اسلام
اسماء مبارکہ
عرب کا مشہور مقولہ ہے کہ ” کَثْرَۃُ الْاَسْمَآءِ تَدُلُّ عَلٰی شَرَفِ الْمُسَمّٰی” یعنی کسی چیز کے ناموں کا بہت زیادہ ہونا اس بات کی دلیل ہوا کرتی ہے کہ وہ چیز عزت و شرف والی ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چونکہ خلاق عالم جل جلالہ نے اس قدر اعزاز و اکرام اور عزت و شرف سے سرفراز فرمایا ہے کہ آپ امام النبیّین، سید المرسلین، محبوب رب العالمین عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسماء مبارکہ اور القاب بہت زیادہ ہیں۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پانچ نام ہیں میں (۱) ”محمد ”و(۲)”احمد” ہوں اور میں (۳) ”ماحی” ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میری و جہ سے کفر کو مٹاتا ہے اور میں(۴) ”حاشر” ہوں کہ میرے قدموں پر سب لوگوں کا حشر ہو گا اور(۵) ”عاقب” ہوں۔ (1) (یعنی سب سے آخری نبی)(بخاری ج۱ ص۵۰۱ باب ماجاء فی اسماء رسول اﷲعزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
قرآن مجید میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے القاب و اسماء بہت زیادہ تعداد میں مذکور ہیں۔ چنانچہ بعض علماء کرام نے فرمایا کہ خداوند قدوس کے ناموں کی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بھی ننانوے نام اورعلامہ ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایاکہ اگرحضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان تمام ناموں کو شمار کیا جائے جو قرآن و حدیث اور اگلی کتابوں میں مذکور ہیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناموں کی گنتی تین سو تک پہنچتی ہے اور بعض صوفیاء کرام کا بیان ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے بھی ایک ہزار نام ہیں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناموں کی تعداد بھی ایک ہزار ہے۔ (2)
(زرقانی جلد۳ ص۱۱۸)
بہر حال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام اسماء مبارکہ میں سے دو نام سب سے زیادہ مشہور ہیں ایک ”محمد” دوسرا ”احمد” (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ”محمد” رکھا اور اسی نام پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا عقیقہ کیا جب لوگوں نے پوچھا کہ اے عبدالمطلب!آپ نے اپنے پوتے کا نام ”محمد” کیوں رکھا آپ کے آباء و اجداد میں کسی کا بھی یہ نام نہیں رہا ہے۔ تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے اس نیت سے اور اس امید پر اس بچے کا نام ”محمد” رکھا ہے کہ تمام روئے زمین کے لوگ اس کی تعریف کریں گے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ نے یہ کہا کہ میں نے اس امید پر ”محمد” نام رکھا کہ اﷲ تعالیٰ آسمانوں میں اس کی تعریف فرمائے گا اور زمین میں خدا کی تمام مخلوق اس کی تعریف کرے گی،اور حضرت عبدالمطلب کی اس نیت اور امید کی و جہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میری پیٹھ سے ایک چاندی کی زنجیر نکلی جس کا ایک کنارہ زمین میں ہے اور ایک سرا آسمان کو چھو رہا ہے اور تمام مشرق و مغرب کے انسان اس زنجیر سے چمٹے ہوئے ہیں حضرت عبدالمطلب نے جب قریش کے کاہنوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو انہوں نے اس خواب کی یہ تعبیر بتائی کہ اے عبدالمطلب!آپ کی نسل سے عنقریب ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا کہ تمام اہل مشرق و مغرب اس کی پیروی کریں گے اور تمام آسمان و زمین والے اس کی مدح و ثنا کا خطبہ پڑھیں گے۔ (1) (زرقانی جلد۳ ص۱۱۴ تا ۱۱۵)
اور بعض کا قول ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ”محمد” رکھا ہے کیونکہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے شکم مبارک میں رونق افروز تھے تو انہوں نے خواب میں ایک فرشتہ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اے آمنہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہ سارے جہان کے سردار تمہارے شکم میں تشریف فرما ہیں جب یہ پیدا ہوں تو تم ان کا نام ”محمد” رکھنا۔(2) (زرقانی جلد۳ ص۱۱۵)
ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے اپنے اور حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے خوابوں کی و جہ سے دونوں نے باہمی مشورہ سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام ”محمد” رکھا ہو۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ”محمد” کے نام سے ذکر فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ”احمد” کے نام سے تمام زندگی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر جمیل کا ڈنکا بجاتے رہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہ،ۤ اَحْمَدُط (1) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ خوشخبری سناتے ہوئے تشریف لائے تھے کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لانے والے ہیں جن کا نامِ نامی و اسم گرامی ”احمد ” ہے۔