اسلام
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو اپنے انجام کی خبر ہونے کی صورتیں اور ان کی پہچان
الف: قرآن شریف میں جہاں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کہلوایا گیا ہے کہ مجھے خبر نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ۔ وہاں اٹکل، حساب، قیاس، اندازے سے جاننا مراد ہے۔ یعنی میں اندازے یا قیاس سے یہ نہیں جانتا ۔
ب: اور جہاں ا سکے خلاف ہے وہا ں وحی ، الہام کے ذریعہ سے علم دینا مراد ہے ۔
” الف ”کی مثال یہ ہے :
(1) وَمَاۤ اَدْرِیۡ مَا یُفْعَلُ بِیۡ وَلَا بِکُمْ ؕ
اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیاجاوے گا اور تمہارے ساتھ کیا ۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے معاملات نجوم ، رمل ، قیاس ، حساب، اٹکل سے معلوم نہیں ہوسکتے میں باوجود یکہ پیغمبرہوں اور پیغمبر کی عقل تما م دنیا سے بڑھ
چڑھ کر ہوتی ہے لیکن میری کامل عقل ان باتوں کے جاننے کے لئے کافی نہیں میں بھی عقل سے یہ چیزیں نہیں جانتا تو تم کیسے جان سکتے ہو ۔ مجھے یہ علم وحی کے ذریعہ ہوا اور تم صاحب وحی نہیں ہو تو ایسی باتوں میں عقل پر زور نہ دیا کرو ، اس کی تفسیر اسی آیت کے آخر میں یوں ہو رہی ہے۔
اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ وَمَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۹﴾ (پ26،الاحقاف:9)
میں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو میری طر ف وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈرسنانے والا۔
معلوم ہو اکہ آخرت کی پکڑ اور نجات وغیرہ وحی سے معلوم ہوتے ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر آتی ہے اس لئے اس آیت میں درایت کی نفی کی گئی۔ درایت کے معنی ہیں عقل سے جاننا، خدا تعالیٰ کے علم کو درایت نہیں کہتے کیونکہ وہ عقل سے پاک ہے ، اس کا علم عقلی نہیں حضور ی ہے ۔اس کی مثال یہ آیت ہے:
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیۡنَا اِلَیۡکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدْرِیۡ مَا الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیۡمَانُ
اوریونہی ہم نے تمہیں وحی بھیجی ایک جاں فزا چیز اپنے حکم سے اس سے پہلے نہ تم کتا ب جانتے تھے نہ ایمان تفصیل دار۔(پ25،الشورٰی:52)
اس آیت کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن اور ایمان کو عقل ، قیاس، انداز ے سے معلوم نہ فرمایا ۔ بلکہ اس کا ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ یہاں بھی داریت کی نفی ہے نہ کہ مطلق علم کی ورنہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ظہور نبوت سے پہلے عبادات کرتے تھے ایمان سے خبردار تھے ۔ عیسی علیہ السلام کا ماں کی گودمیں توحید ، رسالت ، احکام سے واقف ہونا قرآن شریف سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی پیدائش سے چند گھنٹے بعد قوم سے فرمایا۔
قَالَ اِنِّیۡ عَبْدُ اللہِ ؕ۟ اٰتٰىنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾
فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب دی اور نبی فرمایا۔(پ16،مریم:30)
جب کلمۃ اللہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ بچپن میں رب سے بے خبر نہیں تو جو حبیب اللہ ہو ں وہ کیسے بے خبر ہوں گے ۔لہٰذا اس آیت کے معنی وہ ہی ہیں جوعرض کئے گئے یعنی قیاس سے معلوم کرنا ۔
” ب ”کی مثال اس آیت میں ہے :
(1) لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ
تاکہ بخش دے اللہ تمہارے طفیل تمہارے وہ گناہ جو اگلے ہیں اور پچھلے ہیں۔(پ26،الفتح:2)
یہاں تمہارے گناہ سے مرا دامت کے وہ گناہ ہیں جن کا بخشوانا حضور کے ذمہ کرم پر ہے جیسے وکیل کہتا ہے میرا مقدمہ فتح ہوگیا یعنی وہ مقدمہ جس کی پیروی میرے ذمہ ہے نہ یہ مطلب کہ میں اس میں گرفتار ہوں کیونکہ نبی گناہ سے معصوم ہیں۔
(1) اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرَ ؕ﴿۱﴾
ہم نے تم کو کوثر دے دیا۔(پ30،الکوثر:1)
(۲) وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ؕ﴿۴﴾
ہم نے تمہارا ذکر اونچا کردیا ۔(پ۳۰،الانشراح:۴)
ان جیسی بہت سی آیا ت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے انجام سے باخبر کئے گئے ہیں مگر یہ علم وحی کا ہے نہ کہ محض عقلی ، لہٰذا آیات میں تعارض نہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تو اپنی امت کے انجام کی بھی خبر رکھتے ہیں قرآن میں حضور کو شاہد فرمایا اور گواہ وہی ہوتا ہے جو واقعہ سے خبردار ہو ۔ اسی لئے فرمایا :حسن حسین
جوانا ن جنت کے سردار ہیں ،ابو بکر جنتی ہیں، فاطمۃ الزہرا جنتی ہیں۔
(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب اھل بیت النبی،الحدیث۶۱۷۱، المجلد الثانی، ص۴۴۱ والحدیث۶۰۳۳، ص۴۱۷،دار الکتب العلمیۃبیروت)