اسلام
نذر ونیاز
قرآن کریم میں یہ لفظ بہت جگہ استعمال ہوا ہے نذر کے لغوی معنی ہیں ڈرانا یا ڈرسنانا ۔ شرعی معنی ہیں غیر لازم عبادت کو اپنے پر لازم کرلینا ، عرفی معنی ہیں نذرانہ وہدیہ قرآن کریم میں یہ لفظ ان تینوں معانی میں استعمال ہوا ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
(1) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا
ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دینے والا ڈرسنا نے والا۔(پ22،فاطر:24)
(2) وَ اِنۡ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾
نہیں ہے کوئی جماعت مگر گذرے ان میں ڈرا نے والے ۔(پ22،فاطر:24)
(۳)اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا
کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہ آئے جو تم پر تمہارے رب کی آیات تلاوت کرتے ہیں اور تمہیں اس دن کے ملنے سے ڈراتے ۔(پ۲۴،الزمر:۷۱)
(4) فَاَنۡذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾
اور ڈرایا میں نے تم کو بھڑکتی ہوئی آگ سے ۔(پ30،الیل:14)
(5) اِنَّا اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾
ہم نے قرآن شریف اتارا برکت والی رات میں ہم ہیں ڈرانے والے ۔(پ25،الدخان:3)
ان جیسی بہت سی آیات میں نذر لغوی معنی میں استعمال ہو ا ہے بمعنی ڈرانا، دھمکانا۔ اس معنی میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے اور انبیا ء کرام کے لئے بھی اورعلماء دین کے لئے بھی۔یہ لفظ شرعی معنی میں بھی استعمال ہو اہے رب تعالیٰ فرماتا ہے :
محمد( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم )رسول ہی ہیں ان سے پہلے سارے رسول گزر چکے ۔(پ4،ال عمرٰن:144)
(1) وَمَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمۡ مِّنۡ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ یَعْلَمُہٗ
جو کچھ تم خرچ کر ویانذر مانو کوئی نذر، اللہ اسے جانتا ہے ۔(پ3،البقرۃ:270)
(2) رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطْنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیۡ
اے میرے رب میں نے نذر مانی تیرے لئے اس بچے کی جو میرے پیٹ میں ہے آزاد ۔ پس قبول فرما مجھ سے ۔(پ3،ال عمرٰن:35)
(3) وَلْیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمْ وَلْیَطَّوَّفُوۡا بِالْبَیۡتِ الْعَتِیۡقِ ﴿۲۹﴾
چاہیے کہ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کریں اور پرانے گھر کا طواف کریں ۔(پ17،الحج:29)
(4) اِنِّیۡ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾
میں نے اللہ کے لئے روزے کی نذر مانی ہے پس آج کسی سے کلام نہ کرو ں گی۔ (پ16،مریم:26)
ان جیسی آیات میں نذر سے شرعی معنی مراد ہیں یعنی منت ماننا اور غیر ضروری عبادت کو لازم کرلینا یہ نذر عبادت ہے اس لئے خدا کے سوا کسی بندے کے لئے نہیں ہوسکتی اگر کوئی کسی بندے کی نذر مانتا ہے تو مشرک ہے کیونکہ غیر خدا کی عبادت شرک ہے
چونکہ عبادت میں شرط یہ ہے کہ معبود کو الٰہ یعنی خدا یا خدا کے برابر ماناجائے، اس لئے اس نذر میں بھی یہی قید ہوگی کہ کسی کو خدایا خدا کے برابر مان کر نذر مانی جائے، اگر ناذ ر کا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ جس کی نذر مانی اسے محض بندہ سمجھتا ہے تو وہ شرعی نذر نہیں اسی لئے فقہانے اس نذر میں تقرب کی قید لگائی ۔ تقرب کے معنی عبادت ہیں ۔
یہ بھی خیال رہے کہ اگر کوئی کسی بندے کے نام پر شرعی نذر کرے یعنی اس کی الوہیت کا قائل ہو کر اس کی منت مانے تو اگر چہ یہ شخص مشرک ہوگا اور اس کا یہ کام حرام ہوگا مگر وہ چیز حلال رہے گی اس چیز کو حرام جاننا سخت غلطی ہے اور قرآن کریم کے خلاف ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) مَا جَعَلَ اللہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّلَا سَآئِبَۃٍ وَّلَا وَصِیۡلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰکِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ؕ
نہیں بنایا اللہ نے بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام یہ مشرکین اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ۔(پ7،المآئدۃ:103)
کفار عرب ان چا رقسم کے جانور وصیلہ حام وغیر ہ کو اپنے بتو ں کے نام کی نذر کرتے تھے اور انہیں کھانا حرام جانتے تھے ۔ رب تعالیٰ نے ان کی تردید فرمادی اور فرمایا کہ یہ حلال ہیں جیسے آج کل ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے سانڈ ھ حلال ہیں ۔ اللہ کے نام پر ذبح کر و اور کھاؤ ۔
(2) وَ جَعَلُوۡا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الۡاَنْعَامِ نَصِیۡبًا فَقَالُوۡا ہٰذَا لِلہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا
اور ٹھہر ایا ان کا فروں نے اللہ کا اس کھیتی اور جانوروں میں ایک حصہ پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا حصہ ہے اپنے خیال پر اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے ۔(پ8،الانعام:136)
(3) وَ قَالُوۡا ہٰذِہٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ ٭ۖ لَّا یَطْعَمُہَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی منع ہے اسے نہ کھائے مگر وہ جسے ہم چاہیں۔(پ8،الانعام:138)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار عرب اپنے جانوروں کھیتوں میں بتو ں کی نذر مان لیتے تھے او رکچھ حصہ بتو ں کے نام پر نامز د کردیتے تھے پھر انہیں کھانا یا تو بالکل حرام جانتے تھے جیسے بحیرہ، سائبہ جانور اور یا ان کے کھانے میں پا بندی لگاتے تھے کہ مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں فلاں کھائے فلاں نہ کھائے ۔ ان دونوں حرکتوں کی رب نے تردید ان آیات میں فرمادی:
(1) وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ
اور نہ کہو اپنی زبانوں کے جھوٹ بتانے سے کہ یہ حلال ہے اوریہ حرام۔(پ14،النحل:116)
(2) قُلْ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللہُ لَکُمۡ مِّنۡ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمۡ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا
فرماؤ کہ بھلا دیکھو تو جو اللہ نے تمہارا رزق اتارا تم نے اس میں کچھ حلال بنایا کچھ حرام۔(پ11، یونس: 59)
(3) قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللہِ الَّتِیۡۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ
فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی اور ستھرا رزق۔(پ8،الاعراف:32)
(4) َّحَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَآءً عَلَی اللہِ
ان کافروں نے حرام سمجھ لیا اسے جو اللہ نے انہیں رزق دیا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے ۔(پ8،الانعام:140)
(5) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوۡا لِلہِ اِنۡ کُنۡتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾
اے مسلمانو! کھاؤ وہ ستھری چیز یں جو ہم تمہیں رزق دیں اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔(پ2،البقرۃ:172)
(6) وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللہِ عَلَیۡہِ
اور تمہارا کیا حال ہے کہ نہیں کھاتے اس میں سے جس پر اللہ کانام لیا گیا ۔(پ8،الانعام:119)
(8) اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنۡزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللہِ
اللہ نے صرف مردار کو اور خون کو اور سورکے گو شت کو اور اس جانور کو جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیاجائے تم پر حرام فرمایا۔(پ2،البقرۃ:173)
(9) قَدْ خَسِرَ الَّذِیۡنَ قَتَلُوۡۤا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَیۡرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَآءً عَلَی اللہِ
بے شک نقصان میں رہے وہ جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی اور جہالت سے قتل کر ڈالااور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو حرام کرلیا اللہ پر تہمت لگاتے ہوئے ۔(پ8،الانعام:140)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کے اس عقیدے کی پرزور تردید فرمائی کہ جس جانور اور جس کھیتی وغیر ہ کو بت کے نام پر لگادیا جاوے وہ حرام ہوجاتا ہے۔ فرمایا: تم اللہ پر تہمت لگاتے ہو اللہ نے یہ چیزیں حرام نہ کیں تم کیوں حرام جانتے ہو، جس سے معلوم ہو اکہ بتوں کے نام کی نذر ماننا شرک تھا اور ان کا یہ فعل سخت جرم تھا مگر اس چیز کو حلال ٹھہرایا اس کے حرام جاننے پر عتاب کیا ،اسے حلال رزق اور طیب روزی فرمایا ۔ ان بتوں کے نام پر چھوٹے ہوئے جانوروں کے متعلق حکم فرمایا کہ اللہ کے نام پر ذبح کرو اور کھاؤ کافروں کی باتوں میں نہ آؤ ۔ ایسے ہی آج بھی جس چیز کو غیر خدا کے نام پر شرعی طور پر نذر کر دیا جائے وہ بھی حلال طیب ہے اگرچہ یہ نذر شرک ہے ۔
نذر کے تیسرے معنی عرفی ہیں یعنی کسی بزرگ کو کوئی چیز ہدیہ ، نذرانہ ، تحفہ پیش کرنا یا پیش کرنے کی نیت کرنا کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو حضو ر غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے نام کی دیگ پکاؤں گا یعنی دیگ بھرکھانا خیرات کر وں گا اللہ کے لئے اور ثواب اس کا سرکار بغداد کی رو ح شریف کو نذرانہ کرو ں گایہ بالکل جائز ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایسی نذریں بارگاہ رسالت میں مانی اور پیش کی ہیں او رحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبول فرمائی ہیں نہ یہ کام حرام نہ چیز حرام ۔ اسی کو عوام کی اصطلاح میں نیاز کہتے ہیں بمعنی نذرانہ ۔ اس کا قرآن شریف میں بھی ثبوت ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمِنَ الۡاَعْرَابِ مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ ؕ سَیُدْخِلُہُمُ اللہُ فِیۡ رَحْمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾
کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعا ئیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں یقینا ان کیلئے با عث قرب ہے اللہ جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کریگا ۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ11،التوبۃ:99)
اس آیت میں بتایا کہ مؤمنین اپنے صدقہ میں دونیتیں کرتے ہیں ۔ ایک اللہ کی نزدیکی اور اس کی عبادت، دوسرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں لینا اور خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خوش ہونا ۔ یہ ہی فاتحہ بزرگان دینے والے، ان کی نذر ماننے والے کا مقصد ہوتا ہے کہ خیرات اللہ کے لئے ہو اور ثواب اس بزرگ کے لئے تا کہ ان کی رو ح خوش ہو کرہمیں دعا کرے ۔
اسی لئے عوام کہتے ہیں ، نذر اللہ، نیاز حسین ، اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ جب نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ سے بخیر یت واپس تشریف لائے تو ایک لڑکی نے عرض کیا :
یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّی کُنْتُ نَذَرْتُ اِنْ رَدَّکَ اللہُ صَالِحًا اَنْ اَضْرِبَ بَیْنَ یَدَیْکَ بِالدُّفِ وَاَتَغَنّٰی بِہٖ فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ کُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِ بِیْ وَاِلَّا فَـلَا ۔ ( مشکوۃ باب مناقب عمر)
(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،الحدیث۶۰۴۸، المجلدالثانی،ص۴۱۹،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضور میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ عزوجل آپ کو بخیر یت واپس لائے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں اور گاؤں،سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے نذرمانی ہے تو بجاؤ ورنہ نہیں۔
اس حدیث میں لفظ نذر اسی نذرانہ کے معنی میں ہے نہ کہ شرعی نذرکیونکہ گانا بجاناعبادت نہیں صرف اپنے سرور وخوشی کا نذرانہ پیش کرنا مقصود تھا جو سرکار میں قبول فرمایا گیا ۔ یہ عرفی نذر ہے جو ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مانتی ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے پورے کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔
اسی مشکوۃ کے حاشیہ میں بحوالہ ملا علی قاری ہے وان کان السرور بمقدمہ الشریف نفسہ قربۃ. (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب مناقب والفضائل، باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،تحت الحدیث۶۰۴۸،ج۱۰، ص۴۰۳،دارالفکربیروت)
”حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری پر خوشی منانا عبادت ہے۔”
غرضکہ اس قسم کی عرفی نذریں عوام وخواص میں عام طو پر مروج ہیں۔ استا د ، ماں ، باپ ،شیخ سے عرض کرتے ہیں کہ یہ نقدی آپ کی نذر ہے اسے شرک کہنا انتہا درجہ کی بیوقوفی ہے ۔