپنے ہاتھ سے دبایا ۔پھر مجھے دے کر فرمایا ایک برتن کہیں سے لے آئو ۔ چنانچہ میں لا کر حضرت کے روبرو رکھا ۔ حضرت نے اپنا دست مبارک اوس کی تہ میں رکھ کر انگلیاں کشا دہ کردیں ۔ اورفرمایا کہ اے جابر بسم اللہ کہہ کر میرے ہاتھ پرپانی ڈالو چنانچہ میں نے ڈالنا شروع کیا تو دیکھتاکیا ہو ں کہ پانی حضرت کی انگلیوں میںسے جوش کر رہا ہے ۔یہاں تک کہ وہ برتن بھر گیا۔ پھر فرمایا اے جابر لشکر میں پکاردو کہ کسی کوپانی کی حاجت ہو تو یہاں آے چنانچہ سب لوگ آے اور نہایت سیرابی سے سب نے پیا اس کے بعدحضرتؐ نے اپنا دست مبارک اس برتن سے اٹھا لیا اور وہ برتن پانی سے بھر ا ہوا تھا ۔ انتہیٰ۔
{تین انڈے لشکر کو کافی ہوئے }
خصاؔئص کبریٰ میں جابر ؓ سے روایت ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ذات الرقاع کا ارادہ فرمایا تو عتبہ ابن زید شترمرغ کے تین انڈے حضرت کی خدمت میںلا ے ۔ حضرت نے اس کو پکانے کے لئے مجھے ارشاد فرمایا میں پکا کر ایک پیالہ میں لا یا اور وٹی کی تلاش کی گئی مگر نہ ملی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چندصحابہ نے اس کو تناول فرماے اس کے بعدکل لشکر نے کہا یا اور روانہ ہوے ۔انتہیٰ ۔
شتر مرغ کے تین انڈے ایک لشکر کو کافی ہونا بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ من جانب اللہ اس میں برکت دی گئی اور سبب قوی اس کا حضرت کا دست مبارک تھا جس کی برکت ان میں ظاہر ہوتی ہے تویہ امر قابل توجہ ہے کہ ایک لشکر جنگ کو جا رہا ہے اور اوس کی یہ حالت ہے کہ ڈھونڈ ئیے تو اس میں با وجود تلاش کے ایک روٹی نہ ملی ۔ کیا س سے زیادہ کوئی بے سامانی ہو سکتی ہے
{حالت فقر لشکر اسلام}
مگر سبحان اللہ اس لشکر کو اس بے سامانی کی کچھ پروا نہ تھی اور سب اس شوق و ذوق سے جنگ کو جا رہے تھے کہ اس کا ذرا بھی خیال نہ ہوا کہ بھوک پیاس میںہم کس طرح لڑیں گے اگر عقل کی راہ سے دیکھا جا ے تو کوئی عاقل ا و س کو جائز نہ رکھے گا ایک قبیلہ کے مقابلے کو ایسا لشکر جا ے کہ جس کے ساتھ ایک روٹی بھی نہ ہو ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے دین کی بنیاد صرف تائید باطنی پرہے ۔ اسی وجہ سے کل قوم نے اس کو تسلیم کر کے معمولی عقلوں کو خیر باد کہہ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں زمام اختیار دے دیا او ریہ ثابت کر دکھا یاکہ جس طرح آپ چاہیں ہم سے اعطاعت لیں ۔ ہم ہر گز اس میں اپنی عقلوں سے کام نہ لیں گے اور چون و چرا نکریں گے ۔ یہ دولت اگر پوچھئیے تو انہیں حضرات کے حصہ میں تھی اب تو ہماری یہ حالت ہے کہ بات بات میں عقل سے مشورہ لیا جا تا ہے ۔ اور دین نے جو مشورت دی ہے وہ عالم بالا میں رکھی رہتی ہے ۔
خصاؔئص کبریٰ میں سلمان فارسی ؓ وغیرہ سے روایت ہے کہ غزوۂ خندق میں جو خندق کھو دی جا رہی تھی اوس میں ایک پتھر نکلا ۔ جسکا توڑ نا دشوار تھا حضرتؐ نے اپنے دست مبارک میں کدال لی اور ایک ضرب لگا ئی جس سے ایک ایسی روشنی چمک گئی کہ مدینہ کے اطراف کے پہا ڑوں تک روشنی پھیل گئی اوس کے بعد دوسری ضرب لگائی اوس سے بھی روشنی ویسی ہی پیدا ہوئی ۔ پھر تیسرے ضرب لگا ئی اوس سے بھی ویسی روشنی پھیلی ۔سلمان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ یہ روشنی جو ہر ایک ضرب کے ساتھ نمایاں ہو ئی وہ کیا با ت تھی ۔ فرما یا پہلی ضرب میں شام کی کو بخیاں مجھے عنایت ہوئیں۔ اور دوسرے ضرب میں ملک پارس اور مغرب اور تیسرے ضرب سے ملک یمن کی کو بخیاں دی گئیں ۔ حضرت عمر اور عثمان ؓ کے زمانہ میں اور اوس کے بعد جیسے جیسے ملک فتح ہوتے تھے ابوہریہ ؓ کہتے تھے کہ جس ملک کو چاہو فتح کر تے جائو۔ خدا کی قسم جن جن شہروں کو تم فتح کر تے جائو گے قیامت تک ان کی کو بخیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دی گئی تہیں ۔ یہ خبر جو مشہور ہوئی تو منافق لوگ کہنے لگے کہ محمدؐ یثرب سے مدان کسریٰ وغیرہ کو دیکھ رہے ہیں ۔ اور تمہاری یہ حالت ہے کہ خندق کھود رہے ہو او رمیدان میں نہیں نکل سکتے انتہیٰ ملحضاً ۔
{منا فقو ں کے خیالات }
اس حدیث کی بعض روایتوں میں ہے کہ آنحضرت ؐ نے فتح ملک کسریٰ اورشام کی خبر دی تھی ۔ بہر حال حالت موجود ہ کے لحاظ سے منافقوں نے جوکہا تھا اوس کا کوئی عاقل انکا رنہیں کرسکتا ۔ کیونکہ اون کے اوس بیان پر کئی شہاد تیں موجودتھیں ۔پہلی مالی حالت کہ خزانہ میں اتنا بھی روپیہ نہ تھا کہ مزدوری سے خندق کھدوائی جاتی ۔ تمام صحابہ اپنے ہاتھ سے کھود تے تھے اوراون کو بھی یہ حالت کہ فاقہ پر فاقہ ہے اور کام کئے جا تے ہیں ۔ اوراوس کے معاوضہ میں ایک وقت کا کھانا بھی نہیں دیا جا تا ۔اور اس خندق کاجو اہتمام ہو رہا تھا وہ صرف چند قبائل عرب کے مقابلہ کے واسطے جو دو تین ہزا ر سے زائد نہ ہونگے ۔ جب ان کے مقابلہ میں یہ حالت ہوتو کسریٰ و قیصر کے مقابلہ میں جن کا لشکر جررلاکھوںکا تھا ۔ اور ساز وسامان جنگ میں تووہ اپنا نظیر نہیں کرکھتے تھے ۔ کیا یہ حال ہوگا ۔غرض کہ عقل کی روسے اوس وقت کا یہ خیال کہ ملک کسریٰ و قیصر وغیرہ کو مسلمان لوگ فتح کر لینگے ۔ ہر گز قرین قیاس نہ تھا ۔ اوسی وجہ سے عقلاے زمانہ اس کی تضحیک کر تے تھے مگر سبحان اللہ صحابہؓ ہی کا حوصلہ تھا کہ نہ اپنی حالت موجودہ کو اونہوں نے دیکھا نہ عقلاء کے طعن کی کچھ پروا کی ۔ بمجرد اس کے کہ آنحضرت ؐ نے اون ملکوں کی فتح کی خبر دی ۔خوش ہوگئے ۔ اور یقین کر لیا کہ اب کیا ہے وہ سب ہمارے ہی ملک ہیں اگر چند روز کفار اون پر مسلط بھی رہیں توہ بطور رعیات ہوگا ۔ہم جب جائیں گے اون سے چھین لیں گے ۔ اور ہوا بھی ایسا ہی کہ نہ اصول جنگ کے لحاظ سے کامیابی کی توقع تھی نہ عقل کی راہ سے کیونکر چند فقرا تھے جو نہ نوکر تھے نہ سرکار طرف سے اون کو کوئی مالی امداددی جا تی تھی نہ رسد اور غلہ پہونچنے کا کوئی انتظام تھا ۔ بڑے بڑے خوشخوار سلطنتوں پر چڑھائی کی ۔ جن کی فوج کے مقابلہ میں ان کی تعدا دعشر عشیر بھی نہیں ۔
سامان جنگ کے لحاظ سے تو دونوں میں کوئی مناسبت ہی نہ تھی ۔ کیا دنیا میں کوئی نظیر مل سکتی ہے کہ ایسے لوگوںنے کسی سلطنت کو لڑکر فتح کیا ۔غرضکہ کتب سیر و تواریخ کو دیکھنے کے بعد اوس کے عطاے الٰہی ہونے میں ذرا بھی شبہ باقی نہ رہے گااور یہ صاف معلوم ہوجا ئے گا کہ بے شک حضرت ؐ کو اون ریاست کی کنجیاں مل گئیں تھیں ۔گو یہ معلوم نہ ہو کہ کنجیوں کی حقیقت کیا ہے اور ان کا دینا کسیا ۔ یہ قرائن ایسے ہیں کہ اس میںایمان سے کام لینے کی ضرورت نہیں جس کو ذرسی بھی عقل ہو سمجھ سکتا ہے کہ بغیر تائید باطنی کے یہ کام نہیں ہوسکتا تھا۔ اوراسی تائید باطنی کی خبر حضرتؐ نے پہلے ہی سے دی تھی ۔ایسے ہی موقع میں عقلا قیاس سے کام لیتے ہیں۔ اور سمجھ جا تے ہیں کہ جب آنحضرت ؐ کی صدہا خبریں سچی ثابت ہوئیں اور اب تک برابر ثابت ہوتی جا تی ہیں کیونکہ آنحضرت ؐ کے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قیامت تک واقعات کی خبر دے چکے ہیں تو آنحضرت نے دوسرے عالم اور ثواب و عقاب کی جو خبریں دی ہیں ان کوتسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا ۔ دیکھئے حکمت جدیدہ میں لکھا ہے کہ متوسطہ القامت آدمی کے جسم پر ہوا کا تین سو چرانوے (۳۹۴)من وزن ہر وقت رہا کر تا ہے حالانکہ اس بات کو عقل ہرگز باور نہیں کر تی کہ جو شخص ایک من کا وزن بتکلف اوٹھا ے وہ تین سو چورا نوے من وزن بلا تکلیف کیونکر اٹھا سکتا ہے ۔مگر اس زمانے کے عقلانے اس کو مان لیا ہے اس وجہ سے کہ اہل حکمت جدیدہ نے اعلیٰ درجہ کی صنعتیں ایجاد کی ہیں ۔ ممکن ہے کہ کوئی ایسا ترازو بھی بنایا ہو کہ اوس سے ہوانا پ سکیں ۔ الحاصل ان پیشن گوئیوں کو اس وقت کی حالت موجودہ کے لحاظ سے دیکھا جا ے اور اون کے وقوع پر نظر ڈالی جا ے تو عقلمند آدمی آنحضرت ؐ کی نبوت اور آپ کی کل خبروں میں ذرا بھی شک نہیں کرسکتا ۔
{ایک پسو کھجور لشکر کو کافی ہوئے }
خصاؔئص کبریٰ میں نعمان بن بشیر کی بہن سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میر ی ماں نے چند کھجور یں میرے پلو میں باندھ کر کہا کہ اپنے باپ اور ماموں جو خندق کھود رہے ہیں اون کو لے جا کر دو۔ جب میں وہاں پہونچی تو حضرت نے مجھے پکارا اوروہ کھجوریں مجھ سے لے لیں اور اتنی تہیں کہ حضرت کا پسواون سے نہ بھر ا ۔پھر آپ نے ایک کپڑا بچھاکر ان کو پھیلا یا او راہل خندق کو بلانے کا حکم دیا۔ چنانچہ سب جمع ہوے ۔ اورکھانے لگے جیسے جیسے وہ کھا تے کھجور یں زیادہ ہو تی تھیں ۔یہاں تک کہ جب وہ فارغ ہو کر واپس گئے تو وہ کہجور یں اتنی بچ گئیں کہ کپڑے میں ان کی گنجائش نہ تھی ۔انتہیٰ۔
صحابہ ؓ جب ایسے برکات دست مبارک کے وقتاً فوقتاً مشاہدہ کر تے تھے تواون کا ایمان اور توکل کس قدر مستحکم ہو تا ہوگا ۔ بکہ ان مشاہدات کی وجہ سے ایمان با لغیب کی اون کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ تجربات یقینی سمجھے جا تے ہیں البتہ ہمیں ا س کی ضرورت ہے کیونکہ ہم نے اس قسم کے تصرفات کو دیکھا ہی نہیں بلکہ کتا بوں کے ذریعہ ٔ سے ہمیں اس قسم کی خبریں پہونچیں ۔ اگرہم اون کو با ور کریں توہمارا ایمان بالغیب ہو گا ۔ اوریؤ منون بالغیب کے مصداق ہونے کی وجہ سے مستحق ثواب ہو نگے ۔ بخلاف صحابہ ؓ کے کہ وہ ایمان بالغیب کے ثواب کے مستحق نہیں تھے البتہ اوس مشاہدہ کے جوآثار مرتب ہوتے تھے وہ ہم لوگوں کو نصیب نہیں ہو سکتے ۔ مثلاً ان مشاہدات کی وجہ جو عظمت و محبت آنحضرت ؐ کی اون حضرات کے دلوں میں تھی جس کی وجہ سے وہ وہ اپنے کو حضرت پر سے قربان کرنے کے لئے ہر وقت مستعد ر ہتے تھے ۔ یہ دولت اونہیں کے لئے خاص تھی ان کے بعدوالے اون حضرات کے جیسے جان نثار بہت کم نکلیں گے ۔
{پانی کی کثرت }
خصاؔئص کبریٰ میں مسور ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے حدیبیہ میں جہاں نزول فرمایا وہاں ایک گڑھا تھا جس میں اس قدر پانی تھا کہ چلوئوں سے لیا جا سکے ۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی ختم ہوگیا او رہر طرف سے پیاس کی شکایت شروع ہوئی۔ حضرتؐ نے ایک تیر اپنے تیر دان میں سے نکال کر دیا وار فرمایا کہ اس کو او س میں رکھ دو راوی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اوس میں پانی جوش مارنے لگا اوراتنا بڑھا کہ لوگ سیراب ہوکر واپس ہوے انتہیٰ ۔یہ ظاہر ہے کہ اوس گڑھے کا پانی خرچ ہو گیا تھا ۔ اورجب تیراوس میں رکھا گیا تو پانی کو جوش ہوا ۔اس سے ظاہر ہے کہ تیرکا رکھنا پانی پیداہونے کا سبب ہوا اور اس حالت کے دیکھنے والوں نے بھی سمجھا ہو گا کہ تیر اوس پا نی کاسبب ہوا ۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ تیر کوپانی کے پیدا ہونے میں کوئی دخل نہیں مگر اس اتصال کی وجہ سے کہ ادھر تیر رکھا گیا اودھر پانی پیدا ہوگیا لوگوں نے او س کو سبب سمجھا حالانکہ پانی کا پیدا کرنا صرف خدا ے تعالیٰ کا کام تھا اوس میں تیر کو کوئی دخل نہیں ۔
{اسباب کی حماقت}
کل اسباب کا حال یہی سمجھنا چاہئے کہ سبب کو مسبب کے وجود میں کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ بلکہ تخلیق خالق عزوجل سے اوس کا وجودہو تا ہے ۔مگر چونکہ سبب کے ساتھ حادتاً مسبب کا وجود ہوتا ہے اسلئے خیال میں یہ بات جمتی ہے کہ سبب کو مسبب کے وجود میں دخل ہے ۔اسی وجہ سے قحط سالی کے زمانے میں پانی مانگا جا تا ہے کیونکہ پانی غلے کی پیدا وار ی کاسبب ہے ۔مگر دراصل پانی کو غلے کے وجود میں کوئی دخل نہیں ۔ جس طرح خدا ے تعالیٰ پانی کا خالق ہے غلہ کا بھی خالق ہے اور جب بحسب نصوص قطعیہ یہ مان لیا جا ے کہ حق تعالیٰ ہر چیز کو لفظ کن سے پیدا کر تا ہے یعنی جس کو موجود کر نا منظور ہوتا ہے اوسکو فرما تا ہے کہ موجود ہو جا وہ چیز موجود ہو جا تی ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ غلہ کے وجود میں پانی کوکوئی دخل نہیں مگر چونکہ یہ عالم عالم امتحان ہے اس لئے حق تعالیٰ نے بعض چیزوں کے پیدا کرنے کے وقت بعض چیزوں کی معیٔت کی عادت کر لی ہے مثلاً غلہ پیدا کرنے کے وقت پانی اوس کے ساتھ ہوتا ہے ۔حمل ہونے کے وقت ماں باپ کا اجتماع اسی طرح کل اسباب کو خیال کرلیجئے سب اسباب کا حال ایسا ہی ہے ۔ جیسے پانی جوش مارتے وقت تیر کا رکھنا تھا جس میں بظار کوئی مناسبت نہیں اس عادت سے یہی غرض ہے کہ وہ لوگ ممتاز ہو جائیںجو ہمیشہ دیکھنے کی وجہ سے اسباب ہی کو مستقل قرار دیتے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ سواے خداے تعالیٰ کے کس میں طاقت ہے کہ کوئی چیز پیدا کر سکے عقلمند وہی ہے جو عقل اور ایمان سے کام لے کر حق تعالیٰ کو خالق سمجھے اور چونکہ حق تعالیٰ نے عادت جاری فرمائی ہے کہ ہرکام اسباب کے ساتھ وجود میں آتا ہے ۔اس لحاظ سے اسباب کو بھی بالکل بیکارنہ سمجھے بلکہ دفع تشنگی کے واسطے پانی کی تلاش کرے اور دفع قحط کے واسطے حق تعالیٰـ سے بارش کی دعا کرے تاکہ اعتقاد اور مشاہدہ میں سے کوئی بیکار ثابت نہ ہو ۔
خصاؔئص کبریٰ میں جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حد یبیہ میں ایک روز لوگ سخت پیاسے ہوے حضرت کے روبرو ایک ڈولچی میں پانی تھا اوس سے حضرت نے وضو فرمایا لوگ اپنی اپنی جگہ خاموش تھے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا جووضو نہیں کر تے ۔ سب نے عرض کی کہ اس ڈولچی کے پانی کے سواے کسی کے پاس نہ وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کو حضرت نے دست مبارک ڈولچی میں رکھ دیا ۔ ساتھ ہی حضرت کی انگلیوں میں سے پانی ایسا جوش مارنے لگا جیسے چشمے سے چنانچہ سب نے پیا اور وضو کیا ۔ جابرؓ سے پوچھا گیا کہ اوس روز کتنے لوگ تھے ۔ کہا پندرہ سو آدمی تھے اگر لاکھ آدمی بھی ہوتے تووہ سب کو کافی ہو تا ۔انتہیٰ۔
{صحابہؓ کی تہذیب }
ا س روایت سے صحابہ کا ادب بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ با وجود یکہ لشکر میں کسی کے پاس پانی نہ تھا اور تشنگی سب پر غالب تھی ۔ مگر جب تک حضرت ہی نے نہ فرمایا کسی نے یہ بھی نہ کہا کہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ؐ کی ادنیٰ توجہ سے سب مصائب دور ہو جا تے ہیں ۔قوم عرب کی جو جہالت تھی کتب تواریخ کے معائنہ سے ظاہر ہے ۔حضرت کی صحبت میں آنے کے بعداون کی تہذیب کا اندازہ اسی ایک واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ کس قدر مہذب او رمودب ہوگئے تھے ۔یہاں یہ خیال نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ سب منتخب افرادتھے ۔کیونکہ جنگ کے موقع میں مہذب لوگوں کا انتخاب نہیں ہوا کرتا بلکہ شمیع لوگوں کا انتخاب ہو ا کر تا ہے جو اکثر جنگلی و بدوی لوگ ہوا کر تے ہیں ۔ الغرض فیضـان صحبت یہ تھا کہ بدوی بھی اعلیٰ درجے کے مہذب و مودب دین دار خدا ترس ہو گئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابیت کی جو فضیلت ہے وہ کسی ولی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ؐ کی ہمراہی کے لئے ایسے ہی حضرات کا انتخاب فرمایا تھا جو تمام امت سے افضل ہوں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے ۔
{فضیلت صحابہ ؓ }
کنز العمال میں برائکا سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ صحابہ کو تم لوگ گالیاں نہ دو ۔ خدا کی قسم اون کا ایک وقت رسول اللہ کے ہمراہ ٹھر نااور ونکی عمر بھر کے اعمال سے افضل ہے اور فرمایا کہ خدا ے تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر نظر کیا ان میں سے محمدؐ کو پسند کر کے رسول بنا کر بھیجا ۔ پھر تمام لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو اون میں سے بر گزیدہ لوگوں کو صحابیت کے واسطے پسند کیا ۔
مشکوۃ شریف میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ صحابہ کو گا لی مت دو ۔اور اگرکوئی اُحد کے پہاڑ برابر سونا راہ خدا میں خرچ کر ے تو اُس مُدکے برابر نہیں ہوسکتا ۔جو صحابہ نے خرچ کیا ہے اور نہ آدھے مد کے برابر۔ مُدایک پیمانہ ہے جو ایک پسو کے انداز میں ہو تا ہے ۔
{ضرورت محبت صحابہؓ }
اور اوسی میں عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ فرمایا آنحضرت ؐ نے کہ میرے بعد صحابہ کو تم اے اہل امت نشانہ نہ بنائو ۔ اون کے ساتھ جو کوئی محبت رکھے گا ہو میری محبت کی وجہ سے ہوگی اور اگرکوئی اون سے عداوت رکھے تو وہ میری عداوت کی وجہ سے ہو گی اورجس نے اون کو ایذادی مجھے اس نے ایذادی ۔اور جس نے مجھے ایذ ادی اوس نے خدا کو ایذا دی او رجس نے خد ا کو ایذادی تھوڑے عرصہ میں خدا ے تعالیٰ اوس سے مواخذہ کرے گا ۔انتہیٰ ۔
حضرت نے جو وجہ بیان فرمائی کہ صحابہ کی محبت میری محبت کی وجہ سے ہوگی اوس کی وجہ ظاہر ہے کہ دنیا میں ہزار ہا اعلیٰ درجے کے لوگ گذرگئے جن کے حال تمام تا ریخوں میں موجود ہیں ۔ اون کے ساتھ محبت رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ بخلاف صحابہ کے آنحضرت ؐ کے وہ رفیق و مد دگار اور مورد نطر تھے ۔ اگر آپس میں کسی کو کسی سے بمقتضاے بشریت عداوت تھی تو اوس کی وجہ سے آنحضرتؐ کی صحابیت سے وہ خارج نہیں ہو سکتے چونکہ صحابیت ایک ایسا رتبہ ہے جو خدا ے تعالیٰ نے خاص لوگوں کو عطا فرمایا جیسا کہ حدیث شریف سے ابھی معلوم ہو ا ۔ ذاتی عداوتوں کی وجہ سے نہ کوئی اسلام سے خارج ہو سکتا نہ صحابیت سے یہ عداوت چندروز کے لئے تھی جو یہیں رہ گئی اور اس عالم میںاس کا کوئی اثر نہیں رہ سکتا ۔ چنانچہ خدا ے تعالیٰ فرما تا ہے ونزعنا ما فی صدورھم من غسل اخواناً علی سرر متقا بلین لا یمسہم فیھا نصب وما ھم منھما بمخرین ۔ ترجمہ اور نکال ڈالی ہم نے جوان کے دل میں تھی خفگی بھائی ہوگئے ۔ تختوں پرسامنے نہ پہنچے گی ان کووہاں یعنی جنت میں کچھ تکلیف اورنہ اون کو وہاں کوئی نکالے ۔
جب وہ حضرات اس عالم میں دوست او ربھائی ہوگئے تواب ہماراان کو نشانہ ٔ ملا مت بنانا نظر اس حدیث کے جوابھی مذکور ہوئی عقلی راہ سے بھی مستحسن نہیں ہو سکتا ۔
اب رہی یہ بات کہ کینہ اور عداوت جب پختہ ہو جا تی ہے تواوس کا نکلنا مشکل ہوجا تا ہے ۔یہ ہمارے خیالات ہیں اگرخداے تعالیٰ چاہے تو کچھ بڑی بات نہیں ۔ دیکھئے خصائص کبریٰ میں راویت ہے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ آنحضرت ؐ نے مجھ سے نکاح کا پیام فرمایا میں نے کہا مجھ جیسی عورت سے نکاح نہیں کیا جا تا ۔ کیونکہ مجھ میں صلاحیت نہیں کہ اولاد ہوا اور مجھ میں غیرت بہت ہے اور میں عیالد ارعورت ہوں ۔ حضرت نے فرمایا میں تم سے بھی عمر میں بڑا ہوں اور تم جو غیرت کا حال بیان کر تی ہو اوسکو خدا ے تعالیٰ دفع کر دے گا اور عیال کی پرورش خدا اوررسول کے متلعق ہے ۔چنانچہ وہ حضرت کے نکاح میں آگئیں راوی کہتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے ازواج مطہرات میں وہ ایسی رہتی تھیں گویا وہ اون میں سے ہی نہیں ۔ اور عورتوں کو جوغیرت ہوا کر تی ہے اونہوں نے اپنے میں اوسکو کبھی نہیں پایا ۔ انتہیٰ۔
اپنی سوتوں پر غیرت کرنا عورتوں کی فطرت میں داخل ہے اور ام سلمہ کو توزیادہ غیرت تھی ۔ جس کی شکایت انہوں نے پہلے ہی سے کی تھی ۔ مگر خدا ے تعالیٰ نے ان سے اس صفت کو دفع کر دیا ۔ اسی طرح صحابہؓ سے صفت کینہ کو بھی دفع فرمادیا۔ ترغیب و ترہیب منذری میں روایت ہے کہ فرما نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر مسلمان کی مغفرت ہو تی ہے مگراس شخص کی مغفرت نہیں ہوتی۔ جب کسی مسلمان بھائی سے دشمنی رکھتا ہو اور اوسی میں روایت ہے کہ نصف شعبان کی رات میں سواے مشرک کے سب کی مغفرت ہو تی ہے مگر کینہ رکھنے والے کی مغفرت نہیں ہوتی ۔اس مضمون کے روایات صحاح میں کثرت سے موجود ہیں ۔ پھر صحابہ جن کے نفوس قدسیہ تھے اور ببرکت فیض صحبت نبوی اون کو وہ کمالات اخلاقی وغیرہ حاصل تھے جو کسی ولی کو بھی ہو نہیں سکتے ۔کیا ان کے نسبت یہ خیال ہو سکتا ہے کہ بعض وکینہ وغیرہ جو اخلاق رویلہ ہیں ان میں پاے جا تے ہوں میں خیال نہیں کرسکتا کہ ان اکابر دین پر اس قسم کا دھبہ لگا نے کو کوئی مسلمان پسند کرے گا ۔ اب رہے جنگ وجدال تووہ تقدیری امور تھے جن کی خبر خود آنحضرت ؐ نے دی تھی ۔ جن کا وفوع ضروری تھا ۔ اس کا منشا ء ممکن ہے کہ خطا فی الاجتہا دوغیرہ امور ہوں ۔حضرت علی ؓ نے معاویہ ؓ کی شکایت بھی کی توان الفاظ سے کی بغو اعلینا اخواننا لفظ اخواننا سے اسی آیتہ کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے جو اوپرمذکور ہوی یعنی نزعنا ما فی صدورہم من غل اخوانا ۔
{متعلق سب صحابہؓ}
مشکوۃ شریف میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو کہ میرے اصحاب کو گالیاں دیتے ہیں تو کہہ دو ولعنۃ اللہ علی شرکم ۔انتہیٰ ۔
بہر حال متعد ور روایتوں سے ثابت ہے کہ صحابہ کے نسبت بد گوئی کرنااور نشانہ ملامت بنانا آنحضرت ؐ کے خلاف مرضی ہے ۔یہاںیہ خیال نہیں ہوسکتا کہ صحابہ میں جو مخا لفیس ہونے والی تھیں آنحضرت کو اون کا علم نہ تھا۔ کیونکہ متعدر حد یثوں سے ثابت ہے کہ قیامت تک جو واقعات ہونے والے ہیں حضرت نے سب کی خبر دے دی ۔
{پیشین گویاں متعلۂ صحابہؓ }
چنانچہ السیرۃ النبوی میں بخاری وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ حذیفہ ابن الیمانؓ کہتے ہیں ایک روز آنحضرت ؐ نے خطبہ پڑھا اور اوس میں قیامت تک ہونے والے جتنے واقعات ہیں سب کو بیان فرما دیا ۔ مگر بعض لوگ بھول گئے اور بعضوں کو یا د ہے ۔ چنانچہ جب کوئی واقعہ پیش ہوتا ہے تو حضرت کا ارشاد ایسے طورپر یاد آجا تا ہے جیسے کوئی شخص کسی غائب کی صورت کوبھول جائے پھر جب اوسکو دیکھ لیتا ہے تو یاد آجا تا ہے کہ دیکھا ہوا شخص ہے ۔
ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے ایک روز خبر دی کہ بعض امہات المومنین خلیفۂ وقت سے لڑنے کو نکلیں گے ۔ عائشہؓ یہ سن کر ہنس پڑیں کہ عورت خلیفہ ٔ وقت کے مقابلہ میں نکلے گی ۔ حضرت نے فریا دیکھو کہیں تمہیں نہ ہوں ۔ اس کے بعد علی کرم اللہ وجہ کے طرف مڑکر فرمایا کہ اگر ان کاکوئی کام تم سے متعلق ہو تواون کے ساتھ نرمی کرنا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ عائشہ ؓ اور علی کرم اللہ وجہہ سے جب مقابلہ ہوا اور علی کرم اللہ وجہہ کو فتح ہوی تو آپ نے محمد ابن ابی بکر کوجو عائشہ ؓ کے بھا ئی تھے ہمراہ دے کر مدینۂ طیبہ کو روانہ فرما دیا اور نیز آنحضرت ؐ نے معاویہ ؓ کو وصیت فرمائی کہ تم جب بادشہ ہو جا ئو تو عدل اور نرمی کرنا ۔یہ کل روایتیں اور اس کے سواے بہت سی روایتیں سیرۃ النبویہ میں معتبر کتا بوں سے مروی ہیں جن کا ما حصل یہ ہے کہ جو انقلاب صحابہ اور اون کے ما بعد ہونے والے تھے سب کو حضرت جانتے تھے ۔ اور سب کی خبر دے دی تھی ۔ غرضکہ تمام واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھے با وجود اس کے حضرت نے کسی صحابی کو لعن وطن کر نے کی اجا زت نہیں دی ۔بلکہ تا کید فرمائی کہ اون کے نسبت بدگوئی مت کرو تو اب مسلمانوں کو کیا ضرورت کہ ان گزشتہ واقعات کا خیال کر کے حضرت کے خلاف مرضی کام کے مرتکب ہوں ۔
خصائص کبریٰ میںمعادؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک کے لئے نکلے ایک روز فرما یا کہ کل انشاء اللہ تعالیٰ تم لوگ تبوک کے چشمہ پر ایسے وقت پہونچو گے کہ آفتاب گرم ہو جا ئے گا جو لوگ وہاں پہنچ جا ئیں گے اون کو چاہئے کہ اوس کے پانی کو ہاتھ نہ لگا ئیں ۔ جب حضرت وہا ںپہنچے تو اوس میں تھوڑا پانی تھا ۔ حضرت نے اوس کا تھوڑا پانی کسی برتن میں جمع فرماکر اوس میں اپنا منہ اور دونوں ہاتھ دھوئے اور وہ پانی اوس چشمہ میں ڈال دیا ۔فوراً پانی ایسا جوش مارنے لگا کہ اوس کی آواز دور تک سنائی دے تی تھی ۔ چناچنہ سب لوگ اوس کا پانی پی کر سیراب ہوگئے ۔ پھر آنحضرت ؐ نے فرمایا اے معاذ اگر تمہاری عمر دراز ہوگی توتم دیکھ لوگے کہ یہ مقام باغوں سے بھر ا ہوا ہوگا ۔انتہیٰ۔
{ہاتھ لگانے کا اثر }
آنحضرت نے جو پانی کو ہاتھ نہ لگانے کے لئے فرمایااورکسی دوسرے موقع میں بھی اوس سے مما نعت فرمائی وہاں تو ہاتھ لگانے والوں پرزبرو توبیخ بھی کی گئی جس کا حال اوپر مذکورہوا ۔ اس سے اتنا توضرور ثابت ہو تا ہے کہ ہاتھ لگانے کا کوئی معنوی اثر ہواکر تا ہے اور یہ اثر حسب حیثیت ہے ۔ اچھو ں کااور بروں کا بڑا مگر چونکہ وہ اثر محسوس نہیں اس لئے اوس کے قبول کرنے میں معمولی عقلوں کو تامل ہوتا ہے ۔ لیکن اہل کشف اوسکو دیکھتے ہیں ۔چنانچہ میزان کبریٰ میں امام شعرانی ؓ نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ جب مسجد میں جاتے اور لوگوں کووضو کر تے دیکھتے تو مستعمل پانی میں او نہیں محسوس ہو جا تا تھا کہ یہ شخص فلاں قسم کا گناہ کرتا ہے ۔چنانچہ اوسکو تنہا ئی میں کہدیتے کہ تم فلا ں قسم کا گناہ کرتے ہو اوسکو چھوڑ دو ۔ چنانچہ اکثر تائب بھی ہو جا تے تھے ۔
{امام صاحب گناہوں کا اثر پانی میں دیکھتے تھے }
آخر امام صاحب پر امرشق ہوا کہ لوگوں کے عیوب پر نظر پڑتی ہے اس لئے دعا کی الٰہی یہ کشف اوٹھا لیا جائے ۔چونکہ امام صاحب کو گناہوں کی نجاست پانی میں محسوس ہو تی تھی ۔ اسی وجہ سے پانی کے مسئلہ میں آپ نے نہایت تشدد کیا یہاں تک کہ فقہاے حنفیہ نے دہ دردہ کی شرط لگا دی ۔ یہی وجہ تھی کہ آنحضرت کا دست مبارک جس چیز کو لگ جا تا تھا اوس سے صحابہ برکت حاصل کیا کر تے تھے چنانچہ بعض صحابہ نے اون تبرکات کو قبرمیں اپنے ساتھ رکھنے کی وصیت کی جیساکہ متعد دروایتوں سے ثابت ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ معلوم ہو گا تعجب نہیں کہ ہمارے دین میں جو مصافحہ مستحن ہے اوس کی یہ بھی ایک وجہ ہوکہ بزرگا ن دین کے ہاتھ کی برکت حاصل کیا کر یں اور کسی بزرگ کی قبر کو جو ہاتھ لگا کراپنے منہ پر پھیر تے ہیں یا بوسہ دیتے ہیں غالباً اوس میں بھی یہی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہوگی ۔
{متبربکہ مقام کو ہاتھ لگاکر منہ پر ملنا}
شفاء قاضی عیاض ؒ اور اوس کی شرح خفاجی میں یہ روایت ہے کہ ابن عمر ؓ کو لوگوں نے دیکھا کہ آنحضرت ؐ جس مقام پر تشریف رکھتے تھے اوس کو ہاتھ لگا کر اپنے منہ پر پھیر لیا کر تے تھے ۔انتہیٰ ۔
ابن عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے لوگوں کو بتلا کریہ کام کیا اس سے ظاہر ہے کہ اون کو یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ ہمارے اعتقاد میں یہ بات ہے کہ حضرت کا جسم مبارک تو کیاکپڑے بھی جس مقام میں لگ گئے ہوں وہ مقام متبرک ہوگیا ۔ اور اوس کی برکت حاصل کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ اپنا ہاتھ اوس مقام پرلگا کر اپنے جسم میں میں جو مقام اعلیٰ درجہ کا سمجھا جا تا ہے یعنی منہ اوس پر پھیر لیا جائے ۔
حلیتہ الاولیا ء میں وہب ابن منبہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص نہایت گنہگار تھا جس نے سو برس تک حق تعالیٰ کی نافرنی کی جب وہ مر گیا توکسی مزطبہ میں لوگوں نے اسے پھینک دیا جہاں نجاست ڈالی جاتی تھی ساتھ ہی موسی علیہ السلام پر وحی آئی کہ اوس شخص کو وہاں سے نکال لائو اور اوس پر نماز پڑھو ۔موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی کہ نبی اسرائیل گواہی دیتے ہیں کہ وہ شخص سو (۱۰۰) برس تک تیری نافرمانی کرتا رہا ۔ ارشاد ہوا کہ یہ سچ ہے لیکن اور کی عادت تھی کہ جب وہ تورات کو کھولتا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دیکھ تا تو اوس پربوسہ دے کر اوسکو آنکھوں پررکھ لیا کرتا تھا اس لئے میں نے اوس کی شکر گزاری کی اور اوس کو بخش دیا ۔ اور شتر حوریں اوس کے نکاح میں دیں ۔انتہیٰ ۔
اس سے ظاہر ہے کہ حضرتؐ کے نام مبارک کے مقام پر بوسہ دینے کی برکت سے سوبرس کا گنہگار جنتی اور مقبول بارگاہ ایزدی ہوگیا ۔
حدیث سابق سے ثابت ہے کہ جس مقام پرحضرت ملبوس خاص لگا تھا اوس سے برکت حاصل کی گئی اور اس حدیث سے معلو م ہو ا کہ حضرت کا نام مبارک جس مقام پر لکھا تھا اوس سے برکت حاصل کی گئی ۔ اور ادب کی راہ سے اوسکو بوسہ دے کر آنکھوں پر رکھا گیا ۔حالانکہ ذات مبارک سے حروف مکتوبہ کوکوئی تعلق نہیں ۔اگر ہے تو صرف اسی قدر کہ حضرت کی ذات مبارک پر وہ دلالت کر نے والاہے ۔حالانکہ دال اور مدلول میں کوئی ذاتی مناسبت نہیں ہوتی بلکہ صرف و ضع واضع سے یہ دلالت پیدا ہو تی ہے وہ بھی انہی لوگ کے حق میں جو وضع سے واقف ہوں ۔با جوود اس کے او س نام مکتوب سے پوری برکت حاصل ہوئی ۔
اسی طرح ملفوظی نام مبارک سے بھی برکت حاصل کی جا تی ہے ۔چنانچہ ہم نے متعد کتا بوں سے انور احمدی میں نقل کیا ہے کہ جب موذن حضرتؐ کا نام مبارک لے اور سننے والا دونوںابہاموں کے ناخنوں پر بوسہ دے کر آنکھوں پرملے تو آشوب چشم سے اوس کی آنکھوں میں محفوظ رہینگی ۔او رجوشخص آنکھو ں پرملنے کے وقت یہ دعا پڑھے اللہم احفظ حدقتی و نورھما ببر کۃ حد قتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونورھما ۔ تووہ اندھا نہ ہوگا اور ابوالعباس ؒ نے اپنے بھائی فقیہ محمد ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک بار سخت ہوا چلی جس سے ایک کنکر ی اون کے آنکھ میں گری بہتیرااوس کو نکالانہ نکلی اور شدت سے آنکھ میں درد ہونے لگا ۔جب موذن سے اشھد ان محمد رسول اللہ سنا حدیث مذکور پرعمل کیا فوراً آنکھ سے کنکری نکل پڑی انتہیٰ ۔ یہ برکت نا م مبارک کے الفاظ سے ہوئی جو نا خنوں کو آنکھوں پرملنے کی وجہ سے تھی ۔ منشا اوس کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ موذن کے مونہ سے جو ہوا سے صوتی نکلی اوس میں وہ ہوا جو حروف نام مبارک سے مکیف تھی سننے والے کے ابہا موں تک پہنچی ۔اوس نے اوس کی یہ تعظیم کی کہ پہلے اوس کو بوسہ دیا اوس کے بعد اپنی آنکھوں پر ملا جس کا اثر یہ ہوا کہ آنکھیںتمام طبیات سے محفوظ ہو گئیں ۔ ہر چند یہ بظاہر سمجھ میں نہ آئے گا کہ نام مبارک کا اثر آنکھوں تک کیونکر پہونچا ۔ مگرسائنس میں غورکیا جا ے تو اوس کا استبعاد کم ہو سکتا ہے ۔کہا جا تا ہے کہ ایک آلہ ایجاد ہو ہے ۔ جس سے بغیر تار برقی کے صد ہا کو س پر خبر پہونچا ئی جا تی ہے جتنے دور پر چاہیں وہ آلہ رکھد یں ۔ جب ایک آلہ میں مقررہ اشارات عمل میں آئیں تودوسرے آلہ میں فوراً وہ نمایاں ہو جا تے ہیں یہ سب اندر ہی ہو تا ہے ۔اس مسبافت بعیدہ میں کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہوا کے اندر وہ خبر جا رہی ہے ۔اسی طرح برکت اوس نامِ مبارک کی آنکھوں تک پہونچ جا تی ہے ۔غرضکہ جس طرح بحسب اعتقاد ابن عمرؓ آنحضرت ؐ کے جسم مبارک کی برکت لباس خاص میں آئی او رلباس کی برکت اوس مقام میں آئی جہاں حضرت تشریف رکھتے تھے اوس کو اونہوں اپنے ہا تھوں کے ذریعہ اپنے منہ تک پہونچا یا ۔اسی طرح حضرت کے ذات کی برکت نام مبارک میں اور نام مبارک کی برکت ہوا میں آئی ۔ اور برکت ہوا بذریعہ ٔ ناخن ابہام بسوں اور آنکھوں تک پہونچا ئی گئی ۔ حکماء نے تصریح کی ہے کہ جماع کے وقت عورت کو جس چیز کا تصور ہو اوس شکل کا بچہ پیدا ہو گا ۔ چنانچہ میںنے خود دیکھا ہے کہ ایک عورت بند ر کی شکل کا لڑکا جنی اسی وجہ سے حکمانے لکھا ہے کہ حکما و فضلا کی تصویر یں اوس وقت عورت کے پیش نظر رہنی چاہیں تاکہ بچہ ذمی کمال اور فاضـل ہو ۔ اب دیکھئے علوق کے وقت عورت کے خیال میں جس کی صورت ہوگی اوس کا اثر لڑکے میں کیونکر آسکتا ہے ۔خیالی صورت اول توبے اصل محض ہے پھر اوس کامقام سر ہے ۔ سر سے اتر کر رحم میں وہ صورت کیونکر گئی ۔ پھراس پرکفایت نہیں ۔ بچے کسے اعضابنے تک اون میں اثر رہی ۔ بلکہ سن شعور تک اندرہی اندر استعدادِ کمال فرہم کر تی رہی ۔ اوس کے بعد تکمیل تک ہمراہ رہکر مماثل اوس حکیم با فا ضل کے بنا دیا جس کو عورت نے تصور کیا تھا ۔ حکمانے اپنے تجبربوں سے ان معنوی تا ثیرات کی صحت کا حکم لگا دیا ۔اگر اسی قسم کی تا ثیرات تبرکات مذکورہ میں بھی ہوں تو کیا تعجب ہے ۔
خصائص کبریٰ میں انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کی اصلاح کی۔یعنی کم و زائد بالوں کو درست کر دیا ۔ حضرت نے اوس کے لئے دعا کی ۔ اللہم حملہ یعنی اوس کو زینت دے ۔ راوی کہتے ہیں کہ اوس شخص کی ڈاڑھی کے بال سفیدہوگئے تھے مگراس دعا کی برکت سے پھر سیاہد ہوگئے ۔ انتہیٰ ۔
اوراوسی میں قتا دہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے حضرت کی اونٹنی کا دودھ دوہا ۔حضرت ؐ نے اوس کے حق میں دعا کی اللہم جملہ راوی کہتے ہیں کہ اوس کی ڈاڑھی کے بال نہایت درجے کے سیاہ ہو گئے ۔ اور وہ نود (۹۰) سال زندہ رہا ۔ مگر ڈاڑھی اوس کی سفیدنہ ہوی ۔انتہیٰ۔
یہ امر ظاہر ہے کہ سفید بال عا دۃً سیاہ نہیں ہوسکتے ۔ اگر چہ ممکن ہے کہ کسی دوا وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے بغیر خضاب کے سیاہ ہو جائیں ۔اگرابتک ایسا کوئی بوڑھا شخص دیکھا نہیں گیا کہ اوس کی داڑھی سفید ہونے کی بعد سیادہ ہوگئی ہے ۔
{بالوں کی نموکی حقیقت }
اس معجزے سے ظاہر ہے کہ بغیر استعمال کسی دوا کے صرف دعا سے جو سیاہ مادہ بالوں کا مسامات کے پاس آتا تھا اوس کی ماہیت ہی بدل گئی اور بالوں میں جو سفید مادہ تھا وہ بھی سیاہ ہوگیا ۔ بالوں کی تخلیق سے متعلق اطبا نے جو تحقیق کی ہے اوسکا تھوڑا ساحال بمناسبت مقام یہاں لکھا جا تا ہے جس سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ سفید بالوں کا سیادہ ہوجانا ایک دشوار امر ہے ۔نفیسی سے مستفاد ہے کہ جب اخلاط میں حرارت اثر کرتی ہے تواون سے بخارت دخانی اٹھتے ہیں یعنی ان بخارات کے ساتھ دھواں بھی شریک رہتا ہے ۔ اور چونکہ بخارات پانی اور ہواسے بنتے ہیں ۔ اور دخان مٹی او رآگ سے اس لئے اس مادہ میں چاروں عنصر شریک رہتے ہیں ۔ مگر جب وہ مادہ مسامات کے پاس آتا ہے تو بدن وغیرہ کی حرارت سے پانی تحلیل ہو کر اسی قدر باقی رہتا ہے کہ اس مادہ کے اجزا متفرق نہ ہونے پائیں۔ پھر حسب صلاحیت مسامات وہ مادہ باہر نکلتا ہے جس کا نام بال رکھا جا تا ہے ۔ حاصل یہ کہ بالوں کے تکون میں عناصر اربعہ کو دخل تام ہے دیکھئے کوئی حصہ بدن کا ایسا نہیں جہاں اخلاط اور حرارت نہ پہونچی ہو جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ آدمی سرے پائوں تک بالوں سے ڈھپا ہوتا جیسے ریچھ ۔ مگر حکمت بالغہ نے بہت سے اعضاء ایسے بناے کہ وہا ںبال اوگ نہیں سکتے ۔ مثلاً آنکھ ،زبان، حتیلیاں ، تلوے ،اور عضو تناسل وغیرہ اگر ان مقامات کے مسامات مثل مسامات سر ہوتے اور اون سے بھی بال اوگتے تو کیسی مصیبتوں کا سامنا تھا ۔ ڈاڑھی حالانکہ چہرہ ہی پر ہے مگر اوسی چہرہ کا ایک حصہ ایسا بنا یا گیا کہ اوس میں بال نہیں ورنہ شناخت کسی کی نہ ہوسکتی ۔ بالوں کے بڑھنے کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ وقتا ً فوقتا ً دخانی بخارات اٹھتے رہتے ہیں اور جو بخارات مسامات کے پا س ہوتے ہیں اون کے نئے بخارات ڈھکیل کر باہر نکالدیتے ہیں اور یہی سلسلہ بندھا رہتا ہے ۔اس لئے بال لانبے ہوتے ہیں ۔یہاں بھی قدرت الٰہی معلو ہوتی ہے ۔اول توبخار اور دخان مثل ہوا کے نرم ہوتے ہیں اور ایک جگہ ٹھیرے رہنا اون کی طبیعت کے خلاف ہے پھراون کا اس قدر سخت ہوجانا کہ جن کا توڑنا دشوار ہو ایک حیرت انگیز بات ہے ۔دیکھئے چند بالوں کی رسی بنائی جا ے تو آدمی توکیا ہاتھی کی طاقت سے بھی نہیں ٹوٹتی ۔حالانکہ اگر یہ کہا جا ے کہ ہم نے ایسے بخار یا دخان کو دیکھا ہے کہ وہ ٹوٹ نہیں سکتا توکوئی اوس کو با ورنہ کر گا ۔ یہاں یہ کہا جا تا ہے کہ دہنیت ان میں سرایت کر تی ہے اسی وجہ سے وہ مضبوط ہو جا تے ہیں مگر یہ بھی کسی قدر مستعبد ہے کیونکہ یہ بہت نرم و ملائم کر تی بہر حال اس میں شک نہیں کہ کوئی ایسی چیز اس مادہ میں شامل کر دی جا تی ہے کہ اون کو سخت بناے ۔پھر مادہ کا پے درپے آنا اس کا مقتضیٰ ہے کہ بال مدت العمر بڑھتے رہتے ہیں ۔کیونکہ بخار اور دخان کا اٹھنا کبھی موقوف نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے کہ اخلاط اور حرارت مدت العمر فنا نہیں ہوتے گو آخر عمر میں کم اورکم زور ہو جائیں ۔غرض کہ اخلاط و حرارت سے بالوں کا مادہ ہر وقت اعضا سے اٹھتا رہتاہے تو چاہئے کہ اس سے بال ہر وقت بڑھتے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بحسب خصوصیت مقام بالوں کے بڑھنے کی ایک حد معین ہے اگر پلکوں اور ابروکے بال ہمیشہ بڑھتے رہیں تو آنکھوں پر اندھیری اور چہرے پرنقاب ہوجا ئیں حالانکہ و ہ بال حد معین تک بڑھکر ٹھر جا تے ہیں ۔ پھراون کو نکال دیں تو بھی اسی حد تک بڑھ کر اون کا نموقوف ہو جا تے ہے ۔ اسی طرح ڈاڑھی وغیرہ کا حال ہے کہ جب اپنے سن نمونے سے بڑھ کر سن وقوف کو پہونچ جا تی ہے توآدمی کے قدکے طرح ایک قدمعین ہو جا تا ہے مگر فرق یہ ہے کہ اس کی قامت اگر کم کر دی جا ے تو وہ بڑھ کر قامتِ اصلی تک پہونچ جا تی ہے ۔اور قامت آدمی میں یہ بات نہیں اس سن و قوف کے زمانہ میں بالوں کا امداد ی مادہ معلوم نہیں کہا ں چلا جا تا ہے اگر متفرق ہو کر دوسرے مساموں سے نکلتا ہے توچاہئے کہ کترنے کے بعدنہ بڑھے کیونکہ اعدادی مادنہ نے اپنے نکلنے کا راستہ دوسرا بنالیا ہے ۔حالانکہ کترتے ہی بال بڑھنے لگتے ہیں اور یہ معلوم ہو تا ہے کہ امددای مادہ گویا منتظر رہتا ہے ۔ کہ باہر اس کے قد کی کمی ہو تی ہی فوراً او سکو ڈھکیلتا ہواحدمعین تک پہونچا دے اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ خدا ے تعالیٰ کو جس حد تک اس کابڑھنا منظور ہے بڑھتا ہے ۔کیونکہ ہر چیز کی مقدار اوس کے نزدیک معین ہے جیسا کہ ارشادہے وکل شیء عندہ بمقدار اس وجہ سے اندرونی مادہ یا تحلیل ہو جا تا ہے یا کسی دوسرے طرف رجوع کر جا تا ہے ۔ مگر یہ طاقت نہیں کہ اوسکو حد معین سے باہر قدم رکھنے میں مدددے ۔ البتہ حد معین تک پہونچا نے میں عاقلانہ مددکر سکتاہے کیا عقلا کو اس قدر تنبیہ کا فی نہیں کہ عاقل غیر عاقل طبعی غیر طبعی خدا ے تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ۔
یہاں ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے کہ بال بغیر دخان کے نہیں پیدا ہو تے اور دھواں جب تک کوئی مر طوب چیز نہ جلے نہیں نکلتا پھر جلا کر دھواں نکالنا کم درجہ کی حرارت سے ممکن نہیں ۔ دیکھئے موسم گرما میں دوپہر کے وقت دھوپ میں کیسی حرارت کی شدت ہوتی ہے ۔مگر کوئی مرطوب چیز اس سے نہیں جلتی اور جب خود حکما کے اعتراف سے مزاج کے حال میں معلو م ہوا کہ آگ کی صورت نوعیہ مزاج میں باقی رہتی ہے اور یہ بھی مسلم ہے کہ صورت نوعیہ حکما کے نزدیک فاعل اور مبدأ آثار ہے جیسا کہ مولانا محمد عبدالحکیم ؒ نے حل نفیسی میں لکھا ہے کہ مذھب لحکماء ان الجسم یشمل علی مادۃ وصورۃ جسمیۃ و صورۃ نوعیۃ بھا یتمیز نوع الجسم من نوع اٰخر والمادۃ من شاتھا القبول والاانفعال و المنفعل لا یکون فا علا و الصورۃ النوعیہ مبد أ الاٰ ثار فھی فا علۃ الخ اور نفسیی میں لکھا ہے فما دامت الصورۃ باقیۃ کانت الکیفیۃ با قیۃ قوبۃ اوضعیفۃ اس سے ظاہر کہ آگ کی صورت نوعیہ جو مزاج میں باقی ہے اوس میں کیفیت احراقیہ بھی موجود ہے ۔رہا یہ کہ شاید پانی کے ساتھ ہونے سے وہ ضعیف ہو کرقابل حراق نرہی ہو تو اوس کا ابطال اس سے ہوگیا کہ وہ ایسی شدید الحرارت ہے کہ اخلاط مرطوبہ کو جلا کر دھواں نکالتی ہے جس سے بال بنتے ہیں ۔ تو بعد اس کے کہ مئو ثر اور اثر خود حکما کے قول اور مشاہدہ سے ثابت ہو گئے تو ہمیں اب کوئی ضرورت نہیں کہ از سر نو زحمت اٹھا کر آگ کا وجود بدن انسانی میں ثابت کریں پھرہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً کل بدن انسانِ پر بال اوگتے ہیں اور جہاں نہیں اوگتے اوس کی وجہ حکمانے یہ بیان کی ہے کہ وہاں کے مسامات یا تو نہایت باریک ہیں یا کشادہ جس کا مطلب یہ ہے کہ دخان تو وہاں بھی موجود ہے مگر مسامات میں بال بنانے کی صلاحیت نہیں اور دخان چونکہ بغیرآگ کے پیدا نہیں ہوتا اس سے ظاہر ہے کہ تمام بدن انسانی میں خالص آپھیلی ہوی ہے جس کی صورت نوعیہ میں تغیر تک نہیں آیا ۔کیونکہ جب تقریباً تمام بدن پر بالو ں کا اوگنا اور اونکا دھویں سے بننا مسلم ہے اور مشاہدہ اورتصریح اطباء سے ثابت ہے کہ دھواں بغیر کسی جلانے والی چیز کے نہیں پیدا ہو تا اور یہ ثابت ہو چکا کہ جلا کر دھواں نکالنے والی چیز بدن میں صرف آگ ہے چنانچہ اوس کا وجود بصورت نوعیہ محققین کی تصریح سے ثابت ہے اورصور ت نوعیۂ نار کو احراق لازم ہے جس کے ثبوت پر بال دلیل ہیں تو اس کا انکار نہیں ہوسکتا کہ آگ تمام بدن میں بھری پڑی ہے جس نے اخلاط کو جلاکر اون سے دھواں نکالا ۔ اور اوس سے بال بنے ۔ اور بعض مقامات میں مسامات کی عدم صلاحیت کی وجہ سے نہ بن سکے ۔ اب عورکیجئے کہ بدن میں خالص آگ موجود ہو اور اوس کے آثار یعنی حرارت وغیرہ بھی موجود ہو ںاور وہ بھی کیسی کہ مرطوب چیزوں کو جلا کر اوس کادھواں جسم انسان میں باہر نکالتی ہے اوراس آگ میں اور ہمارے بدن میں کوئی چیز حائل نہیں با وجود اس کے ہمیں اوس کا احساس تک نہ ہو کیا یہ قدرت بالغہ نہیں ؟ کیا کوئی عاقل اسکا انکار کر سکتا ہے ؟ اب اگرکوئی دلائل میں غورنہ کرکے نا سمجھی سے کہہ دے کہ یہ بات عقل میںنہیں آتی تو سوائے اس کے قصور عقل کے اس کا اور کیا سبب ہوسکتا ہے ۔عقلا کو توضرور ماننا پڑے گا کہ جس نے آگ کو جلانے کی قوت دی ہے اوسی نے اس موقع میں جلانے سے اُسے روک دیا ۔ حق تعالیٰ فرما تا ہے سبح اسم ربک الاعلی الذی خلق فسویٰ والذی قدر فھدیٰ یعنی پاک سمجھوا پنے رب کے نام کو جو سب سے اعلیٰ ہے جس نے پیدا کیا ہرچیز کو پھرپورا کیا اور معتدل بنا یا اور جس نے اندازہ فرمایا پھر راہ بتائی یعنی جس چیز کو جس کام کے لئے پیدا کر تا ہے اوس کو بذریعہ ٔ الہالم اس کا م کی ہدایت بھی فرما دے تا ہے ۔اسی بناپر آگ کو ہدایت کردی اس موقعہ میں بدن کو نہ جلا ے یہاں یہ خیال نہ کیا جا ے کہ حق تعالیٰ ہر چیز کو پیدا کر نے کے وقت اوس کے فرائض منصبی اوسے تعلیم کرکے بے فکر ہو جا تا ہوگا ۔نہیں بلکہ اس تعلیم کے بعد بھی اپنا اختیار باقی رکھتا ہے چنانچہ ارشاد ہے ۔یفعل اللہ ماشیاء ویحکم ما یرید یعنی اللہ جو چاہتا ہیاورجوکچھ ارادہ کرتاہے اسکا حکم کرنا ہی اور اپنی تدبیر میں کسی کو مداخلت نہیں دی چنانچہ ارشاد ہے یدبر الامر کلہ یعنی کل کاموں کی تدبیر خو دہی کرتا ہے ۔ اب کہئے کہ ابراہیم علیہ السلام تھوڑی دیر آگ میں رہے او راوس نے اون کو نہ جلایا جس کی خبر خدا ئے تعالیٰـ نے قرآن میں دی ہے ۔تو اوس کی قدرت کا ملہ کے مقابلہ میں کونسی بڑی بات ہوگئی ہم توعمر بھر دھکتی آگ میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا ۔اگر اس قدرت کا ملہ کو دیکھ کر بھی کلام الٰہی پر ایمان نہ لائیں توبڑے افسوس کی بات ہے ۔ یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ بال سفید اور سرخ کیو ں نکلتے ہیں ۔ اگر یہ حکماء نے اوس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ وہ خون او ربلغم کا اثر ہے مگراوس سے تشفی نہیں ہوی ۔ اس لئے کہ بال خون اور بلغم سے نہیں بنتے بلکہ اون کامادہ دخانی بخارات ہے ۔ جیسا کہ ابھی معلوم ہوا ۔ او رظاہر ہے کہ بخارات میں صرف پانی جو بسیط ہے مخلوط ہوتا ہے اور خون و بلغم مرکب ہیں جیسا کہ نفیسی میںلکھا ہے وہو الغذا بان یترک الصورۃ الغذائیۃ ویقبل الصورۃ الخلطیۃ اولاثم العضو یۃ جس سے ظاہر ہے کہ غذا جو ایک مرکب چیز ہے اپنی صورت کو چھوڑ کر صورت خلطیہ کو قبول کرتی ہے ۔یعنی خون بلغم وغیرہ بنتی ہے اب اگررنگ وار ہے تو خلط مرکب ہے یعنی بلغم وغیرہ اس بسیط پانی میں رنگ کہاں سے آگیا ۔ یہ تو مشہور ہے کہ پانی کا کوئی رنگ نہیں ۔ جیسے میں ملا وہی رنگ دکھائی دیا ۔ البتہ جب تک خون یا بلغم میں تھا اون کا ہم رنگ محسوس ہوتا تھا ۔ کیونکہ لون الماء لون انائہٖ پھرجب ان سے علحدہ ہو گیا تواب ظرفیت کہاں اب تو دخانات کے ساتھ ہے جن کا رنگ سیاہ ہو جا تا ہے ۔جیسا کہ کا جل میںمحسوس ہے۔رہا یہ کہ شاید بعد مفارقت بھی ان اخلاط کا رنگ باقی رہ گیا ہو ۔سو یہ مشاہدہ کے خلاف ہے دیکھئے قربیق میں مختلف رنگوں کی چیزیں ڈالی جا تی ہیں مگر عرق جو بخارات کا نچوڑ ہے اوس میںکوئی رنگ نہیں آتا ۔ پھر یہ بھی ابھی معلوم ہوا کہ پانی حرارت بدن وغیرہ سے تحلیل ہوکر اوسی قدر رہ جا تا ہے جو اجزاے ارخیہ کو متفرق ہونے دے پھر جب وہ مسامات سے باہر نکل آئے تورہا سو پانی بھی ہوا ہوگیا ۔ غمامض نظر سے دیکھا جا ے توبال صرف جلے ہوے اجزاے ارضیہ معلوم ہونگے اور باقی عناصر اون کے لئے واسطہ فی الثبوت بناے گئے ہیں ۔حکمت بالغہ مقتضیٰ ہوں کہ وہ جلے ہوئے اجزائے ارضیہ کسی طرح باہر نکل کر آرایش و آسایش بدن بنیں آگ نے اپنی حرارت سے مقامی بخارات کواُٹھا یا جنہوں نے اون لطیف اجزاء کو اپنے ہمرہ لیا ۔ ہوا ے بخاری اون کو اوپر لائی ۔ پانی اون کو متفرق ہونے سے روک کر جہاں تک اون کا پہونچا نا مقصود تھا ہاتھوں ہاتھ پہونچا دیا ۔اس کے بعدوہ بد رقہ رخصت ہوگیا ۔ غرضکہ خون یا بلغم کا رنگ اون میںشریک رہنا قرین قیاس نہیں ۔ پھراون اخلاط کا رنگ بالوں کے مادہ میں ہوتو چاہئے کہ امدادی مادہ بالوں کی جڑ وں کی طرف سے رنگین کرتا ہو ا ایک مدت دراز میں اون کے سروں تک پہونچے حلانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو بال سفیدہوتا ہے وہ تھوڑے عرصہ میں پورا سفید ہو جا تا ہے پھر اگر اوس قسم کا مادہ تسلیم بھی کیا جاے تو اون با لوں کی نسبت خیال کیا جا وے گا جو ہنوز اپنے سن نمومین ہیں اور جو اپنے سن وقوف کو پہونچ گئے اون کی نسبت تواوس کا خیال بھی نہیں آسکتا ۔اس لئے کہ ابھی معلو ہوا کہ ان کے سن وقوف کے بعدامدادی مادہ کسی دوسری راہ سے نکل جا تا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاڑھی وغیرہ کے سیاہ بال اگرنہ کترے جائیں تو کبھی سفید نہ ہوں جب تک سب جھڑ کو نئے سرے سے نہ اوگین اور یہ نہایت نا در الوقوع ہے اس لئے کہ ڈاڑھی وغیرہ میں ہزار ہا بال ہوتے ہیں ۔ اور اون کی جڑیں ایسی مستحکم ہیں کہ اکھا ڑ نے سے تکلیف ہو تی ہے ۔بغیرکسی خاص مرض کے عموماً وہ خود بخود نہیں جھڑ تے اور اگرکسی صدمہ سے جھڑ بھی گئے تو معدود دے چند جو کسی شمسار میں نہیں حالانکہ ہم گھن ڈاڑھی کے بالوں کو دیکھتے ہیں کہ نہ مہینوں اون میں کنگھی کی جا تی ہے ۔نہ کوئی مرض ہے اور وہ سفید ہو جاتی ہے ۔غرض کہ ان امور سے سخت حیرانی ہوتی ہے کہ ان کے کیا اسباب ہو نگے ۔ حکما نے بالوں کے مسئلہ میں بہت سی موشکا فیان کیں ۔چناچنہ حکیم محمود صمدانی صاحب نے اس باب میں ایک رسالہ ہی لکھا ہے ممکن ہے کہ کوئی تسکین بخش تحقیق اور اون کو حاصل ہوئی ہو ۔مگر میں اپنی کہتا ہوں کہ بہت کچھ اس باب میں غور کیا اور حکماء کے اقوال سے مددلی مگر مجھے توکوئی اطمینان بخش تحقیق نصیب نہ ہوئی جس سے میں سمجھ کیا کہ جب ایک بال کی حقیقت میں یہ الجھنیں پڑی ہوی ہیں توآئندہ کیا امید کہ بد ن انسانی کے طلسمات پر مطلع ہو سکوں ۔ اور ایک میں ہی کیا بڑے بڑے عقلا حیرا ن ہیںجس پر کھلی دلیل یہ ہے کہ جس مسئلہ میں دیکھئے حکما ء کا اختلاف ہے اسی کو دیکھ لیجئے کہ صرف ہمارے ملک میں تین قسم کی طب مدون او ررائج ہے ۔یونانی، مصری ، ڈاکٹری ، جن کے اصول باہم مخا لف ہیں حالانکہ سب کا تعلق اسی بدن انسانی سے ہے اگر اس کار از ممکن الحصول ہوتا توبڑے بڑے حکماء اس اختلاف میں کیو ںپڑے رہتے سرسری نظرمیں با ل ایک جلا ہوا سیاہ مادہ دکھا ئی دیتا ہے جو بدن سے باہر نکالدیا گیا ہے مگر درحقیقت منظور الٰہی تھا کہ جسم انسانی کو زیور سے آراستہ پیراستہ کرے اس لئے اہتمام کیا گیا کہ موقع موقع پر مثل زیور کے مختلف مقامات ان کے لئے مقدر کئے گئے اور ان کو مرغوب طبایع بنایا یہ کون نہیں جانتا کہ ابرو کے کرشمہ شمشیر و خنجر کا کام کرتے ہیں مثر کان ناوک سنان سے کم نہیں ۔زلفیں وار طبعیتوں کے حق میں دام ہیں توضیح ا سکی اس طرح ہوسکتی ہے کہ ایک مشرف نہایت حسین ہو اوس دو حالتیں فرض کی جائیں ایک یہ کہ ابر و مثر گان ۔خط و خا ل وغیرہ سلامت ہوں مگر لباس فاخرہ اور زیور سے عاری۔معمولی لباس میں جلوہ گر ہو دوسری یہ کہ لباس نہایت فاخرہ اور زیور نہایت پیش بہا زیب بدن ہو ۔ مگر پلکیں اور ابرو اور دوسرے کے بال مونڈ وا دے جائیں اب غورکیجئے کہ ان دو حالتوں میں سے کونسی حالت اس قابل ہوگی کہ حسن کا اطلاق اس پر ہو ۔ و جدا ن صحیح تو ہی گواہی دیتا ہے کہ با لوں کے ساتھ حسن بھی رخصت ہوجا ے گا۔ کیوں نہ ہو حسن عارضی کو حسن خدا د اد سے کیا نسبت اگر چہ یہ حسن تناسب اعضااور خط و خال اور خاص قسم کی شکل اور رنگ وغیرہ سے پیدا ہوتا ہے جوصرف اعتباری امور ہیں اگر عقل سے دیکھے جائیں تو ان کو دلر بائی سے کوئی تعلق نہیں مگر کسی عاشق سے کہا جا ے کہ ان اعتباری امور پر اپنے آپ کو تھلکہ میں ڈالنا خلاف عقل ہے اور اس کے ساتھ دس بیس دلائل بھی قائم کئے جائیں۔ کہ اعتباری امورپر واقعی آثار کا مرتب ہونا قرین قیاس نہیں تواس سے اس کے عشق میں کوئی فرق نہ آئے گا بلکہ وہ بھی کہے گا کہ حضرت یہ ایک وجدانی امر ہے جو آپ کو حاصل نہیں اس نے عقل کو ایسا مقہور کر دیا کہ وہ دم مار نہیں سکتی اس سے ظاہر ہے کہ وہ اعتباری امور خاص خاص طبیعتوں میں حسن کا احساس پیدا کر تے ہیں پھر طرفہ یہ کہ عاشق مزاجون کے وجدان بھی جدا گانہ ہوتے ہیں ۔اسی وجہ سے کہا جا تا ہے (لیلیٰ رابچشم مجنون باید دید) پھر ہر ملک کا حسن بھی جدا ہے حبش میں موٹے موٹے ہونٹ اور بھیڑ کی وضع کے چھوٹے چھوٹے بال اور سیاہ چہرہ توے کا ہم رنگ حسن ہے جس کو یورپ او رریشائی طبائع پسند نہیں کرتے پھر وہی ناز نین جو عنفوان شباب میں دلیر اور دلربا سمجھی جا تی تھی پچاس ساٹھ سال کی عمر میں قابل نفرت ہوجا تی ہے حالانکہ صورت و شکل تقریبا ً وہی باقی ہے ۔اب غورکیجئے کہ وجدان عاشق اور شکل معشوق میں کس چیز نے ربط دیا جس سے وہ اوس کا دل وادہ ہے اور دوسروں کو کوئی تعلق نہیں ۔کیا عقل سے اس کا تصفیہ ہوسکتا ہے ؟ کہ فلاں قسم کے خط و خال اورشکل و شمائل کے ساتھ فلاں قسم کی طبیعت مثلاً سود ائی صفرا دی وغیرہ کو مناسبت ہوتی ہے ۔ہر گز نہیں پھر طرفہ یہ کہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ حسینوں کو دیکھنے سے تواے شہوانیہ کو حرکت ہوتی ہے ۔حالانکہ کجاہ چہرہ اور کجا مقام مستوراس حیوانی خیالات کی تحریک میں حسن صورت کو کیا دخل ۔عقلاً زشت وخوب دونوں اس باب میں برابر ہیں حالانکہ حسن سے اوس کو خاص تعلق معلو ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے ہماری شریعت میں اجنبی عورت کو دیکھنے کی اجامت نہیں ۔ اور عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم ہے تاکہ نظر ے فسق و فجور کی سلسلہ جنسبا نی نہ ہونے پاے ۔ مقتضاے عقل تو یہ تھا کہ جب چہرہ اچھا معلوم ہوا تھا تواوس کے دیکھنے سے سیری ہوتی ۔ اور کسی دوسری طرف خیال نہ جا تا ۔ جیسا کہ بعض بزرگوں کا حال تھا کہ مشاہدہ حسن و جمال میں ایسے متفرق ہو جاتے کہ کسی دوسری بات سے اون کو تعلق ہی نہ ہوتا ۔ غرض کہ جن طبائع میں حیوانی خیالات جوش زن ہو تے ہیں حسن صورت کا پہلا اثر قلب پر پڑتا ہے جس کا واسطہ آنکھیں اور وجدان حسن ہے جس سے محبت و عشق پیدا ہو تا ہے ۔ پھر قواے نفسانیہ پر یہ اثر ہوا کہ دماغ مختل اور قواے فکریہ بیکار ہوگئے ۔ اور جنون کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ پھر قواے شہوانیہ میں ہسیجان پیدا ہوا جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ چند قطرہ خاص فضلہ کے نکل کر سب کو ٹھنڈے کردے ۔ اب نہ وہ حسن دلفریب ہے نہ وہ جوش محبت نہ وہ آہ وزاری و بیقراری نہ وہ دیوانگی نہ وہ ہیجان ۔اگر ان امور کے روابط باہمی دیکھے جائیں توعقل سے کوئی تعلق ثابت نہ ہوگا ۔اور نہ مبادی اور مقاطع میں کوئی ایسی مناسبت پائی جا ئے گی جس کو عقل تسلیم کرسکے ۔ آخری فیصلہ اسی پر ہوگا کہ خالق طبیعت نے اقسام کے میل اس میں رکھے ہیں جن میں بعض عام ہیں جیسے میل عذا وغیرہ ۔ اور ان میلا نوں میں مادے کو کوئی دخل نہیں اس لئے کہ مادے سے فقط اعضائے جسمانی بنتے ہیں ۔اور یہ سیول طبیعت سے متعلق ہیں جس کا تصفیہ اب تک نہیں ہوا کہ وہ کیا چیز ہیں ۔بہر حال بال انسان کی زینت کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ ورنہ حیوانوں کی طرح سے سرسے پائوں تک ہوتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر خاص خاص قسم کی وضع ترکیب نہ ہوتی ۔دیکھئے سراور ابرو کے بالوں میں پیشانی کا فاصلہ ہے ۔حالانکہ بظاہر پوست ایک قسم کاہے مگر پیشا نی پرنہیں اگتے پھر تھوڑے فاصلہ پر پلکیں ہیں پھر مردار عورت میں فرق کرنے کے لئے مردوں کو ڈاڑھی موچھیں دی گئیں اورجس طرح سر کے بال عورتوں کی زینت ہیں ڈاڑھی موچھیوں سے مردوں کی زینت ہے ۔ اگرکسی کوڈاڑھی نہ نکلے تواوس کا چہرہ بد نمام معلو م ہوتا ہے ۔ اور کیسا ہی فاسق کیو ں نہ ہو ڈاڑھی کے نہ نکلنے کا اوس کو قلق ہو تا ہے اور با وجود دیکہ ایسے دوائین موجود ہیں کہ اون کے لگا نے سے بال نہیں اوگتے مگر ڈاڑھی مونڈ وانے والے اون کا استعمال کر کے ہمیشہ کے لئے بے فکری حاصل کر لے تے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کی ضرورت وہ بھی سمجھتے ہیں خیالی ہی کیوں نہ ہو ۔ الحاصل بالوں کا زینت انسانی ہونا ہر طرح سے مسلم ہے اس کے سوا معلوم نہیں کہ خالق عزوجل نے اون میں کیا کیا فوائد رکھے ہیں ۔ حکماء نے اپنے تجربوں سے ایک فائدہ بالوں کا یہ بھی بتا یا ہے کہ وہ آدمی کی اندرونی حالت اوراخلاق پرمطلع کر تے ہیں چنانچہ علم قیافہ میں لکھا ہے کہ وہ اون امو پر دلالت کرتے ہیں ۔خوش خلقی ،بدخلقی، قوت ،جرأت ،شجاعت ،نہور ،جبن ، خونریزی ،تکبر، ظلم ،بد نیتی ، دناء ت ، خبث باطنی ، بد نفسی ، نیک نفسی ، حسن و قبح طبع ،غفلت ،حماقت ،کم فہمی ، کج فہمی ، ذکاوت ،وہم ،جنون اختلاط ذہن، بد گمانی ،مکاری ، زنانگی ، کثرت شہوت ، عیاشی ،بخل ،حرص، بے حیائی ، لہو ولعب ، استہزاء طلاقت ،وعدم طلاقت، لسان ،لاف گذاف وغیرہ جن کو فن قیافہ میں مہارت تامہ حاصل ہے وہ صرف بالوں کے حالات کو دیکھ کر ان اخلا ق باطنی پر مطلع ہوتے ہیں ۔ غور کیجئے کہ کیسی قدرت کاملہ ہے کہ بال اوس کی صنعت با لغہ پر گواہی دے رہا ہے اس کے سوا خدا جانے اور کیا کیا مصلحتیں پیش نظر ہیں جن کا حال خدا ہی جانتا ہے ۔منجملہ اون کے اس میں بظاہر یہ مصلحت معلو م ہوتی ہے کہ اون سے بچائو گرمی سردی وغیرہ کا بھی ہوتا ہے پلکوں کے بال ایسے وضع کے بنا ئے گئے ہیں کہ گرد و غبار وغیرہ اوپر اورنیچے سے نہ جا سکے باوجود اس پر دہ ہونے کی بصارت کو وہ نہیں روک سکتے ۔ غرض کہ غائر نظر سے یہ معمولی چیزیں دیکھی جا ئیں تو خدا ے تعالیٰـ کی کمال حکمت و قدرت وغیرہ صفات کا ثبوت آدمی کو مل سکے ۔ مگر افسوس ہے کہ ہم لوگ ا پنے دھندوں میں ایسے لگے ہوے ہیں کہ وہاں تک نوبت ہی نہیں آتی ۔اگرچہ یہ بحث موضـوع کتا ب سے متلعق نہیں مگر مقاصدالاسلام سے ضرور متعلق ہے اس لئے ضمناً لکھ دی گئی ۔
خصائص کبریٰ میں راویت ہے کہ زیادابن عبد اللہ ؓ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوے ۔آپ نے اون کے لئے دعا کی اور دست مبارک ان کے سر اور چہرہ پر پھیرا ۔ بنی ہلال کہتے ہیں حضرت کے دست مبارک کی برکت ان کے چہرے میں نمایاں تھی ۔ او ران کاچہرہ ٔ پر نور چمکتا تھا انتہیٰ ۔
دیکھئے دست مبارک کی برکت جو ایک معنوی چیز تھی اون کے چہرے پر نمایاں ہوگئی اور غیر محسوس امر محسوس ہوگیا جب اس عالم میں غیر محسوس امر محسوس ہوگیا توقیامت کے روز اس کا محسوس ہونا ہرگز قابل استبعاد ہو نہیںسکتا ۔ اور جب وہ برکت ان کے مرے تک محسوس ہو تی رہی توقیامت کے روز یقینا اس میں اور بھی برکت ہوگی ۔
خصائص کبریٰ میں روایت ہے کہ سبرہؓ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوے اور عرض کی کہ یارسول اللہ میرے ہاتھ کی پیٹھ پہ ایک رسولی ہوی ہے جس کی وجہ سے میں اپنی اونٹنی کی مہار تھا م نہیں سکتا ۔ حضرت نے ایک پیالہ منگوایا اور رسولی پر اوس کو مار کر دست مبارک اوس پر پھیر نے لگے تھوڑی دیرمیں وہ جاتی رہی انتہیٰ۔
تھوڑے عرصہ میں رسولی کا دفع ہوجا نا مشکل کام ہے اکثر اطبا اوس کے علاج سے عاجز رہتے ہیں ۔اصل یہ ہے کہ خداے تعالیٰ کسی پر مہربان ہو تا ہے تواوس کے لئے ایک خصوصیت عطا ہوتی ہے کہ جو چیز وہ چاہے موجود ہوجا ے چنانچہ کل جنتیوں کو ا یک خصوصیت عطا ہو گی ۔اس کا مقتضیٰ یہ کہ اوہر کسی چیز کی خواہش ہوئی اودھر اوس کا وجود ہوگیا ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا جا سکتا ہے کہ کن عطا ہوتا ہے ۔یعنی کسی چیز کے وجود کا خیال و اراد ہ کرنا گویا کن کہتا ہے ۔ جس کے ساتھ ہی وہ موجود ہو جا تی ہے ۔اس کی تصریح حضرت غوث الثقلین رحمتہ اللہ علیہ نے فتوح الغیب میں فرمائی ہے خصائص کبریٰ میں عبدالرحمن ابن ابی بکرؓسے روایت ہے کہ حکم ابن عاص حضرت کے پاس بیٹھتا جب حضرت کچھ کلام فرماتے اپنے چہرے کے پوست کا پھر کا تا۔حضرت نے فرمایا کن کذالک مرے تک اوس کی حالت یہی رہی کہ اوس کا چہرہ ہمیشہ پھر کتا تھا ۔ انتہیٰ۔
خصائص کبریٰ میں ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت ؐ خطبہ پڑھ رہے تھے ایک شخص پیچھے کھڑا ہوکر چڑھا نے لگا حضرت نے فرمایا کذالک فکن یعنی ایسا ہی ہو جا۔ساتھ ہی وہ گرگیا ۔ دو مہینے تک فریش رہا اور جب افاقہ ہوا تو اوسکا چہرہ ویسا ہی ہوگیا جو چڑھانے کے وقت تھا ۔ انتہیٰ۔ دیکھئے صاف لفظوں میں حضرت نے کن فرمایا اور حضرت جو ارادہ فرمایا وہ وقوع میں آگیا ۔
خضائص کبریٰ میں ابورحبی سے روایت ہے کہ و ہ کہتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے اس وقت وہ باغ کو پانی دے رہے تھے حضرت نے فرمایا اگر میں تمہارے پورے باغ کو پانی دوں تو تم مجھے کیا دو گے انہوں نے کہا میں بہت کوشش کر تا ہوں کہ اوس کو سیراب کردوںمگر نہیں ہوسکتا ۔ حضرت نے فرما یا گر میں اوس کو سیراب کروں تو کیا تم سو کھجو ر یں دوگے ؟ اونہو ںنے قبول کیا ۔ حضرت نے ڈول لیا اور تھوڑی دیر میں کل باغ میں پانی پہونچا دیا ۔ یہاں تک کہ وہ انصاری کہنے لگے کہ بس کیجئے میرا باغ ڈوب جا ئے گیا ۔حضرت نے اون سے کھجو ریں لے کر آپ بھی کھائیں اور صحابہ کو بھی کھا ئیں ۔ یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے اون کی وہی سو کھجوریں جولی تھیں واپس کر دیں ۔انتہیٰ ۔
اس روایت سے معلو م ہو ا کہ آنحضرت ؐ نے کام پر اجرت لی ہے کیونکہ باغ کو سینچا اور اس کے معاوضہ میںچھو ہا رے لئے۔ اور یہ صرف ضرورت کے لحاظ سے تھااس کے سوا اور روایات سے بھی ثابت ہے کہ ضرورت کے وقت حضرت اس قسم کی مزدوری کر لیتے تھے اور یہ کچھ عیب نہیں ۔ ہاں بلا معاوضہ کوئی چیز مانگنا اور لینا البتہ عیب ہے ۔ حق تعالیٰـ فرما تا ہے ۔قل مآ اسالکم علیہ من اجر الامن شاء ان یتخد الی ربہ سبیلا ۔یعنی کہواے محمد کہ میں اس پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا ۔ البتہ ایسے شخص کو مانگ تا ہوں جو اپنے پر ور دگار کی طرف جانے کا راستہ لینا چہاتا ہے ۔انتہیٰ۔
خدا کے تقرب کا راستہ چلنے والے پہلے توخود ہی کم ہوتے ہیں ۔اور اوس پر اگر کوئی آنا چاہتا توکفار اوس کو روک دے تے۔اور حضرت سے ملنے ہی نہ دیتے ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو واعظ کچھ مانگتا ہو اور قوم پراوس کی یہ حالت ظاہر ہوجاے تولوگ اوس کے وعظ میں بہت کم شریک ہوتے ہیں ۔اس لئے کہ پیسہ دینا آدمی پر بہت شاق ہوتا ہے ۔ خصوصاً ایے موقع میں کہ معاوضہ کچھ بھی نہ ملے اس لئے حضرت نے پہلے ہی فرمادیا کہ میں تم سے کسی قسم کی مزدوری نہیں مانگتا اور اوس کو عملاً بھی ثابت کر دکھا یا ۔اس طریقے سے کہ آپ نے گزر ان ایسی رکھی کہ تمول کی اوس میں ضرورت ہی نہ ہو ۔
{حال معیشت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم }
المواہب الدنیہ میںکتب معتبرہ سے روایتیں لکھی ہیں کہ متواتر کئی کئی روز ایسے گزاجا تے تھے کہ آنحضرت ؐ او رآپ کے گھر والوں کو فاقہ ہوتا۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ آنحضرت ؐ کی زندگی بھر میں کبھی اسیا اتفاق نہیں ہوا کہ ایک روز میں دوقسم کی چیزیں آپ سیری سے کہا ے ہوں ۔ اگر کھجور یں ملیںتو اوسی پر اکتفا کیا ۔ اور جوکی روٹی مل گئی تووہی کھا لی ۔ نعمان ابن بشرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ روی اور کم درجہ کی کھجور بھی آپ کو کبھی اتنی نہ ملی کہ پیٹ بھر کر کھا ے ہوں ۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ دو دوتین تین چاند یعنی مہینے ایسے گزر جا تے تھے کہ ہمارے یہاں چولھا سلگنے کو نوبت نہ آتی ۔ صرف پانی اور کھجور پر گذر تھی ۔
شفائے قا ضی عیاض میں ہے کہ اکثر یہ ہوتا ہے تھا کہ آنحضرت ؐ بھوک کی وجہ سے رات بھر پیج و تا ب کھا تے رہتے تھے ۔ اور با وجود اس کے دن کو روزہ رکھتے میں حضرت کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیاری رو دے تی او رشکم مبارک پر ہا تھ پھیر تی ایک بار عر ض کی یارسول اللہ میںآ پ پر فداہوں ۔آپ دنیا سے اتنا تو رکھئے جو بقدر کفاف قو ت ہو سکے ۔ فرمایا مجھے دنیا سے کیا تعلق میرے بھائی جو اولوالعز م پیغمبر تھے اس سے زیادہ سختیوں پر صبر کئے ۔ اور اسی حالت سے اپنے رب کی طرف گئے اور اوس نے اون کا اکرام کیا اوراون کو اوس کے عوض میں بڑی بڑی نعمتیں دیں ۔ مجھے شرم آتی ہے کہ میں مرفہ الحالی سے زندگی بسر کر وں اور کل اون سے کم درجہ ہوں ۔کوئی چیز مجھے اس سے زیادہ محبوب وہ مرغوب نہیں کہ میںاپنے بھائیوں اور دوستوں اور رفیق اعلیٰ سے مل جائوں ۔
کنز العمال میں روایت ہے کہ ابوہریرہ ؓکہتے ہیں کہ میںحضرت کی خدمت میں حاضر ہو ا دیکھا کہ بیٹھ کر آپ نماز ادرا فرما رہے ہیں میں نے اوس کا سبب پوچھا ۔فرمایا بھوک کی وجہ سے اے ابوہریرہ یہ سن کر بے اختیار رونے لگا حضرت نے فرمایا مت رو جوشخص بہ نیت اجر بھوکا رہے قیامت کی شختی سے وہ محفوظ رہے گا ۔
ابوطلحہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم نے آنحضرت ؐ سے بھوک کی شکایت کی اور ایک ایک پتھر پیٹ پر ندھا ہوا دکھلا یا ۔ حضرت نے کپڑا اوٹھا کر دکھلا یا کہ دوپتھر شکم مبارک پر بندھے ہیں انتہیٰ ملحضا ً ۔
اس مقام میں یہ اعتراض کیا جا تا ہے کہ پیٹ پرپتھر باندھنے سے بھوک کم نہیں ہوسکتی ۔ بظاہر یہ درست معلو م ہوتا ہے۔مگر اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ یہ فعل بے فائدہ ہو ۔عرب کی عادت تھی کہ جب بہت بھوکے ہوتے توپیٹ پر پتھر باندھ لیتے جب تک کہ کچھ نہ کچھ فائدہ اس میں نہ دیکھا ہو ممکن نہیں کہ ایک قوم ایسے فضول کام کی مرتکب ہوئی ہو۔ معترض صاحب پیٹ بھرے ہیں ۔ وہ کیا جانیں کہ بھوک جب شدت سے لگتی ہے اور آدمی بے تاب ہو جا تا ہے اوس وقت کیا حالت ہوتی ہے اور کیاسوجتی ہے کم سے کم یہ مصلحت ضرور ہے کہ جب پیٹ خالی ہو جا تا ہے توآدمی سید ھا کھڑا ہو نہیں سکتا اس لئے پتلا سا پتھر لیتے ہوں گے ۔ تاکہ قامت میں خمید گی نہ آنے پا ئے انتہا درجہ کی بھوک کے وقت پیٹ پر پتھر باندھا جا تا ہے ۔ یہاں یہ بھی ایک خیال پیداہوتا ہے کہ انصار مہاجرین کے ساتھ کمال ہمدردی سے پیش آے ۔ یہا ںتک کہ اپنا آدھا مال دے دیا ۔ پھر آنحضرت ؐ کی حالت ایسی کیوں رہی اس کو یو ںدفع کر سکتے ہیں ۔ کہ حضرت کا فقر اختیاری تھا چنانچہ اس روایت سے ظاہر ہے جو المواہب الدنیہ میں ابن عباس سے ہے کہ ایک روز آنحضرت اور جبرئیل مکہ معظمہ میں صفا پر تھے حضرت نے اون سے فرمایا کہ قسم ہے اوس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا شام کو آل محمد کے پاس ایک مٹھی آٹا اور ایک ہتیلی بھر ستو بھی نہیں ہوتا ۔یہ کلام پورا ہو نے نہیں پایا تھا کہ آسمان سے ایک سخت آواز آئی جس سے حضرت گھبرا گئے اور اون سے پوچھا کہ کیا قیامت قائم کرنے کا حکم آگیا ہے ؟کہا نہیں اسرافیل کو آپ کے پاس آنے کا حکم ہوا ہے چنانچہ وہ آئے اور کہا جو آپ نے ذکر کیا وہ خدا ے تعالیٰ نے سنا اور آ پ کے پاس مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے کر بھیجا ہے او رحکم فرمایا کہ میںآپ پر یہ پیش کردوں ۔ او رتہامہ کے پہاڑوں کو زمرد اور یاقوت اور سونا اور چاندی بنا دوں ۔ اگر آپ اس میں راضی ہیں توابھی ایک کام کر دیتا ہوں ۔اب آپ کا اختیار ہے کہ چاہیں نبی پادشاہ بنیں یا نبی بندے ۔ جبرئیل نے آپ کو اشارے سے کہا کہ تواضع اختیار کیجئے ۔حضرت نے اون سے کہا کہ میں نبی بندہ بنا چاہتا ہوں۔انتہیٰ۔
جب آدمی کی ایسی حالت تھی تو طبع غیور کیونکہ گوارا کر سکتی ہے کہ آپ اپنی معیشت کا با رانصار پر ڈال دیں ۔ اس لئے جب سخت ضرورت ہوتی تو مزدوری کر لے تے اور ہدیہ اور دعوت بھی قبول فرما لے تے ۔بہر حال متعد و صحیح صحیح روا یتوں سے ثابت ہے کہ جس طرح آپ اورآپ کے اہل یبت و ازواج مطہرات نے گزران کی کوئی دنیا داری ایسی گزران نہیں کر سکتا ۔
{حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا حال }
اور حضرت کے لباس مبارک کا یہ حال تھا مواہب میں مذکور ہے کہ کبھی چادر اوڑھ لیتے اور کبھی سیاہ کمبل اور کبھی تا زیب بدن فرما تے ۔
اورانس سے روایت ہے کہ آنحضرت ؐ صوف پہنا کرتے تھے اور ایک چادر پیوند لگا ئی ہوئی تھی ۔ جس کو پہنتے اور فرما تے کہ میں بندہ ہوں جس طرح غلاموں کا لباس ہوکرتا ہے میں بھی ویسا ہی پہنتا ہوں یہ لباس کا حا ل تھا۔السیرۃ النبویہ میں حفصہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ؐ جس بچھونے پر آرام کر تے وہ موٹی کمبل تھی ۔ او رکبھی چار پائی پر آرام کر تے جو باند سے بنی ہوتی جس کا اثر جسم مبارک پر نمایاں ہو تا ۔
اب مکان کا حال سنئے ۔
خلاصتہ الوفا وغیرہ میں لکھا ہے کہ حجرۂ مبارک کی یہ کیفیت تھی کہ جلانے کی قند لکڑیاں گا ڑدی اور اون سے کمبلوں کو باندھ دیا گیا تھا ۔ وفات شریف تک حضرت کا یہی خاص دولت سرا رہا ۔ اور جو ازواج مطہرات کے حجرے تھے ان میں چار حجروں کی دیورا یں کچی اینٹ کی تھیں ۔ اور چھت کھجور کی شاخوںکا جس پر کچر کا گلا بہ کر دیا گیا تھا ۔ او رپانچ حجروں کو تو دیواریں بھی نہ تھیں صرف کھجور کی شاخیں گا ڑ کر ان پر گلا بہ کر دیا گیا تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان کی بلندی اتنی تھی کہ میرا سر ان کی چھت کو لگتا تھا اور ان کے دروازوں پر تین ہاتھ طول اورایک ہاتھ عرض کے پردے کمبل کے کپڑے رہتے تھے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت کے زمانے میں صاحبزادے کم سن تھے جب ان کا سر چھت کو لگتا تھا تو اس سے ان ملحسرا ئوں کے ارتفاع کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔یہ خاص حضرت کے اور ازواج مطہرات کے دولت خانے تھے جن میں عمربھر گزران کی ۔ آدمی کے لئے کھانا کپڑا مکان ضروریات سے ہیں اور جس قدر روپیہ زیادہ صرف ہوتا ہے اسی میں ہوتا ہے ۔ بلکہ آدمی ان ہی امور میں تر فر حاصل کرنے کی غرض سے اقسام کی مشقتیں اٹھا تا ہے ۔ حضرت کے طرز عمل نے یہ ثابت کر دکھا یا کہ مال و دولت حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ جو امر یہاں پیش نظر ہے وہ اسی قدر ہے کہ حضرتؐ کو دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا جس سے لوگوں کو مآ اسئلکم علیہ من اجرٍ کا مشاہدہ ہو جا ئے ۔کثرت ازواج سے اس مضمون کی اور زیادہ تائید ہوتی ہے کہ با وجود اس قدر عیالداری کے کسی پر نہیں ڈا لا گیا ۔
السیرۃ النبویہ میں عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ حضرت کی وفات تک کبھی ایسا نہ ہوا کہ خود بدولت یا ازواج مطہرات جو کی روٹی سے بھی سیر ہوئے ہوں انتہیٰ۔ شاید کسی بیوی کا خیال آرائش و زینت کی طرف متوجہ ہوا ہوگا جو خاطر غیور سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر بار ہونے کا باعث تھا ساتھ ہی یہ آیہ شریف نازل ہوئی ۔یا ایہا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیواۃ لدنیا و زینتھا فتعالین امتعکن واسروحکن سراحا جمیلا ۔ وان کنتن تردن اللہ و رسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ احد للحسنت منکن اجراً عظیما ۔ یعنی اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر تم کو دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش منظور ہے تو او ئیںتم کو کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ اوراس کے رسول اور آخرت کو چاہتی ہوں تو اللہ تم میں سے نیک بختوں کے لئے بڑا اجر تیار رکھا ہے ۔ انتہیٰ۔
اس کے بعد جتنے خیالات آسکتے تھے کہ ہم جب بنی کی بعیان اور جتنے اسی ہیں سب کی مائیں ہیں جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا اور ازواجہ امہا تہم اور اس ذریعہ سے ہمیں بہت کچھ زیور وغیرہ زینت دنیا ملے گی ۔وہ سب کا فور ہوگئے۔ اور صرف خدا و رسول و وعدۂ قیامت پر قانع ہوگئیں ۔ چنانچہ انہیں حجروں میں فقر و فاقہ کے ساتھ عمر بسر کی اور ابھی معلوم ہوا کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لئے کچھ کھانا منگوا یا تو محلوں میں تلاش کیا گیا مگر کوئی کھا نے کی چیز نہ نکلی ۔
زرقانی شرح مواہب میںروایت ہے کہ حضرت علی کر م اللہ وجہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ پانی بھرتے بھرتے میرے سینے میں درد ہوگیا تمہارے والد ماجد کے پاس بہت سے قیدمی خدا ے تعالی نے بھیج دئے ہیں ۔ ایک آدہ قیدی خدمت کے لئے مانگ لائو ۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں بھی چھا لے پڑگئے ہیں ۔چنانچہ وہ آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ آپ نے پوچھا اے لڑکی کس کام کے لئے آئی ہو ۔عرض کی آپ پر سلام عرض کرنے کے لئے اورشرم کے مارے مقصود بیان نہ کر سکیں ۔ جب واپس گھر تشریف لائیں تو علی کرم اللہ وجہ نے حال دریافت کیا ۔کہا شرم سے میں کچھ مانگ نہ سکی ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا چلو تم ہم دونوں جائیں ۔ چنانچہ حاضر ہوئے ۔ اور علی ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ پانی بھرتے بھرتے میرے سینے میں دردہوگیا ۔ اور فاطمہ علیہما السلام نے عرض کی پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے اور ایک آدہ خادم ہمیں عنایت فرمادیئے ۔ حضرتؐ نے جواب دیا خدا کی قسم تمہیں خادم نہ دونگا ۔کیونکہ اہل صفا بھوک کے مارے بے تاب ہو تے ہیں اور میرے پاس کوئی چیز نہیں کہ ان پر خرچ کروں اس لئے اون قیدیوں کو بیچ کر اونکی قیمت اون پر خرچ کر ونگا یہ سنکر دونوں حضرات اپنے گھرواپس روانہ ہوئے اس کے ساتھ ہی حضرت اون کے یہاں تشریف لے گئے اوس وقت وہ ایک چادر میں لیٹے ہوئے تھے چادر کی یہ حالت کہ اگر سرپر اوڑیں تو پائوں کھل جا تے ہیں اور پائوں پر اوڑ ھیں تو سر کھلا رہ جا تا ۔ حضرتؐ کو دیکھتے ہی وہ اٹھنا چاہے حضرتؐ نے فرمایا لیٹے رہو پھر فرمایا کہ کیا تمہیں ایسی بات نہ بتائوں جو اوس سے بہتر ہو جس کا سوال تم نے کیا تھا عرض کیا ارشاد ہوفرمایا چند کلمات جبرئیل نے مجھے تعلیم کئے ۔وہ یہ ہیںکہ ہر نماز کے بعد سبحا ن اللہ دس بار ۔اور الحمد اللہ دس بار۔ اللہ اکبر دس بار۔ او رجب بچھونے پر سونے کے لئے جا ئو تو سبحان اللہ تینتیس بار اور الحمد اللہ تینتیس بار اور اللہ اکبر چونتیس با ر پڑھ دئے جائیں ۔ اتنہیٰ۔ لیجئے نہ سینے کا درد قابل توجہ ہوانہ ہا تھوں کے چھا لے نہ چادر کی کو تا ہی اور فیصلہ ہو ا تو اس پرکہ یا د الٰہی اور تسبیح اور تہلیل میں مشغول رہیں ۔اور با وجود اس کے طرفین میں نہ کسی قسم کا ملال ہے نہ گرانی خاطر یہ خاص اپنے جگر گوشہ سید ۃ النساء کے ساتھ سلوک تھا جن سے کمال درجہ کی محبت تھی جن کی ملاقات کے وقت تعظیم کے لئے آپ اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔اور علی کرم اللہ وجہ جیسے داماد بھی اس سوال میں شریک ہیں ۔ مگر جواب میں قسم کھا کر ارشاد فرما رہے ہیں کہ اس عطا میں فقیروں پر تمہیں کبھی ترجیح نہ دی جائیگی ۔ کیا ان امور کے مشاہدے کے بعد بھی کوئی جس کو تھوڑی سی بھی عقل ہو یہ الزام لگا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت نبوت سے دنیا طلبی مقصود تھی نعوذ بااللہ من ذالک ۔لوا زم دنیا داری میں یہ امور داخل ہیں کہ آدمی اولاً خود مال سے اپنی اولاداور متعلقین کو مالی فائدہ پہنچا نے کی فکر میں رہتا ہے اسی کو دیکھ کہ مرزا صاحب قادیانی نے اپنے فرزند بلکہ خاندان میں بذریعہ ٔ الہام مسیحیت جمادی ۔چنانچہ لکھتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے فرمایا خدا تیرے مجد کو زیادہ کر رکھا اور تیری ذریت کو بڑھا ئیگا ۔اور من بعد تیرے خاندان کی تجھ ہی سے ابتدا اقرار دی جائے گی ۔ ایک اولوالعزم پیدا ہوگا وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہوگا ۔ وہ تیری خسل سے ہی ہوگا فرزند دلبند گرامی وارجمند مظہر الحق و العلا کان اللہ نزل من السماء اور فرما تے ہیں کہ اور مسیح کو بھی یاد رکھو جو اس عاجز کی ذریت میں ہے جس کانام ابن مریم بھی رکھا گیا ہے ۔ غرض کہ انہوں نے مسبحیت و نبوت کو ذریعہ ٔ معاش بنا کر خوب سامان مختلف تدابیر سے جمع کیا ۔ جیسا کہ مفاتیح الاعلام فہر ست افادۃ الافہام میں کیف کتب معتبرہ کہ مرزا صاحب ایک کتاب کے دو نام رکھ کے دونوں کی قیمت حاصل فرماتے ہیں ۔اور قیمت تگنی چوگنی رکھی جا تی ہے کتا بوں کی قیمت پیشگی وصول کر لی جا تی ہے ۔اور کتاب زادرد و دعاکی پیشگی اجرت لی جا تی ہے اور اثر ندارد۔اموال و املاک و زیور ات وغیرہ کی زکوۃ کی ترغیب دی جا تی ہے ۔اس غرض سے کہ اپنی تصنیفات اوس خرید یں تمام چندے اور زکوۃ وغیرہ بیوی صاحبہ کے سپرد کئے جا تے ہیں۔ پھر نہ اوسکا حساب ہے نہ نگرانی ۔اگر حساب طلب کیا جا تا ہے تو فرما تے ہیں کیسامیں کیسے کا خرانچی ہوں ۔ لنگر کا روپیہ بہت جمع ہوتا ہے ۔کیونکہ حکم ہے کہ جولنگر میں چندہ نہ دے وہ اسلام سے خارج ہے ۔پھر جب مہمانوں کو تکلیف ہونے کی شکایت ہوئی تو ارشاد ہوتا ہے کیا میں ٹھیاری ہو ںاپنی اور اپنے اہل بیت کی تصوریں بیچ کر روپیہ حاصل کیا گیا ۔ بہشتی مقبرہ جس کی بنیاد ڈالی اوس میں دفن ہونے کی یہ شرط کہ اپنی جائداد کے دسویں حصہ کی وصیت کردے قیمت کتب وغیرہ وصول کر کے اشتارہ دلوادیا کہ امام وقت و خلیفۃ اللہ کو تنگ دلوں زر پرستوں کے حساب سے کیا کام تقویت اعصاب وغیرہ کے لئے انگریزی وہ دوائیں کھاتے ہیں جن میں شراب ہوتی ہے چندہ وغیرہ کا بار مرید وں کی حیثیت سے بڑھکر اون پر ڈالا جا تا ہے ۔اوراون غریبوں کے خون کے کیوڑاعنبر مشک بید مشک مفرحات مقویات کی بھر مار رہتی ہے ۔ بیوی سونے کے زیورات سے لدگئی مکانات وسیع ہوگئے ۔ قورما ۔ پلائو یا فراط کھا یا جا تا ہے امیرانہ بلکہ شاہانہ خوراک لباس فرش فروش و مکانات و باغات جائداد اور زیور رکھتے ہیں ۔ اور عیش و عشرت میں مسفرق ہیں یہ عیش و عشرت جو اون کو اوراون کی بیوی کو جو ام المومنین کہلا تی ہیں حاصل ہوا ۔اوس ادعائی نبوت اور مسیحیت کا نتیجہ ہے جو انہوں نے بڑی مشقت سے پیدا کی اب رہی اولا د کی فکر تو اوس کے لئے کئی الہام ہیں منجملہ اون کے ایک یہ ہے جو فرما تے ہیں قطعی اور یقینی پیش گوئی میں خدا نے ظاہر کر رکھا ہے ۔ کہ میرے ذریت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کے با توںمیں مسیح سے مشابہت ہو گی ۔ وہ آسمان سے اترے گا اور فرما تے ہیں کہ اوس مسیح کو بھی یاد رکھو جو اس عاجز کی ذریت میں ہے جس کا نام ابن مریم رکھا گیا ہے ۔غرضکہ مسیحیت کی بدولت مرزا صاحب نے خود بھی عیش و عشرت کے مزے لوٹے اور متعلقین واولاد کے واسطے جائدادوں کا نجونی انتظام کیا ۔اس سے یہ بڑھکر کیا ہوگا مسیحیت کا سلسلہ ا پنے خاندان میں قائم کردیا ۔ ان حالات کے ملا حظہ کے بعد اصلی اور ادعائی نبوت میں ہرشخص فرق کرے گا کہ ادعائی نبوت کو اصلی نبوت سے کیا تعلق ہے ۔ مرزا صاحب سے بعض لوگ جو خوش اتقادی رکھتے ہیں اون سے سنا گیا کہ وہ ادائل میں اچھے آدمی تھے ۔ اور آخر میں اون کے دماغ میں خلل آگیا تھا جس کی وجہ سے نبوت اورالہاموں کا دعوے کرنے لگے تھے مگر میری دانست میں وہ مرفوع القلم یعنی دیوانے ہو گز نہ تھے ۔کیونکہ کمال عقلمند ی سے انہوں نے یہ اصول قائم کئے تھے کہ جتنے معجزے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کتا بوں میں لکھے گئے ہیں وہ سب اصل ہیں اس لئے جب اون کو دعوے نبوت تھا تو لوگ ضرور معجزے طلب کر تے اس لئے اس لئے انہوں نے معجزات کا انکارہی کردیا اور صرف الہاموں پر زور دیا جس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا ۔ اور اس دجہ کا تقرب اپنا خدا کے ساتھ بیان کیا کہ خدا ے تعالیٰ اون سے ٹھٹے کر تا ہے ۔کیا دیوانے سے یہ ہوسکتا ہے کہ ایک نیا کارخانہ نبوت کا قائم کر ے اور ایے اصول پر اوس کی بنیاد رکھے جو گریز کے وقت کا م میں لا ے جائیں ۔ اون کی امت سے یہ پوچھا جا ئے کہ جب مرزا صاحب کو اس قدر تقرب الٰہی حاصل تھا توخواراق عادات ظاہر ہونے کی اجازت کیوں نہیں لے لی ۔ اور (اتہم )وغیرہ کے مقابلہ میں کیوں ناکام رہے یہ مباحث طویل ہیں ۔ ہم نے مفاتیح الاعلام اور افادۃ الافہام اور انور الحق میں کسی قدر بسط سے لکھا ہے ۔انشاء اللہ تعالیٰ اہل انصاف و حق پسند حضرات کے لئے اوس کا مطالعہ کافی ہوگا ۔
میں اس مقام میں اپنے قصور کا معرف ہوں کہ جہاں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر تھا وہاں ایسے لوگوں کا ذکر کمال بے ادبی ہے مگر مقولہ تعرف الاشیاء با ضد ادھا پرنظر پڑتی ہے تو کسی قدر عذر خواہی کو موقع مل جا تا ہے کیونکہ جب تک ظلمت کا مقابلہ نہ ہو نہ نورکی طرف خاص قسم کی توجہ ہوتی ہے نہ اوس کی قدر ۔ متضاد اشیاء پیدا کرنے سے بڑی مصلحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہر چیز کلا انکشاف تام ہوجا ئے ۔اگر نبوت صادقہ کے مقابلہ میں نبوت کا ذبہ اور نور صداقت کسے مقابلہ میں نور ظلمتِ بطلان نہ ہوتی تواصلی انبیاکی شان وعظمت اور جعلی نبیوں کی خواری و ذلت کبھی نہ معلوم ہوتی اسی کو دیکھ لیجئے کہ حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا دسترس آسمانوں تک تھا ۔ کہ انگلی کے اشارہ میں چاند کے دوٹکرے کردے اور مرزا صاحب اون کی بیوی جن کے ساتھ مرزاصاحب کا نکاح آسمانوں پر خدا نے خود کردیا تھا با وجود یکہ اون کے گھر کے پاس تھیں مگراون کے ہاتھ نہ آئیں الغرض حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برکات سے غیر متناہی ہیں کیونکہ ہر وقت حضرتؐ اپنے امتیوں کی دستگیری فرما تے رہے ہیں اورقیامت میں توبہت کچھ فرما دیں گے بشرطیکہ ہم لوگ خالص امتی بنے رہیں ۔
اب چند حدیثیں آب دہن مبارک کے برکات و تا ثیرات کے متلعق یہاں لکھی جا تی ہیں۔
اَثَرِ لُعَابِ مُبَارَکْ
خصائص کبریٰ میں روایت ہے کہ جب اکعب بن اشرف کے قتل کے لئے حارث بن اوس گئے وہ وہاں زخمی ہوگئے ایک زخم شمشیر اون کے سرمیں لگا ۔ دوسرا پائوں میں ۔لوگوں نے اون کو اوٹھا کر حضرت کی خدمت میں حاضر کیا آپ اون کے زخموں میں تھوکے اور فوراً ادر جا تا رہا اور وہ اچھے ہوگئے ۔
اس لب کو لب جاں بخش کہنا سزادار ہے کہ دوزخم کا ری جن کی دوانہ ہوتی توہلاکت تک پہنچا دیتے ۔اون کو فوراً چنکاکر دیا اور لب کشائی کی مہلت نہ دی ۔
خصائص کبری ٰ میں ہے کہ جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم غزوہ ٔ داۃ الرقاع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ۔ راستہ میں ایک بدوی عورت اپنے لڑکے کو لئے ہوئے سامنے آئی اور کہا یا رسول اللہ اس لڑکے پر شیطان مسلط ہے جس سے میں عاجز ہو گئی۔آپ نے لڑکے کے منہ میں تھوکا اور فرمایا اے دشمنِ خدا دور ہوجا میں رسول اللہ ہوں ۔ یہ تین بار کہکر اس عورت سے فرمایا کہ اپنے لڑکے کو لے جا ۔اب وہ مصیبت نہ ہوگی جب واپسی کے وقت حضرت اس مقام پر تشریف لا ئے تو اس عورت نے آکر خبردی کہ اب وہ لڑکا اچھا ہوگیا ۔انتہیٰ۔
یہ لعاب مبارک لڑکے کے حق میں آب حیات تھا اور اس جن کے حق میں ستم قاتل ۔اسی وجہ سے وہ فوراً بھا گ گیا ۔معلوم نہیں اس میں کس قسم کا اثر تھا جس کی مقاومت کی وہ تاب نہ لا سکا ۔
خصائص کبریٰ میں ہے کہ اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کے لئے جا رہے تھے جب ہم بطنِ روحہ میں پہنچے توحضرت ؐ نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کے طرف آرہی تھی ۔ آپ نے اپنی سواری کو روک دیا جب وہ عورت نزدیک پہنچی تو عرض کی یا رسول اللہ یہ میرا لڑکا جس روز سے پیدا ہوا ہے آج تک افاقہ نہیں پایا ۔ حضرت نے اس کو اپنے نزدیک اونٹ پرلے کر اس کے منہ میں تھوکا اور فرمایا نکل اے دشمنِ خدا میں رسول اللہ ہو ں۔ پھر اس لڑکے کو اس عورت کے حوالے کر کے فرمایا اب اس کوکچھ خوف نہیں ۔ اسامہ ؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت حج سے فارغ ہو کر اس مقام میں پہنچے تووہی عورت ایک بھونی بکری لے آئی حضرت نے فرمایا اس کا دست مجھے دو اس نے دیا ۔ پھر فرمایااس کا دست مجھے دواس عورت نے دیا ۔ پھر فرمایا اس کادست مجھے دو ۔اس نے عرض کی یا رسول اللہ دست تو دوہی ہوتے ہیں جو میں دے چکی ۔ فرمایا قسم ہے اگرتم چپ رہتیں توجب تک میں دست مانگتا تم دیتی رہتیں ۔
اسمامہؓ کہتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ کھجور کے درخت او رپتھر بھی کہیں نظر آتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ چند درخت قریب قریب اور پتھر وں کی ڈھیر نظر آتی ہے ۔فرمایا جائو اوران درختوں سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم کرتے ہیں کہ نزدیک ہوجائو تاکہ حاجت بشری سے فارغ ہو ں ۔ او پتھروں سے بھی یہی کہو ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں وہاں جاکر یہ پیام پہنچایا ۔ خدا کی قسم ان درختوں کو دیکھا کہ زمین پھاڑ تے ہوئے متصل ہوگئے اور پتھروں کو دیکھا کہ کود تے ہوئے نزدیک ہوکر ایک دیوار بنائی ۔جب حضرت حاجت سے فارغ ہوکر واپس تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا کہ ان درختوں اورپتھروں سے کہہ دو کہ رسول اللہ ؐ کر تے ہیں کہ اپنے اپنے مقامات پر واپس ہوجائو ۔ چنانچہ وہ واپس ہوگئے ۔ انتہیٰ ۔
اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت نے بکری کا دست تیسرے با ر طلب فرمایا او رعورت نے گویا برسبیل اعتراض عرض کی دودست تومیں دے چکی جس کا ظاہر ا مطلب یہ ہوا کہ یا تو آپ بھول گئے یا نہیں جانتے کہ جانور کو دوسے زیادہ دست نہیں ہوتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودست کا گوشت مرغوب تھا اس لئے صحابہ اکثردست پیش کیا کرتے اور حضرت مکرر طلب فرما تے جب تیسرے دست کے طلب کی نوبت پہنچتی تو بمقتضائے بشریت و عادت صحابہ اسی طرح عرض کر تے کہ جانور کو تو دوہی دست ہوتے ہیںمگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرما تے کہ اگر تم دینے کا قصد کرتے تو میں جتنے بار طلب کر تا تم دے سکتے تھے جس طرح اس عورت سے فرمایا ۔
یہاںخاص طورپر توجہ کی ضرورت ہے کہ یہ کلام معمولی نہیں مخبر صادق کی خبر ہے ۔کیونکہ آپ اس امر کی خبر دے رہے ہیں کہ تم اگر تیسرے بار بھی دینا چاہتے تودیتے اور اس خبر کو حضرتؐ نے قسم کے ساتھ موکدفرمایا اور ممکن نہیں کہ حضرتؐ کی کوئی خبر معاذاللہ جھوٹ ہوسکے ۔ اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ تیسرا دست تویقینا معدوم ہوتا ہے اگر اس کا وجود ہوتا تو کس طرح سے ہوتا۔ظاہری اسباب تخلیق توباکل مفقود ہیں بظاہر اگر اس کاسبب ہے تو یہی ہے کہ حضرتؐ نے طلب فرمایا پھر جس سے طلب فرمایا اس میں یہ صلاحیت اورقدرت نہیں کہ پیدا کرکے دے ۔ مگر دینا ضرور جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بمجرد طلب فوراً وجود میں آجا تا اور اپنے ہاتھ سے اٹھا کر دیتا ۔یہاں ادنیٰ تامل سے یہ بات معلو م ہو سکتی ہے کہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور فرمانا اس کے وجود کے لئے کافی تھا ادھر تصورہوا ادھر حق تعالیٰـ نے پیدا کردیا جس طرح جنت میں وجود اشیاء کے لئے صرف تصور کا فی ہے ۔اصل سبب توتخلیق خالق ہی ہے ۔ مگرسببِ ظاہری تصور کے سوا اور کوئی چیز نہیں اگر چہ آدمی کو خالق کہنے میں تامل ہوتا ہے مگر خدا ے تعالیٰ اگر کسی کو یہ صفت عطا فرما ئے توپھر اس کا میںکون کلام کر سکے فتبارک اللہ احسن الخالقین سے بھی اس خیال کی تائید ہو سکتی ہے ۔تیسرے دست کا جو وجود نہ ہو امتثالِ امر نہ کرنے کی نکبت تھی ۔
{ضرورت امتثال امر نبی ؐ و شیخ }
اولیاء اللہ نے یہیں سے یہ بات سلوک میں داخل کر دی کہ مرشد کامل جو کچھ ارشاد اور امر کرے اس پر بغیر چون و چرا کے عمل کرنااور نہ ہو سکے تو اس پر آمادکی ظاہری کرناضرور ہے ۔چنانچہ ان حضرات کا مقولہ ہے کہ مرید یکہ با پیر خود چوں وچرا کند اور اور چرا گاہ باید فرستاد ۔ یہ حکایت مشہو ر ہے کہ کسی بزرگ کی خدمت میں ایک صاحب آئے تھوڑے عرصہ میں ان کو خلافت دے کر اپنا جا نشیں کیا اور دوسرے مریدین میں علماء فضلاء بھی تھے ایک مدت تک ان سے ریاضت لی گئی مگر وہ سب محروم کئے گئے ۔
{خوش اعتقادی}
اس پر آپس میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ شیخ نے ایک روز ان تمام مریدوں کو جو اپنے آپ کو مستحق خلافت سمجھتے تھے بلایا اوران سے کہا کہ اس اونٹ کو با لا خانے پر پہنچا دو سب کو اس کلام سے تعجب ہوا اور ایک دوسرے کودیکھنے لگے گوبظاہر کمال ادب سے کچھ جواب نہ دیا مگر ان کی حالت یہ کہہ رہی تھی کہ شیخ صاحب کی عقل میں فتور آگیا ہے جو ایسی احمقانہ گفتگو اور فرمائش کر رہے ہیں ۔غرضکہ مجلس پر سکوت اور تحیر کاعالم طاری تھا کہ اتنے میں وہ خلیفہ صاحب بھی وارد ہوئے ۔شیخ نے پکارکر ان سے کہا کہ بھائی اس اونٹ کو با لا خانے پر پہنچا دو یہ ستنے ہی وہ کمر باندھ کر اوٹڈ پرلپکے ۔ جب اس کے سامنے گئے توکاٹنا چاہا پیچھے گئے تو لات مارنے کا قصد کیا ۔ بازو پر گئے تو رخ بدلا ۔غرض وہ مستعدی سے اس کے گرد وپیش چکر لگا تے رہے تھوڑی دیر تک اہل مجلس یہ تماشا دیکھتے اوران کی حماقت پر درپر وہ مضحکہ اڑا تے رہے ۔ شیخ نے ان کو اس حرکت سے روک دے کر اہل مجلس کی طرف خطاب کیا کہ تم میں اور ان میں اتنا فرق ہے کہ تم نے مجھے احمق بنا یا اور انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی اوراس کی کچھ پر وا نہ کی کہ اس احمقانہ حرکت یس لوگ کیا کہیں گے ۔انہوں نے یہ خیال کیا
شعر
سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید ٭کہ سالک بیخبر نبود زراہ ورسم منزلہا
غرضکہ جب تک پیر کامل پر اتنا اعتماد نہ ہو کہ جوکچھ وہ حکم کر لے گا خالی از مصلحت و حکمت نہ ہوگا اس کو شیخ کا مل سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ ان حضرات کے استدلال کے لئے یہ حدیث شریف کافی ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محال چیز کی فرمائش کی اورجب انہوںنے اس کی تکمیل نہیں کی تو ان کا نقص عقیدہ بیان فرما دیا ۔
{سماعت وغیرہ کی قوتیں جمادات و نبات میںہیں}
اس حدیث میں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم درختوں اور پتھروں کو پہنچا تو وہ زمین کو چیر تے اور پھاڑ تے کود تے وہاں پہنچ گئے جو مقام ان کے لئے معین کیا گیا تھا ان کی اس حرکت سے معلوم ہو تا ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اپنے کانوں سے سنا اور اس کو اپنے دل میں جگہ دی اور عاقلا نہ قوت سے خیال کیا کہ اس امر کو بجا لا نا ضروریات سے ہے اس کے بعد جس طرح ان سے ہو سکا چلتے ہوئے بغر ضِ تعمیل حکم روانہ ہوئے حالانکہ دیکھنے کونہ انکے کان تھے نہ دل نہ عقل نہ پائوں مگر جوکام ان اعضاسے متعلق ہیں سب وقوع میں آئے اس سے معلوم ہو اکہ سننے کا مدار کانوں پر اور اسکے اندر بچھے ہوئے پٹھوں پرنہیں ہے ۔اسی پردوسرے اعضاء کو بھی قیاس کر لیجئے ۔عادت کی وجہ سے خیال کیا جا تا ہے کہ جمادات و بناتات کو نہ سماعت ہے نہ بصارت وغیرہ مگر جب ہم اس قسم کے واقعات احادیث میں دیکھتے ہیں توہم کو ماننا پڑتا ہے کہ خدا ئے تعالیٰ عالم جمادات اور بناتات میں بھی ان قوتوں کو ودیعت رکھا ہے مگر کسی دوسرے طریقہ پر جس سے ہم لوگ واقف نہیں کیونکہ ہمارا عالم عالمِ انسانی ہے اور ان کا عالم جمادی اورنباتی ۔ ضرور نہیں کہ سب میں ایک طریقہ مقرر ہو ۔ دیکھئے آدمی اور جانور منہ سے غذا اپنے پیٹ میں پہنچا تے ہیں اور بناتات جڑوں کے ذریعہ سے جو زمین کے اندر گڑے رہتے ہیں ۔پھر ان تماموں کی غذائیں مختلف اور حاصل کرنے کا طریقہ جدا گا نہ ۔اگر دوسرے مذہب والے ہماری ان باتوں کو نہ مانیں تو وہ معذور ہیں کیونکہ جب ان کو ایمان ہی نہیں توان کو ایسے امور کی تصدیق بھی ضرور نہیں بخلاف مسلمانوں کے کہ جب ان تک اس قسم کی خبریں معتبر ذرائع سے پہنچ گئیں توان کو چون و چرا کر نے کا اب موقع نہ رہا کیونکہ ہزار ہا مسلمان علما نے جب اس قسم کے باتوں کو اپنی کتا بوں میں نقل کیا جن کو عموماً مسلمان مانتے ہیں اور کروڑ ہا مسلمانوں نے اس کی تصدیق کی اور وہ تصدیق اس طرح سے ہوئی کہ پہلے طبقے نے اپنے دیکھے ہوئے امور اپنے بعد کے طبقے کو سنا دئے یہاں تک کہ ہم تک وہ خبر یں برابر پہنچیں تواب ہم بحیثیت اسلامی اس کاانکار نہیں کرسکتے اب رہی یہ بات کہ پتھر اور درختوں کا چلنا خلاف عقل ہے توہم کہیں گے کہ عقل کے طریقے سے توآدمی کا چلنا بھی ثابت ہونا مشکل ہوتا ہے کتاب العقل میں ہم نے اس سے متعلق جوتقریر لکھی ہے اس سے اِس باب میں تائید مل سکتی ہے کہ آدمی دو پائوں پر چلتا ہے اور بعضے جانورچاپائوں پراوربعضے ہزار پائوں اور سانپ کو توایک پائوں بھی نہیں ۔مگر دوڑمیں آدمی بلکہ ہزار پاسے بھی بڑھ جا تا ہے اس کو سونچ کے دیکھئے توشاید سانپ کا دوڑنا بمشکل سمجھ میں آئے گا کیونکہ آدمی اگر پیٹ کے بل حرکت کرے تو میرے خیال میں بغیر کسی دستگیری کے دو چار ہاتھ بھی نہ چل سکے گا اور سانپ بلا تکلف پیٹ سے چلتا ہے اور اس قدر تیز چلتا ہے کہ آدمی بلکہ گھوڑا اس کی تیزرفتاری کو نہیں پہنچ سکتا پھر آدمی کو کانٹوں وغیرہ میں جانے کے لئے جو تے کی ضرورت ہوتی ہے اوروہ بغیر جوتے کے کیسی ہی کانٹوں کی زمین ہو بلکہ خار دار درختوں پر برابر دوڑ تا ہے حالانکہ اس کے پیٹ کا پوست آدمی کے تلووں سے بد رجہانرم ہے اس مقام میں سوا اس کے کچھ جو اب نہ ہو سکے گا کہ سانپ کی فطرت اس طرح واقع ہو ئی ہے کہ پیٹ پر چلے اور ا س کو تنی قوت دی گئی کہ اپنے جسم کو بغیر کسی سہا رے کہ زورسے حرکت دے سکے اور آدمی کو اتنی قوت نہیں دی گئی کہ پیٹ کے بل ہو کر اپنے جسم کو زور سے حرکت دے کر سانپ کی طرح اپنے جسم کو آگے بڑھا سکے ۔ البتہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ حق تعالیٰ ہر ایک چیز کو ایک طرح کی خصوصیت عطا فرما یا ہے جواسی کے ساتھ مختص ہوتی ہے ۔ اسی طرح پتھر اور درختوں کو چلنے کی قوت عطا فرما ئے توہر گز بعید ازقیاس نہیں ۔ رہا یہ کہ ان کی اس قسم کی حرکت کبھی دیکھی نہیں جاتی تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا ے تعالیٰ بھی اگر ان میں حرکت پیدا کرے توممکن نہیں کیونکہ سانپ کا چلنا خدا ے تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے متعلق ہے ۔اگر وہ قوت جو اس کودی گئی ہے سلب فرما لے تو ممکن نہیں کہ وہ حرکت کر سکے ۔جیسا کہ تمام حیوانات میں مشاہدہ ہے کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے کبھی وہ حرکت کرنے پر قادر نہیں بھی ہوسکتے اس صورت میں سانپ وغیرہ کی حرکت بھی متعلق بمشیت واردۂ خالق ہوئی ۔ اسی طرح درختوں وغیرہ کی حرکت کے ساتھ بھی شیست وارادۂ خالق متعلق ہو تو پھر ان کی حرکت اور مشی کو کون مانع ہے ۔
اس حدیث شریف سے تو معلوم ہو تا ہے کہ ان میں چلنے کی قوت بھی رکھی گئی ہے ۔ کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہلا بھیجا کہ ایک مقام میں جمع ہوں ۔ اس کے بعد پھر حکم بھیجا کہ اپنے اپنے مقامات میں چلے جائیں۔ اگر ان میں حرکت کرنے کی قدرت نہ ہوتی تو یہ کہلا بھیجنا بے موقع ہو تا ۔بلکہ بجائے کہلا نے کے حضرت دعا فرماتے کہ الٰہی ان کو ایک مقام پر جمع کر دے اور دوسرے بار ودعا فرما تے کہ ان کے مقامات پر ان کو پہنچا دے ۔ حلانکہ ایسا نہیں ہوا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کامشاہدہ تھا کہ اپنے ارادے سے وہ حرکت کر تے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا البتہ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت حرکت نہیں کرتے جب تک کوئی حکم واجب الاتباع ان کو نہ پہنچے ۔
خصائص کبریٰ میں ام جندبؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرۃ العقبیٰ کے پاس دیکھا کہ رمی فرما رہے ہیں ۔پھر منیٰ میں اپنے مقام پر واپس تشریف لے گئے وہاں ایک عورت اپنے لڑکے کو لے آئی جو آسیب زدہ تھا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میرے لڑکے پر کوئی بلا مسلط ہے کہ بات نہیں کرتا ۔ آپ نے اس سے ایک برتن میں پانی لانے کو فرمایا جب وہ لے آئی توآپ نے تھوڑا پا نی اس میں سے لے کر اس برتن میں کلی کی اور فرمایا کہ یہ پانی اس لڑکے کو پلادو اور اس میں نہلائو ۔ ام جندب ؓ کہتی ہیں کہ جب وہ جانے لگی تو میں بھی اس کے ہمرا ہ ہوگئی اور اس سے کہا کہ اس میں سے تھوڑ ا پانی مجھے دو اس نے دیا میں نے اپنے لڑکے عبد اللہ کو وہ پلادیا بفضلہ تعالیٰ وہ بہت روز زندہ رہا اور بہت نیک بخت ہوا ۔ پھر اس عورت سے ملاقات ہوئی اورحال دریافت کیا تواس نے کہا کہ وہ لڑکا اچھا ہوگیا اور اپنے ہم سن لڑکوں میں ایسا ہے جو اس کا نظیر نہیں اور عقل و فراست میں اوروں سے بڑھا ہوا ہے ۔انتہیٰ ۔
حضرتؐ کو اس موقع میں لعاب مبارک کی تا ثیر کا مشاہدہ کرادینا منظور تھا اور نہ اس آسیب کو اگر نکل جا نے کے لئے کہلا دیتے تواس کی مجال نہ تھی نہ پھر ٹھرسکتا ۔
ام جندب ؓ نے جو وہ پانی اس عورت سے اپنے لڑکے کے واسطے لیا اس سے ظاہر ہے کہ کل صحابہ جانتے تھے کہ حضرت ؐ کے لعاب مبارک میں ہرقسم کی برکت ہے جس کام کے لئے وہ استعمال کیا جائے مقصود حاصل ہوتا ہے ۔چنانچہ ام جندبؓ نے اپ نے لڑکے کی درازی عمر اور نیک بختی کے لئے وہ پانی ان سے لیا تھا اور اس کی پوری تا ثیرو جود میں بھی آئی ۔
خصائص کبریٰ میں انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار قبا کو تشریف لے گئے اور ایک کنوئیں پر پہنچے جس سے زراعت کو پانی دیا جا تا تھا ۔ اس کنوئیں کی یہ حالت تھی کہ ہر روز اس کا پانی تھوڑی دیر میں ختم ہو جا تا اور دن بھر وہ سوکا رہتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول میں کلی کر کے وہ پانی کنوئیں میں ڈالوادیا اس کے ساتھ ہی کنوئیں کوجوش ہوا اور اس سے وہاں کی پوری زمین سیراب ہوتی رہی ۔ انتہیٰ۔
اس موقع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی کی درخواست کے صرف رفاہ عالم کے لحاظ سے کنوئیں کا پانی زیادہ فرمایا یہاں یہ مقصود نہ تھا کہ مخالفین کو معجزہ بتلا کر قائل کریں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوراق عادات کے اظہار میں اختیار دیا گیا تھا ۔ جس سے بحسب مصلحتِ وقت خلق کی حاجت دانی کی غرص سے ایسے امور صادر فرما تے تھے ۔
اب یہاں یہ بات معین کرنا مشکل ہے کہ یا اس کلی کے پانی نے وہاں سوتوں کو کھینچ لا یا یا وہی پانی جو وہاں موجود تھا بڑھ گیا۔ بہر حال ایک ایسی بات ظاہرہوئی کہ معمولی عقلیں اس کے سمجھنے سے عاجز ہیں ۔
خصائص کبریٰ میں روایت ہے کہ حبیب ابن فدیکؓ کی بصارت زائل اور آنکھیں سفید ہوگئی تھیں ۔ان کے والد نے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرکیا حضرتؐ نے ان سے وجہ دریافت کی ۔عرض کیا کہ سانپ کے انڈوں پر میرا پائوں پڑ گیا تھا ۔ جس کا اثر آنکھوں پر ہوا ۔حضرت نے ان کے دونوں آنکھوں میں تھوکا اوروہ دیکھنے لگی ۔انتہیٰ ۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان کو دیکھا کہ ان کو اسی (۸۰)سال کی عمر ہوگئی تھی اور سوئی کہ ناکہ میں وہ تا گا پرو تے تھے اور لطف یہ کہ آنکھیں سفید تھی ۔انتہیٰ ۔
سانپ کے زہر سے ان کی بصارت زائل ہوجا نا منجملہ عجائبات کے ہے شاید ظاہر بینوں کو اس قسم کے اثر کے ماننے میں تامل ہوگا ۔ مگران کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اشیاء کی تا ثیر ات خاص قسم پر ہوتی ہیں ۔ دیکھئے دوائوں میں مشاہدہ ہے کہ کوئی سرمیں تا ثیر کر تی ہے کوئی جگرمیں کوئی گردہ وغیرہ میں ۔چنانچہ بعض ادویہ ایسے بھی ہیں کہ مشانہ میں جو پتھر پیدا ہوتا ہے اس کو گلا دیتے ہیں ستاروں کی تا ثیرات کو اکثر اشخاص جانتے ہیں کہ اتنی دور سے کسی کی تا ثیر سے غلہ میں دودھ وغیرہ پیداہوتا ہے اور کسی کی تا ثیر سے غلہ پختہ ہوتا ہے ۔ علی ہذا القیاس سانپ کے انڈو ں کی تا ثیر خاص آنکھوں سے متعلق ہو تو کیا تعجب ہے ۔
حق تعالیٰ نے عالم میں عجیب عجیب صنعتیں و دیعت رکھی ہیں ۔منجملہ ان کے دوستی اور دشمنی ہے ۔بعضے اشیائء کو بعضوں کے ساتھ موافقت ہوتی ہے اور بعضوں کو مخالفت مثلاً غذاکو جسمِ انسان کے ساتھ موافقت اور الفت ہے ۔چنانچہ بدل ما یتحلل بن کر اس کو ہلاک ہونے سے بچا تی ہے ۔بخلاف اس کے سمیات کو جسمِ انسان سے دشمنی ہے کہ جہاں پہنچا اس کو تباہ کیا۔ اسی طرح اگر اشیاء میں غور کیا جائے اورسائنس کی کتا بوں پر نظر ڈالی جا ئے توبہت ساری چیزوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ۔
اس وقت ایک طبیب میرے احباب میں موجود ہیں جن کا نام سید محمد قاسم صاحب شا ہ نوری ہے ۔ان کے پاس ہزار ہا دیوانے کتے کاٹے ہوئے اور مار گزیدہ آتے ہیں اور وہ ایک دو اآنکھوں میں لگا دیتے ہیں جس سے تھوڑے عرصہ میں اس کا زہر اتر جا تا ہے ۔دیکھئے دوا تو آنکھ میں لگا ئی جا تی ہے اور سانپ یا کتا مثلا پائوں کو کاٹے تو یہ تھوڑی سی دوا کا اثر اس مقام میں فوراً پہنچ جا تا ہے ۔
اس سے زیادہ حیرت انگیز یہ بات ہے کہ ان جانوروں کا زہر فوراً تمام جسم میں سرایت کر جا تا ہے ۔تمام جسم کے زہر کو وہ تھوڑی سی آنکھ میں لگائی ہو ئی دوا کیونکر دفع کر تی ہوگی ۔
غرض کہ معنوی آثار کی حقیقت خدا ئے تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس چیز میں کس قسم کی تا ثیرات رکھی ہیں ۔ کسی بات کے سمجھ میں نہ آنے سے اس پر اعتراض کر دینا عقلمند کا کام نہیں ۔ جب عموماً اشیاء میں ایسی تا ثیرات رکھیں ہیں کہ ان کے سمجھنے میں عقل حیران ہوتی ہے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوک میں اقسام کی تا ثیرات اگر رکھی گئی ہوں توکیا تعجب ۔کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باعثِ ایجاد عالم ہیں ۔ تمام عالم کو آپ کا مسخر اور ممنون ہونا ضرور تھا ۔ اسی وجہ سے آپ کے تصرفات خاک ،آب ، باد ، آتش ، افلاک، کواکب اور ارواح میں برابر جا ری تھے ۔
ابھی معلوم ہو ا کہ لعاب مبارک کے اثر سے ام جندبؓ کے فرزند کی عمر دراز ہو گئی اور تمام اخلاق ستودہ اور پسندیدہ ہوگئے۔ بہر حال قرائن اور واقعات کے دیکھنے سے ظاہر ہے کہ حضرتؐ کے لعاب مبارک سے جس قسم کا کام لیا جا تا اس میں کا میابی ضرور ہوتی تھی ۔ اور لبِ مبارک ہی پر منحصر نہیں جس چیز کو حضرتؐ سے خاص تعلق تھا اس کا یہی حال ہے ۔چنانچہ موئے مبارک وغیرہ کا حال انشاء اللہ تعالیٰ آئیندہ لکھا جا ئے گا ۔
خصائص کبریٰ میں حبیب بن لیاقت سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کسی جنگ میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔ معرکہ کارزا ء میں میرے مونڈھے پر ایک ایسا وار پڑا کہ ہاتھ لٹک گیا ۔ میں حضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے زخم پر تھوک کر ہا تھ کو جما دیا ۔ جس سے وہ فوراً جم گیا ۔چناچنہ مجھے جس نے زخمی کیا تھا میں نے اسی ہاتھ سے اسے قتل کر ڈالا۔انتہیٰ ۔
شاید بعضے طبائع کو یہاں یہ خدشہ ہوگا کہ جب حضرت کو یہ قدرت حاصل تھی تو چاہئے تھا کہ لشکر اسلام میں کوئی شخص زخمی ہو کر نہ مرتا ۔ حالانکہ صدہا آدمی زخموں سے شہید ہوگئے ۔ فی الحقیقت یہ ایک عقدۂ لا یخل ہے اس کا سمجھنا اور سمجھا نا معمولی عقلوں کا کا م نہیں ۔ مگر غور وتامل سے اگرکام لیا جائے تو ممکن ہے کہ کچھ نہ کچھ عقل میں سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جا ئے ۔
اس بات کا انکا رنہیں ہوسکتا کہ اکثر آدمی بیمار یوں سے مرتے ہیں ۔ اور ہر بیمار اپنی بیماری کا حال طبیبوں اور ڈاکٹروں سے بیان کرتا ہے اور وہ بھی اپنے اصول کے مطابق بیماری کی تشخیص کرکے ایسی دوا تجویز کر تے ہیں کہ جس سے با رہا لوگوں کی صحت ہوتی ہواور جس طبیب کی تشخیص اور تجربہ بڑھا ہوا ہوتا ہے عموماً لوگ اسی سے علاج کر ا تے ہیں اور جس کے ہاتھ پر لوگوں کو زیادہ صحت ہوتی ہے اسی کی طرف رجوع ہو تے ہیں اور وہ بقدرِ امکان ان کے علاج میں کوتا ہی بھی نہیں کرتا با وجود اس کے جس کی قضاآجا تی ہے اس کے علاج سے وہ عاجز ہو جا تے ہیں اور آخروہ مرجا تے ہیں ۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اکثر لوگ تجربہ کار حاذق حکیموںہی کے علاج میں مر جا تے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم نکلیں گے کہ ڈاکٹر وں اور طبیبوں سے علاج نہ کرا کے مرے ہوں اگر حاذق حکیم کے علاج سے موت رک سکتی تو دنیا میں کوئی بادشاہ اور مالدار نہ مرتا ۔ سلاطین نامدار کے علاج کے واسطے ہر ملک کے منتخب طبیب جمع کئے جا تے ہیں اور بڑی بڑی امیدیں ان کو دلائی جا تی ہیں مگرانہیں کے زیر علاج مر نے والا مر جا تا ہے۔اس سے ظاہر ہے کہ موت کسی حال میں ٹل نہیں کستی۔ مگر با وجود اس کے ڈاکٹر وں اور طبیبوں پر یہ الزام نہیں لگا یا جا تا کہ تم نے ا س کو مارڈالا یا علاج میں غفلت کی ۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ عموماً طبعیتوںمیں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ موت کا علاج نہیں ۔ اصل وجہ اس کی یہ کہ خدا ئے تعالیٰ عالم پید کرنے سے پہلے ہر ایک چیز کا اندازہ کر چکا ہے کہ فلاں چیز اتنی مدت تک باقی رہے اور اس مدت میں اس پر فلاں فلاں قسم کے تغیرات واقع ہوں۔ اسی کو تقدیر او ر قضا کہتے ہیں اور عموماً لوگ جانتے ہیں کہ تقدیر کا لکھا مٹتا نہیں اور جوبات تقدیر میں لکھی گئی وہ ٹلتی نہیں ۔ مگر خدا ئے تعالیٰ نے دوقسم کی قضائیں مقرر کی ہیں ۔ ایک متعلق دوسری مبرم معلق وہ ہے کہ کسی وجہ سے ٹل جا ئے ۔مثلاً دعا یا دوا صدقات سے بیماری اکثر دفع ہو جا تی ہے ۔اگر وہ دوا یا دعا نہ کی جائے توہلا کت کی نوبت آجائے ۔اسی وجہ سے آدمی ہر بیماری میں مصیبت کے وقت دعا یا دوا وغیرہ کرتا ہے اور صحت ہوجا تی ہے جس سے طبیب یا دعا کرنے والا نیک نام ہوجا تا ہے اور قضائے مبرم و ہ ہوتی ہے کہ نہ دعا سے ٹلے نہ دووغیرہ سے ۔اس سے یہ بات واضع ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی معاملے میں دیکھتے کہ قضائے معلق ہے تو دعا یا اور کسی قسم کا تصرف فرما تے اور جب دیکھتے کہ قضاے مبرم ہے تو کسی قسم کا تصرف نہ فرما تے کیونکہ یہ تو منظور ہی نہ تھا کہ خدا ئے تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کریں ۔ بلکہ وہاں توہر کام میں اپنا یا اور کسی کا نفع ہویا نقصان خدا ئے تعالیٰ کی رضا جوئی مقدم رہا کرتی تھی اسی وجہ سے جب خدا ئے تعالیٰ کی جانب سے آپ کو اطلاع دی گئی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام حالتِ غربت میں اقسام کے مصائب اور سختیاں اٹھا کر شہید ہونگے توآپ نے اس کے قبول کرنے میں ذرا بھی تامل نہ فرمایا۔ اسی طرح صحابہ کی شہادت کے وقت میں آپ سے تصرفات صادر نہیں ہوتے تھے ۔ ورنہ ان کاقصد فرما تے ۔
{دفع بیماری مزمن}
خصائص کبریٰ میں ہے کہ جرہد ؓ نے با ئیں ہاتھ سے کھا نا کھا یا ۔حضرت ؐ نے فرمایا داہنے ہاتھ سے کھائو۔عرض کیا کہ وہ آفت رسیدہ ہے ۔حضرت ؐ نے ان پر تھوکا وہ کہتے ہیں کہ جو شکایت اس میں تھی بالکلیہ جا تی رہی ۔انتہیٰ ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو داہنے ہاتھ سے کھا نے کی فرمائش کی اور جب انہوں نے عذر کیا کہ آفت رسیدہ ہے توہاتھ کو درست فرما دیا ۔ اس سے معلو م ہوسکتا ہے کہ حضرت ؐ کو داہنے ہاتھ سے کھا نے کا اہتمام کس قدر مقصود تھا ۔اس زمانہ میں یہ امر تہذیب میں داخل ہو گیا ہے کہ بائیں ہاتھ سے کھا یا جائے ۔مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانی تہذیب سکھا نے کو تشریف لائے تھے اور اخلاقی تہذیب کو آپ نے انتہا کو پہنچا دیا اس سے تو ظاہر ہے کہ انسانی تہذیب داہنے ہاتھ سے کھانے میں ہے ۔
{زخم کاری کا اندمال}
خصائص کبریٰ میں ہے کہ عبد اللہ بن انیس کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے میرے چہرے پر ایسا زخم مارا کہ سرکی ہڈیاں تک کھل گئیں ۔میں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے پٹی کو طصر لکر اس پر تھوک دیا ۔ فوراً اذیت جا تی رہی اور وہ چنگا ہو گیا ۔
اتنا گہرا چہرے پر زخم جس سے سر کی ہڈیاں کھل گئیں وہ کیسا گہرازخم ہوگا مگر سبحا ن اللہ لعاب مبارک سے وہ فوراً چنگا ہوگیا۔ انتہیٰ ۔
{دفع درو شکم }
خصائص کبریٰ میں ہے کہ ملا عب الاسئہ کے پیٹ میں سخت درد رہا کر تا تھا ۔ انہوں نے حضرتؐ کے پاس شفا کی غرض سے کسی کو بھیجا حضرت نے ایک ڈھیلا زمین سے لے کر اس پر تھوکا او رفرمایا کہ اس کو پانی میں گھول کر پلادو جس وہ پلایا گیا تو فوراً صحت ہوگئی ۔انتہیٰ ۔
اس سے ظاہر ہے کہ لعاب مبارک میں خاص قسم کی تا ثیر رکھی تھی ۔اسی وجہ سے حضرتؐ ن اس کے پہنچا نے کی یہ تدبیر کی کہ ڈھیلے پر ڈالاگیا ۔ اس میں شک نہیں کہ لعاب دہن پانی ہے جو بحسب اصول فلسفہ ہوا ہوجا تا ہے با وجو دیہ کہ سوکھنے کے بعد اصلی لوا بتے فناہوگیا پھر بھی اوسکا خفیف غیر محسوس اثر جو ڈھیلے میں ر ہ گیا تھا ۔ اس کی یہ تا ثیر ہوگی کہ ایک مہلک بیمار ی کو فوراً دفع کر دیا۔
{واقعہ خندق}
خصائص کبریٰ میں ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں ہم لوگ خندق کھود رہے تھے کہ ایک مقام پر سخت چٹان نکلی حضرت کے پاس لوگ حاضر ہوئے او راس کی خبر دی ۔آپ نے فرمایا میں اترتا ہوں جب حضرت وہاں تشریف لے جا نے کے لئے کھڑے ہوئے میں نے دیکھا کہ شکم مبارک پر پتھر بندھا ہو ا ہے اور یہی حالت سب کی تھی کیونکہ تین روز گذر چکے تھے کہ کھانا توکہاں کسی نے کچھ چکھا بھی نہ تھا۔ حضرتؐ نے کدالی لی اور خندق میں اترے جب اس چٹان پر ایک کدالی ماری تو وہ ایسی نرم ہوگئی جیسے نرم مٹی کا ٹیلا ہوتا ہے ۔میں نے حضرتؐ کی بھوک کی وہ حالت دیکھی تورہ نہ سکا اور اجازت لے کر اپنے گھر گیا او راپنی اہلیہ سے کہا کہ حضرت ؐ اس وقت بہت بھو کے ہیں کچھ تمہار ے یہاں ہے ۔انہوں نے کہا کچھ تھوڑے جو ہیں اور بکری کا ایک بچہ ہے ۔
{دوچار آدمیوں کا کھانا ہزاوروں کوکافی ہونا }
چنانچہ جلدی سے انہوں نے تیاری شروع کردی او رمیں نے حاضرخدمت ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ کچھ تھوڑا سا کھانا ہے حضرتؐ ایک دو صاحبوں کو ہمراہ لے کر تشریف لے چلیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کس قدر ہے میں نے بیان کیا فرمایا وہ بہت اور پاکیزہ ہے ۔اپنی بی بی سے کہدیا کہ جب تک میں نہ آئوں ہانڈی چو لھے سے نہ اتاریں اور روٹیاں تنور سے نہ نکالیں اور با ٓواز بلند اعلان دے دیا کہ اے اہل خندق جا برنے ہماری دعوت کی تیاری کی ہے سب چلو جابر ؓ کہتے ہیں کہ میں جلدی سے گھر جا کر بیوی سے کہا اے نیک بخت حضرتؐ مع تمام مہار جین و انصار و دیگر ہمرا ہیاں کے تشریف لا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا حضرت ؐ نے تم سے کچھ پوچھا بھی میں نے کہا ہاں کہا جب تو کچھ فکر کی بات نہیں ۔ حضرتؐ جب تشریف لائے اپنا لبِ مبارک خمیر میں اورہانڈی میں ڈالا ۔جب چند روٹیاں پک گئیں توآپ نے تقسیم شروع کی روٹیاں توڑتے اور ان پر گوشت رکھ کر صحابہ کے سامنے رکھ دے تے جب سب نے سیری سے کھا لیا تو جابرؓ کی اہلیہ سے فرمایا اب تم کھائو اور جہاں جہاںپہنچا نا ہے بہیجو کیونکہ لوگ بھوکے ہیں ۔ جابرؓ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہزار صحابہ نے سیری سے کھا یا اور ہنوز گوشت سے روٹی باقی تھی ۔چنانچہ دن بھر ہم تقسیم کرتے رہے ۔ انتہیٰ ۔
یہاں یہ دیکھنا چاہئے کہ بمجرد اس کے کہ جابرؓ نے حضرت ؐ کو ایک دو شخص کے ساتھ دعوت دی ۔ آپ نے تمام کو دعوت دے دی عقلاً یہ فعل کہا ںتک قابل تسلیم ہے ۔بڑے سے بڑا فیلسفہ ہر گز اس کو جائز نہیں رکھ سکتا اب اگر اس سے ترقی کی جائے اور شرعی اصول پردیکھا جائے کہ خدا کی جانب سے آپ کی اطلاع ہوگی اور وہ کھانا تمام لشکر کے لئے کافی ہوگا تو ظاہر ااوسکا کوئی قرینہ نہیں ۔ اگرجبرئیل علیہ السلام آگئے تھے تو ان سے ضرور تخلیہ ہوتا اور کچھ تو اس میں دیر ہوتی ۔ اور اگر آپ نے حق تعالیٰ سے دریافت فرمالیا تھا تو کم سے کم مراقبہ کی طورپر تھوڑا سا وقفہ فرماتے جس سے معلوم ہوتا کہ آپ نے اندرونی طورپر خدا ئے تعالیٰ سے اجازت حاصل کر لی ہے اور اگر کسی اور طریقہ سے اجازت ہوگئی تھی تو حسب عادت ظاہر فرما دیتے ۔مگر اس موقع میں کوئی بات اس قسم کی وقوع میں نہ آئی ۔بلکہ ادھر جابرؓ نے خبر دی ادھر حضرتؐ نے پکار دیا کہ کل لشکر ان کے گھر پرکھا نے کے لئے پہنچے ۔ اس راز کو ہر شخص معلوم نہیں کرسکتا ۔ البتہ اہل بصیرت جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آپ کو اس قسم کے معاملات میں اقتدار دیا تھا اور یہ کوئی خلاف قیاس با ت بھی نہیں ہرشخص جانتا ہے کہ اپنے میں خاص خاص قسم کی قدرت ہے ۔مثلاً با ت کر نے میں ،چلنے پھر نے میں ، کسی کو مار دینے وغیرہ میں ۔مگر ایک ضلع کا حاکم جو اقتدار اپنے میں پا تا ہے اور اس کو عمل میں لا تا ہے ہرشخص اس اقتدار کو اپنے میں نہیںپا سکتا ۔ علی ہذالقیاس بادشاہ وقت کو جو اپنے اقتدار کا وجدان ہوگا حاکم ضلع کو وہ نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ دراصل نفس قدرت سو اے خدا کے کسی میں نہیں ہے ۔ بلکہ وہ اقتدار اور وجدان عطا ئی ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام نے جب نمرود سے خدا ئے تعالیٰ کی قدرت کا حال بیان فرمایا کہ وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تواس نے جواب دیا کہ یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں ۔آپ نے اس سے اغماض کر کے فرمایا کہ خدا ئے تعالیٰ آفتاب مشرق کے طرف سے نکالتا ہے تو مغرب کی طرف سے نکال ۔ اس وقت جواب سے عاجز ہوگیا ۔مقصود یہ کہ نمرود لوگوں کے قتل کرنے اور واجب لقتل لوگوں کے چھوڑ دینے کو اپنا اقتداری کام سمجھتا تھا ابراہیم علیہ السلام نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور ایسا کام پیش کیا جسے وہ اپنی اقتدار سے خارج سمجھتا تھا ۔ یہ وجدان اقتدار فقر امیر بادشاہ وغیرہ میں مختلف طورپر ہوتا ہے جب ظاہری بادشاہ کو اس قدر اقتدار دیا جا ئے جس کا اس کو وجدان ہوتا ہے تو مقربان بارگاہ الٰہی کو اگر اس سے زیادہ اقتدار دیا جائے جس کا انہیں وجدان ہوتو کیا تعجب ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے حالات دیکھے جائیں تو معلوم ہو کہ جمادات ،نبا دات ، فلکیات ، ارواح وغیرہ کل آپ کے مسخر تھے اور جس طرح چاہتے آپ ان سے کام لیتے یہی منشا ء تھا کہ جب جابرؓ نے خبردی آپ نے فوراً اعلان دے دیا ۔ کیونکہ آپ کا وجدان گواہی دے رہا تھا کہ اس کھانے میں برکت دے دی جا ئے گی ۔ اس موقع میں یہ خیال ہوتا ہے کہ قدرت کا حال دیکھئے تویہ کہ وہ تین آدمیوں کی خوراک میں ہزار وں آدمیوں کو کھلا دیں اور کیفیت یہ کہ تین روز تک بھوک اور پیاس میں گذرے جس سے پیٹ کو پتھر باندھنے کی ضرورت ہوئی ۔اور ایک غریب صحابی کو رحم آیا جس نے ضیافت کی تجویز کی فی الحقیقت مقربان بارگاہ الٰہی کی ایسی ہی بوالعجب اور نرالی حالت ہوتی ہے جس کا سمجھنا معمولی عقلوں کا کا م نہیں ۔ مگر ہم ایک مثال بیان کر تے ہیں جس سے ممکن ہے کہ بشرط انصاف مضمون قریب الفہم ہوجا ئے ہر شخص جانتا ہے کہ بادشاہ اپنے وزیر و اسرار کو کس قدر اقتدار دیتا ہے چنانچہ مختار الملک وغیرہ خطابات دئے جا تے ہیں اوروہ اختیار سے جو چاہتے ہیں کر تے ہیں ۔با وجود اس کے جب وہ روبرو ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ان کو کسی قسم کی حکومت حاصل نہیں ۔ اگر حکومت ہے تو بادشاہی کو ہے ۔ اگر کچھ کام کرنا بھی چاہتے ہیں تو بادشاہ سے حکم حاصل کر لے تے ہیں اسی طرح مقربان بارگاہ الٰہی کی یہی حالت ہے ۔ان کو اقتدار ت سب کچھ حاصل رہتے ہیں ۔ مگر چونکہ ہمیشہ ہو مشاہدہ اور حضور ی میں ہو تے ہیں ۔اس لئے مرضی الٰہی کے تا بع رہنا ان کو ضرور ہوتا ہے ۔جب تک کوئی خاص طورپر ان کو حکم نہیں ہوتا جس کا طریقہ انہی کو معلوم ہے کوئی کام نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ تین دن تک تمام لشکر پر فاقہ رہا مگر حضرت نے کوئی تدبیر نہیں کی ۔ او رجب جابر ؓ کی درخواست پیش ہوئی اس وقت معلو م ہوا کہ اب اقتدار صرف کر نے کی اجازت ہے ۔ اس بنا پر آپ نے فوراً کل لشکر کو دعوت دے دی اور یہ دعا بھی نہیں کی کہ الٰہی اس کھانے میں برکت عطا فرما ۔ہر چند صحابہ حضرتؐ کے اس اقتدار کو با رہا دیکھ چکے تھے مگر اصلی بھید سے وہ واقف تھے ۔اس لئے اس فاقہ کی حال ت بھی کسی نے درخواست نہیں کی کہ وہ اقتدار صرف کیا جا ئے یا دعا کی جائے کہ کسی طرح کھانا ملے اور خندق کھود نے کے لئے طاقت حاصل ہو ۔یہی حال حضرت کے جانشین صحابہ اور دوسرے سربرآور د ہ صحابہ کا تھا ۔ چنانچہ ناسخ التواریخ وغیرہ میں لکھا ہے کہ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات شریف کے بعد اکثر قبائل عرب مرتد اور باغی ہوگئے اور دوسال تک ملک عرب میں معرکہ کا رزار گرم رہا ۔ اور طرفین سے ہزاروں بلکہ لالکھوں نذر قتال و جدال ہوئے بمجرد اس کے کہ ملک عرب پر اہل اسلام کا تسلط ہوا ۔ابوبکر ؓ نے ملک کسر یٰ و قیصر پر چڑھائی کا حکم دیا ۔
دیکھئے چند اہل اسلام جن کو اہل عرب کے ساتھ عشر عشیر کی نسبت بھی نہ تھی کل ملک عرب کے ساتھ مقابلہ کرکے تھکے ہوئے تھے ۔ ہنوز ان کے زخم تک چنگے نہیں ہوئے تھے کہ وہ بڑے بڑے خونخوار سلطنتوں کے مقابلہ کے لئے حکم دے دیا ۔ جن کیا یہ حال کہ تمام ملک عرب آبادی کے لحاظ سے ان کا دسواں حصہ بھی نہیں ۔ ان کے افواج قاہرہ کے مقابلہ میں لشکر اسلام دیکھا جائے تو ہزار وں حصہ بھی نہیں ۔ سامان جنگ پر نظر ڈالی جائے تو دونوں میں کوئی نسبت نہیں ۔چنانچہ وہاں کے لوگ عرب کے تیروں کو تکلے کہا کرتے تھے غرضکہ تھوڑی سی شکستہ فوج کو دوسری سلطنتوں کے مقابلہ میں اس غرض سے بھیجنا کہ ان کو فتح کر لیں ۔ ایک ایسی بات تھی کہ اس زمانے کے عقلا ان پر ہنسی اڑاتے ہونگے ۔با وجود ا س کے اسی تھوڑی سی شکستہ فوج نے تھوڑی مدت میں ان دونوں سلطنتوں کو بلکہ افریقہ کے بھی ایک بڑے حصہ کو فتح کر لیا ۔ یہ اقتدار ا س اقتدار کا طفیلی تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھا ۔ اور یہ فعل حضرت صدیق اکبرؓ کا اسی اجازت پر مبنی تھا جو منجانب اللہ مقربان بارگاہ الٰہی کو ملا کرتی ہے ۔ اس قسم کے صدہا واقعات خلفا ئے راشدین او رصحابہ کبار سے وقوع میں آئے ۔چنانچہ علاء بن حضومی ؓ جن کے نام سے بھی بہت سے اہل اسلام واقف نہ ہوں گے ان کے حال میں لکھا ہے کہ جب بحر ین کے مرتدین نے حد سے زیادہ ادھم مچایا توحضرت امیر المومنین صدیق اکبرؓ نے علا ء بن حضرمی کو امیر لشکر مقرر کر کے بحرین کی طرف روانہ فرما یا ۔جب لشکر اسلام تدین کے قریب پہنچ گیا تو ایک مناسب مقام دیکھ کے قیام کیا ۔ صبح ہوتے ہی مرتدوں کی طرف سے ایک غل سنائی دیا ۔ علا ء ؓ نے حکم دیا کہ دریافت کر و یہ کیا با ت ہے ۔معلوم ہوا کہ سب شرا بیں پی پی کے مست ہیں ۔ لشکر اسلام نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور ایک دم سے حملہ کیا اور دشمنوں کا مار مار کے سویرا کر دیا کچھ لوگ بچکے بھا گے اور کشتیوں میں بیٹھ کر موضع دارین پہنچے ۔ حضرت علا ء نے ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر دریا درمیان میں حائل تھا اور طغیانی بھی اس میں بہت ہورہی تھی آپ نے دریامیں گھوڑا ڈالدیا اور اپنے لشکر والوں سے بھی کہا کہ جو دعا میں پڑھ رہا ہو ںیہی پڑھتے ہوئے تم بھی میرے قدم بقدم چلے آئو وہ دعایہ ہے یا رحمن یا رحیم یا کریم یا احد یا صمد یا محی یاحی قیوم لا الہ الاانت یا ربنا انا عبیدک فی سبیلک اجعل لنا السبیل علیھم۔چڑھا ہوا پانی دم زدن میں اتر گیا یہ بھی تو نہ معلوم ہوا کہ اوس پانی کو زمین جذب کر گئی یا آسمان پر ابخرے بن کے اڑگیا کمرکمر پانی تھا سارا لشکر اسلام بسہولت پار پہنچ گیا ۔ غرض کہ اہل اسلام دشمنوں کے سروں پر پہنچ گئی اور ان کے قتل و قید کے بعدمال غنیمت لے کے جیسے گھئے تھے ویسے ہی اپنے جائے قیام پرواپس آگئے یہ سب کچھ ایک ہی دن میں ہوگیا۔ اس عجیب و غریب واقعہ کو دیکھ کے ایک راہب مسلمان ہوا ۔ اس قسم کے صدہا بلکہ ہزار ہا واقعات کتب سیر و تاریخ میں موجود ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ مقربان بارگاہ الٰہی کوقدرت دی جا تی ہے وہ جو چاہتے ہیں ضرورت کے وقت کر تے ہیں ۔
خصائص کبریٰ میں ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں اترے دیکھے کہ شدت کی گرمی کی وجہ سے کنوئیں کا پانی سوکھ گیا ہے ۔آپ نے ایک برتن میں پانی منگواکر ڈول میں کلی کی ۔ نا جیہ ابن الا عجم کہتے ہیں کہ مجھے وہ ڈول دے کر فرمایا کہ تم کنوئیں میں اتر کر یہ پانی اس میں ڈال دیادو اور ایک تیر عنایت فرما یا اس سے پانی کا راستہ کشا دہ کر و وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کلی کا پانی ڈالتے ہی کنوئیں کے پانی کو حرکت ہوئی اور بڑھنے لگا ۔ یہاں تک کہ میں اس میں گھر گیا اور اتنا بڑھا کہ لب تک پہنچ گیا اورلوگ اپنے ہاتھ سے لینے لگے ۔ اور سب سیراب ہوئے اس وقت چند منافق لوگ بھی پانی کی حالت دیکھ رہے تھے ۔ اوس بن خولی نے عبد اللہ بن ابی سے کہا کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس کو تو دیکھے کیا اس کے بعد بھی کوئی اور بات دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ جب ہم اس کنوئیں پرآئے تو اس کی یہ حالت تھی کہ کھروچ کھروچ کے پانی نکالتے تو برتن میں ایک گھونٹ پانی بھی نہیں آتا تھا ۔ حضرت نے کلی کرکے جب اوس میں ڈلوا دیا تو پانی کو جوش ہوا ۔ اس نے کہا ہم اس قسم کے امور بہت دیکھ چکے ہیں ۔ اوس ؓ نے کہا خدا تجھے او رتیری رائے کو تباہ کر ے ۔ جب ابن ابی حضرت ؐ کی خدمت میں آیا توآپ نے فرمایا جو آج تم نے دیکھا وہ کیسی با ت تھی ۔ کہا ایسا واقعہ میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔فرمایا پھر اس وقت ویسی بات کیوں کہی ۔ کہا میں اس سے استغفار کر تا ہوں ۔ انتہیٰ ۔
اگراس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرت کہیں تو بھی بے موقع نہیں اس لئے کہ حضرت ہی سے ا س کا ظہور ہوا ۔ جس طرح ہمارے افعال ہم سے ظاہر ہو کر اثر کر تے ہیں ۔او راگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کہیں توبھی بجا ہے ۔کیونکہ دنیا میں جس چیز کا ظہو رہو تا ہے خدا ئے تعالیٰ ہی کی قدرت سے ہوتا ہے ۔ کسیکی قدر مستقل نہیں ۔
{آشوب چشم کا فوراً دفع ہونا }
خصائص کبریٰ میں ہے کہ غزوہ خیبر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز فرمایا کہ کل میں نشان ایسے شخص کے ہاتھ میں دونگا جس کو خدا و رسول دوست رکھتے ہیں ۔ جب صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ علی ؓ کہاں ہیں۔لوگو ںنے کہا ان کی آنکھوں میں درد ہے فرمایا ان کو بلا لو ۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان کی دونوں آنکھوں میں تھوکا جس سے وہ فوراً اچھے ہوگئے ۔ او ر نشان ان کو عطا فرمایا ۔ وہ نشان لے کر روانہ ہوگئے ۔ اور قلعہ کے پاس اس کو گاڑ دیا ۔ قلعہ پر سے ایک یہودی نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے ۔آپ نے کہا علی ؓ اس نے کہا ۔ اب تم غالب ہوگئے چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ کہ آپ نے قلعہ کو فتح کر لیا ۔انتہیٰ ۔
اس کی وجہ یہی ہوگی کہ ان کی کتا بوں میں لکھا ہوگا کہ جن کے ہاتھ پر وہ قلعہ فتح ہوگا ان کا نام علی ؓ ہوگا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرما تے ہیں کہ جب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آب دہن مبارک میرے آنکھوں میں ڈالا کبھی نہ آشوب ہو انہ سر میں درد اور نہ کبھی سردی ہوئی نہ گرمی ۔
{سردی وگرمی کازائل ہو نا }
اسی وجہ سے آپ سخت سردی کے وقت بھی ایک ہی چادر اوڑھتے تھے ۔ یہ لعاب مبارک کا اثر تھا کہ عمر بھر کے لئے دوا ہوگئی او رصرف دواہی نہیں بلکہ طبعی امور بھی انقلاب ہوگیا کہ کرۂ ہوا کی تا ثیر سے آپ کا جسمِ مبارک مستثنیٰ ہوگیا ۔ سردی اور گرمی ہوا کی طاقت نہ تھی کہ اپنا زور بتا ئے ۔دیکھئے سرد ہوا کے اثر کو روکنے کے لئے کیسی کیسی تدا بیر کی جا تی ہیں جسم اور ہوا کے درمیان گرم لباس حائل کیا جا تا ہے تاکہ وہ جسم تک نہ پہنچے ۔ کبھی آگ جلا کر ہوا کی سردی دفع کی جا تی ہے ۔تا کہ اس کا اثر با قی نہ رہے اوریہاں بر خلاف اس کے خالص سرد ہوا بغیر کسی حائل کے برابر جسم کو لگتی تھی مگر اس کا اثرنہیں ہوتا تھا جس طرح ابراہیم علیہ السلام کے جسم مبارک کو آگ لگتی تھی مگر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا تھا اگر تامل سے دیکھا جا ئے توابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں اس میں کوئی فرق نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہی اس لئے کہ وہاں چند ساعتوں تک وہ بات رہی او ریہاں عمر بھر ۔اسی قسم کے آثار مشاہدہ ہونے کی وجہ صحابہ روز آنہ حضرتؐ کا تھوک اور رینٹ لے کر چہروں پر ملتے تھے تا کہ دارین میں سر خروئی حاصل رہے ۔
{مرض استسقاء کا دفع ہونا }
شفا میں روایت ہے کہ ابن ملاعب الاسنہؓ کو استسقاء کی شکایت ہوئی (یہ ایک سخت بیماری ہے پیٹ زرد پانی جمع ہو جا تا ہے) انہو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص کو عرض حال کے لئے روانہ کیا حضرت نے ان سے سنتے ہی تھوڑی مٹی اور اس میں تھوک کر اس شخص کو دے دیا اس نے خیال کیا کہ یہ صرف صل لگی کی گئی ہے پھر وہ مٹی لے گئے او رایسی حال ت میں پہنچے کہ ابن ملا عب قریب المرگ ہوگئے تھے ۔انہوں نے اس مٹی کو پانی میں گھول کر پیا اور خدا کے فضل سے ان کو صحت ہوگئی ۔ انتہیٰ ۔
دیکھئے اس مبارک تھوک کی یہ برکت تھی کہ مہلک مرض ہوگیا اور دوبارہ زندگی پائی ہر وقت لب مبارک کی یہی تا ثیر تھی ۔
شفا اور اس کی شر ح خفا جی میں یہ روایت ہے کہ حبیب بن فدیک کہتے ہیں کہ میرے والد کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئی تھیں جن سے سے کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں آنکھوں میں تھوکے فوراً وہ شکایت رفع ہوگئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی سال کی عمر میں ان کی بصارت کی یہ حالت تھی کہ سوئی میں تا گا پر ویا کر تے تھے ۔ انتہیٰ ۔
یہ امر نظر انداز کر نے کے قابل نہیں کہ اسی سال کی عمر میں بصارت کا کیا حال ہوتا ہے ۔اگر کوئی بیماری بھی نہ ہوتو پیر انہ سالی خو د تمام قوتوں کو زائل کرنے والی ہے مگراس لب مبارک کی یہ برکت تھی کہ علت نا بینا ئی کو زائل کرکے بصارت کو بے زوال بنا دیا ۔ ایک فضلہ میں ایسی تا ثیرات ہو تو خاص نظر جن کے حالوں پر ہوتی تھی اور ان میں سے خاص وہ حضرات جو منظور نظر تھے ان کے قوائے روحانی او ربصیرت کا کیا حال ہوگا اسی وجہ سے اولیاء اللہ کے کیسے ہی مدارج ہو ںصحابہ سے نہیں بڑھ سکتے ۔
{نا بینا کا بیناہونا }
شفاء اور اس کی شرح حفا حی میں یہ روایت ہے کہ احد کی لڑائی میں کلثوم بن حصین کے گلے میں (جہاں رگ جاں ہے کہ جس میں زخم لگے تو آدمی نہیں جیتا ) پتھر لگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں تھوکا اور وہ اچھے ہوگئے ۔انتہیٰ۔
خیال کرنے کی بات ہے کہ اگر تھوڑی دیر توقوف ہوتا تو مقام زخم کے لحاظ سے ان کے شہید ہوجا نے میں کوئی بات باقی نہ تھی مگر اس لبِ جاں بخش کا یہ اثر تھا کہ گویا مردہ کو زندہ کر دیا ۔انتہیٰ ۔
شفاء اور اس کی شرح میں یہ روایت ہے کہ غزوہ خندق کے روز علی بن الحکم نے گھوڑا خندق میں اتا را اس نے شوخی کی جس سے دیوار کا ایا صدمہ ان کے پائوں پر پہنچا کہ ساق توٹ گئی ۔ اسی حالت میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے اپنا آب دہن اس پر ڈالاوہ فورا ً اچھے ہوگئے او رگھوڑے سے اتر نے کی نوبت بھی نہ آئی ۔انتہیٰ۔
شفاء اور اس کی شرح میں ہے کہ جنگ بدرمیں معوذ بن غفران رضی اللہ عنہ کا ہاتھ موٹڈے سے کٹ گیا جس کا صرف تسمہ باقی رہ گیا تھا وہ اسی طرح لڑتے رہے جب اس سے بہت ایذا ہونے لگی اپنا پائوں اس پررکھ کر اسے جدا کر دیا اور اس کو دوسرے ہاتھ میں لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے اس پر تھوک کر اس کے مقام پر اسے جمادیا اور وہ حالت اصلی پر آگیا ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
{جنگ بدر میں معوذ بن غفران کا ٹوٹا ہا تھ آب دہن مبارک سے جڑ گیا }
کیا عقلی قاعدے سے ممکن ہے کہ شرائین اعصاب وغیرہ کٹ جا ئیں اور ہا تھ بالکل علحدہ ہوجائے پھر کسی تدبیر سے وہ حالت اصلی پرآجائے ہر گز نہیں ۔ کیونکہ جب دن بھر وہ ہاتھ منقطع رہا ہو اس کے مردہ ہونے میں کیا شک ۔ایسے مردہ کو کیا زندہ کرنا ممکن ہے ۔مگر سبحا ن اللہ آبِ دہن مبارک کی یہ تاثیر تھی کہ اس مردہ کو دوبارہ زندہ کیا ۔
{مبتلاء مرض دماغی عقلمند ہوگیا }
شفاء میں یہ روایت ہے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت اپنے لڑکے کو حضرتؐ کی خدمت میں لائی وجو دماغی عا رضہ کی وجہ سے بات نہیں کرتا تھا ۔ حضرتؐ نے پانی منگوا کر ا س میں کلی کی اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور وہ پانی اس عورت کو عنایت کر کے فرمایا کہ لڑکے کو پلا دو اور کچھ منہ پر لگا دو ۔ روای کہتے ہیں کہ اس عمل کے ساتھ ہی لڑکا اچھا ہوگیا اور ایسا عقلند ہوا کہ اوروں کی عقل بڑھ گئی ۔انتہیٰ ۔
سبحا ن اللہ تبرکات کے یہ آثار ہوتے ہیں کہ جا نور کو آدمی بنا دیتے ہیں ۔ کیونکہ وہ لڑکا جب بات ہی نہیں کرتا تھا اور اس میں عقل بھی نہ تھی تو اس کو حیوان ناطق کہنے ہی میں کلام ہے ۔صرف آدمی کی شکل قد و قا مت سے کوئی آدمی نہیں ہوسکتا جب تک وہ ناطق وعاقل نہ ہو ۔ ایسے کو عاقل وناطق بنا دینا بعینہ حیوان کو آدمی بنا دینا ہے ۔انتہیٰ ۔
{جلاہوا ہاتھ اچھاہوگیا }
شفاء اور اس کی شرح میں یہ روایت ہے کہ محمد بن حاطب کم عمر لڑکے تھے ان کے ہاتھ پر پکی ہوئی دیگ الٹ گئی اور ہاتھ جل گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ پھیرا او رلب مبارک لگا دیا فوراً اچھا ہوگیا ۔انتہیٰ ۔
شفاء میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز کھا نا تناول فرما رہے تھے ۔ ایک لونڈی آئی اور کھانا طلب کیا آپ کے روبرو جو کھانا رکھا تھا اس میں سے کچھ عھا فرمایا اس نے کہا میں یہ نہیں چاہتی آپ کے منہ میں کانو الہ مجھے چاہئے آپ نے عطا فرمایا کیونکہ آپ سے جو کچھ ما نگا جا تا تھا اس کے دینے میں آپ دریغ فرما تے نہ تھے ۔اس نے وہ نوالہ کھا لیا وہ لونڈی بے حیائی میں مشہور تھی مگراس نوالۂ مبارک کا یہ اثرہوا کہ معدہ میں پہنچتے ہی اس پر حیا طاری ہوگئی اور اس قدر وہ حیاء دار ہوئی کہ تمام مدینہ منورہ اس سے زیادہ حیا دار کوئی عورت نہ تھی ۔ انتہیٰ ۔
خصائص کبریٰ میں ہے کہ ترمذی ابو عبید کہتے ہیں کہ سلمہ بن اکوع ؓ کی پنڈلی پر زخم کا اثر تھا۔ میں نے پوچھا کہ اس کا کیا واقعہ ہے انہو ںنے کہا کہ خیبر کی لڑائی میں مجھے یہ زخم لگا ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ زخم کا ری ہے ۔میں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ نے تین بار او پر تھوکا اس کے بعد آج کی ساعت تک اس سے متعلق کوئی شکایت مجھے نہ ہوئی ۔ انتہیٰ ۔
اب چاہیں اسے اثر روحانی کہئے یا دوا یا معجزہ ۔معجزہ کہن میں اس وجہ سے تامل ہو تا ہے کہ یہ تا ثری بتا کر کسی کا فر کو عاجز کرنامقصود نہ تھا ۔اگر دو اکہیں تو کوئی دورا ایسی نہیں سنی گئی کہ زخم کا ری کا فوراً اند مال کر دے ۔ اور درد بھی فوراً جا تا رہا ۔ دراصل بات ہی کچھ او رتھی ۔ جس کا سمجھنا معمولی عقلوں کا کام نہیں ۔
{خلاد کا نا توان اونٹ تھک کر زمین پکڑا تھا لب مبارک سے چست وہ چلا لاک ہوگیا }
شمس التواریخ میں لکھا ہے کہ جنگ بد میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقام روحہ میں پہنچے کہ ایک اونٹ جس پر خلاد اور عیبد اور خلاد کے بھا ئی سوار تھے تھک کر بیٹھ گیا ۔ اور حضرتؐ سے اس کی شکا یت کی ۔آپ نے پانی منگوایا اور وضو کر کراوس پانی میں کلیا ں کیں اور فرمایا کہ یہ پانی اس کے منہ میں ڈالدو چنانچہ اونٹ کا منہ کھول کر وہ پانی اس کو پلا دیا گیا ۔تھوڑا سا پانی جو با قی رہ گیا تھا اس کے سر و گردن اور شا نوں اور کو ہان اور ریڑ پر دُم تک ڈالوا دیا ۔ او رفرمایا کہ اب تم لوگ اس پر سوار ہو جا ئو آپ آگے کو روانہ ہوگئے ۔ اونٹ سواروں کو لے کر بھا گ نکلا ۔ انتہیٰ ۔
یہ لب مبارک کی تا ثیر تھی کہ تمام اعصاب جو ضعیف ہو ئے تھے فورا ً قوی ہوگئے حالانکہ ہنوز وہ آب دہن ان اعصاب تک پہچا بھی نہ تھا ۔
{تھوڑے سے پانی سے لشکر کا سیراب ہونا }
خصائص کبریٰ میں ہے کہ عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ ہم ایک سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے لوگوں نے پیاس کی شکایت کی آپ نے علی کرم اللہ وجہہ اور ایک دوسرے شخص کو بلا کر فرمایا کہ کہیں سے پانی ڈھونڈ لا ئو وہ راونہ ہوئے ۔ ایک عورت ان کو راہ میں ملی جو اونٹ پرد وپکھا لیں پانی کی لا د کر لے جا تی تھی ۔ ا س سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے ۔ اس نے کہا کہ کل اس وقت میں پانی کے پاس سے نکلی ہوں اس کو حضرت ؐ کی خدمت میں حاضر کیا ۔ آپ نے ایک برتن منگوایا اور انہیں پکھا لوں سے پانی لے کر اس میں کلی کی اور ان پکھا لوں میں ا س کو ڈالو ادیا اور ان کے منہ کھول کے لوگوں میں پکار دیا گیا ۔ کہ پانی پیو اور جانوروں کو پلالو چنانچہ سب نے پیا اور پلایا اور وہ عورت دیکھتی کھڑی تھی ۔
راوی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم جب پکھا لوں کا منہ باندھ دیا گیا تو ہمیں خیال ہوتا تھا کہ پہلے سے بھی وہ زیادہ بھری ہوئی ہیں ۔ پھر فرمایا کہ اس عورت کو کچھ جمع کر دو ۔چنانچہ کھجوریں ،آٹا ،ستو بہت کچھ اس کو جمع کر دیا گیا اور حضرتؐ نے اس سے فرمایا کہ جانتی ہو کہ ہم نے تیرے پانی سے کچھ خرچ نہیں کیا بلکہ خدا ئے تعالیٰ نے ہمیں پلا یا ۔ جب وہ عورت اپنے قبیلے میں پہنچی تواس سے لوگوں نے تاخیر کا سبب دریا فت کیا ۔ اس نے کہا عجیب و اقعہ پیش آیا کہ دو شخصوں نے مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جس نے نیا دین نکالا ہے ۔اوروہ واقعہ جو پانی کا گزرا تھا بیان کر کے کہا ںکہ یا توآسمان و زمین کے ما بیں اس سے زیادہ کوئی جا دو گر نہیں یا یہ بات ہے کہ وہ خدا کے سچے رسول ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد مسلمان لوگ اس قبیلے کے اطراف وجوانب تا خت و تا راج کر تے تھے لیکن ا س قبیلہ کا بھی قصد نہیں کیا ۔ ایک روز اس عورت نے اپنے قبیلے سے کہا میں یہ خیال کر تی ہوں کہ تم لوگوں کو وہ قصداً چھوڑ دیتے ہیں کیا تم اسلام لا نے کو مناسب سمجھ تے ہو ۔ لوگوں نے اس کی اطاعت کی اور وہ کل قبیلہ مسلمان ہوگیا ۔انتہیٰ ۔
ظاہراً یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب حضرت کو یہ اقتدار حاصل تھا کہ تمام لشکر کو دو پکھا لوں کے پانی سے سیرا ب کیا ۔ اور وہ پکھا لیں بھری کی بھر ی رہیں ۔ توپھر پانی کی تلاش کی کیا ضرورت تھی جس کے لئے وہ جلیل القدر صحابی روانہ کئے گئے۔بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عبودیت تھا ۔ جو با تفاق جمیع اولیااللہ ثابت ہے کہ وہ ارفع مقامات ہے۔ اگر حضرتؐ وہیں پانی جا ری فرما دیتے تولوگوں کو خیال ہوتا کہ حضرتؐ پانی کے خالق ہیں ۔ اگر چہ کلمہ ٔ (کن) مقربین بارگاہ الٰہی کو دیا جا تا ہے ۔یعنی جب وہ کسی چیز کو موجود کر نا چاہتے ہیں تو (کن)کہدینا ان کا با ذن الٰہی کا فی ہوتا ہے ۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمال ادب سے اس کوبھی گوارا نہیں فرما تے تھے ۔ ا س وجہ سے پانی کے تلاش کی ضرورت ہوئی ۔ تا کہ کسی کا خیال خالقیت کے طرف منتقل نہ ہو ۔
حق تعالیٰ جنت میں ہر مسلمان کو قوت و تصرف عنایت فرما ئے گا کہ بمجرد خیال کے جو چیز وہ چاہے موجود ہو جا ئے گی۔چونکہ منشاء اس کا تقرب الٰہی ہے تو مقربان بارگاہ کو دنیامیں بھی اگر یہ صفت عنایت ہوجا ئے توفضل الٰہی سے کونسی بڑی بات ہے ۔اس قسم کے خیالا ت کی نسبت جو کہا جا تا ہے کہ مشرکا نہ خیالات ہیں اس کا باعث سوا اس کے اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آیات و احادیث میں غور نہیں کیا جا تا ۔
{اسلامی تعلیم متعلقہ احسان }
صحابہ جو اس قبیلے کو لوٹتے نہ تھے اس کا سبب یہ تھاکہ ضرورت کے وقت اس قبیلے کی عورت کے پانی سے ایک برا نفع اٹھا یا تھا ۔ سبحا ن اللہ اسلام کی تعلیم کایہ اثر تھا کہ ایک بار بھی اگر کسی کے طرف سے احسان ہوگیا تو عمر بھر اس کو بھولتے نہ تھے اور اگر اس کے ضرر پہونچانے میں یقینی نفع بھی ہوتا ہو تواس نفع سے دست بردار ہوجا تے ۔ پھر ا س موقع میں تواس عورت نے کوئی احسان بھی نہیں کیا تھا ۔ ا س لئے کہ اس کے پانی سے تو ایک قطرہ بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ او رزیادہ پانی اس میں ہوگیا تھا ۔ مگر انہوں نے اس موقع میں بھی احتیاط سے کا م لیا کہ شاید جو پانی پیا گیا وہ پکھا ل ہی کا پانی ہو ۔ یا قدرتی پانی کے ساتھ شامل ہو گیا ہو ۔ بہر حال ان حضرات کی نازک خیالیاں ایسے موقع میں ہوا کر تی تھیں کہ جہاں دنیوی نقصان اٹھا نا لازم ہو بخلاف اس کے ہمارے زمانہ میں احتیاط اور نازک خیالوں کا منشا یہ ہوتا ہے کہ دنیاوی نقصان سے محفوظ رہیں اوراحسان فراموشی تو آجکل ضروری چیز بلکہ داخل تہذیب سمجھی جا تی ہے اگر عمر بھر کسی کے سا تھ احسان کیجئے اورکوئی ایک فرمائش ان کی پوری نہ کی جائے تو مخالفت کا سامان پیدا ہو گیا او رجتنے احسا ن ہوئے وہ سب کا لعدم ہوگئے ۔
سیرۃ النبویہ میں روایت ہے کہ سلمان فارسیؓ پر چالیس اوقیہ قرض تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغ کے انڈے کے برابر سوناان کو عنایت کرکے فرمایاکہ اس سے اپنا قرض ادا کردو انہوں نے عرض کی کہ مجھ پر چالیس اوقیہ قرض ہے اس کے مقابلے میں یہ کسی شمارمیں نہیں آسکتا آ پ نے سونا لے کر اپنی زبان مبارک پر پھیرا اور فرمایا کہ لے جائو خدائے تعالیٰ اس سے تمہا را قرض ادا کر دے گا وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کو تو لکر چالیس اوقیہ قرض ادا کردیا اور اتنا ہی میرے پاس با قی رہا ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے کہ جب سلمان فارسی ؓ نے اس سونے کو دیکھا تو کہا ۔ این تقع ھذا ہ مما علی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چالیس اوقیہ کے مقابلہ میں یہ کسی شمار میں نہیں مگر وہ اتنا بڑھ گیا کہ اسی اوقیہ ہوگیا یہ برکت تھی جس کو حضرتؐ کے لب مبارک نے اس میں پیدا کر دیا ۔
{زخم کا چنگا ہوجانا }
خصائص کبری میں ہے کہ خالدبن ولید ؓ سے حسنین کی لڑائی میں زخمی ہوئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے زخم میں تھوکا اور فوراً زخم چنگا ہوگیا ۔ اس قسم کے اکثر واقعات وقوع میں آئے ہیں ۔ انتہیٰ ۔
{چشمے کاپیدا ہوجانا }
خصائص کبریٰ میں ہے کہ راشد ابن عبدا للہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ ٔ طیبہ کو جاکر مشرف با سلام ہوا اور بیعت کی اس کے بعد درخواست کی کہ زہاط جو مکہ ٔ معظمہ کے قریب ایک گائوں ہے اس کی زمین میں سے تھوڑی زمین بطور مقطعہ عطا ہو ۔حضـرت ؐ نے وہ عطا کر کے ایک ڈولچی میں پانی منگوا یا اور اس میں تھوک کر ان سے فرمایا کہ یہ پانی مقطعہ کے بلند مقام میں ڈالدو اور پانی زیادہ ہوجائے تو لوگوں کو اس کے پینے سے منع نہ کرنا ۔وہ کہتے ہیں جب میں نے وہ متبرک پانی اس مقام میں ڈالا تو ایک چشمہ اس سے جا ری ہوگیا اور ایک بستان وہان لگا یا جو اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہوتا ہے ۔اورصرف وہ ہی نہیں بلکہ وہاں کی کل زمینین اس سے سیراب ہوتی ہیں اور لوگ اس میں نہا تے ہیں اور بیمار اس میں نہا کر شفا پا تے ہیں ۔لوگوں نے اس چشمہ کا نام ماء الرسول رکھا ہے ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے وہ لعاب مبارک تولا جا تا تو ایک تولہ سے زیادہ نہ ہوتا مگر ایک چشمہ اس سے جا ری ہوگیا جو دن رات کثرت سے بہتا رہتا ہے ۔ سبحا ن اللہ برکت اسے کہتے ہیں کیا کوئی ایسا چشمہ بہا سکتا ہے یا اس کی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے ہر گزنہیں ۔
خصائص کبریٰ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک با ر ایک کنوئیں پر تشریف فرما ہوئے جس کانام بہر بضاء ہے اور ڈول میں وضو کا پانی جمع کر کے اس میں کلی کی اور کنوئیں میں ہو پانی ڈالدیا اور اس میں لعاب مبارک بھی ڈالا ۔ حضرت ؐ کے زمانہ ٔ مبارک میں جب کوئی بیمار ہو تو فرما تے کہ اس کنوئیں کے پانی سے نہا لو ۔چنانچہ نہا تے ہی فوراً صحت ہو جا تی ۔
لعاب مبارک کے اثر سے بہر بضاء گویا چشمہ ٔ آب حیات ہوگیا تھا ۔ آب حیات نہیں معلوم کس تا ریکی او رگوشہء خمول میں ہے ۔بخلاف بحر بضاء کے کہ اس کے تا ثیرات علا نیہ ظاہر تھیں جس سے ہر قسم کے بیمار صحت پا تے تھے ۔
خصائص کبریٰ میں ہے ۔ ام عاصم کہتے ہیں کہ ہم چار عورتوں عتبہ بن فرقد کی نکاح میں تھیں ہر ایک چاہتی کہ اپنی سوت سے بہتر خوشبو لگا ئے اور عتبہ کبھی خوشبو نہیں لگاتے تھے مگرسب سے عمدہ خوشبوان کے جسم سے مہکتی تھی اورلوگ کہتے کہ عتبہ کی خوشبو سے بہتر ہم نے نہیں سونگھی ۔
ایک روز ان سے ا س کا سبب پوچھا گیا تو انہو ںنے کہا کہ ایک بار میرے جسم پر بثو ر بہت ہوگئے تھے میںنے حضرت سے شکا یت کی فرما یا جسم سے کپڑے اتا ر دو میں صرف شرمگا ہ پرکپڑا ڈھانپ کر بالکل برہنہ ہوگیا ۔ اور حضرت کے روبرو بیٹھ گیا۔ آپ نے اپنا آب دہن دونوں دستِ مبارک میں لے کر میری پیٹھ اور پیٹ پر مل دیا اس روز سے یہ خوشبو میرے جسم سے مہکتی رہتی ہے ۔انتہیٰ ۔
یہاں مقصود بالذات ان کے بثور کا علاج تہا ۔ مگر لعاب مبارک نے ان پر وہ اثر کیا کہ ان کے جسم کو پا کیزہ اور خوشبو دار بنا دیا ۔ ہر چند بظاہر جسم کے اندر اس کی سرایت نہیں ہوئی تھی ۔ اگر اعلیٰ درجہ کی خوش بوتمام جسم پر لگا دی جا ئے تو ایک دوروز سے بڑھکر اس کا اثر نہ رہ سکتا بخلاف اس کے یہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام اخلاط میں اس کی سرایت ہوگئی تھی ۔ بلکہ اس سے بھی ایک درجہ بڑھا ہوا تھا ۔ کیونکہ بدل ما یتحلل جب پیدا ہو تا تھا تووہ بھی معطرہو کر پیدا ہو تا تھا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ گویا ان کے جسم کی ماہیت ہی بدل گئی ۔
{ہمیشہ کے لئے کنوئیں کاپانی معطر ہو گیا }
السیرۃ النبویہ میں دائل ابن حجر سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول میں کلی کر کے کسی کنوئیںمیں ہو پانی ڈلوا دیا ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ علانیہ ا س کے پانی میں مشک کی بو آتی تھی ۔انتہیٰ ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو نہایت مرغوب تھی او رکل ارواح صالحہ کو مرغوب ہوا کر تی ہے ۔ اسی وجہ سے جمعہ کے روز مساجد میں بخور جلانا او رلباس کو خوشبو لگانا مسنون ہے ۔ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب مبارک میں اگر خوشبو ہوتوکیا تعجب حضرت سر اپا معطر تھے ۔
چنانچہ خصائص کبریٰ میںمتعد د روایتیں عایشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت بشری سے فارغ ہو تے تووہاں مشک کی خوشبو مہکتی رہتی ۔ایک بار میں نے یہ عرض کی حضرت نے فرما یا کہ ہم گر وہ انبیاء کے اجساد جنتیوں کے ارواح پر بنائے جا تے ہیں یعنی جنتیوں کی روحوں میں جو لطافت او رپا کیزگی اورخوشبو ہوتی ہے وہ ہمارے جسموں میں ہوتی ہے اور اس کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے ۔جو خضائص کبریٰ میں ذکوان ؓ سے مروی ہے۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا ہے نہ چاندنی میں او رنہ قضائے حاجت کے بعد کوئی اثر وہاں با قی رہتا بلکہ زمین نگل جا تی تھی ۔
{مواقع استعمال خوشبو}
اس کے سوا متعدد روایتوں سے جو خصائص کبریٰ وغیرہ میں مذکور ہیں اس کا ثبوت ملتا ہے چونکہ مسلمانوں کے ارواح کو خوشبو مر عوب ہے ۔ اسی وجہ سے میت کے کفن کو حنوظ جو ایک قسم کی خوشبو ہے لگا نے کا حکم ہے حالانکہ مروی کی حس جسمانی قبر میں باقی نہیں رہتی ۔ بلکہ صرف روحانی تعلق رہ جا تا ہے ۔اسی تعلقِ روحانی کی وجہ سے کفن کو معطر کر نے کی ضرورت ہے ۔ یہیں سے اہل اسلام نے بزرگانِ دین کی قبروں پر پھول چڑھا نے اور صندل وغیرہ لگا نے کا مسئلہ استنباط کیا ہے اگر چہ اسکی وجہ نہیں معلوم ہو تی کہ فاتحہ کے وقت عود کیوں جلا یا جا تا ہے ۔غالباً وجہ اس کی یہ ہوگی کہ کسی بزرگ صاحب کشف نے اس امر کا احساس کیا ہو کہ روح کو اس وقت تعلق خاص پیدا ہو جا تا ہے گو کتنی ہی دور کیوں نہ ہو کیونکہ قریب و بعد جسم کے لوازم میں ہے اور ہر ایک جسم کا حیز دوسرے جسم کے حیز سے ممتاز ہوتا ہے۔ اور دونوں حیزں میں ممکن ہے کہ قرب یا بعد ہو بخلاف روح کے کہ جسم حیز دارنہیں ہے اس لئے قرب و بعد اس کا قرین قیاس نہیں ۔غرض کہ فاتحہ کے وقت ممکن ہے کہ روح کو خاص تعلق اس مقام سے ہو جا ئے ۔ اس وجہ سے خوشبو کے ساتھ اہل اسلام کے ارواح کو مناسبت ہے کیونکہ یہ لوگ جنتی ہیں او راہل جنت کے لئے اقسام کے خوشبوئیاں مہیا کی گئی ہیں ۔ بخلاف کفارکے کہ ان کے لئے دوزخ میںاقسام کی بد بوئیاں مہیا ہیں ۔
خصائص کبریٰ میں ہے کہ عبد اللہ بن عامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے (غالباً یہ بیمار تھے)آپ نے ان پر اپنا لعاب مبارک ڈالا اور ان کو للہ کی پناہ میں دیا وہ لعاب مبارک کو نگلنے لگے ۔ یہ دیکھ کر فرمایا کہ یہ سیراب کرنے والے ہیں ۔ اس کے بعد ان کا یہ حال تھا کہ جب کسی زمین کی سیرابی کی طرف توجہ کر تے تو وہاں پانی نکل آتا ۔انتہیٰ۔
لعاب مبارک کے نگلنے کی وجہ سے جو آپ نے خبردی کہ یہ سیرا ب کر نے والے ہیں اس سے لب مبارک کی تا ثیر کا پتا چلتا ہے کہ جس طرح حضرت کے لعاب مبارک سے چشمے نکل آتے تھے ان کی توجہ سے بھی خشک زمین میں چشمے نکلنے لگے ۔ ابتدائً لعاب مبارک جسم میں اثرکیا اس سے خیال و توجہ ہیں ۔اس سے زمین میں اثر پیدا ہوا ۔پھر یہ اثر محدود نہ تھا ۔بلکہ توجہ میں ایک دائمی ایسی تا ثیر پیدا ہوگئی کہ جب ارادہ کرتے او رزمین پر توجہ ڈالتے تووہاں پانی نکل آتا او رزمین سیراب ہو تی ۔
شمس التواریخ میں لکھا ہے کہ حارث بن سارقہ جنگ بد رمیں شہید ہوئے اور ان کی شہادت کی خبر مدینہ منورہ میں مشہور ہوئی ان کی والدہ کہتے ہیں کہ اس دن حارث ابن سراقہ حوض پر تھے نا گا ہ ایک بہت تیز تیر ان کے سینہ میں آکے لگا اور وہ شہید ہوئے ۔جب مدینہ میں ان کے مرنے کی خبر ان کی والدہ اور بہن کو پہنچی توماں نے کہا کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحیح و سالم مدینہ میں نہ آلیں گے میںاپنے بیٹے کو ہر گز نہ روئوگی ۔ ان سے پوچھوں گی کہ حضرتؐ اگرمیرا بیٹا بہشت میں ہے تو خوشی کا مقام ہے رونے کی کچھ ضرورت نہیں ۔ ہا ں اگروہ فرمائیں گے کہ حارث دوزخ میں ہے تو روئونگی اورقسم ہے خدا کی پھر میں اس کو چلا چلا کے روئوں گی ۔ آخرش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدرسے مراجعت فرمائی تو ما در حارث خدمت عالی میںحاضر ہوئیں اور حال حارث کا پوچھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے خدا کی جس کے قبضے میں میر جان ہے۔حارث جنت الفردوس میں ہے ۔ماں بولی اب میں اس کے لئے ہر گز بکانہ کروں گی اس وقت حضور نے ایک پیالہ پانی کا طلب کیا اس میں اپنے ہاتھ دھوئے اور کلی کر کے اس میں ڈالدی او رحارث کی ماں کو وہ پانی پلا دیا اور جو کچھ باقی رہا حارث کی بہن کو دے دیا ۔ اس نے بھی پیا پھر حکم دیا کہ اس میں سے تھوڑا ساپانی اپنے گریبانوں پر چھڑک لو ان دونوں نے یہی کیا او راپنے گھر چلی گئیں راوی کہتے ہیں کہ پھر مدینہ میں کوئی عورت ان سے زیادہ خوش و خرم نہیں نظر پڑی ۔ انتہیٰ ۔
ہر چند ان بیوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر رونا ترک کر دیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حالت ظاہری او رباطنی سے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان کے دل پر سخت صدمہ ہے جس سے ضرر کا اندیشہ ہے کیونکہ غم او رخوشی آدمی کی اختیاری چیز نہیں ۔ جب غم کے اسباب قائم ہوجا تے ہیں تو غم کا ہونا ایک لا زمی امر ہے اس لئے آنحضـرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب مبارک ان کی تسکین کے لئے استعمال فرمایا جس کی تا ثیر یہ ہوئی کہ بجائے غمی کے ان کے دل میں مسرت او رشادی پیدا ہوگئی اور اس قدر شا دماں تھیں کہ مدینہ طیبہ میں ان سے زیادہ خوش کوئی نہ تھا ۔یہ تھی تا ثیر لب مبارک کی ۔
شمس التواریخ میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے روز صدیق اکبرؓ کو ہمراہ لے کر غار ثور پر پہنچے صدیق ؓ کو خیال آیا کہ لوگ اس غار میں کیڑے مکوڑے بہت سے بتا تے ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کو کچھ مضرت پہنچے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس غار میںپہلے جائوں تا کہ جو کچھ ہونا ہو مجھی کو ہوجائے ۔ اجازت لے کر اندر گئے ۔دیکھا کہ بڑا ہی تا ریک اور ظلمانی غار تھا۔ ہاتھ سے ٹٹول کر جس قدر سوراخ پائے اپنی چادر کے تکڑوں سے بھر دئے ۔اس پر بھی ایک سوراخ رہ گیا اس میں ایڑی لگادی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر بلا لیا ۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے زانو پر سر رکھ کر سورہے اگر چہ ان کو سانپ بچھوکا ٹتے لیکن اس خیال سے دم نہ مارتے تھے کہ حضرتؐ کے خواب نوشین میں خلل نہ پڑے ۔آخر کار کسی ایسے موذی کیڑے نے کا ٹا کہ بوجہ تکلیف ان کے آنسو نکل پڑے اور حضرت کے رخسار ۂ مبارک پرگرے آپ نے چونگ کر دریافت فرمایا انہوں باعث بتایا حضرتؐ نے آب دہن مبارک ا س مقام پرلگا کر دعا کی جس سے فوراً ساری تکلیف دفع ہوگئی اور پھر کسی جانور نے نہ کاٹا ۔انتہیٰ ۔ ملحضاً ۔
سبحا ن اللہ آب دہن مبارک عجیب نسخہ ٔ جامعہ تھا کہ ہر مرض کی دوا اور محتاج کا حاجت روا تھا ۔
خصائص کبریٰ میں عبد اللہ بن ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ جب مدینہ میں تجارت کے جانور آئے تو میرے والد نے ایک گھوڑا خرید ا اس وقت مسعدہ فزاری سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا اے ابو قتادہ یہ گھوڑا کیسا انہوں نے کہا میں نے اسے اس لئے خریدا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت دوں ۔ اس نے کہا تم لوگوں کا قتل کرنا بہت آسان ہے ابوقتادہ ؓ نے کہا میں خدا سے سوال کر تا ہوں کہ تجھ سے ایسی حالت میں طوں جومیں اس پر سوار ہوں ۔اس نے کہا آمیں ۔ایک روز ابوقتادہ ؓ گھوڑے کو کھجوریں کھلا رہے تھے کہ اس نے سر اٹھا کر کان کھڑے کیا انہوںنے کہا کہ غالباً گھوڑوں کی بواسے آئی ہے ۔ ابو قتادہ کی والدہ نے ان سے کہا کہ ہم لوگ جا ہلیت میں ماں کے بیٹے نہ تھے تواب اس دور میں ہماری کیا حالت ہونی چاہئے۔مطلب یہ کہ ہم لوگ مرد میدان ہیں ۔ گھروں میں رہنا ہمیں زیبا نہیں یہ باتیں ہورہی تھیں کہ گھوڑے پھر سر اٹھا یا اور کان تیز کیا ابوقتادہ ؓ فوراً مسلح ہوئے اور اس پر سوار ہوکر روانہ ہوگئے ۔ راستے میں ایک شخص نے کہا اونٹنیوں کو کفار لے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے ۔ انہوں نے گھوڑے کو تیز کیا چنانچہ حضرت ؐ سے مل گئے ۔ حضرتؐ نے فرمایا بڑھے جا ئو خدا تمہا رے ساتھ رہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں آگے بڑھا ۔یہاں تک کہ اونٹنیوں تک پہنچ گیا اور لشکر کفار نے مجھ پر ہجو م کیا ۔چنانچہ میری پیشانی میں ایک تیر لگا میں نے اسکو کھینچ کر نکا لا مگر تیر کا پیکان رہ گیا ۔ اس اثنا میں ایک سوارمیرے قریب آیا جو خود پہنا ہوا تھا اور کہا ۔ اے ابوقتادہ اللہ نے تمہیں ہمیں ملا دیا اور چہرے پر سے خود وغیرہ ہٹا دیا دیکھا کہ وہی مسعدۂ فزاری ہے ۔ پھر اس نے کہا کہ تم کس قسم کی لڑائی پسند کر تے ہو ۔ کیا تلوار کی یا بھالے کی یا کشتی ۔میں نے کہا جو تم پسند کرو اس نے کہا کشی کرینگے ۔ اور یہ کہہ کر گھوڑے سے اترپڑا ۔اور میں بھی اترا اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے ۔ میں نے ایک حملہ ایسا کیا کہ اس کو گرا کے اس کی چھا تی پر چڑ ھ بیٹھا اور اس کی تلوا چھین لی اس وقت اس نے کہا اے ابوقتادہ مجھے زندہ چھوڑ دومیں نے کہا خدا کی قسم ہر گز نہ ہوگا ۔کہا کہ میرے بچوں کی کون کفالت کر ے گا ۔ میں نے کہا جہنم پھر اس کو قتل کر کے اپنی چادر میں لپیٹ کر وہیں ڈال دیا او راس کے کپڑے پہن کر اس کے ہتیار لے لئے اوراس کے گھوڑے پر سوار ہو گیا کیونکہ میرا گھوڑا بھاگ کر اپنے لشکر میں چلا گیا ۔میں وہاں سے آگے بڑھا تو مسعدہ کا بھتیجا ملا جس کے ساتھ سترا(۱۷) سوار تھے میں نے اس پر حملہ کر کے اس کے پیٹھ بھا لے سے چھیددی ۔ یہ دیکھتے ہی ا سکے ساتھ والے سب بھا گ گئے اور میں نے بھا لے سے اوننٹنیوں کو روکا جب حضرتؐ لشکر گا ہ کو پہنچے تو دیکھا کہ میرا گھوڑا زخمی کھڑا ہے پھر حضرت ؐ آگے بڑھے اور اس مقام پر پہنچے جہاں مجھ سے اور مسعدہ سے کشتی ہوئی تھی ۔ دیکھا کہ ایک شخص ابو قتا دہ ؓ کے کپڑوں میں لپٹاپڑا ہے کسی نے کہا یا رسول اللہ ابو قتاوہ شہید ہوگئے۔فرمایا اللہ ابو قتا وہ پررحم کرے خدا کی قسم وہ قوم کے پیچھے رجز پڑھ رہے ہیں ۔ یہ سنکر عمر اور ابوبکر ؓ عنہما نے دوڑتے ہوئے جاکر دیکھا تو ان کپڑوں میں لپٹا ہوا شخص مسعدہ تھا ۔ انہو ںنے مار ے خوشی کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے کہا خدا و رسول نے سچ کہا جب میں اونٹنیوں کو ہانکتا ہوا حضرتؐ کے روبرو آیا تو حضرتؐ نے دعا دی کہ تمہارا چہرہ اچھا رہے اور فرما یا کہ تم سواروں کے سردار ہو ۔خدا تم میں اور تمہاری اولاد اور اولادِ اولاد میں برکت دے ۔ پھر فرمایا کہ تمہارے منہ کو کیا ہوا میں نے عرض کی کہ تیر لگا فرما یا نزدیک آئو جب میں نزدیک ہوا تو بہت آہستگی سے پیکان جو اندررہ گیا تھا کھینچا او راس میں تھوک کر اپنی ہتیلی اس پررکھی۔ خدا کی قسم اس کے بعد نہ اس میں درد تھا نہ پیپ پڑی ۔ راوی کہتے ہیں کہ انتقال کے وقت ابو قتاوہ ؓ کی عمر ستر سال کی تھی ۔ مگر چہرہ سے پندر ا سال کے معلوم ہو تے تھے ۔ انتہیٰ ۔یہ حضرت کی دعا کا اثر تھا ۔
خصائص کبریٰ میں ابن شہاب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن رواحہ کو یسر بن رزام یہو دی کے طرف تیس سوار دے کر بھیجا جس میں عبد اللہ بن انیس بھی تھے یسرنے عبد اللہ ب انیس کے منہ پرو ار کیا جس سے وہ سخت زخمی ہوئے ۔جب حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرتؐ نے اپنا لعاب دہن مبارک اس زخم میں ڈالا تو وہ اچھا ہوگیا۔ اورجو پیپ اس زخم میں پڑی تھی وہ کچھ بھی نہ رہی ۔انتہیٰ ۔
جب صحابہ رضی اللہ عنہم اس قسم کے ہزار ہا تا ثیرات اوردست مبارک کے برکات برکات مشاہدہ کر تے تھے اس وجہ سے ان کو ہمیشہ برکات حاصل کر نے کا خیال رہا کرتا تھا اور اسی خیال سے ایسے ایسے حرکات ان سے صادر ہو تے تھے کہ بظاہر عرفا ً شرعاً طبعاً قابل اعتراض سمجھے جا ئیں مگران حضرات نے اس کی کچھ پر وا نہ کی چنانچہ خصائص کبریٰ میں عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک باروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت آئے کہ حضرت پچنے لگوارہے تھے جب اس سے فارغ ہوئے توفرمایا اے عبد اللہ یہ خون لے جائو اورایسی جگہ اسے پھینک دو کہ تمہیں کوئی نہ دیکھے ۔انہوں نے لے جا کر اسے پی لیا جب واپس آئے تو حضرت نے فرمایا اے عبد اللہ تم نے اسے کیا کیا ۔ کہا ایسے مقام میں ڈالا کہ میر دانست میں وہ لوگوں سے محفی ہے ۔فرمایا شاید تم نے اسے پی لیا عرض کیا جی ہاں ۔فرمایا ویل للناس منک وویل لک من الناس ۔مطلب یہ کہ جو انمردی اور قوت تم میں کچھ ایسی بڑھ جائے گی کہ لوگو کو تم سے صدمہ پہنچے گا ۔جس کی وجہ سے تم کو صدمہ پہنچائینگے صحابہ خیال کرتے تھے ان میں جو غیر معلوملی قوت تھی وہ اسی خو ن کی وجہ سے تھی ۔انتہیٰ ۔
حافظ ابن عبد البر ؒنے استیحاب میں لکہا ہے کہ معاویہ بن یزید کے بعد عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۶۴ ہجری میں خلیفہ بنے او ر۷۳ ہجرمیں حجاج کے حکم سے قتل کئے گئے اس طرح کہ چھ مہینے ستر ا روز تک مکہ معظمہ کا اس نے محاصرہ کیا ۔ ایک روز آپ مسجد حرام میں تھے کہ حجاج کے لوگ مسجد میں گھس گئے ۔آپ نے ان سے مقابلہ کیا ۔سب بھاگ گئے ۔ اس کے بعد اہل حمص اندر داخل ہوئے ان کو بھی اتنا مارا کہ سب بھاگ گئے ۔ پھرکسی دروازہ سے اہل ارون میں داخل ہوئے ان سے بھی مقابلہ کر کے مسجد سے نکا لدیا ۔ مگر اس اثنامیں صفا کی طرف سے ایک پتھر اس زور سے آکر آپ کی آنکھوں کے بیچ میں لگا کہ آپ نے سر جھکا لیا ۔اور یہ شعر پڑھا ۔
ولسنا علی الاعقاب تدمی کلومنا ولکن علی اقدامنا یقطر الد م
یعنی ہم ایسے نہیں ہیں کہ ہمارے زخم ہماری ایڑیو ںپر خون ٹپکا دیں بلکہ ہمارے قدموں پر خون ٹپکا کرتا ہے ۔ اس کے بعد ہر طرف سے لوگ دوڑے اور آپ کو قتل کر ڈالا ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے بنی امیہ اور مردانیوں سے سلطنت کالینا کوئی آسان کام نہیں اس کے لئے بڑی جوا انمردی اور قوت درکار تھی یہ اسی خون کااثر تھا جوحضرت کے جسم مبارک کا فضلہ تھا ۔ایک با راس کے پی لینے سے گویا قلب ماہیت ہی ہو گئی کہ ہمیشہ کے لئے جو انمر د اور زور آوربن گئے ۔
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ خون کا حرام ہونا نص قطی سے ثا بت ہے ۔کما قال تعالیٰ حرمت علیکم المیتتہ والدم کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ صحابہ ؓ نے کسی آدمی یا جانور کا خون پیا ہو ۔ مگر عبد اللہ بن زبیر ؓنے بجائے اس کے کہ اس خون کو کہیں دفن کر دیں پی لیا ۔ اور آنحضرت نے بھی اس پر نا راضی ظاہر نہیں فرمائی او ریہ بھی نہیں فرمایا کہ تم نے حرام چیز کو کیو ں استعمال کیا ۔حضرت صلعم کے خون کی حلت و حرمت کا بیان یہاں مقصود نہیں دیکھنا یہ ہے کہ نص صریح سے جس چیز کی حرمت ثابت ہے اس کو انہوں نے خواہش سے پی لیا ۔ اور باوجود یکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرما تھے ۔ اس کا حکم بھی دریافت نہ کیا ۔پھر وہ کوئی ایسی ذائقہ دار چیز بھی نہ تھی۔جس کی رغبت ہوئی ہو ۔بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ با لطبع مکروہ ہے ۔اب اگر کہا جا ئے کہ محبت کی وجہ سے ان کو اس کی کراہت نہ ہوئی او راس کے پینے کامنشا بھی محبت ہی تھا یہ بادر نہیں ہوسکتا اسی لئے کہ کیسا ہی دوست اور محبوب ہوا اس کا خون یا پیاشب پینا گوارا نہیں ہوتا اور اس کی ضرورت ہی کیا کہ محبوب کے فضلات کہا ئے او رپئے جائیں غرض کہ محبت کی وجہ سے انہوں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ منشاء اس کا کچھ اور ہی تھا ان کا اعتقاد تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک مثل اور اجسام کہ نہیں ہے وہ سراپا طاہر او رمطہر ہے بمصداق شعر تو جا ں پاکی سر بسر نے
آب و خاک ے انازنیں٭ واللہ زجان ہم پاک تر روحی فداک بے انازنیں
ملولفہ۔بجسم پاکیز ہ تر زجانی بجاں چہ گویم کہ جان جانی مراچہ یا را کو گویم کی پروںز تحمین سر گمانی ۔آپ کے جسم مبارک کا ہر جزٔ ہمہ تن نور ہے جس کو اہل بصیرت جانتے ہیںاس میں وہ برکت اور فضیلت رکھی ہوئی ہے کہ کسی دوسری چیز میں نہیں ۔ اس کو اپنے باطن میں پہچا نا باعث ترقی روحانی ہے ان حضرات کے اس خیال پر یہ روایت بھی گواہ ہے جس کو قاضی عیاض ؓ نے شفاء میں نقل کیا ہے کہ ایک عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب کو پی لیا آپ نے اس بی بی کو فرمایا کہ پیٹ کی بیماریوں کی شکا یت اب تمہیں کبھی نہ ہوگی ۔اس سے تو ثابت ہے کہ فضلات کی نسبت بھی صحابہ کا یہی اعتقاد تھا کہ و ہ سب تبرک ہیں اور ارشاد نبوی صلعم سے ثابت ہے کہ وہ دوائے امراض جسمانی بھی ہیں جس کی با لطبع آدمی کو رغبت ہوارکرتی ہے جب ہم خیال کرتے ہیں کہ پینے کے وقت انہیں کوئی مرض لاحق نہ تھا جس کے علاج کا انہیں خیال آیا ہو تواس سے ظاہر ہے کہ ان حضرات کے عیقدہ میں یہ بات مستحکم تھی کہ وہ فضلات اپنی جان سے افضل اورباعث ترقی روحانی ہیں ۔ قاضی عیاض ؒ نے اورکئی واقعات اسی قسم کے نقل کئے ہیں جس سے ہمارے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے ۔اب یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ صحابہ جن کی فضیلت تمام امتِ مرحومہ پر نصوص قطعیہ سے ثابت ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب وغیرہ فضلات کو جان سے افضل بلکہ جان کے تقدس کا باعث سمجھتے تھے تو کیا ممکن ہے کہ معاذ اللہ وہ اپنے کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسر سمجھے ہوں گے آخر وہ حضرات بھی قل انما انا بشر مثلکم پڑھتے تھے بلکہ سچ پوچھئے تو تازہ ایمان ان ہی حضرات کا تھا او راسباب نزول پیش نظر ہونے کی وجہ سے ہر آیت کا اصلی مضـمون وہ سمجھتے تھے با وجود اس کے کسی صحابی سے کوئی ایسی مروی نہیں جو اس آخری زمانے کی بعضے امتی کہتے ہیں اوراس توہین کو توحید کا تکملہ قرار دے کرتمام امت میںاپنے آپ کو ممتاز سمجھتے ہیں ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ اگر توحیداسی کا نام ہے تو صحابہ سے اس قسم کے اقوال اور حرکات ضروری مروی ہوتے کیونکہ ہمارے دین کا مدار تعلیم نبویؐ پر ہے اور بلا واسطہ تعلیم یافتہ جماعت پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ان حضرات کے افعال و اقوال حرکات سکنات اس قسم کے پیش ہوجا تے ہیں کہ اس آخری زمانے کے اہل توحید سے ان کوکوئی مناسبت نہیں بلکہ بالکل تضاداور مخاالفت ہے ۔تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کی توحید بدعت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم او رصحابہ کے زمانے میں نہ تھی ۔اہل ایمان کو صحابہ کے اعتقاد سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو کہا ںآپ کے بول و برازکے ساتھ بھی ہمسری کا دعویٰ نہ کریں اور انصاف سے دیکھا جا ئے توبول و براز سے ہمسری کا دعویٰ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ شفاء میں قاضی عیاض ؓ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حاجت بشری سے فارغ ہو تے توبول وبراز کو زمین فوراً نگل جا تی اور وہاں خوشبو مہکتی رہتی ۔اب یہ کہئے کہ کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے جسم سے خوشبو مہکتی ہے ۔ اس کا تجر بہ آسان ہے کہ جو صاحب دعویٰ کریں ان کو گرمی میں گرم لباس پہنا کر کسی گرم مقام میں بٹھلا دیجئے او رکوئی اجنبی آدمی کو ان کے پاس لاکر چھوڑ دیجئے اگر وہ لاحول پڑھتا ہوا وہاں سے نہ بھاگ جائے تو ہم سے پوچھئے اس سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ بوان ہی کے جسم کی تھی ایسے گندہ جسم و الوں کو کیا اس معطر بول و براز کی ہمسری کا دعویٰ قابل قبول ہوسکتا ہے ۔ہر گزنہیں ۔ یہ حضرتؐ کے جسمانی فضلات کا حال ہے کہ وہ بدر جہاں اور وں کے جسم سے افضل تھے ۔
پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک بلکہ لباس پرمکھی نہیں بیٹھتی تھی چنانچہ خصائص کبریٰ میں کتب معتبرہ سے یہ راویت نقل کیا ہے اس کے مقابلہ میں اپنا حال دیکھ لیا جائے کہ مکھیاں کس قدر ناک میں دم کر دیا کر تی ہیں او ر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مکھیوں کو کونسی چیز مرغوب بالطبع ہے بہر حال آدمی کو چاہئے کہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔’’ایاز حد خود بشناس ‘‘۔ اس تقریر سے بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے ساتھ کوئی ہمسری نہیں کر سکتا اور کیونکر کرسکے ۔ حضرت کا جسم مبارک ظاہر اجسم تھا اور درحقیقت نور تھا ۔ جس پر روشن دلیل یہ راویت ہے جو خصائص کبریٰ میں ذکوان ؓسے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دھوپ میں یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہیں آتا تھا ۔ اور اس حدیث سے بھی ثابت ہے جو کنز العمال کی کتاب الفضائل میں ہے کہ بخاری شریف میں روایت ہے کہ قریش نے عروہ بن مسعدوؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات دریافت کر نے کے لئے بھیجا وہ کہتے ہیں کہ جب میں حضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا کہ جب حضرتؐ وضو فرما تے ہیں توصحابہ کاوہاں ہجوم ہوجاتا ہے ۔وضو کا پانی جسم مبارک سے جدا ہوتے ہی قبل اس کے کہ زمین پرگرے ہاتھوں ہاتھ اسے لے لیتے ہیں اور آپ تھوکتے ہیں توتھوک او ربلغم کے لئے لوگ ہاتھ پھیلا پھیلا کر بہت جلدی سے اسے لے کر اپنے منہ اور جسم پرملتے ہیں اور جب کوئی موئے مبارک زمین پر گرتا ہے توفوراً اسے اٹھا لیتے ہیں اوران کی حالت ان تبرکات کے حاصل کرنے کے وقت ایسی ہوتی ہے کہ باہم مقابلہ پر آدمادہ رہتے ہیں ۔ وہ جب یہ حالت دیکھ کر واپس گئے تو قریش سے کہا کہ یا معشرِ قریش میں کسریٰ بادشاہ فارس کے دربا رمیں گیا اور قیصر روم کے دربارمیں گیا نجاشی بادشاہ حبش کے دربار میں گیا مگر کسی قوم کو ایسی نہ دیکھا کہ اپنے بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتے ہوں ۔جیسے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ان کی تعظیم کرتے ہیں یادرکھوکہ وہ لوگ ایسے نہیں ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے حوالے کردیں ۔انتہیٰ ملخضاً ۔
اب یہاں چند امور قابل توجہ ہیں (۱) ۔ جو مستعمل پانی قطع نظر اس کے کہ اس کی نجاست میں اختلاف ہے وہ عقلاً وعادہ ً اس قابل نہیں سمجھا جا تا کہ اس کو آدمی رغبت سے لے کر اپنے جسم پرملے چہ جائے کہ تھوک بلغم اور رینٹ ان کی نسبت تو یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی سلیم الطبع ان کو اپنے منہ پر ملے ۔
(۲) ۔ وضو فرمانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا نہ تھا کہ اس کو تخلیہ کی ضرورت ہوبلکہ مجمع عام میں ہوا کر تا تھا جیسا کہ روایت موصوفہ سے ثابت ہے پھروہ امور اتفاقیہ میں بھی نہ تھا بلکہ روزانہ چند بار فرما یا کر تے تھے ۔
(۳) ۔وضو اکثر نماز کے وقت ہوا کر تا ہے اور ظاہر ہے کہ جتنے صحابہ ؓ مدینہ طیبہ میں حاضر رہتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو ضروری سمجھتے تھے ۔یہاں تک کہ فجر اور عشا کی نماز میں جو اتفاقاً حاصر نہ ہوسکتے تھے ان کو زجر و توبیخ ہوا کر تی تھی جیسا کہ روایات صحیحہ سے ثابت ہے ۔غرض کہ صدہا صحابہ کا مجمع وضو کے وقت ہونا روایتہ اور داریتہ ثابت ہے (۴) ۔وضو کے وقت وہ تمام حرکات جو حدیث میں مذکو ر ہیں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبروو قوع میں آتے اور آپ ان کو خود مشاہدہ فرماتے تھے مگر کبھی یہ نہ فرمایا کہ تم لوگ یہ کیسے ناشا ئستہ اور خلاف طبعِ سلیم حرکات کر تے ہو ۔
(۵) ۔ صحابہؓ با وجود یکہ نہایت مؤ دب ومہذب تھے مگر روزانہ وضو کے پانی اور تھوک وغیرہ پر اس قدر بھیڑ بھاڑ اور گھس پیٹ حضرت کے روبرو کرتے کہ دیکھنے والے سمجھتے تھے کہ قریب ہے کہ آپس میں جنگ و جدال ہو جائے اور حضرت ان کو منع نہ فرما تے اس کی وجہ بادی الرائے میں کبھی سمجھ میں نہ آئے گئی ۔اسلئے کہ حضرت ہر قسم کے ہمیشہ آداب کی تعلیم فرماتے تھے اور صحابہ اسی تعلیم کے اثر سے مؤدب تھے کہ دنیا میں ان کا نظیر نہیں ۔
بخاری شریف وغیرہ میں ہے کہ صحابہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بیٹھتے توایسے سرجھکا ئے ہوئے بیٹھتے تھے جیسے کسی کے سرپر ندہ بیٹھا ہے واروہ شخص اس خیال سے کہ کہیں وہ اڑنہ جائے سر جھکا ئے ہوئے بیٹھتا ہے ۔ او رکوئی شخص حضرت کے چہرۂ مبارک کو آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ ایسے مؤدب حضرات کے وہ خلاف شان او رگستا خانہ حرکات قابل تعجب ہیں اور اس پر سکوت اوررضا مندی حضرت کی اس سے زیادہ حیرت انگیز معلو م ہوتی ہے مگر بات یہ ہے کہ صحابہ کے پیش نظر اس وقت یہ امر ہوتا تھا کہ اس پانی سے جو جسم مبارک تک پہنچ کر سراپا برکت ہوگیا تھا برکت حاصل کریں ۔ اور وہ فضلات جس کو حضرت کے جسم مبارک سے متصل ہونے کی فضیلت حاصل ہوگئی تھی اپنے چہروں پرمل کر دارین میں سرخ روئی حاصل کریں اور ان اشیائے فاضلہ استعمال کی بدولت اپنے جسم میں یہ صلاحیت پیداہوکہ روح پر جوجسم سے متصل یا متعلق ہے اثر ڈالے اور اس کی ترقی کا باعث بنے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود اصلی یہی تھا کہ اہل ایمان کو ترقی روحانی حاصل ہو اس لئے آپ اس ظاہری بے ادبی کو نظر انداز فرما دیتے تھے اور یہ سکوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو جرأت دلا تا تھا کہ دل کھو ل کر یہ کام کیا جا ئے ورنہ کس کی مجال تھی کہ حضور نبوی میں ایسے بے ادبانہ حرکات کر سکتا ۔غرضکہ وہ فضلات بلا شبہ با عث ترقی روحانی سمجھے جا تے تھے۔اب اہل انصاف غور فرمائیں کہ صحابہ ان فضلات کو اپنے سے افضل بلکہ باعث حصولِ فضیلت سمجھتے تھے اور صحابہ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو لا کر دیکھ لیا جائے کہ عقلاً وشرعاً وہ ہم سے افضل تھے یا نہیں ؟ اس کے بعد خودفیصلہ ہوجا ئے گا کہ ہم توکیا ہم سے افضل لوگوں سے وہ فضلات افضل تھے اب جولوگ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کے ساتھ ہمسر ی کادعویٰـ رکھتے ہیں ان روایتوں کو پیش نظر رکھیں تو سمجھ جائیں گے کہ حضرتؐ توکہاں حضرتؐ کا بول و براز بھی ہم سے بد رجہاں فضل تھا ۔
{استبراک موئے مبارک }
(۲) موئے مبارک کا حال حدیث موصوف سے معلوم ہوگیا کہ روزانہ جو وضو کے وقت گر تے وہ دست بدست تقسیم ہوجا تے تھے ۔
مسلم شریف میں روایت ہے کہ انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم اصلاح بنوارہے تھے اور صحابہ گرداگر د بیٹھے نوبت بنوبت اپنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر موئے مبارک کوحاصل کرتے تھے ۔
المواہب الدنیہ میں بخاری ومسلم سے منوقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں اصلاح بنوائی تو سر مبارک کے بال ایک ایک دو دو لگوں میں تقسیم کر نے کا حکم دے دیا ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
شارح زرقانی ؒ نے لکھا ہے کہ ایک ایک دو دو بال تقسیم کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حاصر ین کثرت سے تھے اوراس سے غرض یہ تھی کہ ہمیشہ ان کے پاس وہ برکت باقی رہے اور آئندہ کے لئے یاد گار ہو ۔
{کثرت موئے مبارک }
ان احا دیث سے ثابت ہے کہ صحابہ موئے مبارک اس غرض سے حاصل کیا کرتے تھے کہ بطور تبرک ا ن کو اپنے پاس رکھیں اور اپنے احباب میں تقسیم کریں وہ تبرکات کچھ تو اپنے ورثہ میں تقسیم کئے اورکچھ انہوں نے اپنے احباب کو دئے ہونگے اور خو دصحابہ جب ان کی قدر کر تے تھے تووہ جن کے پا س گئے وہاںبھی بطور تبرکات رکھے جا تے تھے جیسا کہ اب تک با وجود تیرا سو سال منقضی ہونے کے تبرکات ہی کے حیثیت سے رکھے جا تے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اس موقع میں جہاں اس تعظیم وتوقیر کا منشاء قائم ہو رہا تھا حضرت کا سکوت فرمانا اسی غرض سے تھا کہ اہل اسلام دل کھول کر ان تبرکات سے برکت حاصل کیا کریں اور بڑی غرض اس سے یہ بھی معلوم ہو تی ہے کہ جو عشاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیدار جہاںآراسے محروم ہیں وہ اس متبرک جزو کو سراور آنکھوں پر رکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں اور سرفراز ہوں ۔
اب رہی یہ بات کہ بعض جعل سازوں نے بھی بغرض دنیوی کا رساز یاں کی ہونگی جس سے ہر ایک میں اشتباہ واقع ہوگیا تو وہ اصل مقصود کے منافی نہیں اسلئے کہ تعظیم کرنے والا موئے مبارک سمجھتا ہے اس کے اعتقاد کے مطابق خدا ئے تعالیٰ اس کو برکت عطا فرما ئے گا جیسا کہ اس حدیث شریف سے بھی واضع ہوسکتا ہے ۔انما الاعمال بالنیات ۔
کنز العمال کے کتاب المواعظ واحکم میں یہ حدیث شریف ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے کسی کو فضیلت کی کوئی بات پہنچے اور اس کو ایمان کی راہ سے قبول کر لیا اور ا س میں ثواب کی امید رکھی تو حق تعالیٰ ا سکو وہی ثواب عطا فر ما ئے گا جو اس کو معلوم ہو ہے ۔اگر چے کہ وہ خلاف واقع ہو ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
مقصود یہ کہ کسی روایت سے یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں کام میں فضیلت سے گو اس کا ثبوت با ضابطہ نہ ہوا ہو مگرعمل کرنے والا اعتقاد سے اس پر عمل کرلے توہوی ثواب پا ئے گا جو اس میں مذکورہے اس سے معلوم ہو ا کہ اگر کسی بزرگ کے پاس موئے مبارک کی زیارت ہوتی اور ا نہوںنے کہہ دیا کہ یہ موئے مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے تو اگر فی الواقع وہ حضرت ؐ کاموئے مبارک نہ بھی ہو تو جو برکت اصلی موئے مبارک کی زیارت میں حاصل ہونے والی ہو وہی برکت اس موئے مبارک کی زیارت میں بھی حاصل ہوگی ۔ یہ خدا ئے تعالیٰ کا ایک فضل ہے جو بطفیل حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت پر واہی تباہی شبہات کی وجہ سے ایسی فضیلت سے محروم رہنا مقتضائے عقل نہیں شیطان آدمی کا دشمن ہے وہ ہر گز نہیں چاہتا کہ کوئی فضیلت اور برکت کسی کو حاصل ہو ۔ اس وجہ سے وہ ایسے شبہات پیش کر تا ہے جس کو عقل بھی مان لیتی ہے مگر ایمان کا مستحکم ہوتو دونوں کو جواب دے کر آدمی سعادت دارین حاصل کر سکتا ہے ۔جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ دنیامیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزار ہا بلکہ لکھو کھا موئے مبارک موجود ہیں تواب یہ خیال کرنے کی ضرورت ہی کیا کہ وہ کسی اور کا بال ہے ۔اگر صرف سو پچاش بال کا وجود احادیث سے ثابت ہو تا تو یہ کہنے کی گنجائش ہوئی کہ ہزار ہا موئے مبارک کہاں سے آگئے ۔جس کی زیارتیں ہورہی ہیں۔میری دانست میں اس وقت موئے مبارک کی اس قدر کثرت نہیں جس قدر صحابہ کے زمانہ میں احا دیث سے معلو ہوتی ہے۔ بہر حال موئے مبارک کی زیارت نہ کر کے اس برکت سے محروم رہنا جو صحابہ کے مدنطر تھی قرین مصلحت نہیں بعض حضرات اس کو پر ستش قرار دے کر لوگوں کو زیارت سے روکتے ہیں اگر ایسے امور پر ستش قرار دئے جائیں تو ہندوئوں کا قول صادق آجائے گا کہ مسلمان بھی مثل دیول کے کعبے کے اطراف پھر تے ہیں اور اس کی پرستش کیا کرتے ہیں مگر ہندوئوں کے قول سے ہم ان امور کو ہرگز نہیں چھوڑسکتے جو بہ تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ثابت ہوئے اور صحابہ ان پر عامل رہے ہیں ۔
{استبراک موئے مبارک }
تا ریخ و اقدی وغیرہ میں مروی ہے کہ جب شام میں خالد بن الولید رضی اللہ عنہ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ایک روز تھوڑی فوج کے ساتھ مقابل ہوئے او رردمیوں کے بڑے افسرے کو مارلیا اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عرب متنصرہ کو یک بار گی حملہ کر نے کا حکم دیا صحابہ کی حالت نہایت نازک ہوگئی رافع ابن عمر طانی نے خالد ؓ سے کہا آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی خالد ؓ نے کہا سچ کہتے ہوں ا س کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اپنی ٹوپی بھول آیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کلے موئے مبارک ہیں ۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبید ۃ بن اسحراح ؓ کو جو افسر فوج تھے خواب میں زجر فرما یا کہ تم اس وقت سوتے پڑے ہو اٹھو او رفوراً خالد بن الولید کی مددکو پہنچو کفارنے ان کو گھیر لیا ہے۔اگر تم اس وقت جائو گے تووقت پر پہنچ جا ئو گے ۔ ابوعبیدہ ؓ اسی وقت لشکر میں پکار دئے کہ جلد تیار ہو جائو چنانچہ وہا ںسے وہ مع فوج روانہ ہوئے راستے میں دیکھا کہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوارگھوڑا دوڑاتے ہوئے چلا جا رہا ہے اسی طرح کہ کوئی اس کوپہنچ نہیں سکتا انہوں نے خیال کیا کہ شاید کوئی فرشتہ ہے جو مدد کے لئے جا رہا ہے مگر احتیا طاً چند تیز رفتا ر سواروں کو حکم کیا اس سوار کا حال دریافت کریں جب قریب پہنچے تو پکار کر کہا کہ اے جواں مرد توقف کریہ سنتے ہی وہ ٹھر گیا دیکھا تو خالد بن الولیدؓ کی بی بی تھیں ان سے حال دریافت کیا کہا کہ اے امیرجب رات میں میںنے سنا کہ آپ نے نہایت بے تا بی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن الولید کو دشمن نے گھیر لیا تو میں نے خیال کیا وہ ناکام کبھی نہ ہونگے کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں مگر جب ادھر ادھر دیکھا تو ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جس میں موئے مبارک تھے ۔ نہایت افسوس سے میںنے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کسی طرح اس کو ان تک پہنچادوں ۔ ابو عبیدہ نے فرمایا جلدی سے جائو خدا تمہیں برکت دے ۔ چناچنہ انہو ںنے گھوڑے کو ایڑکیا اور آگے بڑھ گئیں ۔رافع بن عمر جو خالد ؓ کے ساتھ تھے وہ کہتے ہیں کہ ہماری جب یہ حالت ہوئی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے یکبار گی تہلیل و تکبیر کی آوازآئی خالد ؓ دیکھ رہے تھے کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ یکبار گی روم کے سوروں پر نظر پڑی کہ بد حواس بھا گے چلے آرہے ہیں اور ایک سوار ان کا پیچھا کئے ہوئے ہے خالد ؓ گھوڑے ادوڑکر اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ اے جو ان مرد سوار تو کون ہے ۔ انہوںنے جواب دیا کہ میں تمہاری بی بی ام تمیم ہوں تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں جس سے دشمن پر فتح پایا کرتے ہو تم نے اس کو اسی وجہ سے بھولا تھا کہ یہ مصیبت تم پر آنے والی تھی ۔الغرض وہ ٹوپی انہو ںنے ان کودی اس سے برق خاطف کی طرح نورنمایاں ہوا ۔
راوی حدیث کہتے ہیں کہ خالد ؓ نے جب ٹوپی پہن کر کفار پر سر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پیر اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کی فتح ہوگئی ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
صحابہؓموئے مبارک میں جو برکت سمجھتے تھے سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا چیز ہے حسی ہے یا معنوی اور بالوں کے اندر رہتی ہے یا سطح با لائی پر کتنی ہی موشگافیاں کیا کیجئے اس کا سمجھنا مشکل تھا ۔ اس روایت سے سب مشکلات حل ہوگئے ۔ او رمعلوم ہوگیا کہ مشکل سے مشکل کاموں میں آسانی اور جان گزا واقعات میں امداد غیبی اس برکت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے ۔
شمس التواریخ میں لکھا ہے کہ حضرت خالدؓ کا بیان ہے کہ میرے سارے فتوحات کے باعث یہی موئے مبارک ہوتے تھے ۔
صاحب اصابہ فی احوال الصحابہ تحریر فرماتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں یہ ٹوپی سرپر نہ تھی جب تک نہیں ملی حضرت خالد رضی اللہ عنہ نہایت الجھن میں رہے ملنے کے بعد اطمینان ہوا ۔ اس وقت آپ نے یہ ماجر ابیان فرمایاکہ کل فتوحات کا مدار ان موئے مبارک پر تھا ۔انتہیٰ ۔
غرضکہ یہ تبرکات وہ ہیں جو بڑی جاں فشانیوں سے صحابہ ؓ نے حاصل کئے اور اس کی حفاظت کی ۔صحابہ ؓ ایسے لوگ نہ تھے کہ فضول کام میں وہ اہتمام کرتے کہ دینی ضروریات سے بھی زیادہ ہو کیونکہ اس کے حاصل کرنے میں نوبت بجدال وقتال پہونچنے کو ہوتی جسیا کہ لفظ حدیث کا دوا یقتلون سے ظاہر ہے بخلاف اس کے اور کسی دوسرے کام میں یہاں تک نوبت نہیں پہنچتی تھی۔ دیکھئے صف اول کی فضیلت ثابت ہے مگر جب یہاں تک نوبت پہنچتی تو صاف ارشاد ہوگیا کہ صف ثانی میں بھی وہی فضیلت ہے اور اس جھگڑے کو یوں طے فرمایا دیا ۔ بخلاف اس کے یہ حالت روانہ ملا حظہ فرما تے اور خاموش رہ جا تے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس اہتمام کو برا نہیں سمجھتے تھے کیونکہ حضرت جانتے تھے کہ وہ برکات ان کے دارین صلاح و فلاح کے باعث ہیں ایسی چیز سے ان کوروکنا گویا ان کو سخت ضرر پہنچا نا ہے او رمقتضائے رحمت نبوی یہ تھا کہ اپنے جان نثاروں کو کسی قسم کا ضرر پہنچا ئیں اہل انصاف غور فرما سکتے ہیں کہ صحابہ کاہم پر کیسا احسان ہے کہ کس مصیبت سے انہوں نے وہ تبرکات حاصل کئے اور ان کی حفاظت نسلاً بعد نسلٍ کر کے ہم تک پہچایا مگر افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں ان کی کچھ قدر نہ ہوئی کیونکہ باپ دادا کی کمائی کی آدمی کو وہ قدر نہیں ہوتی جو اپنی کمائی کی ہوتی ہے ۔
تاریخ واقدی میں لکھا ہے کہ جنگ پر موک میں ایک روز خالد ابن ولید ؓاپنی شجاعت بیان کر تے ہوئے لشکر کفار کی طرف بڑھے ادھرسے ایک پہلوان نکلا جس کانام نسطور تھا اور دونوں کا دیر تک سخت مقابلہ ہورہا تھا کہ خالد ؓ کا گھوڑاٹھوکر کہا کر گرا اور خالد اس کے سر پر آگئے اور ٹوپی زمین پر گرگئی نسطور موقع پاکر آپ کی پیٹھ پر آگیا اس حالت میں خالدؓ نے پکاکر اپنے رفقا ء سے کہا کہ میری ٹوپی مجھے دو خدا تم پر رحم کرے ۔ ایک شخص آپ کو قوم بنی مخزوم سے تھا دوڑ کر ٹوپی مجھے دے دیا آپ نے اسے پہن کر باند ھ لیا اور نسطور پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیا ۔ لوگوں نے اس واقع کے بعد پوچھا کہ یہ آپ نے کیسی حرکت کی کہ دشمن قوی پیٹھ پرآپہنچا اور کوئی حالت منتظرہ باقی رہی اس وقت آپ اپنی ٹوپی کی فکرمیں تھے جوشاید دو چار آنے کی ہوگی آپ نے کہا وہ معمولی ٹوپی نہیں تھی اس میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے ۔
اب غور کیجئے کہ اس ٹوپی کا خیال اس وقت کہ جب دشمن کے پورے قابو میں ہیں کس غرض سے ہوگا لوگوں کو جو تعجب تھا کہ ایسی کیا قیمت اسکی ہوگی جو ایسی حالت میں اس کا خیال آیا وہ پہلے ہی آپ نے دفع فرمایا کہ کوئی قیمتی چیز نہ تھی لیکن اس میں موئے مبارک تھے ۔غرض کہ اس وقت توجہ موئے مبارک کی طرف تھی او ر اس کی طرف توجہ کرنے کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس ٹوپی سے صرف استعانت مقصود تھی کہ دشمن پر مدد حاصل ہو ۔
اب غور کیجئے کہ ایسے جلیل القدر صحابی جن کی تعریف خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور سیف من سیوف اللہ فرما یا ان کی یہ حالت ہے کہ ایسے وقت میں کہ دشمن پورا قابو پا چکا ہے اور جانبری کی کچھ توقع نہیں اور دشمن خنجر بکف ہے موئے مبارک سے استمداد کر رہے ہیں او ریہ استمداد زبانی نہ تھی جیسا کہ شا عری میں استمدادی الفاظ کہد ئے جا تے ہیں جن میں بندش مضمون زیادہ مقصود ہوتی ہے ۔بلکہ یہ مدد طلب کر نا عملی طورپر تھا او رزبان حال پکار پکار کر کہتی تھی کہ اے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے موئے مبارک یہی وقتِ مددہے دشمن قوی سے بچا لیجئے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا بفضلہ تعالیٰ اس نازک حالت میں آپ ہی کو غلبہ ہوا اس میں شک نہیں کہ وہ خدا سے ضرور مدد مانگ رہے ہونگے مگر ظاہر انہ انہوں نے کوئی دعا کی نہ ایسے الفاظ کہے جس سے معلوم ہو کہ وہ بال کوئی قابل توجہ نہیں بلکہ برخلاف ا سکے صاف کہہ دیا کہ میرے سارے فتوحات کے باعث یہی موئے مبارک ہیں ۔اہل انصاف اگر ادنیٰ توجہ فرمائیں تو مسئلہ استعانات بالخیر جو آج کل معر کتہ الآرا بنا ہوا ہے اسی ایک واقعے سے حاصل ہوسکتا ہے ۔
جلیل القدر صحابہ کے عمل سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ موئے مبارک نہایت واجب التعظیم ہیں تواس کے مقابلے میں آخری زمانے کے مسلمان کا یہ کہنا کہ ان کی تعظیم بدعت اور بت پرستی ہے ہر گز قابل اعتبار نہیں ہوسکتا بڑی خرابی اس میں یہ ہے کہ موئے مبارک کی اس میں سخت توہین ہے کیونکہ اسے سب کے ساتھ تشبیہ دی جا رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ چیز کی توہین با عث عذاب و لعنت ہے کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت متصور ہے جو باعثِ لعنت و شقاوت ابدی ہے ۔
حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔ان الذین یؤ ذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فی الدنیا والاخرۃ ولہم عذاب عظیم۔یعنی جولوگ اللہ اور رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور ان پربڑا عذاب ہوگا ۔
اور کنز العمال میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نے میرے ایک بال کو ایذادی ا س نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذادی اس نے خدا کو ایذادی اور اس میں یہ روایت بھی ہے کہ علی کرم اللہ وجہ فرما تے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک بال ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ جس نے میرے بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے خدا کو ایذا دی اور جس نے خدا کو ایذ ا دی اس پر تمام آسمان اور زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے اور نہ اس کے نوافل قبول ہوں گے اور نہ فرائض ۔اور ایک روایت میں ہے کہ اس پرجنت حرام ہے ۔ظاہر ابال ایک ایسی چیز ہے کہ اس کو کاٹتے ہیں مگر اس کو ایذ انہیں ہوتی پھر کیا وجہ ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موئے مبارک کو ہاتھ میں لے کر اس کی ایذا کی تصریح فرمائی یوں تو آسان ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے کہ سکتے ہیں کہ وہ مجاز یا مبالغہ ہے مگر نکتہ رس طبائع کا خلجان ایسی تو جیہات سے دفع نہیں ہوسکتا ۔میری دانست میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد خاص حقیقت شناسوں کے لحاظ سے فرمایا جو صحابہ تھے کیونکہ فیضان صحبت سے وہ سب حضرات حقیقت شناس ہوگئے تھے وہ جانتے تھے کہ عالم میں ہر چیز زندہ اور ذمی فہم ہے کیونکہ حق تعالیٰ فرما تا ہے وان من شیء الا یسبح بحمد ہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم ۔یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو خدا ئے تعالیٰ کی تسبیح نہیں کرتی لیکن ان کی تسبیح کو تم نہیں سمجھتے ۔ یہ ظاہر ہے کہ تسبیح اور تنزیہ کرنے والے کو جب تک اس امر کا ادراک نہ ہو کہ اس کا ایک خالق ہے اور اس کے جس قد راوصاف ہیں سب کمالات ہیں اور سب عیبوں سے وہ منزہ ہے تسبیح کرنا صادق نہیں آتا ۔اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ تمام عالم کے اشاء اچھی چیز کو اچھی اور بری چیز کو بری سمجھتے ہیں جو تنزیہ کا منشا ہے ۔اگرچہ اس آیہ شریف میں بھی یہ احتمال تھا کہ ان کاتسبیح کرنا بزبان حال ہوگا مگر چونکہ صحابہؓ کو اس امرکامشاہدہ تھا کہ جیسے انسان کے ادارک ہیں ان کے بھی ادراکات ہیں اسی وجہ سے ان کو اس آیہ شریفہ میں تا ویل کرنے کی ضرور ت نہ تھی کیونکہ ہمیشہ وہ دیکھا کر تے تھے کہ درخت وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرسلام کیاکرتے تھے ۔
{سلام درخت و شجر }
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں ہے کہ علی کرم اللہ وجہ فرما تے ہیں کہ ایک بار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مکان سے نکلا دیکھا کہ حضرت کا جس درخت اور پتھر سے گذرہوتا وہ حضرت پر سلام کرتا تھا ۔ او رمجمع عام میں ستون کا رونا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی گفت وشنود اور کنکروں کا با ٓواز بلند کلمہ شہادت پڑھنا وغیرہ صدہا امور جوخصائص کبریٰ وغیرہ کتب حدیث مذکورہ ہیں ہمیشہ پیش نظر تھے غرضکہ کثرتِ مشاہدات سے ان کو جمادات وغیرہ کے ادراکات میں ذرا بھی شک نہ تھا اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موئے مبارک کو ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ میرے بال کو جو ایذ ادے اس کو یہ سزائیں ہیں اور انہوں نے یقین کر لیا کہ بے شک موئے مبارک کو بعض امور سے اذیت ہوا کرتی ہے اس لئے انہو ںنے اس کی تعظیم و توقیر کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس کے روبرو مئو دب ہو جا تے اور اس کی نہایت تعظیم و توقیر کر تے بہر حال جب موئے مبارک کی نسبت کسی قسم کی گستا خی کی جائے توان کو اس سے اذیت ہوتی ہے اب رہی یہ بات کہ ان کو کان توہیں بھی نہیں پھر سننے کی کیاصورت تو اہل ایمان کے نزدیک یہ اعتراض قابل توجہ نہیں اس لئے کہ سماعت کو کان سے کوئی ذاتی تعلق نہیں بلکہ عطائی تعلق ہے چنانچہ ہم نے مقاصد الاسلام کے کسی حصہ میں ا س سے متعلق بحث کی ہے کہ خدا ئے تعالیٰ جس طرح کان سے سماعت کو متعلق فرمایا جس چیز سے چاہے متعلق فرما دے سکتا ہے مشکوۃ شریف کے باب الاذان میں یہ روایت ہے جو کتب صحاح سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب موذن اذان کہتا ہے توجہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک کل اشیاء خواہ وہ خشک ہوں یا تر سب قیامت میں اس کے حق میں گواہی دینگے کہ اس شخص نے اذان کہی تھی ۔دیکھئے درخت پتھر ڈھیلے وغیرہ اگر مؤذن کی آواز سنتے نہ ہو ںتو گواہی دینے کی صورت اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ ان کو اس کا علم و ادراک بھی ہے ۔
کنزالعمال کی کتاب الحج میں ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ سے یہ حدیث منقول ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوشخص تلبیہ کہتا ہے یعنی لبیک اللہم لبیک انح تو جتنے پتھر ڈھیلے اور درخت اس کے داہنے اور بائیں بازو ہیں سب تلبیہ کہتے ہیں اس سے سماعت ان شیاء کی ثابت ہے ۔
اسکے سوا کثرت سے احا دیث موجود ہیں جن سے ثابت ہے کہ سوائے انسان اور حیوانات کے نباتات اور جمادات بھی سنتے اور سمجھتے ہیں غرضکہ موئے مبارک کا سننا اور ان کے علمی ادراکات ثابت ہیں تو توہین سے ان کو ضرور اذیت ہو تی ہوگی اور یہ ایذ ار سانی ان سزائوں کا باعث ہوتی ہے جس کی تصریح حضرتؐ نے فرمادی جو ابھی مذکو ر ہوئیں۔
{سماع اشجار و جمادات }
کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں یہ حدیث ہے کہ السیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو جارہے تھے ایک مقام میں مجھ سے فرمایا کہ دیکھو کوئی جگہ ایسی ہے جہاں حاجت بشری سے فراغت حاصل کی جائے وہ کہتے ہیں کہ میں بہت دور نکل گیا مگر جدھر دیکھا آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے کوئی جگہ ایسی نہیں دیکھی جہاں تخلیہ ہو سکے جب میں نے یہ حال عرض کیا فرمایا کہ کہیں کھجور کے چھوٹے چھوٹے درخت بھی نطر آتے ہیں جن کے بازو میں پتھر وں کا ڈھیر ہو میں نے عرض کیا جی ہاں یہ تو دیکھا ہے فرمایاجائو اور ان درختوں سے کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو حکم کر تے ہیں کہ ایک دوسرے سے مل جا ئو اور یہی بات پتھر وں سے بھی کہدو۔ وہ کہتے ہیں خدا کی قسم میں نے جب درختوں کو حضرت کا حکم پہنچا یا دیکھا کہ ان کی جڑیں اور مٹی حرکت کرنے لگی اور تھوڑے عرصے میں ایسے مل گئے کہ ان میں بالکل فاصلہ نہ رہا اور جب پتھروں کو حکم پہنچا یا تو پتھروں کو دیکھا کہ ایک کے اوپر ایک چڑھنے لگے یہاں تک کہ ایک دیوار بن گئی میں نے حضرت کو اس کی خبر دی فرمایا ڈولچی میں پانی بھر لو میں نے پانی لے کر حضرت کے ساتھ ہوگیا اور اس پا ئخانے میں پانی رکھ کر میں دور ہٹ گیا حضرت جب حاجت سے فارغ ہوئے اور خیمۂ مبارک میں تشریف لائے فرمایا کہ ان درختوں او رپتھروں سے کہہ دو کہ اپنی اپنی جگہ چلے جائیں چنانچہ بمجرد حکم پہنچا نے کے ہر درخت اور پتھر اپنے اپنے مقام سابق میں آگیا۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
اس سے ظاہر ہے کہ نبا تات جمادات بات سنتے اور سمجھتے ہیں ۔ اگر کہا جا ئے کہ یہ معجزہ تھا اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ کل نبا تات و جمادات سنتے اور سمجھتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اس لحاظ سے اس کو معجزہ کہ سکتے ہیں کہ دوسرے سے یہ کام نہیں ہوسکتا مگر معجزے کی تعریف اس پرپوری طور سے صادق نہیں آتی اس لئے کہ معجزہ کی ضرورت تووہاں ہوتی ہے جہاں کفار کے ساتھ مقابلہ ہو اور برسر مقابلہ دعوے نبوت کیا جائے اور دلیل میں ایسا امر پیش کیا جائے کہ کفار میں سے کوئی وہ کام نہ کر سکے تا کہ حجت قائم ہوجائے اور یہاں ایسی کوئی بات نہ تھی حضرت کو قضائے حاجت کی ضرورت تھی اور کوئی مقام ایسا نہ تھا کہ وہاں اس سے فارغ ہوں پائخانہ تیار کرنے کے لئے پتھروں اور درختوں پر حکم صادر فرمایا کہ فوراً تیار کر دیں اور انہوں نے بطیب خاطر فرمانبرداری کی نہ وہاں کوئی کافر تھا نہ کسی کو یہ حکومت بتلانے کی ضرورت تھی مگر ایسا ہوتا تواعلان دیا جا تا کہ دیکھو ہم درختوں اورپتھروں سے یوں کلام لے تے ہیں اور وہاں کل رفقائے سفر کا جو ہزار ہا تھے اژ دہام ہو جا تا دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ امر منکشف تھا کہ تمام ذرات عالم سمجھدار ہیں اگر چہ ہر کس وناکس کی بات پروہ توجہ نہیں کرتے مگر جس کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ اس کا حکم نافذ ہے ممکن نہیں کہ اس کے حکم سے انحراف کریں اس لئے آپ نے ایک غیر معرف شخص کی زبانی حکم بھیج دیا اور اس کی تعمیل فوراً انہوں نے کر دی اس حکم رانی کو نبوت سے تعلق نہیں بلکہ اس کا منشا ء وہ ہے جو آیہ شریف میں ہے و سخرلکم مافی السموات و ما فی الارض جمیعاً الخ ۔یعنی جو چیز زمین اور آسمان میں ہے ان سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ۔ چنانچہ اولیا ء اللہ سے بھی اس قسم کے خوارق عادت صادر ہوتے ہیں اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ من کان اللہ کان اللہ لہ یعنی جو اللہ کا ہوگیااللہ اس کا ہوگیا اور من لہ المولی فلہ الکل اور اللہ جس کا ہوگیا تو تمام عالم اس کا ہے ۔شعر
توگردن زفرمانِ داور مپیچ ٭ نہ پیچندگردن زحکمِ تو ہیچ
یہ امر مشاہد ہے کہ جولوگ سلاطین کے مقرب ہو تے ہیں ان کوسب مانتے ہیں او رہر جگہ ان کی آئو بگھت ہوتی ہے پھر جس قدر تقرب زائد ہوگا اسی قد آئو بگھت زیادہ ہوگی یہ توعام بات تھی ۔
اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات پر نظر ڈالئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نور سے پیداہوئے اور تمام عالم حضرت کے نور سے پیدا ہوا او رحق تعالیٰ فرما تا ہے اگر آپ نہ ہوتے تو افلاک کو بھی پیدا نہ کرتا اور اس کے سوا بہت ساری خصوصیات ہیں جن کا حال کسی قدر ہم نے انور احمدی میں لکھا ہے ۔اب کہئے کہ کون چیز ایسی ہوسکتی ہے کہ حضرت کے حال سے واقف ہونے کے بعد سرتا بی کر سکے ؟ایسے امور کا علم صرف جن و انس کو نہیں دیا گیا اسلئے کہ یہ معرض امتحان میں ہیں عقل اور شہوت ان کو دی گئیں اور غیبی امور پراطلاع بھی دی گئی تا کہ عقل کی رہبری سے پہلی منزل طے کر لیں یعنی توحید او رنبوت کی ضرورت ثابت کر لیں بخلاف دوسری اشیاء کے کہ ان سے کوئی امتحان متعلق نہیں اس لئے ابتداہی میں ان کو ان امور کا علم دیا گیا جو الوہیت و رعبودیت سے متعلق ہے غرض کہ کل عالم کی اشیاء آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت کو تسلیم کئے ہوئے ہیں چنانچہ اس پر قرنیہ یہ روایت ہے جس کوہم نے انور احمدی میں نقل کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم میں تشریف فرماہوئے بمجرد ولادت مبارک ایک ابر نمودار ہوا اور آپ کو لے کر تمام بر و بحر میں اور خد اجانے کہاں کہاں لے گیا جس سے مقصود صاف ظاہر ہے کہ جو اشیاء اپنے مقام سے حرکت کر کے حاضر خدمت نہیں ہو سکتے تھے وہ اپنے آقا ئے نامدا کے جمال جہاں آراسے مشرف ہوجائیں اور معلوم ہو جا ئے کہ ایک زمانے سے جن کی آمد آمد کا شہرہ اور انتظار تھا وہ تشریف فرما ہو چکے۔جس سے ظاہر ہے کہ تمام ذرات عالم کو اس عالم میں ان کی تشریف فرما ئی کا حال معلوم ہوگیا تھا ۔ جب ان درختوں اور پتھروں کو یہ خبر پہنچا ئی گئی کہ بنفس نفیس وہاں تشریف فرما ہوں گے تو اس نعمت غیر متر قبہ کے حصول پر ان کی کیا حالت ہوئی ہوگی مارے خوشی کے اپنے میں پھولے نہ سماتے ہوں گے ۔ ابھی آپ نے دیکھ لیا کہ حضرت کی مفا رقت سے ستون مسجد کو کس قدر غم کا صدمہ تھا ۔اسی طرح حضرت کی وصال کی مسرت کا اثر ان پر نمایاں ہوا کہ اس مژدۂ جاں فزاکے سنتے ہی فوراً حرکت کر کے تعمیل حکم میں مشغول ہوگئے ۔ الحاصل جمادات کا ادراک اور ان کا غم وشادی ان روایات سے ثابت ہے اسی طرح ان کو ایذا پہنچنی بھی ثابت ہے چنانچہ کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں یہ روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب کوئی بندہ مسجد میں تھوکنے کا ارادہ کر تا ہے تو مسجد کے ستون مضطرب ہوجا تے ہیں اور مسجد ایسی سکڑ جا تی ہے جیسے چمڑآگ میں سکڑ تا ہے ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
یہ امر مشاہد ہے کہ کوئی مکر وہ چیز کسی پر ڈالی جائے تووہ اس سے بچنے کی غرض سے سمٹ جا تا ہے منشااس کایہ ہے کہ اس مکروہ چیز کے جسم پر لگنے سے روحانی اذیت ہوتی ہے اور اس میں ایک دوسری روایت ہے کہ ریٹ کی وجہ سے بھی مسجد کا یہی حال ہوتا ہے ۔
یہ بات ظاہر نبیوں کی سمجھ میں آنے کے قابل نہیں ہے کہ مسجد کے ستونوں کا اضطراب اور اس کا سمٹنا کیونکرہو گا الحقیقت یہ امور محسوسات سے خارج ہیں مگر ایمانی دنیا میں ان امور کا وجود گو محسوس نہ ہو مگر قابل تصدیق ہے ۔
جس طرح فلسفی دنیا میں تمام عالم کا اجزائے دیمقرا طیسیہ سے مرکب ہونا مسلم ہے اور اس قابل سمجھا گیا ہے کہ اس میں کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں حالانکہ اب تک کسی نے نہ اجزائے دیمقراطیسیہ کودیکھا نہ ان کے نظر آنے کی امید ہے نہ اس کی صلا حیت کیونکہ پتھر پانی ہوا اور روشنی انہی اجزاسے مرکب ہیں پتھر کے کتنے ہی با ریک اجزا نکالے جائیں ہر جزو پتھر کی ما ہیت میں شریک ہوگا اور پانی کے کتنے با ریک اجزاکئے جا ئیں ہر جزو پانی کا اطلاق ہوگا روشنی کا کوئی جزو ایسا نہ ہوگا کہ روشنی کی ماہیت اس میں پنائی جا ئے ۔ اجزائے دیمقراطیسیہ تو ایسے سخت ہیں ٹوٹ پھوٹ نہیں سکتے چاہئے کہ ان کے مجموعے میں بھی یہی بات ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہوا کو ہا وند میں کوٹیں تو ذرا بھی سختی نہیں معلوم ہوتی حالانکہ کروڑ ہا سخت اجزاء اس میں موجود رہتے ہیں جب فلسفی دنیامیں ان غیر محسوس اجزاء کو بغیر اس کے کہ کوئی قرینہ ان کے وجود پرقائم ہو مان لیا گیا تو ایمانی دنیا میں جمادات کی غیر محسوس حرکت مان لینے میں کون چیز مانع ہے فرق ہے تواسی قدر ہے کہ وہا ں فلا سفہ کا قول ہے اور یہاں خداورسول کااگر اہم اسلام فلاسفہ کے قول کے برابر بھی خدا و رسول کے قول کی وقعت نہ کریں تو پھر دعوے اسلام سے فائدہ ہی کیا ۔ شعر
آں کس کہ زقرآن و خبر زدنرہی ٭ آنست جوابش کہ جوابش مذہی
ان تمام روایات اور پھر دوسری روایات سے ثابت ہے کہ جمادات اور نباتات کو ادراک ہے اور ان کو اذیت بھی ہو ا کرتی ہے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذادی خدائے تعالیٰ کو ایذادی ۔
{شفاء از موئے مبارک }
مشکوۃ شریف کے باب الطب و الرقیٰ میں بخاری شریف سے ایک روایت منقول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میری زوجہ نے مجھ کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالہ پانی دے کر بھیجا اور ان کی عادت تھی کہ جب کسی کو نظر لگتی یا کوئی مرض ہوتا تو ایک بڑے برتن میں پانی دے کر حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس بھیج دیتے کیونکہ ان کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک ایک چاندی کی نلی میں رکھا ہوا تھا وقتِ ضرورت اس کو نکال کر پانی میں ہلا دے تے اور مریض وہ پانی پی لے تا ۔انتہیٰ ۔
بخاری شریف کی روایت سے بھی ثابت ہوگیا کہ صحابہ موئے مبارک تبرکاً اپنے مکان میں رکھتے اور عموماً لوگ اسے اس کی برکت حاصل کر تے اور امراض سے شفاء پا تے تھے ۔
خصائص کبریٰ میں سنان بن طلق یمانی سے روایت ہے کہ وہ وفدِ نبی حنفیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت سرمبارک دھو رہے تھے فرمایا تم بھی اپنا سردھو لو ۔چنانچہ حضرت کے بچے ہوئے پانی سے میں نے اپنا سر دھویا اور اسلام لایا ۔ پھر حضرت نے مجھے کچھ لکھ دیا ۔ جا تے وقت میںنے عرض کی کہ قمیص مبارک کا اگر ایک ٹکڑا عنایت ہوتو میں اس سے انست حاصل کرونگا ۔حضرتؐ نے مجھے عنایت فرمایا ۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ کپڑا ان کے پاس تھا جب کوئی بیمار بغرض شفا آتا تو اسے دھو کر اس کو پانی پلا یا کرتے تھے ۔ انتہیٰ ۔
موئے مبارک کی زیارت سے ہر کس و ناکس مستفید نہیں ہوسکتا اس کے اہل وہ لوگ ہیں جن کو آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری عقیدت اور محبت ہو پھر جس قدر عقیدت ہوگی اسی قدر فوائد ہوںگے ۔
{عطائے موئے مبارک بخواب }
مولانا شاہ سید محمد عمر صاحب نے رسالہ ٔ استشفاع و التوسل میں کتاب انفاس العارفین مولفہ ٔ حصرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒ کی عبارت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میرے والد یعنی شاہ عبد الرحیم صاحب ؒ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک بار ایسا سخت بیمار ہو ا کہ زندگی کی امید نہ تھی شیخ عبد العزیز میرے خواب میں آئے اور کہاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری عیادت کے ئے تشریف لا تے ہیں شاید اس دروازہ سے تشریف لا ئیں جدھر تمہارے پائوں ہیں ۔ میں اشارہ کر کے لوگوں سے کہا کہ پلنگ کا رخ پھیر دیں چنانچہ پھیر دیا گیا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اے لڑکے تمہاراکیا حال ہے اس کلام جاں فراکا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ وجد کی سی حالت طاری ہوئی اور اتنا رودیا کہ قمیص مبارک حضرتؐ کا میرے اشکوں سے تر ہوگیا کیونکہ حضرت مجھے اپنے گود میں لئے ہوئے تشریف رکھتے تھے اس طرح پر کہ ریش مبارک میرے سر پر تھی جب وہ حالت فردہوئی تو میرے خیال میں آیا کہ ایک مدت سے مجھے موئے مبارک کی آرزو ہے اگر اس وقت عطا ہو جائے تو کیا اچھا ہوگا اس خیال کے ساتھ ہی ریش مبارک کے دوبال مجھے عطا فرمائے مجھے اس وقت یہ فکر ہو ئی کہ یہ مو ئے مبارک عالم شہادت میں بھی میرے پاس رہیں گے یا نہیں اس خیال کے ساتھ ہی ارشاد ہوا اس عالم میں بھی رہیں گے چنانچہ میں جب بیدار ہوا وہ دونوں موئے مبارک موجود تھے میں نے ان کو محفوظ رکھا اور اسی روز مجھے صحت ہوگئی ۔ شاہ صاحب فرما تے ہیں کہ والد نے آخر عمر میں جب تبرکات تقسیم فرمائے مجھے بھی اس میں سے ایک موئے مبارک عطافرما یا ۔انتہیٰ ۔
شاہ صاحب کے والد بزرگوار کس پایہ کے بزرگ ہونگے اور کس درجہ کا ان کو عشق موئے مبارک سے ہوگا کہ اس حالت میں بھی ان کو موئے مبارک کا خیال لگا ہو ا تھا جس کے طفیل میں اس دولت عظمی سے مشرف ہوئے ۔
یہاں ایک بہت بڑا معرکتہ الآر امسئلہ بھی حل ہو گیا وہ یہ کہ خواب میں فقط خیالی صورتیں نظر آتی ہیں جو جسم نہیں ہوسکتیں کیونکہ خیال کا خزانہ دماغ کا ایک حصہ ہے اس میں اجسام کو کہاں گنجائش مگر موئے مبار ک جو عطا ہوئے وہ جسم تھے ۔اور شاہ عبد الرحیم صاحب نے بچشم خود دیکطا کہ ریش مبارک سے علحدہ کر کے وہ دئے گئے جس سے ثابت ہے کہ ریش مبارک بھی خیالی نہ تھی بلکہ مجسم تھی پھر ریش مبارک کا حتی تعلق حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے تھا جس سے ظاہر ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت خیالی محسوس نہیں ہوتی بلکہ جسم مقدس کے ساتھ وہاں تشریف فرما ہوئے تھے گو دوسروں نے نہیں دیکھا جس طرح جبرئیل علیہ السلام مجلس اقدس میں بذات خودآتے تھے اور سوائے حضرتؐ کے ان کوکوئی نہیں دیکھتا تھا ۔اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس نفیس وہاں تشریف فرماہونا تسلیم نہ کیا جائے تو شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے والد بزر گوار کی تکذیب ہوتی جا تی ہے ہمارا دل تواس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی تکذیب کی جائے کیونکہ عالم نے ان کے علم و فضل اور تقدس کو مان لیا ہے اور ان کوجھوٹ کہنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ ا س واقعے سے کوئی ان کا فائدہ مقصود نہیں اب ان قرائن اور اسباب سے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بنفس نفیس مع جسم تشریف لانا ثابت کیا جا ئے تو معمولی عقلیں گو اس کو نہیں مان سکتیں مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی عقلیں اکثرغلطی کر تی ہیں جیسا کہ ہم نے کتاب العقل میں ثابت کر دیا ہے تو اب ہمارافرض ہے کہ ایمانی راہ سے عقلوں کو مجبور کر یں جس سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حدیث شریف میں جو وارد ہے من را نی فی المنام فقد رانی فان الشیطان لا یتثل بی یعنی جس نے خواب میں مجھے دیکھا وہ مجھ ہی کو دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں متمثل نہیں ہو سکتا اس حدیث پرپورا ایمان آجائے گا اور کوئی خلجان با قی نہ رہے گا ۔
{استبراک بہ لباس مبارک }
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فا طمہ ؓ جو علی کرم اللہ وجہ کی والدہ تھیں ان کومیں نے اپنی قمیص دیا تا کہ جنت کالباس ان کو پہنا یا جا ئے انتہیٰ ملحضاً ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت کے لباس میں یہ برکت تھی کہ اس عالم میں اس کا اثر ظاہر ہو حالانکہ لباس مبارک کو کوئی ذاتی تعلق حضرت سے نہ تھا پھر موئے مبارک جو جزو بدن تھا اس کے برکات کس قدرہوں گے بہر حال جب شارع علیہ السلام نے تبرک کی علت اور وجہ کی تصریح فرما دی تو اب کسی دوسرے کو کیا حق کہ اس میں کلام کر سکے ۔
{استبراک بہ مشک }
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں ابوصالح سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس مشک تھا آپ نے وصیت کی کہ اپنے کفن میں وہ لگا یا جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کو وہ لگا یا گیا تھا اس کا وہ بقیہ ہے انتہیٰ
حضرت علی کرم اللہ وجہ کے فضائل کسی پر مخفی نہیں با وجود اس کے آپ نے وہ تبرک اٹھا ر کھا کہ قبر میں اس کو اپنے ساتھ لے جائیں پھراس تبرک کی یہ کیفیت کہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک اسے لگا تھا نہ کفن مبارک کو لگنے کا اسے شرف حاصل ہوا تھا صرف اس خیال سے وہ تبرک بنا یا گیا کہ جو مشک حضرت کے لئے لا یا گیا تھا اس کا وہ بقیہ ہے اگر کہیں کفن مبارک کو تو نہیں لگا مگر ایک نسبت اس میں لگ گئی تھی توہو بھی صحیح نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اگر نسبت تھی تو اس میں جو استعمال میں آیا تھا۔البتہ نسبت ہے تواس قسم کی کہ بقیہ مشک متعمل یعنی منسوب کی طرف منسوب تھا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اتنی ہی نسبت کو تبرک بنا نے کے لئے کافی سمجھا آپ خلفا ئے راشدین سے ہیں جن کے ارشادپر عمل کرنا اہل ایمان کے لئے ضروری ہے جب آپ کو اس قسم کے تبرکات میں اس قدر اہتمام تھا تو معلوم ہوا کہ دین میں تبرکات کی کیسی وقعت ہے ایسی چیز کو جولوگ بت پرستی وغیرہ کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کس قدر ان کی زیادتی ہے خدا ئے تعالیٰ ایسے عقیدوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے ۔
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں نافع ؒ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ کی عادت تھی کہ جہاں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ان مواقع کو تلاش کر تے یہاں تک کہ ایک درخت کے نیچے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی اس درخت کی نگہداشت کر تے اوراس کو پانی دیتے تاکہ وہ سوکھ نہ جائے ۔ انتہیٰ ۔
اس سے ظاہر ہے کہ ان کاکامل اعتقاد تھا کہ ان مقامات میں ضرور برکت آگئی ہے اور تلاش کے کے ان مقامات کی زیارت کیا کرتے تھے او ریہ بھی خیال تھا کہ آئندہ نسلوں کے لئے وہ مقامات حتی الامکان باقی رکھنے کی کوشش کی جا ئے جیسا کہ درخت کوپانی دینے سے معلو م ہو تا ہے ۔
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں راویت ہے کہ ابو اسما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوا اور حضرت کے ہا تھ پر بیعت کی اور حضرت نے مجھ سے مصا فحہ فرمایا اس وقت میں نے قسم کھا ئی کہ اب میں کسی سے مصا فحہ نہ کرونگا ۔
یہ بات ظاہر ہے کہ صحابہ مصافحہ کومسنون سمجھتے تھے اور ایک دوسرے سے مصا فحہ کر تے تھے مگر ان بزرگوا نے قسم کھا ئی کہ حضرت کے مصا فحے کی دولت جب نصیب ہوگئی تو اب کسی سے مصا فحہ نہ کریں گے معلوم نہیں انہوں نے کیا سونچا تھا کیا یہ خیال کیا تھا کہ دوسرے کا ہاتھ لگ جائے توحضرت کے ہا تھ کی برکت جا تی رہے گی یا دوسرے کا ہا تھ کے اثر اس برکت کا اثر ختم ہو جا ئے گا ۔ حالانکہ عقلاً کوئی بات اس قابل نہیں معلوم ہوتی کہاس کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے ایک سنت ترک کر دی جائے اس قسم نے ان پر کیسی مصیبتیں ڈالی ہوں گی کسی سے ملاقات ہوتی ہوگی اور وہ اپنا ہاتھ کھینچ لے تے ہوں گے لوگوں میں کیسی بد نمائی ہوتی ہوگی خود ان کا دل اس کو کیونکر قبول کرتا ہوگا ۔ مگروہ حضرات اپنے ذہن کے پکے تھیوہااں نیک نامی اور بد نامی کے خیال کو کیا دخل۔ ان کے حسب حال یہ شعر ہے ۔
گرچہ بد نانیست نز وعا قلاں ٭ مانیمخو اہیم ننک و نام را
اصل یہ ہے کہ یہ سارے کرشمے عشق کے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان حضرات کو عشق تھا ہروقت ایک نئی شکل میں ظہور کر تا تھا ۔
یک قصبہ یش نیست غم عشق و ایں عجب ٭ از ہر کیکہ می شنوم نا مکر راست
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں یہ روایت ہے کہ بحیر یہ کہتی ہیں کہ میرے چچا خدا ش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ پیالہ مانگ لیا جس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کھا تے دیکھا تھا ۔ وہ پیالہ ہمارے یہاں تھا۔ عمر ؓ اکثر ہمارے یہاں آتے اور اس کو نکلواتے ہم اس میں زمزم بھر کے ان کو دیتے اور وہ پانی پی کر تھوڑا پانی اپنے چہرے اور سر پر ڈال لیتے تھے۔انتہیٰ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ با وجود یکہ اس قسم کے امو رمیں بہت کچھ احتیاط کر تے تھے مگر اس پیالہ کی برکت کے وہ بھی قائل تھے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ پیالہ کئی بار دھویا گیا اگر دست مبارک اس لگا بھی تھا تو کئی بار کے دھونے اور استعمال کرنے سے وہ اثر باقی نہیں رہ سکتا مگر ان کے اعتقاد میں یہ بات جمی ہوئی تھی کہ ایک بار دست مبارک لگ جانا ہمیشہ کی برکت کا باعث ہے ۔اور مقام متبرک پر جوپانی لگ جائے اس سے سر اور چہرہ کو مشرف کرنا باعث سر فرازی اور سر خروئی ہے اسی خیال سے عمر ؓ خداش کے گھر جا کریہ برکت حاصل کیا کر تے تھے ۔
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں یہ روایت ہے کہ ایک بار سخت امساک بار ان ہوا حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ استسقاء کے لئے عید گا ہ کی طرف روانہ ہوئے اور چادر مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ پر تھی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ چادر مبارک کو آپ نے نزولِ رحمتِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ۔ اب غور کیا جائے کہ چادر مبارک اگ راس قابل سمجھی جا تی کہ باعثِ نزول رحمت ہے تو اس موقع خاص میں خاص طورپر اس کو لے جانا فضول ہوتا پھر وہاں صحابہ کا مجمع تھا اگر وہ کوئی خلاف شرع بات ہوتی تو راست گو صحابہ صاف کر دیتے کہ یہ بدعت آپ نے کیوں ایجاد کی ۔اس سے ظاہر ہے کہ تبرکات کو باعثِ رحمتِ الٰہی سمجھنا با جماع صحابہ ثابت ہے ۔
کنز العمال کی کتاب الفضائل میںہے کہ محمد بن سیرین ؒفرما تے ہیں کہ انس ؓ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چھڑی تھی جب ان کا انتقال ہوا تووہ چھڑی ان کے کفن میں رکھ دی گئی اس طرح کہ قمیص اور جسم کے درمیان میں تھی ۔ دیکھئے انس ؓ جیسے جلیل القدر صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چھڑی جس کو دست مبارک میں رکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا اس کی عمر بھر حفاظت کی اور تبرک بنا کرکھا اور اس تبرک کو ہمراہ لے گئے ۔ ان کا اعتقاد تھا کہ اگر چہ وہ چھڑی عالم جسمانی کی ہے مگر جو برکت اس کو حاصل ہے وہ جسم ہی تک محدود نہیں بلکہ عالم روحانی میں بھی اس کی تا ثیر ہونے والی ہے اگر اس زمانے کے موحدثین سے فتوے ٰ لیا جا ئے تووہ صاف لکھ دیں گے کہ لکڑی پتھر کفن میں رکھنا بدعت ہے ۔ کل بدعۃفھاالنار ۔
مگر صحابہ ؓ ایک لکڑی سے ہانکنے واہے نہ تھے وہ ہر چیز کا مرتبہ جانتے تھے ان کو یقین کامل تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبرک جس قسم کا ہوا س کی برکت جو کچھ خیال کی جائے وہ کم ہے ۔انس ؓ ؓ کے جنازے میں کیسے کیسے کبار تا بعین شریک ہوئے ہوں گے مگر کسی نے اس فعل میں کلام نہیں کیا اور اب تک یہ روایت کتا بوں میں منقول ہوتے ہوئے ہم تک پہنچی کسی محدث نے اس فعل کو برا نہ کہا اس سے ظاہر ہے کہ سلف نے ایسے امو رکو مان لیا ہے ۔ اب مسلمانوں کو کیا ضرورت ہے کہ آخری زمانے کے ملائوں کی بات سن کر تبرکات کے برکات سے محروم رہیں ۔
{استبراک بہ آب رسیدہ }
کنزالعمال کی کتاب الشمائل میں یہ روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادافرما تے تو اہل مدینہ کے خادم ظروف میں پانی لا تے اور حضرت دست مبارک ان میں ڈبا تے ۔انتہیٰ ۔
عقل کی راہ سے تویہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ وہ پانی جس میںکوئی دواشریک نہ تھی صرف ہاتھ لگ جانے سے کسی بیمار ی کی دوا ہوسکے مگر جس میں امراض کے لئے وہ ایک مجرب نسخہ تھا کہ صبح ہوتے ہی جوق جوق طالبین شفا ئے امراض جسمانی و روحانی اس آب حیات کے لینے کو درِدولت پر حاضر ہوجا تے اور حضرتؐ بھی تکلیف گوارا فرما تے تھے خصوصاً سردی کے موسم میں صبح کے وقت پانی میں ہاتھ ڈبونا کوئی آسان بات نہیں ہے مگر شان رحمتہ اللعالمین تھی کہ کسی کو محروم نہ فرماتے اس فعل سے ثابت ہے کہ حضرت تا ثیر تبرکات کے اعتقاد کو جائز رکھتے بلکہ عملی طریقے سے اس کی ترغیب فرما تے تھے اور حق تعالیٰ بھی لوگوں کے اعتقاد بڑھانے کے لئے اس سے شفاء عنایت فرما تا تھا ۔ اب یہ خیال کرنا کہ تبرکات پر اعتقاد رکھنا بو دا اعتقاد ہے یا دیں میں اس کی کوئی اصل نہیں خلاف طریقہ ٔ ایمان ہے ۔
کنزالعمال کی کتاب الشمائل میں ہے کہ ایک فقیر اعرابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا آپ نے اس کو ایک چھوہا را عطا فرمایا اس نے کہا کہ یہ عطا ایک نبی کی ہے جب تک میں زندہ رہوں کبھی ا س کو اپنے سے جدا نہ کرونگا اور ہمیشہ اس کی برکت کا امید اور رہونگا ۔راوی کہتے ہیں کہ تھوڑے سے روز نہیں گذرے تھے کہ وہ شخص غنی ہوگیا ۔ انتہیٰ
حضرت کے روبرو اس بزرگوار کا یہ کہنا کہ وہ تبرک ہے اور اس کی برکت کا امید وار رہنا صراحتا ً اس بات پردلیل ہے کہ شریعت میں تبرک کو خاص قسم کی وقعت حاصل ہے اور اس کا حسی اثر ہونا بھی ثابت ہے مگر اعتقاد کو بھی دخل ہے کیونکہ برکت دینے والا خدائے تعالیٰ ہے جب کوئی اس کی برکت کا قائل ہی نہ ہو تو خدا ئے تعالیٰ کو کیا غرض کہ خواہ مخواہ اس کے برکات ظاہر فرمائے ۔اس لئے اس کے برکات سے وہ محروم کر دیا جا تا ہے ۔
کنزالعمال کی کتاب الشمائل میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے واسطے ایک حلہ خریدا گیا تھا مگر بعد یہ تجویز قرار پائی کہ تین سفید کپڑے لئے جائیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما اس حلے کو لے کر کہا کہ اسے میں اپنے کفن کے لئے رکھتا ہوں مگر اس کے بعد ان کی رائے بدل گئی او رکہا کہ اگر یہ حلہ خدا ئے تعالیٰ کو پسند ہوتا تو اسی کا کفن شریف ہوتا اس خیال سے اس کو بیچ کر اس کی قیمت خیرات کر دی ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
ا س سے صحابہؓ کے خیالات کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ کیسے کیسے لطیف اجتہاد کر تے تھے ۔پہلے یہ خیال متکمن ہوا کہ وہ حلہ متبرک ہو نے کے لئے اسی قدر کا فی ہے کہ کفن مبارک کے لئے خریدا گیا اپنی نسبت بھی لگا جانا غنیمت ہے گواس کا وقوع نہ ہوا ہو کیونکہ نسبت سے بڑے بڑے عقدے حل ہو جا تے ہیں جن کا بیان موجب تطویل ہے اسی کو دیکھ لیجئے کہ صحا بیت ایک نسبت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مصبا حت سے حاصل ہوئی تھی پھر اس کا کس قدر اثر ہے کہ قیامت تک وہ تمام اہل اسلام بلکہ تمام اولیاء اللہ سے ان کو مکرم و معتبر بنادی او رقیامت میں بھی ان کو وہی افتخار حاصل رہے گا جو باعث ترقی مدراج ہے ۔غرض کہ ا س نسبت نے ان کو اس کے لینے پر مجبور کیا ۔پھراس کے بعد غور کیا کہ وہ حلہ کفن مبارک کے لئے خریدا تو گیا تھا مگر اس برکت کواس نے حاصل نہ کر سکا اگر اس میں صلاحیت ہوتی توضرور جسم اقدس سے تقرب کا غراز حاصل کرتا اور محروم و مردو نہ ہوتا ایسی مردود چیز اس قابل نہیں کہ اس سے برکت حاصل ہوسکے ۔غرض کہ یہ خیال متمکن ہوا کہ جو چیز بارگاہ احمدی سے مردود ہووہ کسی کا م کی نہیں ۔ حق تعالیٰ ہم مسلمانوں کو ایسے خیالات سے بچائے جو کہ بارگا ہ نبوی سے مردود بنا دیتے ہیں ۔
کنزالعمال کی کتاب الصلوۃ میں ہے کہ ابو مخدورہ کہتے ہیںکہ جب آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم حنین کو تشریف لے جا رہے تھے ہم دس شخص جوان جوان بھی ہمراہ گئے ایک مقام میں موذن اذان کہا ہم لوگ تمسخر کی راہ سے موذن کی طرح پکارنے لگے تو حضرتؐ نے ہماری آواز سن کر ہمیں بلوایا اور دریافت فرمایا کہ جس کی آواز میں نے سنی وہ تم میں کون ہے چونکہ میںبلند آوازتھا سب نے مجھے بتلا دیا حضرتؐ نے سب کو چھوڑدے کر مجھ سے فرمایا کہ اٹھو اذان کہو ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا سہی لیکن اس وقت میری یہ حالت تھی کہ دنیا میں حضرتؐ سے زیادہ کوئی مکروہ اور اذان سے زیادہ کوئی چیز بری میرے خیال میں نہ تھی ۔ حضرتؐ ایک ایک کلمہ اذان کا مجھے سکھلا تے اور میںکہتا جا تا تھا اس کے بعد مجھے ایک تھیلی عنایت فرمائی جس میں تھوڑی چاندی تھی اور دستِ مبارک میرے سر اور منہ اور جگر پر پھیرا اور دعا دی اس کے ساتھ ہی جتنی کدورت اور کراہت میرے دل میں تھی وہ محبت سے مبدل ہوگئی او رخود میں نے خواہش کی کہ یا رسول اللہ مجھے حکم دیجئے کہ میں مکہ میں اذان کہا کروں ۔ حضرتؐ نے قبول فرمایا چنانچہ وہاں کے موذن قرار پائے ۔
راوی کہتے ہیں کہ وہ سرے کے اگلے حصے کے بال جن پر دست مبارک پہنچا تھا نہ ان کو کبھی کٹوایا اور نہ ان میں مانگ نکالی۔یہ دست مبارک کی تا ثیر تھی کہ ادھر کا فر کے سینے پردست مبارک پہنچا ادھر تمام کفر و نفاق کی کثا فتیں محو ہوگئیں اور دل آئینے کی طرح نور ایمان سے چمکنے لگا ۔ صحابہ اسی اثر کے دل اداہ تھے وہ جانتے تھے کہ جس چیز کو دست مبارک یا جسم شریف لگ گیا ا س میں برکت صرور آگئی پھر کوئی اس برکت کو اپنے ساتھ قبر میں لے جا تا او رکوئی مسلمانوں کی خیر خواہی کے لحاظ سے اس عالم میں چھوڑ جا تا اگر ابو مخدورہ وہ متبرک بال کٹواتے تو دست بدست تقسیم ہو جا تے اور وہ متبرک ان کے پاس نہ رہتا اس لئے انہوں نے کٹوانا تو درکنار مانگ بھی کبھی نہ نکالی کہ کہیں اس حالت میں جو دستِ مبارک کے لگنے کے وقت تھی فرق نہ آئے ۔سبحان اللہ کیا احتیاط تھی اور کیسی عقیدت جس کے سننے سے عقل حیران ہوتی ہے ۔
حق تعالیٰ فرما تا ہے وقال لہم نبیہم ان آیۃ ملکہ ان یأ تیکم التابو ت فیہ سکینۃ من ربکم وبقیہ مما ترک ال موسی و ال ہرون تحملہ الملئکتہ ان فی ذالک لا یۃ لکم ان کنتم مو منین ۔ترجمہ ان کے نبی نے ان سے کہا کہ طالوت کی بادشاہی کی یہ نشانی ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین او رکچھ بچی ہوئی چنیریں ہیں کہ جن کوموسی اور ہارون چھوڑ گئے ہیں۔ اس کو فرشتے اٹھا لا ئیں گے ۔بے شک اس میں تو تمہارے لئے پوری نشانی ہے ۔اگر تم ایماندار ہو ۔
تفسیر ابن جریر اور درمنثور وغیرہ میں ہے کہ تا بوت سکینہ میں موسی علیہ السلام کے ہاتھ کی لکڑی اور کچھ کپڑے اور نعلین اورہارون علیہ السلام کے ہاتھ کی لکڑی او رعمامہ اور الواح کے چند ٹکڑے تھے ۔ انتہیٰ ۔
یہی تبرکات تھے جس کی وجہ سے طا لوت کی فتح ہوئی ۔کیونکہ روایات سے ثابت ہے کہ طالوت کے ساتھ بہت کم لوگ تھے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی اس طرف اشا رہ ہے ۔ کم من قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ با ذن اللہ ۔
تفسیر ابن جریر و کبیر میں ہے کہ تا بوت سکینہ قدیم سے معزز و متبرک سمجھا جا تا تھا اور لڑائیوں میں اس سے مددہوتی تھی جب بنی اسرائیل کی حالت خراب ہوئی کفار عمالقہ ان پر غالب ہوئے اور تا بوت سکینہ لے گئے اور اس سے بے ادبی کر تے تھے۔چنانچہ مزبلہ میں اسے ڈال دیا تھا ۔ مگر جوشخص اس پر بول براز کرتا بواسیر میں مبتلا ہو جا تا ۔
تفسیر ابن جریر میںلکھا ہے کہ جب اس قوم میں بیماری پھیلی اس وقت کے بنی نے اسے کہا کہ اگر تم عافیت چاہتے ہو تو اس صندوق کو اپنے یہاں سے نکالو انہوں نے کہا اس کی کیا نشانی ہے ۔کہا کہ تم دو بیل ایسے لائو کہ نہایت شریر ہوں او ر کبھی جو تے نہ گئے ہوں ۔ اگر وہ اس صندوق کو دیکھ کر گردن جھکا دیں تو تم اس کو ایک گا ڑی پر رکھ کر ان کو جوت کر چھوڑ دو ۔ جدھر چاہیں وہ چلے جائیں ۔ لوگ راضی ہوئے اور ایسا ہی کیا ۔ وہ بیل سیدھے بیت المقدس پہنچے اور وہاں رسیاں تڑا کر بھا گ گئے ۔ دائودعلیہ السلام نے جب تا بوت کو دیکھا نہایت خوشی سے نا چتے ہوئے اس کی طرف گئے ۔ ان کی بیوی نے کہا تم نے کیسی حرکت کی ۔لوگ کیا کہیں گے آپ نے فرمایا تو مجھے میرے رب کی طاعت سے روکنا چاہتی ہے میںتجھے اب اپنے نکاح میں رکھنا نہیں چہاتا ۔چنانچہ اس کو طلاق دے دی ۔انتہیٰ ۔
یہی طریقہ رقص بزرگان دین میں بھی جاری ہے کہ سماع کے وقت جب آثار فیضان پا تے ہیں تو مارے خوشی کے ناچنے لگتے ہیں ۔اگر ان کی حالت صحیح اور تصنع سے خالی ہے تووہ رقص دائود علیہ السلام کے رقص کے جیسا ہوگا ورنہ نقالی ہے جسے دین سے کوئی تعلق نہیں ۔آپ نے دیکھ لیا کہ تا بوت سکینہ جس کی وہ عظمت تھی اور من جانب اللہ اس سے وہ آثار صادر ہو تے تھے کہ لوگ خود اس کی عظمت کریں ۔ اس میں کیا تھا وہی موسی اور ہارون علیہ السلام کے نعلین ولبراس وغیرہ تھے دیکھنے کہ یہ چیزیں معمولی ہیں ۔ مگرجب ان کو ان حضرات کے ساتھ نسبت لگ گئی تو خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہ اشیاء با وقعت ہوگئیں اس لئے اس کی توہین کر نے والے مردور بے دین ٹھیرے ۔اور تعظیم کرنے والے دین دار اور کامیاب ہوئے ۔
اب ذرا عور کیا جائے کہ موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے جوتے وغیرہ تبرکات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک وغیرہ سے کیانسبت ۔خود موسی علیہ السلام کو آزادتھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہو ں جیسا کہ احادیث سے ثا بت ہے اگر وہ آرزو پوری ہوتی توحضـرت کے تبرکات کی خود وہ اس قدرتعظیم کر تے اور با وقعت سمجھتے جیسے ان کی امت ان کے تبرکات کی تعظیم کرتی اور باوقعت سمجھتی تھی ۔ پھرجب ان کے تبرکات کو خدائے تعالیٰ نے وہ وقعت دی کہ جس کا ذکر قرآن شریف میں اس تصریح سے فرمایا کہ بقیہ مما ترک ال موسی وال ھرون تحملہ الملئکۃ ان فی ذالکل الایۃ لکم ان کنتم مو منین یعنی ان تبرکات کو فرشتے اٹھا تے تھے تواب کہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات کس درجہ خدائے تعالی کے نزدیک قابل وقعت ہوں گے ۔اگر ایسے تبرکات کی بے وقعتی کی جائے توکیا تجعب کہ عمالقہ کا بے وقعتی کرنے سے جو حال ہوا تھا وہی حال ان کا بھی ہو۔
صحابہ جب قرآن شریف میں روزانہ یہ مضامین پڑھتے ہونگے اور یہ روایات ایک دوسرے سے سنتے ہوں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنے میں کس قدر ان کے حوصلے بڑھتے ہوں گے خصوصاً جب خود حضرت ان کو تبرکات عطا فرما تے تھے او ر اس کے آثار بھی نمایاں ہو تے تھے توکہئے کہ کون چیز ان کو تبرکات کی تعظیم و توقیر اور ان کے برکات حاصل کرنے سے مانع ہوتی ہوگی منع کرنے والوں کا اثر تو اس آخری زمانے کے جاہل مسلمانوں پر پڑتا ہے کہ جب ان سے کہا جا تا ہے کہ وہ بدعت بلکہ ایک قسم کی بت پرستی ہے تو بیچارے ڈر جا تے ہیں ۔ اگر اسلامی دنیا کو دیکھتے اور اسر ار شریعت پر واقف ہوتے اور اسباب ترقی روحانی پر نظر ڈالتے تو ایسے خیالی اور وہمی با توں کا ان پر اثرنہ ہوتا او رنہایت قوی دل اور قوی ایمان رہتے ۔
شفاء میں یہ روایت ہے کہ ابن عمر ؓ با وجود کال توع کے سنبر شریف کے اس مقام پر جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے ہا تھ پھیر کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لے تے تھے ۔ گویا اس مقام متبرک کی برکت کو اپنے ہاتھ کے ذریعہ سے چہرے تک پہنچا تے تھے ۔ اس حرکت سے وہ ثابت کر تے تھے کہ جو برکت اس مقام پر تشریف رکھنے کے وقت تھی وہی اب بھی موجود ہے انقضائے مدت سے ا س میں کسی قسم کا تغیر نہیں پیدا ہوتا ۔
شفااور اس کی شرح میں لکھا ہے کہ ابو عبد الرحمن اسلمی یعنی اما قیشری نے لکھا ہے کہ احمد بن فضلو یہ جو زاہد تھے اور اکثر جہاد کیا کر تے تھے اور بڑے تیر انداز تھے وہ کہتے ہیں جب سے میں نے سنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک میں کمان لی تھی میں نے کبھی کمان کو بے وضو ہاتھ نہیں لگا یا انتہیٰ ۔
اب غور کیجئے کہ اگر تبرک ہوسکتی ہے تووہ کمان ہوگی ۔جیسے دست مبارک لگا تھا ۔ عموماً کمانوں کو یہ شرف کیونکر حاصل ہو سکے گا کہ بغیر طہارت کے چھینا جائز نہ سمجھا جائے ۔مگر بات یہ ہے کہ ادب کے احکام ٹھیرا نے کا کوئی قاعدہ نہیں ان غازی صاحب کو تیر اندازی میں کمال تھا ۔ یہ امر پیش نظر تھا کہ تیر اندازی سے دین کی پوری تائید کریں ۔ اس کے لئے با طنی امداد کی ضرورت تھی ۔ خدائے تعالیٰ کو خوش کرنے کا یہ طریقہ نکالا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمان کوہاتھ میں لیا تھا ۔ اس لئے میں اس کی یہ تعظیم کر تا ہوں کہ بے وضو کبھی اسے ہاتھ نہ لگا ئونگا اس کے صلے میں الٰہی بہ طفیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تائید فرماکر تیر اندازی میں کمال حاصل ہو ۔چناچنہ ایسا ہی ہوا کہ اس فن میں وہ سر برآوردہ مشہور تھے ۔ اور یہ اسی ادب کا نتیجہ تھا جو انہوںنے التزام کیا تھا کہ کمان کو بھی بغیرطہارت کے ہاتھ نہ لگا ئیں گے ۔ اگر اس زمانہ کے موحدین اس وقت ہوتے تو ان کو کافر بنانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھتے اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے کہ انہوں نے ایک معمولی لکڑی کی اتنی تعظیم کی کہ قرآن شریف کے برابر اس کو بنا دیا ۔لا یمسہ الا ألمطھرون قرآن شریف کی شان میںناز ل ہے ۔ انہوںنے اس کو کمان کی شان میں قرار دیا اور عملاً بھی ثابت کیا کہ کبھی بغیر طہارت کے کمان کوچھینا بھی نہیں ۔ایک بدعت سیۂ کو واجب بنا نا ضرور حد کفر پہنچا دیتا ہے غرض کہ معلوم نہیں مو شگا فیاں کر کر کے کس کس طریقہ سے ان کو کافر بنا تے ۔ مگر اس زمانے خیرالقرون والے علمانے ان کے اس فعل کی وہ قدر کلی کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہیں بلا انکار بلکہ بطور تحسین جس طرح حدیثوں کی روایت کر تے ہیں حدیثوں کی کتا بوں میں داخل کر دیا تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کی قدر کریں اور ان سے طریقہ ٔادب سکھیں ۔
شفاء میں لکھا ہے کہ کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے ہا تھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عصائے مبارک تھا ۔جہجا نے غصہ سے لے کر اسے گھٹنے پر رکھا ۔تاکہ زور کر کے توڑ دے ۔ہر طرف سے شورہوا کہ ارے یہ کیا کرتا ہے ۔مگر اسے نہ سنا ۔ اور توڑہی ڈالا۔اس کے ساتھ ہی گھٹنے میںاس کے ایک پھوڑا پیدا ہوا جس کو آکلہ کہتے ہیں ۔ جو جسم میں سرایت کرتا جا تا ہے تھوڑے عرصے میں پائوں کاٹنے کی ضرورت ہوئی اور ایک سال بھی نہیں گذرا کہ اسی بیمار ی سے وہ مرگیا ۔انتہیٰ ۔
یہاں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ عصامیں کوئی سمی مادہ تھا جس کا اثر اس کے پائوں میں ہوا ۔ بلکہ یہ اس بے ادبی کا اثر تھا جو اس متبرک عصاکے ساتھ کی گئی اور اصل سبب پوچھئے تو یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے دوستوں کا حامی ہے اگر ان سے کوئی شخص بے ادبی کرے تو اس کی تباہی ضرورہو جا تی ہے یعنی قساوت قلبی پیداہو جا تی ہے اور کبھی عبرت کے لئے ظاہر ابھی وہ تباہ کیا جا تا ہے ۔ پھر ان حضرات کی حمایت اس درجہ ہوتی ہے کہ ان کی طرف کوئی چیز منسوب ہو اس کے ساتھ بے ادبی کرنے والا بھی مردود اور مورود عتاب ہوتا ہے ۔
اگر چہ یہ مضامین بکثرت صحیحہ سے ثابت ہیں مگر بہ نظر اختصار ان چند روایات پر اکتفا کیا گیا ۔ اہل ایمان کو خدا ئے تعالیٰ توفیق دے تو یہی کا فی ہو سکتے ہیں فقط
تمت

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!