اسلام

مردوں کو پکارنا قرآں سے ثابت ہے

اعتراض: ممانعت کی آیتو ں میں مردو ں کو پکارنا مراد ہے یعنی مرے ہوئے کو پکارنا یہ سمجھ کر کہ وہ سن رہاہے شرک ہے ۔    (جواہر القرآن)
جواب : یہ بھی غلط ہے چند وجہ سے ایک یہ کہ یہ قید تمہارے گھر کی ہے قرآن میں نہیں آئی۔ رب تعالیٰ نے مردہ ، زندہ ، غائب ، حاضر ، دور نزدیک کی قید لگا کر ممانعت نہ فرمائی ۔ لہٰذا یہ قید باطل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ تفسیر خود قرآن کی تفسیر کے خلاف ہے ۔ اس نے فرمایا کہ دعا سے مراد عبادت ہے ۔ تیسرے یہ کہ اگر مردو ں کو پکارنا شرک ہو تو ہرنمازی نمازمیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو پکارتا ہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ اے نبی!علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو،حالانکہ حضور وفات پاچکے ہیں ہم کو حکم ہے کہ قبر ستان جا کر یوں سلام کریں : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اے مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلام ہو۔
    ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کی ہوئی چڑیوں کو پکارا اور انہوں نے سن لیا ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا :
ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا
پھر ان مرے ہوئے پرندوں کو پکار و وہ دوڑتے ہوئے تم تک آجائیں گے ۔(پ3،البقرۃ:260)
    حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو ان کی ہلاکت کے بعد پکارا ، صالح علیہ السلام کا قصہ سورہئ اعراف میں اس طر ح بیان ہوا :
فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمْ جٰثِمِیۡنَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنۡ لَّاتُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾
تو انہیں زلزلے نے پکڑلیا تو وہ اپنے گھرو ں میں اوندھے پڑے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔ (پ8،الاعراف:78۔79)
شعیب علیہ السلام کا واقعہ اسی سورہ اعراف میں کچھ آگے یوں بیان فرمایا :
فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾
شعیب نے ہلاکت کفار کے بعد ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم ! میں نے تجھے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کی تو میں کا فر قوم پر کیسے غم کرو ں ؟ (پ9،الاعراف:93)
    ان دونوں آیتو ں میں فَتَوَلّٰی کی ف سے معلوم ہوا کہ ان دونوں پیغمبر وں علیہما الصلوۃ والسلام کا یہ خطاب قوم کی ہلاکت کے بعد تھا ۔ خود ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بد ر کے دن مرے ہوئے ابوجہل، ابولہب،امیہ ابن خلف وغیرہ کفار سے پکار کر فرمایا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عرض کرنے پر فرمایا کہ تم ان مردوں سے زیادہ نہیں سنتے ۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر، الحدیث۱۳۷۰،ج۱،ص۴۶۲،دار الکتب العلمیۃ)
    کہیے ! اگر قرآن کے فتوے سے مردوں کو پکارنا شرک ہے تو ان انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اس پکارنے کا کیا جواب دوگے ۔ غرضیکہ یہ اعتراض محض باطل ہے ۔
اعتراض : کسی کو دور سے حاجت روائی کے لئے پکارنا شرک ہے اور ممانعت کی آیتو ں میں یہی مراد ہے لہٰذا اگر کسی نبی ولی کو دور سے یہ سمجھ کر پکارا گیا کہ وہ ہمارے حاجت روا ہیں تو شرک ہوگیا ۔    ( جواہر القرآن)
جواب : یہ اعتراض بھی غلط ہے ۔ اولًا تو اس لئے کہ قرآن کی ممانعت والی آیتو ں میں یہ قید نہیں تم نے اپنے گھر سے لگائی ہے ۔لہٰذا معتبر نہیں ۔ دو سرے اس لئے کہ یہ تفسیر خود قرآن کی اپنی تفسیر کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے بیان کر دیا ۔ تیسرے اس لئے کہ ہم نے بتادیا کہ اللہ کے بندے دور سے سنتے ہیں خواہ نورنبوت سے یا نور ولایت سے۔ دوسرے باب میں ہم عرض کریں گے کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ کے بندے حاجت روا ، مشکل کشا بھی ہیں ۔ جب یہ دونوں باتیں علیحد ہ علیحد ہ صحیح ہیں تو ان کا مجموعہ شرک کیونکر ہوسکتا ہے ۔قرآن فرمارہا ہے کہ اللہ کے بندے وفات کے بعد سن بھی لیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں جوخاص خاص کو محسوس ہوتا ہے ۔ رب فرماتا ہے :
وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾
اے حبیب ان رسولوں سے پوچھوجو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے خدا کے سوا ایسے معبود بنائے ہیں جن کی عبادت کی جاوے ۔(پ25،الزخرف:45)
    غور کر و کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں انبیاء سابقین علیہم الصلوۃ والسلام وفات پاچکے تھے۔ مگر رب تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اے محبوب ! ان وفات یافتہ رسولوں سے پوچھ لوکہ کیا کوئی خدا کے سوا اور معبود ہے اور پوچھا اس سے جاتا ہے جو سن بھی لے اور جواب بھی دے ۔پتا لگا کہ اللہ کے بندے بعد وفات سنتے اور بولتے ہیں معراج کی رات سارے وفات یافتہ رسولوں نے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی ۔ حجۃ  الوداع کے موقعہ پر وفات یافتہ رسولوں نے حج میں شرکت کی اور حج ادا کیا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں ۔
    خلاصہ یہ ہے کہ دعا قرآن کریم میں بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے ہر جگہ اس کے وہ معنی کرنا چاہئیں جو وہاں کے مناسب ہیں ۔ جن وہابیوں نے ہرجگہ اس کے معنی پکارنا کئے ہیں وہ ایسے فحش غلط ہیں جس سے قرآنی مقصد فو ت ہی نہیں بلکہ بدل جاتا ہے۔ اسی لئے وہابیوں کو اس پکارنے میں بہت سی قیدیں لگانی پڑتی ہیں کبھی کہتے ہیں غائب کو پکارنا ،کبھی کہتے ہیں مردہ کو پکارنا،کبھی کہتے ہیں دور سے سنانے کیلئے پکارنا، کبھی کہتے ہیں مافوق الاسباب سنانے کے لئے دور سے پکارنا شرک ہے مگر پھر بھی نہیں مانتے پھر تعجب ہے کہ جب کسی کو پکارنا عبادت ہوا تو عبادت کسی کی بھی کی جائے شرک ہے ، زندہ کی یا مردہ کی ، قریب کی یادور کی پھر یہ قیدیں بے کار ہیں ۔ غرضکہ یہ معنی نہایت ہی غلط ہیں ۔ ان جگہوں میں دعا سے مراد پوجنا ہے ۔ اس معنی پر نہ کسی قید کی ضرورت ہے نہ کوئی دشواری پیش آسکتی ہے ۔
نوٹ ضروری: اللہ کے پیارے وفات کے بعد زندوں کی مدد کرتے ہیں۔
قرآن شریف سے ثابت ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ
یاد کرو جب اللہ نے پیغمبر وں سے عہد لیا کہ جو میں تمہیں کتا ب وحکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ۔ (پ3،اٰل عمرٰن:81)
    اس آیت سے پتا لگاکہ میثاق کے دن رب تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے دو وعدے لئے ۔ ایک حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ، دوسرے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنا ۔ اور رب تعالیٰ جانتا تھا کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کسی کی زندگی میں نہ تشریف لائینگے پھر بھی انہیں ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا معلوم ہوا کہ روحانی ایمان اور روحانی مدد مراد ہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے دونوں وعدوں کو پورا کیا کہ معراج کی رات سب نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے نماز پڑھی یہ ایمان کاثبوت ہے ۔ بہت سے پیغمبر وں نے حج الوداع میں شرکت کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شب معراج دین مصطفی کی اس طر ح مدد کی کہ پچا س نمازوں کی پانچ کرادیں ۔ اب بھی وہ حضرات انبیائعلیہم الصلوۃ والسلام مسلمانوں کی اور حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی روحانی مدد فرمارہے ہیں اگر یہ مدد نہ ہوا کرتی تو یہ عہد لغو ہوتا عیسی علیہ السلام آخر زمانہ میں اس عہد کو ظاہر طور پر بھی پورا فرمانے کے لئے تشریف لائیں گے ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!