کلام کی اقسام
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
زبان کی کامل حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں اس سے صادر ہونے والے کلام کی اقسام اور ان کے احکام معلوم ہوں ۔یاد رکھئے ! ہر کلام کی بنیادی طور پر چار اقسام ہوتی ہیں :
(۱) وہ کلام جس میں نقصان ہی نقصان ہے ،جیسے کسی کو گالی دینا ، فحش کلامی کرناوغیرہ۔۔۔۔۔۔
(۲) وہ کلام جس میں نفع ہی نفع ہو مثلاً فقہی مسائل کی رعایت کرتے ہوئے تلاوتِ قرآن کرنا ،درود پاک پڑھنا، نعت پڑھنا ،ذکر اللہ عز وجل کرنا ، کسی کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ ،۔۔۔۔۔۔
(۳) وہ کلام جو بعض صورتوں میں نفع بخش ہے اور بعض صورتوں میں نقصان دہ جیسے کسی مقتداء (مثلاً پیریا استاذ)کا اپنی نیکیوں کو اس نیت سے ظاہر کرنا کہ لوگ اس کی پیروی میں ان نیکیوں کو اپنانے کی طرف راغب ہوں گے لیکن اگر اپنی واہ واہ کروانے کی نیت سے نیکیاں ظاہر کیں تو یہ کلام اسے نقصان پہنچائے گا ۔
(۴) وہ کلام جس میں نہ تو کوئی نفع ہو اور نہ ہی نقصان ، اسے فضول گوئی بھی
کہا جاتا ہے مثلاًموسم وغیرہ پر تبصرہ کرنامثلاً آج بڑی گرمی ہے، یا ایسے سوالات کرناجس سے نہ کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہو اور نہ ہی اُخروی۔مثلاً آپ کی موٹر سائیکل کون سے ماڈل کی ہے ؟(جبکہ اس سوال کا کوئی مقصد نہ ہو۔)
اِن اَقسام کی تفصیل
(1) نقصان دہ کلام :
اس قسم کا کلام کرناسراسر باعث ِ ہلاکت ہے لہذا!اس سے بچنا بے حدضروری ہے جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : ”لوگ تین قسم کے ہیں ، ایک غنیمت حاصل کرنے والا ،دوسرا محفوظ رہنے والا اور تیسرا ہلاک ہونے والا ، غنیمت حاصل کرنے والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے ، محفوظ رہنے والا وہ شخص ہے جو خاموش رہتا ہے اور ہلاک ہونے والا وہ شخص ہے جو باطل میں پڑتا ہے ۔” (شعب الایمان، باب فی الاعراض عن اللغو،رقم۱۰۸۱۵،ج۷،ص۴۱۷)
پیارے اسلامی بھائیو! نقصان دہ کلام کی صورتیں بہت زیادہ ہیں ، اختصار کے پیش ِ نظر یہاں منتخب اقسام کی وضاحت کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے ۔
پہلی قسم کلمۂ کفرکہہ دینا
پیارے اسلامی بھائیو !ایک مسلمان کے لئے سب سے قیمتی متاع اس کا ایمان ہے اور ایمان کا مطلب یہ ہے کہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جن کا تعلق ضروریاتِ دین سے ہو۔ (البحرالرائق ،کتاب السیر،باب احکام المرتدین، ج۵، ص۲۰۲)
اور ضروریاتِ دین سے مراد دین کے وہ مسائل ہیں جنہیں ہر خاص وعام
جانتا ہو مثلاً اللہ عزوجل کا ایک ہونا ، انبیاء کی نبوت ، نماز ، روزہ ،حج ، جنت ودوزخ ، قیامت میں اٹھایا جانا ، حساب وکتاب ہونا وغیرھا۔ (بہارشریعت،حصہ۱،ص۴۸)
یہ بھی یاد رکھئے کہ کسی ایک بھی ضرورتِ دینی کا انکار کرنا کفر ہوتا ہے اگرچہ بقیہ ضروریاتِ دینیہ کا اقرار کیا جائے ۔ (البحر الرائق ،ج۵،ص۲۰۲)
چنانچہ بلااکراہِ شرعی ،ہوش وحواس میں بغیر خطاء کے زبان سے کسی ضرورتِ دینی کا انکار کرنا یا ایسے الفاظ بولنا جس سے کسی ضرورتِ دینی کا انکار نکلتا ہو کفر ہے ۔مثلاً یہ کہنا کہ ”اللہ ہوتا تو میری دعا ضرور سنتا ۔”یا کسی نقصان پر یہ کہنا ”اللہ نے یہ بڑا ظلم کیا”کفر ہے ۔ ۱؎
لیکن یاد رہے کہ اگرآپ کے سامنے کوئی شخص (معاذ اللہ عزوجل ) ایسا کلمہ کہہ ڈالے جسے علمائے کرام نے کفرقرار دیا ہوتو اُس پر فوری طور پر ”کفر کا فتویٰ”لگانے سے بھی پرہیز کریں کہ اسی میں عافیت ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو اور وہ کلمہ کفر نہ ہو یا پھر وہ کلمہ توکفر ہو لیکن اس کے کہنے والے کو کافر نہیں کہا جاتا، اس لئے راہِ سلامت یہی ہے کہ ایسا شخص احتیاطاً تجدید ایمان کرنے کے بعد فوراً کسی مفتی صاحب سے رابطہ کرے۔ (اس بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب”ایمان کی حفاظت” کا مطالعہ فرمائیں )
پیارے اسلامی بھائیو! اگر کوئی شخص کلمہ کفر بکنے کے سبب کافر ہوجائے تو اس کا ایک نقصان تویہ ہوگا کہ اس کی پچھلی تمام نیکیاں برباد ہوجائیں گی جو توبہ کے بعد بھی واپس نہیں ملیں گی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :
وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۫ ترجمہ کنزالایمان :اورجو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا۔”(پ۶،المائدۃ:۵ )
اور اگر کسی بدنصیب کو توبہ کی توفیق نہ ملی اور حالتِ کفر میں ہی اس کا انتقال ہوگیا تو اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے : وَمَنۡ یَّرْتَدِدْ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَکَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۱۷﴾ ترجمہ کنزالایمان :اور تم میں جوکوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہوکر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ۔(پ۲،البقرۃ:۲۱۷)
اور جہنم کا ہلکے سے ہلکا عذاب بھی برداشت کرنے کی سکت انسان کے ناتواں بدن میں یقینا نہیں ہے کیونکہ اس کاہلکاترین عذاب جس شخص کو ہوگا اسے آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح کھولنے لگ جائے گا جیسا کہ حضرتِ سیدناابن عباس رضي الله عنه
روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلي الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ”دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا اسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔”
( صحیح البخاری ،باب صفۃ الجنۃ والنار، رقم الحدیث ۶۵۶۱، ص۱۱۶۵ )
لہذا ! ہمیں چاہے کہ پہلی فرصت میں کلماتِ کفریہ کے بارے میں معلومات حاصل کریں پھر اگر سابقہ زندگی میں ہم سے کوئی کلمۂ کفر صادر ہوگیا ہو تو فوراً توبہ کرکے تجدید ِ ایمان کریں اورآئندہ کے لئے اپنی زبان کو ایسے کلمات کی ادائیگی سے بچائیں ۔
مد ینہ : اس کے لئے امیرِ اہل ِ سنت مدظلہ العالی کے رسالے ”اٹھائیس کلمات کفر”اورمکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب”ایمان کی حفاظت”کا مطالعہ فرمائیں ۔
(١)اكراہ شرعی سے مراد یہ ہے كہ كسی نے كلمہ كفر كہنے پر اس طرح مجبور كیا كہ اگر تم نے یہ كلمہ نہ كہاتو میں تمہیں مار ڈالوں گا یا جسم كافلاں حصہ كاٹ ڈالوں گا اور یہ شخص جانتا ہے كہ یہ اپنی دھمكی پر عمل كرگزرے گا تو ایسی حالت میں اسے رخصت دی گئی ہے جبكہ دل میں اطمینان ایمان موجود ہو,ہاں اگر توریہ كرسكتا ہے تو توریہ كرے مثلاً كسی كو معاذاللہ عزوجل نبی كریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم كو بُرا كہنے پر مجبور كیا گیا تو وہ اپنے دل میں كسی دوسرے محمد نامی شخص كا خیال لائے اور اسے بُرا كہ لے,نبی پاك صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم كا تصور ہرگز نہ كرے, اور اگر توریہ كرنا جانتا تھااور اس پر قادر بھی تھا لیكن نہ كیا تو اس پر حكمِ كفر ہے.(ماخوذ از شرح فقہ اكبر ص ٢٧٥,بہارِشریعت ,حصہ ١٥, مسئلہ نمبر ١٦,ص ٤٦٦)