خلیفہ منصورکوایک لالچی کی نصیحت
خلیفہ منصورکوایک لالچی کی نصیحت
ابو الفضل ربعی کے والد سے مروی ہے، ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دینا شرو ع کیا۔لوگوں کوبری باتوں سے باز رہنے اور اعمالِ صالحہ کی ترغیب دلائی۔ خطبہ دیتے ہوئے اس کی آواز بھرّا گئی ،پھر زور زور سے رونے لگا ۔اسی دوران مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور بڑے جرأ ت مندانہ انداز میں گرج کر کہا : ”اے نصیحت کرنے والے! ایسی باتوں کی نصیحت کر جن پر تُو خود بھی عمل کرتا ہے اور ایسی با تو ں سے لوگو ں کو منع کر جن سے تُوخود بھی بچتا ہے، سب سے پہلے اِنسان کو اپنی اِصلاح کرنی چاہے، پھر دو سروں کو نصیحت کرنی چاہے لہٰذا پہلے تُو اپنی اصلاح کر پھر دو سروں کو نصیحت کرنا۔”
بھرے مجمع میں خلیفہ منصور اس شخص کی یہ گفتگو سن کر خاموش ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اپنے مشیر خاص سے کہا :” اس شخص کو یہاں سے لے جاؤ۔” چنانچہ اس شخص کو وہاں سے دورلے جایا گیا ۔خلفیہ منصور نے دو بارہ خطبہ شروع کیا پھر نماز پڑھی اور اپنے محل کی طرف آیا او راپنے مشیر خاص کو بلا کر اس سے پوچھا :” وہ شخص کہا ں ہے ؟” عرض کی: ” اس کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔” خلیفہ منصور نے کہا:”اسے ڈھیل دو، اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، پھر اسے مال ودولت کا لالچ دو۔ اگر وہ ان تمام باتوں سے اعراض کرے اور مال ودولت کی طرف تو جہ نہ دے تو وہ شخص مخلِص ہے اور اس نے اِصلاح کی نیت سے مجھے دوران خطبہ ٹو کا ہوگا اور وہ میری بھلائی کا خواہاں ہوگا اور اگر مال ودولت کی طرف راغب ہواور دنیا وی نعمتیں دیکھ کر خوش ہوجائے تو پھر وہ اپنی اس دعوت میں مخلص نہیں بلکہ اس کا بھرے دربار میں خلیفہ کو ڈانٹنااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس دعوت کے ذریعے وہ اپنا رُعب جمانا چاہتا ہے، وہ دنیا وی مال کاحریص ہے اور خلفاء پر طعن وتشنیع کرنا اس کی عادت ہے ۔اگر ایسی بات ہے تو میں اسے درد ناک سزا دوں گا ، جاؤ اور جاکر اسے آزماؤ۔”
پس مشیر چلا گیا اور اس شخص کو اپنے گھر ناشتے کی دعوت دی۔انواع واقسام کے کھانے چُنے گئے ،خوب پُر تکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا ۔ جب وہ شخص وہاں پہنچا تو مشیر نے اس سے پوچھا :” تجھے کس چیز نے اس بات پر اُبھارا کہ تُو بھرے دربار میں خلیفہ کو سر زنش کر ے اور لوگو ں کے سامنے اسے اِتنے سخت کلمات سے نصیحت کرے ؟” تو اس نے کہا: ”یہ مجھ پر اللہ عزوجل کی جانب سے حق تھا جسے میں نے ادا کیا،پس میں نے جو کچھ کیا درست کیا۔”یہ سن کر مشیر نے کہا :”اچھا! آؤ ہم نے تمہارے لئے دعوت کا اہتمام کیا ہے، ہماری دعوت قبول کرو اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ ”وہ کہنے لگا :’مجھے تمہاری دعوت کی کوئی حاجت نہیں ۔”
مشیر بولا:” اگر تمہاری نیت اچھی ہے توہماری دعوت قبول کرنے میں کیا حرج ہے؟ آؤ! دیکھو تمہارے سامنے انواع واقسام کے کھانے موجود ہیں۔” جب اس شخص نے طر ح طر ح کے کھانے دیکھے تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے خوب سیر ہو کر
کھانا کھایا پھر مشیر نے اسے واپس بھیج دیا ۔
کچھ دنوں بعد دوبارہ مشیر نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا:” اے شخص !خلیفہ تمہارے معاملے کو بھول چکاہے اور تم ابھی تک قید میں ہو ، میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک لونڈی دے دو ں جو تمہاری خدمت کرے اور تم اس سے تسکین حاصل کرو ۔” اس پروہ شخص لالچ میں آگیا اور کہنے لگا :”اگر ایسا ہوجائے تو آپ کی مہربانی ہوگی ۔”چنانچہ اس کو لونڈی بھی دے دی گئی اور اسے اچھا کھانا بھی دیا جانے لگا۔ کچھ دن کے بعد مشیر نے اس سے کہا :”اگر تم چاہو تو میں خلیفہ کی بارگاہ میں عرض کرو ں کہ وہ تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے کچھ روز مرہ کے خرچ کا بند و بست کر دے ۔” تووہ لالچی شخص کہنے لگا:”یہ تو آپ کابڑا احسان ہوگا ۔” چنانچہ اس کے لئے اور اس کے گھر والوں کے لئے روز مرہ کے خرچ کا انتظام کر دیا گیا۔
دن گز رتے رہے، ایک دن مُشیر اس شخص کے پاس آیا اور کہا :”اے شخص! میں تمہارا خیرا خواہ ہوں ،اگر تم چاہو تو ایک ایسی راہ تمہیں بتا تا ہوں جس کے ذریعے تم خلیفہ کا قُرب حاصل کر سکتے ہو۔”اس شخص نے بے تا ب ہو کر کہا :”جلدی بتا ؤ، وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے مجھے دربار شاہی میں کوئی مقام مل جائے اور میں خلیفہ کا مُقرب بن جاؤں۔”مشیر نے کہا :” مَیں تمہیں مُحتسِب مقرر کرتا ہوں تم جہاں بھی خلاف شرع کام ہوتا دیکھواسے بند کرادو ،جہاں کہیں ظلم ہو رہا ہو ظالموں کو سزا دو، آج سے تم بھی سرکاری عہدہ دارو ں میں شامل ہو جاؤ اور اپنا کام سنبھالو، لوگوں کو ناجائز اُمور سے روکو اور اچھی باتوں کا حکم دو۔” یہ سن کر اس لالچی شخص کی خوشی کی اِنتہانہ رہی۔ اسی طر ح اس کا تقریبا ًایک مہینہ گزرگیا ۔
مشیر خلیفہ منصور کے پاس آیا اور اس سے کہا: ”حضور! میں نے اس شخص کو خوب آزما لیا ہے،جب اسے کھانے کی دعوت دی گئی تو اس نے قبول کرلی، مال ودولت کے لالچ میں بھی بر ی طر ح پھنس گیاہے پھر اسے سر کاری عہدے کی پیشکش کی تو اس نے بخوشی قبول کر لی اور اب وہ بڑے سکون سے زندگی بسر کر رہا ہے۔ اگر آپ پسند فرمائیں تو اسے آپ کے دربار میں حاضر کروں۔ اب اس کی یہ حالت ہے کہ وہ خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار رہا ہے، لوگوں کو تو بری باتوں سے منع کرتا ہے لیکن خودبرائیوں میں مبتلا ہے۔ ”
خلیفہ منصور نے کہا :” جاؤ اور اسے ہمارے دربار میں حاضر کر و۔” مشیر فوراََ اس شخص کے پاس پہنچا اور کہا:” میں نے خلیفہ کو بتا دیا ہے کہ تم اب اس کے سرکاری عہدہ داروں میں شامل ہو اور تمہارے ذِمہ یہ کام ہے کہ بری باتوں سے لوگوں کو منع کر و، ظالموں کو ظلم سے روکو اور اچھی باتیں عام کرو ۔ اب خلیفہ تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تم اس کے دربار میں حاضر ہوجاؤ جیسا لباس تم کہو گے تمہیں مہیا کر دیا جائے گا۔” یہ سن کر وہ شخص بہت خوش ہوا کہ آج تو خلیفہ نے میری معرا ج کر ادی۔
چنانچہ اس نے ایک بہترین جبہ پہنا ، خنجرلیا ، گلے میں تلوار لٹکائی اور بڑی مغرور انہ چال چلتے ہوئے دربار کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے بال اتنے بڑے تھے کہ کندھوں سے بھی نیچے آرہے تھے۔ وہ خوشی خوشی دربار میں پہنچا اور جاکر بڑے ادب سے خلیفہ منصور کو سلام کیا ۔
خلیفہ نے جواب دیا اور کہا :”کیا تُو وہی شخص ہے جس نے اُمراء ،وزراء اور عوام کے بھرے مجمع میں مجھے سر زنش کی تھی اور بڑے سخت کلمات کے ساتھ مجھے نصیحت کی تھی؟” اس نے کہا :”ہا ں، میں وہی شخص ہو ں ۔” یہ سن کر خلیفہ نے کہا : ”پھر اب تجھے کیا ہوگیاہے، اب تو تُو خود ایسی حالت میں ہے کہ تجھے سخت سزادی جائے ۔ اس دن تمہیں کیسے جرأ ت ہوئی کہ تم نے بھرے دربار میں مجھے رُسواکیااور اب تمہاری یہ حالت ہے کہ میرے سامنے جھک رہے ہو، اس وقت کیا تھا اور اب کیا ہے ؟” تو وہ لالچی شخص کہنے لگا:”اے مہربان خلیفہ! اس واقعہ کے بعد میں نے غورو فکر کیا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہے تھا ،اس وقت میں نے واقعی غلطی کی، آپ مجھے معاف فرمادیں، آپ حق پر تھے میں نے آپ پر بے جاتنقید کی تھی ، آپ کی ہاں میں ہاں ملانا ہی بہتر تھا۔”
یہ سن کر خلیفہ منصور نے کہا: ” اے شخص !تجھ پر افسوس ہے، تُو اپنے مؤقف سے پھر گیا حالانکہ تُو نے بالکل حق بات کی تھی لیکن تُو اپنی نیت میں مخلص نہ تھا، تیراغصہ اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر نہ تھا ۔جب تُونے مجھے رُسواکیاتھاتو میں یہ سمجھا تھا تیراغضب وغصہ اللہ عزوجل کی خاطر ہے اس لئے میں نے تجھے اس وقت کوئی سزا نہ دی اور تیرے معاملے میں تو قف کیا لیکن اب مجھ پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ تیرا غصہ وغضب دُنیاحاصل کرنے کے لئے تھا اور تُو اپنی نیکی کی دعوت میں مخلص نہ تھا۔ رضائے الٰہی عزوجل تیرا مقصود نہ تھا بلکہ تُو حُبِّ جاہ اور دنیاوی دولت کا طالب تھا، اب میں تجھے ایسی درد ناک سزادوں گا کہ آئندہ کسی کو اس بات کی جرأ ت نہ ہوگی کہ بادشاہوں کے دربار میں ان کی بے عزتی کرے اور جس طر ح چاہے انہیں ڈانٹ دے۔ خداعزوجل کی قسم !میں تجھے عبرت کا نشان بنادو ں گا تا کہ لوگ تجھے سے عبرت پکڑیں ۔ ”
یہ کہہ کہ خلیفہ منصور نے جلاد کو حکم دیا کہ اس دنیا دار کا سرقلم کردیا جائے، جلاد آگے بڑھا اور بھرے دربار میں اس کی گردن اڑا دی گئی ۔
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرما اور دنیا وی مال کے وبال سے بچا ،ہر کام اپنی رضا کی خاطر کرنے کی تو فیق عطا فرما۔ ہمارا مطلوب بس اپنی ہی ذات کو بنائے رکھ، میرے مولا عزوجل !ہمیں صرف اپنی رضا کی خاطرسنتوں کی تبلیغ کرنے کی تو فیق عطا فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ میرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اِخلاص ایسا عطا یا الٰہی عزوجل!