انسان اور دنیا
*انسان اور دنیا*
ہم جس سرزمین سے آئے ہیں اسی کی جانب ہمیں لوٹ جانا ہے
ہمارے وجود کی خاک پھر اسی مٹی میں مل جانے والی ہے جس سے ہمارا وجود بخشا گیا
یہ دنیا اور انسان ایک دوسرے کے عکس ہیں، دنیا انسان کا اور انسان دنیا کا زیروکس کاپی ہے
آؤ! پہلے ایک نظر اپنے وجود پر ڈالو اور پھر اس لامحدود جہان کو دیکھو، ہر طرف تمہاری ہی داستاں بکھری پڑی ملے گی دونوں میں ایسی یکسانیت دکھے گی کہ حیران رہ جاؤگے
کائنات کی ہر شئی کو اپنے وجود کے ترازو پر تولو تو تمھیں احساس ہوگا کہ خالق کائنات نے پوری کائنات تمہارے وجود میں سمو دی ہے
تمہارا چہرہ تمہارے جسم کے نشیب و فراز گرتے آبشاروں اور بہتے جھرنوں کی مانند ہیں، تمہارے ہاتھ اور بلند و بالا کہساروں کی مانند ہیں
تمہاری ہڈیاں جابجا بکھری ہوئی چٹانوں کی مانند ہیں
تمہارے بال سرسبز و شاداب پودوں کی مثل ہیں جو ہواؤں سے ہلکورے لیتے رہتے ہیں
رگوں میں دوڑتا خون دریاؤں کی طرح ہے جو روانی کے ساتھ نہ جانے کب سے اپنی منزل کی تلاش میں ادھر سے ادھر مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن ان کو ایک دن گہرے سمندر میں جا کر سما جانا ہے اور پھر ان کے وجود کی کہانی ختم
تمہاری آنکھیں ستاروں کی مانند ہیں ہیں جو اپنی روشنی سے تمہارے وجود کو شب تار کی تیرگی میں راستہ دکھلاتی ہیں
تمہارا دل سورج ہے جو تمہارے جسم کے نہاں خانوں کو منور رکھتا ہے
تمہارے بدن کا ہر ایک ذرہ اسی سورج کے ارد گرد چکر کاٹتا ہے جس سے تمہاری روح کی صبح و شام وابستہ ہے
یعنی یہ پورا جسم ایک چھوٹی سی دنیا ہے جس کو انسان لیے پھرتا ہے اور اگر اپنی اس دنیا کی تخلیق پر ایک مرتبہ نظر ڈال لے تو پھر اس کی دنیا روشن ہو اٹھتی ہے مگر ہمیں اتنی فرصت کہاں…………….. ؟
*اختر نور*
(بنیادی خیال ماخوذ)