اسلام
ہجرت کا چھٹا سال بیعۃ الرضوان و صلح حدیبیہ
اس سال کے تمام واقعات میں سب سے زیادہ اہم اور شاندار واقعہ ”بیعۃ الرضوان” اور ”صلح حدیبیہ” ہے۔ تاریخ اسلام میں اس واقعہ کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ اسلام کی تمام آئندہ ترقیوں کا راز اسی کے دامن سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوبظاہر یہ ایک مغلوبانہ صلح تھی مگر قرآن مجید میں خداوند عالم نے اس کو ”فتح مبین” کا لقب عطا فرمایا ہے۔
ذوالقعدہ ۶ھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چودہ سو صحابۂ کرام کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ شاید کفار مکہ ہمیں عمرہ ادا کرنے سے روکیں گے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلے ہی قبیلۂ خزاعہ کے ایک شخص کو مکہ بھیج دیا تھا تاکہ وہ کفارمکہ کے ارادوں کی خبر لائے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا قافلہ مقام ”عسفان” کے قریب پہنچا تو وہ شخص یہ خبر لے کر آیا کہ کفارمکہ نے تمام قبائل عرب کے کافروں کو جمع کرکے یہ کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو ہرگز ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ کفارقریش نے اپنے تمام ہمنوا قبائل کو جمع کرکے ایک فوج تیار کرلی اور مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لئے مکہ سے باہر نکل کر مقامِ ”بلدح” میں پڑاؤ ڈال دیا۔ اور خالد بن الولید اور ابوجہل کا بیٹا عکرمہ یہ دونوں دو سوچنے ہوئے سواروں کا دستہ لے کر مقام ”غمیم” تک پہنچ گئے۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو راستہ میں خالد بن الولید کے سواروں کی گرد نظر آئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شاہراہ
سے ہٹ کر سفر شروع کردیا اور عام راستہ سے کٹ کر آگے بڑھے اور مقام ”حدیبیہ” میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پانی کی بے حد کمی تھی۔ ایک ہی کنواں تھا۔ وہ چند گھنٹوں ہی میں خشک ہوگیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پیاس سے بے تاب ہونے لگے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک بڑے پیالہ میں اپنا دست مبارک ڈال دیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خشک کنویں میں اپنے وضو کا غسالہ اور اپنا ایک تیر ڈال دیا تو کنویں میں اس قدر پانی ابل پڑا کہ پورا لشکر اور تمام جانور اس کنویں سے کئی دنوں تک سیراب ہوتے رہے۔(1)
(بخاری غزوۂ حدیبیہ ج ۲ ص ۵۹۸و بخاری ج۱ص۳۷۸ )