ا سمِ اعظم کے مُتَمَنِّی کا امتحان
حکایت نمبر307: ا سمِ اعظم کے مُتَمَنِّی کا امتحان
حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن حسن رازی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:”مجھے بتایا گیا کہ حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی ” اسمِ اعظم” جانتے ہیں۔ چنانچہ، میں مصر کی طر ف روانہ ہوا۔ سفر کی صعوبتیں بر داشت کرتا ہوا بالآخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میری داڑھی کا فی بڑھی ہوئی تھی۔ ایک بڑا ساپیالہ میرے پاس تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک نظر میری طرف دیکھا پھردوسری طرف متوجہ ہوگئے پھر میری طرف بالکل التفات نہ فرمایا ۔ میں بھی آس لگائے بیٹھا رہا کہ کبھی نہ کبھی تو نظرِ کرم ضرور فرمائیں گے ، اسی آس میں کافی دن گزر گئے۔
ایک دن ایک تیز طراز چرب زبان شخص جو علمِ کلام میں ماہر تھا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور مناظرہ کر نے لگا۔ آپ
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دلائل سے گفتگو کی لیکن وہ اپنی چرب زبانی کی وجہ سے قابو نہ آیا۔ جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو اس سے مناظرہ کیا اور اسے لاجواب کردیا، وہ شکست کھاکر وہاں سے چلاگیا ۔ اب حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی میرا مقام جان چکے تھے، آپ میرے پاس آئے مجھے گلے سے لگایا اور میرے سامنے بیٹھ گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ضعیفُ العمر جبکہ میں عالَمِ شباب میں تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کمالِ انکساری کا مظاہر ہ کیااور معذرت کرتے ہوئے فرمایا :”اے نوجوان! میں تجھے پہچان نہ سکا میں اپنے رویّے پر معذرت خواہ ہوں۔” میں نے کہا :” حضور! کوئی بات نہیں، میں آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔”
چنانچہ، ایک سال تک میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت کرتا رہا، ایک دن موقع پا کر میں نے عرض کی:” حضور ! میں ایک سال مسلسل آپ کی خدمت کرتارہا ہوں ، اب میرا حق آپ پر لازم ہوگیا ہے ، مجھے بتایاگیا ہے کہ آپ ”اسمِ اعظم” جانتے ہیں۔ ایک سال کے عرصہ میں آپ مجھے اچھی طر ح جان چکے ہوں گے، حضور ! مجھے یقین ہے کہ میری مثل آپ کسی ایسے کو نہ پائیں گے جسے اسمِ اعظم سکھایاجائے، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے” اسمِ اعظم” کی تعلیم دے دیں ۔”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیالیکن مجھے ایسامَحسوس ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے” اسمِ اعظم” سکھانے کے لئے راضی ہوگئے ہیں۔
میں چھ ماہ تک مزید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت کرتا رہا، ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک تھا ل اور رومال میں بندھی ہوئی کوئی چیز دے کر فرمایا: ”اے نوجوان! شہرِ فُسْطَاط میں رہنے والے ہمارے فلاں دوست کو تم جانتے ہو ؟” میں نے کہا: ”جی ہاں۔” فرمایا:” ہماری خواہش ہے کہ تم یہ تھال اس تک پہنچا دو ،میں نے وہ تھال اُٹھایا اور فُسْطَاط کی طرف چل پڑا ، میں سوچ رہا تھا کہ ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی جیسا شخص فلاں شخص کو ہدیہ بھیج رہا ہے ، اس تھال میں ضرور کوئی خاص چیز ہوگی ، دیکھوں تو سہی کہ آخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے دوست کو کیا تحفہ بھجوایا ہے۔ میں بے صبر ا ہو گیا، ایک پُل کے قریب پہنچ کر تھال نیچے رکھا اس میں نہ جانے کیا چیز تھی جسے رومال سے باندھ دیا گیا تھا، میں نے رومال کھول کر اوپر اٹھایا تو ایک چوہا نکل کر بھاگا یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اور دل میں کہنے لگا :” حضرت ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی جیسے بندے نے مجھ جیسے شخص کے ہاتھوں اپنے دوست کو تحفہ میں چوہا بھجوا کر میرے ساتھ مذاق کیا ہے۔” چنانچہ، اسی غصہ کی حالت میں ،مَیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری حالت دیکھ کر فرمایا: ”اے نادان! ہم نے تجھے آزمایا اور ایک چوہا تیرے پاس امانت رکھوا یا لیکن تو چوہے کے معاملے میں بھی خیانت کر بیٹھا، اگر میں نے” اسمِ ا عظم” امانتاً تیرے پاس رکھ دیا تو تیرا کیا حال ہو گا، جامجھ سے دور ہوجا۔ تو اس قابل نہیں کہ تجھے یہ دولت دی جائے ۔”