اسلام
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بحیثیت مفسر قرآن حکیم
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
بحیثیت مفسر قرآن حکیم
بقلم : مولانا محمد حنیف قادری نظامی‘ کامل الفقہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں جو مفسرین پیدا ہوئے ان میں تیرہویں صدی ہجری کی نابغۂ روزگار شخصیت‘ جامع الصفات ہستی‘ فضیلت جنگ شیخ الاسلام علامہ محمد انوار اللہ فاروقیؒ بھی شامل ہیں، جو بیک وقت قوم کے ریفار، علوم اسلامیہ کے محقق، ماہر تعلیم ‘ محدث‘ فقیہ، صاحب تصنیف وتالیف اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ اسلامیات کے علاوہ آپ کو ادب، فلسفہ، تاریخ جغرافیہ، طب، سائنس وغیرہ پر بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی فارسی اردو میں بے تکان لکھتے تھے، جس کی شاہدآپ کی اکثر تصانیف ہیں۔ ’’تفسیرات انوار‘‘ آپ کے رواں قلم اور شستہ تحریروں پر مبنی کتب انوار احمدی‘ مقاصد الاسلام (گیارہ حصے) افادۃ الافہام (دو حصے) انوار الحق، حقیقۃ الفقہ (دو حصے) کے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے تفسیری نکات کا نقش جمیل اور آپ کے قرآنی افکار کی آئینہ دار ہے۔ جس کی خوبی یہ ہے کہ قرآنی الفاظ کے معانی کے درہائے نایاب کے حصول کے علاوہ دعوت اسلامی کی تفہیم وتدبر کا شعور نیز عصر حاضر کی اعتقادی وفکری نفسیات وزیغ کے کامل علاج کا نسخۂ کیمیاء بھی ہے۔ شیخ الاسلامؒ کے تفسیری نکات میں سوادِ اعظم کے مسلک اہل سنت وجماعت کی بھر پور ترجمانی اور طرزِبیان میں دل نشینی ملتی ہے، جس سے کلام خداوندی کو سمجھ کر پڑھنے کا داعیہ اور جذبہ ابھرتا ہے۔ یہ آپ کے قلم فیض رقم کا فیضان ہی ہے کہ وصال کے ۹۲ سال بعد بھی آپ کے رشحات آج بھی ارباب ذوق اور امت کے دانشور طبقہ کی راحت وفرحت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ شیخ الاسلامؒ کی قائم کردہ دانش گاہ جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل سپوتوں نے علم وادب کی راہوں میں ہیروں کو تراشا ہے ان کی سنجیدہ علمی وقلمی کاوشیں زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور وقت کی ضرورتوں کی تکمیل ہوا کرتی ہے۔ ’’تفسیرات انوار‘‘ کے جامع ومؤلف مولانا محمد حنیف قادری کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے، جو جامعہ کی اعلی سند’’ کامل الفقہ‘‘ یافتہ، جواں سال محقق، خطیب، قرآن وسنت کے سرگرم مبلغ، با صلاحیت معلم ہونے کے ساتھ تصنیف، تالیف ،تحقیق اور ترجمہ کا ذوق لطیف رکھتے ہیں۔ بانی ومادر علمی کی بے پناہ محبت کے وسیلے بڑی جانفشانی، کمال استعداد اور غیر معمولی کاوش کے ذریعہ قابل ستائش علمی خدمات انجام دی ہے، جیسا کہ انہو ںنے حضرت شیخ الاسلامؒ کے علمی وعرفانی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’تفسیرات انوار‘‘ کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے ’’خواص کے ساتھ عوام کے فائدۂ کثیر کے لیے مختلف تصانیف میں لعل وموتی بکھیرے آپ کے عقائد وافکار، آراء وتدابیر، جو در اصل قرآن وحدیث کا خلاصہ ونچوڑ ہیں ان کو یکجا کرنا بے حد مفید اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اور مفکرِ اسلام مولانا مفتی خلیل احمد مد ظلہ کے الفاظ میں ’’تفسیرات انوار‘‘کی ترتیب کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلبہ واساتذہ اور عوام کو یہ معلوم ہوجائے کہ قرآن مجید کی صحیح تفسیر کیا ہے اوریہ ثابت کیا جائے کہ غلط تفسیر وتشریح کی وجہ سے کس طرح گمراہی آتی ہے۔ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ اسلوب خاص رہا ہے کہ مسئلہ کو اپنی رائے یا قیاس کے ذریعہ سمجھانے کے بجائے قرآن وحدیث کے صحیح استدلال سے ثابت کرتے ہیں، اس کی وجہ سے ہر پڑھنے والا اور سننے والا متاثر ہوتا ہے اور حق کو قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی‘‘۔ ویسے بھی یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قرآنی آیات یا اس کے تفسیر وترجمہ کا اثر اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب استفادہ کرنے والا خوش عقیدہ اور یقین پختہ کا حامل ہو۔ تفسیرات انوار ’’یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم‘‘ کی توثیق کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ اکیسویں صدی کے مشینی مادہ پرست، جنس زدہ اور اخلاقی گراوٹ کے ماحول اور قرآنی آیات کی بے جا تاویلات، اسلاف کے اعمال وافکار اور اقدار پر مباحثہ ومناظرہ کی گرم بازاری میں یہ تفسیری جواہر جیسے جیسے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتے ہیں قارئین کے لیے نور افزائے بصارت وبصیرت ہوتے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ’’تفسیرات انوار‘‘ عنایات الہی اور فضل نا متناہی ہے خدمت قرآن کی یہ توفیق لائق صد تبریک وتہنیت ہے۔ ’’تفسیرات انوار‘‘ شاہراہِ ہدایت کا سنگ میل، نوجوان نسل کی ذہنی، اعتقادی وفکری امراض کا سد باب ہے۔ ۱۷۰ ذیلی عناوین ۲۷۰ ڈیمی سائز صفحات، مشینی خطاطی، عمدہ کاغذ، دیدہ زیب ٹائٹل وطباعت، مفکرِ اسلام کی گراں قدر تقریظ کے ساتھ ممتاز عالم شیخ الحدیث مولانا محمد خواجہ شریف صاحب کے بنا کردہ جنوبی ہند کے دینی وعصری علوم کے امتزاج المعہد الدینی العربی شاہ علی بنڈہ میں واقع نشریاتی ادارہ مرکز احیاء الادب الاسلامی نے اس کو اہتمام سے شائع کیا ہے ذیل کے مضمون میں بطورِ تلخیص حضرت شیخ الاسلام کے چند تفسیری نکات ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ (مرتب)
تخلیق کائنات کا اہم ترین مقصد معرفت محمدی:
حضور اکرم ﷺ کی شان ’’وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی ‘‘ہے،وحی قرآن وحدیث دونوں پر شامل لہذا اس کے مضامین میں اختلاف نہیں پایا جاتا، ارشاد ہے ’’لو کان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا‘‘ چنانچہ حدیث شریف ’’لولاک لما خلقت الدنیا‘‘ (مواہب لدنیہ) اور آیت مبارکہ ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ میں تطبیق دیتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’پس اس حدیث شریف کو ایسی سمجھنا چاہیے جیسے آیہ شریفہ ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ یعنی نہیں پیدا کیا میں نے جن وانس کو مگر تا کہ میری عبادت کریں اور ایک تفسیرمیں ’’ تا کہ پہچانیں مجھ کو‘‘ اب یہاں ایک دوسرا شبہ یہ پیدا ہوا کہ اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوا کہ جن وانس کی تخلیق عبادت یا معرفت کے لئے ہے اور حدیث ابن عباسؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ﷺ کے فضائل پر واقف کرانے کے لئے جواب اسکا یہ ہے کہ ضرور نہیں کہ ہر کام میں ایک ہی مقصود ہوا کرے ادنی عقلمند کے ایک ایک کام میں کتنے اغراض ہوا کرتے ہیں چہ جائے کہ خدائے تعالی کا کام اور وہ بھی اتنا بڑا جو آفرنیش عالم ہے اسمیں صرف ایک ہی مقصود رہنا کیا ضرور دیکھ لیجئے عناصر اربعہ سے کتنے کام لئے جاتے ہیں کہ اگر غور کیا جائے تو عقل حیران ہوجائے، کیا تخلیق کے وقت یہ سب اغراض ومنافع پیش نظر نہ ہونگے، پھر اگرآفرینش ثقلین سے دونوں مقصود ہوں تو کیا قباحت لازم آئے گی، بلکہ ثقلین اگر باحسن وجوہ عبادت کریں اور تقرب الہی انہیں حاصل ہو جائے تو حضرتﷺ کا مرتبہ باحسن وجوہ سمجھ لیں گے، ہاں جن وانس کی نسبت اتنا لازم آسکتا ہے کہ ایک قصد اولی ہو اور ایک قصد ثانوی اور ممکن ہے دونوں اولی ہوں، اگر کہا جائے کہ جب مقصود یہ تھا تو کفار نے پھر تصدیق کیوں نہ کی، سو جواب اسکا یہ ہے کہ یہی اعتراض بعض لوگ آیہ شریفہ پر کرتے ہیں کہ باوجود یکہ تخلیق عبادت کے لئے ہے پھر کفار عبادت کیوں نہیں کرتے، جو جواب اس کا دیا جاتاوہی جواب یہاں بھی ہوگا، حالانکہ کفار کا حضرتﷺ کو جاننا خود قرآن شریف سے بھی ثابت ہوچکا، اگر چہ مناسب اس موقع کے اور احادیث ومباحث ہیں مگر بخوف تطویل اختصار کیا گیا ہے‘‘(۱)۔
سلام عبادت محضہ کا حصہ ہے
تشہد میں سلام حکائی ہے یا انشائی ہے اس پر بحث کے دوران فرماتے ہیں سلام جب عبادت محضہ کا اک حصہ ہے تو دوسرے اوقات میں ہمیں اسکا کتنا اہتمام کرنا چاہئیے سلام کے وقت کھڑے ہونے پر ’’قوموا للہ‘‘ کو جو معرض اعتراض میں لا یا جاتا ہے اسکا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’الغرض جب کسی وقت خاص میں سلام عرض کرے تو چاہئیے کہ کمالِ ادب کے ساتھ کھڑا ہو اور دست بستہ ہو کر السلام علیک یا سیدنا رسول اﷲﷺ السلام علیک یا سیدنا سید الاولین والآخرین وغیرہ صیغہ جن میں حضرت کی عظمت معلوم ہو عرض کرے اب یہاں شاید کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ قیام میں تشبیہ بالعبادت ہے اور وہ جائز نہیں تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب عین عبادت میں یہ سلام جائز ہوا تو تشبیہ بالعبادت میں کیوں نہ ہو۔ اگر کہا جائے کہ ’’قوموا ﷲقانتین‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام خاص اﷲتعالیٰ کے واسطے چاہئیے تو ہم کہیں گے کہ بے شک نماز کا قیام خاص اﷲتعالی کے واسطے ہے اور اگر مطلق قیام کی اسمیں تخصیص ہوتی تو لفظ ﷲکی ضرورت نہ تھی خلاصہ یہ کہ اس آیہ شریفہ سے نماز کا قیام فرض ہوا نہ یہ کہ انحصار قیام کا اسمیں ثابت ہوا اگر یہی بات ہوتی تو کوئی قیام درست ہی نہ ہوتا حالانکہ جمہور محدثین وفقہاء کے نزدیک علاوہ اور مقاموں کے کسی کے اکرام کے واسطے کھڑا رہنا بھی درست ہے، چنانچہ اس مسئلہ کو حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں بشرح وبسط لکھا ہے‘‘(۲)۔
یا ایہا النبی خطاب محمدی است
اﷲتعالی نے حضور شفیع المذنبین ﷺ کو کہیں نام لیکر ندا نہیں فرمائی، بعض لوگ نام لیکر پکارنے لگے تو انکو لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا سے ادب سکھایا گیا۔
دعاء الرسول میں مصدر کی اضافت فاعل کی طرف ہو تو معنی ہوا رسول کا طلب فرمانا، اور مصدر کی اضافت مفعول کی طرف ہو تو ترجمہ ہوا رسول کو بلانا۔اضافت فاعل کی طرف ہو یا مفعول کی ہر دو صورت میںادب لازمی امر ہے۔ اسکی تفسیر میں حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’اور بعض لوگ کبھی آنحضرت ﷺ کو بحسب عرف وعادت صرف نام کے ساتھ پکارتے ان کو ادب سکھایا گیا کہ:
’’لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا‘‘ ترجمہ مت ٹھیراؤ رسول اللہ(ﷺ) کا بلانا درمیان اپنے اس کے برابر جو بلاتا ہے تم میں ایک کو ایک۔
الحاصل حق تعالیٰ کو اتنی بات بھی ناگوارا ہے کہ اپنے حبیب کریم ﷺ کو کوئی شخص نام لیکر پکارے، اور طرفہ یہ ہے کہ خود حق تعالی نے بھی تمام قرآن شریف میں حضرت ﷺ کو نام کے ساتھ کہیں خطاب نہ فرمایا بلکہ جب خطاب کیا یا ایہا النبی وغیرہ صفات کمالیہ ہی ذکر کئے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کمال درجہ کی عظمت آنحضرت کی معلوم کرانا حق تعالی کو منظور ہے، ورنہ وہی حضرت آدم اور دوسرے انبیائے الوالعزم علیہم السلام ہیں کہ جنکو باوجود اس جلالت شان کے نام ہی کے ساتھ برابر خطاب ہوا کیا جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے۔شعر
یآدم است باپدر انبیا خطاب
یا ایہا النبی خطاب محمدی است
یہاں سے ایک بات اور بھی معلوم ہوئی کہ قرآن شریف میں گویا ایک قسم کا التزام نعت نبوی کا کیاگیا ہے، اس لئے کہ ظاہر ہے کہ مقصود ندا سے یہی ہوتا ہے کہ منادیٰ اپنی ذات سے ندا کرنے والے کی طرف متوجہ ہو تو چاہئیے کہ ندا ان الفاظ کے ساتھ ہو جو منادی کی ذات پر دلالت کریں، اس مقصود کے پورا کرنے میں علم یعنی نام درجہ اول میں سمجھا جائیگا کیونکہ اصل غرض اس سے یہی ہے کہ ذات پر دلالت کرے، پھر کسی خاص صفت کے ساتھ ندا جو جائز ہے اسکی یہی وجہ ہوگی کہ اس سے ذات پر دلالت ہوجاتی ہے جو اس مقام میں مقصود بالذات ہے، ورنہ معنی وصفی جو زائد علی الذات اور مقتضی نکارت ہیں اس کو ندا کے ساتھ جو مقتضی تعیین ہے کوئی مناسبت نہیں۔ بہر حال منادی کا علم ذکر نہ کرکے اوصاف جو ذکر کئے جاتے ہیں وہاں دو مقصود پیش نظر ہوتے ہیں ایک توجہ منادی کی دوسری تو صیف اگرچیکہ باعتبار ندا کے توصیف ایک امر زائد ہے لیکن اسوجہ سے کہ قصداً اوصاف ذکر کئے جاتے ہیں توتوصیف بھی وہاں ایک امر مستقل اور مقصود بالذات ہوجاتی ہے۔ اب اس تقریر کو مانحن فیہ پر منطبق کیجئے کہ حق تعالیٰ نے جو اوصاف آنحضرت ﷺ ندا کے ساتھ ذکر کئے ہیں اگرچیکہ وہاں ندا مقصود بالذات ہے مگر خاص اوصاف ہی کو ذکر کرنے سے معلوم ہوا کہ نعت بھی ایک مقصود اصلی اور مستقل برأسہ ہے ورنہ مثل اور انبیاء علیہم السلام کے نام مبارک کے ساتھ ندا فرماتا جب تمامی قرآن شریف میں یہ التزام کیاگیا تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حق تعالی کو کس قدر نعت شریف کا اہتمام منظور ہے‘‘(۳)۔
گستاخِ رسول گردن زدنی کے قابل
بارگاہ نبوی ﷺ کے آداب کی تعلیم میں اولًا تو آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا پھر خدمت میں کچھ عرض کرنے کے لئے نام لیکر پکارنے سے روکا گیا اور ایسے الفاظ کے استعمال کو بھی حرام کیاجومحل تعظیم میں استعمال ہوں مگر اسمیں کسی اور کے پاس بے ادبی کا پہلو ہو، استاذ سلاطین دکن حضرت بانی جامعہ علیہ الرحمہ آیہ مبارکہ ’’لا تقولوا راعنا‘‘ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حاصل یہ کہ ہر چند صحابہ اس لفظ کو نیک نیتی سے تعظیم کے محل میں استعمال کیا کرتے تھے، مگر چونکہ دوسری زبان میں گالی تھی حق تعالی نے اس کے استعمال سے منع فرمادیا، اب یہاں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس لفظ میں کنایۃً بھی توہین مراد نہ تھی بلکہ صرف دوسری زبان کے لحاظ سے استعمال اسکا ناجائز ٹھیرا تو وہ الفاظ نا شائستہ جسمیں صراحۃً کسر شان ہو کیونکر جائز ہوں گے اگر کوئی کہے کہ مقصود ممانعت سے یہ تھا کہ یہود اس لفظ کو استعمال نہ کریں تو ہم کہیں گے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے مگر اسمیں شک نہیں کہ نہی صراحۃً خاص مومنین کو ہوئی جن کے نزدیک یہ لفظ محل تعظیم میں مستعمل تھا تو مثل اور انکی شرارتوں کے اسکا ذکر بھی یہیں ہوجاتا۔ صرف مومنین کو مخاطب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ نیک نیتی سے بھی استعمال کرنا درست نہیں پھر سزا اسکی یہ ٹھیرا ئی گئی کہ جو شخص یہ لفظ کہے خواہ کافر ہو یا مسلمان اسکی گردن مار دی جائے بالفرض اگر کوئی مسلمان بھی یہ لفظ کہتا تو اس وجہ سے کہ وہ حکم عام تھا بے شک مارا جاتا اور کوئی یہ نہ پوچھتا کہ تم نے اس سے کیا مراد لی تھی، اب غور کرنا چاہئیے کہ جو الفاظ خاص توہین کے محل میں مستعمل ہوتے ہیں، آنحضرت ﷺ کی نسبت استعمال کرنا خواہ صراحۃً ہو یا کنایۃً کس درجہ قبیح ہوگا اگر صحابہ کے روبرو جن کے نزدیک راعنا کہنے والا مستوجب قتل تھا کوئی اس قسم کے الفاظ کہتا تو کیا اسکے قتل میں کچھ تامل ہوتایا یہ تاویلات باردہ مفید ہوسکتیں؟ ہرگز نہیں مگر اب کیاہوسکتا ہے سوائے اسکے کہ اس زمانہ کو یاد کرکے اپنی بے بسی پر رویا کریں، اب وہ پرانے خیالات والے پختہ کار کہاں جنکی حمیت نے اسلام کے جھنڈے مشرق ومغرب میں نصب کردئیے تھے، ان خیالات کے جھلملاتے ہوئے چراغ کو آخری زمانہ کی ہوا دیکھ نہ سکی، غرض میدان خالی پا کر جسکا جی چاہتا ہے کمالِ جرات کے ساتھ کہدیتا ہے ، پھر اس دلیری کو دیکھئے کہ جو گستاخیاں اور بے ادبیاں جو قابل سزا تھیں، انہیں پر ایمان کی بنا قائم کی جارہی ہے جب ایمان یہ ہو تو بے ایمانی کا مضمون سمجھنے میں البتہ غور تامل درکار ہے‘‘(۴)۔
اور اس آیہ شریفہ میں حق تعالیٰ نے ایک قسم کی تادیب کی ہے’’ قولہ تعالٰی: ما کان لکم ان تؤذوا رسول اﷲولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذلک کان عنداﷲعظیما ان تبدوا شئیا او تخفوہ فان اﷲکان بکل شئی علیما‘‘ ترجمہ: نہیں لائق ہے تم کو کہ ایذا دو رسول اﷲﷺ کو اور نہ یہ کہ نکاح کرو تم ان کے ازواج مطہرات کو کبھی بعد ان کے یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے اﷲتعالیٰ کے نزدیک اگر ظاہر کرو تم کچھ یا چھپاؤ اﷲتعالی سب جانتا ہے۔
ازواجِ مطہرات کی شان میں بے ادبی عذاب کا داعی
اور اس آیہ شریفہ میں بھی ادب سکھایا گیا ہے ’’قال اﷲ تعالٰی: ولولااذ سمعتموہ قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بہذا سبحانک ہذا بہتان عظیم یعظکم اﷲان تعودوا لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین‘‘ ترجمہ: اور کیوں نہ جب تم نے اسکو سنا تھا کہا ہوتا ہمکو نہیں لائق کہ منہ پر لائیں یہ بات اﷲتو پاک ہے یہ بڑا بہتان ہے ، اﷲتعالیٰ تمکو سمجھاتا ہے کہ پھر نہ کرو ایسا کام کبھی اگر ہو تم ایمان والے انتہی، منافقوں نے حضرت عائشہ ؓ کی نسبت ایک ایسی بات مشہور کی تھی جسکی حکایت بھی مذموم سمجھی جاتی ہے جب ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا صحابہ نے بھی اس خبر کو حیرت سے آپس میں ذکر کیا ہر چند آنحضرت ﷺ نے اس امر میں نہایت حلم کو کام فرمایامگر حق تعالیٰ کو یہ کب گوارا تھا کہ اپنے حبیب ﷺ کے ناموس میں کسی قسم کا دھبہ مسلمانوں کے خیال میں لگے ساتھ ہی غیرت کبریائی جوش میں آئی اور کمالِ عتاب سے فرمایا کہ اس خبر کے سنتے ہی تم نے یہ کیوں نہیں کہدیا کہ یہ بہتان ہے پھر فرمایا کہ خدا کا فضل تھا کہ تم بچ گئے ورنہ سخت عذاب میں مبتلا کئے جاتے چنانچہ۔
ارشاد ہوتا ہے ’’ولولا فضل اﷲعلیکم ورحمتہ فی الدنیا والاخرۃ لمسکم فیما افضتم فیہ عذاب عظیم اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون بافواہکم ما لیس لکم بہ علم وتحسبونہ ہینا وہو عنداﷲعظیم‘‘ ترجمہ: اگر نہ ہوتا اﷲتعالیٰ کا فضل تم پر دنیا اور آخرت میں تو البتہ پہونچتا تمکو اس چرچا کرنے میں عذاب بڑا جب لینے لگے تم اس خبر کواپنی زبانوں پر اور بولنے لگے اپنے منہ سے جس چیز کی تم کو خبر نہیں اور تم سمجھتے ہو اسکو ہلکی بات اور وہ اﷲتعالیٰ کے پاس بہت بڑی ہے انتہی۔ اسمیں شک نہیں کہ جن لوگوں نے یہ خبر اڑائی تھی منافق تھے جیسا کہ اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے ’’والذی تولی کبرہ منہم لہ عذاب عظیم‘‘ جسکی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ مراد اس سے عبداﷲبن ابی ابن سلول ہے جو سرغنہ منافقوں کا تھا، مگر صحابہ یہ تو جانتے ہی نہ تھے کہ وہ لوگ منافق ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے (جنکودشمنوں کی بھی پردہ دری منظور تھی) منافقوں کے نام عموما بتلائے نہ تھے جس سے سننے والے جان لیتے کہ منشا اس خبر کا انہیں موذیوں کا خبث باطن ہے پھر ان حضرات کے نزدیک کونسی دلیل تھی جس سے اس خبر کی قطعاً تکذیب کردیتے اور اس عام شہرت کو باطل سمجھتے، اگر نفس خبر کو دیکھئیے تو شرعاً اور عرفاً ہر طرح سے محتملِ صدق وکذب ہے اور اگر مخبروں کی تعداد اور خبر کی شہرت کا لحاظ کیجئے تو دوسری جانب کی ترجیح ہوئی جاتی ہے، باوجود اس کے کلامِ الہی جو زجر وتوبیخ کر رہا ہے کہ اسکی تکذیب میں تامل کیوں کیا پھر اس پر علاوہ یہ سرزنش کے خدائے تعالیٰ کا فضل تھا جو بچ گئے ورنہ اس معاملہ میں سخت عذاب نازل ہوتا اسکی کوئی وجہ ظاہر معلوم نہیں ہوتی سوائے اسکے کہ پاسِ ادب میں تساہل کیا گیا مقتضائے ادب اور حسنِ عقیدت یہی تھا کہ صاف کہدیتے کہ ازواجِ مطہرات جنکو ایک خاص نسبت آنحضرت ﷺ کے ساتھ حاصل ہے ان کی شان میں ہم ایسا گمان فاسد ہرگز نہیں کرسکتے اس خبر کی تکذیب کے واسطے یہ ایک قرینہ ایسا کافی ووافی تھا کہ اسکے مقابل اگر ہزار شہرت ہو قابلِ التفات نہیں۔
الحاصل: اس معاملہ میں ایک قسم کی کسر ِشان آنحضرت ﷺ کی لازم آتی تھی، اس لئے ان آیات میں مسلمانوں کی تادیب کر دی گئی اور اسکے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ ہمیشہ اس قسم کے امور سے احتراز اور اجتناب کیا کریں چنانچہ ارشاد ہے ’’یعظکم اﷲان تعود وا لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین‘‘ اگر چہ کہ سوائے اسکے اور بہت آیات ہیں جن میں تعلیم ادب کی گئی ہے‘‘(۵)۔
حضور اکرم ﷺ بحیاتِ ابدی تشریف رکھتے ہیں
اسی سے متعلق حدیث بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’بخاری شریف میں روایت ہے ’’عن السائب بن یزید قال کنت قائما فی المسجد رجل فحصبنی رجل فنظرت فاذا عمر بن الخطاب فقال اذہب فامتنی بہذین لہما قال من انتما او من این انتما قالا من اہل الطائف قال لو کنتما من اہل البلد لاوجعکتما ترفعان اصواتکما فی مسجد رسول اﷲﷺ‘‘
ترجمہ: حضرت سائب بن زید ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک بار مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری دیکھا تو عمر بن خطابؓ ہیں کہا جاو اور ان دو شخصوں کو لے آؤ جب ان دونوں کو انکے پاس لے گیا تو پوچھا تم کون ہو یا کہاں والے ہو کہا طائف والے فرمایا اگر تم اس شہر والے ہوتے تو میں ضرور تمکو اذیت پہنچاتا اور مارتا، رسول اﷲ ﷺ کی مسجد میں تم آواز بلند کرتے ہو انتہی، اس خبر سے ظاہر ہے کہ مسجد شریف میں کوئی آواز بلند نہیں کرسکتا تھا، اور اگر کرتا تو مستحق تعزیر سمجھا جاتا تھا باوجود یکہ سائب بن زید چنداں دور نہ تھے مگر اسی ادب سے حضرت عمرؓ نے انکو پکارا نہیں بلکہ کنکری پھینک کر اپنی طرف متوجہ کیا، یہ تمام ادب اسی وجہ سے تھے کہ آنحضرت ﷺ بحیاتِ ابدی وہاں تشریف رکھتے ہیں، کیونکہ اگر لحاظ صرف مسجد ہونے کا ہوتا تو فی مسجد رسول اﷲ ﷺ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس تعزیر کو اہلِ بلد کیلئے خاص فرمایا جنکو مسجد شریف کے آداب بخوبی معلوم تھے اگر صرف مسجد ہی کا لحاظ ہوتا تو اہلِ طائف بھی معذور نہ کہے جاتے کیونکہ آخر وہاں بھی مسجدیں تھیں‘‘(۶)۔
پھر بھی لستُ مِثْلُکُم فرمادیا اَخیار سے
حضور اکرمﷺ کی یہ متواضعانہ شان تھی کہ دشمنوں کی ایذا رسانی کی بھی پروا نہ فرماتے اور صحابہ کرام سے (اخی) بھائی سے مخاطب فرماتے ’’انما انا بشر مثلکم‘‘ اور اس جیسی آیات واحادیث کا سہارا لیکر بعض بے ادبوں نے ہمسری کا دعوی کیا ان کے اس باطل خیال کارد فرماتے ہوئے حضرت سیدنا شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’اگر عام جن وانس آنحضرت ﷺ کی عظمت کو نہ مانیں تو انہیں کا نقصان ہوگا اس سے عظمت میں حضرت ؑ کے کسی قسم کا دھبہ نہیں آسکتا، اب یہ دیکھنا چاہئے کہ باوجود اتنے معجزات اور کھلی کھلی دلیلوں کے کیا سبب تھا کہ کفار کو آنحضرت ﷺ کی عظمت میں کلام رہا کیا، بات یہ ہے کہ ہر نفس کی جبلت میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے ہم جنس پر اپنی تعلي اور بڑائی ہو، چنانچہ لڑکوں تک یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ اگر ان کے ہم جنس کسی لڑکے سے انہیں اچھا کہے تو خوش اور برا کہے تو نا خوش ہوتے ہیں بلکہ رونے لگتے ہیںچونکہ مرتبہ رسالت کا کفار کے ذہنوں میں نہایت جلیل القدر تھا اور تصدیق رسالت میں انبیاء کی ہر طرح ان پر فضیلت ثابت ہوتی تھی جس سے وہ اپنی کسر شان سمجھے تھے اس لئے نفوس پر ان کے یہ امر نہایت شاق ہوا اور کہنے لگے ’’ان انتم الا بشر مثلنا‘‘ یعنی تم تو ہم جیسے بشر ہی ہو کچھ فرشتہ نہیں جو فضیلت تمہاری مانی جائے حالانکہ ابتداء ً دعوت انبیاء کی صرف توحید کی طرف تھی جس کے کفار بھی مقر تھے، چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’ولئن سالتہم من خلق السموات والاض لیقولن اللہ‘‘ ترجمہ: اگر پوچھیں آپ کہ کون پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو توالبتہ کہیںگے اللہ، وقال اﷲتعالی ’’ولئن سالتہم من خلقہم لیقولن اﷲ‘‘ ترجمہ: اگرپوچھیں آپ ان سے کہ کون پیدا کیا انکو البتہ کہیں گے: اﷲ، وقال تعالی ’’قل تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اللہ‘‘ ترجمہ: کہئے کہ آؤ ایک طرف ایک بات کہ جو برابر ہے تم میں اور ہم میں کہ نہ عبادت کریں ہم سوائے اﷲتعالیٰ کے انتہی، خلاصہ یہ کہ جو بات انکے مسلمات سے تھی اسکو ماننا بھی ان کے نفوس پر شاق تھا کیونکہ اس سے رسالت کی تصدیق سمجھی جاتی تھی، پھر اگر کوئی طالب حق عاقبت اندیش انبیاء کی طرف مائل ہوتا تو اسکوبھی عار دلاتے کہ یہ تو مثل تمہارے کھانا کھاتے ہیں پانی پیتے ہیں بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں کچھ فرشتے نہیں جوانکی تم پر فضیلت ہو اپنے ہم جنس کی اطاعت کرنا بڑی ذلت کی بات ہے کما قال تعالی حکایۃ’’قال مالہذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق‘‘ ترجمہ: اور کہنے لگے یہ کیا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور پھرتا ہے بازاروں میں انتہی ایضا فقال الملاء الذین کفروا من قومہ ما ہذا الا بشر مثلکم یرید ان یتفضل علیکم ولو شاء اﷲلا نزل ملئکۃ‘‘ ترجمہ: تب بولے سردار جو منکر تھے اس قوم کے یہ کیا ہے ایک آدمی ہے جیسے تم چاہتا ہے کہ بڑائی کرے تم پر اور اگر اﷲتعالیٰ چاہتا تو اتارتا فرشتے انتہی ایضا وقال الملاء الذین من قومہ الذین کفروا وکذبوا بلقاء الاخرۃ واترفناہم فی الحیوۃ الدنیا ما ہذا الابشر مثلکم یاکل مما تاکلون منہ ویشرب مما تشربون‘‘ ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذا لخاسرون‘‘ ترجمہ: اور بولے سردار انکی قوم کے جو منکر تھے اور جھٹلاتے تھے آخرت کی ملاقات کو جنکو آرام دیا تھا ہم نے دنیا کی زندگی میں اور کچھ نہیں یہ ایک آدمی ہے جیسے تم کھانا کھاتا ہے جس قسم سے تم کھاتے ہو اور پیتا ہے جس قسم سے تم پیتے ہو، اور اگر اطاعت کی تم نے اپنے برابر کے آدمی کی تو تم بیشک خراب ہوئے انتہی۔
الحاصل خود بینی اور خود سری نے انہیں اندھا بنا دیاتھا، کسی نے یہ نہ سمجھا کہ اگر خدائے تعالی کسی خاص بشر کو اپنے فضل سے سب پر فضیلت دیدے تو کونسا نقصان لازم آجائیگا، چنانچہ خود انبیاؑ نے اس قسم کا جواب بھی دیا کما قال تعالی ’’قالت لہم رسلہم انا نحن الا بشر مثلکم ولکن اﷲیمن علی من یشاء من عبادہ‘‘ ترجمہ: کہا ان کو انکے پیغمبروں نے کہ ہم بھی بشر ہیں جیسے تم لیکن اﷲتعالیٰ فضل کرتا ہے جس پر چاہتا ہے۔ مگر یہ جواب کب مفید ہوسکتا تھا وہاں تو مہار اختیار کی نفس امارہ کے ہاتھ تھی، پھر اسکو کون ضرورت تھی، جو خواہ مخواہ اپنی خاص صفت تعلّي کو چھوڑ کر ذلت اختیار کرے، یہ تو انہیں کا کام تھا جنہوں نے پہلے پہل نفس پر ایک ایسا حملہ کیا کہ زمام اختیار کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا، پھر اسکی اصلاح کے درپے ہوئے، اور ما شاء اﷲخوب ہی اصلاح کی، یا تو وہ تھا کہ نبیؑ کے مقابلہ میں اسکو ذلت ناگوار ہوتی تھی یا یہ حالت ہوئی کہ اپنے جنس والے ہر ادنی واعلی کے مقابلہ میں ہمسری کا دعوی نہیں چنانچہ حق تعالیٰ انکی صفت میں فرماتا ہے ’’اذلۃ علی المومنین‘‘ جب عموما مومنین کے ساتھ یہ حالت ہو تو خیال کرنا چاہئے کہ خود آنحضرت ﷺ کے ساتھ انکا کس قسم کا معاہدہ ہوگا، ایک بات تو ابھی معلوم ہوئی کہ سب صحابہ حضرت ؑ کو سجدہ کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے، اگر کسی کوعقل سلیم اور فہم مستقیم حاصل ہو تو سمجھ سکتا ہے کہ کس قدر عظمت آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے پیش نظر ہوگی جس نے اس کمال تذلل کو جو سجدہ کرنے میں ہے آسان کردیا تھا اب سمجھنا چاہئیے کہ اس قدر عظمت آنحضرت ﷺ کی صحابہ کے دلوں میں کیونکر متمکن ہوئی حالانکہ خود آنحضرت ﷺ نے بموجب ارشاد حق تعالی فرمادیا ’’قل انما انا بشر مثلکم‘‘ وجہ اسکی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان حضرات نے جب دیکھا کہ کفار کو آیہء شریفہ ’’ولکن اﷲیمن علی من یشاء من عبادہ‘‘ کے مضمون کی طرف بالکل توجہ نہیں اور صرف دعوی ہمسری میں خراب ہوئے جاتے ہیں اسلئے برخلاف انکے اس آیت کے مضمون کو اپنا پیش رو بنایا اور اسمیں اسقدر استغراق حاصل کیا کہ گویا ’’انما انا بشر مثلکم‘‘ کو سنا ہی نہیں یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سجدہ پر آمادگی ظاہر کی اور حضرتؑ کو پھر بشریت کا مضمون یاد دلانے کی گویا ضرورت ہوئی، چنانچہ فرمایا کہ بشر کو بشر کا سجدہ کرنا مناسب نہیں جیسا کہ ابھی معلوم ہوا، مولانا روم فرماتے ہیں ؎
شاہ دین رامنگر اے ناداں بطیں
کیںنظر کردہ است ابلیس لعیں
نیست ترکیب محمد ؑ لحم وپوست
گرچہ در ترکیب ہرتن جنس اوست
گوشت دار د پوست دارد استخواں
ہیچ ایں ترکیب را باشد ہماں
کاند راں ترکیب باشد معجزات
کہ ہمہ ترکیب ہاگشتند مات
اس قسم کی عظمت آنحضرت ﷺ کی جیسی صحابہ کے دلوں میں بھی تھی ایک مدت تک مسلمانوں کے دل میں رہی جس کا حال انشاء اﷲتعالیٰ آئندہ لکھا جائے گا، مگر افسوس ہے کہ چند روز سے پھر وہی مساوات کا خیال آخری زمانہ کے بعض مسلمانوں کے سروں میں سمایا، اور گویا یہ فکر شروع ہوئی کہ وہ سب باتیں تازہ ہوجائیں کبھی انما انا بشر مثلکم میں خوض ہوتا ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت نے بھا ئی کہا ہے اسلئے حضرت بڑے بھائی ہیں، اب اس خیال نے یہاں تک پہونچا دیا کہ وہ آیات واحادیث منتخب کیجاتی ہیں جس سے ان کے زعم میں منقصت شان ہو، اور وہ احادیث کہ آنحضرت ﷺ نے براہ تواضع کچھ فرمایا ہے اپنی دانست میں انکو کسرِ شان کے باب میں قرار دیکر شائع کیجاتی ہیں، ہم نے مانا کہ نقلاً اور عقلاً ہر طرح سے اس مسئلہ میں زور لگایا جائے گا لیکن یہ دیکھنا چاہئیے کہ انتہا اسکی کہاں ہوگی ہم یقین سمجھتے ہیں کہ آخر یہ حضرات بھی مسلمان ہیں آنحضرت ﷺ کے مرتبہ کو اس سے تو ہرگز کم نہ بیان کرینگے کہ جس قدر کفار سمجھے تھے یعنی بشر مثلنا مگر معلوم نہیں اس سعی کا کیا نتیجہ ہوگا اتنی بات تو کافروں سے پوچھنے میں حاصل ہوجاتی ہے اس میں یہ قرآن کی ضرورت ہے، نہ حدیث کی اب اسکے ساتھ یہ بھی دیکھ لیا جائے، کہ ہم لوگ جو آیات واحادیث سے استدلال کرکے بیان عظمت میں آنحضرت ﷺ کے مبالغہ کرتے ہیں انتہا اسکی کہاں ہوگی۔
یہ بات ہر جاہل سے جاہل جانتا ہے کہ حضرت مخلوق اور بشر ہیں اور حق تعالیٰ خالق ہے، اب انتہا اس مبالغہ کی یہی ہوگی، کہ حضرت کا مرتبہ قریب مرتبہ مسجودیت کے سمجھا جائیگا، وہ بھی اس وجہ سے کہ ایک عالم آپ کو سجدہ کیا کرتا تھا، اور صحابہ بھی سجدہ کرنے کے لئے مستعد ہو گئے تھے، غرض اس مبالغہ کی حد وہ ہوگی جو صحابہ ؒ کی حسن عقیدت تھی، اب ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ جس راہ کو صحابہؒ مدت العمر طے کیا کئے، اور جس مقام پر عمر بہر سر لگائے رہے جہاں سے انہیں فتح یاب ہوا اس مقام کو چھوڑ دیں اور اس راہ میں رجعۃ القہقری کرکے وہ راستہ چلین جو کفار کی حد اعتقاد کو یعنی ان انتم الا بشر مثلنا کو پہونچا دے جہاں سے کفار بڑھ نہیں سکتے، شعر
ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی
کین راہ کہ تو میروی تبرکستان است
کسی بزرگ نے ہم لوگوں کے اعتقاد کی شرح ایک چھوٹے سے جملے میں بہت نہایت ہی مبسوط کی ہے کہ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ یقین ہے کہ اس تقریر سے اہلِ انصاف پر دونوں راستے اور انکی انتہااور حسن وقبح ہر ایک کی منکشف ہوگئی ہوگی، طالبِ راہ حق کو چاہئیے کہ جب کسی کو اپنا راہبر بنائے تو پہلے اس امر کی بخوبی تحقیق کرلے کہ کونسی راہ لیجائیگا، اگر بیچارے جاہل کوتاہی نظر سے دریافت نہ کرسکیں تو معذور ہیں مگر اہلِ امتیاز اندازِ کلام اور طرزِ بیان سے معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ شخص کس راہ کی آمادگی کر رہا ہے،مثلا کسی نے وہ حدیث پڑھی جس میں آنحضرت ﷺ نے متاخرین کو اپنا بھائی فرمایا ہے یہاں ایک تو وہ شخص ہوگا کہ مارے شرم کے سر نہ اٹھا سکے گا کیونکہ اگر کوئی اچھی طرح آنکھیں مل کے اپنی حالت کو دیکھے تو معلوم ہو کہ کس قدر آلودہ عصیان ہے اسی کتاب میں بخاری شریف کی روایت سے ثابت ہوچکا ہے کہ صحابہ جب کبھی اپنے احوال پر نظر ڈالتے نفاق کا خوف آجاتا معلوم نہیں کہ باوجود ان سچی بشارتوں کے کس چیز نے انہیں اس خوف میں ڈال رکھا تھا جب ان حضرات کا یہ حال ہو تو پھر کس کا منہ ہے جو کچھ دعوی کرسکے غرض کہ بھائی سمجھنا تو کہاں ایسے خیالات کبھی تو نسبت غلامی سے بھی خجالت پیدا کئے دیتے ہیں، چنانچہ کسی بزرگ نے کہا ہے نسبت خود بسگت کردم وبس منفعلم۔ منشا اسکا اگر دیکھئے تو صرف یہی ہے کہ نقشہ اپنے سارے اعمال کا آنکھوں کے سامنے کھینچ لیا ہے جس سے ندامت کے پورے پورے آثار دل میں نمایاں ہیں اور قریب ہے کہ دروازہ توبہ کا کھل جائے اور کبھی اشفاق ومراحم شفیع المذنبینﷺ کا تصور ادائی شکریہ میں مصروف کردیتا ہے کہ ہر چند ہم میں قابلیت نہیں، مگر شان رحمۃ للعالمینی ہے کہ اس درجہ قدر افزائی کی ایسے آقائے مہربان پر قربان ہونا چاہئے کہ ہم جیسے غلاموں کو بھی یاد کیا اور اس سرفرازی کے ساتھ جو دوسروں کو نصیب نہیں۔
الحاصل اس حدیث شریف کے ذکر کے وقت اس شخص کی کچھ کیفیت ہی اور ہے اور وہ نورانیت کے آثارمرتب ہیں جو عموماً اعمال پر غالبا مرتب ہو سکیں اس قسم کے قدر افزائیوں کا لطف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو بارگاہِ نبوی کے ساتھ خاص قسم کی نسبت ہے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار آنحضرت ﷺ سے عمرہ ادا کرنے کے لئے اجازت چاہی حضرت ؑ نے اجازت دیکر فرمایا اے بھائی اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولو وہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد مجھ میں اسقدر اثر کیا کہ اگر تمام روئے زمین میری ملک ہوجائے توان الفاظ کے مقابلہ میں میرے پاس وہ کچھ چیز نہیں، کما فی کنز العمال ’’عن عمرؓ قال استاذنت النبی ﷺ فی العمرۃ فاذن لی وقال لا تنسنا اخی من دعائک او قال اشرکنا یا اخی فی دعائک کلمۃ ما احب ان لی بہا ما طلعت علیہ الشمس‘‘ وابن سعد حم دت حسن صحیح ہ ع والشاشی ص ق بظاہر یہ ارشاد حضرت کا کوئی ایسی بڑی بات نہیں صرف دعا کرنے کو فرمایا تھا مگر اس کی وقعت کا اندازہ عمر رضی اﷲ عنہ کا ہی دل کرسکتا تھا کہ تمام روئے زمین کی سلطنت ایک طرف تھی اور اس مختصر سے کلمہ کی شان دلربائی ایک طرف غرض کہ اس حدیث مذکورہ بالا کو سن کر ایک شخص کے دل کی وہ حالت ہوگی جو خارج از بیان ہے اور ایک شخص وہ ہوگا کہ اسی حدیث شریف سے یہ بات نکالے گا کہ اخوۃ امر اضافی ہے تقدم وتاخر زمانے کے اعتبار سے اگر فرق ہے جو بڑے چھوٹے کا ہے یعنی حضرت بڑے بھائی ہوئے اور ہم چھوٹے بھائی نعوذ باﷲمن ذالک ایسے شخص کو اس حدیث شریف سے اسی قدر حصہ ملا کہ سرمیں ہمسری سمائی اور یہ خیال بڑھتا چلا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ان انتم الا بشر تک پہنچا دیا اب یہ شخص اس دھن میں ہوگا کہ جہاں خود پہونچا ہے اور انکو بھی وہیں پہونچا دے، شاید اسکے خیال میں یہ کبھی نہ آیا ہوگا کہ ہم کہاںاور شانِ رحمۃ للعالمین وسید المرسلین کہاں چہ نسبت خاک را عالم پاک، اکثر اکابر وسلاطین خادموں اور غلاموں کو بھائی کہدیا کرتے ہیں بلکہ خود احادیث میں وارد ہے کہ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔
اگر بادشاہ کے کہنے سے یا اس حدیث سے خدام اور غلام اپنے آقا کو بھائی کہنے لگیں تو ظاہر ہے کہ نہایت بے ادب اور احمق سمجھے جائیں گے حضرت عمرؓ نے باوجود اس قرابت کے جو اظہر من الشمس ہے اپنے کو حضرتؑ کی غلامی کے ساتھ منسوب کیا ہے چنانچہ مستدرک میں حاکم نے روایت کیا ہے ’’ عن سعیدبن المسیب قال لما ولی عمر بن الخطابؓ خطب الناس علی منبر رسول اﷲﷺ فحمد اﷲ واثنی علیہ ثم قال ایہا الناس انی قد علمت انکم تؤنسون منی شدۃ وغلظۃ وذلک انی کنت مع رسول اﷲﷺ فکنت عبدہ وخادمہ وکان کما قال اﷲ تعالی بالمؤمنین رحیما فکنت بین یدیہ کالسیف المسلول الا ان یغمدنی او ینہانی عن أمر فاکف والا قدمت علی الناس لمکان لینتہ ہذا حدیث صحیح الاسناد۔ ترجمہ: روایت ہے سعید بن مسیبؒ سے کہ جب عمربن خطاب ؓ مسند نشین خلافت ہوئے رسول اﷲﷺ کے منبر پر خطبہ پڑھا کہ آپ لوگ جو مجھ میں شدت اور سختی دیکھتے ہو اسکا سبب یہ ہے کہ میں حضرت رسول اﷲﷺ کا غلام اور خادم تھا چونکہ حضرت رحیم تھے جیسا کہ حق تعالیٰ فرما تا ہے: ’ ’وکان بالمومنین رحیما‘‘ اور لوگ حضرت کی نرمی کی وجہ سے جرأت کرتے تھے اس سبب سے میں حضرت کے روبرو مثل شمشیرِ برہنہ کے رہتا اگر میان کرتے اور اور منع فرمادیتے تو باز رہتا تھا ورنہ پیش قدمی کرتا کہا حاکم نے یہ حدیث صحیح ہے‘‘(۷)۔
واقعہ فیل سرکار ﷺ کے مشاہدے میں:
مواہب لدنیہ کی راویت سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ کا نور مبارک اصلاب طاہرہ میں منتقل ہوتا ہوا حضرت عبدالمطلب کی پیشانی مبارک میں مکین رہا اور واقعہ فیل کا مشاہدہ کیا، چونکہ لبادۂ بشریت میں حضور اکرمﷺ اس وقت تشریف فرما نہ تھے اسی لئے الم تر کی تفسیر میں مفسرین نے الم تعلم فرمایا۔
مفسرین کرام کی اس تفسیر میںلفظ کے معنی حقیقی کو ترک کرنا لازم آتا ہے حقیقت پر عمل دشوار ہو تو مجاز پر عمل کیا جاتا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام ؒ فرماتے ہیں:
’’چونکہ آنحضرت ﷺ کی ولادت شریف اس واقعہ کے بعد ہوئی، اس لئے مفسرین نے الم ترکے معنی الم تعلم لکھا ہے مگر اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ حضرت اپنی نورانیت کے ساتھ اسوقت موجود تھے اور دیکھ رہے تھ کہ ہاتھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے، اور تمام لشکر کو پرندے ہلاک کر رہے ہیں اور سب بھاگے جار ہے ہیں، اگر کہا جائے کہ اس نور کو ادراک نہ تھا، کیونکہ ادراک کا زمانہ بعد وجود عنصری ہے تو ہم کہیں گے کہ اس پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی، دیکھئے کل ملائک نورانی ہیں اور انکا ادراک جسمانی ادراک سے بڑھا ہوا ہے، اسی طرح روح کا ادراک پھر یہ بھی بے ادبی سے خالی نہ ہوگا کہ حضرت کے حالات کو ہم اپنے خیالات پر قیاس کریں، دیکھئے عالم جسمانی میں آنے کے بعد بھی حضرت کی حالت نرالی تھی چنانچہ مواہب لدنیہ میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ حضور اقدس ﷺ کامل نو مہینے شکم مادر میں رہے، مگر اس مدت میں کبھی نہ ان کے سر میں درد ہوا اور نہ اعضاء ومفاصل میں استرخااور نہ شکم کی کوئی شکایت اور نہ کسی چیز پر رغبت ہوئی جیسا کہ ہر حاملہ کو ہوتی ہے حضرت کی والدئہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ مجھے اتنا تو خواب میں معلوم ہوا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ تمہیں سردار امت کا حمل ہوا ہے اس کے بعد نہ مجھے پیٹ میں کچھ ثقل معلوم ہوا نہ کسی چیز پر رغبت ہوئی، جیسے حمل والی عورتوں کو ہوا کرتی ہے، نئی بات یہ ہوئی کہ حیض موقوف ہوگیا‘‘۔انتہی(۸)
طبرانی میں روایت ہے کہ جب آپ زمین پر رونق افروز ہوئے تو سب انگلیاں بند کرکے سبابہ سے اشارہ کر رہے تھے جیسے کوئی تسبیح کرتا ہے اور ر وایت کی گئی ہیکہ آپ پیدا ہوتے ہی بہ لسانِ فصیح فرمایا ’’لا الہ الا اﷲوانی رسول اﷲاﷲاکبر کبیرا والحمد ﷲکثیرا وسبحان اﷲبکرۃ واصیلا‘‘ انتہی۔
اب کہئے کہ کیا کوئی لڑکا پیدا ہوتے ہی اس قسم کی تہلیل وتکبیر وتسبیح اور سجدہ کرتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ بے شعوری کے زمانہ میں حضرت کو اعلیٰ درجہ کا شعور اور علم تھا یہاں تک کہ اسی زمانہ میں آپ نے رسالت کا دعوی کیا یہ لوازم اس نور کے تھے جو ہر کمال میں یگانہ روزگار تھا جس کو جسمانیت سے کوئی تعلق نہ تھا، اسی بنا ء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابرہہ کے واقعات کو آنحضرت ﷺ دیکھ رہے تھے جس طرح حق تعالی فرماتا ہے ’’الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل‘‘
لیس کمثلہ شیٔ میں کاف تشبیہ کا ہے:
جو اس آیۂ شریفہ سے ثابت ہے ’’اﷲنور السموات والارض‘‘ مگر اس نور کی حقیقت معلوم ہی نہیں ہوسکتی ، کیونکہ زمین میں بظاہر نور نہیںہے، اگر آفتاب وغیرہ کانور نہ ہو تو بالکل تاریکی ہی تاریکی نظر آئیگی حالانکہ اسمیں اﷲتعالیٰ کا نور موجود ہے جو نصِ قطعی سے ثابت ہے یہ بات اور ہے کہ سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے نور سے مراد منور لی لیجائے مگر ایمانی طریقہ سے وہ درست نہیں ہوسکتا، غرض کہ حق تعالیٰ کا وجود عقل سے سمجھ میں نہیں آسکتا عقل کا کام اسی قدر ہے کہ چند جزئیات کو دیکھ کر ایک کلی بنا لیتی ہے جس کے مفہوم میں وہ جزئیات داخل ہوتے ہیں، اور جو چیز ایسی ہو کہ دوسری جزئی اس کے مثل نہ ہو تو وہ حیران ہوجاتی ہے کیونکہ اس کو دوسری چیز کا سہارا نہیں مل سکتا کہ یہ کہہ سکے کہ یہ فلاں چیز کے جیسی ہے اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ کی ذات کا ادراک نہیں کرسکتی، کیونکہ اس کا مثل نہیں چونکہ حق تعالی نے آنحضرت ﷺ کو بھی ایسا ہی پیدا کیا کہ عالم میں کوئی آپکا مثل نہیں اسلئے آنحضرت ﷺ کے ادراک سے بھی عقل عاجز ہے مگر چونکہ آنحضرت ﷺ خالق اور مخلوق کے بیچ میں واسطہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ کے نور سے آپ کا نور پیدا ہوا ہے، اور آپ کے نور سے تمام عالم اسوجہ سے آپ میں دو جہتیں ثابت ہیں تحتانی جہت سے آپ محسوس اور مدرک ہیں اور فوقانی جہت سے آپ کا ادراک ممکن نہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’وتراہم ینظرون الیک وہم لا یبصرون‘‘ یعنی آپ ان کو دیکھتے ہو کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں مگر وہ آپ کو دیکھتے نہیں، یعنی بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں مگر وہ آپ کو دیکھتے نہیں، یعنی بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں مگر در حقیقت دیکھتے نہیں حاصل یہ کہ من جمیع الوجوہ آپ کا ادراک ممکن نہیں کیونکہ کوئی ملک یا بشر اس برزخیت میں آپ کا مثل نہیں ہوسکتا، اسمیں شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ اﷲکے مثل نہیں ہوسکتے کونکہ وہ خالق ہے اور آپ مخلوق مگر یہ کہنا بھی بے موقع نہ ہوگا کہ جس طرح حق تعالیٰ کا کوئی مثل نہیں، آنحضرت ﷺ کا بھی مثل نہیں، اس صورت میں بعض حضرات صوفیہ نے لیس کمثلہ شيء کی تفسیر میں جو لکھا ہے کہ ایک اعتبار سے اس میں کافی تشبیہ ہے، اس تقریر سے اس توجیہ کا بھی یہ محمل ہوسکتا ہے اس تقریر کے بعد اہل انصاف کو یہ سمجھنا آسان ہوسکتا ہے کہ جس طرح حق تعالی نے اقسام کے اجسام کے نور بنائے اگر ایسا ایک جسم پیدا کرے کہ اسمیں جسمانیت کے بھی لوازم وآثار ہوں اور نور کے بھی تو کیا تعجب ہے، بلکہ ایک جسم ایسا نرالا پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔(۹)
حدیث کے مقابل اہلِ فقہ گمراہ ہوں تو قرآن کے مقابل اہلحدیث گمراہ ہیں:
آیہ شریفہ ’’ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین‘‘ کے سیاق میں حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ فرماتے ہیں :
’’مسلمان لوگ جس راستے پر ہوں وہی اختیار کرو اور جو کوئی اس راستے سے جدا ہوا وہ دوزخی ہے، کما قال اﷲتعالی ’’ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی ونصلہ جہنم وساء ت مصیرا‘‘ اور نبی ﷺ کی تعظیم وتوقیر میں حق تعالی فرماتا ہے ’’انا ارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا لتؤمنوا باﷲورسولہ وتعزروہ وتوقروہ وتسبحوہ بکرۃ واصیلا‘‘ یعنی اے پیغمبر ہم نے تم کو بھیجا احوال بتانے والے اور خوشی اور ڈر بتانے والے تا کہ تم لوگ اے مسلمانو یقین لاؤ اﷲپر اور اس کے رسول پر اور رسول کی تعظیم وتوقیر واجلال کرو، اور صبح وشام اس کی پاکی بیان کرو، اگر تسبحوہ کی ضمیر خدائے تعالی کی طرف راجع ہے تو ظاہر ہے کہ وہ تمام عیوب سے منزہ ہے، اور اگر سیاق کلام اور انتشار ضمائر کے لحاظ سے نبی ﷺ کی طرف راجع ہو تو حضرت کی تنزیہ وہی ہوگی جو حضرت کے مناسب حال ہو، یعنی بے دین جو حضرت پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ بھی ہم جیسے ایک معمولی آدمی تھے کوئی فضیلت آپ میں نہ تھی یا ساحر تھے وغیرہ وغیرہ ان سب نقائص سے آپ پاک ہیں، جب خدائے تعالیٰ نے حضرت ﷺ کی تعظیم وتوقیر کرنے کا ہمیں حکم دیا اور حضرت نے تعلیم کی کہ عین نماز میں ایہا النبی کہہ کر اپنے دل میں مجھے پکارو اور خطاب کرکے السلام علیک کہو تو اب ہمیں کس کا خوف ہے۔
گر طمع خواہد زمن سلطان دیں
خاک بر فرق قناعت بعد ازیں
اگر خوف ہے تو ان لوگوں کو ہے جو نہ خدا کی مانیں نہ رسول کی خدائے تعالی نے تو تعظیم وتوقیر کرنے کو فرمایا جس سے مقصود آپ کی تعظیم وتوقیر کرانی ہے اس صورت میں آپ کی توہین خدائے تعالیٰ کی توہین ہوگی۔
دیکھئے خداے تعالیٰ کو منظور تھا کہ آدم علیہ السلام کی تعظیم وتوقیر ہو تو فرشتوں کو حکم ہوا کہ ان کو سجدہ کریں چونکہ وہ مقربین بارگاہ تھے فورا بے چوں وچرا سب سجدہ میں گر پڑے اور ابلیس گو پرانا عابد تھا مگر جنگلی تھا لگا کہنے کہ حضرت کہاں شان مسجودیت او رکجا آدم بیچارے ابھی مٹی پانی میں پڑے لوٹ رہے تھے بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ سجدہ جو خاص شان کبریائی کے شایاں ہے ان کے روبرو کیا جائے آخر اس توہین کا جو نتیجہ ہوا ظاہر ہے، یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے اور قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ شیطان آدمی کا جانی دشمن ہے اس کو منظور ہے کہ کسی طرح آدمیوں کو کافر اور دوزخی بنادے، یوں تو بہت سے طریقے گمراہ کرنے کے اسے یاد ہیں مگر خاص طریقہ اس کو ایک ایسا معلوم ہے جس میں حتماً کامیابی ہو کیونکہ اس کا ذاتی تجربہ ہے کہ وہ موثر ثابت ہوگیا ہے، وہ یہ ہے کہ اﷲتعالی کو جن حضرات کی تعظیم وتوقیر کرانی منظور ہے ان کی توہین کی جائے، اور اس کا ذریعہ یہ کہ شرک کے مضامین میں موشگافیاں کرکے اس کا دائرہ ایسا وسیع کیا جائے کہ اس تعظیم وتوقیر میں شرک کی جہت قائم ہوجائے، یہ طریقہ اس نے ان لوگوں کے لئے خاص کررکھا ہے جن کو عبادت اور فضیلت ذاتی پر گھمنڈ ہو، کیونکہ ان کی نظروں میں سوائے خداے تعالی کے کسی کی عظمت نہیں ہوتی کیسا ہی معزم شخص ہو ان کو حقیر دکھائی دیتا ہے، دیکھئے آدم علیہ السلام جیسے معزز شخص کو ابلیس نے حقیر سمجھا ہر چند خدا کے مقابلے میں ان کی کوئی عظمت نہ تھی مگر اس کو تو ان کی تعظیم اور سجدہ کرنے کی ضرورت نہ تھی اور اپنی عبادت اور موحد ہونے پر اسے گھمنڈ تھا شرک کو گوارا نہ کیا اور ان کی تعظیم نہ کرکے ابد الآباد کے لئے ملعون ٹہرا۔
بخلاف اس کے جو لوگ اپنے آپ کو گناہ گار سمجھ کر اپنی بخشائش کی فکر میں رہتے ہیں پہلے ان کی نظر مقبولان بارگاہ الہی پر پڑتی ہے اور اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں ذلیل سمجھ کر صدق دل سے ان کی تعظیم وتوقیر اس خیال سے کرتے ہیں کہ شاید کبھی ان کی توجہ ہمارے حال پر مبذول ہوجاے اور بارگاہ الہی میں ہماری طرف سے بطور شفاعت کچھ عرض کردیں تو ان کی سفارش سے ہماری دینی اور دنیوی مقاصد بہ آسانی حاصل ہو جائیں، کیونکہ صحیح حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ حق تعالی ان کی دل شکنی نہیں چاہتا، وہ خداے تعالی کو ارحم الراحمین ضرور جانتے ہے مگر جہاں توجہ رحمت کے اور اسباب ہیں، ایک یہ بھی سبب قوی ہے کہ مقبولان بارگاہ ان سے راضی ہوں اور یہی وجہ تھی کہ صحابہء کرام آنحضرت ﷺ کے روبرو ایسے بیٹھتے تھے کہ کوئی غلام بھی اپنے آقا کے ساتھ ایسی عاجزی نہیں کرتا، اس کی چند نظائر ہم احادیث سے ’’انوار احمدی‘‘ میں ذکر کرچکے ہیں، اب اگر اس لحاظ سے کہ عبادت غایت تذلل کا نام ہے یہ تذلل بھی معاذ اﷲشرک ہی کی قطار میں شریک کرلیا جائے تو نسبت دو رنگ ہو جائے جس کو کوئی مسلمان جائز نہیں رکھ سکتا‘‘۔ (۱۰)
اب وہ حضرات (جو مسلمانوں کو بات بات میں مشرک بناتے تھے خصوصا حنفیہ اور مشائخین کو مشرک بنانے کا تو ٹھیکہ ہی لے لیا تھا) دم بخود ہیں کہ شرک فی الکلمہ اور شرک فی العبادت وغیرہ باتیں وہی معمولی ہیں جو ہماری زبانوں پردن اور رات جاری ہیں مگر اس مصنوعی شرک کا گولہ بے طور داغا گیا جس سے جان بچانا مشکل ہے، ممکن ہے کہ چند روز سوچنے میں کوئی جواب خیال میں آجائے تا ہم اس فرقہ کے جہال پر اس کا اثر ضرور پڑے گا وہ اپنے علماء سے ضرور پوچھیں گے کہ حضرت ہم تو مسلمانوں کو بڑے ذوق وشوق سے مشرک بنائے نبی ﷺ کے تصور کو بھی شرک کہا کرتے تھے مگر یہ ہمارے بھی استاد نکلے کہ ہم سے سیکھ کر ہم ہی کو مشرک بنا رہے ہیں، اور بات بھی ٹھیک ہیکہ التحیات اور درود کاپڑھنا تو ضرور مگر اس کے معنی کا خیال حرام جس پر ’’کجدار ومریز‘‘ کی مثل صادق آتی ہے اور نبی ﷺ کواپنے برابر کے بھائی سمجھنا اور ان کی حدیثوں پر عمل کرکے اہل حدیث کہلانا البتہ محل اعتراض ہے اگر حدیث کے مقابلے میں اہل فقہ گمراہ ہیں تو قرآن کے مقابلے میں اہل حدیث بھی ہدایت پر نہیں ہوسکتے غرض کہ اس فرقے کا کچھ نہ کچھ اثر ان کے دلوں پر ضرور ہوگا۔
یہ نتیجہ اس افراط وتفریط کا ہے جو قرآن وحدیث میں توسط کی راہ جو بتلائی گئی اس کو چھوڑ کر ایک پہلو اختیار کیا گیا، مگر الحمد ﷲاہل سنت وجماعت کے اعتقاد پر ان باتوں کا کچھ اثر نہیں ہوسکتا، ہمارا ایک ہی جواب ہے کہ ان وساوس شیطانی پر لا حول پڑھ کر کہیں گے کہ ہمارا دین وایمان وہی ہے جو رسول اﷲﷺ نے صحابہ کو ارشاد فرمایا اور وہ ہم تک نسلاًبعد نسل پہونچا‘‘۔(۱۱)
مزاروں پر مرادیں پوری نہ ہوتیں تومشقتیں اٹھا کر لوگ کیوں حاضر ہوتے:
’’ان اﷲ یسمع من یشاء‘‘ کی تفسیر میں حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
’’شاید یہاں یہ اعتراض کیا جائے گا کہ اولیاء اﷲکی زیارت کو جاکر ان سے مرادیں مانگتے ہیں یہ شرک ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اپنی حاجت روائیوں کے واسطے شفاعت طلب کرنا تو کسی طرح شرک نہیں ہوسکتا، اب رہا یہ کہ وہ سنتے ہیں یا نہیں سو یہ مسئلہ دوسرا ہے، اس کے دلائل کتب کلامیہ میں مذکور ہیں، اتنا تو قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ خداے تعالیٰ ان لوگوں کی باتیں سنا سکتا ہے ’’کما قال اﷲ تعالی ’’ان اﷲ یسمع من یشاء وما انت بمسمع من فی القبور‘‘ یعنی تم مردوں کو نہیں سناسکتے اور اﷲجس کو چاہتا ہے سناتا ہے، جب یہ ثابت ہے کہ خدائے تعالیٰ ان کو زائرین کی باتیں سناتا ہے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے تو دور رہنے والوں کے دل کی باتیں بھی ان کو سنادے تو کیا تعجب ہے پھر قطعِ نظر اس کے کہ وہ سنیں یا نہ سنیں جب خداے تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ ان کے نیک نام کرے جیسا کہ ابھی معلوم ہوا تو جن امور میں لوگ ان سے شفاعت چاہتے ہیں خود ان کی حاجت روائیاں کردے تو کیا بعید ہے یہی وجہ ہے کہ باوجود یکہ صدہا سال گزرگئے ہیں مگر اولیاء اﷲکی قبروں پر میلے لگے رہتے ہیں، اگر لوگوں کی مرادیں ان کے طفیل میں حاصل نہ ہوتیں تو کس کو غرض تھی کہ مشقتیں ا ٹھا کر ان کی زیارتوں کو جائے اور ہزاروں روپیہ ایصالِ ثواب کے لئے خرچ کرے! یہ فقط ان کی مقبولیت کا اثرہے، ورنہ صدہا سلاطین مرگئے اور اپنا نام باقی رکھنے کے لئے لاکھوں روپیوں کی گنبدوں میں مدفون ہوئے مگر کوئی ان کو پوچھتا بھی نہیں، صحیح حدیث میں وارد ہے کہ جب حق تعالیٰ کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے، چنانچہ اس کے یہی اسباب ہوتے ہیں کہ لوگوں کی مرادیں ان کے طفیل میں حاصل ہونے لگتی ہیں، جب خدائے تعالیٰ اپنے دوستوں کا حامی ہوتو ان کی توہین کرنے اور مسلمانو ں کو ان کی تعظیم وتوقیر کرنے سے مشرک بنانا کس قدر خدائے تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہوگا، ہاں اس کا اہتمام کرنا ضرورہے کہ ان کی نسبت یہ خیال نہ کیا جائے کہ اگر خدائے تعالی کسی کام کو نہ بھی چاہے تو وہ مستقل طور پر کرسکتے ہیں۔
’’الحاصل شرک کے دائرے کو اس قدر وسیع کرنے کی ضرورت نہیں کہ حتی الامکان کل یا اکثر مسلمان اس میں داخل ہوجائیں، اسی توسیع پسندی کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ جن کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں کل مسلمانوں بلکہ صحابہ تک کو مشرک قرار دے رہے ہیں۔ نعوذ باﷲمن ذلک‘‘۔(۱۲)
مرشد کامل کی تلاش بے حد ضروری ہے :
’’کلینی صفحہ ۱۰۹ میں روایت ہے: قال ابو جعفر علیہ السلام فی قولہ تعالٰی ’’ونورا یمشی فی الناس‘‘ اماما یوتہم بہ ‘‘کمن مثلہ فی الظلمات لیس بخارج منہا‘‘ قال الذی لا یعرف الامام یعنی اس آیت شریفہ میں نور سے مراد امام اور مرشد ہے جس کی پیروی کی جائے اور جو مثال اس شخص کی دی گئی ہے کہ اندھیروں سے نکل نہیں سکتا اس سے مراد وہ شخص ہے جو امام کو نہ پہچانے یعنی جو شخص پیر کی تلاش نہ کرے جو اس کا مقتدا اور امام ہوسکے وہ ہمیشہ گمراہی کی تاریکی میں پڑا رہے گا، غرضکہ امام وہی ہے جو سالک کو راہِ تحقیق میں علی وجہ البصیرت لیجا سکے‘‘۔(۱۳)
علم باطن وہ جو سینہ بہ سینہ چلاآئے:
آیت شریفہ ’’اطیعوا اﷲوالرسول واولی الامر منکم‘‘ کی تفسیر میں امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ فرماتے ہیں:
’’اگرچہ بعض علماء ظاہر میں علمِ باطن کا انکار کرتے ہیں، مگر مذاہبِ اربعہ کے محققین علماء اس کے قائل ہیں بلکہ مرید ہو کر فیوض وبرکات حاصل کرتے رہے ہیں، در اصل علمِ باطن وہ علم ہے جو سینہ بسینہ چلا آتا ہے ہر پیر اپنے جانشین کو علاوہ اتباعِ ظاہرِ شریعت کے خاص خاص باتوں کی وصیت کرتا ہے جو علمائِ ظاہر کے مسلک کے مخالف ہیں مگر اہل طریقت ان وصایا پر عمل کرنے کو نہایت ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ در اصل وہ قرآن وحدیث کے لب لباب ہیں‘‘۔(۱۴)
لفظِ قُل کی تفسیر:
مصدر میں کو ئی زمانہ نہیں ہوتا اور تمام افعال و اسماء اسی سے مشتق ہوتے ہیںاور تمام مشتقات میں ماضی کو صدارت حاصل ہے، اس قسم کی وضاحت کے بعد حدیث شریف انا من نوراﷲ کی شرح میں حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کو جو خاص نسبت خالق عزوجل کے ساتھ ہے دوسرے کو نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ صادر اول ہیں، جو اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے’’ انا من نور اﷲ و کل شيء من نوري‘‘ ۔(۱۵)
مقدس نور نے عالم امکان کو وجود بخشا:
امر بنانے کیلئے علامت مضارع حذف کرنے کے بعد اسکا ما بعد ساکن ہو تو اس سے پہلے متحرک حرف لانے کی ضرورت ہوئی اور اس حرف کا عالم حروف میں سب سے پہلے وجود ہوامگر حلق کاانتہائی حصہ اسکا مخرج ہے، اسی طرح عالم جو سکون عدم میں تھا سکون کی وجہ سے اسکا وجود ممکن نہ تھا، اسکے بعد حضرت شیخ الاسلامؒ قد س سرہ فرماتے ہیں:
’’اس لئے پہلے اسی عالم میں سے ایک مقدس ذات کو متحرک فرمایا یعنی ہمارے نبی کریم ﷺ کے نورِ مبارک کو جس کو تمام عالم پر ایسا تقدم ہے جیسے ہمزہ کو عالم حروف پر، اگر ہمزہ قول کے پہلے نہ لایا جاتا تو قول کا عالم حروف میں ظہور محال تھا، اسی طرح اگر آنحضرت ﷺ کا نور مبارک متحرک نہ ہوتا تو عالم کا ظہور محال تھا جیسا کہ حدیث شریف ’’لو لاک لما خلقت الافلاک‘‘ سے ظاہر ہے۔ اور جس طرح ہمزہ کی کوئی شکل نہیں جیسا کہ کتب صرف میں مصرح ہے کہ کبھی بشکل واو لکھا جاتا ہے اور کبھی بشکل یا وغیرہ، اسی طرح اس مقدس نور کی کوئی شکل نہیں جیسا کہ اس حدیث شریف سے مستفاد ہے’’ انا من نور اﷲوکل شئی من نوری‘‘ غرضکہ اس متحرک ہمزہ نے گویا صیغہء امر کو وجود بخشا جس طرح اس مقدس نور نے عالم امکان کو‘‘۔(۱۶)
’’الحاصل اس ضرورت سے امر کے آخر میں سکون آگیا اب اقول بنا دو ساکن ایک جمع ہوئے ایک ساکن حذف کیا گیا کیونکہ دو ساکنوں کے ملنے سے کوئی کام نہیں ہوسکتا، اگر ایک ساکن اور دوسرا متحرک ہو تو متحرک کے طفیل میں ساکن بھی کچھ کرلے گا جس طرح نابینا دیکھنے والے کے طفیل میں منزل مقصود تک پہونچ سکتا ہے اور اگر دونوں اندھے اور راستہ سے ناواقف ہوں تو کبھی نہیں پہونچ سکتے آپ جانتے ہیں کہ عدم میں جتنی چیزیں ہیں خواہ وہ ذوات ہوں یا افعال ان کو کسی قسم کی حرکت نہیں، سب کے سب عدم آباد میں ساکن ہیں جو خدائے تعالی کی پیش نظر ہیں، جب تک ان کو قادر مطلق کن کہہ کر حرکت نہ دے کبھی حرکت ان کو نہیں ہوسکتی، کیونکہ حق تعالیٰ جو خالق عالم ہے اس نے خبر دی ہے کہ جب کسی چیز کو ہم پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کو کن کہہ دیتے ہیں اور وہ وجود میں آجاتی ہے ’’کما قال تعالٰی: انما قولنا لشئی اذا اردناہ ان نقول لہ کن فیکون‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ عدم سے وجود میںلانے کی تحریک قدرت سے ہوتی ہے‘‘۔ (۱۷)
صرفی مباحث میں الٰہیات اوراخلاقی مسائل:
’’اگرچہ یہ تقریر بظاہر دل لگی سی معلوم ہوتی ہے کیونکہ صرفی مباحث میں الہیات واخلاقی مسائل کی جوڑ لگادی گئی ہے مگر اہلِ بصیرت جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں ایسے امور کی تعلیم دی گئی ہے چنانچہ اس آیت شریف سے مستفاد ہے ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘ دیکھئے کل عقلمندوں اور اہلِ بصیرت کو عبرت حاصل کرنے کا حکم ہورہا ہے، جن کی نظر اصولِ لغت پر ہے وہ جانتے ہیں کہ جس لفظ میں (ع ب ر) ہو اس میں عبور اور تجاوز کے معنی ضرور ہوں گے دیکھئے ’’معبر‘‘ رہگزر کو کہتے ہیں جہاں آدمی ٹہر سکتا اور عبور کے معنی اس پار اتر جانے کے ہیں، اسی طرح عرب کا نام بھی ’’عرب‘‘ اس وجہ سے رکھا گیا کہ وہ ایک جگہ مقیم نہیں رہتے تھے اسی طرح کل تقالیب میں تجاوز کے معنی ہیں‘‘۔ (۱۸)
حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کی فقہی بصیرت:
لفظ ’’برب‘‘ کے رب کی تفسیر میںکلام نفسی اور لفظی کی بحث میںامام محمد انوار اللہ فاروقیؒ رقمطراز ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام پر جو وحی آتی تھی اس کا بھی یہی حال تھا کہ بذریعہء فرشتہ ان پر کلام نفسی الہی کا القاء ہوتا تھا، جس کا ظہور کلام لفظی کے صورت میں عمل میں آتا یہی وجہ ہے کہ کلام اﷲشریف کو جنابت کی حالت میں پڑھنا جائز نہیں، اور اس کے بعد صور ت مکتوبی میں اس کا تنزل ہوا، اسی وجہ سے بغیر طہارت کے اس کو ہاتھ لگانا درست نہیں، اسی طرح جس صورت میں اس کا تنزل ہوا واجب التعظیم ہے، اسی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فوٹو گراف کی تختیوں اور ٹیپ ریکارڈ کے فلیتے وغیرہ میں جو خطوط یا نشان ہوں جن سے قرآن کی آواز نکلتی ہے تو ان کو بھی بغیر طہارت کے ہاتھ لگانا درست نہ ہوگا، کیونکہ ان ہی خطوط پر آلہ سے آواز نکلنے کا مدار ہے، جس سے ظاہر ہے کہ ان خطوط میں وہ موجود ہے‘‘۔ (۱۹)
سماعِ موتیٰ:
’’سینہ کو عربی میں صدر کہتے ہیں ظاہرا سینہ گوشت اور ہڈیوں کامجموعہ ہے مگراس کی حقیت کچھ اور اسمیں انشراح بھی ہوتا ہے اور انقباض بھی اسی طرح انسان کا جسم غلاف ہے، اس طرح کی تفہیم کے بعد سماع موتی سے متعلق ’’فی صدور الناس‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’یہ جسم جس کو دیکھنے والے انسان کہتے ہیں وہ انسان کا قدرتی غلاف یا لباس ہے، جس کے ٹوٹنے پھوٹنے سڑنے گلنے سے انسان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اپنی حالت پر محفوظ رہتا ہے مقاصد الاسلام کے حصہء دوم میں ہم نے یہ امر بدلائل ثابت کیا ہے کہ مسمر یزم والے اس امر کا مشاہدہ کرادیتے ہیں کہ جسم انسانی اپنے مقام پر پڑا رہتا ہے اور انسان ہزارہا کوس جا کر وہاں کی خبریں چند دقیقوں میں لاتا ہے۔
حکمتِ جدیدہ تصدیق اس امر کی کر رہی ہے جس کی خبر آنحضرت ﷺ نے تیرہ سو (۱۳۰۰) سال پیشتر دی تھی، دیکھئے تمام کتب احادیث وسیر سے ثابت ہے کہ غزوئہ بدر میں جب کفار کو ہزیمت ہوئی اور ان کے مقتولوں کی لاشیں پھول سڑ گئیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ان لاشوں کو کنویں میں ڈال دو! چنانچہ سب ڈال دی گئیں اس رات آنحضرت ﷺ نے ان مقتولوں کو پکار کر فرمایا اے کنویں والو اے عتبہ اے شیبہ اے امیہ، اے ابو جہل! کیا تمہارے رب نے جو وعدہ فرمایا تھا اس کو تم نے حق پایا؟ میں نے تووہ وعدہ حق تعالی نے جو مجھ سے کیا تھا حق پایا، صحابہ ؓ نے عرض کی یا رسول اﷲﷺ کیا آپ ایسی قوم کو پکارتے ہو جس کی لاشیں سڑگئیں؟ آپ نے فرمایا میں ان سے کہہ رہا ہوں اس کو وہ لوگ ایسا سن رہے ہیں کہ تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن وہ میرا جواب نہیں دے سکتے، چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس موقعہ پر ایک قصیدہ لکھا جس کے دو شعر ہیں:
ینادیہم رسول اﷲلما
قذفناہم کباکب فی القلیب
ألم تجدوا کلا من کان حقا
وامر اﷲیاخذ بالقلوب
دیکھئے صحابہ نے یہی خیال کیا تھا کہ سڑی ہوئی لاشوں کو پکار کر ان سے باتیں کرنی بالکل خلاف عقل ہے مگر آنحضرت ﷺ نے یہ بات اشارۃً بیان فرمادی کہ آدمی جسم کا نام نہیں جسم بمنزلہ غلاف ہے، اصل آدمی جو سننے والا ہے اس میں کوئی تغیر نہیں جیسے وہ زندگی میں سنتے تھے اب بھی سنتے ہیں، صحابہ اور قوی الایمان تو مان گئے، مگر خلافِ عقل ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس میں تاولیں کیں۔
اسی طرح صدر کی بھی حقیقت دوسری ہے صرف ہڈیوں کا نام نہیں، گو اس حقیقت کا یہی مقام ہوگا، اس لئے کہ حق تعالی فرماتا ہے فمن یرد اﷲان یہدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء یعنی جس کی ہدایت کا ارادہ اﷲتعالیٰ کرتا ہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے، اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے سینہ کو نہایت تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ آسمان میں چڑھ رہا ہے‘‘۔
یہ امر ظاہر ہے کہ اسلام لاتے وقت سینہ کی ہڈیاں پھیل نہیں جاتیں اور نہ کفر کی حالت میں ہڈیاں سمٹتی ہیں، بلکہ کشادہ اور تنگ ہونے والا سینہ ہی دوسرا ہیء یہ ایک وجدانی امر ہے کہ ایمان والوں کے دل میں ایک وسعت پیدا ہوجاتی ہے اور جو بات بات میں انقباض ہوا کرتا ہے کہ اگر ہم اپنا دین چھوڑ دیں گے تو لوگ کیا کہیں گے اور خلاف عقل باتیں ماننا لوگوں کی طعن وتشنیع کا باعث ہوگا کیونکہ وہ کہیں گے کہ اگر ان کو عقل ہوتی تو یہ لوگ خلاف عقل باتوں کو نہ مانتے اور یہ دلیل سفاہت اور حماقت کی ہے چنانچہ کفار اسی وجہ سے مسلمانوں کو سفہاء کہتے تھے، اس کے سوا بڑا انقباض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تمام کنبہ کے لوگ اور احباب دشمن ہوجائیں گے، غرضکہ اس قسم کے جتنے اسباب تنگدلی اور انقباض کے ہوتے ہیں سب دفع ہوجاتے ہیں اور سینہ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور سب کو قبول کرلیتا ہے۔ اور شرح صدر کے بعد جو کام ان سے لیا جاتا ہے نہایت خوشی اور کشادہ دلی سے کرتے ہیں، اگر مال دینے کو کہا جائے تو نہایت ممنونیت سے امتثال امر کرتے ہیں چنانچہ صحابہ کے حالات سے ظاہر ہے کہ صرف چندہ کے لئے ارشاد نبوی ہوا تھا بعض حضرات نے اپنا نصف مال حساب کرکے حاضر کردیا اور بعض نے پورا کا پورا، اگر جان دینے کو کہا جائے تو اس کو سعادت سمجھتے ہیں‘‘۔ (۲۰)
مکاں سے لا مکاں تک ہے حکومت غوثِ اعظمؓ کی:
حضرت سیدنا پیران پیر غوث اعظم دستگیر ؓ کے تصرف اور کرامت کا ایک واقعہ نقل فرما کر حضرت شیخ الاسلامؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اس سے جنوں کے علم کا بھی حال معلوم ہوتا ہے کہ دائرہ تو کرخ میں کھینچا گیا اور مسافت بعیدہ پر بادشاہ کو خبر ہوگئی کیونکہ رات بھر چل کر قریب صبح اس دائرہ کے پاس پہونچا جو صرف حضرت شیخ کی نیت پر کھینچا گیا تھا اور اس سے حضرت غوث الثقلین ؓ کے تصرف کا حال بھی معلوم ہوگیا کہ جنوں پر آپ کا کیا اثر تھا کہ صر ف لکیر جو آپ کی نیت پر کھینچی گئی تھی وہاں پادشاہ بذات خود حاضر ہوا اور زمین بوسی کی، غرض کہ لکیر کی تاثیر خاص طور پر ہوتی ہے۔
حضرت غوث الثقلین ؓ کی سلطنت معنوی کا جو حال لکھا گیا ہے اسی مناسبت سے ایک واقعہ لکھا جاتا ہے جو خالی از دلچسپی نہیں وہ یہ ہے:
میرے ایک دوست ہیں، جن کو میں چالیس سال سے جانتا ہوں کہ نہایت متقی محتاط اور باخداشخص ہیں، جن کے تقد س پر صدہا شخص گواہی دیتے ہیں اور ان کے فرزند جن کی نشو ونما صلاح وتقوی میں ہوئی، ان دونوں سے خود میں نے سنا ہے اور میں یقینا کہتا ہوں کہ ان کی صدق بیانی میں مجھے ذرا بھی شک نہیں ان کا نام کسی مصلحت سے میں ظاہر نہیں کرسکتا، ان دونوں صاحبوں کا بیان ہے کہ صاحب مرقوم الصدر نے اپنے چھوٹے لڑکے کی شادی کی اس کے ساتھ ہی دولھا بیمار ہوا چونکہ صاحب موصوف خود بھی عامل ہیں انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ جن مسلط ہوگیا ہے، بہت کچھ تعویذ فلیتے کیے کچھ فائدہ نہ ہوا، آخر لوگوں کی نشاندہی پر حضرت میراں داتار قدس سرہ کی خدمت میں مع بیمار حاضر ہوئے جن کا مزار اناواہء شریف اسٹیشن علاقہ اونچا صوبہء گجرات میں واقع ہے، جب وقت مقررہ پر مزار شریف کے قریب بیمار بغرض علاج لایا گیا تو اس پر بیہوشی طاری ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد وہ کہنے لگا کہ تم نے مجھے بلا کر قید کردیا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس بیمار کے واسطے بلاتے ہو تو میں کبھی نہ آتا بیمار کی حالت اور دیکھنے کی ہیئت گواہی دے رہی تھی کہ وہ صاحب قبر کو دیکھتا ہے اور خاص ان سے سوال وجواب کر رہا ہے، اثناء گفتگو میں کچھ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتا جاتا تھا جیسے کوئی عامل مخاطب پر اثر ڈالنے کے لئے پھونکتا ہے، بیمار کی تقریر سے صاف معلوم ہورہا تھا کہ حضرتؒ نے ہماری طرف سے اسے کچھ فرمایا جس کا وہ جواب دے رہا ہے، اس نے کہا کہ میں جو مسلط ہوا ہوں اس میں میرا کوئی قصور نہیں میں نے ان سے کئی بار مختلف طریقوں سے کہہ دیا تھا کہ اس لڑکی سے نکاح مت کرو مگر انہوں نے نہیں مانا آخر میں نے اس کی اطلاع میر محمود صاحبؒ کو دی جن کا مزار حیدرآباد کے مغرب میں ایک پہاڑی پر ہے، جس خاندان کی یہ لڑکی ہے وہ لوگ میرا حق ادا کیا کرتے تھے یعنی نرسو کے نام پر کچھ نکالتے تھے، حضرتؒ نے فرمایا یہ لوگ مسلمان ہیں ان سے کوئی توقع مت رکھ یہ تجھے کچھ نہ دیں گے کہا اگر نہ دیں تو لڑکی میرے حوالے کردیں، حضرتؒ کی جانب سے کسی قسم کی تہدید ہوئی تو اس نے کہا تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جیسے تم ایک عہدہ دار ہو میں بھی عہدہ دار ہوں اور میرا ماموں محکمۂ صفائی کا افسر اور صاحب فوج ولشکر ہے، چنانچہ اس کا ماموں آیا اور یہ بات قرار پائی کہ آج مقدمہ ملتوی کر دیا جائے کل ایک کمیٹی ہو جس کے چھ اراکین ہوں جن میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ میرِمجلس اور اراکین حضرت بابا شرف الدین صاحبؒ برہماوی، حضرت نصیر الدین چراغ دہلیؒ حضرت ابو سعید بغدادیؒ، حضرت بابا شرف الدین صاحبؒ بھی شریک ہوں جن کا مزار حیدرآباد کے جنوب میں پہاڑی پر ہے، چنانچہ مجلس برخواست ہوئی اور بیمار کو ہوش آگیا، دوسرے روز وقت مقررہ پر جب بیمار مزار شریف کے پاس لایا گیا تو تھوڑی دیرمیں بیہوش ہوگیا اور اراکین کی آمد شروع ہو ئی ہر ایک کو وہ مثل ہنود کے اس صفائی سے ڈنڈوت کر رہا تھا جیسے مہذب ہنود کیا کرتے ہیں حالانکہ اس لڑکے نے عمر بھر ڈنڈوت نہیں کیا، اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی، اس لب ولہجہ سے وہ گفتگو کرنے لگا جیسے کوئی اعلیٰ درجہ کا بیرسٹر کرتا ہے ، اور عبارت ایسی شستہ تھی جیسے ناولوں کی ہوتی ہے جس کے سننے کو جی چاہتا تھا اثنائے گفتگو میں مڑکر حکم دیتا تھا کہ فلاں فوج کو آراستہ کرکے لاو اور فلاں فوج کو یہ حکم دو! منجملہ اور دلائل کے ایک دلیل اس نے یہ بھی پیش کی کہ میں نے ان کو کئی بار مختلف قرائن سے کبھی خواب میں کبھی دوسرے طریقوں سے منع کیا اور انہوں نے نہ مانا تو میں نے میر محمود صاحبؒ کو باضابطہ اس کی اطلاع دے دی، اگر شبہ ہو تو اس کی مسل ان سے طلب کرلی جائے! چنانچہ ایک سوار مسل لانے کو روانہ ہوا اور بیمار خاموش ہوگیا، تھوڑی دیر کے بعد مسل آئی اور پھر گفتگو شروع ہوئی اور ایسے دلائل اس نے قائم کئے کہ جن کا جواب نہیں ہوسکتا تھا، اس کے بعد ہر چند اہل کمیٹی نے اس پر زور دیا کہ آئندہ کوئی کسی قسم کا تعارض بیمار سے نہ کرے! مگر اس نے نہیں مانا اور کہا کہ میں اس کمیٹی کے حکم سے راضی نہیں ہوں شہنشاہ کے پاس اس مقدمہ کی مسل روانہ کردی جائے! چنانچہ بغداد شریف کو مسل روانہ کردی گئی اور مجلس برخاست ہوئی، تیسرے روز جب اجلاس ہوا تو حضرت غوث الثقلین کا فرمان صادر ہوا جس میں یہ حکم تھا کہ: تو کیا سمجھتا ہے اگر میں چاہوں میں تجھے جلا کر خاک سیاہ کردوں مگر تو نے جب ان کو اطلاع کردی تھی تو معاف کیا گیا، مگر ہمارے لوگوں کی شان میں تو نے جو بے ادبی کی ہے اس کی پاداش میں یہ سزادی جاتی ہے کہ پا بہ زنجیر کر کے اجمیر کے فلاں پہاڑ پر پانچ سال بامشقت محبوس رکھا جائے گا، اور روشن علی صاحب داروغہ، مجلس کو حکم دیا گیا کہ د و دفعہ مشقت لی جائے، اور طرف ثانی پر ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیا گیا، اس کے بعد بیڑیاں اور ہتھکڑیاں لائی گئیں اور بیمار کے دونوں ہاتھ مل گئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں اور اس کے بعد بیڑیاں پہنا دی گئیں، اور ساتھ ہی بیمار کو ہوش آگیا، اور اس وقت سے اب تک جس کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا بیمار پر کسی قسم کا اثر نہیں، دیکھئے ہتھکڑیاں بیڑیاں پہننا ایک قسم کا مشاہدہ ہوگیا اور اس کے آثار بھی مرتب ہوئے کہ بیمار کو صحت ہوگئی، اب وہ بیڑیاں وغیرہ معلوم نہیں کہ لوہے کی تھیں یا اور کسی چیز کی؟ مگر اتنا تو ضرور ثابت ہوا کہ وہ ایسی مضبوط تھیں کہ جن ان کو نہ توڑ سکیں، ہر چند یہ واقعہ عقل کے معیار پر قابلِ تصدیق نہیں، مگر کئی صاحبوں نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت میراں داتاؒر کی قبر پر ہمیشہ آسیب زدہ آتے ہیں اور صحت پا کر جاتے ہیں، روزانہ اس قسم کے صدہا واقعات کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔
ان واقعات سے ظاہر ہے کہ حضرت غوث الثقلین ؓ کو اس وقت بھی وہی سلطنت حاصل ہے جو زندگی میں تھی، جنوں کو چونکہ بوجہ لطافت روحانیت سے مناسبت ہے اس لئے وہ اس عالم کے حالات کو مشاہدہ کرتے ہیں اور انسان نہیں کرسکتے، مگر حضرت انسان کو بھی ایک ایسی قوت دی گئی ہے کہ اگر اس میں کمال حاصل کریں تو علاوہ اس عالم کے مشاہدہ کے ایسے ایسے کرشمے بتائیں کہ ’’جن‘‘ بھی حیران ہوجائیں‘ وہ وقت یہی خیال ہے جب وہ پختہ کیا جاتا ہے تو خیال منفصل کا جو عالم ہے اس میں تصرفات کرنے لگتا ہے چنانچہ اپنی صورت کا خیال منفصل میں قائم کردیتا ہے‘‘۔(۲۱)
مرید صادق مرشد کے قدم بقدم ہوتا ہے:
آیۂ مبارکہ وکان حقا علینا نصر المؤمنین کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’تاریخ خمیس میں حضرت عمرؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اہل ردت سے جہاد کرنے کے معاملہ میں حضرت ابو بکرؓ کا ایمان تمام مسلمانوں کے ایمان سے بڑھ گیا۔انتہی
اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام صحابہ عقل کی بات کہہ رہے تھے، اورحضرت ابو بکرؓ کاایمان اور یقین کامل تھا کہ دین اسلام کامل ہوگیا ہے، قیامت تک باقی رہے گا، گو ملک عرب مرتد ہوگیا ہو، مگر وہ عارضی طورپر ہے اور ان کا غلبہ مسلمانوں پر ہرگز نہیں ہوسکتا، کیونکہ خداے تعالیٰ جب اس دین کا خود حافظ وحامی ہے تو عرب کیا کل روئے زمین کے لوگ مخالف ہو جائیں تو بھی فتح ہماری ہی رہے گی، اسی وجہ سے آپ تن تنہا جہاد کو نکل کھڑے ہوئے، کیونکہ جس کا حامی خدا ہو اسکو کسی کا کیا خوف ۔
جب عقلی اسباب کو چھوڑ کر خداے تعالیٰ پراتنا بھروسہ اور توکل ہو تو اس وقت خداے تعالی مدد فرماتا ہے، حق تعالی فرماتا ہے ، ’’وکان حقا علینا نصر المومنین‘‘ یعنی ایمانداروں کی مدد کرنے کا ہم پر حق ہے جب ایسا کامل ایمان ہو تو ممکن نہیں کہ امداد الہی نہ ہو، اور اگر امداد نہ ہو تو سمجھنا چاہئیے اسمیں قصور ہمارا ہی ہے کہ ہمیں پورا یقین نہیں یہاں یہ بات قابل توجہ ہیکہ جس طرح نبی کریمﷺ نے بہ نفس نفیس اعلائے کلمۃ اﷲکا ارادہ فرمایا تھا، حضرت صدیق اکبرؓ نے بھی اسی سنت پر عمل کیا، کہ بغیر کسی کے بھروسہ کے اشاعت دین کا عزم بالجزم کر لیا اور عملی طریقہ سے یہ تعلیم کردی کہ مریدِ صادق الاعتقاد کو چاہئیے کہ اپنے مرشد کے قدم بقدم اور اس طرح پیروی کرے ؎
پیروے باید دریں رہ کش نبا شدبیم سر
در رود سربا یدش افتد بپائے راہبر
کہ خدا کی راہ میں سب سے بے تعلق ہوجائے، اور خیر خواہ ہزار عقلی اور نقلی دلیلں پیش کریں ایک نہ مانے اور جانبازی پر مستعد ہوجائے ؎
جناب عشق راد رگہ بسے بالاتر ازعقلست
کسے ایں آستاں بوسہ کہ جاں در آیتیں دارد
ہر چند نفس ’’لا یکلف اﷲنفسا الا وسعہا‘‘ اور ’’لا رہبانیۃ فی الاسلام‘‘ اور اسی قسم کے آیات اور احادیث پیش کرے مگر اپنی ہمت اور جزم میں فرق نہ آنے دے ؎
وقفہ یک گام نا جائز بود دراہ عشق
گرد وصدروباہ بازی عقل در پیش آورد
جس قسم کی اتباع حضرت صدیق اکبرؓ نے کیا ممکن نہیں کہ ہر شخص اپنے پیر کی اتباع کرے، ہزاروں بلکہ لاکھوں میں چند ہی افراد ہوتے ہیں جو اس قسم کی اتباع کرکے درجہ ولایت اور صدیقیت کو پہونچتے ہیں‘‘۔ (۲۲)
مستند وسیلہ کو کھو بیٹھنا سوء قسمت ہے:
آیۂ موصوفہ ان اﷲاشتری صحابہ کرام کے ہمیشہ پیش نظر رہتی تھی اس لئے ہر معرکہء کار زار میں جان ومال کی قربانی دینا اور جہاد میں شریک ہونا انکے لئے بے حد آساں تھا اور جنگ میں جب پسپا ہونے یا شکست کے آثار دکھائی دیتے تو بے ساختہ وا محمداہ وغیرہ کلمات استغاثہ انکی زبان سے ادا ہوتے، چنانچہ حضرت شیخ الاسلام قد س سرہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’بعد فتح روماس ؒ کی بی بی حضرت خالدؓ کے پاس آئیں، اور کہا کہ آج کی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نہایت خوبصورت نورانی چہرہ تشریف فرما ہیں، اور فرماتے ہیں کہ شام وعراق مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہو گئے، میں نے پوچھا کہ حضرت آپ کون ہیں، ارشاد فرمایا کہ میں محمد رسول اﷲہوں، پھر مجھے اسلام لانے کو فرمایا چنانچہ میں مسلمان ہو گئی اور اس کے بعد حضرت نے مجھے دو سورتیں قرآن کی سکھلائیں حضرت خالدؓ نے کہا کہ کیا وہ سورتیں تم پڑھ سکتی ہو کہا ہاں، چنانچہ سورہ فاتحہ اور قل ہو اﷲپڑھ کر سنادیں، چونکہ ان کو روماس رحمۃ اﷲعلیہ کے مسلمان ہونے کا حال معلوم نہ تھا، حضرت خالدؓ سے کہاکہ روماس یا مسلمان ہو جائے یا مجھے چھوڑ دے، تاکہ میںمسلمانوں میں اپنی زندگی بسرکروں، حضرت خالدؓ نے ہنس کر کہا کہ وہ تو تم سے پہلے ہی مسلمان ہوچکے ہیں، یہ سن کر وہ نہایت خوش ہوئیں، انتہی ملخصا۔
قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ روماس ؒمسلمان ہونے کی وجہ سے جلا وطن ہو رہے ہیں، آپ کی طبع غیور نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ بالکل بے مونس وبے غمخوار ہو جائیں اس لئے انکی بی بی کو مسلمان ہونے کے لئے حکم فرمایا چنانچہ صر ف اسی ایک ارشاد پر مسلمان ہوگئیں اور اسلام بھی کیسا کہ اپنا خان ومان اور شوہر کو چھوڑ کر جلاوطن ہونے پر انکو آمادہ اور مستعد کردیا، حکومت اسے کہتے ہیں کہ ادھرحکم ہو اور ادھر تعمیل ہوگئی، کیا یہ بغیر تصرف کے ممکن ہے، پھر تصرف بھی کہاں، عالم ارواح میں جہاں دلوں پر تصرف ہوا کرتا ہے کیونکہ درحقیقت دل تابع روح ہے جس کو اصطلاح میں نفس ناطقہ کہتے ہیں۔
غرض کہ کئی طرح سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے تصرفات اس عالم میںجاری ہیں، جن کا اثر اس عالم میں نمایاں ہوتا ہے اسی وجہ سے کعب ابن ضمرہ ؓ جن کا حال ابھی معلوم ہوا انہوں نے جب دیکھا کہ کفار کی بے شمار فوج کے مقابلے میں اہل اسلام کا سربر ہونا دشوار ہے، آنحضرت ﷺ کو پکاراکہ جلد مدد فرمائیے اور اسکا ظہور بھی اس طور پر ہوا کہ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، اور فتح بھی کیسی کہ خود بادشاہ فریق مخالف اسلامی فوج کا ایک سپاہی خیر خواہ بن گیا یہ ان حضرات کی خوش اعتقادی کا اثرتھا کہ اپنے نبی کریمﷺ کو اپنی کامیابیوں میں وسیلہ بناتے اور مواقع مہلکہ میں باعث نجات سمجھتے تھے، اب ایسے مستند وسیلہ کو کوئی کھو بیٹھے تو وہ قسمت کی بات ہے، یہاں یہ بات یاد رہے کہ صرف کعب ہی نے آنحضرت ﷺ کو نہیں پکارا، بلکہ صحابہ کا عام دستور تھا کہ سختی کے وقت حضرت کو پکارتے اور مدد طلب کرتے تھے، چنانچہ تاریخ کامل میں علامہ ابن اثیر ؒ نے لکھا ہے کہ مسیلمہ کذاب کی فوج تقریبا ساٹھ ہزار اور حضرت خالد بن ولید ؓ کے ساتھ لوگ بہت کم تھے، جب ان کے سخت حملے ہونے لگے تو مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔
لکھا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں نے ایسی مصیبتیں اور سختیاں اٹھائیں کہ کسی جنگ میں نہیں اٹھائیں، جب حضرت خالدؓ اور ان کے رفقاء نے جو ثابت قدم تھے دیکھا کہ نہایت نازک حالت ہے، آنحضرت ﷺ کو پکارا، چنانچہ وامحمداہ وامحمداہ ہر صحابی کی زبان پر اس وقت جاری تھا، پھر بفضلہ تعالیٰ اسکا یہ اثر ہوا کہ مسیلمہ کذاب واصل جہنم کیا گیا، اور اسکی فوج کو شکست ہوئی انتہی ملخصا۔
دیکھئے اس جنگ میں کل صحابہ تھے، اس لئے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کی ساتھ ہی یہ جنگ ہوئی، اب کیا کوئی کہہ سکتا ہیکہ یہ حضرات مصیبت کے وقت آنحضرت ﷺ کوپکارنے اور مدد مانگنے سے معاذ اﷲمشرک ہوگئے تھے، اگر چہ یہ حضرات مشرک ہوں تو یہ مضمون صادق آئے گا۔مصرع
چو کفر از کعبہ بر خیز دکجا ماند مسلمانی
صحابہ کے طریقہ عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کو اشد ضررت کے وقت پکارتے تھے، ہر وقت اٹھتے بیٹھتے یا رسول اﷲکہنے کی عادت نہیں تھی‘‘۔(۲۳)
أنتم أعلم بأمور دُنیاکم:
’’عرب میں دستور تھا کہ جب کھجور کے درخت کو پھول آتا تو نر کے پھول مادہ کے پھول پر اس غرض سے ڈالے جاتے کہ بار زیادہ آئے اس کو عرب میں ’’توبیر‘‘کہتے ہیں، ایک بار آنحضرت ﷺکا گذر ایک قوم پر ہوا جو توبیر کر رہی تھی، آپ نے فرمایا کہ اگر توبیر نہ بھی کرتے تو اچھے یعنی بالیدہ ہونے والے ہو ہی جاتے، لوگوں نے اس سال رسم مذکور کو ترک کردیا اتفاق سے اس سال کھجوریں خراب ہوگئیں، صحابہ نے واقعہ عرض کیا، حضرت نے فرمایاتم اپنے دنیا کے کام خوب جانتے ہو، مقصود یہ کہ اشیا کی خاصیات اور تاثیرات بیان کرنا نبوت سے متعلق نہیں، نبوت کا تو یہ کام ہے کہ خدائے تعالیٰ کے تقرب کے طریقے بتائے جائیں، جو کام آدمی کو اس عالم میں مفید یا مضر ہوتے ہیں، بیان ہوں، جس کے ضمن اصلاح اخلاق ہو جو اصلاح تمدن کا باعث قوی ہے۔
حضرت ﷺ نے جو عدم ضرورت توبیر بیان فرمایا تھا وہ ایک اعتقادی مسئلہ تھا، کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہیکہ بغیر حکم خدا کے کوئی چیز پیدا نہیں ہوسکتی ہزارتوبیر کیجائے جب تک حکمِ الہی نہ ہو نہ درخت بار آور ہوسکتا ہے نہ بار عمدہ، اب رہا یہ کہ عادت جاری ہے کہ توبیر سے کھجور بالیدہ ہوتی ہے تو وہ دنیا سے متعلق ہے، جس کے توفیر کی تدابیر دنیا دار لوگ خوب جانتے ہیں، مگر یاد رہے کہ توبیر ہو یا اور اسباب اگر کوئی ان کو مستقل سمجھے اور اس کا اعتقاد نہ رکھے کہ اصل خالق خدائے تعالیٰ ہے، اور یہ اسباب صرف برائے نام ہیں تو اس کے بیدین ہونے میں شک نہیں، انتم اعلم بامور دنیاکم کے الفاظ سے عتابِ نبوی آشکار ہے جسکو لفظ دنیاکم سے ظاہر فرما دیا کہ تم دنیادار ہو،اور اپنی دنیا کے حالات کو ہم سے زیادہ جانتے ہو، ہمیں نہ تمہاری دنیا سے تعلق ہے نہ دنیا داروں سے مطلب، اسی وجہ سے صحابہء کرام اور اولیائے عظام دنیا سے بالکل علحدہ رہتے تھے، خلفائے راشدین کے حالات آپ نے مقاصد الاسلام کے حصہ پنجم میں دیکھ لیا کہ باوجود خلافت اور سلطنت کے کیسے فقر وفاقہ کی حالت میں انہوں نے عمر بسر کی، اور خود آنحضرت ﷺ کی معیشت کی کیا حالت تھی، غرض کہ حضرت ﷺ نے اس موقع میں نہایت بلیغ پیرایہ میں عتاب ظاہر فرمادیا، اور دنیا داروں نے سمجھا کہ حضرت ان کے علم کی تعریف فرماتے ہیں کہ (تم ہم سے زیادہ جانتے ہو) حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’ذق انک انت العزیز الکریم‘‘ یعنی کفار جب دوزخ میں جائیں گے تو ان سے کہا جائے کہ اب چکھو تم تو بڑے عزیزوکریم ہو، کیا یہ توصیفی الفاظ فی الواقع توصیف ہوسکتے ہیں، ہرگز نہیں، اسی طرح ’’انتم اعلم ‘‘ توصیف نہیں ہوسکتی‘‘۔ (۲۴)
قرآن و حدیث کے مضامین سمجھنا ہر کسی کا کام نہیں:
آیت شریفہ ’’فلا جناح علیہ أن یطوف‘‘ کی تفسیر صحیح مسلم کی حدیث شریف سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حضرت عائشہ ؓ سے میں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ اگر کوئی شخص صفا ومروہ میں سعی نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا، انہوں نے فرمایا کیا وجہ میں نے کہا اسلئے کہ حق تعالی فرماتا ہے ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اﷲفمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما‘‘ یعنی صفا ومروہ نشانیاں ہیں اﷲکی جو کوئی حج کرے اس گھر کا یا زیارت تو گناہ نہیں اس کو طواف کرے ان دونوں میں اس سے ظاہر ہے کہ سعی نہ کرنا چاہئیے اور اگر کوئی کرلے تو مضائقہ بھی نہیں، انہوں نے فرمایا یہ بات ہے کہ جاہلیت میں وہاں دوبت تھے جن کا نام اساف اور نائلہ تھا انصارکی عادت تھی کہ سمندر کے کنارے سے احرام باندھ کر آتے اور ان کا طواف کرتے اوربعض منات کے نام سے احرام باندھتے تو وہ صفا ومروہ کے طواف کو حرام سمجھتے تھے پھر جب وہ مسلمان ہوئے اور حج کرنا چاہا تو ان بتوں کے خیال سے صفا ومروہ کی سعی کو مکروہ سمجھنے لگے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر سعی کریں تو کچھ مضائقہ نہیں اس لئے کہ اب وہ بت رہے نہ وہ نیت پھر آنحضرت ﷺ نے خود سعی کی اور تمام مسلمانوں نے اقتدا کی جس سے سعی مسنون اور ضروری ہوگئی، اگر یہ مقصود ہوتا کہ طواف نہ کریں تو مضائقہ نہیں جیسا کہ تم نے خیال کیا ہے تو ’’فلا جناح علیہ ان یطوف بھما‘‘ ہوتا اب دیکھئے کہ ظاہر قرآن سے ہر شخص یہی سمجھے گا کہ طواف نہ کرنا بہتر ہے مگر چونکہ حضرت عائشہ ؓ شان نزول پر مطلع اور اس واقع سے واقف تھیں اس لئے اسی آیت سے جواب دیدیا کہ آیت میں یہ کہاں ہے کہ طواف نہ کریں تو مضائقہ نہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو اور یہ بات ثابت کردی کہ اس موقع میں اسی قدر ضرورت تھی کہ طواف کو جو وہ مکروہ سمجھتے تھے انکے ذہن سے نکل جائے اب رہی یہ بات کہ وہ ضروری ہے یا نہیں اور اس کا وقت کونسا ہے اور اسکے نہ کرنے میں مواخذہ ہوگا یا نہ ہوگا سو یہ امور دوسرے ہیں، ان سب کا فیصلہ ایک ہی بات میں کردیا گیا کہ رسول اﷲ ﷺ جو کچھ فرمائیں اس کو قبول کرلو کما قال تعالی : ’’ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ ہر چند قرآن شریف میں سب کچھ ہے اور بحسب آیہء شریفہ ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ دین کی تکمیل بھی ہوچکی، مگر بغیر قبول احادیث کے کسی کا دین کامل نہیں ہوسکتا غرضکہ فہم مضامین ہر کسی کا کام نہیں‘‘۔(۲۵)
قرآن میں سب کچھ ہے مگر سمجھنا دشوار ہے:
آیت شریفہ ’’و نزلنا علیک تبیانا لکل شئ‘‘ کی تفسیر میں تحریرفرماتے ہیں:
’’رہا یہ کہ آیہء موصوفہ سے ظاہر ہے کہ ہر چیز کا بیان قرآن میں موجود ہے پھر قیاس کی کیاضرورت، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت قرآن شریف میں سب کچھ ہے مگر سمجھ کر اسکو نکالنا مشکل ہے کیا ممکن ہے کہ جتنے واقعات پیش ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں ہر شخص قرآن سے ان کا حکم نکال سکے ہرگز نہیں اس سے ظاہر ہے کہ اہلِ راے کی ضرورت خود آیہء موصوفہ سے ثابت ہوتی ہے جو اپنی رائے اور قیاس سے ہر مسئلہ قرآن سے نکال سکیں اسی وجہ سے حدیثِ معاذؓ میں رائے کی تحسین وارد ہے۔
جس طرح آیۂ موصوفہ سے مجتہد کی رائے اور قیاس کی ضرورت ثابت ہوتی ہے، اسی طرح اس آیت سے قیاس مجتہد کی اجازت ثابت ہے وہو قولہ تعالی ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘ اس آیہء شریفہ میں اعتبار کرنے کا حکم ہے کشف بزدوی میں لکھا ہے کہ اہل لغت اعتبار کے معنی رد الشی الی نظیرہ لکھے ہیں اور محاورہ میں کہا جاتا ہے اعتبرت ہذا الثوب بہذا الثوب، أي سویتہ فی التقدیر‘‘ یعنی جب کسی کپڑے کے برابر دوسرا کپڑا قطع کیا جاتا ہے تو اعتبرت ہذا الثوب بہذا الثوب کہتے ہیں، چونکہ قیاس فقہی میں بھی ردالشی الی نظیرہ اور تسویۃ الشئ صادق ہے کہ اس لئے مثلاً جو چیز مسکر ہونے میں خمر کی نظیر ہو، اس کو خمر کی طرف پھیر کر اسکے حکم یعنی حرمت میں برابر کردیتے ہیں جیسے کپڑے میں برابری کر دی جاتی ہے، اس وجہ سے اعتبار کے معنی پورے طور سے قیاس فقہی پر صادق آگئے اس سے معلوم ہوا کہ خطاب فاعتبروا یا اولی الابصار سے اہلِ بصیرت قیاس فقہی کے مامور ہیں‘‘۔(۲۶)
ہمارے پاس کی ضعیف روایت دوسرے مذہب کی قوی روایت سے اقویٰ ہے:
مرزا قادیانی نے ان احادیث پر اعتماد اور صحت کو گھٹانے کے لئے جن میں ختم نبوت کا ذکر ہے کہا کہ ممکن ہے کہ راویوں نے عمداً یا سہواً خطا کی ہو اس کے جواب میں حضرت سیدنا شیخ الاسلام قد س سرہ آیہء شریفہ سے استدلال کرتے ہوئے اسکے تحت فرماتے ہیں:
’’اصل سبب اسکا یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو اس دین کی حفاظت منظور ہے جو قولہ تعالی ’’وانا لہ لحافظون‘‘ سے ظاہر ہے اس لئے ایسے افراد منتخب روزگار پیدا کرکے ان سے یہ کام لیا ان حضرات نے وہ وہ موشگافیاں کیں کہ فن حدیث ایک سو فنون پر مشتمل ہوگیا جسکی تصریح امام سیوطیؒ نے تدریب الراوی میں کی ہے اور ان حضرات نے بفضلہ تعالیٰ ان میں اعلیٰ درجے کی ترقی کرکے ان سب کو کمال پر پہنچا دیا اب اہل انصاف غور فرمائیں کہ کیا ان حضرات کے روبرو کسی کے داو پیچ اسلام میں چل سکتے تھے، کیا ممکن ہے کہ کسی کی بتائی ہوئی حدیث ان کی غامض نظروں سے چھپ کر صحبت کے پیرائے میں آسکتی تھی، اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ہمارے یہاں کی ضعیف حدیث دوسری ملتوں کی قوی اور صحیح روایتوں سے بدر جہا قوی ہوگی ؎
مادل ما آخر ہر منتہی
آخر ماجیب تمنا تہی
مرزا صاحب جو کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ راویوں نے عمداً یا سہوا خطا کی ہوگی سو یہ ظاہر اًدرست ہے کیونکہ امکان کا دائرہ ایسا وسیع ہے کہ جس چیز کا نہ کبھی وجود ہو نہ ہوگا وہ بھی اس میں داخل ہے مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان حضرات نے نہ عمداً خطا کی ہو نہ سہواً پھر اس کی کیا وجہ کہ خطا کا امکان پیش کرکے وہ اکابر دین نشانہ ملامت بنائے جایں، قرائن مذکورہ بالا پرنظر ڈالنے کے بعد یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا کہ ہزارہا اکابر دین اور متدین علما نے جب فن حدیث کا اسقدر اہتمام کیا ہے تو صرف ایک خفیف سا احتمال اس قابل نہیں کہ اس کے مقابل پیش ہوسکے یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اکابر محدثین جنوں نے نہ سلاطین وامرا کی صحبت اختیار کی جس سے احتمال ہو کہ ان کی خاطر سے کوئی حدیث بنائی ہو نہ اشاعت علوم پر ماہوار یا کسی قسم کا چندہ مقرر کیا جس سے خیال ہو کہ کثرت احادیث کی ضرورت سے کچھ حدیثیں بنائی ہوں ان حضرات نے تو اشاعت علوم میں جان دینے میں بھی دریغ نہیں کیا، چنانچہ امام نسائی کا حال مشہور ومعروف ہے کہ حضرت علی کرم اﷲوجہہ کے فضائل کی حدیثیں شائع کرنے کی غرض سے شام تشریف لے گئے جہاں علی کرم اﷲوجہہ کی سخت منقصت ہوا کرتی تھی اور جان کی کچھ پروا نہ کی چنانچہ اسی جرم میں شہید کئے گئے ایسے حضرات کی روایات میں تو اقسام کے احتمالات پیدا کئے جائیں، اور مرزا صاحب عیسویت اور وحی کی وجہ سے لاکھوں روپے حاصل کریں ان کی خبروں میں احتمال بھی قائم نہ کیا جائے عجیب بات ہے اگر عقل سے تھوڑا بھی کام لیا جائے تو معاملہ بالعکس ثابت ہوجائیگا، فن اصول حدیث وفقہ میں یہ بحث نہایت مبسوط ہے کہ احادیث صحیحہ قابل تصدیق اور واجب العمل ہیں، انہیں احادیث پر اکثر مسائل فقہ کا دارومدار ہے اگر وہ بے اعتبار قرار دئے جائیں تو تمام مذاہب حقہ درہم وبرہم ہوجائیں گے، اور بے دینوں کو آیات قرآنیہ میں تصرف کا موقع ہاتھ آجائیگا چنانچہ ملاحدہ نے یہی کام کیا ہے، اس میں شک نہیں کہ جو چیز تواتر سے ثابت ہو، اس کا علم یقینی اور ضروری ہوتا ہے اور احادیث غیر متواترہ کا علم ظنی ہے مگر شریعت نے اس ظن غالب کو اعتبار کرلیاہے دیکھ لیجئے دو گواہوں کی خبر سے جملہ حقوق ثابت ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں دوگواہوں کی سے مسلمان کا قتل قصاص میں مباح ہوجاتا ہے اب دیکھئے کہ دو شخصوں کی خبر کس طرح متواتر نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے صرف ظن غالب ہوجاتا ہے باوجود اس کے شریعت نے اس کا اعتبار کر لیا ہے، اسی طرح ثبوت نسب صرف باپ کے اقرار پر ہوجاتا ہے اگر اس کے لئے تواتر شرط ہو تو ممکن نہیں کہ کوئی شخص اپنے آباء واجداد کی میراث اور جائداد کا مالک بنے، پھر باپ جو لڑکے کے نسب کا اقرار کرتا ہے اس کا مدار صرف ظن غالب پر ہے جو اپنی زوجہ کے بیان اور قرائن خارجیہ عفت وغیرہ کے لحاظ سے اسکو حاصل ہوتا ہے اگر اس ظن غالب کا اعتبار نہ کرے کسی غیور شخص کے نسب میں شائستہ احتمال پیش کئے جائیں تو کیا ان احتمالوں کو وہ قابل تسلیم سمجھیگا یا کسی اور طریقے سے پیش آئیگا جو دشنام کے جواب میں اختیار کیا جاتا ہے، اسی طرح جہاں قبلہ مشتبہ ہو جاے تو ظن عالب پر عمل لازم ہوجاتا ہے گو وہ خلاف واقع ہو اور اسی طرف نماز صحیح بھی ہوجاتی ہے اگرچہ سمت قبلہ کی خلاف پڑھی ہو، غرضکہ جو چیز ظن غالب سے ثابت ہوتی ہے شرعا عقلا قابل تصدیق سمجھی جاتی ہے‘‘۔(۲۷)
حضور اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں:
’’حق تعالیٰ نے تیرہ سو برس پہلے اپنے کلام قدیم میں یہ بات شائع کردی کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا کما قال تعالی: ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲوخاتم النبیین‘‘ اب اس کے بعد کوئی دعوی نبوت کرے تو وہ مسیلمہ کذاب واسود عسٰی وغیرہم کی قطار میں داخل ہے جس کے جہنمی ہونے میں کسی کو شک نہیں، کیونکہ ہمارے نبیﷺ نے فرمادیا ہے کہ قیامت سے پہلے بہت سے دجال نکلیں گے جو رسول ہونے کا دعوی کرینگے جیسا کہ امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، اور ترمذی نے راویت کی ہے ’’عن ابی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ لا تقوم الساعۃ حتی یبعث دجالون کذابون قریبا من ثلثین کلہم یزعم انہ رسول اﷲ‘‘ مرزا صاحب کو کمالات وفضائل کے ساتھ کمال درجے کی دلچسپی ہے وہ ہمیشہ تلاش میں لگے رہتے ہیں جہاں کوئی کمال پیش نظر ہوجاتا ہے بے دھڑک اس کا دعوے کر بیٹھتے ہیں‘‘۔ (۲۸)
معجزئہ معراج خواب میں ہوتا تو لوگ انکار کیوں کرتے:
ایہء شریفہ ’’وما جعلنا الرویا التی اریناک‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اور معراج کی خبر خود خدائے تعالیٰ دیتا ہے اس میں اقسام کے احتمالات پیدا کرکے تاویلیں کی جاتی ہیں کہ جسم کثیف اس مدت قلیل میں اتنی مسافت کیونکر طے کرسکتا ہے اس لئے برائے نام اس پر ایمان لانے کی یہ تدبیر نکالی گئی کہ وہ ایک کشفی واقعہ ہے اب اگر کوئی ایماندار جس کو خدا کی قدرت پر پورا ایمان ہو اور یقین سمجھتا ہو کہ حق تعالیٰ صرف کُن سے جو چاہتا ہے کرسکتا ہے یہ اعتقاد رکھے کہ وہ قادر مطلق جو بعض اجسامِ کثیفہ کو ایک منٹ میں ایک کروڑ بیس لاکھ میل چلاتا ہے اپنے حبیب ﷺ جن کا جسم مبارک ہماری جان سے بھی زیادہ تر لطیف تھا ان کو تھوڑے عرصہ میں آسمانوں کی سیر کرالائے تو کونسی بڑی بات ہوگئی کیا ان مسلمانوں کے نزدیک خدا کی اور اپنے نبی کریم ﷺ کی بات کی اتنی بھی وقعت نہ ہونا چاہئیے جو اہل یورپ کی بات آجکل ہورہی ہے مقتضائے ایمان تو یہ تھا کہ اگر کوئی ضعیف حدیث بھی اس باب میں وارد ہوتی تو اس خیال سے مان لی جاتی کہ آخر حدیث تو ہے کسی کی بنائی ہوئی بات نہیں چہ جائیکہ قرآن کی آیتوں اور صحیح صحیح حدیثوں سے ثابت ہے مگر ہر کسی کویہ گراں بہا دولت ایمانی کہاں نصیب ہوسکتی ہے ہزارہا معجزات دیکھنے پر بھی تو اشقیا اس دولت سے محروم ہی رہے، در اصل خود حق تعالیٰ کو منظور نہیں کہ یہ دولت عام اور بے قدر ہوجائے اسی وجہ سے خود کتابِ ہدایت یعنی قرآن شریف کی خاصیت ’’یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیرا‘‘ رکھی گئی اور معراج شریف کی نسبت بھی اسی قسم کا ارشاد ہے قولہ تعالی ’’وما جعلنا الرؤیا التی اریناک الا فتنۃ للناس‘‘ یعنی جو تمکو شب معراج ہم نے دکھلایا اس سے لوگوں کی آزمائش مقصود ہے احادیث وآثار سے ثابت ہے کہ یہ آیت معراج ہی کے باب میں نازل ہوئی، یہ بات ظاہر ہے کہ ہر کسی کا کام نہیں کہ خدائے تعالیٰ کے امتحان میں پورا اترے، اس موقع میں تو ایمانداروں کا ایمان ہی سلامت رہ جائے تو غنیمت ہے کافروں کے ایمان کی کیا توقع چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ باوجود یکہ حضرت نے بیت المقدس کی پوری نشانیاں بتلادیں اور کفار اس کا انکار بھی نہ کرسکے گا مگر ایمان کسی نے نہ لایا اور صحابہ جو ہمیشہ معجزات دیکھتے تھے باوجود اس فیضان معنوی کے وہ بھی متزلزل ہوگئے اور بعض تو نعوذ باﷲمرتد ہی ہوگئے اور اسی واقعہ کی عمدہ طور پر تصدیق کرنے کی بدولت ابو بکر رضی اﷲ عنہ ٗصدیق کہلاے ان مضامین کی تصدیق روایات ذیل سے ہوتی ہے‘‘۔ (۲۹)
واخرج احمد وابو یعلی وابن مردویہ وابو نعیم عن ابن عباسؓ قال اسر بالنبی ﷺ الی بیت المقدس فی لیلۃ فحدثہم بمسیرۃ وبعلامۃ بیت المقدس وبعیرہم فقال ناس لا تصدق محمدا (ﷺ) بما یقول فارتدوا کفارا فضرب اﷲاعناقہم مع ابی جہل۔کذا فی الدر المنثور
یعنی حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت بیت المقدس جا کر اسی شب واپس تشریف لائے اور واقعہ جانے کا اور علامت بیت المقدس کی اور کفار کے قافلہ کا حال بیان فرمایا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ ہم محمدﷺ کی تصدیق ان امور میں نہیں کرسکتے چنانچہ وہ مرتد ہوگئے اور آخر ابو جہل کے ساتھ ان کی گردنیں ماری گئیں انتہی، ان روایات سے ظاہر ہیکہ یہ واقعہ ظاہرا خلاف عقل ہونے کی وجہ سے وہ لوگ ان کی تصدیق نہ کرسکے جس سے ان کا ایمان سلب کر لیا گیا، یہاں غور کیا جائے کہ کیا خواب میں بیت المقدس کو جانا اس قدر خلاف عقل تھا کہ اس کے سننے سے مسلمانوں کا ایمان جاتا رہے عقل سلیم اس کو ہر گز قبول نہیں کرسکتی، یہ واقعہ خلاف عقل اسی وقت ہوسکتا ہے کہ عالم بیداری میں ہو ا ہو جس کی تصدیق حضرت ابو بکرؓ کرکے مستحق لقب صدیق ہوئے۔
ابو یعلی‘ عساکر در منثور کی روایت جس میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی معجزئہ معراج کی تصدیق کا ذکر ہے، نقل کرکے فرماتے ہیں :
’’اس سے ظاہر ہے کہ معراج جسمانی کی تصدیق کی وجہ سے حق تعالیٰ نے حضرت ابو بکرؓ کو لقب صدیق عطا فرمایا گیا اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو کفار کو بھی اس میں کلام نہ ہوتا کیونکہ خواب میں اکثر دور دور کے شہروں کی سیر کیا ہی کرتے ہیں۔
الحاصل اسلام میں معراج کا واقعہ گویا محک (کسوٹی) امتحان ہے جس نے اس کا انکار کیا اسکی شقاوت ازلی کا حال کھل گیا اس سے بڑھکر اور کیا شقاوت ہوگی کہ سب جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی بیت المقدس کو نہیں دیکھا تھا باوحود اس کے جو جو نشانیاں پوچھتے گئے سب بتلادیں اور راستے کے قافلہ کا حال پوچھا وہ بھی بیان کردیا جس کی تصدیق بھی ہوگئی پھر بھی تصدیق نہ کی اور مثل دوسرے معجزات کے اس کو بھی سحر ہی قرار دیا۔
اب یہاں یہ امر غور ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ نیند کی حالت میں ہوا تھا کیا وہ اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کے مرزا صاحب قائل ہیں ان کو کتنے واقعات کا انکار کرنا پڑتا ہے یہ بات تو ظاہر ہے کہ خواب کیسا ہی عجیب وغریب ہو اس کے بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا اور نہ سننے والا اس کا انکار کرتا ہے حالانکہ احادیث سے ثابت ہے کہ اس واقعے کا بیان کرنا بخوف تکذیب قرین مصلحت نہیں سمجھا گیا تھا‘‘۔ (۳۰)
ابن ابی شیبہ‘ احمد‘ نسائی‘ بزاز‘ طبرانی‘ ابن مردویہ‘ ابو نعیم‘ ابن عساکرسے معراج شریف کے تفصیلی واقعہ اور اعلان کے بعد قوم کے احوال کا ذکر جس حدیث شریف میں ہے اسکو نقل کرکے فرماتے ہیں:
یہاں چند امور قابل یاد رکھنے کے ہیں:
(۱)حدیث صحاح اور مسند امام احمد اور مختارہ میں ہے اور بحسبِ تصریح محدثین ثابت ہے کہ ان کتابوں کی صحت میں کوئی کلام نہیں۔
(۲)حضرتﷺ کا یقین کرنا کہ اس واقعہ کی تکذیب کرینگے دلیل ہے اس بات پر کہ یہ واقعہ خواب کا نہیں کیونکہ خواب میں اکثر عجیب وغریب خلاف عقل واقعات دیکھے جاتے ہیں مگر کسی کو یہ فکر نہیں ہوتی ہے کہ لوگ سن کر اس کی تکذیب کرینگے۔
(۳)حضرت ﷺ بجائے اس کے کہ اس واقعہ معراج شریف سے شاداں وفرحاں رہتے بیان کرنے کے پہلے نہایت غمگین رہے اس وجہ سے کہ کفار اس خلاف عقل واقعہ کی ضرور تکذیب کرینگے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے جب یہی خیال تھا تو بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی اور اگر ضرور بھی تھا تو صرف راسخ الاعتقاد چند مسلمانوں سے بطور راز کہا جاتا بخلاف اس کے ام ہانی ؓ نے کفار کے روبرو بیان کرنے سے بہت روکا اور خود حضرتﷺ کو بھی کمال درجہ کی فکر دامنگیر تھی یہیں تک کہ حزین وغمگین بہت دیر بیٹھے رہے مگر آخر بیان کرنا پڑا ان امور میں غور کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ﷺ اس واقعہ کے بیان کرنے پر من جانب اﷲمامور اور مکلف تھے، اگرچہ اصل مقصود عجائب قدرت حضرت ﷺ کو دکھلانا تھا مگر اس کے بعد اس مسئلہ کی حیثیت ہی کچھ دوسری ہوگئی اور ایک دینی مسئلہ ٹھیر گیا پہلے حضرت ﷺ مامور ہوئے کہ کفار اور مسلمانوں میں اس کا اعلان کردیں پھر قرآن شریف میں اس کا ذکر فرما کر قیامت تک کے آنے والوں کو اس کی اطلاع دی گئی اور منجملہ ان مسائل کے ٹھیرایا گیا جن پر ایمان لانا ضروری ہے گو خلاف عقل ہوں جیسے مسائل بعث ونشر ومقدورات الہی وغیرہ چنانچہ ارشاد ہے قولہ تعالیٰ ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا ‘‘ الایہ، یعنی وہ خدا پاک ہے جو اپنے بندہ محمد مصطفی ﷺ کو راتوں رات مسجد حرام یعنی خانہء کعبہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس لے گیا جس کے گرد اگرد ہم نے برکتیں دیں اور اس لے جانے سے مقصود یہ تھا کہ ہم ان کو اپنی قدرت کے چند نمونہ معائنہ کرائیں انتہی۔
اور اس واقعہ کے بعض اغراض اس طرح بیان کئے قولہ تعالی ’’وما جعلنا الرؤ یا التی اریناک الا فتنۃ للناس‘‘ یعنی یہ جو تم کو دکھا یا گیا اے محمدﷺ اس واسطے تھا کہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے، چنانچہ آزمایئش اور فتنے کا حال بھی ابھی معلوم ہو گیا کہ بعض مسلمان کافر ومرتد ہوگئے اور کافروں کا کفر وانکار اور بڑھ گیا۔
(۴)کفار نے جب پوچھا کہ کیا آپ رات بیت المقدس کو جاکر صبح ہم میں موجود ہوگئے تو آپ نے اس کی تصدیق کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ جسم کے ساتھ حالت بیداری میں تشریف لے گئے تھے ورنہ جواب میں فرماتے کہ یہ واقعہ خواب کا تھا میں جسم کے ساتھ یہاں سے گیا ہی کب تھا جو پوچھا جاتا ہے کہ ثم اصبحت بین ظہرانینا یعنی صبح یہاں موجود ہو گئے۔
(۵)ایسے موقع میں تالیاں بجانا اپنی کامیابی اور خصم کی ذلت کی علامت ہے اور کامیابی اپنی وہ اسی میں سمجھتے تھے کہ جھوٹ ثابت کریں اور ظاہر ہے کہ خلاف عقل خواب سننے سے یہ جوش طبائع میں ہرگز نہیں پیدا ہوتا اس میں تو توہین مقصود ہو تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اضغاث احلام یعنی پریشان خواب ہیں جو قابل اعتبار نہیں ہوسکتے حالانکہ کسی روایت سے یہ ثابت نہ کیا جائیگا کہ کسی مخالف نے اس واقعہ کو سنکر پریشان خواب کہا ہو۔
(۶)مقامی علامتیں بطور امتحان دریافت کرنا خواب کے واقعہ میں نہیں ہوا کرتا اسلئے کہ خواب کے بیان کرنے والے کو یہ دعوی ہی نہیں ہوتا کہ جو دیکھا ہے وہ واقع کے مطابق ہے اسی وجہ سے اس میں تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے اگر یہ واقعہ خوب میں دیکھا گیا ہے تو نہ ان کو علامت پوچھنے کا موقع ملتا نہ حضرت کو جواب دینے کی ضرورت ہوتی اور نہ فکر وکرب طبع غیور کو لاحق ہوتی۔
(۷)امتحان کے وقت نقشہ مسجد کا پیش نظر ہونے سے ظاہر ہے کہ کشف اس موقع میں ہوا تھا جس کی تصریح فرمادی اگر پورا واقعہ کشفی ہوتا تو اسی طرح صراحۃً فرما دیتے کہ رات بیت المقدس وغیرہ میرے پیش نظر ہوگئے تھے۔
الحاصل حدیثِ موصوف میں غور کرنے سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ یہ واقعہ حالت بیداری میں ہوا ہے۔
کفار نے جب حضرتﷺ سے یہ واقعہ سنا تو ان کو یقین ہوگیا کہ یہ خبر ایسی کھلی جھوٹ ہے کہ جو سنے گا عقل میں نہ آنے کی وجہ سے اس کی تکذیب کردیگا اس لئے انہوں نے پہلے یہ خیال کیا کہ حضرت صدیق اکبرؓ کو فتنے میںڈالیں جب نعوذ باﷲوہ حضرت سے پھر جائیں گے تو پھر کوئی حضرت کی رفاقت نہ دیگا اس لئے فورا وہ صدیق اکبرؓ کے مکان پر پہنچے اور کہا کہ لیجئے آپ کے رفیق اب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج رات بیت المقدس جاکر آگئے کیا اس کی بھی تصدیق کی جائیگی مگر وہاں شان صدیقی جلوہ گرتھی ایسے باد ہوائی شبہات سے کب جنبش ہوسکتی تھی آپ نے فرمایا کہ اس کی بھی تصدیق میں کوئی تامل نہیں بشرطیکہ حضرت نے فرمایا۔ (۳۱)
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،انوار احمدی ص ۱۸، مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،انوار احمدی ص ۱۷۵،۱۷۶
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۳) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،انوار احمدی، ص۲۱۷؍۲۲۱
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۴) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،انوار احمدی، ص۲۲۲؍۲۲۳
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۵) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،انوار احمدی، ص۲۳۳
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۶) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،انوار احمدی،ص۲۶۴؍۲۶۵
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۷) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،انوار احمدی، ص۱۹۷؍تا ۲۰۵
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۸) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصدالاسلام، حصہ ۱۱، ص ۴۷
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۹)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام حصہ۱۱، ص ۵۶؍۵۷
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۰) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام حصہ ۴، ص ۸۰؍۸۱؍۸۲
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۱)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام، حصہ۴، ص۷۹
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۲)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام حصہ ۴، ص ۸۴؍۸۵
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۳) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام، حصہ۶، ص۲۸
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۴) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام حص ۶،ص۳۳
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۵) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام حصہ ہشتم صفحہ ۵
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۶) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام، حصہ۸، ص۷
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۷)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام، حصہ۸، ص۸؍۹
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۸)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام حصہ۸، ص۹؍۱۰
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۱۹)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصدالاسلام حصہ۸، ص۴۸
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۰)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام حصہ۸، ص۱۴۱؍۱۴۵
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۱) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ، مقاصد الاسلام، حصہ۸، ص۱۷۰؍۱۷۵
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۲)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام، حصہ۱۰، ص۱۳؍۱۴؍۱۵
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۳) امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام، حصہ۱۰، ص۹۱تا۹۴
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۴)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،مقاصد الاسلام، حصہ۱۰، ص۱۵۲؍۱۵۴
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۵)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،حقیقۃ الفقہ، حصہ اول صفحہ ۱۶۱،۱۶۲
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۶)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،حقیقۃ الفقہ، حصہ اول صفحہ ۱۸۲،۱۸۳
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۷)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،افادۃ الافہام، جلد دو صفحہ ۶،۷،۸،۹
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۸)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،افادۃ الافہام، حصہ۲، ص۵۱، مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۲۹)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،افادۃ الافہام، حصہ۲، ص۱۹۶؍۱۹۷
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۳۰)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،افادۃ الافہام حصہ۲،ص۲۰۰ ؍۲۰۱
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
(۳۱)امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ،افادۃ الافہام حصہ دوم، ص۲۰۴تا۲۰۷
مجلس اشاعت العلوم ، شبلی گنج۔ حیدرآباد
٭٭٭