دوسری قسم جھوٹ بولنا
پیارے اسلامی بھائیو!جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بات واقع (حقیقت)کے برعکس کہی جائے ۔مثلاً کسی نے پوچھا: کیا آپ دوپہر میں سوئے تھے؟ اور آپ نے نہ سونے کے باوجود جواب دیا:”جی ہاں، سویا تھا ۔”(حدیقہ ندیہ ،ج۲،ص ۴۰۰)
جھوٹ سے منع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَاجْتَنِبُوۡا قَوْلَ الزُّوۡرِ ﴿ۙ۳۰﴾حُنَفَآءَ لِلہِ
ترجمۂ کنزالایمان : اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر ۔” (پ۱۷،الحج:۳۰،۳۱ )
ممانعت کے باوجود زبان کی اس آفت سے نہ بچنے والوں کو عذاب کی وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَلَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ
ترجمہ کنزالایمان:اوران کے لئے دردناک عذاب ہے بدلا ان کے جھوٹ کا۔”(پ۱،البقرۃ:۱۰ )
جبکہ سرکار ِ مدینہ سُرورِ قلب وسینہ ا نے ارشاد فرمایا :”میں نے دیکھا کہ گویا ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا:”اٹھئے۔” میں اٹھ کر اس کے ساتھ چل دیا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ دو آدمی تھے ان میں سے ایک کھڑا ہوا تھاجبکہ دوسرا بیٹھا ہوا تھا ،
جو کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس کے آگے لوہا لگا ہوا تھا ،وہ اسے بیٹھے ہوئے آدمی کی ایک باچھ میں ڈال کر کھینچتا حتی کہ وہ اس کے کندھے تک آجاتی پھر وہ اسے واپس کھینچتا اور دوسرے باچھ میں ڈال کر اسی طرح کھینچتا پھر جب اسے واپس کھینچتا تو وہ واپس اپنی جگہ آجاتی ۔ میں نے لے جانے والے سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ جھوٹ بولنے والا شخص ہے اسے قیامت تک قبر میں عذاب دیا جاتا رہے گا۔” (صحیح بخاری ،کتاب الجنائز، رقم الحدیث ۱۳۸۶،ج۱،ص۴۶۷)
جھوٹ کی مذمت کرتے ہوئے آپ صلي الله علي وسلم نے ارشاد فرمایا :
٭ ”جھوٹ، انسان کو رُسواکر دیتاہے اورچغلی عذابِ قبر کا سبب بنتی ہے ۔”
(الترغیب والترہیب کتاب الادب ، رقم الحدیث ۲۸، ج۳،ص۳۶۸)
٭ ”جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بد بو سے ایک میل دور ہوجاتاہے ۔”
(الترغیب والترہیب کتاب الادب ، رقم الحدیث ۳۰، ج۳،ص۳۶۹)
٭” سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتا ہے۔”
(مسلم، کتاب الادب،باب قبح الکذب، رقم۲۶۰۷،ص۱۴۰۵)
پیارے اسلامی بھائیو!
صدافسوس کہ آج کثرت سے جھوٹ بولنے کو کمال اور ترقی کی علامت اور سچ کو بے وقوفی اور ترقی میں رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو مذموم مقاصد کے لئے جھوٹی قسم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ یاد رکھئے کہ یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے جیسا کہ حضرتِ سیدنا ابن عمررضي الله عنه سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہ
تین ہیں ، شرک ،والدین کی نافرمانی ،جھوٹی قسم اور کسی کو قتل کرنا۔”
(بخاری ، کتاب الایمان والنذور ،رقم الحدیث۶۶۷۵،ج۴،ص۲۹۵)
اور حضرت سیدناابواُمامۃرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق چھینے تو اللہ اس پر جہنم کو واجب اورجنت کو حرام کر دے گا۔”صحابہ نے عرض کیا :”یا رسول اللہ ! اگر وہ معمولی شئی ہوتو ؟” فرمایا: ”اگرچہ لوبان ہی ہو۔’ ‘ (مسلم ، کتاب الایمان ، رقم الحدیث۱۳۷،ص۸۲)
پیارے اسلامی بھائیو! جھوٹ بولنے والا دنیا میں چاہے کتنی ہی کامیابیاں سمیٹ لے، آخرت میں اسے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا اور خسارۂ آخرت سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی مصیبت نہیں ہے ۔ لہذ ا! ہمیں چاہے کہ اپنی زبان کو جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھیں لیکن یاد رہے کہ تین مقامات پرضرورت کے سبب جھوٹ بولنے کی شریعت کی جانب سے رخصت بھی دی گئی ہے جیسا کہ
حضرت سيدتنا ام كلثوم رضي الله تعالي عنها فرماتي هيں کہ میں نے رکار مدینہ صلي الله عليہ وسلم کو بظاہر غلط بیانی کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا سوائے تین مقامات کے ،چنانچہ آپ صلي الله عليہ وسلم نے فرمایا:”(۱)میں اس شخص کو جھوٹا شمار نہیں کرتا جولوگوں کے درمیان صلح کروائے اور ایسی بات کہے جس کا مقصد صرف اصلاح ہو ،(۲)اور وہ آدمی جو جنگ کے دوران کوئی بات کہے ،(۳)اور آدمی اپنی بیوی سے کچھ کہے یا بیوی اپنے خاوند سے کچھ کہے۔”
(سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، رقم الحدیث ۴۹۲۱،ج۴،ص۳۶۶)
صدر الشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں ،ایک جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے
مدِمقابل کو دھوکا دینا جائز ہے ، اسی طرح ظالم جب ظلم کرنا چاہتا ہے تو اس کے ظلم سے بچنے کے لئے بھی جائز ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ دومسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کروانا چاہتا ہے مثلاً ایک کے سامنے یہ کہتا ہے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے اور تمہاری تعریف کرتا تھا ،اس نے تمہیں سلام کہلا بھیجا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تاکہ دونوں میں عداوت کم ہوجائے اور صلح ہوجائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ بیوی کو خوش کرنے کے لئے کوئی بات خلاف ِ واقع کہہ دے ۔”
(بہار شریعت،حصہ ۱۶، مسئلہ نمبرا ،ص۶۳۸)
مسئلہ:
اگر سچ بولنے میں فساد پیدا ہوتا ہو تو اس صورت میں بھی جھوٹ بولنا جائز ہے اور اگر جھوٹ بولنے میں فساد ہوتا ہو تو حرام ہے اور شک ہو کہ معلوم نہیں کہ سچ بولنے میں فساد ہوگا یا جھوٹ بولنے میں ہوگا جب بھی جھوٹ بولنا حرام ہے ۔
(بہار شریعت،حصہ ۱۶، مسئلہ نمبر۶ ،ص۶۳۸)
مسئلہ :
بعض صورتوں میں کذب واجب ہے جیسے کسی بے گناہ کو ظالم شخص قتل کرنا چاہتا ہے یا ایذاء(یعنی تکلیف ) دینا چاہتا ہے ،وہ ڈر سے چھپا ہوا ہے ۔ ظالم نے کسی سے دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ” مجھے نہیں معلوم ،”اگرچہ جانتا ہو ،یا کسی کی امانت اس کے پاس ہے ،کوئی اسے چھیننا چاہتا ہے (اور اس سے )پوچھتا ہے کہ امانت کہاں ہے ؟(تو)یہ انکار کرسکتا ہے کہ میرے پاس اس کی امانت نہیں (ہے )۔
(بہار شریعت،حصہ ۱۶، مسئلہ نمبر۴ ،ص۶۳۸)
مسئلہ:
جس قسم کے مبالغہ کا عادۃً رواج ہے ،لوگ اسے مبالغہ پر ہی محمول کرتے ہیں اس کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے ،وہ جھوٹ میں داخل نہیں مثلاً یہ کہا کہ ”میں تمہارے پاس ہزار مرتبہ آیا یا ہزار مرتبہ میں نے تم سے کہا ۔” یہاں ہزار کا عدد مراد نہیں بلکہ کئی مرتبہ آنا اور کہنا مراد ہے ۔(لیکن) یہ لفظ ایسے موقع پر نہیں بولا جائے گا کہ ایک ہی مرتبہ آیا ہو یا ایک ہی مرتبہ کہا ہو ،اور اگر ایک مرتبہ آیا اور یہ کہہ دیا کہ میں ہزار مرتبہ آیا تو جھوٹ ہے۔ (بہار شریعت،حصہ ۱۶، مسئلہ نمبر ۷،ص۶۳۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حوالے سے بھی اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ عليہ وسلم