فصیح وبلیغ کلام کرنے والا متوکل اژدھا
حکایت نمبر241: فصیح وبلیغ کلام کرنے والا متوکل اژدھا
حضرتِ سیِّدُناحامداَسْوَد علیہ رحمۃ اللہ الاحد نقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُناابراہیم خوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کو یہ فرماتے ہوئے سنا :”توَ کلُّ کے بارے میں میرے یقین کی پختگی کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ میں جنگلوں اورصحراؤں میں سفر کرتا اوراپنے توکل کو پختہ کرتا۔ مجھے ویران اورغیرآباد علاقوں سے محبت ہوگئی ۔ ایک دن میں ایک ویران جنگل کی طرف گیا اوراس جنگل میں تین دن تین رات قیام کیا۔ جب چوتھی صبح ہوئی توبھوک وپیاس کی وجہ سے کمزوری محسوس ہونے لگی ۔ بتقاضائے بشریت مجھے رزق کے معاملے میں کچھ تردّد ہونے لگا۔ میں بڑا دِل گِیر(غمگین)ہوا۔ اچانک میرے سامنے چار بڑے بڑے اژدھے نمودار ہوئے۔ وہ اپنے منہ سے سیٹی کی سی آواز نکالنے لگے پھر بھنبھناہٹ سی سنائی دینے لگی۔ ان کی اس آواز میں ایسا غم وسوز تھا کہ ایسی غمگین آواز میں نے آج تک نہ سنی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ وہ چاروں میری طرف آئے، ان میں سے ایک نے اپنا سر بلند کیا اور بڑا فصیح وبلیغ کلام کرتا ہوا مجھ سے یوں گویا ہوا:”اے ابراہیم (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) !کیا تو اپنے خالق کے بارے میں شک میں مبتلا ہے ؟”
میں نے کہا:” نہیں!اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں بالکل مطمئن ہوں۔” اس نے کہا : ”پھرتو رزق کے بارے میں شک میں کیوں مبتلا ہوا؟”وہ اژدھا میری حالت سے واقف ہوگیاتھا۔میں نے متعجب ہوکر پوچھا: ”تم میرے حال سے کیسے واقف ہوئے؟”اس نے کہا:” مجھے اس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ نے آگاہ کیا جو ہر وقت میرے ساتھ ہے۔ سنو!ہم چار اژدھے مختلف مقامات کے رہنے والے ہیں اورہم توکل جمع کرنے آئے ہیں۔”
میں نے کہا:” یہ تو بہت ضروری ہے۔ بے شک میں نے بھی کھانے پینے کے متعلق توکل کیا ۔اس دوران اکثر اوقات بھوک وپیاس کاسامنا کرنا پڑتا ہے؟” اس نے کہا:” اے ابراہیم !پوشیدہ باتوں کی ٹوہ میں نہ پڑو۔بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کچھ ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جنہیں اس کا ذکر سیراب کرتاہے اوراس سے ان کی بھوک جاتی رہتی ہے ۔ پھر وہ کسی ایسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے جس کے ذریعے دوسرے لوگ اپنی زندگی گزارتے ہیں اور ان لوگوں کے دلوں میں ایسی چیزوں کے متعلق کبھی
پریشانی نہیں ہوتی جس کے نہ ملنے پر دوسروں کو پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ ہاں! وہ تو صرف فتنہ وفساد سے ڈرتے ہیں ۔” اس اژدھے کا ایسا فصیح وبلیغ کلام سن کر میں نے اپنے دل میں کہا :” سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !یہ اژدھا کتنا پیارا کلام کررہا ہے اورمیں اس کی بات کوکتنی اچھی طرح سمجھ رہاہوں ۔ ”
پھر میں رونے لگا۔ میں یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اژدھا پھر بولا:”اے ابراہیم ! پوشیدہ باتوں کی ٹوہ میں نہ رہو، کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخلوق میں کسی کو حقیر سمجھتے ہو؟ بے شک مجھے قوتِ گویائی اسی پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے عطافرمائی ہے جس نے تمہارے باپ آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کو مٹی سے پیدا فرمایا ۔ تم میرے بولنے سے متعجب ہو رہے ہو ! حالانکہ زیادہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسی وادی سے تیرے پاس آئے ہیں جو یہاں سے ایک ماہ کی مسافت پر ہے ۔ ہمیں ہمارے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے یہاں بھیجا ہے ۔”
یہ سن کرمیں بہت حیران ہوا اوراس اژدھے سے پوچھا:” کیا وجہ ہے کہ ان چاروں اژدھوں میں سے صرف تم ہی کلام کر رہے ہواورباقی سب خاموش ہیں ؟”اس نے کہا:” اے ابو اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق !بے شک! اللہ عَزَّوَجَلَّ اوراس کی مخلوق کے درمیان حجاب ہے۔ مخلوق میں کچھ لوگ ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں ۔کچھ وزراء اورکچھ لوگ بعض کے شاگرد ومرید ہیں۔ ان چاروں اژدھوں نے مجھے اپنا امیر مان لیا اوراپنے آپ کو میرے حوالے کردیاہے ۔ اب میں ہی ان کی نمائندگی ورہبری کر رہا ہوں۔ میری ایک بات توجہ سے سن لیجئے! اگرآپ کسی کے امیر بنو اورتمہارے رفقاء آداب ِ سفر ملحوظ رکھیں تو عنقریب تم اور تمہارے تمام رفقاء صدق واِخلاص کی اعلیٰ منازل تک رسائی حاصل کرلو گے۔ لیکن جب امیرِ قافلہ ہی راہ سے بھٹک جائے اور اس کے رفقاء اس پر برتری چاہیں تو سمجھو کہ وہ قافلہ ناکام ہوگیا۔ ناکامی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ماتحت اپنے امیر پر غالب آ جائیں اوراس کی طرف توجہ نہ دیں۔جب تم دیکھو کہ ماتحت اپنے امیر ونگران کے سامنے بڑی بے باکی سے بول رہا ہے اور امیر ونگران خوش ہے تو سمجھ لوکہ اب برکت اُٹھالی گئی۔”
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خَوَّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں:” اتنا کہنے کے بعد اچانک وہ چاروں اژدھے میری نظروں سے غائب ہوگئے۔پھر میں چالیس روز اسی ویران وغیر آباد وادی میں رہا اور جو منظر میں نے دیکھا اس کے بارے میں سوچ سوچ کر حیران ہوتارہا ۔ یہ چالیس دن ایسے گزرے کہ نہ تومجھے کھانے پینے کی فکر رہی اورنہ ہی کسی اورقسم کی حاجت درپیش آئی۔میں چالیس دن تک بالکل نہ سویااورکئی دن تک ایک ہی وضو سے نماز پڑھتارہا۔یہ وادی بہت زیادہ غیر آباد اورویران تھی۔ کوئی چیز اس میں ایسی نہ تھی جس سے اُنسیّت حاصل کی جاتی ۔ بہرحال چالیس دن بعد ایک صبح و ہ چاروں اژدھے پھر میرے سامنے ظاہر ہوئے ۔ا نہوں نے مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ ان میں سے وہی اژدھا جو پہلے مجھ سے مخاطب ہوا تھا، کہنے لگا:
”اے ابو اسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق ! میرا گمان تھا کہ ان چالیس دنوں میں کسی نہ کسی دن تو منتخب کرلیا جائے گا میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کی تھی کہ وہ تجھے صادقین کی بعض غذا کا ذائقہ چکھا دے اوراب میں تیرا حال اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حوالے کرتاہوں۔”
پھر اس اژدھے نے اپنے منہ سے نرگس کے کچھ پھول میری طرف پھینکے۔ میں نے انہیں اٹھالیا ۔ جب سامنے دیکھاتو وہ تمام اژدھے غائب ہوچکے تھے۔میں ان کی جدائی سے بڑا غمگین ہوا۔ پھر چالیس دن تک میں کیف وسرور کے عالم میں رہانہ تو مجھے بھوک لگی نہ پیاس۔ اورمیرے جسم سے ایسی خوشبو آتی تھی جیسے میں نے پورے جسم پر عطر لگایاہوا ہو۔ اسی طرح وہ پوری وادی خوشبو سے معطر اورمعنبر رہی ۔ یہ وہ پہلا واقعہ تھا جواللہ ربُّ العزَّت نے میرے لئے ظاہر فرمایااور مجھے عجیب وغریب چیزیں دکھائیں۔